Tag: صحت کی خبریں

  • کمر درد کے لیے ورزش فائدہ مند

    کمر درد کے لیے ورزش فائدہ مند

    کمر کا درد عام طور پر ہر شخص کو ہوتا ہے۔ یہ نہایت ہی تکلیف دہ درد ہوتا ہے اور مشکلوں سے ہی جان چھوڑتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کمر درد کے لیے دوائیوں سے زیادہ فائدہ مند ورزش ہے۔

    تحقیق کرنے والے ماہرین نے دنیا بھر میں 30 ہزار سے زائد افراد پر یہ تجربہ کیا اور نتیجہ نکلا کہ سال بھر بعد جن لوگوں نے باقاعدگی سے ورزش کی تھی ان کی کمر کے درد میں 40 سے 45 فیصد کمی آئی ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ورزش ہی اس مرض کا آسان علاج ہے تو پھر یہ اتنا عام کیوں ہے۔

    مزید پڑھیں: کمر درد سے نجات دلانے والی آسان ورزشیں

    اس کی وجہ یہ ہے کہ کمر درد سے نجات کے لیے ڈاکٹر مختلف اینٹی بائیوٹکس اور دیگر علاج جیسے بیلٹ پہننا وغیرہ تجویز کرتے ہیں۔ یہ چیزیں پٹھوں کو کمزور کردیتی ہیں۔ چنانچہ کمر درد کا شکار افراد اگر ورزش کریں تو وہ مزید تکالیف کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ کمر درد کے لیے ورزش ہی سب سے آسان علاج ہے۔ کمر کا درد جسمانی حرکات میں کمی کی وجہ سے ہوتا ہے خاص طور پر ان لوگوں میں جو آفس میں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں اور کم چلتے پھرتے ہیں۔

  • امیر ہوتے ہی کینسر لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، نئی رپورٹ

    امیر ہوتے ہی کینسر لاحق ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، نئی رپورٹ

    پیرس: فرانس میں قائم انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کی ایک تازہ شائع شدہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جیسے جیسے افراد امیر ہوتے جا رہے ہیں ان کو اپنی طرز زندگی کے باعث کینسر ہونے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کینسر کے مرض پر تحقیق کے لیے مختص تنظیم آئی اے آر سی کا کہنا ہے کہ دنیا میں بھر میں کینسر کے کیسز میں اضافہ ہو گیا ہے، اور ان کیسز میں رواں سال مزید اضافہ ہوجائے گا۔

    تنظیم نے تحقیقاتی جائزوں کے بعد امکان ظاہر کیا ہے کہ دنیا بھر میں اس سال ایک کروڑ 81 لاکھ افراد کینسر کے مرض میں مبتلا ہوں گے اور 96 لاکھ افراد اس مرض سے ہلاک ہو جائیں گے۔

    آئی اے آر سی نامی تنظیم کی نظر 185 ملکوں میں 36 اقسام کے کینسر پر ہے، دقیق اور وسیع تحقیق کے بعد اس کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2012 کے مقابلے میں کینسر کے کیسز میں بہت اضافہ ہوا ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ افراد ایڈز کا شکار ہیں، رپورٹ


    رپورٹ کے مطابق 2012 میں ایک کروڑ 41 لاکھ افراد کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے تھے جب کہ 82 لاکھ افراد اس مرض سے ہلاک ہو گئے تھے جس کی بڑی وجہ دنیا کی آبادی اور عمروں میں اضافہ قرار دیا گیا۔

    تنظیم کے اندازے کے مطابق 2018 میں ہر پانچ میں سے ایک مرد اور ہر چھ میں سے ایک خاتون اس مرض میں مبتلا ہو گی، محققین کے مطابق کینسر سے شرح اموات کو کم کرنے میں ماہرین کو تاحال ناکامی کا سامنا ہے۔

  • خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    خودکشی سے روک تھام کا عالمی دن: اسباب، علامات اور تدارک

    احمد ایک کامیاب کاروباری شخص تھا، پھر کچھ یوں ہوا کہ اس کے حالات تیزی سے تنزلی کی طرف جانے لگے۔ اس نے ہر جانب ہاتھ پیر مارے، دوستوں اور رشتے داروں سے مدد طلب کی لیکن کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ حالات سے مایوس ہو کر اس نے ایک دن تنگ آکر خودکشی کا سوچنا شروع کردیا، وہ اپنے چند قریبی دوستوں کو بتاتا رہا کہ اگر اس کے مسائل حل نہ ہوئے تو وہ خود کشی کرلے گا۔

    صورتحال گھمبیر سے گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ رقم کا تقاضہ کرنے والوں کا دباؤ بڑھ رہا تھا، گھر والے بھی ان حالات کے لیے اسی کو قصور وار ٹہرا رہے تھے، اچھے وقتوں کے دوست اب فون اٹھانے سے کتراتے تھے کہ مبادا وہ رقم طلب نہ کرلے، بالآخر ایک دن اس نے فیصلہ کر ہی لیا۔

    میڈیکل اسٹور سے نیند کی گولیاں لیں اور اپنے بستر پر لیٹ کر اپنے معدے میں انڈیل لیں۔ اسے لگتا تھا کہ اب ایک پرسکون خاتمہ اس کے قریب ہے لیکن بروقت طبی امداد نے اس کی جان بچالی۔

    ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں احمد موجود ہیں، جو خودکشی کے دہانے پر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خودکشی کے خیال کو جنم دینے کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔

    یہ لوگ معاشرتی رویوں، گھریلو حالات، احساس کمتری، ناکام عملی یا ازدواجی زندگی، کسی بڑے صدمے یا نقصان کی وجہ سے ایک دھچکے کا شکار ہوتے ہیں اور اگر ان پر توجہ نہ دی جائے تو یہ خودکشی کی نہج پر پہنچ جاتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز نے آج خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے جاننے کی کوشش کی کہ کسی شخص میں خودکشی کے رجحان کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟ اور کیا ہم خودکشی کا ارادہ کیے ہوئے کسی شخص کو بچا سکتے ہیں، اگر ہاں تو کیسے؟

