Tag: صحافیوں کو ہراساں

  • عدالت  نے وفاقی حکومت کو صحافیوں کو ہراساں اور گرفتار کرنے سے روک دیا

    عدالت نے وفاقی حکومت کو صحافیوں کو ہراساں اور گرفتار کرنے سے روک دیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو صحافیوں کو ہراساں اور گرفتار کرنے سے روکتے ہوئے سیکرٹری اطلاعات کو 30 ستمبر تک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ایف یو جے کی صحافیوں کے مسائل اور دیگر مقدمات کے کیس کی سماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی، پی ایف یو جے کے وکیل شاہ خاور ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دو گل پیش ہوئے۔

    سیکریٹری اطلاعات ہائیکورٹ کے روبرو پیش ہوئے، وکیل پی ایف یو جے نے بتایا کہ انفارمیشن منسٹری نے رسپانس دیا مگروزارت داخلہ سےرسپانس نہیں ملا۔

    چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا اس حکومت کے آنے سے پہلے صحافیوں کا ایک سیٹ ٹارگٹ تھا، حکومت آنے کے بعد صحافیوں کا دوسرا سیٹ ٹارگٹ ہوگیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا صحافیوں کےلئے ہر وقت خوف اور دہشت کا ماحول کیوں ہے ؟ گزشتہ چند سالوں سے لگتا ہے سب سے بڑا جرم بولنا ہے ؟ کوئی غلط بات کرے تو آپ پکڑیں مگرپورا چینل بند کرنادرست نہیں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید کہا کہ یہ اچھا ہے کہ چینل بحال ہوگیا، مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے اٹھایا گیا ریکارڈ پر ہے، ریاست مطیع اللہ جان کیس کی انکوائری میں بھی ناکام رہی۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ صحافیوں کو بھی خود احتسابی کی ضرورت ہے، آپ بھی 2دھڑوں میں تقسیم ہیں صحافت توکہیں درمیان میں رہ گئی، اس عدالت کےسامنےکوئی درخواست نہ آئے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ صحافیوں کی پکڑ دھکڑ سے کچھ نہیں ہو گا، درست سپیچ ہو یا غلط،اب اس کو بند نہیں کیا جا سکتا، یو این سے ایسا خط آنا ہمارے لئے باعثِ شرمندگی ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اقدام سے بتائیں یہاں ایک حکومت ہے جو آزادی اظہار کویقینی بناتی ہے اور ہدایت کی یقینی بنائیں آزادی اظہار پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے عدالت سمجھنے سےقاصر ہے کہ صحافیوں کیلئے خوف کا ماحول کیوں ہے، پکڑ دھکڑ اور تھانیداری سے کچھ نہیں ہو سکتا، آج کے زمانے میں زبان بندی نہیں کی جا سکتی، حکومتیں آزاری اظہار سے کیوں گھبراتی ہیں؟ اس سے تو احتساب ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی حکومت کو صحافیوں کو ہراساں اور گرفتار کرنے سے روک دیا اور سیکرٹری اطلاعات کو 30 ستمبر تک رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    دوران سماعت صدراسلام آبادہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے کہا ہم قانون کی عملداری پریقین رکھتے ہیں ، صحافیوں کے ٹویٹ پر اعتراض کیا جارہا ہے۔

    جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا پنجاب میں بھی کسی صحافی کےخلاف کوئی مقدمہ درج ہوا ہے؟ افضل بٹ نے کہا صحافی وقار ستی کے خلاف پنجاب میں توہین مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا ہے،یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کسی صحافی کے خلاف توہین مذہب کامقدمہ درج ہوا ہو۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ عدالت اس معاملے پر کوئی کمیشن بھی بنا سکتی تھی، عدالت کو وزیراعظم ،وفاقی حکومت پر اعتماد ہے کہ وہ خوف کو ختم کریں گے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جب سے پاکستان بنا یہی حربے ہیں لیکن کبھی کارگر ثابت نہیں ہوئے، حکومتوں کو تو آزادی اظہارکی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔

    وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اے آر وائی نیوزکے صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمے بنائےجارہے ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا چلیں مقدمے تو بنے نا، مطیع اللہ جان کی طرح اٹھایا تو نہیں گیا، ابصار عالم کو گولی لگی تھی، یو این کے خط میں ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 3سال پہلے آپ اکٹھے ہوتے ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑایاہوتاتوآج یہ نہ ہوتا، یہ کبھی ہوا ہے کہ کسی صحافی کو گولی ماری جائے اور انکوائری بھی نہ ہو سکے؟

  • صدر مملکت کا شہباز شریف کو خط، صحافیوں کو ہراساں کیے جانے پر اظہار تشویش

    صدر مملکت کا شہباز شریف کو خط، صحافیوں کو ہراساں کیے جانے پر اظہار تشویش

    اسلام آباد: صدر مملکت عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے واقعات پر اظہار تشویش کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے وزیرا عظم شہباز شریف کو ایک خط لکھا ہے، جس میں انھوں نے ملک میں صحافیوں پر مقدمات بنائے جانے اور تشدد کے واقعات پر اظہار تشویش کیا۔

    انھوں نے خط میں لکھا کہ صحافیوں پر تشدد کے حالیہ واقعات عدم برداشت کی ذہنیت کے عکاس ہیں، اظہار رائے کی آزادی سب کو حاصل ہے، ایسے واقعات ملک میں خوف پھیلاتے ہیں، اور ملک کا تشخص بھی داغدار کرتے ہیں۔

    عارف علوی نے مزید لکھا کہ صحافیوں کو ایک کیس میں ریلیف ملتا ہے تو ہراساں کرنے کے لیے ان کے خلاف دوسرا کیس بنا دیا جاتا ہے۔

    صدر مملکت نے صورت حال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آزاد رائے رکھنے والے میڈیا پرسنز کے خلاف دہشت کا راج چھا گیا ہے۔

    سی پی این ای کا عمران ریاض کو فوری رہا کرنے کا مطالبہ

    انھوں نے لکھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاست دانوں کو صحافیوں کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

    واضح رہے کہ صحافی عمران ریاض کے خلاف کئی شہروں میں متعدد بے بنیاد مقدمات درج کیے جا چکے ہیں، انھیں ایک جگہ کی عدالت سے ریلیف ملتا ہے تو فوراً دوسرے شہر کی پولیس انھیں حراست میں لے لیتی ہے۔

  • صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق جسٹس فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس خارج

    صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق جسٹس فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس خارج

    اسلام آباد: صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق جسٹس فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس خارج کر دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق صحافیوں کو ہراساں کرنے کے خلاف جسٹس فائز عیسیٰ کے از خود نوٹس لینے کے معاملے میں سپریم کورٹ نے از خود نوٹس طریقہ کار کیس کا فیصلہ سنا دیا۔

    سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لیا گیا ازخود نوٹس واپس لے لیا، سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ کسی بینچ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں ہے، بینچ چیف جسٹس سے نوٹس لینے کی سفارش کر سکتا ہے۔

    سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ پریس ایسوسی ایشن کی درخواست چیف جسٹس کے سامنے رکھی جائے، سوموٹو کا اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کر سکتے ہیں، صحافیوں کی درخواست کا کیا کرنا ہے، اس کا فیصلہ چیف جسٹس کریں گے۔

    فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لینے کے اصول بھی وضع کر دیے، بینچز کی جانب سے تمام نوٹسز پر سماعت معمول کے مطابق ہوگی، بینچز کے نوٹسز پر سماعت چیف جسٹس کے تشکیل کردہ بینچ کریں گے۔

    سپریم کورٹ نے کہا کہ کوئی بینچ ازخود کسی کو طلب کر سکتا ہے نہ رپورٹ منگوا سکتا ہے، ازخود نوٹس کے اختیار کے لیے چیف جسٹس کی منظوری لازمی ہوگی۔