Tag: صحت کی خبریں

  • صادق آباد کے 320 کلو وزنی شخص کو لاہور منتقل کر دیا گیا

    صادق آباد کے 320 کلو وزنی شخص کو لاہور منتقل کر دیا گیا

    لاہور: صادق آباد کے 320 کلو وزنی شخص نور الحسن کو لاہور منتقل کر دیا گیا، نور الحسن کو پاک فوج کی جانب سے ایئر ایمبولینس کی مدد فراہم کی گئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق موٹاپے کے شکار شخص کو لاہور منتقل کر دیا گیا ہے، نور الحسن کا وزن تین سو بیس کے جی ہے، لاہور منتقلی کے لیے انھیں پاک فوج نے ایئر ایمبولینس فراہم کی۔

    نور الحسن کا موٹاپا کم کرنے کے لیے نجی اسپتال میں سرجری کی جائے گی، انھوں نے ایک ویڈیو میں آرمی چیف سے اپیل کی تھی کہ انھیں ایئر ایمبولینس کی مدد فراہم کی جائے، جس پر پاک فوج کے سربراہ نے ہدایت جاری کر دی تھی۔

    نور الحسن کو گھر سے ایک ٹرک میں ڈال کر لے جایا گیا، بعد ازاں آرمی ہیلی کاپٹر میں انھیں لاہور منتقل کر دیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  آرمی چیف کی 320 کلو وزنی شہری کی مدد کے لیے ہدایت

    قبل ازیں نور الحسن کو ہیلی کاپٹر میں بٹھانے کے لیے ریسکیو 1122 سے مدد لی گئی، ریسکیو 1122 نے کرین کی مدد سے نور الحسن کو ایئر ایمبولیس میں سوار کیا۔

    ڈاکٹر معاذ الحسن لاہور میں نور الحسن کا موٹاپا کم کرنے کے لیے سرجری کریں گے۔

    واضح رہے کہ نور الحسن انتہائی زیادہ وزن کی وجہ سے حرکت کرنے سے قاصر ہیں، اور وہ دس سال سے بستر پر پڑے ہوئے ہیں، انھیں عام ایمبولینس پر منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔

  • نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    نسلی امتیاز کی وجہ سے امریکی ماؤں میں دوران زچگی موت کی شرح میں اضافہ

    امریکا میں گزشتہ چند دہائیوں میں زچگی کے دوران خواتین کی موت کی شرح میں اضافہ ہوگیا ہے جس کی وجوہات میں طبی عملے کی غفلت اور نسلی امتیاز جیسے حیران کن عوامل شامل ہیں۔

    امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن کی حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا میں بسنے والی سیاہ فام خواتین میں حمل کے دوران موت کا خطرہ، سفید فام خواتین کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس کی وجہ سیاہ فام طبقے کے لیے طبی عملے کی لاپرواہی اور ان کی کمزور معاشی حالت ہے۔ اسپتالوں میں سیاہ فام طبقے کو طبی عملے کا امتیازی سلوک سہنا پڑتا ہے جس سے ان کی صحت کو سخت خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    زچگی کے دوران خواتین کی زندگی کو لاحق خطرات صرف سیاہ فام خواتین تک ہی محدود نہیں۔ رپورٹ کے مطابق تمام امریکی ماؤں کے لیے حمل کے دوران خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق اس وقت ہر امریکی عورت کو حمل کے دوران، اپنی والدہ کے مقابلے میں 50 فیصد زائد سنگین طبی خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے قبل زچگی کے دوران اموات کی وجہ زیادہ خون بہنا اور انفیکشن ہوتا تھا، تاہم اب امریکی مائیں موٹاپے، ذیابیطس، امراض قلب، اور سی سیکشن کی شرح میں اضافے کی وجہ سے موت کا شکار ہوسکتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مجموعی طور پر سنہ 1990 سے 2015 کے دوران زچگی کے دوران ماؤں کی اموات میں 44 فیصد کمی آچکی ہے تاہم امریکا میں اس شرح میں اضافہ ہوا۔ امریکا میں چند دہائی قبل 1 لاکھ میں سے 12 ماؤں کو زچگی کے دوران موت کا خطرہ لاحق ہوتا تھا تاہم اب یہ تعداد 17 ہوچکی ہے۔

    رپورٹ میں ماہرین نے زچگی کے بعد ماؤں کے لیے طبی عملے کی غفلت کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد ماؤں کی طرف ڈاکٹرز کی توجہ کم ہوجاتی ہے نتیجتاً وہ چھوٹے موٹے طبی مسائل جن پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے، سنگین صورت اختیار کر کے جان لیوا بن جاتے ہیں۔

    رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ ایک طرف تو حاملہ ماؤں کو صحت مند طرز زندگی گزارنے کی طرف راغب کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، دوسری طرف طبی عملے کو بھی اس بات کی تربیت دی جائے کہ پہلے مرحلے سے لے کر آخری وقت تک ماں اور بچے دونوں کو توجہ دی جائے۔

  • وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہونے والی بیماریاں

    ہمارے جسم کو صحت مند رہنے کے لیے مختلف وٹامنز اور معدنیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہی میں سے ایک وٹامن ڈی بھی ہے جس کے حصول کا سب سے آسان ذریعہ سورج کی روشنی ہے۔

    وٹامن ڈی ہماری ہڈیوں کی مضبوطی اور اعصاب کی نشونما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس کی کمی ہمارے جسم کو سخت ناقابل تلافی نقصانات پہنچا سکتی ہے۔

    یہ وٹامن کچھ غذاؤں جیسے مچھلی، اورنج جوس، پنیر اور انڈے کی زردی وغیرہ میں بھی موجود ہوتا ہے لیکن اسے صرف ان غذاؤں کی مدد سے مکمل طور پر حاصل کرنا ناممکن ہے۔

    جسم کو درکار وٹامن ڈی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سپلیمنٹس سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی ہمارے اندر بہت سے طبی مسائل پیدا کرسکتی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

    ہڈیوں کی کمزوری

    وٹامن ڈی ہڈیوں کی مضبوطی کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔ یہ ہڈیوں میں کیلشیئم کو جذب ہونے میں مدد دیتا ہے جس سے ہڈیوں کی نشونما میں اضافہ ہوتا ہے۔

    اس کی کمی کمر، جوڑوں اور گھٹنوں وغیرہ میں درد کا سبب بن سکتی ہے جو اس قدر شدید ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے روزمرہ کے کام انجام دینے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔

    بہت زیادہ پسینہ آنا

    وٹامن ڈی کی کمی جسم میں پسینہ کے غدود کو فعال کرتی ہے جس سے زیادہ پسینہ آتا ہے۔ یہ علامت نومولود بچوں میں بھی پائی جاسکتی ہے۔

    اگر کسی شخص یا بچے کو بہت زیادہ پسینہ آرہا ہے تو یہ وٹامن ڈی کی کمی کی علامت ہے اور ایسی صورت میں فوری طور پر اس کے تدارک کی ضرورت ہے۔

    ڈپریشن

    وٹامن ڈی کی کمی خون کے بہاؤ کی رفتار کو کم کرتی ہے جس سے ایک طرف تو اعصاب اور پٹھوں کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، دوسری جانب دماغ کی طرف خون کا کم بہاؤ ڈپریشن، مایوسی اور اداسی کے جذبات پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    بالوں کا جھڑنا

    بالوں کا تیزی سے جھڑنا ذہنی دباؤ کے باعث ہوتا ہے تاہم وٹامن ڈی کی کمی بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ خواتین میں خاص طور پر بال جھڑنے کی وجہ وٹامن ڈی کی کمی ہی ہے۔

    پٹھوں میں درد

    وٹامن ڈی کی کمی پٹھوں میں درد اور الرجی کا سبب بھی بن سکتی ہے جو جلد کو زخمی بھی کرسکتی ہے۔ ایسے افراد سپلیمنٹس کے ذریعے وٹامن ڈی کی کثیر مقدار لے کر اس تکلیف سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

  • خون کا عطیہ کینسر سمیت بے شمار بیماریوں سے بچاؤ میں معاون

    خون کا عطیہ کینسر سمیت بے شمار بیماریوں سے بچاؤ میں معاون

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خون کے عطیے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں ہر سال سینکڑوں مریض بر وقت خون فراہم نہ ہونے کے سبب دم توڑ جاتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے تحت دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو خون کے عطیات دینے کا دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں خون کا عطیہ دینے کا مثبت رجحان بڑھے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے 2005 میں 58 ویں ہیلتھ اسمبلی کے موقع پر کیا جس کا مقصد محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانا تھا۔

