Tag: صحت کی خبریں

  • ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    ذہنی دباؤ کے سبب طلبا نفسیاتی اسپتال میں داخلے کی اسٹیج پر

    آج کل ذہنی تناؤ اور ڈپریشن ایک نہایت عام شے بن گئی ہے اور ہر دوسرا شخص اس کا شکار نظر آتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے ایک اوسط طالب علم کو ہونے والا ذہنی تناؤ ایسا ہے جیسا نصف صدی قبل باقاعدہ دماغی امراض کا شکار افراد میں ہوا کرتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق ذہنی دباؤ نے آج کل کے نوجوانوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے اور اس کی وجہ کیریئر کے لیے بھاگ دوڑ، اچھی تعلیم کے لیے جدوجہد اور تعلیمی میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔

    ان کے مطابق آج کل کے ایک اوسط طالب علم میں موجود ذہنی دباؤ اور اینگزائٹی کی سطح بالکل وہی ہے جیسی سنہ 1950 میں دماغی امراض کا شکار ایسے افراد میں ہوا کرتی تھی جنہیں باقاعدہ دماغی امراض کے اداروں میں داخل کروایا دیا جاتا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر گزرتی دہائی کے ساتھ لوگوں میں ڈپریشن کی سطح میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، اور نوجوان اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ ہمارے طرز زندگی میں تبدیلی آنا ہے۔

    ہم پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تنہائی پسند ہوگئے ہیں۔ ہم اپنا زیادہ تر وقت اسمارٹ فون کے ساتھ اور سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور سماجی و مذہبی سرگرمیوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں، ہم شادی بھی دیر سے کرتے ہیں۔

    ہم اپنی زندگی میں بہت کچھ چاہتے ہیں جیسے دولت اور بہترین لائف پارٹنر، لیکن اس کے لیے ہمارے پاس غیر حقیقی تصورات ہیں اور ہم حقیقت پسند ہو کر نہیں سوچتے۔

    ہمارے ڈپریشن کو بڑھانے والی ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ ہم دن بھر بری خبریں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے ہیں۔ ہم دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگوں اور حادثات کے بارے میں پڑھتے ہیں اور ہمارے ذہن میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ دنیا رہنے کے لیے ایک خطرناک جگہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیسے جیسے دنیا آگے بڑھتی جائے گی اور ترقی کی رفتار تیز ہوتی جائے گی ہمارے اندر ڈپریشن اور اینگزائٹی کی سطح میں بھی اضافے کا امکان ہے۔

  • کیا اچانک نیند سے اٹھنے پر موت واقع ہوسکتی ہے؟

    کیا اچانک نیند سے اٹھنے پر موت واقع ہوسکتی ہے؟

    آپ نے اکثر ایسے واقعات سنے ہوں گے جس میں کوئی صحت مند بھلا چنگا شخص اچانک موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے، کسی ناگہانی حادثے کے علاوہ یہ موت گھر میں عموماً رات کے وقت ہوتی ہے۔

    ایسے افراد بظاہر بالکل صحت مند ہوتے ہیں اور انہیں کوئی جان لیوا بیماری نہیں ہوتی لہٰذا ان کی اچانک موت نہایت حیران کن ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں ایک نہایت ہی عام سا عمل بے خبری میں ہمیں موت کا شکار بنا سکتا ہے۔ یہ عمل رات سوتے میں جاگ کر اچانک بستر سے کھڑا ہوجانا ہے۔

    ہم میں سے اکثر افراد رات میں گہری نیند سے جاگ جاتے ہیں کیونکہ ہمیں واش روم جانے یا پانی پینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے میں اچانک تیزی سے بستر سے کھڑا ہوجانا نہایت خطرناک عمل ہوسکتا ہے۔

    رات میں کئی گھنٹے سوتے ہوئے گزارنے کے دوران ہمارے دل کی دھڑکن بہت سست ہوجاتی ہے اور ہمارے دماغ تک خون کا بہاؤ بھی بے حد کم ہوجاتا ہے۔ ایسے میں اچانک اٹھنے سے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوسکتی ہے جبکہ دماغ تک خون کی کم رسائی کی وجہ سے دل اچانک رک بھی سکتا ہے۔

