Tag: صحت کی خبریں

  • سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    سیزیرین آپریشن سے بچنے کے لیے ان تجاویز پر عمل کریں

    ماں بننا اور ایک نئی زندگی کو جنم دینا جہاں زندگی میں بہت سی تبدیلیاں لے کر آتا ہے، وہیں اس بات کا بھی متقاضی ہوتا ہے کہ اس سارے عرصے کو نہایت احتیاط اور خیال کے ساتھ گزارا جائے تاکہ ماں اور آنے والا بچہ دونوں صحت مند رہیں۔

    آج کل دنیا بھر میں سیزیرین ڈلیوری کا رجحان بے حد بڑھ گیا ہے جس کی وجہ حمل کے دوران احتیاطی تدابیر نہ اپنانا، زچگی کے وقت کسی پیچیدگی کا پیش آجانا یا کم علمی، غفلت کے باعث اس پیچیدگی سے صحیح سے نہ نمٹ پانا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد حاملہ خواتین نارمل ڈلیوری کے عمل سے باآسانی گزر سکتی ہیں جبکہ صرف 15 فیصد کو آپریشن کی ضرورت پڑ سکتی ہے، تاہم آج کل ہر 3 میں سے ایک حاملہ خاتون آپریشن کے ذریعے نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: دوران حمل ان باتوں کا خیال رکھیں

    بعض خواتین اپنی مرضی سے سیزیرین آپریشن بھی کرواتی ہیں تاکہ انہیں اذیت ناک تکلیف اور گھنٹوں تک بے چینی نہ سہنی پڑے اور وہ جلد اس مرحلے سے گزر جائیں تاہم یہ چند گھنٹوں کا ریلیف مستقبل میں انہیں بے شمار طبی مسائل سے دو چار کردیتا ہے، علاوہ ازیں آپریشن سے ہونے والی ڈلیوری کے بعد صحت یابی میں بھی نارمل ڈلیوری کی نسبت زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق بچے کو جنم دیتے ہوئے قدرتی طریقہ کار یعنی نارمل ڈلیوری ہی بہترین طریقہ ہے جو ماں اور بچے دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ ان کے مطابق خواتین کو نارمل ڈلیوری کے لیے حمل کے دوران مندرجہ ذیل طریقوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    ذہنی تناؤ سے دور رہیں

    حمل کے دوران ذہنی تناؤ سے دور رہنا اور خوش رہنا بے حد ضروری ہے۔ ذہنی دباؤ اور ٹینشن نہ صرف بچے کی صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ حمل کے عرصے کو بھی مشکل بنا سکتا ہے جس کا نتیجہ ایک تکلیف دہ ڈلیوری کی صورت میں نکلتا ہے۔

    حمل کے عرصے کے دوران مراقبہ کریں، میوزک سنیں، کتابیں پڑھیں اور وہ کام کریں جس سے آپ کو خوشی ملتی ہے۔

    ایسے لوگوں کی کمپنی میں بیٹھیں جو آپ کے ذہن پر خوشگوار تاثر چھوڑیں۔

    ایسی خواتین سے بالکل دور رہیں جو اپنی زچگیوں کے کچھ سچے اور کچھ جھوٹے، بھیانک قصے سنا کر آپ کو ٹینشن میں مبتلا کردیں۔ ایسی خواتین آپ کی ڈلیوری کو بھی ایک بھیانک عمل بنا سکتی ہیں۔ جب بھی آپ کا واسطہ کسی ایسی خاتون سے پڑے تو اس سے دور ہوجائیں اور اس سے ملنے جلنے سے گریز کریں۔

    مزید پڑھیں: حمل ایک سے دوسری خاتون کو ’لگ سکتا ہے‘

    حمل کے دوران آپ کے ذہن کا ہلکا پھلکا اور خوش باش ہونا آپ کی ڈلیوری کے عمل کو بھی آسان بنا دے گا۔ ذہنی دباؤ، خوف یا ٹینشن آپ کی ڈلیوری کو آپ کی زندگی کا بدترین وقت بناسکتا ہے۔