    سب سے پہلے تو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ خودکشی کرنے کے پیچھے کیا عوامل یا وجوہات ہوتی ہیں۔

    لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟

    خودکشی کا رجحان عموماً مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر فروغ پاتا ہے۔

    ڈپریشن کا شکار ہونا

    کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہونا جس میں موت بہت پرکشش لگتی ہو

    کسی شخص کو اس کام پر اکسایا جائے

    کسی کو مدد کی ضرورت ہو لیکن کوئی اس کی مدد کو نہ آئے اور وہ خود کو بے بس محسوس کرے

    کسی قسم کا ناقابل برداشت پچھتاوا، گہرا صدمہ یا بہت بڑا نقصان

    خودکشی کی خاندانی تاریخ موجود ہو تب بھی امکان ہے کہ کسی شخص میں خودکشی کا رجحان پایا جائے۔

    ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کے علاوہ دیگر دماغی امراض جیسے بائی پولر ڈس آرڈر یا شیزو فرینیا بھی خودکشی کی وجہ بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں منشیات اور الکوحل کے عادی افراد میں بھی خودکشی کا رجحان ہونے کا امکان ہوسکتا ہے۔

    اذیت پسندی جو ایک پرسنالٹی ڈس آرڈر ہے، بھی کسی کو خودکشی کی طرف مائل کرسکتی ہے۔

    ہمارے دماغ میں ڈوپامین نامی ایک کیمیائی مادہ پیدا ہوتا ہے جو ہمارے دماغ میں خوشی کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ اس مادے کی کمی بھی ہمیں اداسی، مایوسی اور ناخوشی کی طرف دھکیل دیتی ہے اور یہیں سے ڈپریشن جنم لیتا ہے۔

    اگر ڈپریشن کی بات کی جائے تو عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے، تو کیا ڈپریشن کے ہر مریض میں خودکشی کا امکان موجود ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سلیم بتاتے ہیں کہ ان کے پاس جب بھی کوئی ڈپریشن کا مریض آتا ہے تو وہ اس سے یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا اس کے دماغ میں خودکش خیالات تو نہیں آرہے؟

    ان کے مطابق خودکشی کا رجحان رکھنے والے لوگ عموماً اس بات کو چھپاتے نہیں، وہ ڈاکٹر کو بتا دیتے ہیں، علاوہ ازیں وہ اپنے آس پاس کے افراد سے بھی اس کا ذکر کرتے ہیں تاہم اس بات کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ جب کوئی شخص ایسا اظہار کرے کہ اس کی زندگی بے فائدہ ہے، اس کا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہے، اور وہ اپنے آپ سے بھی غافل ہوجائے تو یہ واضح نشانی ہے اور ایسی صورت میں آس پاس کے افراد کو چوکنا ہوجانا چاہیئے۔

    خودکشی کی عام علامات

    خودکشی کی سب سے عام علامت ڈپریشن کا شکار ہونا ہے اور بذات خود ڈپریشن کے مریض میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن پر آس پاس کے افراد کو دھیان دینا بہت ضروری ہے۔

    ان علامات میں مذکورہ شخص کی اداسی، دوستوں اور رشتہ داروں سے کٹ جانا، تنہائی میں وقت گزارنا، ناامیدی، ہر شے سے غیر دلچسپی، اپنے بارے میں منفی باتیں کرنا اور اس بات کا اظہار کرنا کہ اس کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی، موت اور خودکشی کی باتیں کرنا وغیرہ شامل ہے۔

    کہاں الرٹ ہونے کی ضرورت ہے؟

    ہنسی مذاق میں مرنے کی گفتگو کرنا علیحدہ بات ہے، لیکن جب آپ دیکھیں کہ سنجیدہ گفتگو کرتے کرتے کوئی شخص موت کی باتیں کرنے لگے، کوئی پریشان شخص موت یا خودکشی کے بارے میں کہے تو یہ معمولی بات نہیں۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق اس سے اگلا مرحلہ خودکشی کا طریقہ سوچنے کا ہے۔ مریض اس بات پر غور کرتا ہے کون سا طریقہ مرنے کے لیے موزوں رہے گا۔ وہ آپ کو لوگوں سے زہر یا نیند کی گولیوں کے بارے میں بھی معلومات لیتا نظر آئے گا۔

    ’خودکشی کرنے والا عموماً خاموشی سے اپنے ارادے کی تکمیل نہیں کرتا، وہ لوگوں سے اس کا تذکرہ کرتا ہے کیونکہ لاشعوری طور پر اس کی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی اس کی بات سن کر اس پر دھیان دے اور اسے اس انتہائی قدم سے روک لے۔ وہ اپنے آس پاس کے افراد کو بار بار اس کا اشارہ دیتے ہیں جبکہ وہ واضح طور پر کئی افراد کو یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ وہ خودکشی کرنے والے ہیں‘۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دوسرے شخص کو فوراً الرٹ ہو کر کوئی قدم اٹھانا چاہیئے۔

    اے آر وائی نیوز نے اس بارے میں ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹر طحہٰ صابری سے بھی گفتگو کی۔

    ان سے پوچھا گیا کہ کیا خودکشی کسی فوری واقعے کا ردعمل ہوتی ہے؟ یا ماضی میں پیش آنے والے بہت سے حالات و واقعات مل کر کسی شخص کو خودکشی پر آمادہ کرتے ہیں؟

