Tag: صحت کی خبریں

  • دودھ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے؟

    دودھ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے؟

    دودھ کو ایک مکمل غذا سمجھا جاتا ہے جو اپنے اندر جسم کے لیے تمام ضروری غذائی اجزا رکھتا ہے، یہ بچوں سمیت ہر عمر کے افراد کے لیے یکساں طور پر فائدہ مند ہے۔

    دودھ فوری توانائی پہنچانے کا ذریعہ ہے اور ایک گلاس دودھ جسم کو درکار تمام وٹامن فراہم کردیتا ہے۔ تاہم بعض صورتوں میں دودھ نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    ایسے موقع پر دودھ سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔ آئیں جانتے ہیں کہ دودھ کب آپ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    کینسر کا سبب

    اگر دودھ میں مضر صحت اجزا باقی رہ جائیں تو یہ دودھ چھاتی، رحم اور پروسٹیٹ کینسر کا سبب بن سکتا ہے، لہٰذا کھلے دودھ کو تیز آنچ پر ابالا جائے اور ڈبے کے بند دودھ کے لیے کسی معیاری کمپنی کا انتخاب کیا جائے۔

    ہاضمے کے لیے نقصان دہ

    بعض افراد کے جسم میں ایسے انزائم پیدا نہیں ہوتے جو دودھ میں موجود لیکٹوز کو ہضم کرسکیں۔ یہ انزائم لیکٹیز کہلاتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے دودھ نظام ہاضمہ کے مسائل، ڈائریا، گیس اور پیٹ میں درد پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    الرجی

    بعض افراد کو دودھ سے الرجی بھی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں دودھ پینا شدید تکلیف میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    دودھ سے الرجک شخص اگر دودھ پی لے تو اسے جلد کے پھٹ جانے، گلے، زبان اور منہ کے سوج جانے کی شکایت ہوسکتی ہے جبکہ شدید کھانسی کا دورہ پڑسکتا ہے۔

    ایسے افراد جن کا جسم دودھ کو قبول نہیں کرتا، دودھ پینے سے گردوں یا جگر کے کینسر میں بھی مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    وزن میں اضافہ

    پروسیسڈ دودھ جیسے پنیر اور دودھ سے بنی دیگر مصنوعات میں اضافی اور غیر ضروری اشیا جیسے مصنوعی رنگ اور مٹھاس شامل کی جاتی ہے۔ یہ وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔

  • ملیریا پاکستان میں پھیلنے والی دوسری بڑی عام بیماری

    ملیریا پاکستان میں پھیلنے والی دوسری بڑی عام بیماری

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ملیریا سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اس دن کا مقصد لوگوں میں ملیریا سے بچاؤ اور اس کے متعلق پیدا شدہ خدشات اور غلط فہمیوں کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔

    ملیریا اینو فلیس نامی مادہ مچھر کے ذریعے پھیلنے والا متعدی مرض ہے جس کا جراثیم انسانی جسم میں داخل ہو کر جگر کے خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔

    ملیریا کی صحیح تشخیص نہ ہونے سے ہر سال دنیا بھر میں ملیریا کے 20 کروڑ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ اس کی وجہ سے ہر سال 6 لاکھ 27 ہزار اموات ہوتی ہیں۔

    ملیریا کا سبب بنے والے مچھر کو عالمی ادارہ صحت نے دنیا کا مہلک ترین جانور قرار دیا ہے۔

    مچھر بلاشبہ ایک خطرناک کیڑا ہے اور ہلاکت خیزی میں یہ بڑے بڑے جانوروں کو مات کردیتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 10 لاکھ افراد مچھر کے کاٹنے (اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں) سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    اس کے مقابلے میں سانپ کے کاٹے سے ہر سال 50 ہزار افراد ہلاک ہوتے ہیں جبکہ خطرناک ترین شارک بھی سال میں بمشکل 10 افراد کا شکار کر پاتی ہے۔

