لاہور: پنجاب کے سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کے لیے استعمال ہونے والا صحت کارڈ بند کر دیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق حکومت پنجاب کی جانب سے تمام سرکاری اسپتالوں کو 30 جون سے قبل واجبات کلیئر کرنے کے لیے ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 30 جون کے بعد سرکاری اسپتالوں میں صحت کارڈ کی سہولت میسر نہیں ہوگی۔
مراسلے کے مطابق تیس جون کے بعد سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نئی پالیسی دیں گی۔
یاد رہے کہ صحت کارڈ پائلٹ پروجیکٹ کا آغاز 2014 میں میاں نواز شریف نے کیا تھا، دسمبر 2021 میں تحریک انصاف نے لاہور سمیت پنجاب میں صحت کارڈ کا باقاعدہ افتتاح کیا، صحت کارڈ سے غریب لوگوں کا علاج احسن طریقے سے ہو جاتا تھا۔
ہیڈ اسٹیٹ لائف صحت کارڈ ڈاکٹر نور الحق کا کہنا ہے کہ اب سرکاری اسپتالوں میں مفت ادویات کی فراہمی کو حکومت یقینی بنائے گی، اور تمام پرائیویٹ اسپتالوں میں صحت کارڈ کی سہولت میسر ہوگی۔
پشاور: خیبر پختونخوا حکومت کے مشیر صحت نے نئے صحت کارڈ ’’ٹرانسپلانٹ اینڈ امپلانٹ‘‘ کا افتتاح کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق حیات آباد انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز میں کڈنی ٹرانسپلانٹ کا آغاز کر دیا گیا، مفت سروس کے تحت آج 2 مریضوں کا گردوں کا ٹرانسپلانٹ بھی ہو گیا۔
مشیر صحت احتشام علی نے کڈنی ٹرانسپلانٹ کے مریضوں کی عیادت کی، کڈنی ٹرانسپلانٹ کے مریضوں نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا شکریہ ادا کیا، مشیر صحت کا کہنا تھا کہ آج سے ان بچوں کی اسپیچ تھراپی بھی شروع ہو جائے گی۔
صحت کارڈ ٹرانسپلانٹ و امپلانٹ اسیکم کے تحت کڈنی، لیور، بون میرو ٹرانسپلانٹ، اور کوکلئیر امپلانٹ کا خرچہ حکومت برداشت کرے گی، اگلے مرحلے میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کو اسکیم میں شامل کیا جائے گا۔
آج انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز، پشاور میں صحت کارڈ کے تحت دو مریضوں کے گردوں کی کامیاب پیوندکاری کی گئی، جن کی شناخت این گل اور جی ایم شاہ شامل بتائی گئی ہے۔
مشیر صحت نے کہا کہ یہ انقلابی سہولت خیبر پختونخوا کے تمام افراد کے لیے ہے، تاکہ کوئی بھی مہنگے علاج کی وجہ سے محروم نہ رہے، انھوں نے صحت کارڈ کو صرف علاج نہیں، بلکہ امید کی کرن قرار دیا۔
پشاور: اوورسیز پاکستانی مزدوروں کے لیے خیبر پختونخوا حکومت نے تاریخ ساز فیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت اوورسیز پاکستانی مزدوروں کے لیے صحت کارڈ کی سہولت کی فراہمی کا فیصلہ کیا ہے، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی ہدایت پر اوورسیز فاؤنڈیشن سے کے پی کے مزدوروں کا ڈیٹا طلب کیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک بیان میں کہا کہ صحت کارڈ کی سہولت کے سب سے زیادہ مستحق اوورسیز پاکستانی ہیں، اس سہولت کے تحت لیبر ویزے پر بیرون ملک مقیم پاکستانی علاج کروا کر میڈیکل رپورٹ محکمہ صحت کو بھیجیں گے۔
