Tag: صحت کی خبریں

  • دفتر میں روزانہ اپنی ڈیسک پر لنچ کرنے کا نقصان

    دفتر میں روزانہ اپنی ڈیسک پر لنچ کرنے کا نقصان

    کیا آپ اپنے دفتر میں روزانہ اپنی ڈیسک پر کھانا کھاتے ہیں اور شاذ ہی کہیں باہر کھانے جاتے ہیں؟ تو پھر آپ کی زندگی کی بے اطمینانی اور ناخوشی کا ایک اہم سبب یہی ہے۔

    یونیورسٹی آف سسکیس میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ملازمین کا روزانہ اپنی ڈیسک پر بیٹھ کر لنچ کرنا انہیں اپنے کام کے حوالے سے بوریت کا شکار کردیتا ہے۔

    اس کا یہ مطلب نہیں کہ روزانہ کہیں باہر، کسی ریستوران میں جا کر کھانا کھایا جائے۔ دراصل اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کھلی جگہ، تازہ ہوا میں مثلاً کسی پارک یا ساحل سمندر پر بیٹھ کر لنچ کرنا آپ کو اپنی ملازمت سمیت زندگی کے دیگر معاملت میں بھی مطمئن بنا سکتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے متعدد دفتری ملازمین کے کھانے کے معمول اور ان کے رویے کی جانچ کی۔ ماہرین نے دیکھا کہ روزانہ اپنی ڈیسک پر یا دفتر کے کیفے میں بیٹھ کر کھانا کھانے والے افراد میں ذہنی تناؤ کی سطح بلند تھی۔

    اس کے برعکس وہ افراد جنہوں نے کھلی فضا سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کھانا کھایا، ان میں خوشی کے جذبات پیدا ہوئے جبکہ زندگی کے مختلف معاملات کے حوالے سے ان کا مثبت نقطہ نظر سامنے آیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دراصل فطرت سے ہمارے اس ٹوٹے ہوئے تعلق کی طرف اشارہ ہے جس کی وجہ سے ہم بے شمار مسائل میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

    فطرت سے باقاعدہ تعلق رکھنا، کھلی فضا میں چہل قدمی، ساحل سمندر پر جانا یا پہاڑوں اور درختوں کے درمیان وقت گزارنا ہمیں بے شمار دماغی مسائل سے بچا سکتا ہے جس میں سر فہرست ڈپریشن سے نجات اور خوشی کا حصول ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ دفاتر میں لنچ کے اوقات میں ملازمین کو باہر جانے کی اجازت دینی چاہیئے۔ اس سے ان کی تخلیقی صلاحیت اور کام کرنے کی رفتار اور معیار میں اضافہ ہوگا۔

  • دانتوں کو برش نہ کرنے سے جان لیوا کینسر کا خطرہ

    دانتوں کو برش نہ کرنے سے جان لیوا کینسر کا خطرہ

    کیا آپ باقاعدگی سے اپنے دانتوں کو برش کرتے ہیں؟ یا پھر آپ کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے جو سستی کے باعث کبھی کبھار اس ضروری کام سے غفلت برتتے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر آپ کے لیے ایک بری خبر ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ دانتوں کی خراب صحت جگر کے جان لیوا کینسر کا خطرہ 75 فیصد بڑھا دیتی ہے۔

    آئر لینڈ کی کوئنز یونیورسٹی بیلفاسٹ میں کی جانے والی اس تحقیق کے لیے لگ بھگ 5 لاکھ افراد کی دانتوں کی صحت کا جائزہ لیا گیا، ماہرین نے دانتوں کی خراب صحت کا تعلق نظام ہضم میں شامل بعض اعضا کے کینسر سے پایا۔

    ان اعضا میں جگر، بڑی آنت اور لبلبہ شامل تھا۔ تحقیق میں کہا گیا کہ ممکن ہے کہ دانتوں کی صفائی نہ رکھنے کے باعث وہاں پلنے والے جراثیم اس کینسر کا سبب بنتے ہوں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گو کہ غیر صحت مند دانت کینسر کی واحد وجہ نہیں، تاہم ان کا کینسر سے گہرا تعلق ہے۔

    ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ کم سبزیاں، پھل اور زیادہ جنک فوڈ اور غیر صحت مند اشیا کھانے والے افراد کی دانتوں کی صحت بھی ابتر تھی۔

    ماہرین دندان تجویز کرتے ہیں کہ دن میں 2 بار دانتوں پر برش کرنے (عموماً صبح سو کر اٹھنے کے بعد اور رات سونے سے قبل)، باقاعدگی سے ماؤتھ واش استعمال کرنے اور فلاس کرنے سے دانت اور مسوڑھے صاف اور صحت مند رہتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: دانتوں کی ساخت سے شخصیت کا اندازہ لگائیں

  • سوشل میڈیا پر پولیو سے متعلق فری ہیلپ لائن کا اجرا

    سوشل میڈیا پر پولیو سے متعلق فری ہیلپ لائن کا اجرا

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر پولیو سے متعلق فری ہیلپ لائن کا اجرا کر دیا، اس سلسلے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی انسداد پولیو بابر بن عطا نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ فری ہیلپ لائن چوبیس گھنٹے کام کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت نے پولیو سے متعلق فری ہیلپ لائن کا اجرا کر دیا ہے، انسداد پولیو پروگرام کی جاری کردہ ہیلپ لائن کا نام واٹس اپ پولیو رکھا گیا ہے۔

    بابر بن عطا کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر پولیو فری ہیلپ لائن کا قیام پہلی بار عمل میں لایا گیا ہے، یہ ہیلپ لائن پورے ہفتے 24 گھنٹے کام کرے گی۔

    یہ بھی پڑھیں:  سوشل میڈیا پر پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کارروائی

    وزیر اعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا شہری واٹس اپ پولیو ہیلپ لائن پر میسج کے ذریعے سوال پوچھ سکیں گے، شہری ہیلپ لائن پر پولیو مہم سے متعلق شکایات بھی درج کرا سکیں گے۔

    واضح رہے کہ پولیو کے خاتمے کے لیے گزشتہ دنوں خصوصی مہم شروع کی گئی جس کے تحت سوشل میڈیا پر پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی اور فیس بک پر پولیو مخالف 31 پیجز آج بلاک کیے گئے۔

    انسدادِ پولیو کے خلاف مواد اَپ لوڈ کرنے والوں کو وارننگ بھی جاری کی گئی، پاک فوج، محکمہ پولیس اور دیگر اداروں کی شب و روز کاوشوں پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔

  • ہماری ناف کے اندر کیا ہے؟

    ہماری ناف کے اندر کیا ہے؟

    کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ آپ کی ناف کے اندر کیا ہے؟ آئیں آج ہم آپ کو بتاتے ہیں۔

    ناف کے بارے میں سب سے زیادہ مفصل تحقیق جارج اسٹائن ہاسر نامی سائنسدان نے کی اور اس کے لیے اس نے 3 سال تک اپنی ہی ناف کے تجزیے اور مختلف تجربات کیے۔

    اسے علم ہوا کہ ناف میں معدے کے بال موجود ہوتے ہیں اور یہ جسم پر پہنے جانے والے کپڑے کے ننھے ننھے ذرات کو ناف کی طرف کھینچ لیتے ہیں۔

    ناف دراصل ایک زخم کا نشان ہے جو انسان کو دنیا میں آتے ہی دیا جاتا ہے۔ بچے اور ماں کے جسم کو آپس میں منسلک کرنے والی امبیلیکل کورڈ کو جب کاٹ دیا جاتا ہے تو پھر اس سے بننے والی ناف کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ زخم کیسے مندمل ہوا۔

    کچھ نافیں باہر کو نکلی ہوئی ہوتی ہیں جبکہ 90 فیصد اندر کی طرف ہوتی ہیں۔ اندر کی طرف والی ناف میں کپڑوں کے ٹکرے، بال اور جلد کے مردہ خلیات جمع ہوجاتے ہیں جبکہ ان میں بیکٹریا بھی ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے ایک تحقیق کے لیے 60 رضا کاروں کی ناف سے جمع کیے جانے والے اجزا میں 23 سو اقسام کے بیکٹریا دریافت کیی، یعنی ہر ناف میں اوسطاً 67 اقسام کے بیکٹریا موجود ہوتے ہیں۔

