Tag: صحافی جمال خاشقجی

  • صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت پر سعودی وضاحت ناکافی ہیں، جرمن چانسلر مرکل

    صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت پر سعودی وضاحت ناکافی ہیں، جرمن چانسلر مرکل

    برلن: جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاشقجی کی ہلاکت کے بارے میں سعودی عرب نے جو وضاحتیں دی ہیں وہ ناکافی ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور وزیر خارجہ ہائیکو ماس کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم سخت ترین الفاظ میں اس عمل کی مذمت کرتے ہیں، جمال خاشقجی کی ہلاکت کی وجوہات کے بارے میں ہم سعودی عرب سے شفافیت کی توقع رکھتے ہیں، استنبول میں پیش آئے واقعے کے بارے میں دستیاب معلومات ناکافی ہیں۔

    جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے اہل خانہ اور دوستوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خاشقجی کے قتل کے ذمہ دار افراد کو لازمی طور پر انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا چاہئے۔

    واضح رہے کہ عالمی برادری کے شدید دباؤ کے بعد ترک اور سعودی مشترکہ تحقیقات کے بعد سعودی عرب نے تسلیم کرلیا کہ صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہی مارے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں: سعودی عرب نے صحافی جمال خاشقجی کی قونصلیٹ میں موت کی تصدیق کردی

    سعودی میڈیا نے ابتدائی چھان بین کے نتائج کے بعد تصدیق کی تھی کہ خاشقجی دراصل قونصل خانے میں ہونے والی ایک ہاتھا پائی میں ہلاک ہوئے، اس واقعے کے بعد سعودی حکومت نے 18 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا اور دو اہم اہلکاروں کو برطرف بھی کردیا۔

    خیال رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جانے کے بعد سے لاپتہ تھے، ترک حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ خاشقجی کو سعودی قونصل خانے میں ہی قتل کرکے ان کی لاش ٹھکانے لگادی گئی تھی۔

  • جمال خاشقجی گمشدگی، امریکا اور برطانیہ کا انوسٹمنٹ کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ

    جمال خاشقجی گمشدگی، امریکا اور برطانیہ کا انوسٹمنٹ کانفرنس کے بائیکاٹ کا فیصلہ

    واشنگٹن/لندن : امریکا اور برطانیہ نے سعودی صحافی کے مبینہ قتل میں ریاض کے ملوث ہونے کے شبے پر سعودیہ میں منعقد ہونے والی انوسٹمنٹ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ترکی کے دارالحکومت استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر برطانیہ اور امریکا نے سعودی عرب میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس کے بائیکاٹ کا سوچ رہے ہیں۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ استبول حکام کا خیال ہے کہ سعودی جاسوسوں نے صحافی کو سفارت خانے کے اندر قتل کردیا ہے، جبکہ ریاض حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل سے متعلق افواہیں ’جھوٹ‘ پر مبنی ہیں۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہوگیا کہ لاپتا سعودی صحافی جمال خاشقجی استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہلاک کیے گیے ہیں تو ریاض حکومت کو سخت سزا دی جائے گی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ انوسٹمنٹ کانفرنس کے متعدد اسپانسرز اور میڈیا گروپس نے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ جات جمال خاشقجی کی گمشدگی واقعے کا نتیجہ ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سفارت ذرائع کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان کی جانب سے ریفورم ایجنڈے کو پروموٹ کرنے کے لیے منعقدہ کانفرنس میں امریکی وزیر خزانہ اسٹیو میونچن اور برطانیہ کے عالمی ٹریڈ سیکریٹری لائم فوکس نے شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    خیال رہے کہ گذشہ روز امریکی صدر کے مطابق خاشقجی کا کیس اس لیے بھی اہم ہے کہ کیونکہ وہ ایک رپورٹر ہیں تاہم اس معاملے کی وجہ سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے معاہدوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، ہم لوگوں کی ملازمتوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے ہیں۔

    دوسری طرف ترک ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ جمال خاشقجی کو استنبول میں واقع سعودی قونصلیٹ میں ہی ہلاک کردیا گیا تھا، خاشقجی کا معاملہ ترکی اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں بھی کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔

    سعودی وزیر داخلہ عبدالعزیز بن سعود نے ریاست پر صحافی کے اغوا اور قتل کے الزامات بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جلد حقائق منظر عام پر آجائیں گے، جمال خاشقجی کے لاپتا اور قتل کی افواہیں سعودی عرب کے خلاف سازش ہے۔

    برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ سعودی حکومت اور ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے والے صحافی جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو استنبول میں سعودی سفارت خانے سے لاپتہ ہوئے تھے۔

    واضح رہے کہ ولی عہد محمد بن سلمان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد جمال خاشقجی خود ساختہ جلا وطنی ہوکر امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں وہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