    معلومات حاصل کریں

    حمل اور بچے کی پیدائش کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اس کے لیے اپنی ڈاکٹر، والدہ اور نانی یا انٹرنیٹ سے مدد لی جاسکتی ہے۔ آپ کو علم ہونا چاہیئے کہ حمل کے دوران کون سی غذائیں اور کام آپ کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر کا انتخاب

    پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں جہاں ڈاکٹرز زیادہ پیسے لینے کے لیے بچے کی پیدائش سی سیکشن کے ذریعے کروانے پر زور دیتے ہیں۔

    ایسے ڈاکٹرز کو جب اپنا مقصد ناکام ہوتا نظر آئے تو یہ لیبر روم سے باہر آ کر ایک مصنوعی ایمرجنسی کی صورتحال پیدا کرتے ہیں جس سے اہل خانہ کو تاثر جاتا ہے کہ ان کی بیٹی اور ہونے والے بچے کی زندگی خطرے میں ہے اور انہیں بچانے کا واحد حل صرف سیزیرین آپریشن ہی ہے۔

    اس صورتحال سے بچنے کے لیے کسی معتبر، جانے پہچانے اور قابل اعتبار ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بدنام اسپتالوں اور ڈاکٹرز کے پاس جانے سے گریز کریں۔

    حمل کے آخری چند ہفتوں کی صورتحال اس بات کا تعین کردیتی ہے کہ بچہ نارمل ہوگا یا آپریشن سے، اس صورتحال سے ان تمام افراد کو آگاہ رکھیں جو عین وقت میں آپ کے ساتھ اسپتال میں ہوں گے۔

    حمل کے آخری مہینے میں اپنی ڈاکٹر کے علاوہ ایک دو اور ڈاکٹرز کے پاس جا کر بھی چیک اپ کروایا جاسکتا ہے تاکہ متنوع آرا معلوم کی جاسکیں۔

    یاد رکھیں، ماں بننا اور اس عمل میں ہونے والی تکلیف ہونا ایک معمول کا عمل ہے۔ قدرتی طریقے سے ہونے والی ولادت ماں کو جلد صحت یاب کردیتی ہے جبکہ مصنوعی طریقے یعنی آپریشن سے ہونے والی پیدائش طویل المدت نقصانات کا باعث بنتی ہے۔

  • شیزو فرینیا کی دوا ایک اور دماغی مرض کے لیے معاون

    شیزو فرینیا کی دوا ایک اور دماغی مرض کے لیے معاون

    امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایسوسی ایشن (ایف ڈی اے) نے دماغی مرض شیزو فرینیا کے لیے استعمال کی جانے والی دوا کو ایک اور دماغی مرض بائی پولر ڈس آرڈر کے لیے بھی موزوں قرار دے دیا ہے۔

    ورالئر نامی یہ دوا سنہ 2015 میں بالغ افراد میں شیزو فرینیا کے علاج کے لیے منظور کی گئی تھی، تاہم تب سے ہی اسے بنانے والے اس دوا پر مختلف ریسرچ کر رہے تھے کہ آیا یہ دوا کسی اور مرض کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

    اب ان کی ریسرچ کے کامیاب نتائج کو دیکھتے ہوئے ایف ڈی اے نے اس دوا سے بائی پولر ڈس آرڈر کے علاج کی بھی منظوری دے دی ہے۔

    ایف ڈی اے نے بائی پولر مریضوں کے لیے اس دوا کی روزانہ ڈیڑھ سے 3 ملی گرام مقدار کی منظوری دی ہے۔ شیزو فرینیا کے لیے اس کی 6 ملی گرام مقدار روزانہ استعمال کی جاتی ہے۔

    خیال رہے کہ بائی پولر ڈس آرڈر موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی لانے والا مرض ہے جسے پہلے مینک ڈپریشن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس مرض میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوشگوار ہو جاتا ہے اور کبھی بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے۔

