Tag: صحت کا عالمی دن

  • صحت کا عالمی دن: کیا غریب ممالک کو کرونا ویکسین کی منصفانہ فراہمی ہوسکے گی؟

    صحت کا عالمی دن: کیا غریب ممالک کو کرونا ویکسین کی منصفانہ فراہمی ہوسکے گی؟

    آج دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ایسی دنیا تشکیل دینا ہے جس میں تمام افراد کو منصفانہ اور صحت مند ماحول حاصل ہو۔

    7 اپریل 1948 میں جب عالمی ادارہ صحت قائم کیا گیا، تو ادارے نے پہلی ہیلتھ اسمبلی کا انعقاد کیا۔ اس اسمبلی میں ہر سال 7 اپریل، یعنی عالمی ادارہ صحت کے قیام کے روز کو صحت کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی گئی۔

    اس دن کو منانے کا مقصد ایک طرف تو اس ادارے کے قیام کے دن کو یاد رکھنا ہے، تو دوسری طرف اس بات کا شعور دلانا ہے کہ دنیا کی ترقی اسی صورت ممکن ہے جب دنیا میں بسنے والا ہر شخص صحت مند ہو اور بہترین طبی سہولیات تک رسائی رکھتا ہو۔

    رواں برس عالمی ادارہ صحت نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں منصفانہ طبی سہولیات کی اہمیت آج جس قدر محسوس ہورہی ہے، اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی۔ گزشتہ سال کی کرونا وائرس وبا نے اب تک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس موقع پر بھی معاشرتی و طبقاتی تفریق کا بھیانک چہرہ سامنے آیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈنہم مستقل ان خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ کرونا وائرس ویکسین کی تقسیم نہایت غیر منصفانہ ہوسکتی ہے جس میں غریب ممالک محروم رہیں گے۔

    کچھ عرصہ قبل انہوں نے کہا تھا کہ ابھی تک دنیا کے 36 ممالک ایسے ہیں جہاں تاحال کرونا ویکسی نیشن شروع نہیں کی گئی، ان میں سے 16 ممالک کو کویکس (ویکسین کی تقسیم کی اسکیم) کے تحت ویکسین کی فراہمی کا پروگرام ہے۔ اس کے باوجود باقی 20 ممالک ویکسین سے محروم رہیں گے۔

    دوسری جانب امیر ممالک اپنے شہریوں کے لیے پہلے ہی ویکسین کی کروڑوں ڈوزز حاصل کرچکے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت امیر ممالک سے اپیل بھی کرچکا ہے کہ وہ غریب اقوام و ممالک کو کرونا ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر ایک کروڑ خوراکیں عطیہ کریں۔

    عالمی ادارہ صحت کی کویکس ویکسین شیئرنگ اسکیم بھی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ دنیا کے 92 غریب ممالک کی کرونا ویکسین تک رسائی ہو اور اس کی قیمت ڈونرز ادا کریں۔

  • آج کا دن دنیا کو بچانے کے لیے کوشاں سپاہیوں کے نام

    آج کا دن دنیا کو بچانے کے لیے کوشاں سپاہیوں کے نام

    آج دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، آج کا دن نرسز اور مڈ وائفس (دایہ) کے نام کیا گیا ہے جو کرونا وائرس کی جنگ میں ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

    7 اپریل 1948 میں جب عالمی ادارہ صحت قائم کیا گیا، تو ادارے نے پہلی ہیلتھ اسمبلی کا انعقاد کیا۔ اس اسمبلی میں ہر سال 7 اپریل، یعنی عالمی ادارہ صحت کے قیام کے روز کو صحت کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی گئی۔