    اس بارے میں طحہٰ صابری کہتے ہیں کہ یہ کہنا تھوڑا سا مشکل ہوگا کہ کب کس شخص کے ذہن میں خودکشی کا خیال آجائے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بارے میں بہت سی تحقیقات ہوئی ہیں، ضروری نہیں کہ طویل عرصے سے مایوسی کا شکار رہنے والے ہی خودکشی کی کوشش کریں، یہ فوری طور پر بھی وقوع پذیر ہوسکتی ہے جیسے گھریلو لڑائیوں میں کسی شخص کا خودکشی کرلینا، امتحان میں فیل ہوجانا۔ ایسی صورت میں صرف ایک یا 2 دن میں متاثرہ شخص خودکشی کے بارے میں سوچ کر اس پر عمل کر ڈالتا ہے۔

    خودکشی کرنا کمزوری کی علامت؟

    کہا جاتا ہے کہ خودکشی کرنے والے افراد کمزور ہوتے ہیں، کیا اپنی ہی جان لینے کے ارادے پر عمل کرنا طاقت اور مضبوط قوت ارادی کی نشاندہی نہیں؟

    اس بارے میں ڈاکٹر طحہٰ بتاتے ہیں کہ یہ دونوں ہی تصورات غلط ہیں۔ کوئی انسان خودکشی اس وقت کرتا ہے جب اسے کسی سے کوئی مدد نہ مل رہی ہو اور وہ اپنی زندگی سے بے حد مایوس ہوچکا ہو۔ ایسے میں موت ہی اسے آسان راہ فرار اور ذریعہ نجات نظر آتی ہے۔ ’کمزور ہونے یا مضبوط ہونے کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘۔

    کیا کسی شخص کی خودکشی کا ذمے دار معاشرے کو قرار دیا جاسکتا ہے؟

    ڈاکٹر طحہٰ کہتے ہیں کہ یقیناً یہ معاشرے کی ہی ناکامی ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کی مدد نہ کر سکی جب اسے لوگوں اور اداروں سے پہلے سے زیادہ مدد کی ضرورت تھی۔

    خودکشی کا رجحان کم کرنے میں ہم کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

    بحیثیت معاشرہ خودکشی کسی ایک فرد کا عمل نہیں۔ ایک خودکشی سے پورا خاندان ذہنی دباؤ میں آجاتا ہے خصوصاً بچوں پر اس کا بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔ چنانچہ اگر کسی معاشرے میں خودکشی کی شرح زیادہ ہے تو اس کے لیے ہر شخص ذمہ دار ہے۔

    تو پھر انفرادی طور پر ہم کسی کو خودکشی کی نہج پر پہنچنے سے بچانے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

    اس بارے میں ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ڈپریشن اور پریشانی کا شکار لوگوں کی مدد کی جائے۔

    ڈاکٹر طحہٰ کے مطابق، ’ڈپریشن کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ مریض کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کوئی اس کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا، اور اگر سن بھی لے تو اسے معمولی کہہ کر چٹکی میں اڑا دیتا ہے جبکہ متاثرہ شخص کی زندگی داؤ پر لگی ہوتی ہے‘۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ڈپریشن کے مریضوں کا صرف حال دل سن لیا جائے تو ان کا مرض آدھا ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا ہے کہ عام طبی امداد کی طرح سائیکٹرک فرسٹ ایڈ بھی ہوتی ہے اور وہ یہی ہوتی ہے کہ لوگوں کو سنا جائے۔ جو مسئلہ وجہ بن رہا ہے اس مسئلے کو سلجھانے پر زور دیا جائے، جیسے اوپر بیان کیے گئے احمد کے کیس میں اس کی رہنمائی کی جائے کہ وہ کس طرح سے اپنا قرض اتار سکتا ہے یا اس کے پاس کیا متبادل آپشن موجود ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب بھی کوئی شخص آپ کو اپنا مسئلہ بتائے تو اس کے کردار یا حالت پر فیصلے نہ دیں (جج نہ کریں) نہ ہی اس کے مسئلے کی اہمیت کو کم کریں۔ صرف ہمدردی سے سننا اور چند ہمت افزا جملے کہہ دینا بھی بہت ہوسکتا ہے۔

    اسی طرح لوگوں کو ڈپریشن کے علاج کی طرف بھی راغب کیا جائے۔ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ماہر نفسیات سے رجوع کرنے میں کوئی حرج نہیں، ایک صحت مند دماغ ہی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرسکتا ہے چنانچہ ذہنی علاج کی طرف بھی توجہ دیں۔

    اگر کسی نے خودکشی کا ارتکاب کر بھی لیا ہے تو اس کو مورد الزام نہ ٹہرائیں، نہ ہی ایسا ردعمل دیں جیسے اس نے کوئی بہت برا کام کر ڈالا ہو۔ اس سے دریافت کریں کہ اس نے یہ قدم کیوں اٹھایا۔ ایک بار خودکشی کا ارتکاب کرنے والے افراد میں دوبارہ خودکشی کرنے کا امکان بھی پیدا ہوسکتا ہے لہٰذا کوشش کریں کہ پہلی بار میں ان کی درست سمت میں رہنمائی کریں اور انہیں مدد دیں۔

    ایسی صورت میں بہت قریبی افراد اور اہلخانہ کو تمام رنجشیں بھلا کر متاثرہ شخص کی مدد کرنی چاہیئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی انا اور ضد کسی دوسرے شخص کی جان لے لے۔

    کیا مذہب سے تعلق اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟

    اس بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام میں خودکشی کو حرام کہا گیا ہے۔ کیونکہ انسان ناامیدی اور مایوسی کی آخری حد پر پہنچ کر خودکشی کرتا ہے اور مایوسی کو کفر قرار دیا گیا ہے۔

    ’خدا سے قریب ہونا آپ کو ایک امید دیتا ہے کہ نہیں کوئی نہ کوئی ہے جو مسئلے کا حل نکال دے گا، آپ میں مثبت خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ برا وقت جلد ختم ہوگا اور اچھا وقت بھی آئے گا‘۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق عبادت کرنا اور خدا کے آگے گڑگڑانا کتھارسس کا ایک ذریعہ ہے جو انسان کو بہت ہلکا پھلکا کردیتا ہے۔