    علاوہ ازیں دنیا بھر میں ہلاکت خیز ہتھیار بناتے اور مہلک ترین کیمیائی تجربات کرتے انسان بھی سال میں 4 لاکھ 75 ہزار اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔ (جنگوں اور قدرتی آفات میں ہونے والی انسانی ہلاکتیں اس کے علاوہ ہیں۔)

    لیکن مچھر مذکورہ بالا تمام شکاریوں سے چار ہاتھ آگے ہے۔

    پاکستان کا شمار آج بھی ملیریا کے حوالے سے دنیا کے حساس ترین ممالک میں کیا جاتا ہے اور ملک میں ملیریا دوسری عام پھیلنے والی بیماری ہے۔

    پاکستان بھر میں ہر سال کے 10 لاکھ ملیریا کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق بخار، کپکپی، سر درد، متلی، کمر اور جوڑوں میں درد ملیریا کی بنیادی علامات ہیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملیریا کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ مرض جان لیوا ہو سکتا ہے۔

  • یہ وٹامن آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے

    یہ وٹامن آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے

    جسم میں تمام وٹامنز اور معدنیات کی متوازن مقدار ہونا ضروری ہے تاکہ جسم صحت مند رہ سکے، لیکن کچھ وٹامنز کی زیادتی آپ کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق وٹامن اے کی زیادتی آپ کو بے شمار بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔ یہ وٹامن شکر قندی، سی فوڈ، پپیتا، مٹر، گوشت، دودھ اور انڈوں وغیرہ میں موجود ہوتا ہے۔

    وٹامن اے کے زیادہ استعمال سے ہائپروٹامنوسس نامی بیماری ہوتی ہے۔ اس بیماری میں آپ کو متلی، الٹی، اور پیٹ کا درد ہوسکتا ہے، علاوہ ازیں وٹامن اے کی زیادتی سے بالوں کا جھڑنا، جلد کی حساسیت، ناخنوں کا ٹوٹنا، نظر کی دھندلاہٹ یہاں تک کہ منہ کا السر بھی ہوسکتا ہے۔

    اس کی زیادتی ہڈیوں کے کیلشیئم جذب کرنے کے عمل میں بھی مداخلت کرتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہڈیاں پھول جاتی ہے اور ہڈیوں میں شدید درد محسوس ہوسکتا ہے۔

    وٹامن اے سے جگر بھی متاثر ہوسکتا ہے، وٹامن اے کی زیادہ مقدار دیگر اعضا کی کارکردگی میں بھی خلل پیدا کر سکتی ہے جس سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    بچوں میں وٹامن اے کی زیادتی سے وہ کوما میں بھی جاسکتے ہیں۔

    کہاوت ہے کہ ہر اچھی چیز کی زیادتی بری چیز ہے۔ چنانچہ اگر آپ بھی سمجھتے ہیں کہ وٹامن اے کی زیادہ مقدار فائدہ مند ہے تو اس خیال کو دل سے نکال دیں اور وٹامن اے کی مقدار کم کردیں۔m

  • بچوں کے سروں پر منڈلاتا خطرہ، جس سے والدین بے خبر ہیں

    بچوں کے سروں پر منڈلاتا خطرہ، جس سے والدین بے خبر ہیں

    بچوں میں اسمارٹ فون کا استعمال بے حد بڑھ گیا ہے اور یہ ایسا خطرہ ہے جسے والدین جانے یا انجانے میں نظر انداز کر رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بچوں کا اسکرین ایکسپوژر اس وقت دنیا کے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آرہا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ان میں ضدی پن، چڑچڑاہٹ، بھوک میں کمی اور ارتکاز اور توجہ کی کمی جیسے مسائل سامنے آرہے ہیں۔

    عام مشاہدہ یہی ہے کہ بچے اسمارٹ فون کی روشی کو فل کر کے بہت نزدیک سے گھنٹوں تک گیم کھیلنے یا ویڈیوز دیکھنے میں صرف کر دیتے ہیں۔

    جسمانی سرگرمیوں کے بجائے سارا دن اسمارٹ فون پر گیم کھیلنے والے بچوں کو آنکھوں کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تو دوسری جانب جسمانی طور پر کھیل کود کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے وہ موٹاپے، یادداشت اور توجہ میں کمی جیسی بیماریوں میں بھی مبتلا ہورہے ہیں۔

