Tag: صحت کی خبریں

  • ہیپاٹائٹس سی: 2030 تک ایک کروڑ 65 لاکھ افراد کی اسکریننگ ہوگی، وزیر اعظم

    ہیپاٹائٹس سی: 2030 تک ایک کروڑ 65 لاکھ افراد کی اسکریننگ ہوگی، وزیر اعظم

    اسلام آباد: آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں عالمی یوم ہیپاٹائٹس منایا جا رہا ہے، اس سلسلے میں وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ 2030 تک ایک کروڑ 65 لاکھ افراد کی اسکریننگ ہوگی۔

    وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر مملکت آصف علی زرداری نے ہیپاٹائٹس کے عالمی دن کے موقع پر پیغام جاری کیے ہیں، وزیر اعظم نے کہا پاکستان عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس مرض کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔

    انھوں نے کہا وائرل ہیپاٹائٹس عالمی چیلنج ہے، پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں ہیپاٹائٹس سی کی شرح تشویشناک ہے، ہیپاٹائٹس بی اور سی سے متاثرہ بہت سے افراد تشخیص اور علاج کے بغیر رہ جاتے ہیں، اس لیے حکومت نے اس کے خاتمے کے لیے قومی پروگرام شروع کیا ہے، جس کے تحت 2030 تک ایک کروڑ 65 لاکھ افراد کی اسکریننگ ہوگی، اور مثبت کیسز کا مفت علاج کیا جائے گا۔

    صدر آصف علی زرداری نے اپنے پیغام میں کہا ہیپاٹائٹس پاکستان میں صحت عامہ کا سنگین مسئلہ ہے، یہ مرض اکثر ایسی اسٹیج پر ظاہر ہوتا ہے جب جگر کو شدید نقصان پہنچ چکا ہو، اگر بروقت اقدامات کیے جائیں تو یہ قابل علاج مرض ہے۔

    انھوں نے کہا غیر مؤثر طبی سہولیات کے باعث بڑی تعداد میں لوگ اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں، ہم صحت مند پاکستان کے لیے اپنی اجتماعی ذمہ داری کا اعادہ کرتے ہیں۔

  • ویڈیو رپورٹ: پاکستان میں کچھ امراض سے اموات میں اضافہ ہو جائے گا، بین الاقوامی جریدے کا انکشاف

    ویڈیو رپورٹ: پاکستان میں کچھ امراض سے اموات میں اضافہ ہو جائے گا، بین الاقوامی جریدے کا انکشاف

    پاکستان میں غیر متعدی امراض سے کم عمری کی اموات میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، برطانوی طبی جریدے لینسٹ گلوبل ہیلتھ کی رپورٹ میں اموات کی وجہ امراض قلب، ذیابیطس اور سرطان سب سے بڑا سبب قرار دیا گیا ہے۔

    پاکستان میں 2040 تک غیر متعدی امراض (نان کمیونیکیبل ڈیزیز) اموات کا ایک بڑا سبب ہوں گی، اس بات کا انکشاف برطانوی طبی جریدے لینسٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہونے والے ایک جائزے میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں 60 فی صد اموات غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔


    ویڈیو رپورٹ: کراچی والوں کی جائیدادوں پر ڈاکا، رجسٹرار آفس کے سرکاری افسران ریکارڈ میں ہیر پھیر کرنے لگے


    تحقیق میں پاکستان میں امراض قلب، ذیابیطس اور سرطان کے باعث ہونے والی کم عمری کی اموات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ ان اموات کے 10 بڑے اسباب میں اسکیمک ہارٹ ڈیزیز، اسٹروک، پیدائشی جسمانی نقائص، جگر کی اور گردوں کے مرض کو اموات کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دل کی بیماری، کینسر اور ذیابیطس جیسی غیر متعدی بیماریاں عالمی سطح پر 74 فی صد اموات کی وجہ ہیں، جب کہ 86 فی صد اموات ترقی پذیر ممالک کی لوئر مڈل کلاس میں ہوتی ہیں، جہاں علاج کی مطلوبہ سہولیات کا حصول ایک بنیادی مسئلہ ہے۔


