Tag: صحت کی خبریں

  • رمضان کے دوران جسم میں پانی کی کمی دور کرنے کے طریقے

    رمضان کے دوران جسم میں پانی کی کمی دور کرنے کے طریقے

    گزشتہ چند سال سے ماہ صیام گرمیوں کے موسم میں آرہا ہے جس میں سب سے بڑا چیلنج جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا ہے تاکہ پورے ماہ خشوع وخضوع سے عبادت کی جاسکے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سخت گرمی میں روزہ رکھنے کے باعث جسم میں پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے لیے سحر و افطار میں پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیئے۔

    اس کے علاوہ پانی یا پھلوں کے رس زیادہ سے زیادہ پیئیں، اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بھی ضرور کریں۔

    رمضان المبارک میں سخت گرمی کے باعث جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ماہرین طب کے تجویز کردہ سات آسان طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔

    سحری میں کم از کم 2 گلاس پانی لازمی پیئیں جبکہ جوس اور کولڈ ڈرنک سے دور رہیں۔ یہ آپ کے وزن میں اضافہ کریں گی۔

    ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جن میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جیسے تربوز، کھیرا، سلاد وغیرہ۔ یہ آپ کے جسم کی پانی کی ضرورت کو پورا کریں گے۔

    افطار کے اوقات میں ایک ساتھ 7 یا 8 گلاس پانی پینا نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

    روزہ کے بعد کھجور اور 2 گلاس پانی کے ساتھ افطار کریں۔

    رات میں نماز تراویح اور دوسری عبادات کے لیے جائیں تو پانی کی بوتل ساتھ لے کر جائیں۔

    رات کو ایک پانی کی بوتل اپنے قریب رکھیں۔

    کوشش کریں کہ گرم اور دھوپ والی جگہوں پر کم سے کم جائیں۔

  • کراچی: کتے کے کاٹے کی ویکسین کی قلت، 11 سال کا لڑکا جاں بحق

    کراچی: کتے کے کاٹے کی ویکسین کی قلت، 11 سال کا لڑکا جاں بحق

    کراچی: شہر قائد میں ایک بار پھر کتے کے کاٹے کی ویکسین کی قلت کی وجہ سے 11 سال کا لڑکا جاں بحق ہو گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں کتے کے کاٹے کی ویکسین کی قلت کے باعث گیارہ سال کا لڑکا لال بخش جاں بحق ہو گیا۔

    لال بخش کو تین ماہ قبل سانگھڑ میں کتے نے ہاتھ پر کاٹا تھا، جسے گزشتہ رات سانگھڑ سے جناح اسپتال لایا گیا تھا۔

    جناح اسپتال کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال ریبیز سے موت کا یہ چھٹا کیس رپورٹ ہوا ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں آوارہ کتوں کی بہتات ہو گئی ہے جس سے شہریوں کو شدید پریشانی لاحق ہے، دوسری طرف انتظامیہ آوارہ کتوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تیار نہیں۔

    یاد رہے کہ کراچی میں صرف جناح اور سول وہ سرکاری اسپتال ہیں جہاں کتے کے کاٹنے کی ویکسین موجود ہوتی ہے ، اس کے علاوہ کسی سرکاری اسپتال میں یہ سہولت میسر نہیں ہے ۔

    یہ بھی پڑھیں:  کراچی میں 62 افراد سگ گزیدگی کا شکار بن گئے

    چند نجی اسپتال بھی سگ گزیدگی کی ویکسین فراہم کرتے ہیں تاہم نجی اسپتالوں میں ویکسین اور ابتدائی ٹریٹمنٹ کی قیمت ہزاروں میں وصول کی جاتی ہے جب کہ سول اور جناح میں یہ سہولت بالکل مفت فراہم کی جاتی ہے۔

    گزشتہ برس 13 ستمبر کو ایک ہی دن میں کراچی کے مختلف علاقوں میں سگ گزیدگی کے واقعات میں ایک دم اضافہ دیکھنے میں آیا تھا اور جناح اسپتال میں کتوں کے کاٹنے کے 62 واقعات رپورٹ ہوئے۔

  • خون کی بیماری تھیلیسیمیا کے خلاف آگاہی کا عالمی دن

    خون کی بیماری تھیلیسیمیا کے خلاف آگاہی کا عالمی دن

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خون کی بیماری تھیلیسیمیا کے خلاف آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ پاکستان تھیلیسیمیا سینٹر کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 ہزار بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں جو تھیلیسمیا کا شکار ہوتے ہیں۔

    خون کا مہلک مرض تھیلیسیمیا موروثی مرض ہے جو والدین سے بچوں کو ملتا ہے۔ یہ مرض خون کے خلیوں کی ابنارملٹی کی علامت ہے جس کے باعث خون بننے کا عمل رک جاتا ہے۔ تھیلیسیمیا کے مریضوں کو بار بار خون کی ضرورت پڑتی ہے۔

