Tag: صحت کیلئے مفید

  • مکھن یا مارجرین : ناشتے میں کیا کھایا جائے؟

    مکھن یا مارجرین : ناشتے میں کیا کھایا جائے؟

    اکثر گھروں میں صبح کے ناشتے میں مکھن یا مارجرین کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہے لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس دونوں میں سے کون سی چیز آپ اور آپ کے اہل خانہ کیلئے صحت مند ہے؟

    لوگوں کی بڑی تعداد اس بات سے لاعلم ہے کہ آخر مکھن اور ماجرین میں کیا فرق ہے؟ آج ہم آپ کو بتائیں گے کہ مکھن یا پھر ماجرین آپ کی صحت کے لئے دونوں میں سے کس چیز کا استعمال زیادہ بہتر ہے۔

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق مکھن میں سیچوریٹڈ یا سیر شدہ چکنائی زیادہ ہوسکتی ہے لیکن مارجرین ایک الٹرا پروسیسڈ غذا ہے، دونوں میں سے زیادہ صحت مند کیا ہے، یہ جاننا آسان نہیں ہے۔

    20ویں صدی کے اوائل میں مارجرین کے منظرعام پر آنے سے بہت پہلے صدیوں سے مکھن کے استعمال کا رواج عام ہوا جواب بھی خوراک کا ایک اہم حصہ ہے۔

    تاہم 20ویں صدی کے وسط میں بہت سے لوگوں نے مکھن کی جگہ مارجرین کا استعمال کرنا شروع کر دیا تھا حالانکہ اس وقت اس بات پر اتفاق تھا کہ تمام اقسام کی چربی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    مکھن اور مارجرین بنانے کا طریقہ

    مکھن بنانے کے لیے آپ پہلے دودھ کو گرم کرتے ہیں اور پھر کریم یا ملائی کو الگ کرنے کے لیے اسے ہلاتے ہیں۔

    اس کے بعد ملائی نکال کر اس کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور اسے خوب پھینٹا جاتا ہے جس سے مکھن نکلتا ہے اور اس میں جو مائع رہ جاتا ہے اسے چھاچھ کہتے ہیں۔ کبھی کبھی اس میں نمک بھی ملایا جاتا ہے۔

    جبکہ مارجرین پانی کے ساتھ تیل کو پھینٹ کر حاصل کیا جاتا ہے۔ ان دونوں کو ساتھ ملاکر پھینٹنے سے ایک ٹھوس پراڈکٹ سامنے آتا ہے جس کے بعد اس میں ایملسیفائر اور رنگ جیسے دوسرے اجزا شامل کیے جاتے ہیں۔

    تاریخی طور پر مارجرین بنانے والوں نے مائع تیل کو ٹھوس چکنائیوں میں تبدیل کرنے اور انھیں زیادہ پھیلنے کے قابل بنانے کے لیے ان میں ہائیڈروجن یعنی پانی کا استعمال کیا۔

    لیکن انھیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ اس سے ’ہائیڈروجنیٹڈ‘ یا ’ٹرانس‘ چربی پیدا ہوتی ہے جو کہ غیر سیرشدہ چربی کی ایک قسم ہے اور یہ دل کی بیماری اور صحت کے مضر اثرات کے لیے جانی جاتی ہے۔

  • بھوکا رہنا صحت کیلئے کتنا مفید ہے؟ حیران کن تحقیق

    بھوکا رہنا صحت کیلئے کتنا مفید ہے؟ حیران کن تحقیق

    آج کل کی زندگی اتنی مشینی انداز کی ہوتی جارہی ہے کہ کسی کے پاس اپنے لیے بھی وقت نہیں ہوتا کہ وہ ٹھیک وقت پر ٹھیک غذا کھاسکے، کسی دانا کا قول ہے کہ انسان نہ کھانے نہیں بلکہ کھانے سے مرتا ہے۔

    موجودہ دور میں بازار سے ملنے والے پکے پکائے یا تیار شدہ ڈبہ پیک کھانوں کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے جن میں سے بیشتر کو گھر میں گرم کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی، جس کا نتیجہ صحت کی تباہی کی صورت میں نکلتا ہے۔

    ایک مختصر اور منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دن اور رات میں تین وقت کے بجائے دو وقت متوازن غذا کھانے سے جسم کی تیزابیت (انفلیمیشن) کم ہوسکتی ہے، جس سے انسان کئی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

    انٹرمٹنٹ فاسٹنگ بھی اسی عمل کا نام ہے جس پر حالیہ برسوں میں کافی کام ہوا ہے۔ انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے مراد دن بھر میں ایک خاص دورانیے تک کھانے سے دوری اختیار کی جاتی ہے۔

    یعنی ایک طرح سے یہ رمضان کے روزوں جیسا طریقہ کار ہی ہے اور متعدد تحقیقی رپورٹس میں ثابت ہوا ہے کہ یہ جسم اور دماغ دونوں کے لیے بہت زیادہ مفید ہے۔