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں


  • فاسٹ فوڈ دماغ کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے؟ سائنس دانوں کی دل دہلا دینے والی تحقیق

    فاسٹ فوڈ دماغ کو کیسے نقصان پہنچاتا ہے؟ سائنس دانوں کی دل دہلا دینے والی تحقیق

    سڈنی یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق کے نتائج میں یہ انکشاف کیا ہے کہ فاسٹ فوڈ دماغ کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    گزشتہ ماہ اپریل میں انٹرنیشنل جرنل آف اوبیسٹی میں شائع شدہ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ تو پہلے سے جانتے ہیں کہ سیر شدہ چکنائی (saturated fat) اور ریفائنڈ شوگر کے زیادہ استعمال سے ہمارے جسم پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم اب انسانوں پر اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میں سائنس دانوں کو معلوم ہوا ہے کہ یہ ہمارے دماغ کے ایک مخصوص حصے پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں۔

    سائنس دانوں نے ورچوئل رئیلٹی (VR) سسٹم کا استعمال کرتے ہوئے تحقیق کے دوران پایا کہ چکنائی اور شوگر کی زیادہ مقدار کھانے سے ’’مقامی نیویگیشن‘‘ (کسی جگہ یا ماحول میں اپنی پوزیشن کو سمجھنے، راستوں کو یاد رکھنے کی صلاحیت) اور یادداشت کی خرابی کا خدشہ ہے، سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ اس سے قبل چوہوں پر کیے جانے والی تحقیقات کے نتائج بھی اس سے ملتے جلتے تھے۔

    فاسٹ فوڈ دماغ

    اس ریسرچ اسٹڈی کے دوران 120 نوجوان بالغ افراد نے غذائی چکنائی اور شکر کی جانچ (DFS) کرائی، تاکہ محققین گزشتہ بارہ مہینوں کے دوران اندازہ لگا سکیں کہ انھوں نے اوسطاً کتنی شکر اور غذائی چکنائی کھائی۔ اس کے بعد انھیں سر پر ایک ورچوئل رئیلٹی ہیڈ سیٹ پہنائے گئے، اور انھیں تھری ڈی بھول بھلیاں گیم کھیلنے دیا گیا، کہ اس میں راستہ تلاش کریں، بھول بھلیاں میں خزانے تک پہنچنے کے لیے کچھ اشارے بھی دیے گئے تھے، جنھیں سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا تھا۔

    شرکا نے یہ کھیل 6 بار کھیلا، ان میں سے جنھوں نے 4 منٹ سے کم وقت میں راستہ تلاش کر کے خزانے تک رسائی کی، وہ اگلی کوشش کی طرف بڑھ گئے، اور جو اس ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام ہوئے تو انھیں ورچوئلی خزانے کے لوکیشن تک پہنچایا گیا جہاں انھوں نے اگلی کوشش کے لیے رہنما اشارے دیکھے۔


    اینٹی بائیوٹکس سے متعلق 5 اہم باتیں اور ہدایات


    ساتویں اور آخری کوشش میں خزانے کو ہٹایا گیا، اور اس بار شرکا کو بھول بھلیاں کے اس حصے تک جانا تھا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ پچھلی بار خزانے کا وہی مقام تھا۔

    اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اگرچہ ورکنگ میموری اور وزن اور جسم کے سائز کو ایڈجسٹ کر لیا گیا تھا، ان شرکا نے جنھوں نے چکنائی اور شکر والی زیادہ غذا کھائی تھی، دیگر کے مقابلے میں بری کارکردگی دکھائی۔

    ان نتائج سے یہ نشان دہی ہوئی کہ زیادہ چکنائی اور شکر والی غذائیں (روایتی مغربی خوراک) ہپپوکیمپس کی ایک قسم کی خرابی (hippocampus impairment) کا سبب بنتی ہیں، جو مقامی نیویگیشن اور یادداشت کے فعل میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ یہ یاد رہے کہ مقامی نیویگیشن کا مطلب ’’ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والے راستے کو سمجھنا اور یاد رکھنا‘‘ ہے۔