    خودکشی کی روک تھام کا عالمی ادارہ

    دنیا بھر میں خودکشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے آئی اے ایس پی (انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پریوینشن) کے سربراہ اس وقت ایک پاکستانی ڈاکٹر مراد موسیٰ ہیں۔ ڈاکٹر مراد اس ادارے کی سربراہی کرنے والے پہلے ایشیائی اور پہلے پاکستانی شخص ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں ذہنی صحت، صحت کی پالیسی میں ترجیح نہیں ہے، اس بارے میں بہت کم تحقیق ہوئی ہے لہٰذا پاکستان میں خودکشی کی درست شرح بھی مصدقہ نہیں۔

    ان کے مطابق ہر سال ملک میں تقریباً ڈیڑھ سے 3 لاکھ کے قریب افراد خودکشی کی کوشش کرتے ہیں جن میں سے 13 سے 15 ہزار کوششیں کامیاب ہوجاتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ اندازاً پاکستان کی 20 فیصد آبادی ذہنی امراض کا شکار ہے جن میں سے 80 فیصد علاج اور درست رہنمائی سے محروم رہتے ہیں۔

    ڈاکٹر مراد کے مطابق ذہنی صحت کے بارے صحیح معنوں میں توجہ سنہ 2016 کے بعد سے دینی شروع کی گئی جب آرمی پبلک اسکول کے بھیانک حادثے میں بچ جانے والوں کی ذہنی کیفیت خطرناک سطح پر پہنچ گئی۔ اس وقت ذہنی صحت کی بہتری کی طرف توجہ دی گئی اور حکومت نے بھی اس سلسلے میں اقدامات شروع کیے۔

    خودکشی کی روک تھام کے عالمی ادارے کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر مراد کا کہنا تھا کہ یہ سوسائٹی دنیا بھر میں ذہنی صحت کی آگاہی اور شعور کے فروغ کے لیے کام کر رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ ادارے کی ایک ہیلپ لائن بھی قائم کی گئی ہے جہاں مریض فون کر کے اپنے مسائل بتا سکتے ہیں۔

    ان کے مطابق ’پاکستان میں ذہنی صحت ایک متنازعہ اور نظر انداز کیا جانے والا مسئلہ ہے، اور اس مسئلے کو ایک قدم آگے بڑھ کر سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے‘۔

  • پنجاب حکومت کا 2 حصوں میں تقسیم محکمہ صحت کو ایک بنانے کا فیصلہ

    پنجاب حکومت کا 2 حصوں میں تقسیم محکمہ صحت کو ایک بنانے کا فیصلہ

    لاہور: پنجاب حکومت نے 2 حصوں میں تقسیم محکمہ صحت کو ایک بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ محکمہ صحت کو گزشتہ حکومت نے 2 حصوں میں تقسیم کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے ایک اور بڑا قدم اٹھاتے ہوئے 2 حصوں میں تقسیم محکمہ صحت کو ایک بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    محکمہ صحت کو گزشتہ حکومت نے 2 حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ ایک حصہ پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ جبکہ دوسرا اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر بنایا گیا تھا۔ دونوں شعبوں کے الگ الگ سیکریٹریز اور وزیر تھے۔

    موجودہ حکومت کے فیصلے کے بعد محکمہ صحت کا ایک سیکریٹری اور ایک ہی وزیر ہوگا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ فیصلے کی باقاعدہ منظوری جلد پنجاب کابینہ سے لی جائے گی، محکمہ صحت میں ایک سیکریٹری اور 2 اسپیشل سیکریٹری تعینات ہوں گے۔

    محکمہ صحت میں اسپیشل سیکریٹری ون اسپیشلائزڈ ہیلتھ کے معاملات کا ذمے دار ہوگا جبکہ اسپیشل سیکریٹری ٹو پرائمری صحت اور پروگرامز کی نگرانی کا ذمے دار ہوگا۔

    خیال رہے کہ صوبہ پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد یاسمین راشد کو صوبائی وزیر صحت مقرر کیا گیا تھا۔

  • دماغ کو دھوکہ دے کر شفایاب کرنے والا خطرناک زہر

    دماغ کو دھوکہ دے کر شفایاب کرنے والا خطرناک زہر

    کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی شے بیکار نہیں ہوتی، ویسے تو خدا نے جانوروں کو خطرناک زہر اس لیے دیا ہے کہ وہ اس سے اپنا دفاع کرسکیں اور دشمن کو مار گرائیں، لیکن خدا نے اپنی اشرف المخلوقات یعنی انسان کے لیے اس میں بھی فائدے رکھے ہیں۔

    آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمیں دی جانے والی بہت سی دوائیں کسی نہ کسی جانور کے زہر سے تیار شدہ ہوتی ہیں۔ آج ہم آپ کو ایسی ہی ایک اور دوا سے متعارف کروانے جارہے ہیں۔

    اپنی سستی کے لیے مشہور جانور گھونگھے کا زہر دنیا کے خطناک ترین زہروں میں سے ایک ہے، تاہم اس سے ان مریضوں کے لیے ایسی درد کش دوا پرایالٹ بنائی جاتی ہے جو اپنے مرض کے آگے بالکل بے بس ہوچکے ہوں اور کوئی دوا ان پر اثر نہ کرے۔

    کسی بھی درد کو ختم کرنے کے لیے مورفین ایک عام درد کش دوا ہے تاہم اس کے سائیڈ افیکٹس بھی بہت زیادہ ہیں جبکہ یہ انسانی جسم کو اپنا عادی بنا لیتا ہے۔

    اس کے برعکس گھونگھے کے زہر سے تیار کی جانے والی دوا، مورفین سے 100 گنا زیادہ طاقتور اور نہایت کم خوارکوں میں اپنا اثر دکھانے والی ہے جبکہ جسم کو کسی قسم کا نقصان بھی نہیں پہنچاتی۔