علی امین گنڈاپور کے مطابق میڈیکل رپورٹ کی تصدیق ہو جانے کے بعد اوورسیز پاکستانی مزدوروں کے اہل خانہ کو علاج کے اخراجات ادا کیے جائیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے کے پی میں جرمن تنظیم ’کے ایف ڈبلیو‘ کے تعاون سے صحت کارڈ پلس کے تحت مفت او پی ڈی کی سہولت کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے، جو اس حوالے سے پاکستان کا پہلا صوبہ بن گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں یہ اسکیم ضلع مردان میں شروع کی جا رہی ہے، جہاں 50 ہزار مستحق خاندان مستفید ہوں گے، اگلے مرحلے میں چترال، ملاکنڈ اور کوہاٹ میں بھی یہ سہولت فراہم کی جائے گی۔ او پی ڈی سروس کے تحت مریضوں کو مفت ادویات، میڈیکل ٹیسٹس اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
لاہور: وفاقی حکومت کے بڑے اسپتال میں صحت کارڈ بند کردیا گیا، کارڈ پر علاج کے مریضوں کو شیخ زید اسپتال مفت ادویات نہیں دے رہا۔
تفصیلات کے مطابق شیخ زید اسپتال کی انتظامیہ کی بڑی نااہلی کے باعث صحت کارڈ کمپنی نے اسپتال میں دفاتر بند کردیے، اسٹیٹ لاِئف انشورنس کمپنی نے شیخ زید اسپتال کے سربراہ کو آگاہ کردیا ہے۔
اسٹیٹ لائف انشورنش کمپنی کا کہنا ہے کہ کارڈ پر علاج کے مریضوں کو شیخ زید اسپتال مفت ادویات نہیں دے رہا، مریضوں کو ادویات نجی فارمیسز سے خریدنی پڑ رہی ہیں۔
کمپنی نے کہا کہ مریضوں کو طبی آلات بھی نجی فارمیسیز سے خریدنی پڑررہی ہے، صحت کارڈ کا مقصد ہی مریضوں کا مفت علاج ہے تاہم مریضوں کو جیب سے ادویات خریدنے کی وجہ سے صحت کارڈ بند سہولت بند کررہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اسپتال میں ادویات دستیاب نہ ہونے کے باوجود کارڈ کمپنی سے رقم وصول کی گئی، شیخ زید اسپتال نے سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی سے بلز کلیم کیے مگرا دوائی مریض نے باہر سے خریدی۔
انتظامیہ شیخ زید اسپتال کا کہنا ہے کہ فںڈز کی کمی کی وجہ سے اسپتال میں ادویات کی قلت ہے، اسپتال نے مختلف ٹھیکیداروں کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔
پنجاب ہیلتھ کمپنی نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اسپتال کے ساتھ مزید کام نہیں کریں گے، کارڈ پر مریضوں کا جیب سے خرچہ قابل قبول نہیں۔
پشاور: پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں صحت کارڈ کا غلط استعمال روکنے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعلیٰ کے پی علی امین خان گنڈاپور کی زیر صدارت صحت کارڈ سے متعلق اجلاس میں مریضوں کے علاج اور صحت کارڈ کے غلط استعمال کی روک تھام کے حوالے سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ شفافیت کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
بریفنگ کے مطابق صحت کارڈ کے تحت 12 مارچ سے 8 اپریل تک 52542 مریضوں کاعلاج کیا گیا، اور ان مریضوں کے علاج پر کل 1314 ملین روپے لاگت آئی۔
بتایا گیا کہ شہریوں کی سہولت کے لیے صحت کارڈ سے متعلق ایک موبائل ایپلیکیشن بھی تیار کر لی گئی ہے، جب کہ صحت کارڈ سے متعلق عوامی شکایات سننے کے لیے کھلی کچہری منعقد کی جاتی ہے، اور شہریوں کے فیڈ بیک کے لیے رینڈم کالز کا سلسلہ شروع ہے، نادرا کے ذریعے ہونے والی فیڈ بیک کالز کے مطابق شہریوں کے اطمینان کی شرح 98.5 فی صد ہے۔
وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے صحت کارڈ پلس پروگرام کی مجموعی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا صحت کارڈ پروگرام کے لیے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز دیے جائیں گے، اسے مزید بہتر اور عوامی توقعات کے مطابق بنایا جائے۔