    سڈنی یونیورسٹی کے محقق ڈومینک ٹران نے یہ تشویش بات کہی کہ عام عام BMI اسکور والے نسبتاً صحت مند افراد میں بھی ایک ناقص غذا دیگر میٹابولک حالات ظاہر ہونے سے بہت پہلے (دماغی صلاحیت) ادراک کو کمزور کر سکتی ہے۔

    تاہم دوسری طرف اس تحقیق میں یہ خوش خبری بھی دی گئی ہے کہ محققین کا خیال ہے کہ اس صورت حال سے آسانی سے بحالی ممکن ہے، محققین نے کہا کہ غذائی تبدیلیاں ہپپوکیمپس کی صحت کو بہتر بنا سکتی ہیں۔

  • کراچی میں پیچیدہ دماغی امراض کا علاج ممکن ہو گیا، ویڈیو رپورٹ

    کراچی میں پیچیدہ دماغی امراض کا علاج ممکن ہو گیا، ویڈیو رپورٹ

    کراچی انسٹیٹیوٹ آف نیورولوجیکل ڈیزیز اینڈ ہیبلی ٹیشن سینٹر کا منصوبہ رواں برس مکمل ہو جائے گا۔ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اسپتال میں ایک چھت کے نیچے تشخیص کے ساتھ ساتھ تھراپی اور بحالی کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

    کراچی میں اعصابی نگہداشت اور صحت عامہ کی جدید سہولیات فراہم کرنے کا عزم لے کر کراچی انسٹیٹیوٹ آف نیورولوجیکل ڈیزیز اینڈ ری ہیبلیٹیشن سینٹر کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے، جہاں فالج، پیچیدہ دماغی امراض کا اعلاج کیا جائے گا۔

    ماہر ڈاکٹرز اور طبی عملے کی نگرانی میں فزیوتھراپی، اسپیچ تھراپی، کارڈیو تھراپی اور سائیکو تھراپی کی سہولیات دستیاب ہوں گی، جب کہ روزانہ کی بنیاد پر او پی ڈی میں ایک ہزار مریضوں کے لیے علاج کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔ کم آمدنی اور مستحق مریضوں کو علاج کی سہولت مفت فراہم کی جائے گی، کراچی انسٹی ٹیوٹ آف نیورولوجیکل ڈیزیز اینڈ ری ہیبلیٹیشن سینٹر 130 مراکز کا ایک سیٹلائٹ نیٹ ورک بھی قائم کرے گا۔


    سیلفیوں کے شوقین رجب علی کو کس نے بہیمانہ طریقے سے قتل کیا؟ ویڈیو رپورٹ


    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • ٹرانسپلانٹ کے بعد انفیکشنز سے موت کے خطرات کس طرح کم کیے جا رہے ہیں؟

    ٹرانسپلانٹ کے بعد انفیکشنز سے موت کے خطرات کس طرح کم کیے جا رہے ہیں؟

    کراچی: پروفیسر جان فنگ کا کہنا ہے کہ ٹرانسپلانٹ کے بعد مریض کو مختلف انفیکشنز سے موت کا خطرہ لاحق ہوتا ہے، تاہم اب جدید ٹیکنالوجی سے اس خطرے کو کم کیا جا رہا ہے۔

    پاکستان میں پیوندکاری کے لیے اعضا عطیہ کرنے کی حوصلہ افزائی کے لیے ڈاؤ یونیورسٹی کے زیر اہتمام پہلی بین الاقوامی ٹرانسپلانٹیشن کانفرنس کا آج آغاز ہو گیا ہے۔

    کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے پروفیسر جان فنگ نے کہا بعد از ٹرانسپلانٹ مختلف انفیکشنز سے مریض کو موت کا خطرہ ہوتا ہے، تاہم اب جدید ٹیکنالوجی اور دواؤں کے ذریعے انفیکشنز کے خطرات کو کم کیا جا رہا ہے۔