    جینیاتی اعتبار سے تھیلیسیمیا کی دو بڑی قسمیں ہیں جنہیں الفا تھیلیسیمیا اور بیٹا تھیلیسیمیا کہتے ہیں۔ نارمل انسانوں کے خون کے ہیمو گلوبن میں دو الفا اور دو بیٹا زنجیریں ہوتی ہیں۔ گلوبن کی الفا زنجیر بنانے کی ذمہ داری دونوں جین کروموزوم نمبر 16 پر ہوتی ہے جبکہ بیٹا زنجیر بنانے کا ذمہ دار واحد جین ایچ بی بی کروموزوم نمبر 11 ہوتا ہے۔

    الفا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیمو گلوبن کی الفا زنجیر کم بنتی ہے جبکہ بیٹا تھیلیسیمیا کے مریضوں میں ہیمو گلوبن کی بیٹا زنجیر کم بنتی ہے۔ اس طرح خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔

    مرض کی شدت کے اعتبار سے تھیلیسیمیا کی تین قسمیں ہیں۔ شدید ترین قسم تھیلیسیمیا میجر کہلاتی ہے اور سب سے کم شدت والی قسم تھیلیسیمیا مائنر کہلاتی ہے۔ درمیانی شدت والی قسم تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کہلاتی ہے۔

    ایک طرح کا تھیلیسیمیا کبھی بھی دوسری طرح کے تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا یعنی الفا تھیلیسیمیا کبھی بھی بیٹا تھیلیسیمیا میں تبدیل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی بیٹا کبھی الفا میں۔ اسی طرح نہ تھیلیسیمیا مائنر کبھی تھیلیسیمیا میجر بن سکتا ہے اور نہ ہی میجر کبھی مائنر بن سکتا ہے۔ اسی طرح مرض کی شدت میں اضافہ یا کمی بھی نہیں ہوسکتی۔

    تھیلیسیمیا میجر

    کسی کو تھیلیسیمیا میجر صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اس کے والدین کسی نہ کسی طرح کے تھیلیسیمیا کے حامل ہوں۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریضوں میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسے بچے پیدائش کے چند مہینوں بعد ہی خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی بقیہ زندگی بلڈ بینک کی محتاج ہوتی ہے۔

    کمزور اور بیمار چہرے والے یہ بچے کھیل کود اور تعلیم دونوں میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں اور معاشرے میں صحیح مقام نہ پانے کی وجہ سے خود اعتمادی سے محروم ہوتے ہیں۔ بار بار خون لگانے کے اخراجات اور اسپتالوں کے چکر والدین کو معاشی طور پر انتہائی خستہ کر دیتے ہیں جس کے بعد نامناسب علاج کی وجہ سے ان بچوں کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بہترین علاج کے باوجود یہ مریض 30 سے 40 سال تک ہی زندہ رہ پاتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے مریضوں کی عمر لگ بھگ دس سال ہوتی ہے۔ اگر ایسے بالغ مریض کسی نارمل انسان سے شادی کر لیں تو ان کے بچے لازماً تھیلیسیمیا مائنر کے حامل ہوتے ہیں۔

    تھیلیسیمیا مائنر

    تھیلیسیمیا مائنر کی وجہ سے مریض کو کوئی تکلیف یا شکایت نہیں ہوتی نہ اس کی زندگی پر کوئی خاص اثر پڑتا ہے۔ علامات و شکایات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے لوگوں کی تشخیص صرف لیبارٹری کے ٹیسٹ سے ہی ہو سکتی ہے۔

    ایسے لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں مگر یہ لوگ تھیلیسیمیا اپنے بچوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔ تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا بیشتر افراد اپنے جین کے نقص سے قطعاً لاعلم ہوتے ہیں اور جسمانی، ذہنی اور جنسی لحاظ سے عام لوگوں کی طرح ہوتے ہیں اور نارمل انسانوں جتنی ہی عمر پاتے ہیں۔

    تھیلیسمیا کی وجہ کیا ہے؟

    طبی ماہرین کے مطابق خاندان میں شادیاں اس مرض کے بڑھنے کی اہم وجہ ہے۔ علاوہ ازیں اگر دو ایسے افراد آپس میں شادی کرلیں جن میں تھیلیسمیا مائنر کے خلیات موجود ہوں تو ان کا پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسمیا میجر کا شکار ہوسکتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق شادی سے قبل خون کا ایک معمولی ٹیسٹ آئندہ آنے والی نسل کو اس مہلک مرض سے بچا سکتا ہے۔ صوبہ سندھ میں شادی سے قبل لازمی ٹیسٹ کروانے کا بل تو موجود ہے لیکن عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں 1 لاکھ سے زائد بچے تھیلیسمیا کا شکار ہیں جبکہ ہر سال ان بچوں کی تعداد میں 15 ہزار کا اضافہ ہورہا ہے جو تھیلیسمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔

    اس مرض کا شکار افراد اور بچے تھکے تھکے اور دیگر افراد کی نسبت غیر متحرک ہوتے ہیں۔ تھیلیسیمیا کے باعث ان کی جلد زرد ہوجاتی ہے جبکہ انہیں ہڈیوں میں تکالیف کے امراض بھی لاحق ہوسکتے ہیں۔

    تھیلیسیمیا مائنر میں مبتلا خواتین جب حاملہ ہوتی ہیں تو ان میں خون کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔

  • روزانہ ایک ہزار افراد کی جانیں لینے والا مرض ۔ دمہ

    روزانہ ایک ہزار افراد کی جانیں لینے والا مرض ۔ دمہ

    دمہ یا استھما ایک دائمی مرض ہے جو تاعمر انسان کو اپنی گرفت میں جکڑ کر رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں 33 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں جبکہ یہ دائمی مرض ہر سال اندازاً ڈھائی لاکھ لوگوں کی جانیں لے لیتا ہے۔

    روزانہ تقریباً 1 ہزار افراد کی جانیں لینے والے اس مرض سے آگاہی اور اس کے مریضوں کی مدد کرنے سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے آج دمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    دمہ کیا ہے؟

    سانس کی نالیوں میں خرابی یا پھیپھڑوں کی نالیاں باریک ہونے کے سبب سانس لینے میں تکلیف کے مرض کو دمہ یا استھما کہا جاتا ہے۔ دمہ کے مرض کی کئی علامات ہیں جیسے سانس لیتے وقت سیٹی کی آواز آنا، کھانسی، سانس پھولنا، سینے کا درد، نیند میں بے چینی یا پریشانی ہونا اور تھکان وغیرہ۔

    اگر آپ چھوٹے بچوں میں دودھ پینے کے دوران ان میں بے چینی محسوس کریں، دودھ پینے کے دوران وہ تکلیف میں دکھائی دیں تو یہ بچوں میں دمہ کی علامت ہوسکتی ہے اور انہیں فوری طور پر ڈاکٹر کو دکھانے کی ضرورت ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    دمہ کا کوئی خصوصی علاج تو نہیں ہے، تاہم احتیاطی تدابیر اپنا کر اس مرض کو بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔

    دمے کا سب سے فائدہ مند علاج انہیلر کا استعمال ہے جس میں دمہ کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف ادویات شامل کی جاتی ہیں۔ ان دوائیوں کے ذریعے استھما کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے اور مریض کی تکلیف کم ہوتی ہے۔

    ایک عام مغالطہ ہے کہ ان انہیلرز کا مستقل استعمال جسم کے لیے نقصان دہ ہے، یہ نشہ آور ہیں، یا یہ جسم کو اپنا عادی بنا سکتی ہیں۔ یہ تمام خیالات نہایت غلط ہیں۔

    دمہ کے مریض کے لیے انہیلر نہایت فائدہ مند ہیں، اور یہ جسم کو اپنا عادی تو بنا لیتی ہیں، تاہم یہ عادت ایسے ہی فائدہ مند ہے جیسے روزانہ کھانا کھانا، یا غسل کرنا۔

    انہیلرز میں شامل دواؤں کا کوئی سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوتا کیونکہ ان ادویات کی بہت معمولی مقدار خون میں شامل ہوتی ہے۔ یہ دوائیں سانس کی نالی میں اس جگہ اثر کرتی ہیں جہاں خرابی ہوتی ہے۔

    انہیلر چھوڑنے والے افراد کا مرض بہت تیزی سے آخری اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    دیگر احتیاطی تدابیر

    دمے کے مریض کسی بھی قسم کے نشے بشمول سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے پرہیز کریں۔

    مریض نہ صرف خود سگریٹ کے دھوئیں سے بچے بلکہ سگریٹ پینے والے افراد سے بھی دور رہے اور ایسے مقام پر جانے سے گریز کرے جہاں سگریٹ کا دھواں پھیلا ہوا ہو۔

    دھول، مٹی میں جانے سے بچا جائے۔

    گھر سے نکلنے سے قبل ماسک کا استعمال کریں۔

    موسم کی تبدیلی کے دنوں میں خاص طور پر احتیاط کریں تاکہ نزلہ زکام وغیرہ سے بچیں۔

  • ماہ رمضان میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے احتیاطی تدابیر

    ماہ رمضان میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے احتیاطی تدابیر

    ماہ رمضان کا آغاز ہوا ہی چاہتا ہے اور ایسے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ روزوں اور عبادتوں کے ذریعے اس ماہ فضیلت کی برکات کو زیادہ سے زیادہ سمیٹ لے۔