    اس صورتحال سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ نیند سے جاگنے کے بعد فوری طور پر کھڑا ہونے سے گریز کیا جائے۔ اچانک نیند سے اٹھنے کے بعد یہ عمل کریں۔

    جب آپ کی آنکھ کھلے تو کم از کم ڈیڑھ منٹ تک بستر پر ہی لیٹے رہیں۔ اس کے بعد بستر پر اٹھ کر بیٹھ جائیں اور 30 سیکنڈ تک اسی پوزیشن میں بیٹھے رہیں۔ اس کے بعد ٹانگیں بستر سے نیچے لٹکائیں اور اسی حالت میں اگلا آدھا منٹ گزاریں۔

    ان ڈھائی منٹوں کے اندر آپ کے دماغ اور جسم کے دیگر تمام حصوں میں خون کی روانی بحال ہوجائے گی اور کھڑے ہونے پر گرنے یا کسی اور سنگین صورتحال کا خطرہ نہیں ہوگا۔

  • سرخ پیاز بریسٹ کینسر سے بچاؤ میں معاون

    سرخ پیاز بریسٹ کینسر سے بچاؤ میں معاون

    کیا آپ تیزی سے پھیلتے ہوئے مرض بریسٹ کینسر سے بچنا چاہتی ہیں؟ تو پھر پیاز کو اپنے کھانے کا لازمی جز بنا لیں۔ حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سرخ پیاز بریسٹ کینسر کے خلاف ڈھال ثابت ہوسکتی ہے۔

    کینیڈا کی یونیورسٹی آف گویلف میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سرخ پیاز کینسر کے خلاف بھرپور مزاحمت کرسکتی ہے اور کینسر کے خلیات کو پیدا ہونے سے روکتی ہے۔

    تحقیق کے لیے ماہرین نے سرخ اور دیگر رنگوں کی پیاز کو کینسر کے خلیات کے سامنے رکھا، انہوں نے دیکھا کہ دیگر رنگوں کی پیاز کے مقابلے میں سرخ پیاز نے کینسر خلیات پر بھرپور وار کیا۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ سرخ پیاز میں موجود ایک جز کوئسٹن کینسر اور امراض قلب سمیت بے شمار بیماریوں سے بچاتا ہے جبکہ یہ قوت مدافعت میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: 50 سال سے کم عمر خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ دگنا

    پیاز اور دیگر سبزیوں میں موجود ایک پگمنٹ اینتھو سائنن جو ان سبزیوں کو رنگ دیتا ہے، کوئسٹن کی اثر انگیزی بڑھاتا ہے۔ یعنی جتنا زیادہ پیاز کا رنگ گہرا ہوگا، اس کا مطلب ہوگا کہ اس میں اینتھو سائنن کی اتنی ہی زیادہ مقدار موجود ہے اور یہ پیاز کینسر کے خلاف اتنی ہی زیادہ مؤثر ثابت ہوگی۔

    تحقیق کے مطابق سرخ پیاز کینسر کے خلیوں کے درمیان آپس کے رابطے کو منقطع کرتی ہے جبکہ ان کے لیے ایسا ماحول بناتی ہے جس میں وہ مزید افزائش نہیں پاسکتے۔ سرخ پیاز صرف چھاتی کے ہی نہیں بلکہ بڑی آنت کے کینسر سمیت دیگر اقسام کے کینسرز کے خلاف بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سرخ پیاز کے علاوہ دیگر رنگوں کی پیاز میں بھی اینٹی آکسیڈنٹس کی بھاری مقدار اور کوئسٹن موجود ہوتے ہیں جو کینسر سمیت متعدد بیماریوں سے تحفظ فراہم کرسکتے ہیں۔