    خوشی سے اداسی کا یہ سفر چند منٹوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں ایک مخصوص موڈ چند منٹ سے لے کر کئی دن طویل عرصے تک محیط ہوسکتا ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر تقریباً 1 فیصد لوگوں کو زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت کے بعد کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے لیکن 40 سال کی عمر کے بعد یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ مرد و خواتین دونوں میں اس کی شرح یکساں ہے۔

  • ان نقصان دہ اشیا کو اپنے گھر سے نکال باہر کریں

    ان نقصان دہ اشیا کو اپنے گھر سے نکال باہر کریں

    بعض لوگ اپنے گھر کو بہت سے سامان سے بھر دیتے ہیں جس کا مقصد ضرورت کے وقت کسی شے کی دستیابی، گھر کو خوبصورت بنانا اور سہولت پیدا کرنا ہوتا ہے۔

    تاہم ان میں سے کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو نقصان دہ بن سکتی ہیں اور ماہرین ایسی اشیا کو گھر میں نہ رکھنے کی تجویز دیتے ہیں۔ آئیں جانتے ہیں ایسی کون سی اشیا ہیں جو آپ کے گھر میں موجود ہیں اور آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

    پلاسٹک کے ڈبے

    پلاسٹک کے ڈبے کچن اور فریج میں مختلف اشیا محفوظ کرنے کے لیے نہایت کارآمد ثابت ہوتے ہیں لیکن یہ ڈبے آپ کے قاتل بھی بن سکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں موجود پلاسٹک کے ڈبوں پر ’پی سی‘ لکھا ہے تو ایسے ڈبوں کو ایک لمحہ بھی سوچے بغیر کوڑے دان کی نذر کردیں۔

    پی سی کا مطلب ہے پولی کاربونیٹ، اس عنصر میں ایک زہریلا کیمیکل بسفینول اے (بی پی اے) شامل کیا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل تنفس کے مسائل، امراض قلب، اور بلڈ پریشر کا سبب بن سکتا ہے۔

    پلاسٹک کے ان ڈبوں کی جگہ آپ شیشے کے ڈبے استعمال کر سکتے ہیں۔

    ایئر فریشنر

    گھر کو خوشبوؤں سے مہکا دینے والا ایئر فریشنر اپنے اندر بے شمار کیمیکلز رکھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کی خوشبو طویل وقت تک موجود رہتی ہے۔ مستقل ایئر فریشنر کا استعمال آپ کی صحت کے لیے خطرات پیدا کر سکتا ہے۔

    خوشبو کے لیے پھولوں والے پودے گھر میں رکھے جاسکتے ہیں۔ گلاب و موتیا کے تازہ پھول بھی کمرے کو خوشبو سے مہکا دیتے ہیں۔

    پرانا ٹوتھ برش

    ٹوتھ برش کے استعمال کے عرصے کو کم رکھیں، ٹوتھ برش جراثیم ذخیرہ کرنے کی آئیڈیل جگہ ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر 3 سے 4 ماہ بعد ٹوتھ برش تبدیل کر لینا چاہیئے چاہے وہ بہتر حالت میں ہی کیوں نہ موجود ہو۔

    ماہرین کے مطابق جب ہم بخار، نزلہ، زکام یا کسی اور بیماری کے دوران ٹوتھ برش استعمال کرتے ہیں تو بیماری کے جراثیم برش میں بھی جگہ بنا لیتے ہیں۔

    صحت مند ہونے کے بعد وہی ٹوتھ برش دوبارہ استعمال کرنا اس بیماری کو واپس بلانے کے مترادف ہے۔

    پرانے کپڑے

    پرانے اور غیر ضروری کپڑے جمع کیے رکھنا بے وقوفانہ عمل ہے۔ جن کپڑوں کی آپ کو ضروت نہ ہو انہیں کسی ضرورت مند کو دے دیں۔

    ماہرین کے مطابق ایسی الماری جس میں بے تحاشہ کپڑے ٹھنسے ہوں، ہر بار کھلنے پر آپ کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیتی ہے۔