    اس حوالے سے برطانیہ کی اینجلیا رسکن یونیورسٹی (اے آر یو) کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گھنٹوں اسکرین کے سامنے رہنے کی وجہ سے بچے آنکھوں کی ڈیجیٹل بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں جن میں آنکھوں کا خشک ہونا، سرخ ہونا اور آنکھوں کی تھکاوٹ شامل ہے۔

    اے آر یو کی جانب سے ہونے والی تحقیق کے مطابق کورونا وبا کی وجہ سے بچوں کا اسکرین ٹائم کافی حد تک بڑھ گیا ہے اور اس کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ اس کے مضر اثرات سے نوزائیدہ بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔

    تیونس میں ہونے والی تحقیق کے مطابق 5 سے 12 برس تک کے بچوں میں اسکرین ٹائم 111 فیصد بڑھ چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسکرین ٹائم بڑھنے کی وجہ سے آنکھوں کی خشکی، سرخی اور تناؤ بڑھتا ہے۔

  • ہمارے کھانوں میں شامل ایک چیز جو صحت کا خزانہ ہے

    ہمارے کھانوں میں شامل ایک چیز جو صحت کا خزانہ ہے

    لہسن ہمارے کھانوں میں استعمال ہونے والا اہم جز ہے، کھانوں میں استعمال کیے جانے کے علاوہ اسے کچا کھانا بھی ہماری صحت کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔

    ماہرین کے مطابق لہسن کے نہار منہ استعمال سے نہ صرف وزن میں کمی اور کولیسٹرول لیول متوازن رہتا ہے بلکہ جلدی امراض سے بھی نجات ملتی ہے۔

    پیٹ کی چربی اور وزن کم کرنے کے لیے نہار منہ لہسن کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے جس کے بے شمار فوائد مجموعی صحت پر مرتب ہوتے ہیں، جن افراد کو ایکنی، کیل مہاسے، وائٹ اور بلیک ہیڈز کی شکایت ہو، نہار منہ لہسن کا استعمال ان افراد کے لیے بھی نہایت مفید ہے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ لہسن ہمارے دانتوں کو مضبوط بناتا ہے، تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ سوجے مسوڑھوں کے علاج میں لہسن ایک اچھا متبادل علاج ہو سکتا ہے۔

    لہسن میں اینٹی بیکٹیریل، اینٹی وائرل اور اینٹی فنگل خصوصیات ہیں، ان خصوصیات کی وجہ سے منہ میں موجود بیکٹیریا فوری طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    لہسن کا استعمال فٹنس کے لیے بھی بہتر ہے۔ ایک تحقیق سے علم ہوا کہ اگر آپ ورزش کرتے ہیں اور اپنی خوراک میں روزانہ کی بنیاد پر لہسن کا استعمال کرتے ہیں تو آپ کا جسم چست اور فٹ رہے گا اور آپ کو جلدی تھکاوٹ نہیں ہوگی۔

    لہسن ہماری جلد کی صحت کے لیے بھی بہت مفید سمجھا جاتا ہے، اگر آپ روزانہ لہسن کھائیں گے تو آپ کی جلد داغ دھبوں، ایکنی اور کیل مہاسوں سے پاک ہوجائے گی، اس کے علاوہ لہسن میں کچھ ایسے اینٹی آکسیڈنٹس بھی پائے جاتے ہیں جو ہماری جلد کو جلدی بوڑھا نہیں ہونے دیتے۔

    متعدد مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ لہسن کے استعمال سے کولیسٹرول کی سطح متوازن رہتی ہے جس کے سبب شریانوں میں اضافی چربی کا صفایا ہوتا ہے، لہسن خون کو صاف بناتا ہے جس کے نتیجے میں جگر کی صحت بہتر ہوتی ہے۔

  • بلڈ ٹیسٹ کی وہ رپورٹ جس کے بعد آپ کو ہوشیار ہوجانا چاہیئے

    بلڈ ٹیسٹ کی وہ رپورٹ جس کے بعد آپ کو ہوشیار ہوجانا چاہیئے

    جس طرح جسم میں خون کی کمی انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے اسی طرح خون کی زیادتی بھی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