    تاہم اس ماہ میں ذیابیطس کے موذی مرض کا شکار افراد نہایت تکلیف میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ روزہ رکھنے کی صورت میں بعض اوقات ان کی طبیعت بھی خراب ہوسکتی ہے۔

    ماہرین اس ماہ میں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے چند احتیاطی تدابیر تجویز کرتے ہیں جنہیں اپنا کر وہ بھی اس مقدس ماہ کے فیوض و برکات حاصل کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریض رمضان کی آمد سے قبل اپنے معالج سے مشاورت کریں تاکہ معالج اپنے مریض کی بیماری کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں درست رہنمائی فراہم کرسکے۔

    ماہر طب اور جرنل آف ڈایابیٹلوجی کے نگران پروفیسر عبد الباسط کا کہنا ہے، ’ذیابیطس کے مریض اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے سے پرہیز کرتے ہوئے روزے رکھنے یا نہ رکھنے کا فیصلہ اپنے معالج کی ہدایات کے مطابق کریں‘۔

    انہوں نے پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے ہر مریض کی ذاتی علامات کے مطابق انفرادی منصوبہ بندی اور دیکھ بھال کی ضرورت پر زور دیا۔

    رمضان میں کون سی غذائیں کھائی جائیں؟

    ماہرین کےمطابق برکتوں کے اس مہینے میں روزے دار عموماً لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور غیر صحت بخش کھانے مثلاً تلی ہوئی اشیا، کاربو ہائیڈریٹس، چکنائی سے بھرپور پکوان اور میٹھے مشروبات کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں۔

    یہ لاپرواہی ذیابیطس کے مریضوں کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

    علاوہ ازیں (ذیابیطس کا شکار) روزے دار افطار کے بعد وقفوں وقفوں میں کھانے کے بجائے بسیار خوری کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ان عادات سے خون میں گلوکوز پر قابو پانے میں ناکامی ہوجاتی ہے اور شوگر کا لیول خطرناک حد تک بڑھ سکتا ہے۔

    ماہرین نے مشورہ دیا کہ دوران رمضان غذا میں تازہ پھل، سبزیاں اور دہی کا استعمال کیا جائے جبکہ افطار میں صرف 2 کھجوریں کھائی جائیں۔

    شوگر کی دوائیں

    رمضان سے قبل معالج سے دواؤں کا تعین کروانا ازحد ضروری ہے۔

    دوران رمضان دوا کا وقت سحر اور افطار کردیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں انسولین کی مقدار اور خواراک میں بھی تبدیلی کی جاتی ہے جو کہ معالج مریض کی حالت کےمطابق کرتا ہے۔

    ماہر طب پروفیسر محمد یعقوب کے مطابق، ’مریضوں کو اپنے معالجین سے دوائی کی مقدار اور اوقات کی کمی بیشی، کھانے اور مشروبات کے استعمال، جسمانی سرگرمیوں، خون میں گلوکوز کی از خود نگرانی کے بارے میں پوچھنا چاہیئے۔ مریض کو علم ہونا چاہیئے کہ اسے خون میں شوگر کی مقدار میں کتنی کمی یا بیشی پر روزہ توڑ دینا چاہیئے تاکہ اسے جان کا خطرہ لاحق نہ ہو‘۔

    شوگر کے مریضوں کے لیے ہدایت نامہ

    ڈایابٹیز اینڈ رمضان انٹرنیشنل الائنس کے جاری کردہ رہنما عالمی ہدایت نامے میں شوگر کے مریضوں کو مندرجہ ذیل ہدایات اپنانے پر زور دیا جاتا ہے۔

    رمضان سے قبل مجموعی طور پر بلڈ پریشر، ذیابیطس اور خون میں کولیسٹرول کا لیول معلوم کریں اور تمام رپورٹس اپنے معالج کو دکھائیں۔

    ایسے افراد روزہ رکھنے سے اجتناب برتیں:

    اگر کسی شخص کی شوگر کنٹرول میں نہیں رہتی۔

    اگر پچھلے 3 ماہ کے دوران کسی کی شوگر بہت کم یا بہت زیادہ رہی ہو۔

    ذیابیطس کی مریض حاملہ خواتین

    وہ افراد جن کے گردے، آنکھیں یا اعصاب ذیابیطس سے شدید متاثر ہوچکے ہوں۔

    ایسے افراد جو پچھلے دنوں شدید بیمار رہے ہوں۔

    گردوں کا ڈائلاسس کروانے والے مریض۔

    ذیابیطس اول قسم کے مریض معالج کے مشورہ سے روزہ رکھ سکتے ہیں۔

    یاد رکھیں

    روزے کے دوران انسولین لگانے، اور شوگر کا ٹیسٹ کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