    غیر ضروری کپڑے رکھنے سے آپ کا دماغ آپ کو یہ تاثر بھی دیتا ہے کہ آپ کے پاس بہت سے کپڑے موجود ہیں اور آپ کو خریداری کرنے کی ضرورت نہیں۔

    یہ دھوکہ اس وقت مشکل سے دو چار کر سکتا ہے جب آپ کو پتہ چلے کہ کسی اہم موقع کے لیے آپ کے پاس واقعی کوئی مناسب لباس موجود نہیں۔

    پلاسٹک کے کٹنگ بورڈ

    کٹنگ یا چوپنگ بورڈ سبزیاں کاٹنے کے عمل میں آسانی پیدا کرتا ہے تاہم اگر یہ پلاسٹک کا ہو تو آپ کی کٹی ہوئی سبزیوں کو جراثیموں سے بھر سکتا ہے۔

    ہر بار جب پلاسٹک کے کٹنگ بورڈ پر چھری سے خراش لگتی ہے تو اس میں جراثیموں کی رہائش کے لیے ایک نئی جگہ پیدا ہوجاتی ہے۔

    پلاسٹک کی جگہ لکڑی کے کٹنگ بورڈ استعمال کریں۔ لکڑی قدرتی طور پر اینٹی بائیوٹک خصوصیات رکھتی ہے لہٰذا اس پر کاٹی جانے والی سبزیوں سے آپ ایک صحت بخش کھانا تیار کرسکتے ہیں۔

  • کیا انگلیاں چٹخانا نقصان دہ ہے؟

    کیا انگلیاں چٹخانا نقصان دہ ہے؟

    ہمارے ارد گرد بہت سے افراد انگلیاں چٹخانے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں اور ہوسکتا ہے آپ کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہو۔

    ایک عام خیال ہے کہ انگلیوں کو چٹخانا انگلیوں کے جوڑوں کے لیے نقصان دہ عمل ہے اور یہ آپ کے قریب موجود افراد کو بھی الجھن میں مبتلا کر سکتا ہے۔

    لیکن ماہرین نے اس عمل کو جوڑوں کے لیے بہترین ورزش قرار دیا ہے۔ دراصل جب ہم انگلیاں چٹخاتے ہیں تو اس سے آنے والی آواز عموماً جسم میں موجود مائع میں گیس بلبلوں کے پھٹنے کی ہوتی ہے۔

    اسی طرح ایک اور وجہ اکڑے ہوئے مسلز بھی ہوسکتے ہیں۔ انگلیاں چٹخاتے ہوئے یا گردن کو گھماتے ہوئے آنے والی آواز بعض اوقات اکڑے ہوئے اور تناؤ زدہ مسلز کی ہوتی ہے جو اس حرکت کے بعد آرام دہ حالت میں آجاتے ہیں۔

    تاہم اگر آپ کے اس جوڑ پر کوئی چوٹ یا زخم ہے تب بھی وہ جوڑ آواز پیدا کرسکتا ہے اور اس کے ساتھ اس حصے پر سوجن یا تکلیف بھی ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں انگلیوں کو چٹخانے سے گریز کریں اور ڈاکٹر کو دکھائیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کبھی کبھی انگلیوں کو چٹخانے میں کوئی حرج نہیں، اس سے دن بھر کام کرنے کے بعد تھکن زدہ مسلز پرسکون حالت میں آجاتے ہیں، تاہم اسے روزانہ کا معمول بنانے سے گریز کرنا چاہیئے۔

  • گرمیوں میں کھیرے کو کھانے کا لازمی جز بنائیں

    گرمیوں میں کھیرے کو کھانے کا لازمی جز بنائیں

    گرمیوں کا موسم جہاں گرمی سے بے حال کردیتا ہے وہیں بھوک بھی اڑا دیتا ہے، گرم موسم میں روایتی کھانے کھانا نہایت مشکل لگتا ہے۔