    بعض افراد کے خون میں سرخ خلیوں کی مقدار زیادہ ہوسکتی ہے، جیسے طرح مردوں میں ہیمو گلوبن (خون کی مقدار) 14 سے 15 ہونی چاہیئے اور خواتین میں 13 سے 14 کے درمیان ہونی چاہیئے۔

    اگر جسم میں خون کی مقدار اس سے زیادہ ہوگی تو اس کا مطلب ہے کہ خون گاڑھا ہو رہا ہے، مردوں میں خون گاڑھے ہونے کی وجہ سگریٹ نوشی یا پھر پھیپھڑوں کی کوئی بیماری جیسے دمہ وغیرہ ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر آپ کو سانس لینے میں مسئلہ ہو رہا ہے یا روٹین سے ہٹ کر زیادہ گرمی لگ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کی بون میرو ایکٹو ہوگئی ہے اور وہاں سے آپ کی خون کی مقدار بڑھ رہی ہے۔

    ایسے میں فوراً علاج کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نقصان کا باعث بن سکتا ہے، خون گاڑھا ہو کر جمنا شروع ہوسکتا ہے جس سے دل کے دورے یا فالج کا خدشہ ہے۔

    اگر بلڈ ٹیسٹ میں خون کے خلیوں کی مقدار زیادہ ہے تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • سگریٹ نوشی کی عادت چھڑانے کے لیے کامیاب ترین طریقہ سامنے آگیا

    سگریٹ نوشی کی عادت چھڑانے کے لیے کامیاب ترین طریقہ سامنے آگیا

    دنیا بھر میں متعدد افراد چاہتے ہوئے بھی سگریٹ نوشی سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے، تاہم ماہرین نے اب اس کا ایک آسان حل بتا دیا ہے۔

    تھائی لینڈ کی سرینا خارینویروٹ یونیورسٹی کے شعبہ طب کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ نکوٹین گم کے بجائے لائم جوس سگریٹ نوشی کی عادت ترک کرنے کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

    ماہرین کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں نکوٹین گم کے مقابلے میں لائم جوس کو سگریٹ نوشی کے خاتمے میں مدد کے طور استعمال کرنے کی تاثیر کا تجربہ کیا گیا۔

    اس تحقیق میں 18 برس یا اس زائد عمر کے ایسے افراد کو شامل کیا گیا جو تمباکو نوشی کرتے تھے اور اس عادت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔

    اس تحقیق میں شامل رضاکاروں کو دو الگ الگ گروپس میں تقسیم کیا گیا، ان میں 47 افراد کو تازہ لائم جوس جبکہ دوسرے گروپ کے 53 افراد کو نکوٹین گم استعمال کروائی گئی جبکہ یہ تحقیق 9 سے 12 ہفتوں تک جاری رہی۔

    اس تحقیق میں سگریٹ نوشی میں کمی کی تصدیق خارج ہونے والے کاربن مونو آکسائیڈ کی مقدار کی پیمائش کے بعد کی گئی، سگریٹ میں کمی کو کئی دوسرے پیمانوں سے بھی جانچا گیا۔

    تحقیق کے نتائج حاصل ہونے پر ماہرین نے دیکھا کہ لائم جوس نکوٹین سے بھرپور گم کا ایک بے ضرر اور محفوظ متبادل ہے جو آسانی سے ہر جگہ دستیاب بھی ہے، جبکہ اس کے ان گنت فوائد میں ٹشوز کو الکلائن کرنا بھی شامل ہے جو عام طور پر تمباکو نوشی کرنے والوں میں زیادہ تیزابیت رکھتے ہیں۔

    تحقیق کے دوران دونوں گروپس کا موازنہ کیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ دونوں گروپس میں سگریٹ کی طلب میں کوئی خاص فرق نہیں تھا، لیکن 4 ہفتوں کے بعد لیموں کا رس استعمال کرنے والے اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہے اور ان کی طلب میں بھی کمی واقع ہوئی جو ایک خوش آئند بات تھی۔