  • نیگلریا کا خطرناک جراثیم آپ کے گھر میں بھی ہوسکتا ہے

    نیگلریا کا خطرناک جراثیم آپ کے گھر میں بھی ہوسکتا ہے

    معروف ثنا خواں ذوالفقار علی حسینی دماغ کی سوزش کے مرض نیگلریا کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگئے، ماہرین نے اس موسم کے لیے نیگلیریا الرٹ جاری کرتے ہوئے لوگوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں جنرل فزیشن ڈاکٹر وجاہت نے گفتگو کرتے ہوئے اس مرض کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر وجاہت کا کہنا تھا کہ یہ ایسا مرض ہے جو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا اور 2 سے 4 دن میں انسان کو موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔

    یہ مرض کس طرح اپنا شکار کرتا ہے؟

    ڈاکٹر وجاہت نے بتایا کہ نیگلیریا کا جراثیم بظاہر صاف دکھنے والے پانی میں موجود ہوتا ہے۔ وہ پانی جو میٹھا ہو، اور اس کا درجہ حرارت گرم ہو اس میں نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ جراثیم سوئمنگ پولز اور جھیلوں سمیت دیگر کھڑے ہوئے پانیوں میں ہوسکتا ہے۔

    اگر اس پانی میں نہایا جائے تو یہ ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور دماغ کو سوزش کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔ 4 سے 5 دن میں دماغ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    علامات

    اس جراثیم کے حملہ آور ہونے کا فوری طور پر علم نہیں ہوتا، تاہم یاد رکھیں اس مرض کی علامات میں:

    جھیل یا سوئمنگ پول میں نہانے کے 2، 4 دن کے اندر سونگھنے کی صلاحیت میں تبدیلی آنا

    گردن توڑ بخار ہونا

    گردن میں اکڑ محسوس ہونا

    چڑچڑا پن محسوس ہونا

    اور الٹیاں ہونا شامل ہے۔

    یاد رکھیں

    مندرجہ بالا علامات اگر اس وقت محسوس ہوں جب 2 یا 3 دن قبل آپ کسی جھیل یا سوئمنگ پول میں نہائے ہوں تو فوری طور پر الرٹ ہوجائیں اور ڈاکٹر کے پاس پہنچیں۔

    ان علامات کے لیے گھریلو ٹوٹکے اپنانے سے گریز کریں۔

    اگر 2 سے 3 دن کے اندر اس مرض کی تشخیص ہوجائے اور علاج شروع کردیا جائے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    ماہرین کے مطابق گرم اور مرطوب موسم نیگلیریا جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے چنانچہ اس موسم میں کھڑے پانی میں نہانے سے گریز کریں۔

    سوئمنگ کرتے ہوئے ناک کے لیے نوز پیڈز کا استعمال کریں۔

    پکنک پر جاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جس پول میں نہا رہے ہیں اس میں کلورین کی مناسب مقدار موجود ہے۔ غیر محفوظ پولز کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔

    کیا گھر میں بھی یہ جراثیم موجود ہوسکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق ہمارے گھروں میں آنے والا پانی بھی نہایت غیر محفوظ ذرائع سے ہم تک پہنچتا ہے چنانچہ اس میں بھی نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    اس سے بچنے کے لیے مرطوب موسم میں وضو کرتے ہوئے ناک میں ڈالنے کے لیے منرل واٹر یا ابلا ہوا پانی استعمال کریں۔

    گھر میں موجود پانی کے ذخائر میں مناسب مقدار میں کلورین شامل کریں۔

    کسی بھی قسم کے بخار کو معمولی مت سمجھیں اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • ٹھنڈی یخ شے کھانے پر دماغ چند لمحوں کے لیے سن کیوں ہوجاتا ہے؟

    ٹھنڈی یخ شے کھانے پر دماغ چند لمحوں کے لیے سن کیوں ہوجاتا ہے؟

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کوئی ٹھنڈی یخ شے کھاتے ہیں تو چند لمحوں کے لیے ہمارا دماغ سن سا ہوجاتا ہے اور کچھ سیکنڈز کے لیے ہم کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس موقع پر سر میں ہلکا سا درد بھی محسوس ہوتا ہے۔