    تاہم ایسے میں جسم کو درکار غذائی ضروریات بھی پوری کرنی ہیں، لہٰذا ایسی غذائیں کھانی چاہئیں جو اس موسم میں جسم کو ہلکا پھلکا رکھیں اور جسم کو توانائی بھی فراہم کریں۔

    کھیرا موسم گرما کی ایسی ہی جادوئی غذا ہے۔ یہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔

    گرمیوں کے موسم میں جب عام طور پر بیشتر افراد تیزابیت کی شکایت کرتے ہیں، کھیرا اسے دور کرنے کا نہایت آسان علاج ہے۔ کھیرے میں ایسے وٹامنز پائے جاتے ہیں جو معدہ کی جلن، تیزابیت اور السر جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔

    کھیرے میں کاربوہائیڈریٹس، پروٹین اور کیلشیئم بھی موجود ہوتے ہیں جس کی وجہ سے معدہ میں جانے والی غیر ہاضم غذا اور تیزابیت والے اجزا آسانی سے تحلیل ہوجاتے ہیں اور السر سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔

    کھیرے میں پانی کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس سے جسم میں پانی کا تناسب برقرار رہتا ہے۔ اس میں موجود وٹامنز بی کی بڑی مقدار صرف دماغی کارکردگی میں توازن پیدا کرتی ہے اور اس کا باقاعدہ استعمال ذہنی دباؤ کی وجہ سے جسم پر منفی اثرات بھی مرتب نہیں ہونے دیتا۔

    کھانے سے قبل کھیرے کھانا بھوک کم کرنے اور بڑھانے دونوں میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ ڈائٹنگ کرنے والے اور وزن بڑھانے والے افراد دونوں کھانے سے قبل کھیرا کھا کر مطلوبہ فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔

  • مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    مرد خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ وجوہ سامنے آ گئیں

    کیا آپ جانتے ہیں کہ خود کشی کا رجحان عورتوں کے مقابلے میں مردوں میں زیادہ ہے، اگرچہ خود کشی کی کوشش کی شرح خواتین میں زیادہ ہے تاہم عالمی اعداد و شمار کے مطابق ہر 40 سیکنڈ میں ایک مرد خود کشی کر لیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں لیکن یہ سوال ماہرین کو پریشان کر رہا تھا کہ ڈپریشن کی کیا وجوہ ہیں، یہ جاننے کے لیے وسیع سطح پر تحقیقات کی گئیں، اور آخر کار ڈپریشن کی وجوہ سامنے آ گئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مرد اپنے مسائل پر بات کرنے سے کتراتے ہیں، وہ مدد بھی کم ہی حاصل کرتے ہیں، اگر مرد اپنے مسائل پر کھل کر بات کریں اور ضرورت پڑنے پر بے جھجک مدد طلب کیا کریں تو ان کے اندر ڈپریشن اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکے گی۔

    یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال سے ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، مشی گن یونی ورسٹی کے ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے معاملات حقیقی زندگی کی عکاسی کم ہی کرتے ہیں۔

    ماہرین نے سوشل میڈیا پر گزارے ہوئے وقت کو تنہائی اور اداسی سے بھی جوڑا ہے، ان کا خیال ہے کہ زیادہ وقت سوشل میڈیا کی نذر کرنے سے تنہائی اور اداسی ہمارے گلے پڑ سکتی ہے۔ چناں چہ یونی ورسٹی آف پنسلوینیا کی ایک تحقیق میں تجویز کیا گیا ہے کہ ڈپریشن کا شکار شخص سوشل میڈیا پر اپنے وقت میں کمی لائے۔

    آکسفرڈ یونی ورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ مردوں کے لیے تہنائی سے نمٹنا زیادہ مشکل ہوتا ہے، تنہائی، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ انسانی رویے پر منفی اثرات ڈالتے ہیں۔

    ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد اپنے اندر کی گھٹن سے چھٹکارا نہیں پاتے، بچپن سے انھیں رونے سے بھی مرد کہہ کر منع کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے گھٹن ان کے اندر ہی رہ جاتی ہے، اور وہ تنہائی محسوس کرتے ہیں اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں، جب کہ رونے کے عمل سے انسان ہلکا پھلکا ہو جاتا ہے۔