    یہ دن کارل لینڈ اسٹینر کی سالگرہ (14 جون 1868) سے بھی منسوب ہے جنہوں نے ’اے بی او بلڈ گروپ سسٹم‘ ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے آج بھی خون انتہائی محفوظ طریقے سے منتقل کیا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کا عنوان ’محفوظ خون، سب کے لیے‘ رکھا گیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10 کروڑ سے زائد افراد خون کا عطیہ دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے خون عطیہ کرنے سے انسان تندرست اور بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خون کا عطیہ دینے سے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے، خون کی روانی میں بہتری آتی ہے، دل کے امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے اور فاضل کیلوریز جسم سے زائل ہوتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ عطیہ کنندہ کے خون کی باقاعدگی سے جانچ مفت ہوتی رہتی ہے اور دیگر افراد کی نسبت اسے مہلک بیماریوں اور ان سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی ملتی رہتی ہے۔

    پاکستان میں ہر سال اندازاً 32 لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن آگاہی نہ ہونے کے سبب اندازاً صرف 18 لاکھ بوتلیں ہی فراہم ہو پاتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دیتے ہوئے مندرجہ ذیل ہدایات کو یاد رکھنا چاہیئے۔

    خون کا عطیہ 16 سے 60 سال تک کی عمر کے افراد دے سکتے ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے سے پہلے وافر مقدار میں پانی پینا از حد ضروری ہے۔

    عطیہ دینے سے قبل مناسب ناشتہ لازمی کیجئے تاکہ آپ کے خون میں شوگر کا تناسب برقرار رہے۔

    خون کا عطیہ دینے سے 24 گھنٹے قبل احتیاطاً سگریٹ نوشی ترک کردیجئے۔

    اگر آپ باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیتے ہیں تو اپنی مقررہ تاریخ سے 2 ہفتے قبل اپنی خوراک میں آئرن کی حامل اشیا کا اضافہ کردیں جن میں انڈے، گوشت، پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    خون دینے سے 24 گھنٹے قبل فربہ کرنے والی غذائیں خصوصاً فاسٹ فوڈ کھانے سے گریز کریں۔

    اگر خون دینے کے دوران آپ کو ہاتھوں یا پیروں میں سردی محسوس ہو تو فوری کمبل طلب کرلیں۔

    یاد رکھیں اگر آپ شراب نوشی کرتے ہیں تو آخری مرتبہ شراب کے استعمال کے بعد اگلے 48 گھنٹے تک آپ خون کاعطیہ نہیں دے سکتے۔

    خون عطیہ کرنے کے بعد چند منٹ بستر پر لیٹے رہیں اور اس دوران ہلکی غذا یا جوس لیں، عموماً یہ اشیا ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد پہلی خوراک بھرپور لیں جس میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو، عموماً مرغی یا گائے کا گوشت اس سلسلے میں بہترین ہے۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد کم سے کم 3 گھنٹے تک سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔

    کم سے کم ایک دن تک بھاری وزن اٹھانے اور ایکسر سائز سے گریز کریں۔

  • پولیو کیسز میں تشویشناک اضافہ، ایک اور کیس سامنے آگیا

    پولیو کیسز میں تشویشناک اضافہ، ایک اور کیس سامنے آگیا

    اسلام آباد: ملک میں پولیو کیسز میں تشویشناک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع شانگلہ سے پولیو وائرس کا ایک اور کیس سامنے آگیا۔

    تفصیلات کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ ضلع شانگلہ کے 2 سال کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ پولیو کا شکار 2 سالہ بچے کا تعلق تحصیل پورن کی یو سی نصرت خیل سے ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیو ٹیسٹ کے لیے متاثرہ بچے کے نمونے 30 مئی کو بھجوائے گئے تھے۔

    خیال رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں صرف پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس موجود ہے۔

    رواں برس اب تک ملک میں 23 پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں۔ سب سے زیادہ پولیو کیسز خیبر پختونخواہ میں ریکارڈ کیے گئے جن کی تعداد 10 تھی، 7 کیسز قبائلی علاقوں میں، اور 3، 3 پنجاب اور سندھ میں ریکارڈ کیے گئے۔

    پولیو میں اضافے کو دیکھتے ہوئے پولیو ویکسی نیشن کے لیے عمر کی حد میں اضافے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا جس کے بعد راولپنڈی اور پشاور میں 10 سال تک کے بچوں کی بھی پولیو ویکسی نیشن کی جائے گی۔

    چند روز قبل کراچی اور لاہور سمیت 6 بڑے شہروں سے نئے لیے گئے سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی تھی، کوئٹہ کے ریلوے پل اور طاؤس آباد کے علاقوں، حیدر آباد میں تلسی داس پمپنگ اسٹیشن، راولپنڈی میں صفدر آباد اور پشاور کے شاہین ٹاؤن کے سیوریج میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔

    لاہور میں آؤٹ فال ایف، جی، ایچ کے سیوریج میں جبکہ کراچی کے سہراب گوٹھ، راشد منہاس روڈ، چکورا نالہ اور کورنگی نالہ کے سیوریج میں پولیو وائرس کی موجودگی پائی گئی تھی۔

  • بھارت: دماغی بیماری سے 10 روز میں 53 بچے ہلاک

    بھارت: دماغی بیماری سے 10 روز میں 53 بچے ہلاک

    بہار: مودی کے بھارت میں ایک خطرناک دماغی بیماری نے ایک بار پھر بچوں کا شکار شروع کر دیا ہے، صرف 10 روز میں اب تک 53 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست بہار کے علاقے مظفر پور میں ایک دماغی بیماری سے 53 بچے ہلاک ہو گئے ہیں، بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں محض دس روز میں ہوئی ہیں۔

    میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ خطرناک دماغی بیماری کے باعث زیر علاج بچوں کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے، بچوں کو آئی سی یو میں رکھا گیا ہے اور انھیں بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

    بتایا جا رہا ہے کہ اس خطرناک دماغی بیماری کی وجہ لیچی فروٹ ہو سکتی ہے، رپورٹس کے مطابق دماغی بیماری لیچی کے موسم بچوں کو لاحق ہو رہی ہے۔

    خیال رہے کہ بچے موسم گرما کا پھل لیچی بہت شوق سے کھاتے ہیں، ادھر امریکی ماہرین نے بتایا ہے کہ ایک قسم کا زہریلا مواد لیچی میں ہوتا ہے اور امکان ہے کہ اسی زہریلے مواد کی وجہ سے بچے شکار ہو رہے ہوں۔

    مذکورہ دماغی بیماری کو مقامی طور پر چمکی بخار کہا جاتا ہے، جس کی علامات میں بخار، قے اور بے ہوشی شامل ہیں، بتایا گیا ہے کہ ضلع مظفر پور میں لیچی کی فصل سب سے زیادہ ہوتی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بھارت میں پہلی صف میں بیھٹنے پر طالب علم قتل

    واضح رہے کہ 2014 میں جب اس ضلع میں 150 اموات ہوئیں تو لانسٹ گلوبل ہیلتھ ریسرچ نے تحقیقات کر کے معلوم کیا کہ اس بیماری کا تعلق لیچی سے ہے۔

    ماہرین کے مطابق لیچی میں غیر معمولی مقدار میں امینو ایسڈ ہوتا ہے، جس کے زیادہ استعمال سے دماغ کو درکار گلوکوز شدید متاثر ہو جاتے ہیں۔

    ایک خلیجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق 2008 اور 2014 کے درمیان اس بیماری encephalitis سے اترپردیش، بہار میں 6 ہزار اموات ہوئی تھیں جب کہ 44 ہزار سے زائد کیسز سامنے آئے تھے۔

  • لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے مزید 7 نئے کیسز سامنے آگئے

    لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے مزید 7 نئے کیسز سامنے آگئے

    لاڑکانہ: صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے مزید 7 نئے کیسز سامنے آگئے جس کے بعد رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد 785 ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈز سے شدید متاثر شہر لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے مزید 7 نئے کیسز سامنے آگئے۔ مذکورہ مریض اسکریننگ کے بعد سامنے آئے ہیں۔

    لاڑکانہ میں مجموعی طور پر 26 ہزار 8 سو 72 افراد کی اسکریننگ کا عمل مکمل ہوچکا ہے جس کے بعد ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد 785 ہوگئی۔ ایچ آئی وی ایڈز متاثرین میں صرف بچوں کی تعداد 646 ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق لاڑکانہ کے شہر رتو ڈیرو میں بچوں میں ایچ آئی وی کا سب سے بڑا آﺅٹ بریک سامنے آیا ہے جبکہ ابھی لاڑکانہ کے مزید تین تعلقے باقی ہیں جہاں اسکریننگ کا عمل شروع نہیں کیا گیا۔