    یہ زہر آبی گھونگھے کی ایک نسل کے زہر میں موجود ایک جز سے تیار کی جاتی ہے۔ اس زہر کے اندر موجود زیادہ تر اجزا انسانی جسم کے لیے نہایت خطرناک ہیں۔ صرف یہی ایک جز ایسا ہے جو فائدہ مند ہے۔

    اس کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب گھونگھا مچھلیوں کو اپنا شکار بناتا ہے تو پہلے وہ ان پر اپنا زہر پھینکتا ہے جس سے وہ مفلوج ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد گھونگھا باآسانی انہیں کھا لیتا ہے۔

    یہ دوا اس وقت دی جاتی ہے جب مورفین اپنا اثر کھو دیتی ہے۔ اس دوا کو بہت شدید قسم کے درد کے موقع پر استعمال کیا جاتا ہے۔

    پرایالٹ نامی اس دوا میں صرف ایک خرابی یہ ہے کہ یہ اس جھلی کو پار نہیں کرسکتی جو خون میں موجود مضر اجزا کو دماغ میں جانے سے روکتی ہے۔ اس جھلی کو بلڈ برین ممبرین کہا جاتا ہے۔

    یہ جھلی خون میں موجود مضر اور زہریلے اجزا کو دماغ میں جانے سے روکتی ہے۔

    پرایالٹ جب تک دماغ میں نہیں جاتی اپنا اثر نہیں دکھاتی۔ چنانچہ اس دوا کو براہ راست ریڑھ کی ہڈی کے اس حصے میں لگایا جاتا ہے جہاں سے یہ دماغ تک باآسانی پہنچ سکے۔

    ماہرین نے اس طریقے کو آسان کرنے کے لیے ایک اور طریقہ ’ٹروجن ہارس کی حکمت عملی‘ کو بھی اپنایا ہے۔

    یہ حکمت عملی ایک تاریخی واقعے کی یاد دلاتی ہے۔ بارہویں صدی قبل مسیح میں جب ایک تاریخی شہر ٹرائے کی شہزادی ہیلن کو اغوا کرلیا گیا تھا تو اس کے لوگوں نے اسے بچانے کے لیے ایک بڑا سا لکڑی کا گھوڑا تیار کیا۔ اس گھوڑے کے اندر ہزاروں کی تعداد میں سپاہی موجود تھے۔

    یہ گھوڑا دشمن بادشاہ کے لیے ایک تحفے کی صورت بھیجا گیا جسے قبول کر کے قلعے کے اندر لے آیا گیا۔ رات کی تاریکی میں گھوڑے کے دروازے کھلے اور اندر سے لاتعداد جنگجو سپاہیوں نے برآمد ہو کر جنگ شروع کردی اور اپنی شہزادی کو واپس چھڑا لے آئے۔

    طب میں بھی یہ حکمت عملی استعمال کی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: بچھو کا زہر حاصل کرنے کے لیے مشین تیار

    پرایالٹ کو دماغ تک پہنچانے کے لیے نینو کنٹینر نامی ننھے سے اجزا میں اس دوا کو ڈالا جاتا ہے۔ یہ ننھے اجزا ہر قسم کی جھلی کو پار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں چنانچہ یہ دماغ کی جھلی کے پار جا کر دوا کو دماغ کے اندر داخل کر دیتے ہیں۔

    ماہرین اب اس پر کام کر رہے ہیں کہ کسی طرح اس کو کیپسول کی شکل دی جائے تاکہ یہ عام دواؤں کی طرح کھایا جاسکے۔

  • پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان میں پائے جانے والے عام ذہنی امراض

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت دماغی امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دماغی امراض کی سب سے عام قسم ڈپریشن ہے جو دنیا بھر میں 30 کروڑ افراد کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔

    تاہم اس مرض کے علاوہ بھی ذہنی امراض کی کئی اقسام ہیں جو تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

    پاکستان میں بھی پریشان کن حالات، غربت، بے روزگاری، دہشت گردی، امن و امان کا مسئلہ، مہنگائی، اور اس جیسے کئی مسائل لوگوں کو مختلف ذہنی پیچیدگیوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر ابتدا میں ہی ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص کر کے ان کا مناسب علاج کیا جائے تو ان پر قابو پایا جاسکتا ہے بصورت دیگر یہ خطرناک صورت اختیار کرسکتے ہیں۔

    آج ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان میں وہ کون سے عام ذہنی امراض ہیں جو تیزی کے ساتھ ہمیں اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔


    ڈپریشن

    ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو ابتدا میں موڈ میں غیر متوقع تبدیلیاں پیدا کرتا ہے۔ بعد ازاں یہ جسمانی و ذہنی طور پر شدید طور پر متاثر کرتا ہے۔

    علامات

    ڈپریشن کی عام علامات یہ ہیں۔

    مزاج میں تبدیلی ہونا جیسے اداسی، مایوسی، غصہ، چڑچڑاہٹ، بے زاری، عدم توجہی وغیرہ

    منفی خیالات کا دماغ پر حاوی ہوجانا

    ڈپریشن شدید ہونے کی صورت میں خودکش خیالات بھی آنے لگتے ہیں اور مریض اپنی زندگی کے خاتمے کے بارے میں سوچتا ہے۔

    موڈ میں تبدیلیاں لانے والے ایک اور مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈپریشن کی علامات اور سدباب جانیں


    اینگزائٹی یا پینک

    اینگزائٹی یعنی بے چینی اور پینک یعنی خوف اس وقت ذہنی امراض کی فہرست میں ڈپریشن کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔

    اس ڈس آرڈر کا تعلق ڈپریشن سے بھی جڑا ہوا ہے اور یہ یا تو ڈپریشن کے باعث پیدا ہوتا ہے، یا پھر ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔

    علامات

    اس مرض کی علامات یہ ہیں۔

    بغیر کسی سبب کے گھبراہٹ یا بے چینی

    کسی بھی قسم کا شدید خوف

    خوف کے باعث ٹھنڈے پسینے آنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر آنا وغیرہ