    پاکستان ہی نہیں، بلکہ امریکا، برطانیہ اور یورپ تک میں لڑکوں کو سکھایا جاتا ہے کہ مرد نہیں روتے، یہ کم زوری کی علامت ہے، جس کا بعد میں ان کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    ماہرین نے ڈپریشن کی ایک اور وجہ بھی معلوم کی ہے، کہ مرد عموماً یہ سوچتے ہیں کہ انھیں گھر کے سرپرست کی حیثیت سے کمانا ہے اور زیادہ کمانا ہے، معاشی ذمہ داری کا یہ بوجھ اور معاشی طور پر کام یاب بننے کی تگ و دو ذہنی صحت کا مسئلہ بن سکتا ہے، اسی طرح بے روزگاری بھی ایک وجہ ہے۔

    ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ بعض نوجوان اپنی جسمانی ساخت کو لے کر بہت زیادہ حساس ہو جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ڈپریشن کی طرف چلے جاتے ہیں۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال 10 لاکھ انسان خود کشی کرتے ہیں۔ خود کشی کی یہ شرح فی ایک لاکھ افراد میں 16 فی صد بنتی ہے، اس حساب سے دنیا میں ہر 40 سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔

  • کافی عمر میں اضافے کی وجہ

    کافی عمر میں اضافے کی وجہ

    کافی پینے کے یوں تو بے شمار فوائد ہیں تاہم حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ کافی پینا آپ کی عمر میں بھی اضافہ کرسکتا ہے۔

    جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق دن میں 1 سے 8 کپ کافی پینے والے افراد کی عمر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی شخص کا جسم کیفین جذب کرنے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے، تاہم وہ افراد جن کا جسم کم یا آہستہ کیفین جذب کرتا ہے انہیں بھی کافی کے تمام فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔

    اس سے قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کافی پینے کے ساتھ قیلولہ کیا جائے تو آپ کی مستعدی میں اضافہ ہوگا اور آپ خود کو زیادہ چاک و چوبند محسوس کریں گے۔

    ماہرین اسے ’نیپ۔چینو‘ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف قیلولہ کرنا یعنی کچھ دیر سونا یا صرف کافی پینا سستی و غنودگی بھگانے کے لیے کافی نہیں۔

    اگر آپ دونوں کو ایک ساتھ استعمال کریں گے تو دگنا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کافی پینے کے بعد 20 منٹ کا قیلولہ آپ کو پہلے سے زیادہ چاک و چوبند بنادے گا۔

  • ذہن کو پرسکون کرنے والی ورزش یوگا کا عالمی دن

    ذہن کو پرسکون کرنے والی ورزش یوگا کا عالمی دن

    آج دنیا بھر میں یوگا کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 2015 میں بھارت نے یوگا کے فوائد کو اجاگر کرنے کے لیے اس کا عالمی دن منانے کی درخواست کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے 21 جون کو یوگا کا عالمی دن قرار دیا تھا۔

    یوگا سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب قابو پانا اور متحد کرنا ہے۔ بدھ مت اور ہندو مذہب میں یوگا جسم اور سانس کی ورزشوں اور مراقبے کا مرکب ہے۔

    اس عمل کو اپنے نفس پر قابو پانے اور صحت مند رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تحقیق کے مطابق یوگا جسمانی اور نفسیاتی ورزش کا طریقہ ہے جو انسانی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب کرتا ہے۔

    یوگا ایک ایسی ورزش ہے جو جسم کے تمام افعال کو بہتر بناتی ہے اور ذہنی و نفسیاتی صحت پر بہترین اثرات مرتب کرتی ہے۔ باقاعدگی سے یوگا کرنا طویل عمر تک جوان، متحرک اور صحت مند رکھتا ہے۔