    ان میں سے کچھ بیکٹریا ایسے ہوتے ہیں جو جسم کے دیگر حصوں پر بھی پائے جاتے ہیں جیسے اسٹیفلو کوکس جو بالوں، ناک اور حلق میں موجود ہوتے ہیں، تاہم ماہرین نے ان میں ایسے بیکٹریا بھی دریافت کیے جو انسانی جسم کے لیے بالکل اجنبی تھے۔ جیسے ماری مونس جو ماہرین نے صرف سمندر میں پایا تھا۔

    اس کے علاوہ ناف میں وہ بیکٹریا بھی ہوتے ہیں جو شیفس پنیر بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کیا ہمارا جسم کچھ عرصے بعد بالکل نیا ہوجاتا ہے؟

    ویسے تو ناف میں موجود بیکٹریا فائدہ مند ہوتے ہیں اور یہ جلد کے دفاعی نظام کو مضبوط بناتے ہیں، تاہم اگر آپ نے کبھی ناف کی صفائی نہیں کی تو ان میں موجود بے تحاشہ بیکٹریا خطرناک بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

    غیر صاف شدہ ناف سے سب سے پہلے بو آئے گی اس کے بعد ناف انفیکشن کا شکار ہوجائے گی جس سے خارش اور سرخی پیدا ہوسکتی ہے۔

    ناف کے لیے ایک اور خطرہ اندرونی طور پر بھی موجود ہے، یہ نیول ہرنیا یا بیلی بٹن ہرنیا ہوتا ہے۔

    جب بچہ ماں کے جسم میں ہوتا ہے تو وہ نال کے ذریعے ماں سے منسلک ہوتا ہے۔ یہ نال ماں کےجسم سے ہوتی ہوئی بچے کے جسم تک جاتی ہے اور جسم کے اندر کھلتی ہے، پیدائش کے بعد جب ناف کو الگ کردیا جاتا ہے تو یہ کھلا حصہ بند ہوجاتا ہے۔

    تاہم کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ کھلا حصہ ٹھیک سے بند نہیں ہوپاتا، اس کے باعث جسم کے بعض اعضا پھسل کر ناف کی طرف آجاتے ہیں اور ناف پر دباؤ پیدا کرتے ہیں۔

    امریکا میں ہر 5 میں سے ایک بچہ اس ہرنیا کا شکار ہوتا ہے، تاہم یہ بچوں کے لیے جان لیوا نہیں ہوتا اور بالغ ہونے تک یہ نارمل ہوجاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہفتے میں کم از کم ایک بار صابن ملے نیم گرم پانی سے اپنی ناف کو اچھی طرح ضرور دھونا چاہیئے تاکہ وہ صحت مند رہے۔

  • کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    کیا آپ بھی سیزیرین آپریشن کے حوالے سے ان توہمات کا شکار ہیں؟

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے، اس کی وجہ ماؤں کا حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی اور غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    سیزیرین ڈلیوری سے متعلق کچھ توہمات نہایت عام ہیں جن کا بڑا سبب کم علمی ہے۔ آج ہم ایسے ہی توہمات اور ان کی حقیقت سے آپ کو آگاہ کرنے جارہے ہیں۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد نارمل ڈلیوری ناممکن ہے

    ایک عام خیال ہے کہ ایک بار سیزیرین ڈلیوری کے بعد نارمل ڈلیوری کے ذریعے بچے کو جنم دینا ناممکن ہے، یہ خیال بلکل غلط ہے۔

    سیزیرین آپریشن کے بعد ڈاکٹر ماں کا چیک اپ کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں بتاتے ہیں کہ آیا ان کا اندرونی جسمانی نظام اب اس قابل ہے کہ وہ مستقبل میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے گزر سکتی ہیں یا انہیں ہر بار سیزیرین آپریشن ہی کروانا ہوگا۔

    80 فیصد خواتین میں یہ خدشہ نہیں ہوتا اور ڈاکٹرز انہیں بالکل فٹ قرار دیتے ہیں جس کے بعد ان خواتین میں دیگر بچوں کی پیدائش نارمل طریقہ کار کے ذریعے ہوسکتی ہے۔