    اس دن کو منانے کا مقصد ایک طرف تو اس ادارے کے قیام کے دن کو یاد رکھنا ہے، تو دوسری طرف اس بات کا شعور دلانا ہے کہ دنیا کی ترقی اسی صورت ممکن ہے جب دنیا میں بسنے والا ہر شخص صحت مند ہو اور بہترین طبی سہولیات تک رسائی رکھتا ہو۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے سال 2020 کو نرسز اور مڈوائفس کا سال قرار دیا ہے، ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت طبی عملے کا نصف حصہ نرسز پر مشتمل ہے اس کے باوجود دنیا کو مزید نرسز کی ضرورت ہے۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 2 کروڑ 80 لاکھ افراد نرسنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اس کے باوجود دنیا کے طبی نظام کو سہارا دینے کے لیے مزید 59 لاکھ نرسز کی ضرورت ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں ہر 1 ہزار کی آبادی کو صرف 3 نرسز اور (یا) مڈوائفس دستیاب ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق نرسنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد سہولیات و مراعات کی کمی کا شکار ہیں جبکہ صنفی مساوات بھی اس شعبے کا اہم حصہ ہے۔

    باوجود اس کے، کہ 90 فیصد نرسز خواتین ہیں لیکن بقیہ 10 فیصد میل نرسز لیڈنگ پوزیشنز پر ہیں یعنی 90 فیصد ان کے ماتحت کام کر رہے ہیں۔

    ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ نرسز کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے دنیا کو اس وقت اس شعبے میں فوری سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔

  • عالمی یوم صحت: اچھی صحت کے لیے دواؤں سے زیادہ کارآمد عادات

    عالمی یوم صحت: اچھی صحت کے لیے دواؤں سے زیادہ کارآمد عادات

    ایک عام خیال ہے کہ بہترین صحت کے لیے متوازن غذاؤں کا استعمال، ورزش اور کسی بیماری کی صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے علاج کروانا اور دوائیں لینا ضروری ہے۔

    مندرجہ بالا اشیا صحت کی بہتری کے لیے یقیناً ضروری ہیں۔ لیکن ہم صحت کی بہتری کے لیے چند ضروری اشیا اور عادات کو بھول جاتے ہیں جن کی عدم موجودگی متوازن غذاؤں اور دواؤں کے باوجود ہمیں بیمار رکھتی ہیں۔

    آج صحت کے عالمی دن کے موقع پر یہ عادات اپنا کر صحت مند زندگی کی طرف پہلا قدم بڑھائیں۔


    ذہنی سکون

    اگر آپ ذہنی طور پر پریشان اور بے سکون ہیں اور اس کے لیے کسی ماہر نفسیات سے مہنگی دوائیں خرید کر کھا رہے ہیں تو آپ اپنے علاج کے اہم پہلو کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

    ان چیزوں میں الجھے رہنا جو آپ کو ذہنی طور پر بے سکون کردیں۔

    دفتر یا گھر میں لڑائی جھگڑا عموماً ذہن کو پریشان کردیتا ہے اور آپ کوئی بھی دماغی کام کرنے کے قابل نہیں رہتے، لہٰذا جب بھی ایسا کوئی موقع آئے آپ اس جگہ سے دور چلے جائیں اور معاملے سے قطعاً دور رہنے کی کوشش کریں۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ ذہنی الجھنوں کا شکار ہیں؟

    کسی دانا کا قول ہے، ’جب بھی 2 ہاتھیوں میں لڑائی ہو تو چیونٹی کو فوراً اپنے بھاگنے کی فکر کرنی چاہیئے‘۔

    اسی طرح اسمٰعیل میرٹھی کا شعر ہے۔

    جبکہ دو موزیوں میں ہو کھٹ پٹ
    اپنے بچنے کی فکر کر جھٹ پٹ

    اگر آپ دماغی طور پر بے سکون ہیں تو آپ بالکل اسی چیونٹی کی طرح ہیں جو کسی دوسرے کی لڑائی میں خوامخواہ کچلی جاتی ہے۔

    ہاں البتہ اگر آپ لڑائی جھگڑے کے شوقین ہیں تو پھر بہترین ماہر نفسیات کی مہنگی سے مہنگی دوا بھی آپ کو سکون نہیں دے سکتی۔