    کراچی کے اسپتال میں ماہرین کا جگر کی پیوندکاری کا حیران کن لائیو آپریشن، ویڈیو دیکھیں


    انھوں نے بتایا پوسٹ ٹرانسپلانٹ پیچیدگیوں پر قابو پا کر انسانوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جا رہی ہیں، پروفیسر فنگ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پیوندکاری کے لیے اعضا عطیہ کرنے کی حوصلہ افزائی میں ڈاؤ یونیورسٹی کی کانفرنس کا اہم کردار ہے۔

    کانفرنس سے خطاب میں پروفیسر پال گراسی نے کہا کہ پوسٹ ٹرانسپلانٹ انفیکشنز سے مریضوں کو بچانا ایک بہت بڑا چیلنج ہے، پیوندکاری کے بعد کی پیچیدگیوں کا سب سے بڑا سبب وائرل انفیکشنز ہیں۔

    شفا انٹرنیشنل اسلام آباد کے ڈاکٹر محمد ایاز کا کہنا تھا کہ ٹرانسپلانٹیشن کانفرنس سے پاکستان میں ہونے والے ٹرانسپلانٹس میں مزید بہتری آ جائے گی۔

  • پاکستان میں ہر ماہ ڈائریا کے 10 لاکھ کیس، روزانہ 110 سے زائد اموات

    پاکستان میں ہر ماہ ڈائریا کے 10 لاکھ کیس، روزانہ 110 سے زائد اموات

    کراچی: ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر ماہ ڈائریا کے 10 لاکھ سے زائد کیس رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں تقریبا 110 بچے روزانہ جاں بحق ہو جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق طبی ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں ہر روز اسہال سے سو سے زیادہ بچے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، اور ان میں سے اکثریت کی جانیں زنک سپلیمنٹس دے کر بچائی جا سکتی ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار ماہرین صحت نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں ’زنک کی صحت کے لیے اہمیت‘ کے حوالے سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آگاہی سیمینار کا انعقاد پاکستان زنک سوسائٹی اور مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو نے کیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت سے پری کوالیفائیڈ پلانٹس میں زنک کی مصنوعات کی تیاری نہایت خوش آئند ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان کا انحصار غیر ملکی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی مصنوعات پر سے کم ہوگا۔

    انڈس اسپتال کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان نے کہا گزشتہ سال سندھ اور بلوچستان میں سیلاب کے بعد لاکھوں بچے ڈائریا میں مبتلا ہوئے لیکن انھیں زنک سپلیمنٹس دے کر ان میں سے اکثریت کی جانیں بچائی جا سکیں، زنک ڈائریا سے بچانے والا ایک اہم ترین عنصر ہے جسے او آر ایس کے ساتھ دے کر بچوں کو ڈائریا اور غذائی قلت سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا پاکستانی کمپنی فارم ایوو کی بنائی ہوئی زنک ادویات کا ڈبلیو ایچ او سے پری کوالیفائی ہونا پاکستان کے لیے ایک نہایت خوش آئند پیش رفت ہے، یونیسیف اور دیگر عالمی ڈونر ایجنسیاں زنک کی مصنوعات ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے خریدتی ہیں، لیکن اب فارم ایوو سے یہ مصنوعات بہت سستی میں دستیاب ہوں گی۔

    انھوں نے مشورہ دیا کہ ٹی بی، ایچ آئی وی اور کینسر کی ادویات بھی مقامی طور پر تیار کی جائیں، کیوں کہ ان ادویات کی خریداری پر گلوبل فنڈ اور دیگر عالمی اداروں کے 200 سے 300 ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں جو کہ بین الاقوامی فارماسوٹیکل کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں چلے جاتے ہیں جب کہ ان ادویات کی مقامی طور پر تیاری سے یہ قیمتی زر مبادلہ پاکستان آ سکتا ہے۔