    زندگی میں کتنے سیزیرین آپریشن ہوسکتے ہیں

    یہ ماں بننے والی خاتون کے اندرونی جسمانی نظام پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کتنی بار اس تکلیف دہ عمل سے گزر سکتی ہے۔ بعض خواتین کے لیے ایک بار سیزیرین آپریشن کروانے کے بعد مزید سیزیرین آپریشن کروانا خطرناک ہوسکتا ہے۔

    ایسی خواتین اگر بعد میں نارمل ڈلیوری کے عمل سے نہ گزر سکتی ہوں تو انہیں ڈاکٹر کی جانب سے واضح طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ ماں بننے سے گریز کریں ورنہ ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔

    بعض خواتین متعدد بار سیزیرین آپریشن کے عمل سے گزر سکتی ہیں۔ یہ مکمل طور پر خواتین کی اپنی قوت مدافعت، جسمانی نظام اور صحت مند جسم پر منحصر ہوتا ہے۔

    آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا

    بعض خواتین ڈلیوری کی تکلیف سے بچنے کے لیے سیزیرین آپریشن کروانا چاہتی ہیں تاکہ انہیں سن ہونے والی دوائیں دی جائیں اور انہیں کچھ محسوس نہ ہو۔

    ایسا نہیں ہے کہ سیزیرین آپریشن کے دوران کچھ محسوس نہیں ہوتا، ہلکا پھلکا دباؤ یا تھوڑی بہت تکلیف محسوس ہوسکتی ہے۔ البتہ آپریشن کے بعد درد، جسم میں کپکپاہٹ، متلی اور الٹیاں وغیرہ محسوس ہوسکتی ہیں۔

    صحتیابی کے عرصے میں فرق

    سیزیرین آپریشن کے 4 سے 5 دن بعد ماں کو گھر جانے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ ان کی مکمل صحتیابی کا وقت بھی تقریباً مہینہ بھر ہوتا ہے۔

    اس کے برعکس نارمل ڈلیوری میں ایک سے دو دن بعد گھر جانے کی اجازت مل جاتی ہے اور مکمل صحتیابی بھی صرف 2 ہفتوں میں ہوجاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے تجاویز

  • پی ایم ڈی سی آرڈیننس کی واپسی کا فیصلہ نیا قانون تشکیل دینے کے لیے کیا: ترجمان

    پی ایم ڈی سی آرڈیننس کی واپسی کا فیصلہ نیا قانون تشکیل دینے کے لیے کیا: ترجمان

    اسلام آباد: وزارت قومی صحت نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) آرڈیننس کی واپسی کا فیصلہ نیا قانون تشکیل دینے کے لیے کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سے احتجاج اور قرارداد منظور ہونے کے بعد حکومت نے پی ایم ڈی سی سے متعلق بل واپس لیا، جس کے بعد وزارت قومی کی جانب سے اس سلسلے میں وضاحت جاری کی گئی ہے۔

    ترجمان وزارت قومی صحت نے کہا ہے کہ یہ آرڈیننس اس لیے واپس لیا جا رہا ہے تاکہ نیا قانون تشکیل دیا جا سکے، ماضی میں غلط پالیسیوں سے طبی تعلیم اور شعبہ طب کے معیار میں کمی ہوئی۔

    انھوں نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں سے عالمی سطح پر ملک کی جگ ہنسائی ہوئی۔

    ترجمان نے بتایا کہ سینیٹ میں حکومت کے پیش کردہ آرڈیننس کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا گیا تھا، قائمہ کمیٹی قومی صحت نے اس آرڈیننس میں ترامیم کی سفارش کی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  سینیٹ اجلاس: اپوزیشن کا احتجاج، پی ایم ڈی سی بل واپس، کشمیریوں کا ساتھ دینے کا عزم

    ترجمان کے مطابق بہتر قانون سازی کے لیے آرڈیننس میں ترامیم کے جائزے کی ضرورت ہے، حکومت ملکی اداروں کو مضبوط اور مستحکم کرنا چاہتی ہے۔

    واضح رہے کہ آج سینیٹ کے اجلاس میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل بل سے متعلق کمیٹی رپورٹ پیش کی گئی، جس پر اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کیا، اپوزیشن رہنما راجہ ظفر الحق نے کہا کہ ہم یہ رپورٹ پیش نہیں ہونے دیں گے، کوشش کی گئی تو ہنگامہ برپا ہو جائے گا۔