    دلی سکون

    اسی طرح آپ کے دل کو نہایت پرسکون اور اطمینان سے بھرپور ہونا چاہیئے۔ غصہ، نفرت، حسد، انتقام ان تمام جذبات کو اپنے دل سے نکال پھینکیں۔ چیزوں کو درگزر کرنے اور معاف کرنے کی عادت ڈالیں۔

    بعض افراد غصے میں برا کہہ دیتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا۔ اس کا سب سے آسان حل یہ ہے کہ جس سے آپ نے غصے میں گفتگو کی اس سے معذرت کرلیں۔ یہ عات آپ کے دل کو بہت سکون پہنچائے گی۔

    مزید پڑھیں: بے رنگ زندگی کو تبدیل کرنے والی 5 عادات

    اچھی چیزوں کو سراہیں۔ اگر کوئی شے بری ہے تو اس کی برائی کرنے کے بجائے وہاں سے ہٹ جائیں۔

    اسی طرح ان کاموں کو جنہیں آپ بہت شوق سے کرتے ہیں، جیسے لکھنا، شاعری، مطالعہ، مصوری، موسیقی وغیرہ انہیں ادھورا مت چھوڑیں۔ جب تک کوئی ادھورا کام آپ کے سر پر لٹکتا رہے گا آپ کبھی بھی سکون کی سانس نہیں لے سکیں گےاور مستقل ذہنی اور دلی بوجھ کا شکار رہیں گے۔


    روحانی سکون

    جب آپ کا دل اور دماغ پرسکون ہوگا تو لازماً آپ خود کو روحانی طور پر بھی پرسکون محسوس کریں گے۔ روحانی سکون کے لیے وہ کام کریں جنہیں کرنے کا آپ کو شوق ہو۔

    عبادت کریں۔ جس خدا کو بھی مانتے ہیں اس کے آگے روئیں، گڑگڑائیں۔ رونے سے آپ کا کتھارسس ہوگا اور آپ خود کو ہر طرح سے پرسکون محسوس کریں گے۔


    محبت کریں

    لوگوں سے محبت کرنے کی عادت ڈالیں۔ پہلی نظر میں لوگوں کو جانچنے، پرکھنے اور پھر اس کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرنے سے گریز کریں۔

    اپنے آس پاس موجود لوگوں سے ہمدردی کا رویہ اپنائیں۔ اپنے سے چھوٹے درجے پر موجود لوگوں جیسے ملازمین، ڈرائیورز وغیرہ سے بھی نرمی سے بات کریں تاکہ انہیں بھی یہ احساس ہو کہ آپ انہیں انسان سمجھتے ہیں۔

    جانوروں سے محبت کریں۔ آوارہ کتے یا بلیوں کو اس وقت تک دھتکارنے سے گریز کریں جب تک وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ کسی جانور کو مشکل میں دیکھیں تو پولیس اسٹیشن یا کسی امدادی ادارے کو طلب کر کے انہیں اس مشکل سے بچایا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: پالتو جانور رکھنے کے حیران کن فوائد

    فطرت کو سراہیں۔ موسموں کی خوشبو، سورج کی مختلف روشنیوں، رنگوں کو دیکھیں۔ چاند کو مختلف تاریخوں میں دیکھیں۔ رات کی سکون اور تنہائی کو محسوس کریں۔ پھولوں کے کھلنے کو سراہیں، ان کی خوشبو سونگھیں۔

    جتنا زیادہ آپ فطرت کے قریب جائیں گے اتنا ہی زیادہ آپ میں محبت، نرمی اور ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوگا۔


    ہنسیں

    کیا آپ جانتے ہیں کہ مسکرانا اور قہقہہ لگانا آپ کے دماغ میں موجود تناؤ پیدا کرنے والے کیمیائی اجزا کو کم کرتا ہے۔ کسی پریشان کن صورتحال میں کوئی مزاحیہ فلم یا ڈرامہ دیکھنا اور اس پر ہنسنا یکلخت آپ کی پریشانی کو دور کردے گا اور آپ کا دماغ ہلکا پھلکا ہوجائے گا۔