    ان کے مطابق ’’گزشتہ برس پاکستانی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے 713 ملین امریکی ڈالر کی ادویات اور مصنوعات برآمد کیں، امید ہے اب پاکستانی مصنوعات کی برآمد ایک ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ دنیا میں بچوں میں اموات کی دوسری بڑی وجہ اسہال ہے اور بدقسمتی سے اسہال سے مرنے والے 50 فی صد بچوں کا تعلق پاکستان، ہندوستان اور نائجیریا سے ہوتا ہے۔‘‘

    فارم ایوو کے منیجنگ ڈائریکٹر ہارون قاسم کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی صحت کے شعبے میں اخلاقی قدروں کو قائم کرنے اور بڑھانے پر یقین رکھتی ہے اور اس سلسلے میں ان کا ادارہ عالمی اداروں بشمول عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز اور سرٹیفکیشن حاصل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔

  • صحت کے حوالے سے بادام کے فوائد جانیۓ

    صحت کے حوالے سے بادام کے فوائد جانیۓ

    اکثر لوگ اس الجھن میں رہتے ہیں کہ گرمی میں بادام کا استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ طبی ماہرین نے بتادیا۔

    بادام ایک صحت بخش اور غذائیت سے بھرپور غذا ہے، اس کے فوائد کے بارے میں اکثر لوگ جانتے ہیں، اسے ہر موسم میں کھایا جاتا ہے لیکن گرمیوں میں کچھ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

    جس کی وجہ کچھ لوگوں کے لیے کچے بادام کو ہضم کرنا مشکل ہوجاتا ہے اور انہیں گیس اور پیٹ میں تکلیف کی شکایت ہوسکتی ہے، اس کے علاوہ گرمیوں میں لوگ اکثر اس الجھن میں رہتے ہیں کہ بادام کو کچا کھایا جائے یا بھگو کر۔ تو آئیے اس بارے میں آپ کو آگاہی فراہم کرتے ہیں۔

    گرمیوں میں بھگوئے ہوئے بادام کو خوراک میں شامل کرنا صحت کے لیے بہتر ہوتا ہے۔ بادام کو پانی میں رات بھر یا کچھ گھنٹوں تک بھگو کر کھانے سے کئی طرح کے فوائد حاصل ہوتے ہیں،

    بھگوئے ہوئے بادام آسانی سے ہضم ہوجاتے ہیں اور گرمیوں میں آپ کے جسم کو ٹھنڈا رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں، بادام کو بھگو کر کھانا صحت کے لیے کئی طرح سے فائدہ مند ہوتا ہے جس پر پورے سال عمل کیا جا سکتا ہے۔

    دماغ کے لئے فائدہ مند

    بھیگے ہوئے بادام میں ضروری فیٹی ایسڈ ہوتے ہیں جو انسانی افعال کو بہتر بنانے اور دماغی صحت کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

    ہڈیوں کو مضبوط بنائے

    بھیگے ہوئے بادام کیلشیم، میگنیشیم اور فاسفورس کا ایک اچھا ذریعہ ہیں، جو ہڈیوں کی صحت کے لیے ضروری معدنیات ہیں۔

    دل کی صحت کو بہتر کریں

    بھیگے ہوئے بادام میں پائے جانے والے صحت مند چکنائی اور اینٹی آکسیڈنٹس خراب کولیسٹرول کی سطح کو کم کرنے اور دل کی بیماری کے خطرے کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔

    جسم کی سوزش کم کرنے میں مددگار

    بھگوئے ہوئے بادام میں اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جو جسم میں سوزش کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں جس سے پرانی بیماریوں کا خطرہ کم ہوسکتا ہے۔

    طبی ماہرین کہتے ہیں کہ باداموں کے استعمال کا بہترین طریقہ بس وہی ہے جو آپ کو پسند ہو، بس بہت زیادہ کھانے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اعتدال ہی فائدہ پہنچاتا ہے، کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے۔