    ورزش کے عادی افراد

    ذیابیطس کا شکار ایسے افراد جو ورزش کے عادی ہوں رمضان میں بھی ہلکی پھلکی ورزش کر سکتے ہیں تاہم سخت ورزش سے پرہیز کریں۔

    گو کہ تراویح پڑھنا بھی ورزش کا متبادل ہے تاہم پھر بھی ورزش کرنا چاہیں تو روزہ کھولنے کے 2 گھنٹے بعد ورزش کرنا مناسب ہے۔

    ورزش کرنے سے قبل خون میں گلوکوز کی سطح ضرور چیک کریں۔

    روزہ کب ختم کیا جائے؟

    شوگر کے مریضوں کو ان صورتوں میں فوری طور پر روزہ کھول لینا ضروری ہے۔

    افطار سے کئی گھنٹے قبل اگر خون میں گلوکوز کا لیول 70 ملی گرام پر ڈیسی لیٹر سے کم ہوجائے۔

    دن کے ابتدائی حصے میں خون میں شوگر کی سطح 80 ملی گرام پر ڈیسی لیٹر سے کم ہو رہی ہو تو فوری طور پر معالج سے رجوع کریں یا روزہ کھول لیں۔

    خون میں شوگر کی سطح 300 ملی گرام پر ڈیسی لیٹر سے بلند ہوجائے تو فوری طور پر معالج سے رجوع کریں۔

    اگر روزہ کھولنے میں ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ باقی ہو اور اس دوران خون میں شوگر کی مقدار 80 ملی گرام پر ڈیسی لیٹر سے کم ہوجائے تو فوراً تمام کام چھوڑ کر آرام دہ حالت میں بیٹھ جائیں اور ہر آدھے گھنٹے بعد شوگر چیک کرتے رہیں۔

    مندرجہ بالا ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ذیابیطس کا شکار افراد بھی رمضان کے فیوض و برکات سے مستفید ہوسکتے ہیں۔

  • خیبر پختونخواہ میں ایک اور پولیو کیس سامنے آگیا

    خیبر پختونخواہ میں ایک اور پولیو کیس سامنے آگیا

    اسلام آباد: گزشتہ 2 دن میں صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے متواتر 2 پولیو کیسز سامنے آنے کے بعد آج خیبر پختونخواہ سے بھی پولیو کیس سامنے آگیا۔ رواں برس ملک میں پولیو کیسز کی تعداد 11 ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں پولیو وائرس کا ایک اور کیس سامنے آگیا، ذرائع وزارت صحت کے مطابق خیبر پختونخواہ کے ضلع بنوں کی ایک سال کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

    یہ ملک میں پولیو کیسز کے سامنے آنے کا متواتر تیسرا روز ہے۔ گزشتہ دو دن میں لاہور سے 2 پولیو کیسز سامنے آئے، اقبال ٹاؤن کے 10 سالہ بچے اور اگلے ہی روز داتا گنج بخش ٹاؤن کی 13 ماہ کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی جس کے بعد لاہور میں کل پولیو کیسز کی تعداد 3 ہوگئی۔

    حالیہ کیس سامنے آنے کے بعد اب رواں برس ملک میں مجموعی پولیو کیسز کی تعداد 11 ہوگئی ہے، جن میں سے خیبر پختونخواہ میں 4، قبائلی علاقوں اور پنجاب میں 3، 3 اور سندھ میں 1 کیس ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں صرف پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس موجود ہے۔ چند روز قبل قومی انسداد پولیو پروگرام نے ملک کے 12 بڑے شہروں کے سوریج میں بھی پولیو وائرس کی تصدیق کی تھی۔

    جن شہروں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ان میں پشاور، لاہور، کراچی، راولپنڈی، مردان، بنوں، وزیرستان، حیدر آباد، سکھر اور قمبر شہداد کوٹ شامل ہیں۔

    وائرس کی موجودگی پر پولیو ویکسی نیشن کے لیے عمر کی حد میں اضافے کا فیصلہ بھی کرلیا گیا تھا جس کے بعد راولپنڈی اور پشاور میں 10 سال تک کے بچوں کی بھی پولیو ویکسی نیشن کی جائے گی۔

    چند روز قبل پاکستان میں داخل ہونے والے افغان شہریوں کی پولیو ویکسی نیشن کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا، ویکسی نیشن کے بعد افغان شہریوں کو پولیو کارڈ کا اجرا کیا جائے گا۔ پولیو کارڈ کے بغیر افغان شہری پاکستان میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔

  • لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد 119 ہو گئی

    لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد 119 ہو گئی

    لاڑکانہ: صوبہ سندھ کے علاقے رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد 119 ہو گئی، مقامی اسپتال میں مزید 22 مریضوں کی تصدیق کر دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع لاڑکانہ کے تعلقہ رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی میں مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھ کر 119 ہو گئی ہے، ایم ایس رتوڈیرو اسپتال نے مزید 22 مریضوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق کر دی۔