    اس کے بعد آپ نئے سرے سے تازہ دم ہوکر اس پریشانی کا منطقی حل سوچنے کے قابل ہوسکیں گے۔

    مزید پڑھیں: مسکراہٹ پھیلائیں

    اپنے آس پاس ہونے والی دلچسپ گفتگو اور چیزوں سے لطف اندوز ہوں اور ہنسیں۔ لوگوں سے مسکرا کر ملیں۔ حتیٰ کہ کوئی اجنبی بھی اگر آپ سے ٹکرا جائے تو مسکرا کر اس سے معذرت کر کے ہٹ جائیں۔


    یاد رکھیں دماغی طور پر پرسکون رہنا آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارتا ہے اور آپ کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ منفی چیزوں اور عادات سے پرہیز کریں اور اپنی سوچ کو مثبت رکھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • عالمی یوم صحت: دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار

    عالمی یوم صحت: دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار

    آج دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال نہایت عام مگر منفی طور پر متاثر کرنے والا مرض ڈپریشن اور اس کے بارے میں آگاہی و شعور بیدار کرنا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں بیماریوں اور معذوریوں کی ایک بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔ دنیا بھر میں ہر تیسرا شخص، اور مجموعی طور پر 30 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔

    پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی 34 فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہے۔

    دوسری جانب ملک میں ڈپریشن کا علاج کرنے والے ماہرین نفسیات کی تعداد انتہائی کم ہے اور ہر 20 لاکھ کی آبادی کو صرف 400 ماہرین میسر ہیں۔

    ڈپریشن کی وجہ

    ذہن پر دباؤ یا ڈپریشن کی عمومی وجوہات میں کام کی زیادتی یا کسی شے یا مقصد کے حصول میں ناکامی ہے، تاہم بعض اوقات اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی اور یہ کسی بھی عمر کے فرد کو، کبھی بھی ہوسکتا ہے۔

    ڈپریشن کی علامات

    ماہرین کے مطابق اگر آپ اپنی عادت و مزاج میں یہ تبدیلیاں دیکھیں تو یہ ڈپریشن کی علامات ہیں۔

    :چڑچڑاہٹ

    1

    حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ ڈپریشن میں صرف اداسی ہی نہیں ہوسکتی، اگر آپ بلا وجہ چڑچڑا رہے ہیں، بات بات پر غصہ کر رہے ہیں اور معمولی باتوں پر لوگوں سے جھگڑ رہے ہیں تو یہ ڈپریشن کی علامت ہے۔

    :نیند میں تبدیلی

    2

    ضروری نہیں کہ ڈپریشن کا شکار شخص ہر وقت سوتا رہے۔ بے خوابی بھی ڈپریشن کی علامت ہے۔ اگر آپ رات بھر بے سکون نیند سوتے ہیں اور صبح اٹھ کر خود کو تازہ دم محسوس نہیں کرتے تو یہ بھی ڈپریشن کی طرف اشارہ ہے۔

    :غذائی عادات میں تبدیلی

    3

    یہاں یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ ڈپریشن کے مریض کی غذائی عادات تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اگر آپ غیر معمولی طور پر بہت زیادہ کھانے لگے ہیں، یا کھانے سے آپ کی دلچسپی ختم ہوگئی اور بھوک بالکل نہیں لگتی تب آپ کو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    :عدم توجہی

    4

    اگر آپ کو کسی کام میں توجہ مرکوز کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے، آپ اپنے کام کے دروان بے شمار غلطیاں کر رہے ہیں تو یہ بھی ڈپریشن کی علامت ہے۔

    ایک اور علامت چھوٹے چھوٹے فیصلے کرنے میں مشکل پیش آنا بھی ہے۔ جیسے کافی یا چائے پی جائے، یا آئسکریم کا کون سا فلیور منتخب کیا جائے۔