    طبی جریدے سیل میں شائع تحقیق کے مطابق ماہرین نے بھوکے رہنے والے افراد کی صحت کا موازنہ معمول کے مطابق کھانا کھانے اور مشروب پینے والے افراد سے کیا۔

    ماہرین نے 21 صحت مند افراد کی خدمات حاصل کیں اور انہیں 24 گھنٹےمیں ایک بار 500 گرام اچھی اور صحت مند غذا کھانے کی ہدایت کی گئی اور باقی اوقات روزے پر رہنے کا کہا گیا۔

    ماہرین نے مذکورہ تمام رضاکاروں کے بلڈ ٹیسٹ بھی کیے اور پھر ان کے بلڈ ٹیسٹ اور جسمانی صحت کا موازنہ تین وقت کھانا کھانے اور مشروب پینے والے افراد سے کیا تو معلوم ہوا کہ روزے رکھنے والے افراد کے جسم کی تیزابیت کم ہوچکی تھی۔

    ماہرین کے مطابق کم غذائیں کھانے سے جہاں انفلیمیشن کم ہوتی ہے، وہیں نظام ہاضمہ میں کردار ادا کرنے والے تمام اعضا کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے، جن میں جگر، گردے، آنت اور دیگر اعضا شامل ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ جسم میں انفلیمیشن کی مقدار زیادہ ہونے سے ذیابیطس سمیت امراض قلب اور آنتوں کی کئی بیماریاں ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ انفلیمیشن یا تیزابیت آٹو امیون بیماریاں بڑھانے میں کردار ادا کرتی ہے، اس لیے صحت مند رہنے کے لیے کم کھانا کھایا جائے، فاقوں پر رہنے کا اپنا معمول بنایا جائے، یعنی انسانوں کو روزے رکھنے چاہئیے اور کم غذاؤں کا استعمال کرنا چائیے۔

    مذکورہ تحقیق سے قبل بھی متعدد تحقیقات میں بتایا جاچکا ہے کہ روزے رکھنا، فاقے کاٹنا یا کم غذائیں کھانا صحت کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔

  • چاکلیٹ نقصان دہ نہیں بلکہ صحت کیلئے مفید ہے، تحقیق

    چاکلیٹ نقصان دہ نہیں بلکہ صحت کیلئے مفید ہے، تحقیق

    لندن: چاکلیٹ کا کھانے کا شوق بچوں کو ہی نہیں بڑوں کو بھی ہوتا ہے اگر نہیں بھی ہے تو اب فوری چاکلیٹ کھانا شروع کردیں کیونکہ برطانیہ میں اس پر نئی تحقیق کی گئی جس میں ثابت ہوا ہے کہ چاکلیٹ مزے دار ہونے کے ساتھ ساتھ صحت مند بھی ہوتی ہے۔

    بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سفید چاکلیٹ اکثر چینی سے بنی  ہوتی ہے اور صحت کے لیے نقصان دہ ہے، تاہم واضح رہے کہ براؤن چاکلیٹ میں ایسا کچھ نہیں بلکہ اس کے اندر بھرپور توانائی چھپی ہوتی ہے جو زبان کو ذائقہ دینے کے ساتھ  جسم کو کئی بیماریوں سے بھی بچاتی ہے، یہ انسانی جسم کی قوت مدافعت پیدا کرنے والے عناصر کو مضبوط کرتی ہے، چاکلیٹ میں کوکا، پوٹاشیم، آئرن، زنک اور میگنیشیم پایا جاتا ہے، جو دماغی صحت کو بہتر کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔

    براؤن چاکلیٹ کی سب سے اہم اور صحت کے لیے مفید خوبی یہ ہے یہ نقصان پہنچانے والے کولیسٹرول کو کم کرنے کے ساتھ مفید کولیسٹرول کو بڑھاتی ہے۔ ریسرچ کے مطابق تھوڑی سے ورزش اور اچھی غذا کے ساتھ براؤن چاکلیٹ کھانے سے بیڈ کولیسٹرول  کم ہوتا ہے اور صحت مند کولیسٹرول بڑھتا ہے۔

    براؤن چاکلیٹ کی دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ اس سے بلڈ پریشر کو نارمل رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ جسم میں موجود ’ پولی فینول ‘ کو بڑھاتا ہے، جو خون میں موجود آکسیجن کی روانی کوبڑھا دیتا ہے،  چاکلیٹ کھانے سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے کیونکہ براون چاکلیٹ  دماغ میں  ’ سیروٹونین ‘ پیدا کرتا ہے، جس سے انسان کے اندر تازگی کا احساس  تازگی پیدا ہوتا ہے اور انسان ک کا ذہن ذہنی دباؤ سے آزاد ہوجاتا ہے۔

    براؤن چاکلیٹ دل کی بیماریوں سے بچنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے، اسے کھانے سے دل میں دوران خون بڑھ جاتا ہے اورشریانوں کو سخت ہونے نہیں دیتا۔