  • یہ پھل ضرور کھائیں مگر احتیاط کے ساتھ

    یہ پھل ضرور کھائیں مگر احتیاط کے ساتھ

    پپیتا صحت کے لیے ایک لاجواب پھل ہے،وٹامن اے، وٹامن سی اور بے شمار معدنیات سے بھرے اس پھل کی تھوڑی سے مقدار ہی انسانی جسم کو درکار وٹامن سی کی روزمرہ مقدار کو پورا کرسکتی ہے، تاہم، پپیتے کے کچھ مضر اثرات بھی ہیں جو آپ کو کھانے سے قبل سوچنے پر مجبور کر دیں گے۔

    پپیتا کھانے کے مضر اثرات

    مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ پپیتے میں موجود لیٹیکس میں خون پتلا کرنے کی صلاحیت ہوسکتی ہے۔ لہذا، اگر آپ خون پتلا کرنے والی کوئی دوا لے رہے ہیں، تو آپ کو پپیتا کھانے سے پہلے اپنے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہئے،کیونکہ اس سے جریان خون اور خراشوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    نظام ہاضمہ کے مسائل

    پپیتا فائبر سے بھرپور پھل ہے جو کہ قبض کے شکار افراد کے لیے بہترین ثابت ہوسکتا ہے تاہم اس پھل کا زیادہ استعمال صحت مند افراد کو بدہضمی اور ہیضے کا شکار بناسکتا ہے۔ اسی طرح اس پھل میں لیٹیکس نامی جز ہوتا ہے جو معدے میں جاکر درد کا باعث بن سکتا ہے۔

    پپیتا اسہال کو بڑھا سکتا ہے

    تمام ریشے دار پھلوں کی طرح، پپیتا بھی اسہال کو بڑھا سکتا ہے اگر پپیتا کا زیادہ استعمال کیا جائے، جو آپ کو پانی کی کمی کے خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

    پپیتا کیروٹینیمیا کا سبب
    پپیتے میں بیٹا کیروٹین زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے جلد کی رنگت جاسکتی ہے جسے کیروٹینیمیا کہا جاتا ہے اس کی علامات یرقان کی علامات، آنکھوں، تلووں اور ہتھیلیوں کے سفید حصے کا پیلا ہونا شامل ہے۔

    نظام تنفس متاثر ہونے کا امکان

    اس پھل کا زیادہ استعمال نظام تنفس کے امراض جیسے دمہ، بلغم اور خرخراہٹ وغیرہ کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    حاملہ خواتین کے لیے بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے

    ماہرین حاملہ خواتین کو پپیتے کا استعمال نہ کرنے کی ہدایت دیتے ہیں کیونکہ یہ بچے کی نشوونما کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

  • صحت مند جسمانی وزن کیسے برقرار رکھیں؟

    صحت مند جسمانی وزن کیسے برقرار رکھیں؟

    صحت کے بہت سارے معاملات میں ایک اہم معاملہ صحت مند جسمانی وزن کو برقرار رکھنے کا مسئلہ بھی شامل ہے۔

    ہم یہاں طبی ماہرین کے بنائے گئے مختلف چارٹس سے اہم نکات پیش کر رہے ہیں، جن کی مدد سے آپ کو بھی یہ آگاہی حاصل ہو سکتی ہے کہ جسمانی وزن کو کس طرح صحت مند رکھا جا سکتا ہے۔

    یہاں درج ہیں بچوں اور نوجوانوں کے لیے صحت مند زندگی گزارنے کے لیے اہم نکات:

    ماہرین اگر بار بار یہ کہتے ہیں کہ اچھی غذا کھائیں اور ہمیشہ چست رہیں، تو وہ یہ اہم بات بھی کہتے ہیں کہ صحت مند طرز زندگی کے لیے اپنے متعلق اچھی سوچ رکھنا بھی ضروری ہے۔

    ماہرین نے 4 اہم نکتے بیان کیے ہیں جو آپ کا صحت مند وزن برقرار رکھنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں:

    1. ہمیشہ چست اور مستعد رہیے
    2. کھانے کے صحت مندانہ طریقے اپنایئے
    3. کھانے کے لیے صحت بخش غذا کا انتخاب کیجیے
    4. اپنے متعلق اچھا محسوس کیجئے