    قومی ادارہ صحت برائے اطفال (این آئی سی ایچ) کے سربراہ و ماہرین صحت نے بتایا کہ رتو ڈیرو کی آبادی 3 لاکھ 31 ہزار ہے، ابھی تک 7 فیصد آبادی کے ایچ آئی وی ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ یہ صورتحال سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی ہوگی کیونکہ اندرون سندھ میں غیر ضروری انجکشن لگوانے کا رواج اور رجحان پایا جاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ 37 سالہ تاریخ میں افریقہ، انڈیا ،تھائی لینڈ سمیت دیگر ممالک میں بچوں میں ایچ آئی وی کا اتنا بڑا آﺅٹ بریک نہیں ہوا جو رتو ڈیرو میں سامنے آرہا ہے۔

  • آنکھوں کے سیاہ حلقے ختم کرنے کے لیے تجاویز

    آنکھوں کے سیاہ حلقے ختم کرنے کے لیے تجاویز

    آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے آپ کی شخصیت کا ایک برا تاثر چھوڑتے ہیں۔ یہ آپ کی غیر صحت مند طرز زندگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ مرد و خواتین دونوں ہی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

    ایک عام خیال یہ ہے کہ یہ عموماً نیند کی کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ خیال کسی حد تک درست بھی ہے، لیکن اس کے علاہ بھی اس کی کئی وجوہات ہیں۔ آئیے پہلے ان وجوہات کو جانتے ہیں۔

    نیند کی کمی

    ہر شخص کے لیے 8 گھنٹے کی نیند از حد ضروری ہے۔ اگر نیند پوری نہیں ہوگی تو سب سے پہلے آنکھوں کے نیچے حلقے ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔ اس کے بعد یہ آپ کی دماغی صحت کو متاثر کرنا شروع کرتی ہے اور آپ چڑچڑاہٹ اور تھکن کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ان تمام مسائل سے بچنے کا حل یہ ہے کہ تمام کام وقت پر مکمل کیے جائیں اور جلدی سویا اور جلدی اٹھا جائے تاکہ نیند پوری ہوسکے۔

    ذہنی تناؤ

    مستقل ذہنی تناؤ میں مبتلا رہنے کے باعث آپ کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے اور یہ آپ کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقوں کا سبب بھی بنتا ہے۔

    پانی کی کمی

    آنکھوں کے نیچے حلقوں کی ایک اہم وجہ پانی کی کمی ہے۔ دن میں 8 گلاس پانی پینا مختلف جسمانی مسائل سے محفوظ رکھتا ہے۔

    ہارمونز میں تبدیلی

    جسم میں مختلف اقسام کی ہارمونل تبدیلیاں بعض اوقت جسم پر منفی اثرات بھی مرتب کرتی ہیں جن میں سے ایک آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ہونا ہے۔

    سیاہ حلقے ختم کرنے کے لیے تجاویز

    آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے تو نیند پوری کریں۔

    جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دیں۔

    کمپیوٹر، موبائل اور ٹی وی کا استعمال کم کریں۔ ان سے نکلنے والی نیلی روشنی آنکھوں کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔

    متوازن غذا کا استعمال کریں۔ آنکھوں کے لیے مفید غذائیں جیسے گاجر، کھیرا وغیرہ کا استعمال بڑھا دیں۔

    آنکھوں کے سیاہ حلقے ختم کرنے کے لیے کھیرا سب سے بہترین نسخہ ہے۔ کھیرے کے ٹکڑے کاٹ کر آنکھوں پر رکھیں۔ اس سے نہ صرف آنکھوں کے حلقے ختم ہوں گے بلکہ آنکھوں کی چمک میں بھی اضافہ ہوگا۔

    ایک اور ترکیب ٹی بیگز استعمال کرنے کی ہے۔ ٹی بیگز کو پانی میں بھگو کر فریج میں رکھ دیں۔ ٹھنڈا ہونے پر آنکھوں پر رکھیں۔ اس کے باقاعدہ استعمال سے آپ کو واضح فرق نظر آئے گا۔

    آفس میں کمپیوٹر پر کام کرنے کے دوران ہر 20 منٹ بعد 20 سیکنڈ کے لیے اسکرین سے نظر ہٹا کر 20 فٹ دور دیکھیں۔ یہ آنکھوں کے تمام مسائل کے ایک بہترین ورزش ہے۔

    فرصت کے اوقات میں دونوں ہتھیلیوں کو رگڑ کر گرم کریں اور انہیں اپنی آنکھوں پر رکھیں۔ اس سے آپ کی آنکھوں کی تھکن دور ہوجائے گی۔