  • وہ غذائیں جو پرسکون نیند میں رکاوٹ بن سکتی ہیں

    وہ غذائیں جو پرسکون نیند میں رکاوٹ بن سکتی ہیں

    8 سے 10 گھنٹے کی گہری اور پرسکون نیند ہماری صحت کے لیے بے حد ضروری ہے اور اس کی کمی بے شمار مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔

    تاہم ہم اپنی روزمرہ زندگی میں انجانے میں ایسی غذائیں استعمال کر رہے ہیں جو ہماری نیند کو متاثر کرنے کا سبب بن رہی ہے، ان غذاؤں میں کئی ایسے اجزا شامل ہوتے ہیں جو نیند پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں کہ وہ غذائیں کون سی ہیں۔

    کیفین

    کیفین ہمارے اعصابی نظام کو متحرک رکھتا ہے اور نیند کو بھگاتا ہے، کافی، چائے اور سافٹ ڈرنکس میں اس کی بہت زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ سونے سے پہلے چائے، کافی یا کولڈ ڈرنکس کا استعمال نیند میں خلل ڈال سکتا ہے۔

    ٹماٹر یا اس سے بنی چیزیں

    ماہرین کا خیال ہے کہ ٹماٹر تیزابی خواص رکھتا ہے، اس لیے ٹماٹر سے بنے کھانے اسی وقت کھائیں جب آپ کے سونے میں کم از کم 3 گھنٹے کا وقت ہو ورنہ یہ نیند میں بار بار رکاوٹ بن سکتا ہے۔

    مصالحہ دار اور مرغن کھانے

    مصالحے دار اور مرغن کھانے جہاں سینے کی جلن اور تیزابیت کا باعث بنتے ہیں، وہیں نظام انہضام پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب کرتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ سونے سے پہلے مصالحے دار اور مرغن غذاؤں کے بجائے ہلکی خوراک لی جائے۔

    مٹھائیاں

    روایتی مٹھائیاں اپنے اجزا کی وجہ سے بہت بھاری ہوتی ہیں، یہ سونے میں مشکل پیدا کرسکتی ہیں۔

    فاسٹ فوڈ

    فاسٹ فوڈ کو اپنی خوراک کا لازمی حصہ بنالینا کئی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ فاسٹ فوڈ میں چینی، چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، جو نیند میں مسائل کا باعث بنتی ہے۔

  • سانس پھولنے کی وجہ پریشان کن ہوسکتی ہے

    سانس پھولنے کی وجہ پریشان کن ہوسکتی ہے

    کیا آپ کو سیڑھیاں چڑھتے ہوئے یا مختلف سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے سانس پھولنے کی شکایت ہورہی ہے، تو ماہرین نے اس کی وجہ ڈھونڈ لی ہے اور یہ خاصی تشویشناک ہوسکتی ہے۔

    سانس پھولنے کے لیے ڈسپینیا کی طبی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے اور امریکا کے مایو کلینک کے مطابق اس کے ساتھ سینے میں شدید کھنچاؤ، ہوا کی زیادہ ضرورت یا دم گھونٹنے جیسے احساسات بھی ہوسکتے ہیں۔

    اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جن کے باعث یہ دہشت زدہ کردینے والا تجربہ ہوتا ہے جن میں سے کچھ سنگین اور کچھ بے ضرر ہوتی ہیں۔

    دراصل سانس لینے کا عمل بہت پیچیدہ ہوتا ہے، پھیپھڑوں، سانس کی نالی، شریانوں، مسلز اور دماغ کے متعدد ریسیپٹرز جسمانی ضروریات کے مطابق سانس لینے کے عمل کے لیے کام کرتے ہیں۔

    اگر آپ کو دمہ ہے، تو اس بیماری میں سانس کی نالی تنگ ہوجاتی ہے، سوج جاتی ہے اور بہت زیادہ بلغم تیار کرتی ہے، جس کے باعث جسمانی سنسرز شناخت کرتے ہیں کہ جسم کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں مل رہی اور خطرے کی گھنٹی بجنے لگتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس سے آپ کو لگ سکتا ہے کہ ہوا کے حصول کے لیے مزید کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