    چستی اور مستعدی

    ہر موسم میں چست رہنے کی کوشش کیجئے، جم کی کلاس میں حصہ لیں، جسمانی ورزش کو بڑھا کر 30 منٹ روزانہ سے شروع کیجئے۔

    اپنے طبی معالج یا ڈاکٹر سے مشورے کے بعد20 سے 30 منٹ تک سخت ورزش اور 90 منٹ تک مستعد جسمانی عمل ہفتے میں 4 سے 5 مرتبہ کرتے رہیں۔

    کسی بھی وقت ورزش کر سکتے ہیں، اس سے آپ بور ہونے سے بچے رہیں گے، ایسی ورزش کریں جو آپ اپنے ارد گرد کے ماحول یا گھر میں بھی کر سکیں، اس کے ساتھ ٹی وی دیکھنے کے وقت کو 90 منٹ یا اس سے بھی کم کر دیں، اور اسے کم کر کے تیس منٹ روزانہ پر لے آئیں۔

    کھانے کا صحت مندانہ طریقہ

    دن میں 3 مرتبہ کھانا کھائیں، کوئی کھانا مت چھوڑیں، خاص طور پر ناشتا ضرور لیں، اگر کھانے کے وقفے کے دوران بھوک ستائے تو صحت بخش اسنیک لیں۔ اس دوران دہی، پھل، سبزیاں، گندم کے کریکرز پنیر کے ساتھ لیے جا سکتے ہیں، ایک سے تین تک صحت بخش اسنیک لینا اچھی بات ہے۔

    کھانا کھاتے وقت اپنی توجہ دوسری طرف نہ رکھیں، ٹی وی، کھلونے، اور گھر کے کام سے پرہیز کریں، اور اچھی طرح سے یعنی چبا کر کھائیں، سب سے اہم بات یہ کہ باہر کے کھانے کی نسبت گھر میں کھانے کو ترجیح دیں۔

    ہمیشہ صحت بخش غذا کا انتخاب

    مشروبات: پانی بہترین مشروب ہے، اس کے علاوہ آپ شکر سے پاک مشروب پی سکتے ہیں، دودھ خالص استعمال کریں۔

    سبزیاں اور پھل: جوس یا خشک اور ڈبے کے پھلوں کی بجائے تازہ پھل اور سبزیاں کھائیں، جوس ایک گلاس روزانہ سے زیادہ نہ پیئں۔ ایسے ڈبے والے پھل کھائیں جو شیرے کی بجائے جوس میں ہوں۔ سبزیوں کا ذائقہ اچھا بنانے کے لیے لیموں کا رس اور مسالے استعمال کریں۔

    اناج سے بنی اشیا: پوری اناج سے بنی ہوئی روٹی استعمال کریں، اناجی سیریل کا استعمال بھی اچھا ہے، میٹھے سیریل یا گرینولا کا استعمال نہ کریں۔

    دودھ اور اس کا بدل: تازہ اور خالص دودھ کا کوئی نعم البدل نہیں، تاہم پنیر میں ایسا پنیر لیں جس میں 20 فی صد دودھ کی چربی ہو، ٹیبل کریم، وپ آئس کریم کی بجائے ٹھنڈا دودھ، جیلاٹو، فروزن دہی کا استعمال کیجیے، کم چربی والی اشیا استعمال کریں۔

    گوشت: کولہے اور گول بوٹی والا گوشت، پتلا گوشت کھائیں، گوشت پر جتنی چربی نظر آئے اسے اتار دیں، مرغی اور ٹرکی کی کھال اتار کر کھائیں۔ ٹونا اور دوسری کین والی مچھلی تیل کی بجائے پانی والی استعمال کیجیے۔ گریوی اور چٹنیوں کا استعمال کم کر دیں، دالیں، سویا بین، اور ٹوفو پروٹین کا بہترین ذریعہ ہیں۔

    اپنے متعلق اچھا محسوس کیجئے

    ضیافت: صحت مند طرز زندگی میں ضیافت کا بڑا حصہ ہے، کبھی کبھی متوازن غذا کھانے کے لیے اپنی ہی ضیافت کرنا ضروری ہے، اس سے آپ اچھا محسوس کریں گے، تاہم صحت بخش ضیافت کا انتخاب ضروری ہے، خاص خاص مواقع جیسے چھٹی کا دن، پاٹی پر استثنیٰ حاصل ہے۔