    ایک امریکی تحقیق کے مطابق گہری سانسوں کی یوگا مشق جو گہری سانس اندر کھینچ کر آہستگی سے باہر چھوڑ کر کی جاتی ہے، سے ذہنی دباؤ سے چھٹکارہ ممکن ہے۔

    یہ مشق دماغ میں موجود اسٹریس ہارمون کو کم کر کے موڈ کو خوشگوار بناتی ہے اور ذہن کو پرسکون رکھتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یوگا طبیعت میں چستی، توانائی میں اضافہ اور ذہنی صحت کے ساتھ جسمانی صحت کو بہتر کرتی ہے تاہم اس کے فوائد اسے باقاعدگی سے اپنا کر ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

  • وہ عادات جو بائی پولر ڈس آرڈر کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    وہ عادات جو بائی پولر ڈس آرڈر کی طرف اشارہ کرتی ہیں

    بائی پولر ڈس آرڈر موڈ میں بہت تیزی سے اور شدید تبدیلی لانے والا مرض ہے جسے پہلے مینک ڈپریشن کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس مرض میں موڈ کبھی حد سے زیادہ خوشگوار ہو جاتا ہے اور کبھی بے انتہا اداسی چھا جاتی ہے۔

    خوشی سے اداسی کا یہ سفر چند منٹوں کا بھی ہوسکتا ہے۔ اس مرض میں ایک مخصوص موڈ چند منٹ سے لے کر کئی دن طویل عرصے تک محیط ہوسکتا ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر تقریباً 1 فیصد لوگوں کو زندگی کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے۔ یہ بیماری بلوغت کے بعد کسی بھی عمر میں شروع ہو سکتی ہے لیکن 40 سال کی عمر کے بعد یہ بیماری شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ مرد و خواتین دونوں میں اس کی شرح یکساں ہے۔

    بائی پولر ڈس آرڈر کی کچھ عام علامات یہ ہیں۔

    حد سے زیادہ ڈپریشن

    نیند میں بے قاعدگی

    سماجی رویوں میں تبدیلی

    کام میں غیر دلچسپی

    خودکش خیالات

    حد سے زیادہ غمگین محسوس کرنا

    بے حد مایوسی چھا جانا

    حد سے زیادہ خوش اور پر جوش ہونا

    کسی بھی کام میں دل نہ لگنا

    تھکن اور کمزوری محسوس ہونا

    غائب دماغی کی کیفیت

    احساس کمتری کا شکار ہوجانا

    ماضی کی ہر بری بات کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہرانا

    بھوک اور وزن میں بہت زیادہ کمی یا زیادتی ہونا

    طویل عرصے تک بائی پولر ڈس آرڈر کا شکار رہنے والے افراد میں کچھ عجیب و غریب عادات اپنی جگہ بنا لیتی ہیں، ان عادات سے واقفیت ضروری ہے تاکہ انجانے میں آپ کسی مرض کی شدت کو بڑھا نہ دیں۔

    یادداشت کی بدترین خرابی

    بائی پولر ڈس آرڈر کے مریض یادداشت کی بدترین خرابی کا شکار ہوجاتے ہیں اور انہیں اپنے روزمرہ کے کاموں جیسے کھانا پکانے یا غسل کرنے کے لیے بھی یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مستقبل کے موڈ کی فکر

    ایسے افراد عام افراد کی طرح اداس یا خوش نہیں ہوسکتے، جب بھی یہ خوش ہوتے ہیں تو انہیں خیال آتا ہے کہ کہیں یہ خوشی عارضی تو نہیں؟ کہیں اس کے بعد مجھے کسی دکھ کا سامنا تو نہیں کرنا؟

    غمگین ہونے کی صورت میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ مستقل اس کیفیت میں رہتے ہوئے کیسے اپنی زندگی گزاریں گے؟

    گو کہ خوشی غمی کو عارضی سمجھنا اور وقت بدلنے کی امید کرنا ایک فطری خیال ہے تاہم اسے اپنے اوپر سوار کرلینا بائی پولر ڈس آرڈر کی نشانی ہے۔