    :ناقابل بیان تکلیف

    5

     یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ ڈپریشن کا شکار بعض افراد ڈاکٹر کے پاس تکلیف کی شکایت لے کر جاتے ہیں لیکن وہ بتا نہیں پاتے کہ انہیں کس جگہ تکلیف یا درد ہو رہا ہے۔

    یہ درد کی وہ قسم ہے جو عام طور پر شناخت نہیں کی جاسکتی جیسے پیٹ میں درد، کمر میں درد یا سر میں درد۔ یہ تکلیف بھی ڈپریشن کی ایک علامت ہے۔

    ان علامات کے علاوہ ڈپریشن کا شکار افراد اداسی، ناامیدی، خالی الذہنی، مایوسی، مختلف کاموں میں غیر دلچسپی، جسمانی طور پر تھکن یا کمزوری کا احساس ہونا، وزن میں اچانک کمی یا اضافہ، چیزوں کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مشکل پیش آنا اور خود کو نقصان پہنچانے یا خودکشی کے بارے میں سوچنے کی طرف راغب ہوسکتے ہیں۔

    طبی و نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن گو کہ ایک عام لیکن خطرناک مرض ہے۔ یہ آپ کی جسمانی و نفسیاتی صحت کو متاثر کرتا ہے اور آپ کے سونے جاگنے، کھانے پینے حتیٰ کہ سوچنے تک پر اثر انداز ہوتا ہے۔

    ڈپریشن کا علاج

    کیا آپ جانتے ہیں کہ ڈپریشن کا شکار ہونے کی صورت میں ماہرین نفسیات کے پاس جانے سے قبل آپ مختلف طریقوں سے اپنے ڈپریشن کا علاج کر سکتے ہیں۔

    :مراقبہ

    6
    روزانہ چند منٹ کا مراقبہ آپ کے جسمانی اور ذہنی تناؤ کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ دماغ کی کسی چیز پر یکسو ہونے کی صلاحیت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

    :دوڑ لگائیں

    8
    بھاگنا یا دوڑ لگانا دماغ میں ان کیمیکلز کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے جو دماغ کو خوشی کا سگنل دیتے ہیں۔ ریسرچ کے مطابق جو لوگ باقاعدگی سے بھاگتے ہیں وہ ان افراد سے زیادہ مطمئن پائے گئے جو بھاگتے نہیں تھے۔

    :تیراکی

    7
    تیراکی سے آپ کا جسم حرکت کی حالت میں رہتا ہے یوں سر سے پاؤں تک خون کی گردش میں اضافہ ہوتا ہے۔ تیراکی ذہنی دباؤ کم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    :ہنسیں

    9
    جب آپ ڈپریشن کا شکار ہوں تو کوئی مزاحیہ فلم دیکھیں یا مزاحیہ کتاب پڑھیں۔ ایسے دوستوں سے ملیں جن کا حس مزاح اچھا ہو۔ ہنسنے سے دماغ کے مضر کیمیکلز میں کمی واقع ہوتی ہے اور آپ فوری طور پر بہتر محسوس کرتے ہیں۔

    ہنسنے سے نہ صرف ٹینشن، بلکہ دکھ اور تکلیف میں بھی کمی ہوتی ہے۔

    :لذیذ کھانا

    11

    ذہنی تناؤ کم کرنے کا ایک طریقہ لذیذ کھانا ہے۔ آپ کے پسند کا بہترین کھانا آپ کے موڈ پر خوشگوار اثرات چھوڑتا ہے۔

    ایسے موقع پر آپ کے پسندیدہ فلیور کی آئس کریم بھی بہترین نتائج دے گی۔

    :سیڑھیاں چڑھیں

    12

    سیڑھیاں چڑھنے سے آپ کی سانسوں کی آمد و رفت تیز ہوگی اور آپ زیادہ آکسیجن کو جذب کریں گے۔

