Tag: صحافی تنظیمیں

  • اے آر وائی نیوزکی بندش : صحافی تنظیمیں آج ملک بھر میں یومِ سیاہ منارہی ہیں

    اے آر وائی نیوزکی بندش : صحافی تنظیمیں آج ملک بھر میں یومِ سیاہ منارہی ہیں

    کراچی : اے آروائی نیوز کی بندش کے خلاف صحافی تنظیمیں آج ملک بھرمیں یوم سیاہ منارہی ہیں، صدرپی ایف یوجے نے کہا کہ مظاہرے اور پریس کلبوں پر سیاہ پرچم لہرائے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اےآروائی نیوز کی بندش اور صحافیوں کامعاشی قتل روکنے کے لیے صحافی تنظیمیں آج ملک بھرمیں یوم سیاہ منارہی ہیں۔

    صدر پی ایف یوجے افضل بٹ نے کہا ہے کہ آج ملک بھرمیں یوم سیاہ منایا جائے گا ، شہر شہر احتجاج ہوگا اور پریس کلبوں پرسیاہ پرچم لہرائے جائیں گے۔

    افضل بٹ کا کہنا تھا کہ اے آر وائی نیوز کو بحال نہ کیا گیا تو کراچی سے اگست کے آخر میں ورکرز یکجہتی مارچ کا آغاز ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ یکجہتی مارچ سندھ بلوچستان سےہوتا ہوا پنجاب میں داخل ہو گا، جس کے بعد مارچ اسلام آباد میں پیمرا دفتر کے سامنے دھرنے میں تبدیل کردیا جائے گا۔

    دوسری جانب آرآئی یوجے کی جانب سے راولپنڈی پریس کلب پرآج شام چار بجے سیاہ پرچم لہرایا جائے گا۔

    گذشتہ روز اے آر وائی نیوز کے پروگرام دی رپورٹرز میں صدر پی ایف یوجے افضل بٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے آر وائی نیوز کی بندش سےمعاشی قتل کی تلوارلٹک رہی ہے، آپ کوبتاناچاہتاہوں کہ اےآروائی نیوزاس وقت اکیلا نہیں ہے پورا پاکستان اور ایک ایک میڈیا ورکر اے آر وائی نیوز کے ساتھ کھڑا ہے۔

    افضل بٹ کا کہنا تھا کہ یہ احتجاجی تحریک کی ابتداہے، اےآروائی نیوزکی بندش پرمٹھائی بانٹےوالوں کومتنبہ کرنا چاہتا ہوں، سیٹھ لوگ چاہتے ہیں کہ اے آر وائی کا بزنس ہمیں مل جائے۔

    صدر پی ایف یوجے نے مزید کہا کہ جب 4ہزارلوگ فٹ پاتھ پرآئیں گےتوپوری انڈسٹری شیک ہوکررہ جائے گی ، حکومت اور اداروں سے کہتے ہیں آپ نے قانون کے مطابق نوٹس دیا، جب آپ نے نوٹس دیا تو چینل کو سنیں ، آپ نے چینل کو بند پہلے کر دیا، تفتیش بعد میں کررہےہیں۔

    انھوں نے تمام اسٹیک ہولڈر سے گزارش کی ملک ایسے حالات کا متحمل نہیں ، اگر ہم آواز بلند کریں گے تو اگلے مرحلے میں پاکستان کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔

  • یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    یومِ‌ وفات: نڈر، بے باک اور باضمیر، ضمیر نیازی صحافت کی آبرو تھے

    پاکستان کے نام وَر صحافی، مصنّف اور آزادیٔ صحافت کے علم بردار ضمیر نیازی 11 جون 2004ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ لکھنے والے پہلے صحافی تھے۔ انھوں نے نہ صرف پاکستانی صحافت کی تاریخ مرتّب کی بلکہ اس موضوع پر متعدد کتابیں بھی لکھیں جو اس شعبے میں راہ نما اور اہم سمجھی جاتی ہیں۔

    ضمیر نیازی کی مشہور کتابوں میں ’پریس ان چینز‘، ’پریس انڈر سیج‘ اور ’ویب آف سنسر شپ‘ شامل ہیں۔ جنرل ضیاءُ الحق کے دورِ حکومت میں ان کی کتاب ’پریس ان چینز‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور اس کے متعدد ایڈیشن اور تراجم شامل ہوئے۔ پی پی پی کے دور میں جب شام کے چند اخبارات پر پابندی لگی گئی تو انھوں نے احتجاجاً حکومت کی جانب سے دیا گیا تمغہ برائے حسنِ کارکردگی واپس کر دیا۔ انھیں جامعہ کراچی نے بھی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کا اعلان کیا تھا، مگر ضمیر نیازی نے اس کے لیے گورنر ہائوس جانے سے انکار کردیا تھا۔

    ضمیر نیازی 1932ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر ممبئی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام ابراہیم جان محمد درویش تھا۔ ضمیر نیازی نے صحافتی زندگی کا آغاز ممبئی کے ایک اخبار انقلاب سے کیا۔ بعد میں‌ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کر لی جہاں صحافتی سفر دوبارہ شروع کیا۔ ڈان اور بزنس ریکارڈر سے منسلک رہنے کے بعد عملی صحافت چھوڑ کر خود کو تحقیق اور تصنیف تک محدود کرلیا تھا۔

    ضمیر نیازی کی دیگر تصانیف میں باغبانِ صحرا، انگلیاں فگار اپنی اور حکایاتِ خونچکاں شامل ہیں۔ اس نڈر اور بے باک صحافی کو کراچی کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک کیا گیا۔