    بغیر کسی طبی وجہ کے درد یا الرجی ہونا

    اینگزائٹی بعض اوقات شدید قسم کے منفی خیالات کے باعث بھی پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات آنا بذات خود ایک ذہنی پیچیدگی ہے۔

    مزید پڑھیں: اینگزائٹی سے بچنے کے لیے یہ عادات اپنائیں


    کنورزن ڈس آرڈر

    دماغی امراض کی ایک اور قسم کنورزن ڈس آرڈر ہے جس میں مختلف طبی مسائل نہایت شدید معلوم ہوتے ہیں۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کے پاؤں میں چوٹ لگی ہے تو آپ سمجھیں گے یہ چوٹ بہت شدید ہے اور اس کی وجہ سے آپ کا پاؤں مفلوج ہوگیا ہے۔

    یہ سوچ اس قدر حاوی ہوجائے گی کہ جب آپ اپنا پاؤں اٹھانے کی کوشش کریں گے تو آپ اس میں ناکام ہوجائیں گے اور پاؤں کو حرکت نہیں دے سکیں گے، کیونکہ یہ آپ کا دماغ ہے جو آپ کے پاؤں کو حرکت نہیں دے رہا۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں مفروضات اور ان کی حقیقت

    لیکن جب آپ ڈاکٹر کے پاس جائیں گے تو آپ کو علم ہوگا کہ آپ کے پاؤں کو لگنے والی چوٹ ہرگز اتنی نہیں تھی جو آپ کو مفلوج کرسکتی۔ ڈاکٹر آپ کو چند ایک ورزشیں کروائے گا جس کے بعد آپ کا پاؤں پھر سے پہلے کی طرح معمول کے مطابق کام کرے گا۔

    اس ڈس آرڈر کا شکار افراد کو مختلف جسمانی درد اور تکالیف محسوس ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ تکلیف اپنا وجود نہیں رکھتی، لیکن دراصل یہ مریض کے دماغ کی پیدا کردہ تکلیف ہوتی ہے جو ختم بھی خیال کو تبدیل کرنے کے بعد ہوتی ہے۔


    خیالی تصورات

    ذہنی امراض کی ایک اور قسم خیالی چیزوں اور واقعات کو محسوس کرنا ہے جسے سائیکوٹک ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔

    اس میں مریض ایسے غیر حقیقی واقعات کو ہوتا محسوس کرتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس مرض کا شکار افراد کو غیر حقیقی اشیا سنائی اور دکھائی دیتی ہیں۔

    اسی طرح ان کے خیالات بھی نہایت نا معقول قسم کے ہوجاتے ہیں جن کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔


    اوبسیسو کمپلزو ڈس

    او سی ڈی کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض کسی ایک خیال یا کام کی طرف بار بار متوجہ ہونا ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد بار بار ہاتھ دھونے، دروازوں کے لاک چیک کرنے یا اس قسم کا کوئی دوسرا کام شدت سے کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

    بعض بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس دماغی عارضے کا شکار ہیں اور اس کا ثبوت ان کا اپنی میز پر بیٹھتے ہی اپنے سامنے رکھی چیزوں کو دور ہٹا دینا ہے۔

  • خالی پیٹ یہ کام کرنے سے گریز کریں

    خالی پیٹ یہ کام کرنے سے گریز کریں

    بھوک لگنے کی کیفیت میں آپ کی سب سے پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیئے کہ اگر کھانے کا وقت ہے تو کھانا کھایا جائے اور بے وقت کی بھوک ہے تو صحت مند غذائی شے کھالی جائے۔

    ماہرین خالی پیٹ خصوصاً صبح اٹھنے کے بعد کچھ غذائیں کھانے سے منع کرتے ہیں جن کی فہرست آپ یہاں جان سکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ بھی کئی ایسے کام ہیں جو ماہرین کے مطابق خالی پیٹ آپ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ آئیں جانیں وہ کون سے کام ہیں۔


    ورزش کرنا

    صبح اٹھ کر بغیر کچھ کھائے پیئے ورزش کرنا آپ کا وزن تو کم کرے گا لیکن یہ آپ پر منفی اثرات مرتب کرے گا۔ وہ اس لیے کیونکہ خالی پیٹ کی جانے والی ورزش مسلز کو گھٹاتی ہے جبکہ جسم کی چربی جوں کی توں برقرار رہتی ہے۔

    اس کے علاوہ جسمانی مشقت معدے میں گیسٹرک جوس بھی پیدا کرتی ہے جو خالی معدے کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتا ہے۔


    چیونگم کھانا

    خالی پیٹ اٹھ کر بغیر کچھ کھائے پیئے چیونگم کھانا جسم میں کھانا ہضم کرنے والے ایسڈ کو پیدا کرتا ہے۔

    یہ ایسڈ کھانا ہضم کرنے کے لیے تو فائدہ مند ہے تاہم خالی معدے میں یہ معدے کی دیواروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے جبکہ اس سے آپ کو گیس کی شکایت بھی پیدا ہوسکتی ہے۔


    سونا

    رات کو بھوکے سوجانا آپ کی نیند کو متاثر کرسکتا ہے جس سے آپ ٹھیک طرح سو نہیں پائیں گے اور اگلی صبح تھکن اور غنودگی کا شکار ہوں گے۔

    علاوہ ازیں اگلی صبح آپ کا دماغ آپ کو زیادہ کھانے کی طرف مائل کرے گا جس کا نتیجہ موٹاپے کی صورت میں برآمد ہوسکتا ہے۔

    سونے سے قبل نیم گرم دودھ کا ایک گلاس اچھی نیند لانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔


    بحث و تکرار

    خالی پیٹ کسی سے بھی بحث کرنے سے گریز کریں۔ ایک اچھی بحث کرنے کے لیے آپ کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے جو اسی وقت میسر آتی ہے جب آپ نے ایک صحت مند کھانا کھایا ہو۔