    کوئی عام کام جیسے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس لینے میں مشکلات کئی بار لوگوں کو پریشان کردیتا ہے۔ سنسناٹی یونیورسٹی کے کالج آف میڈیسین کی پھیپھڑوں کے امراض کی ایسوسی ایٹ پروفیسر سعدیہ بینزکونمے مطابق ضروری نہیں کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ ہو۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر آپ کسی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر رہتے ہیں اور سیڑھیاں چڑھنے کے عادی نہیں ہوتے، تو یہ غیرمعمولی نہیں کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس کچھ پھول جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ عام جسمانی سرگرمیوں سے سانس پھول جاتا ہے اور اگر آپ کو یاد نہیں کہ آخری بار ورزش کب کی تھی تو بہتر ہے کہ اسے معمول بنالیں۔ ایسا کرنے سے مسلز کے افعال زیادہ بہتر ہوتے ہیں اور انہیں کام کے لیے کم آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ وہ کم کاربن ڈائی آکسائیڈ بھی خارج کرتے ہیں۔

    یعنی ورزش کرنے سے ہوا کی ضرورت میں کمی آتی ہے اور ورزش شروع کرنے سے پہلے یہ برا خیال نہیں کہ ڈاکٹر کے پاس جاکر دل اور پھیپھڑوں کی صحت کی جانچ پڑتال کروالیں۔

    اس کے برعکس اگر ورزش کرنا آپ کا معمول ہے اور پھر بھی روزانہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جاتا ہے تو یہ ضرور قابل تشویش ہے۔

    پروفیسر سعدیہ نے کہا کہ اگر سیڑھیاں چڑھنے کے مقابلے میں کم شدت والی جسمانی سرگرمیوں جیسے نہانے یا کچھ چلنے سے بھی لگتا ہے کہ سانس لیا نہیں جارہا تو یہ ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا اشارہ ہوتا ہے۔

    ان کے مطابق صحت مند جوان افراد کو عام سرگرمیوں میں سانس کے مسائل کا سامنا نہیں ہونا چاہیئے۔

    تاہم اگر ایسا ہورہا ہے تو اس کی عام وجہ دمہ اور دیگر سنگین وجوہات میں نمونیا، کاربن مونو آکسائیڈ پوائزننگ، ہارٹ اٹیک، ہارٹ فیلیئر اور پھیپھڑوں کے امراض قابل ذکر ہیں۔

    ہر بیماری میں سانس پھول جانے کا میکنزم تھوڑا مختلف ہوتا ہے جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ جسم کے کونسے حصے کے سنسرز اس عمل کا حصہ ہیں۔

    ان سب کی دیگر متعدد علامات بھی ہوتی ہیں تو ضروری نہیں کہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سانس پھول جانا واقعی صحت کی کسی سنگین خرابی کا نتیجہ ہو۔ ماہرین کے مطابق ایسی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • وہ غذائیں جو ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں

    وہ غذائیں جو ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار ہے تاہم اس کے بارے میں شعور و آگاہی بے حد کم ہے۔

    حال ہی میں بین الاقوامی ماہرین نے ڈپریشن کے حوالے سے کچھ نئی تحقیق کی ہیں۔

    ماہرینِ نفسیات کے مطابق ڈپریشن کسی کو بھی ہوسکتا ہے، اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس یا بیزار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے چینی اور بے بسی کا شکار رہتے ہیں تو آپ بھی ڈپریشن کا شکار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ڈپریشن بھی ایک باقاعدہ بیماری ہے، اس کی دیگر علامات میں ٹھیک سے نیند نہ آنا، بھوک نہ لگنا یا وزن میں کمی، فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور توجہ و یاداشت کی کمی جیسے مسائل بھی شامل ہیں یہاں تک کہ اس بیماری کا شکار لوگ اپنی جان لینے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنے لگتے ہیں۔