    یہ حالت برین فریز کہلاتی ہے یعنی دماغ کا جم جانا۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی یخ شے ہمارے منہ کی چھت سے ٹکراتی ہے۔ آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ اس کیفیت کا سامنا تمام افراد کو نہیں ہوتا۔

    امریکا میں صرف 37 فیصد افراد کو اس کیفیت کا سامنا ہوتا ہے، تائیوان میں 4 فیصد بچے اور ڈنمارک میں صرف 15 فیصد بالغ افراد اسے محسوس کرتے ہیں۔

    سنہ 1800 سے یہ کیفیت سائنسدانوں کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور وہ اس کی وجہ اور اس کا علاج جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب کسی حد تک وہ اس کی وجہ جاننے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

    دراصل جب کوئی ٹھنڈی شے ہمارے منہ کی چھت سے ٹکراتی ہے تو یہ ٹرائی جیمینل نامی عصبیے (نرو) کو فعال کرتی ہے، اس عصبیے کی بدولت ہم سر کے سامنے والے حصے پر سردی یا گرماہٹ محسوس کرسکتے ہیں۔ جب اس عصبیے سے ٹھنڈی چیز ٹکراتی ہے تو سر کے سامنے والے حصے میں درد سا محسوس ہونے لگتا ہے۔

    درحقیقت ہمارے سر میں موجود مختلف اعصاب ہمارے سر کے مختلف حصوں کو متاثر کرتے ہیں اور ان میں تکلیف کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ دانت کا درد جس عصبیے کو متاثر کرتا ہے وہ دماغ کے مرکزی حصے میں تکلیف پیدا کرتا ہے۔

    برین فریز کے وقت سر میں درد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس موقع پر دماغ کی رگیں تیزی سے منہ کی چھت کی طرف خون بھیجتی ہیں جس سے رگیں عارضی طور پر چوڑی ہوجاتی ہیں، اس لیے بھی سر میں تکلیف پیدا ہوتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق برین فریز کا شکار ہونے والے افراد سر درد کی ایک اور پر اسرار قسم میگرین کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ عصبیہ میگرین پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ میگرین کو پراسرار اس لیے سمجھا جاتا ہے کیونکہ تاحال اس کی کوئی وجہ اور علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔

    اگر آپ بھی اکثر و بیشتر برین فریز کا شکار ہوتے رہتے ہیں تو پریشانی کی بات نہیں، یہ کیفیت صرف 20 سے 30 سیکنڈ تک رہتی ہے اس کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔

  • کان چھدوانے کے طبی فوائد جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کان چھدوانے کے طبی فوائد جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    دنیا بھر میں خواتین کا کان چھدوانا معمول کی بات ہے، بعض اوقات مرد بھی اپنے کان چھدوانا اور اس میں مختلف زیورات پہننا پسند کرتے ہیں۔

    ہندو مذہب میں انسان کی زندگی میں جو 16 مذہبی و روایتی کام سر انجام دیے جانے ضروری ہیں، ان میں سے ایک کان چھدوانا بھی ہے۔ کان کو مختلف زیوارت سے سجانا نہ صرف شخصیت میں خوبصورتی پیدا کرتا ہے، بلکہ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اس کے بے شمار طبی فوائد بھی ہیں۔

    دراصل کان کی لو جسم کے مختلف اہم حصوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، مختلف طریقہ علاج میں مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے کان کی لو نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کان چھدوانے کے کیا کیا فوائد ہیں۔

    دماغی نشونما میں معاون

    ماہرین کے مطابق بچوں کے کان چھدوانا ان کے دماغ کی بہتر نشونما میں مدد فراہم کرتا ہے۔ کان کی لو وہ مقام ہے جو دماغ کے بائیں حصہ کو دائیں حصے سے جوڑتی ہے لہٰذا اس مقام کو چھیدنا دماغ کو متحرک کرتا ہے۔