    زیادہ آکسیجن جذب کرنے سے آپ کے جسمانی اعضا فعال ہوں گے نتیجتاً جسم کے لیے مضر اثرات رکھنے والے ہارمون کم پیدا ہوں گے۔

    :صفائی کریں

    13

    بعض دفعہ ہمارے آس پاس پھیلی اور بکھری ہوئی چیزیں بھی دماغ کو دباؤ کا شکار کرتی ہیں۔

    چیزوں کو ان کے ٹھکانے پر واپس رکھا جائے اور آس پاس کے ماحول کو سمٹا ہوا اور صاف ستھرا کرلیا جائے تو ذہنی تناؤ میں کافی حد تک کمی ہوسکتی ہے۔

    :کنگھا کریں

    14

    سر کی مالش یا کنگھا کرنا سر کے دوران خون کو تیز کرنے کا سبب بنتا ہے۔ دوران خون تیز ہوگا تو دماغ خود بخود تازہ دم ہوگا اور اس پر چھایا تناؤ کم ہوسکے گا۔

    ایک مصروف اور تناؤ بھرا دن گزارنے کے بعد 10 سے 15 منٹ اپنے بالوں میں کنگھا کریں۔ یہ عمل یقیناً آپ کے دماغ کو سکون فراہم کرے گا۔

    :مساج کریں

    15

    چہرے، بھوؤں، اور آنکھوں کا ہلکا سا مساج کرنا بھی ذہنی دباؤ کم کرنے کا سبب بنے گا۔

    :پینٹنگ

    16

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رنگوں اور مصوری کا تعلق دماغ کے خوشگوار اثرات سے ہے۔ اگر آپ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں تو مصوری کریں، یہ یقیناً آپ کے موڈ پر خوشگوار اثرات مرتب کرے گا۔

    مزید پڑھیں: مصوری کے ذریعے ڈپریشن سے نجات پائیں

    :غسل کریں

    17

    موسم کی مناسبت سے سرد یا گرم پانی سے غسل کرنا بھی ذہنی تناؤ کو کم کرنے کا باعث بنے گا اور دماغی اعصاب کو پرسکون بنائے گا۔

    :رقص کریں

    18

    رقص کرنا ذہنی دباؤ کو کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ خالی کمرے میں میوزک کے ساتھ رقص کرنا نہ صرف ذہنی دباؤ بلکہ وزن گھٹانے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔

    :خوشبویات سونگھیں

    19

    پھولوں، گھاس، درختوں کی خوشبو یا بہترین پرفیومز کی خوشبو سونگھنا آپ کے دماغ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔

    :اچھی یادیں

    20

    ذہنی دباؤ کے وقت اس گزرے ہوئے وقت کو یاد کریں جس میں آپ ہنسے اور زندگی سے لطف اندوز ہوئے۔ ہنسنے والی باتوں کو دوبارہ دہرائیں یقیناً آپ ہنس پڑیں گے۔ یہ عمل آپ کے ڈپریشن کو کم کرسکتا ہے۔

    :شکر گزار بنیں

    10
    زندگی کی محرومیوں پر غور کرنے سے ذہنی دباؤ اور ناخوشی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اپنے سے کم حیثیت لوگوں کو دیکھیں اور جو آپ کے پاس ہے اس پر شکر ادا کریں۔ شکر گزاری کی عادت دماغ کو مطمئن اور خوش کرتی ہے۔

    ڈپریشن کا شکار افراد کی مدد کیسے کی جائے؟

    ماہرین متفق ہیں کہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ کا شکار افراد کے ساتھ محبت اور شفقت کا برتاؤ کیا جائے۔ ان کے ساتھ سخت رویہ رکھنا، ان کی حالت کو نظر انداز کرنا یا معمولی سمجھنا ان کے مرض کو بڑھانے کے مترادف ہوگا۔