    خالی پیٹ بحث مباحثہ کرنا معمولی سی بات کو بہت بڑھا سکتا ہے کیونکہ اس وقت آپ کا خود پر کنٹرول کم اور چڑچڑاہٹ زیادہ ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: بعض لوگ بھوکے ہو کر غصہ میں کیوں آجاتے ہیں؟


    شاپنگ کرنا

    کبھی بھی کھانا کھائے بغیر شاپنگ کرنے کے لیے مت جائیں۔ یہ آپ کو زیادہ اور بے مصرف اشیا خریدنے پر اکسا سکتا ہے۔

    شاپنگ کے بعد جب آپ کچھ کھانے کے لیے بیٹھیں گے تو وہاں بھی آپ مہنگی اور زیادہ اشیا کا آرڈر دیں گے جو آپ کی جیب پر بھاری پڑ سکتا ہے۔


    دوائیں کھانا

    بعض دوائیں خالی پیٹ کھانے کی ہوتی ہیں تاہم اس کے لیے ڈاکٹر کی ہدایت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ خالی پیٹ دوائیں لینے سے گریز کریں۔

    خالی معدے میں دوا کا اثر کم ہوجاتا ہے علاوہ ازیں آپ کو گیس کی شکایت بھی ہوسکتی ہے۔ دوا کھانے سے پہلے ایک گلاس دودھ کا لے لیں یا پانی پی کر ایک چکر واش روم کا لگائیں۔

  • نیند کی کمی آپ کو کن بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے؟

    نیند کی کمی آپ کو کن بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں نیند کی کمی آپ پر کیا اثرات مرتب کرتی ہے اور آپ کو کن بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے؟

    ماہرین کے مطابق ایک نارمل انسان کے لیے 8 گھنٹے کی نیند لینا از حد ضروری ہے۔ اگر یہ دورانیہ اس سے کم یا اس سے زیادہ ہو تو کئی قسم کی جسمانی و ذہنی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: نیند لانے کے 5 آزمودہ طریقے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کی کمی آپ پر ہر طرح کے منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ منفی اثرات کون سے ہیں۔


    ڈپریشن

    h6

    ایک تحقیق کے مطابق نیند کی کمی آپ کو تھکن کا شکار کر سکتی ہے جس کے بعد آپ چڑچڑے پن کا شکار ہوجائیں گے اور صحیح سے اپنے روزمرہ کے کام سرانجام نہیں دے پائیں گے۔

    یہ چڑچڑاہٹ آگے چل کر ڈپریشن میں تبدیل ہوسکتی ہے۔


    توجہ کی کمی

    h5

    اگر آپ نے اپنی نیند پوری نہیں کی تو آپ کا دماغ غیر حاضر رہے گا جس کے باعث آپ کسی چیز پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پائیں گے۔

    یہ صورتحال آگے چل کر اے ڈی ایچ ڈی یعنی اٹینشن ڈیفسٹ ہائپر ایکوٹیوٹی ڈس آرڈر میں تبدیل ہوجائے گی جس کا شکار شخص کسی بھی چیز پر تسلسل سے اپنا دھیان مرکوز نہیں کر سکتا۔


    ذیابیطس

    h4

    نیند کی کمی آپ کے جسم میں موجود انسولین کے ہارمون کی کارکردگی کو متاثر کرے گی۔ انسولین ہماری غذا میں موجود شکر کو جذب کرتا ہے جس کے باعث یہ ہمارے جسم کا حصہ نہیں بن پاتی۔ اگر یہ ہارمون کام کرنا چھوڑ دے تو جسم میں شکر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس سے ذیابیطس کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

    اس بیماری کا واحد علاج مصنوعی طریقہ سے جسم میں انسولین داخل کرنا ہی ہے۔


    ہائی بلڈ پریشر

    h3

    نیند کی کمی بلڈ پریشر میں اضافہ کرتی ہے اور آپ کو ہائی بلڈ پریشر کا مریض بنا سکتی ہے۔


    کولیسٹرول میں اضافہ

    h2

    نیند کی کمی سے آپ کے جسم میں کولیسٹرول کی سطح میں اضافہ ہوسکتا ہے جس سے آپ موٹاپے اور امراض قلب سمیت کئی بیماریوں کا شکار بن سکتے ہیں۔

  • پاکستان میں پہلی بار تھیلیسمیا میں مبتلا بچی کا کامیاب آپریشن

    پاکستان میں پہلی بار تھیلیسمیا میں مبتلا بچی کا کامیاب آپریشن

    لاہور: پاکستان میں پہلی بار تھیلیسمیا میں مبتلا بچی کا کامیاب آپریشن انجام پاگیا۔ متاثرہ بچی کی عمر صرف 5 سال ہے۔

    تفصیلات کے مطابق تھیلیسمیا میں مبتلا 5 سال کی بچی کا پاکستان میں پہلا کامیاب آپریشن انجام پا گیا۔ ڈاکٹر معاذ نے بچی کے پیٹ سے متاثرہ تلی نکال لی۔

    5 سال کی بچی ایمن کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر وہاڑی سے ہے، بچی پیدائشی طور پر تھیلیسمیا کے مرض میں مبتلا تھی اور اسے ایک ہفتے میں 4 سے 5 مرتبہ خون تبدیل کروایا جاتا تھا۔

    ڈاکٹرز کے مطابق بچی کی تلی 80 فیصد تک بڑھ چکی تھی تاہم اب کامیاب آپریشن کے بعد بچی کو اب ہفتے میں صرف ایک مرتبہ خون تبدیل کروانا ہوگا۔

    بچی کا کامیاب آپریشن کیمرے کے ذریعے کیا گیا۔ یہ پہلی بار ہے جب پاکستان میں اتنی کم عمر بچی کی تلی نکالی گئی ہے۔