    ایکو پریشر کے اصولوں میں بھی دماغ کے خلیات کو صحت مند اور فعال بنانے کے لیے اسی مقام کو استعمال کیا جاتا ہے۔

    دماغی امراض میں کمی

    چونکہ کانوں کی لو کا دماغ سے گہرا تعلق ہے لہٰذا اس مقام پر دباؤ ڈالنا بہت سے دماغی امراض میں کمی کرتا ہے اور ان سے بچاؤ بھی فراہم کرتا ہے۔

    توانائی

    کہا جاتا ہے کہ مستقل طور پر کانوں میں بالیاں پہننے والے افراد کے جسم میں توانائی کا تناسب برابر رہتا ہے۔

    بہتر بینائی

    کانوں کی لو بینائی کا بھی مرکز ہے، اس حصے پر دباؤ ڈالنا بینائی میں بہتری پیدا کرتا ہے۔

    سماعت میں بہتری

    کان چھدوانا سماعت کو بھی بہتر کرتا ہے۔ کم عمری میں کان چھدوانا بڑی عمر میں کانوں میں بھنبھناہٹ اور سرسراہٹ محسوس ہونے کے مرض سے بچاتا ہے۔

    ہاضمے میں معاون

    کان کی لو پر دباؤ ڈالنا ہاضمے کے نظام کو بھی بہتر بناتا ہے۔ اس سے کھانا جلد ہضم ہوتا ہے جس سے موٹاپے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔

    تولیدی صحت میں بہتری

    ہندو آیورو ویدک کے مطابق کان کی لو کا مرکز، جسم کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کا تعلق تولیدی صحت سے ہے۔ کان چھدوائے جانا خواتین کی تولیدی صحت اور ماہانہ ایام کے سسٹم میں بہتری پیدا کرتا ہے۔

    مردوں کی زرخیزی میں اضافہ

    اسی طرح یہ عمل مردوں کی زرخیزی میں بھی اضافہ کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بعض مذاہب و روایات میں چھوٹے بچوں کے کان چھدوائے جانا ایک لازمی عمل ہے۔

    کان چھدوانے کی صحیح عمر

    ماہرین طب کے مطابق دماغی و جسمانی صحت کے لیے بے حد فائدہ مند یہ کام نہایت کم عمری میں ہی کردینا چاہیئے۔ اس کے لیے بچوں کی پیدائش کے دسویں، بارہویں یا سولہویں دن کا انتخاب کرلیا جائے، یا پھر بچوں کی عمر کے چھٹے، ساتویں یا آٹھویں مہینے میں ان کے کان چھدوائے دیے جائیں۔

    بچوں اور بچیوں کے کان چھیدنے میں فرق

    بعض روایات میں بچے کے کان چھیدتے ہوئے پہلے دایاں کان چھیدا جاتا ہے، اور بچی کے کان چھیدتے ہوئے پہلے بایاں کان چھیدا جاتا ہے۔ اس کے پیچھے یہ نظریہ کار فرما ہے کہ دایاں حصہ مردانہ اور بایاں حصہ زنانہ اوصاف کا حامل ہوتا ہے چنانچہ خیال کیا جاتا ہے کہ پہلے درست حصے کی طرف کا کان چھیدنا مخصوص اوصاف کو متحرک کرتا ہے۔

  • ہیپاٹائٹس کے مکمل خاتمے کے لیے 5 سالہ منصوبہ بنا لیا ہے: ڈاکٹر ظفر مرزا

    ہیپاٹائٹس کے مکمل خاتمے کے لیے 5 سالہ منصوبہ بنا لیا ہے: ڈاکٹر ظفر مرزا

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا ہے کہ حکومت نے ہیپاٹائٹس کے مکمل خاتمے کے لیے 5 سالہ منصوبہ بنایا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ہیپاٹائٹس کے عالمی دن پر عالمی ادارۂ صحت کے زیر اہتمام تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معاون خصوصی نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہیپاٹائٹس سی کی ٹیسٹنگ اور علاج کے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔

    ظفر مرزا نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان کا انسداد ہیپاٹائٹس پروگرام صوبوں کے تعاون سے کام کرے گا، اس پروگرام کے تحت لاکھوں مریضوں کی اسکریننگ میں معاونت فراہم کی جائے گی۔

    ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈیڑھ کروڑ افراد ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہیں، ایڈز اور ہیپاٹائٹس پر قابو پانے کے لیے ٹاسک فورسز بنا دی گئی ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  وزیر اعظم 2 ہفتوں میں شعبۂ صحت سے متعلق بڑا اعلان کریں گے: ڈاکٹر ظفر مرزا

    وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے مزید کہا کہ حکومت نیشنل بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے قیام پر غور کر رہی ہے، یہ اتھارٹی عطیہ شدہ خون کی اسکریننگ کی ذمہ دار ہوگی، حکومت ملک میں آٹو لاک سرنجز متعارف کرانے پر بھی غور کر رہی ہے۔

    ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ ملک میں مریض دوست اور محفوظ اسپتالوں کا منصوبہ زیر غور ہے، ڈبلیو ایچ او مریض دوست، محفوظ اسپتالوں کے لیے تعاون کرے گا، چاروں صوبوں میں ایک سرکاری، ایک نجی اسپتال کو ماڈل بنایا جائے گا۔

  • پاکستان میں ہر بارہواں شخص ہیپاٹائٹس کا شکار

    پاکستان میں ہر بارہواں شخص ہیپاٹائٹس کا شکار

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں 28 جولائی کو ہیپاٹائٹس سے بچاؤ اور اس کے خلاف آگہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ موذی مرض ہر سال 14 لاکھ افراد کو موت کا شکار کردیتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں یہ لوگوں کو موت کے منہ میں پہنچانے والی ٹی بی کے بعد دوسری بڑی بیماری ہے۔ دنیا بھر میں 32 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہا ہے کہ دنیا بھر میں روزانہ 4 ہزار کے قریب افراد اس مرض کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ سالانہ یہ شرح 14 لاکھ ہے۔

    پاکستان ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا شکار دوسرا بڑا ملک

    ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا شکار دوسرا بڑا ملک ہے، صرف پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں اس مرض کی صرف 2 اقسام بی اور سی کے ہی ڈیڑھ کروڑ مریض موجود ہیں۔

    اس وقت پاکستان میں سوزش جگر کے اس مرض میں کل کتنے افراد مبتلا ہیں، اس بارے میں کوئی حتمی اعداد و شمارتو موجود نہیں ہیں تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر بارہواں شخص ہیپاٹائٹس میں مبتلا ہے۔

    پاکستان میں ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکے لگوانے کا رحجان کم ہے یہی وجہ ہے کہ اس مرض کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے۔

    ملک میں حکومت کی جانب سے وفاقی اور صوبائی سطح پر ہیپاٹائٹس کی روک تھام اور علاج کے لیے خصوصی پروگرام جاری ہیں تاہم ان کوششوں کو مزید تیز اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

    ہیپاٹائٹس مردوں میں بانجھ پن کا سبب

    خاموش قاتل کے نام سے جانا جانے والا یہ مرض ہیپاٹائٹس جگر کی خرابی، کینسر اور موت کا سبب تو بن سکتا ہے تاہم ایک تحقیق کے مطابق یہ مرض مردوں کو بانجھ پن میں بھی مبتلا کرسکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ہیپاٹائٹس بی وائرس میں موجود ایک پروٹین ’ایس‘ مردوں کی زرخیزی میں نصف کمی کردیتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچنے کے لیے احتیاط ہی بہترین طریقہ ہے جس سے آپ خود کو اس موذی مرض سے بچا سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال، گندا پانی، غیر معیاری اور ناقص غذا ہیپاٹائٹس کا سبب بننے والی بڑی وجوہات ہیں۔