    ایم ایس رتوڈیرو اسپتال نے میڈیا کو بتایا کہ نئے مریضوں میں 21 بچے اور ایک خاتون شامل ہیں۔

    اسپتال کے ایم ایس نے مزید بتایا کہ رتوڈیرو میں 2 مقامات پر 657 افراد کی ایچ آئی وی کے لیے اسکریننگ کی گئی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  رتوڈیرو میں 5 دن میں 2 ہزار سے زائد افراد کی اسکریننگ، 85 افراد میں ایڈز کی تصدیق

    یاد رہے کہ دو دن قبل بتایا گیا تھا کہ تعلقہ رتو ڈیرو میں گزشتہ پانچ کے دن کے دوران دو ہزار سے زائد افراد کی اسکریننگ کی گئی، جن میں پچاسی افراد ایڈز کا شکار نکل آئے۔

    انسداد ایڈز پروگرام کے منیجر ڈاکٹر سکندر علی نے میڈیا کو بتایا کہ 2300 میں سے 85 افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، ان افراد میں 67 بچے ہیں، جب کہ 18 بڑی عمر کے ہیں۔

    رتوڈیرو میں ایچ آئی وی پھیلنے اور ایک ڈاکٹر کے خلاف مقدمے کے معاملے میں ڈی آئی جی لاڑکانہ کی تشکیل کردہ 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم نے کام شروع کر دیا ہے، تھانے میں ڈاکٹر مظفر اور کلینک پر کام کرنے والے 4 ڈسپینسرز کا بیان بھی ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

  • رتوڈیرو میں 5 دن میں 2 ہزار سے زائد افراد کی اسکریننگ، 85 افراد میں ایڈز کی تصدیق

    رتوڈیرو میں 5 دن میں 2 ہزار سے زائد افراد کی اسکریننگ، 85 افراد میں ایڈز کی تصدیق

    رتوڈیرو: صوبہ سندھ کے علاقے رتو ڈیرو میں ایڈز کے سلسلے میں 5 دن میں 2300 سے زائد افراد کی اسکریننگ کی گئی، 85 افراد میں ایچ آئی وی وائرس نکل آیا۔

    تفصیلات کے مطابق ضلع لاڑکانہ کے تعلقہ رتو ڈیرو میں گزشتہ پانچ کے دن کے دوران دو ہزار سے زائد افراد کی اسکریننگ کی گئی، پچاسی افراد ایڈز کا شکار نکل آئے۔

    انسداد ایڈز پروگرام کے منیجر ڈاکٹر سکندر علی نے میڈیا کو بتایا کہ 2300 میں سے 85 افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

    ڈاکٹر سکندر علی کا کہنا تھا کہ 85 متاثرہ افراد میں 67 بچے ہیں، جب کہ 18 افراد بڑی عمر کے ہیں۔

    دریں اثنا، رتوڈیرو میں ایچ آئی وی پھیلنے اور ایک ڈاکٹر کے خلاف مقدمے کے معاملے میں ڈی آئی جی لاڑکانہ کی تشکیل کردہ 4 رکنی تحقیقاتی ٹیم نے رتوڈیرو تھانے میں ڈاکٹر مظفر، کلینک پر کام کرنے والے 4 ڈسپینسرز کا بیان ریکارڈ کیا۔

    تحقیقاتی ٹیم نے ایچ آئی وی سے متاثرہ 5 بچوں کے والدین کا بھی بیان ریکارڈ کیا، تحقیقاتی ٹیم نے ڈسپنسروں کی ڈگریاں اور دیگر کاغذات بھی چیک کیے، ٹیم 5 دن میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ ڈی آئی جی کو پیش کرے گی۔

    یہ بھی پڑھیں:  لاڑکانہ میں ایڈز میں مبتلا ڈاکٹر کا سماج سے بد ترین انتقام

    خیال رہے کہ گزشتہ روز میڈیا پر انکشاف ہوا تھا کہ لاڑکانہ میں ایڈز پھیلانے کی وجہ خود ایڈز میں مبتلا ایک ظالم ڈاکٹر ہے جس نے اپنا متاثرہ انجکشن لگا کر متعدد افراد کو ایڈز میں مبتلا کر دیا ہے، جس پر سندھ ہیلتھ کمیشن نے ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا اور ڈاکٹر کے ذہنی معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے کی بھی ہدایت کر دی۔

    یہ بھی پڑھیں:  ایڈز کا شکار ہونے والے 46 بچے تھیلیسمیا کے بھی مریض ہیں: تحقیقاتی رپورٹ