    ماہرین نفسیات نے دماغی، نفسیاتی اور اعصابی سکون اور توانائی حاصل کرنے کے لیے قیمتی مشورے دیے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق سبزے، درخت اور پرسکون قدرتی مقامات دماغی سکون کا باعث ہوتے ہیں اور ان کے اثرات کئی ہفتوں تک برقرار رہتے ہیں۔

    اکثر لوگ کسی نہ کسی بات پر پریشانی کا شکار ہو کر مایوس ہوجاتے ہیں، ایسی صورتحال میں انہیں چاہیئے کہ وہ اہل خانہ اور دوستوں سے رابطہ کریں کیوں کہ حوصلہ افزا اور تسلی بخش جملے آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں گے اور آپ کا اعتماد بڑھے گا۔

    کیا ڈپریشن سے بچنا ممکن ہے؟

    آپ بھی کسی شخص کو ڈپریشن سے بچا سکتے ہیں، ڈپریشن کے شکار شخص سے پوچھا جائے کہ وہ کس مشکل کا شکار ہے اور کیا اسے کسی قسم کی مدد درکار ہے۔

    اگر آپ کسی کے بارے میں جان لیں کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہے، تو بہتر ہوگا کہ آپ ان پر نظر رکھیں اور انہیں مائل کریں کہ وہ کسی ماہر نفسیات یا پروفیشنل سے مدد لینے پر مان جائیں لیکن اگر وہ ایسا کرنے سے گریز کرتے ہیں تو آپ خود جا کر کسی معالج سے مشورہ کر سکتے ہیں اور پوچھ سکتے ہیں کہ اس صورت میں آپ کو کیا کرنا چاہیئے۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے علاوہ آپ دیگر ذرائع جیسا کہ انٹرنیٹ وغیرہ سے بھی معلومات اکھٹی کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کسی بھی بیماری کی شدت فراغت کے سبب زیادہ محسوس ہوتی ہے، اس کے بر عکس اگر انسان کسی نہ کسی کام میں خود کو ذہنی اور جسمانی طور پر مصروف رکھے گا تو اس سے اس بیماری کی شدت میں کمی واقع ہوگی۔

    اگر انسان دن کے 24 گھنٹوں کو ایک نظم و ضبط کے ساتھ ترتیب دے تو اس سے اس کو اس بیماری کا مقابلہ کرنے کی طاقت مل سکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اللہ تعالی نے کچھ پھلوں میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ ان کے استعمال سے موڈ بہتر ہوتا ہے اور ایسے ہارمون جو ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں، ان کا لیول تیزی سے کم ہوتا ہے۔

    خاص طور پر رس والے پھل جن میں انگور، کینو وغیرہ شامل ہیں، ڈپریشن کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔

    ڈپریشن سے بچانے والی غذائیں

    ماہرین کے مطابق مندرجہ ذیل غذائیں ڈپریشن سے بچا سکتی ہیں۔

    وٹامن سی: ترنجی پھل، ہری سبزیاں اور دیگر پھل اور سبزیاں۔

    وٹامن ڈی: مچھلی، جھینگے، انڈے اور دودھ، پھلوں کے رس اور اناج سے بنی مصنوعات۔

    بی وٹامنز: سرخ گوشت، مچھلی، انڈے، دودھ کی مصنوعات، دلیہ اور پتوں والی ہری سبزیاں۔

    میگنیشیم، سیلینیم اور زنک: خشک میوے، بیج، دلیہ، ہری سبزیاں اور مچھلی۔

    کاربوہائیڈریٹس: بھوسی والی روٹیاں اور دلیہ، لال چاول، باجرا، پھلیاں اور نشاستہ دار سبزیاں، آلو، مکئی، مٹر۔

    بغیر چربی کا سرخ گوشت، مرغی کا گوشت، انڈے اور پھلیاں۔

    اومیگا 3 فیٹی ایسڈز: مچھلیاں، اخروٹ، گوبھی، پالک، گرما، کنولا اور السی کا تیل۔

    اومیگا 6 فیٹی ایسڈز: مرغی، انڈے، اناج اور سبزیوں کڈا تیل۔