    ذہنی تناؤ کا شکار افراد کی جانب سے برے رویے یا خراب الفاظ کی بھی امید رکھنے چاہیئے اور ان کی حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے نظر انداز کرنا چاہیئے۔ لیکن خیال رہے کہ یہ رویہ متشدد صورت اختیار نہ کرے۔

    مریض کے خیالات ور جذبات کو سنتے ہوئے آہستہ آہستہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کی طرف اس کا دھیان مبذول کروایا جائے جیسے کسی لذیذ کھانے، کسی دلچسپ (خاص طور پر مزاحیہ) ٹی وی پروگرام، خاندان میں آنے والی کسی تقریب کی تیاری، شاپنگ، کسی اہم شخصیت سے ملاقات یا کہیں گھومنے کے پروگرام کے بارے میں گفتگو کی جائے۔

    اسی طرح ڈپریشن کے شکار شخص کو جسمانی طور پر قریب رکھا جائے اور انہیں گلے لگایا جائے۔ طبی ماہرین نے باقاعدہ ریسرچ سے ثابت کیا کہ قریبی رشتوں جیسے والدین، بہن بھائی، شریک حیات یا دوستوں کے گلے لگنا ڈپریشن اور دماغی تناؤ میں کمی کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: گلے لگنا بے شمار فوائد کا سبب

    وہ مریض جو ڈپریشن کا شکار ہیں ان کے ساتھ لفظوں کے چناؤ کا بھی خاص خیال رکھا جائے۔ ایسے موقع پر مریض بے حد حساس ہوتا ہے اور وہ معمولی سی بات کو بہت زیادہ محسوس کرتا ہے لہٰذا خیال رکھیں کہ آپ کا کوئی لفظ مرض کو بدتری کی جانب نہ گامزن کردے۔

    ماہرین کے مطابق آپ ڈپریشن کا شکار اپنے کسی پیارے یا عزیز کا ڈپریشن کم کرنے کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ کا استعمال کریں۔ یہ ان کے مرض کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔

    :یہ کہیں

    تم اکیلے اس مرض کا شکار نہیں ہو۔

    تم ہمارے لیے اہمیت رکھتے ہو۔

    میں تمہاری کیفیت کو نہیں سمجھ سکتا / سکتی لیکن میری کوشش ہے کہ میں تمہاری مدد کروں۔

    وقت بدل جائے گا، بہت جلد اچھا وقت آئے گا اور تم اس کیفیت سے باہر نکل آؤ گے۔

    ہم (خاندان / دوست) تمہارے ساتھ ہیں، تمہاری بیماری سے ہمارے رشتے پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔

    :یہ مت کہیں

    ماہرین کے مطابق مندرجہ ذیل الفاظ ڈپریشن کا شکار افراد کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

    بہت سے لوگ تم سے بھی بدتر حالت میں ہیں۔

    زندگی کبھی بھی کسی کے لیے اچھی نہیں رہی۔

    اپنے آپ کو خود ترسی کا شکار مت بناؤ۔

    تم ہمیشہ ڈپریشن کا شکار رہتے ہو، اس میں نئی بات کیا ہے۔

    اپنا ڈپریشن ختم کرنے کی کوشش کرو۔

    تم اپنی غلطیوں کی وجہ سے اس حال کو پہنچے ہو۔

    میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتا / سکتی ہوں۔ میں خود کئی دن تک اس کیفیت کا شکار رہا / رہی ہوں۔

    صرف اپنی بیماری کے بارے میں سوچنا چھوڑ دو۔

    یاد رکھیں کہ ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا شکار شخص اکیلے اس مرض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکتا اور اس کے لیے اسے اپنے قریبی عزیزوں اور دوستوں کا تعاون لازمی چاہیئے۔

    ذہنی تناؤ  سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

    ذہنی دباؤ سے نجات حضرت علیؓ کے اقوال کے ذریعے

    ڈپریشن سے متعلق اہم انکشافات

    دماغی تناؤ سے چھٹکارہ دلانے والی غذا