    دوسری طرف وزارتِ قومی صحت کو ارسال کردہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی جانب سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہونے والے بچے تھیلیسمیا کے مرض میں بھی مبتلا ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ ایک غیر سرکاری ادارے کے تھلیسمیا سینٹر میں بچوں کو خون لگایا جاتا ہے، بچوں کو ایچ آئی وی ایڈز غیر معیاری انتقال خون سے ہوا ہے۔

  • پولیو ورکرز کو سیکیورٹی خطرات، ملک بھر میں انسداد پولیو مہم معطل

    پولیو ورکرز کو سیکیورٹی خطرات، ملک بھر میں انسداد پولیو مہم معطل

    اسلام آباد: پولیو ورکرز کو لاحق سیکیورٹی خطرات کے باعث ملک بھر میں انسداد پولیو مہم معطل کری گئی، پولیو مہم پشاور میں پیش آنے والے حالیہ واقعہ کے تناظر میں معطل کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پولیو ورکرز کو لاحق سیکیورٹی خطرات کے باعث حکومت نے ملک بھر میں انسداد پولیو مہم کو معطل کردیا۔ انسداد پولیو پروگرام نے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے متعلقہ اداروں کو پولیو مہم معطل کرنے کی ہدایت کردی۔

    پولیو مہم کو پشاور میں پیش آنے والے حالیہ واقعہ کے تناظر میں معطل کیا گیا ہے۔

    اس حوالے سے جاری کیے جانے والے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ملک کے کسی بھی علاقے میں پولیو مہم نہیں چلائی جائے گی۔

    خیال رہے کہ چند روز قبل پشاور میں انسداد پولیو مہم کے پہلے دن پولیو ویکسین کے ری ایکشن کی شکایت پر چند بچوں کو اسپتال لایا گیا تھا، خبر پھیلنے پر بے شمار خوفزدہ والدین اپنے تندرست بچوں کو بھی اسپتال لے آئے۔

    اس دوران مشتعل مظاہرین نے ڈی ایچ او اسپتال کی دیواریں گرا دی تھیں اور عمارت کو آگ بھی لگا دی تھی۔

    بعد ازاں خیبر پختونخواہ میں پولیو مہم کو ناکام بنانے کے لیے گھڑی گئی سازش اس وقت بے نقاب ہوگئی جبسوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو نے ڈرامہ طشت از بام کر دیا۔

    ویڈیو میں ایک شخص بچوں کو زبردستی اسٹریچر پر لٹا کر بے ہوشی کا ڈرامہ کرواتا دکھائی دیا جبکہ ویڈیو میں بچے تندرست دکھائی دے رہے تھے۔

    بچوں سے بے ہوشی کا ڈرامہ کروانے والے ملزم نذر محمد کو بعد ازاں بڈھ بیر پولیس نے گرفتار کر لیا تھا جبکہ انسداد پولیو مہم کےخلاف احتجاج کرنے والے 12 افراد کے خلاف پرچہ بھی درج کرلیا گیا، علاوہ ازیں سرکاری املاک کا جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں کے خلاف آپریشن بھی شروع کردیا گیا۔

    اس کے بعد کوئٹہ، لاہور اور خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں پولیو ورکرز پر حملے بھی ہوئے جن میں پولیس اہلکار اور پولیو ورکرز جاں بحق ہوئے۔

  • ہیٹ ویو کے دوران یہ احتیاطی تدابیر اپنائیں

    ہیٹ ویو کے دوران یہ احتیاطی تدابیر اپنائیں

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ایک بار پھر ہیٹ ویو الرٹ جاری کردیا گیا ہے، محکمہ موسمیات کے مطابق یکم تا 3 مئی کراچی میں ہیٹ ویو ہونے کا امکان ہے۔

    شدید گرمیوں کے اس موسم میں احتیاطی تدابیر اپنانے کی ضرورت ہے ورنہ لو لگنے یا ہیٹ اسٹروک ہونے کا خدشہ ہوتا ہے جس میں مریض کو فوری طور پر طبی امداد نہ دینے کی صورت میں اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: دھوپ میں لو لگنے سے موت کیوں ہوتی ہے؟

    یہاں ہم آپ کو ایسی ہی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے اور ان سے محفوظ رہنے کے طریقے بتا رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو آپ کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہیٹ اسٹروک ہے کیا اور اس کی علامات کیا ہیں۔

    ہیٹ اسٹروک کی وجوہات

    گرم اور خشک موسم

    شدید گرمی میں پانی پیے بغیر محنت مشقت یا ورزش کرنا

    جسم میں پانی کی کمی

    ذیابیطس کا بڑھ جانا

    دھوپ میں براہ راست زیادہ دیر رہنا

    ہیٹ اسٹروک کی علامات

    سرخ اور گرم جلد

    جسم کا درجہ حرارت 104 ڈگری فارن ہائیٹ ہوجانا

    غشی طاری ہونا

    دل کی دھڑکن بہت زیادہ بڑھ جانا

    جسم سے پسینے کا اخراج رک جانا

    پٹھوں کا درد

    سر میں شدید درد

    متلی ہونا

    ہیٹ اسٹروک ہونے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

    اگر آپ اپنے ارد گرد کسی شخص میں مندرجہ بالا علامات دیکھیں تو جان جائیں کہ وہ شخص ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوا ہے اور فوری طور پر اس کی مدد کی کوشش کریں۔