    یہ یاد رکھیں کہ صحت مند جسم مختلف شکل اور سائز کے ہو سکتے ہیں، مثبت تبدیلیاں کر کے اپنے طرز زندگی کو بدلیے، ہر وقت اپنا وزن نہ کرتے رہیں، اور ہمیشہ ایک اسکیل یا پیمانا استعمال کریں، اور ہاں، اپنی کوششوں پر اپنے آپ کو انعام دیجیے کیوں کہ آپ اس کے حق دار ہیں۔

  • کرونا وائرس کے مریض میں صحت یابی کے ایک سال بعد سنگین بیماری

    کرونا وائرس کے مریض میں صحت یابی کے ایک سال بعد سنگین بیماری

    کرونا وائرس کا شکار افراد کو مختلف طبی مسائل میں مبتلا دیکھا گیا ہے تاہم اب ایک مریض میں صحت یابی کے ایک سال بعد تھائیراڈ کا مسئلہ سامنے آیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس سے شدید بیمار ہونے والے افراد میں صحت یابی کے ایک سال بعد تھائیراڈ کے امراض پیدا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

    گزشتہ ماہ مئی کے اختتام پر یورپین سوسائٹی ف اینڈو کرونالوجی کے سیمینار میں پیش کی گئی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے شدید بیمار ہونے والے افراد میں صحت یابی کے فوری بعد کسی طرح کے تھائیراڈ مسائل نہیں ہوتے، تاہم گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں پیچیدگیاں بڑھنے لگتی ہیں۔

    اٹلی کی یونیورسٹی آف میلان کے ماہرین کی جانب سے 100 افراد پر کی جانے والی مختصر تحقیق میں ان افراد کو شامل کیا گیا تھا جو کرونا سے شدید بیمار ہوئے تھے اور ان میں کافی عرصے تک علامات پائی گئی تھیں۔

    تحقیق کے دوران ماہرین نے متاثرہ افراد کے صحت یابی کے فوری بعد ٹیسٹس کرنے سمیت 6 ماہ اور ایک سال بعد بھی ٹیسٹس کیے اور ان کے الٹراساؤنڈ بھی کیے۔

    تحقیق کے دوران معلوم ہوا کہ کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے فوری بعد ان میں کسی طرح کے تھائیراڈ مسائل نہیں پائے گئے، تاہم بعض افراد میں 6 ماہ بعد تھائیراڈ کی پیچیدگیاں شروع ہونے لگیں۔

    ماہرین نے نوٹ کیا کہ بعض افراد میں صحت یابی کے ایک سال بعد تھائیراڈ کے مسائل ہونے لگے تھے۔

    تحقیق سے معلوم ہوا کہ زیادہ تر افراد میں تھائیراڈٹس کی بیماری پائی گئی، جس میں تھائیراڈ میں سوجن اور جلن ہوتی ہے اور تھائیراڈ ہارمونز بنانے کی سطح کم کردیتا ہے، اس سے متاثرہ شخص میں تھکاوٹ سمیت اس کے وزن میں کمی کے علاوہ کئی مسائل ہونے لگتے ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ بعض افراد میں تھائیراڈ کے دیگر مسائل بھی پائے گئے، تاہم زیادہ تر لوگ تھائیراڈٹس کا شکار بنے۔

    تھائیراڈ ایک عضو ہے جو کہ انسان کے گلے میں واقع ہوتا ہے اور اس کا کام جسمانی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنا اور خصوصی طرح کے ہارمونز پیدا کرنا ہوتا ہے۔

    تھائیراڈ 2 ہارمونز بناتا ہے جو خون میں داخل ہوتے ہیں، جن سے انسانی جسم متحرک رہتا ہے اور یہ انسانی مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن اگر تھائیراڈ میں کوئی خرابی ہوجائے تو مختلف مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