  • ٹوٹا ہوا دل کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے

    ٹوٹا ہوا دل کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے

    کیا آپ جانتے ہیں ٹوٹا ہوا دل کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے؟ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق نے ٹوٹے دل اور کینسر کے درمیان گہرا تعلق ثابت کردیا۔

    ماہرین کے مطابق دل ٹوٹنے کے صحت پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، طبی زبان میں اسے بروکن ہارٹ سنڈروم کہا جاتا ہے، اور یہ ایک حقیقی شے ہے۔

    یہ سنڈروم بہت زیادہ تناؤ زدہ صورتحال میں سامنے آتا ہے اور اس صورتحال کی سب سے عام مثال کسی پیارے کا بچھڑ جانا ہے۔ اس سنڈروم میں اچانک سینے میں نہایت شدید درد اٹھتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کینسر کی اہم وجہ کیا ہے؟

    آپ نے اکثر جوڑوں کے ساتھ اس طرح کی صورتحال دیکھی ہوگی کہ کسی ایک کی موت کے چند دن بعد دوسرے شخص کی بھی موت واقع ہوجاتی ہے۔ یہ بروکن ہارٹ سنڈروم کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔

    اب حال ہی میں جرنل آف امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ دل ٹوٹنے کا کینسر سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔

    تحقیقی مقالے میں بتایا گیا کہ تحقیق کے لیے جائزہ لیے جانے والے افراد میں سے اس سنڈروم کا شکار 6 افراد میں کینسر کی تشخیص کی گئی۔ ان افراد میں کینسر کے دیگر مریضوں کی نسبت موت کا امکان بھی زیادہ تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹوٹے ہوئے دل اور کینسر کے تعلق کے بارے میں مزید جامع تحقیق کی ضرورت ہے جس کے بعد مزید حتمی نتائج مرتب کیے جاسکیں گے۔

  • بچے کی یہ حرکات اس میں آٹزم کی نشاندہی کرتی ہیں

    بچے کی یہ حرکات اس میں آٹزم کی نشاندہی کرتی ہیں

    اعصابی بیماری آٹزم دنیا بھر میں تیزی سے عام ہوتی جارہی ہے، آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے، سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس مرض کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بچے کی نہایت کم عمری میں ہی اس میں آٹزم کا سراغ لگایا جاسکتا ہے، ایسے بچے بظاہر نارمل اور صحت مند دکھائی دیتے ہیں تاہم ان کی کچھ عادات ان کے آٹزم میں مبتلا ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ وہ عادات یہ ہیں۔

    بار بار مٹھی کھولنا اور بند کرنا: یہ آٹزم کی نہایت واضح نشانی ہے۔

    اکثر پنجوں کے بل چلنا

    اپنے سر کو کسی چیز سے مستقل ٹکرانا: کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ بچے اپنے سر کو کسی سطح سے مستقل ٹکراتے ہیں۔

    لوگوں کے درمیان یا اجنبی جگہ پر مستقل روتے رہنا اور غیر آرام دہ محسوس کرنا

    اپنے سامنے رکھے پانی یا دودھ کو ایک سے دوسرے برتن میں منتقل کرنا

    بہت زیادہ شدت پسند اور ضدی ہوجانا

    آوازوں پر یا خود سے کی جانے والی باتوں پر دھیان نہ دے پانا: ایسے موقع پر یوں لگتا ہے جیسے بچے کو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا۔

    نظریں نہ ملا پانا: ایسے بچے کسی سے آئی کانٹیکٹ نہیں بنا پاتے۔

    بولنے اور بات کرنے میں مشکل ہونا

    کسی کھانے یا کسی مخصوص رنگ کے کپڑے سے مشکل کا شکار ہونا: ایسے بچے اکثر اوقات کپڑے پہنتے ہوئے الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ کپڑے کے اندرونی دھاگے انہیں بے چینی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بچے نظر بچا کر کپڑوں کو الٹا کر کے بھی پہن لیتے ہیں۔

    مزید رہنمائی کے لیے یہ ویڈیو دیکھیں۔