پشاور : خیبر پختونخوا کے وزیر صحت سید قاسم علی شاہ نے کہا ہے کہ کے پی میں رات12بجے سے صحت کارڈ بحال ہوچکا ہے،۔
انہوں نے بتایا کہ رات 12 بجےسے اب تک 700 مختلف مریضوں کے آپریشنز ہوچکے، صحت کارڈ کی ماہانہ لاگت 3 بلین تک پہنچ چکی ہے۔
صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ اب صحت کارڈ کے بند ہونے کی نوبت دوبارہ نہیں آئے گی، صحت کارڈ میں1800 سے زائد امراض کا علاج شامل ہے۔
قاسم علی شاہ نے کہا کہ اووربلنگ کے معاملے پر نگرانی خود کروں گا، صحت کارڈ پر پہلے 180اسپتال تھے اب118ہوگئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ادویات کی کمی پوری کرنے کیلئےاقدامات کریں گے، انکوائری مکمل ہونے پر ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔
یاد رہے کہ کے پی کے میں مالی بحران کی وجہ سے ایم ٹی آئیز اسپتالوں میں صحت کارڈ پر علاج 19 اکتوبر 2023ء سے بند تھا، تاہم اب صوبے کے تمام بڑے اسپتالوں میں صحت کارڈ کے ذریعے مریضوں کا علاج مفت کیا جائے گا۔
پشاور: خیبر پختون خوا کے ضلع دیر بالا میں جراحی کے ماہر ڈاکٹر کو ایک سال میں ریکارڈ آپریشن کرنا مہنگا پڑ گیا، محمکہ صحت کی تحقیقاتی کمیٹی نے ایک ہی بیماری کے سال میں ریکارڈ 773 آپریشنز کی جامع تحقیقات کی سفارش کر دی۔
تفصیلات کے مطابق خیبر پختون خوا میں ’صحت کارڈ پروگرام‘ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا ایک بڑا عوامی فلاحی منصوبہ ہے، جس کے ذریعے عوام دل سمیت مختلف بیماریوں کا علاج صوبے اور ملک کے مختلف اسپتالوں میں بالکل مفت کر سکتے ہیں۔
تاہم صوبے کے دور افتادہ ضلع دیر بالا میں قائم ایک چھوٹے سے نجی اسپتال اخلاص میڈیکل سینٹر کی انتظامیہ کی جانب سے صحت کارڈ پروگرام کے تحت صرف ایک سال میں 26 سو 2 آپریشنز کی رقم وصول کرنے پر جب محکمہ صحت کی جانب سے دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ مرتب کی تو، پتا چلا کہ مذکورہ نجی اسپتال ضلع کے واحد سرکاری اسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر صاحبزادہ امتیاز احمد اور سرکاری اسپتال کے سرجن ڈاکٹر سمیع اللہ کی مشترکہ ملکیت ہے۔
سرجن ڈاکٹر سمیع اللہ
اس اسپتال میں ایک سال کے قلیل عرصے میں 2602 آپریشنز کیے گئے ہیں، جن میں اپنڈکس کے 1826 آپریشنز بھی شامل ہیں، اے آر وائی نیوز کو موصولہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اپنڈکس کی 1826 سرجریز میں سے اسپتال کی ملکیت میں شراکت دار ڈاکٹر سمیع اللہ نے ریکارڈ 773 آپریشنز کیے ہیں، اور اس کا اعتراف ڈاکٹر نے تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے بھی کیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق ڈاکٹر سمیع اللہ نے ایک سال میں اپنے نجی اسپتال میں ان 773 آپریشنز کے ساتھ ساتھ سرکاری اسپتال میں 321 آپریشنز بھی کیے۔
رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر سمیع اللہ نے تمام آپریشن اپنڈکس کے کیے جب کہ کمیٹی نے انشورنس کمپنی سے حاصل ڈیٹا کا معائنہ کیا تو اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ کئی خاندانوں کے دو اور دو سے زائد افراد کے اپنڈکس کی سرجری بھی کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری اسپتال کو مذکورہ ایم ایس نے صحت سہولت پروگرام کے پینل میں شامل نہیں ہونے دیا، کیوں کہ وہ سرکاری اسپتال کو اپنے نجی اسپتال کے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر سمیع اللہ نے اپنڈکس کے آپریشنز کی مد میں انشورنس کمپنی سے 3 کروڑ روپے کی خطیر رقم وصول کی، جو نجی اسپتال کی جانب سے کلیم کی گئی رقم کا 70 فی صد بنتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق نجی اسپتال میں اپنڈکس کے روزانہ 10 آپریشن کیے گئے، ضلع دیر اپر میں اپنڈکس کی یہ شرح ملک ہی نہیں بلکہ دنیا کی بڑی شرح ہے، کیوں کہ دنیا بھر میں اپنڈکس کی شرح تمام آپریشنوں کا 1.2 فی صد ہوتی ہے، تاہم ضلع دیر اپر کے نجی اسپتال میں مجموعی آپریشنز کے مقابلے میں اپنڈکس کی یہ شرح 70 فی صد سے بھی زائد رہی ہے۔
تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ صحت کارڈ پر ہونے والی سرجریوں کا پتا لگانے کے لیے کلینکل آڈٹ کی جائے اور رپورٹ کردہ خاندانوں اور بچوں سے جراحی کے نشانات کی جانچ کر کے توثیق کی جائے تاکہ پتا چل سکے کہ واقعی میں اپنڈکس کے آپریشنز کیے گئے یا صرف مالی فائدے کے لیے مذکورہ افراد کے شناختی کوائف استعمال کیے گئے۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق مذکورہ انکوائری صوبے میں صحت کارڈ پروگرام کی پہلی باضابطہ انکوائری ہے، جس میں سامنے آنے والے انکشافات کے بعد بعد مزید اضلاع اور نجی اسپتالوں کے خلاف بھی تحقیقات پر غور کیا جا رہا ہے۔
نجی اسپتال کا مؤقف
نجی اسپتال انتظامیہ نے اپنے مؤقف میں کہا ہے کہ ضلع دیر اپر کی کل آبادی تقریبا 11 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، گزشتہ ایک سال (2022) میں کیے گئے 1826 آپریشنز کا ماہانہ تناسب 150 اور روزانہ کی شرح پانچ بنتی ہے۔
انتظامیہ کے مطابق ان کے اسپتال میں ہرنیا، کولیسٹیکٹومی، سی سیکشن، یو آر ایس، رینل اسٹون، ٹنسلیکٹومی اور اپینڈیکٹومی کی سہولت فراہم کی جاتی ہے، جن میں اپینڈیکٹومیز کا غلبہ اس لیے ہے کیوں کہ زیادہ تر مریض طویل طریقہ کار کے لیے ضلع سے نیچے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کا مؤقف تھا کہ اتنی بڑی تعداد کے باوجود اپنڈکس کی شرح فی 1000 آبادی اوسط سے کم ہے، اسپتال انتظامیہ کے مطابق صحت کارڈ کے دور سے پہلے بھی DHQH کے ریکارڈ سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ روزانہ 5 سے 6 اپینڈیکٹومیاں کم شرحوں کے ساتھ کی جاتی رہی ہیں اور یہی DHQH میں 22 دسمبر سے صحت کارڈ کی سہولت شروع ہونے کے بعد بھی جاری ہے۔ تو یہ کوئی وبائی صورت حال نہیں ہے بلکہ عام اعداد و شمار ہیں۔
نجی اسپتال کے منیجر فواد نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ ڈاکٹر سمیع اللہ نے 773 سرجریز میں 168 دیگر بڑی سرجریاں بھی کی ہیں، اور یہ ضلع کا واحد اسپتال ہے جس میں صحت کارڈ کی سہولت دستیاب ہے، اپنڈکس کا کیس ایک ایمرجنسی والی حالت ہوتی ہے، اسپتال آنے والے مریضوں کو ہم انکار تو نہیں کر سکتے، اور ہم نے تمام آپریشنز میں تصاویر کا ڈیٹا بھی متعلقہ حکام کو فراہم کر دیا ہے، اور جو رپورٹ مرتب کی گئی ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔
لاہور : پنجاب میں صحت کارڈ بند کرنے کا اقدام ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا، جس میں استدعا کی گئی کہ عدالت حکومت پنجاب کو صحت کارڈ پر مفت علاج فراہم کرنے کا حکم دے۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب میں صحت کارڈ بند کرنے کے اقدام کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔
درخواست میں حکومت پنجاب، سیکرٹری صحت سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ حکومت پنجاب نے غریب مریضوں کو مفت علاج کی سہولت دی،غریب مریضوں کو مفت علاج کیلئے صحت کارڈ جاری کئے گئے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ اور سرکاری اسپتالوں میں صحت کارڈ پر مفت علاج کیا جاتا، حکومت ختم ہوئی تو اسپتالوں میں صحت کارڈ پر مفت علاج بند کردیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ مفت علاج اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، استدعا ہے عدالت حکومت پنجاب کو صحت کارڈ پر مفت علاج فراہم کرنے کا حکم دے۔
دائر درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت صحت کارڈ کی بندش میں ملوث افسران کیخلاف کارروائی کا حکم دے۔
پشاور: صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہ صحت نے صحت کارڈ پلس کی سالانہ رپورٹ جاری کردی، 14 ہزار کینسر کے مریضوں کی کیمو تھراپی پر 271 ملین روپے خرچ ہوئے۔
تفصیلات کے مطابق صوبائی محکمہ صحت نے صحت کارڈ پلس کی سالانہ رپورٹ جاری کردی، ایک سال میں 679 اسپتالوں میں صوبے کے 75 لاکھ سے زائد خاندانوں کا مفت علاج ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ صحت کارڈ پلس سے 60 ہزار مفت زچگیوں پر 750 ملین روپے خرچ ہوئے، 90 ہزار سے زائد مریضوں کے ڈائلسز پر 276 ملین خرچ کیے گئے۔
14 ہزار کینسر مریضوں کی کیمو تھراپی پر 271 ملین روپے اور امراض قلب کے 11 ہزار سے زائد مریضوں کی انجیو پلاسٹی پر 217 ملین روپے خرچ ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 22 ہزار مریضوں کے مفت اپنڈکس آپریشنز پر 294 ملین روپے کے اخراجات ہوئے۔
اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے سہولت کارڈز سے متعلق ٹھوس پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق قومی صحت کارڈ، کسان کارڈ، اوراحساس راشن کارڈ پر اب ٹھوس پالیسی وضع کی جائے گی، وزیر اعظم عمران خان نے کارڈز پالیسی کی تیاری کے لیے اہم اجلاس طلب کر لیا۔
آج منعقد ہونے والے وزیر اعظم کی زیر صدرت اجلاس میں وفاقی وزیر فواد چوہدری، سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی عامر کیانی، چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی شریک ہوئے، اجلاس میں وزیر اعظم کو صحت سہولت کارڈز کی افادیت، راشن کارڈز، اور کسان کارڈ پر بریفنگ دی گئی۔
اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ حکومتی سہولت کارڈز کے بارے میں قومی سطح کی آگاہی مہم شروع کی جائے، وزیر اعظم عمران خان آئندہ اجلاس میں کارڈز سے متعلق نئی پالیسی کی ہدایات دیں گے۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ پنجاب بھر میں صحت کارڈ اجرا یکم جنوری میں ہوگا، مارچ میں مکمل ہو جائے گا۔
آئندہ اجلاس میں آگاہی مہم پر صوبوں میں قومی، ضلعی اور تحصیل سطح کی کمیٹیاں بنائی جائیں گی، اور وزیر اعظم کی طرف سے پارٹی کے ورکرز کو آگاہی مہم کا ٹاسک دیا جائے گا۔