    بعد ازاں، سینیٹر شیری رحمان نے پی ایم ڈی سی آرڈیننس 2019 مسترد کرنے کی قرارداد سینیٹ میں پیش کی جسے منظور کر لیا گیا۔ حکومت نے بھی بل واپس لے لیا۔

  • اسلام آباد میں ڈینگی وائرس سر اٹھانے لگا

    اسلام آباد میں ڈینگی وائرس سر اٹھانے لگا

    اسلام آباد: وفاقی دار الحکومت میں ڈینگی وائرس سر اٹھانے لگا ہے، پمز اسپتال میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 24 مریضوں میں ڈینگی وائرس کی تصدیق کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے اسپتال پمز میں 24 مریضوں میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، اسپتال کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 24 گھنٹے میں ڈینگی کے 150 مشتبہ مریض لائے گئے تھے۔

    ترجمان پمز اسپتال نے کہا کہ اسپتال میں ڈینگی آئیسولیشن وارڈ قایم کر دیا گیا ہے، جس میں 10 بیڈز رکھے گئے ہیں۔

    واضح رہے کہ معاون خصوصی برائے صحت کی ہدایت پر ڈینگی کی روک تھام کے لیے خصوصی اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے، اس سلسلے میں ظفر مرزا کی ہدایت پر وفاقی سیکریٹری ہیلتھ نے ڈینگی سے متعلق اجلاس منعقد کیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  انسداد ڈینگی مہم، ٹیمیں تشکیل، مریضوں کے لیے علیحدہ وارڈز کا فیصلہ

    معاون خصوصی صحت نے کہا کہ مریضوں کو معیاری طبی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے، ڈینگی کے خاتمے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

    ترجمان وزارت صحت کے مطابق مچھروں کی افزایش کی جگہوں کی نشان دہی کر لی گئی ہے، مچھروں کے خاتمے کے لیے اسپرے جاری ہے، ٹائر، پلاسٹک کی بوتلوں، کوڑا کرکٹ تلف کرنے کا کام بھی جاری ہے۔

    ترجمان نے بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی 136، سینٹری انسپکٹرز، ملیریا سپراوئزر کی 6 ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔

  • انسداد پولیو مہم دوسرے روز بھی کام یابی سے جاری رہی

    انسداد پولیو مہم دوسرے روز بھی کام یابی سے جاری رہی

    اسلام آباد: انسدادِ پولیو مہم دوسرے روز بھی کام یابی سے جاری رہی، سوشل میڈیا پر پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق پولیو کے خاتمے کے لیے شروع کی گئی مہم کا آج دوسرا دن تھا، فیس بک پر پولیو مخالف 31 پیجز آج بلاک کیے گئے۔

    انسداد پولیو کے خلاف مواد اَپ لوڈ کرنے والوں کو وارننگ بھی جاری کی گئی، پاک فوج، محکمہ پولیس اور دیگر اداروں کی شب و روز کاوشوں پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔

    ادھر آل پاکستان مسلم لیگ نے بھی پولیو مہم کی حمایت کا اعلان کیا ہے اور حکومتی اقدامات اور کارکردگی کی تعریف کی۔

    یہ بھی پڑھیں:  پولیو ورکرز کو بہبود آبادی پرعوامی شعور بیدار کرنے کا ٹاسک سونپ دیا گیا

    اے پی ایم ایل نے اپنے پیغام میں کہا کہ قوم انسداد پولیو مہم کی کام یابی کے لیے حکومت کا ساتھ دے، پولیو وائرس کا خاتمہ بچوں کے مستقبل کا سوال ہے، بابر بن عطا انسداد پولیو کے لیے پُر خلوص کوشش کر رہے ہیں۔

    دریں اثنا، وزیر اعظم کے معاون بابر بن عطا نے انسداد پولیو ٹیموں کے نام ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ ذیلی انسداد پولیو مہم دوسرے روز بھی کام یابی سے جاری ہے، ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے پوری قوم متحد ہے۔

    انھوں نے کہا کہ پولیو مہم کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں، فیس بک پیجز پر پولیو مہم کے نیک مقصد کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔

    بابر بن عطا کا کہنا تھا کہ پولیو ورکرز اب حکومت کو ہمیشہ اپنے ساتھ کھڑا پائیں گے۔

  • ہاتھی ہمیں کینسر سے بچا سکتے ہیں

    ہاتھی ہمیں کینسر سے بچا سکتے ہیں

    زمین پر موجود تمام جاندار نسل انسانی کی بقا کے لیے ضروری ہیں، کچھ جاندار انسانوں کی خطرناک بیماریوں کا علاج بھی اپنے اندر رکھتے ہیں۔

    حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ہاتھی کینسر کے علاج میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایک سائنسی جریدے اوندرک میگزین میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہاتھی اور وہیل کو کبھی کینسر نہیں ہوتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھی کے جینوم میں ٹیومرز سے لڑنے والے جینز اضافی تعداد میں موجود ہوتے ہیں، یہ ٹیومرز پھیل کر کینسر کا سبب بن سکتے ہیں تاہم ہاتھی کے جینز ان ٹیومرز کو طاقتور نہیں ہونے دیتے۔

    تاہم اب جبکہ ہاتھی کو معدوم ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے، ماہرین ان کے اس انوکھے جینز کی معلومات حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہاتھی کی سونڈ میں کیا ہے؟

    اوٹاوہ یونیورسٹی کے پروفیسر جوشوا شپمین کا کہنا ہے کہ انسان ذہین ہیں، لیکن فطرت ان سے بھی زیادہ ذہین ہے۔ فطرت کے لاکھوں کروڑوں سال کے تنوع میں میں ہماری، آج کے جدید دور کی بیماریوں کی علاج چھپا ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ہاتھیوں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد اس جانور کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔

    اس کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

  • ایسا کیا ہے جو دولت مند افراد کے برابر خوش رکھ سکتا ہے؟

    ایسا کیا ہے جو دولت مند افراد کے برابر خوش رکھ سکتا ہے؟

    ایک عام خیال ہے کہ پیسہ زندگی کو آسان بنا سکتا ہے اور خوشی کا سبب ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں ایسی کیا شے ہے جو بغیر دولت کے بھی، آپ کو دولت مندوں کے جتنا ہی خوش رکھ سکتی ہے؟

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ورزش اور جسمانی سرگرمیاں کسی شخص کو دولت مند شخص کے برابر خوشی دے سکتی ہے۔

    یہ تحقیق آکسفورڈ اور ییل یونیورسٹی میں کی گئی جو دا لینسٹ نامی جریدے میں شائع ہوئی۔ تحقیق کے لیے 12 لاکھ سے زائد افراد کا جائزہ لیا گیا، ان افراد سے ان کی آمدنی اور جسمانی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں۔

    ان افراد سے پوچھا گیا کہ مجموعی طور پر یہ کن حالات میں اور کتنے عرصے تک خود کو پریشان اور ذہنی تناؤ میں مبتلا محسوس کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خوش رہنے کا آسان نسخہ

    ماہرین نے دیکھا کہ جسمانی سرگرمیوں کے عادی افراد سال میں اوسطاً 35 دن خود کو پریشان محسوس کرتے ہیں، اس کے برعکس ایسے افراد جو جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے تھے ان کی پریشانی مزید 18 دن طول کھینچ گئی۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ زیادہ آمدنی والے یعنی مالی طور پر مطمئن افراد اور جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے والے افراد میں خوشی کی سطح یکساں پائی گئی۔

    اسی طرح ایسی سرگرمی جس میں زیادہ لوگوں سے گھلنے ملنے کا امکان ہو جیسے کوئی کھیل کھیلنا، جس میں پوری ٹیم کھیل میں حصہ لے، دیگر سرگرمیوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔

    ماہرین نے خبردار کیا کہ اس کا یہ مطلب نہ سمجھا جائے کہ جتنی زیادہ ورزش کی جائے گی اتنی ہی زیادہ خوشی حاصل ہوگی، ہفتے میں 30 سے 60 منٹ پر مشتمل، 3 سے 5 ٹریننگ سیشن بھی وہی فوائد دے سکتے ہیں۔