    بہت زیادہ اور بہت تیزی سے گفتگو کرنا

    بائی پولر ڈس آرڈر کے شکار افراد عام افراد کے برعکس بہت تیزی سے گفتگو کرتے ہیں، علاوہ ازیں یہ مقابل کا خیال کیے بغیر بہت یادہ بولتے ہیں اور اس رو میں اپنے ذاتی راز بھی افشا کردیتے ہیں جس پر بعد میں انہیں شرمندگی ہوسکتی ہے۔

    معمولی اشیا سے الجھن مں مبتلا ہونا

    ایسے افراد کو بعض معمولی آوازیں بہت زیادہ پریشان کرسکتی ہیں۔ معمولی باتیں ایسے افراد کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب یہ سونے کے لیے لیٹتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ ان کا کمبل برابر بستر پر پھیلا ہوا ہو اور اس پر ذرا بھی شکن نہ ہو، وگرنہ وہ الجھن میں مبتلا ہو کر ساری رات جاگ سکتے ہیں۔

    تنہائی پسند

    بائی پولر ڈس آرڈر کے شکار افراد سماجی زندگی سے خود کو کاٹ کر گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگتے ہیں تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنی مصروفیات ترک کر دیتے ہیں۔

    لوگوں سے زیادہ سے زیادہ گریز کرتے ہوئے یہ افراد اپنی ذمہ داریاں، مشاغل اور مصروفیات پوری طرح نبھاتے ہیں اور متحرک زندگی گزارتے ہیں۔

    یاد رکھیں، بائی پولر سمیت ہر دماغی مرض کا شکار افراد مناسب علاج اور اپنے قریبی افراد کے تعاون اور مدد کی بدولت ایک عام زندگی گزار سکتے ہیں۔

  • وزارت صحت کو لشمینیا کی دواؤں کے لیے جنیوا میں عالمی ادارے سے رابطے کی ہدایت

    وزارت صحت کو لشمینیا کی دواؤں کے لیے جنیوا میں عالمی ادارے سے رابطے کی ہدایت

    اسلام آباد: وزارتِ صحت کو لشمینیا کی دواؤں کے لیے جنیوا میں عالمی ادارے سے رابطے کی ہدایت کی گئی ہے، اس سلسلے میں وفاقی دار الحکومت میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا۔

    اجلاس میں وزیر صحت خیبر پختون خوا ہشام خان نے شرکت کی، ڈی جی ہیلتھ، سی ای او ڈریپ، عالمی ادارۂ صحت کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔ ترجمان وزارت نے بتایا کہ اجلاس میں لشمینیا بیماری کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

    معاونِ خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ حکومت لشمینیا بیماری کی روک تھام کے لیے اقدامات کر رہی ہے، یہ بیماری انسانوں تک سینڈ فلائی کے ذریعے پھیلتی ہے، خیبر پختون خوا، بلوچستان اور پنجاب کے بعض علاقے لشمینیا سے متاثر ہیں۔

    وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے اجلاس میں وزارتِ صحت کو لشمینیا پر قومی ایکشن پلان تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) لشمینیا ایکشن پلان کے لیے تکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  لشمینیا بیماری ہے، اس کا علاج دوا سے ہوتا ہے، دم درود سے نہیں

    ڈاکٹر ظفر مرزا نے وزارتِ صحت کو متعلقہ دواؤں کی دستیابی یقینی بنانے اور ملک میں دستیابی کے لیے جنیوا میں عالمی ادارے سے رابطے کی ہدایت کی۔

    واضح رہے کہ خیبر پختون خواہ کا علاقہ جنوبی وزیرستان ان دنوں لشمینیا نامی بیماری کی زد میں ہے، یہ بیماری ایک مچھر کے کاٹنے سے ہوتی ہے اور اس میں متاثرہ جگہ پر زخم ہو جاتے ہیں، ماہرین کے مطابق علاج مہنگا ہے اور ویکسین تا حال دریافت نہیں ہو سکی ہے۔