    مریض کو لٹا دیں اوراس کے پیر کسی اونچی چیز پر رکھ دیں۔

    ہیٹ اسٹروک کا شکار شخص کے جسم پر ٹھنڈی پٹیاں رکھیں یا ٹھنڈا پانی چھڑکیں۔

    مریض کو پنکھے کے قریب کر دیں، یا کسی چیز سے پنکھا جھلیں۔

    مریض کو فوری طور پر اسپتال پہنچانے کی کوشش کریں۔

    ہیٹ اسٹروک سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر

    مندرجہ ذیل تدابیر اپنا کر آپ شدید گرمی کے موسم میں اپنے آپ کو کسی نقصان سے بچا سکتے ہیں۔

    پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال

    گرم موسم میں پانی کا زیادہ استعمال کریں۔ روزانہ کم از کم 3 لیٹر پانی لازمی پیئیں۔ پانی کے ذریعے اپنے جسم میں نمکیات اور پانی کا توازن برقرار رکھیں۔

    مائع اشیا کا استعمال

    طبی ماہرین کے مطابق اپنے جسم کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کھیرے کا جوس، ناریل کا پانی، لیموں کا جوس اور دیگر مائع اشیا کا استعمال کریں۔

    چائے کافی سے پرہیز

    شدید گرم موسم میں گرم اشیا، چائے، کافی کا استعمال کم کریں۔ الکوحل اور کیفین والے مشروبات سے پرہیز کریں۔ کولڈ ڈرنکس کے بجائے پانی، لسی، اور دیسی مشروبات کا استعمال کریں۔

    ڈھیلے کپڑے پہنیں

    سخت گرمیوں میں ڈھیلے لیکن مکمل اور ہلکے رنگوں کے ملبوسات کا استعمال کریں۔ ہوا دار کپڑے پہنیں، تاکہ پسینہ سوکھ جائے۔ تیز دھوپ میں نکلتے ہوئے آپ کے جسم کا کوئی حصہ کھلا نہ ہونا چاہیئے ورنہ دھوپ براہ راست اس حصے پر پڑ کر جلد کو سرخ کر سکتی ہے۔

    کیا کھائیں؟

    گرمی کے موسم میں مائع اشیا جیسے خالص جوسز، سلاد، ہلکے پھلکے کھانے خاص طور پر سبزیاں کھائیں۔

    اپنا شیڈول ترتیب دیں

    شدید گرمی کے دنوں میں باہر نکلنے سے زیادہ سے زیادہ پرہیز کریں۔ کوشش کریں کہ باہر نکلنے والے کام صبح سورج نکلنے سے پہلے یا شام کے وقت نمٹالیں۔

    باہر نکلتے ہوئے احتیاط کریں

    گھر سے باہر نکلتے ہوئے سن اسکرین، دھوپ کے چشمے اور کیپ کا استعمال کیجیئے۔ اپنے ساتھ پانی کی ایک بوتل ضرور رکھیں اور ہر 20 سے 30 منٹ بعد پانی پیئیں۔

    عرق گلاب یا پیپر منٹ ایسنس پانی کے ساتھ ملاا ہوا اسپرے بھی ساتھ ہونا چاہیئے جس سے چہرے کو ٹھنڈا رکھا جا سکتا ہے۔

    اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کریں

    طبی ماہرین شدید گرمی میں اینٹی ڈپریشن ادویات استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ اس سے فالج کا خطرہ ہے۔

    باہر کا کھانا مت کھائیں

    سخت گرمیوں میں باہر کی تیل سے بھرپور اشیا، تلے ہوئے یا پیک شدہ کھانے کم کر دیں۔ اس کی جگہ تازہ پھلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھا دیں۔ خاص طور پر کچا سلاد اور ایسے پھل کھائیں جن میں پانی زیادہ ہو جیسے کھیرا، تربوز، کینو، خربوزہ وغیرہ۔

    گرم پانی میں نہانے سے پرہیز

    گرمیوں کے موسم میں گرم پانی سے نہانے سے بھی پرہیز کریں۔ یہ آپ کے دوران خون پر منفی اثرات ڈال کر شدید نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔

    بچوں کو بند کار میں نہ چھوڑیں

    دن کے اوقات میں اگر باہر جانا ہو تو بند گاڑی میں کبھی بھی بچوں یا جانوروں کو نہ چھوڑیں۔ یہ عمل ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