    خیال رہے کہ خون کا مہلک مرض تھیلیسمیا موروثی مرض ہے جو والدین سے بچوں کو ملتا ہے۔ یہ مرض خون کے خلیوں کی ابنارملٹی کی علامت ہے جس کے باعث خون بننے کا عمل رک جاتا ہے۔

    تھیلیسمیا کے مریضوں کو بار بار خون کی ضرورت پڑتی ہے۔

    اس مرض کا شکار افراد اور بچے تھکے تھکے اور دیگر افراد کی نسبت غیر متحرک ہوتے ہیں۔ تھیلیسمیا کے باعث ان کی جلد زرد ہوجاتی ہے جبکہ انہیں ہڈیوں میں تکالیف کے امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔

    پاکستان تھیلیسمیا سینٹر کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 ہزار بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جو تھیلیسمیا کا شکار ہوتے ہیں۔

  • جان بچانے کے بارے میں 7 غلط تصورات

    جان بچانے کے بارے میں 7 غلط تصورات

    عرصہ دراز سے ہماری جسم اور صحت کے بارے میں مختلف تصورات قائم ہیں۔ یہ تصورات یا ٹوٹکے جنہیں ہم اپنے، اور ہمارے والدین اپنے بچپن سے سنتے آر ہے ہیں، ہمارے ذہنوں میں بیٹھ چکے ہیں۔

    لیکن نئے دور میں ہونے والی نئی نئی تحقیقوں کے باعث ان میں سے کئی تصورات غلط ثابت ہوتے گئے۔ ان میں سے کچھ تصورات ایسے تھے جو کسی ہنگامی صورتحال میں جان بچانے کے بارے میں قائم تھے۔

    مزید پڑھیں: جسم کو نقصان پہنچانے والے 5 غلط تصورات

    لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جان بچانے کے بارے میں یہ غلط فہمیاں ہماری جان بچانے کے بجائے ہمیں موت سے بھی ہمکنار کرسکتی ہیں۔

    آئیے آپ بھی ان غلط تصورات سے واقفیت حاصل کیجیئے تاکہ آپ لاعلمی میں اپنی جان سے نہ کھیل جائیں۔


    سانپ کے کاٹنے کی صورت میں

    2

    ایک عام تصور یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو سانپ کاٹ لے تو اس کے قریب موجود کسی شخص کو اس کا زہر چوس کر پھینک دینا چاہیئے۔

    اس طریقے سے شاید آپ سانپ کے زہر کا شکار شخص کو تو بچالیں گے، لیکن آپ کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔

    سانپ کے زہر کو چوسنا آپ کے منہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ فوراً ایمبولینس کو بلایا جائے تاکہ ایمبولینس میں موجود تربیت یافتہ عملہ مریض کو ابتدائی امداد دے سکے۔


    ہائپو تھرمیا

    1

    ہائپو تھرمیا ایک ہنگامی طبی صورتحال ہے جس میں جسم کا درجہ حرارت خطرناک حد تک نیچے گر جاتا ہے۔ عام طور پر ایسے شخص کے لیے ابتدائی امداد یہ سمجھی جاتی ہے کہ اسے گرم پانی کے ٹب میں لٹا دیا جائے لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے۔

    گرم پانی کا ٹب ایک دم سرد جسم کو تیز گرمی فراہم کرے گا جو اسے مفلوج کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    اس کے برعکس ہائپو تھرمیا کے شکار شخص کو خشک رکھتے ہوئے اسے گرم رکھیں۔ اسے گرم کپڑے پہنائیں اور کمبل اڑھا دیں۔ اس طریقے سے آہستہ آہستہ اس کا جسم کا درجہ حرارت معمول پر آجائے گا۔


    شارک کا حملہ

    3

    اگر آپ زیر سمندر تیراکی کر رہے ہوں اور شارک آپ پر حملہ کرنے کے لیے آئے تو لازماً آپ کو ہاتھا پائی کے ذریعے اسے خود سے دور رکھنا ہے۔

    ایسی صورت میں یاد رکھیں کہ شارک کے چہرے کو نشانہ بنانے کے بجائے اس کے کمزور اعضا یعنی پھیپھڑوں اور آنکھوں کو نشانہ بنائیں۔


    ریچھ کے حملے کی صورت میں

    اگر آپ کسی فیلڈ وزٹ پر جنگل یا شہر سے دور کسی علاقے میں ہیں جہاں جنگلی حیات موجود ہوں تو آپ کو جانوروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

    اگر آپ کا سامنا ریچھ سے ہو تو پرانی کہانیوں کے مطابق اس کے سامنے مردہ بن کر لیٹنے کی ضرورت نہیں۔

    اس کے برعکس آپ ساکت ہوجائیں اور آہستہ آہستہ اسے مشتعل کیے بغیر پیچھے ہٹتے جائیں۔


    جنگل میں بھٹکنے کی صورت میں

    5

    اگر کسی موقع پر آپ جنگل میں بھٹک جائیں تو اپنے لیے پناہ یا کھانے کی تلاش سے قبل پانی تلاش کریں۔ آپ کچھ کھائے بغیر کئی دن زندہ رہ سکتے ہیں مگر پانی کے بغیر ایک دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتے۔


    جنگل میں خوراک کی تلاش

    6

    اگر آپ جنگل میں کسی جانور کو کوئی پودا کھاتے ہوئے دیکھیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بھی وہ شے کھا سکتے ہیں۔

    جنگلوں یا صحرائی علاقوں میں صرف وہی شے کھائیں جنہیں آپ نے اس سے قبل کھایا ہو یعنی آپ انہیں اچھی طرح پہچانتے ہوں۔


    صحرا میں پانی کی تلاش

    7

    عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ صحرائی پودے کیکٹس میں موجود مادہ پینے کے قابل ہوتا ہے۔ دراصل کیکٹس کی صرف چند اقسام ایسی ہوتی ہیں جن میں موجود پانی پیا جاسکتا ہے۔

    علاوہ ازیں غیر موزوں پانی انسان اور جانور دونوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