  • موبائل فون بچوں میں برین ٹیومر کا ممکنہ سبب

    موبائل فون بچوں میں برین ٹیومر کا ممکنہ سبب

    لاہور: جناح اسپتال لاہور کی معروف معالج کا کہنا ہے کہ موبائل فون بچوں میں برین ٹیومر کا سبب بن سکتا ہے، بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ مائیکرو ویو ریڈی ایشنز زیادہ جذب کرتے ہیں جس سے بچوں کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جناح اسپتال لاہور سے منسلک معروف معالج ڈاکٹر عائشہ عارف کا کہنا ہے کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال بچوں کی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے جو کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔

    ڈاکٹر عائشہ کا کہنا تھا کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے دماغ مائیکرو ویو ریڈی ایشنز زیادہ جذب کرتے ہیں، موبائل فون کے زیادہ استعمال سے بچوں میں نیند کی کمی، برین ٹیومر اور نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے ہمارے جسم پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں، خاص طور پر بچوں کی نشونما کے دوران اس کا استعمال مستقبل میں برین کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔

    ڈاکٹر عائشہ نے موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے احتیاطی تدابیر کے متعلق بتایا کہ اگرچہ وائر لیس فون اب ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بن گئے ہیں مگر اس کا کم سے کم استعمال ہمارے لیے بہتر ہے۔ ’موبائل فون کا کان سے دور رکھ کر استعمال صحت کے لیے بہتر ہے جو خطرات کو 1 ہزار فیصد کم کر دیتا ہے‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کو موبائل فون کو پاﺅچ، پرس، بیگ یا بیگ پیک میں رکھنا چاہیئے، ایسی ڈیوائسز کو حاملہ خواتین سے بھی دور رکھنا چاہیئے۔ اسی طرح نرسنگ کے شعبہ میں یا بچوں کو دودھ پلانے کے دوران بھی خواتین کو موبائل فون کے استعمال سے گریز کرنا چاہیئے۔

    ڈاکٹر عائشہ کے مطابق نوجوانوں کو موبائل فون کا محدود استعمال کرنا چاہیئے اور بچوں کو ان کے بیڈ رومز میں موبائل کے استعمال کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیئے۔

  • قومی نیوٹریشن سروے: ملک میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ

    قومی نیوٹریشن سروے: ملک میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ

    اسلام آباد: ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قومی نیوٹریشن سروے مکمل کر لیا گیا ہے، نتائج کے مطابق ملک میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

    نمائندہ اے آر وائی کے مطابق نیشنل نیوٹریشن سروے 2018-19 مکمل کر لیا گیا ہے، جس کی تقریب رونمائی کل ہوگی، یہ نیشنل نیوٹریشن سروے ایک سال کی مدت میں مکمل کیا گیا۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ قومی نیوٹریشن سروے میں ملک میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، سندھ، فاٹا اور بلوچستان میں غذائی قلت کی شرح میں اضافہ ہوا، اس نیوٹریشن سروے میں پہلی بار ضلعی سطح پر اعداد و شمار جمع کیے گئے ہیں۔

    ذرایع نے کہا ہے کہ 1 لاکھ 15 ہزار 600 گھرانے نیشنل نیوٹریشن سروے کا حصہ تھے، جس کے لیے برطانیہ نے 9 ملین ڈالر فنڈز فراہم کیا، اور اس سروے کی سربراہی ڈاکٹر بصیر اچکزئی نے کی۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستانی غصے کے تیز ہیں: بین الاقوامی سروے

    سروے میں غربت کی شرح، صاف پانی تک رسائی کو پرکھا گیا، اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا، سروے کی تکمیل کے بعد وزارت صحت، یونی سیف اور تھرڈ پارٹی نے بھی اس کا جائزہ لیا ہے۔

    ذرایع کے مطابق سروے میں خواتین اور بچوں سے خون اور دیگر اعضا کے نمونے لیے گئے، ان کا وزن، قد، بازو کی پیمایش کی گئی، سروے میں کم عمر بچوں، بچیوں پر خصوصی توجہ دی گئی، حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی ماؤں پر بھی خصوصی توجہ دی گئی۔

    قومی سروے میں خواتین اور بچوں میں غذائی ضروریات کی شرح کو ماپا گیا، ان میں فولک ایسڈ، آئرن اور زنک، آیوڈین، وٹامن اے اور ڈی کی مقدار چیک کی گئی۔

    خیال رہے کہ ملک میں گزشتہ قومی نیوٹریشن سروے 2011 میں کیا گیا تھا، اس قومی نیوٹریشن سروے کے اہم مندرجات اے آر وائی نیوز نے حاصل کی ہیں۔