Tag: صحت کی خبریں

  • فالج سے بچاؤ کا دن: اچانک دورہ پڑنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیئے؟

    فالج سے بچاؤ کا دن: اچانک دورہ پڑنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیئے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج فالج سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد اس جان لیوا بیماری اور اس سے بچاؤ کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔

    فالج ایک ایسا مرض ہے جو دماغ میں خون کی شریانوں کے بند ہونے یا ان کے پھٹنے سے ہوتا ہے۔ جب فالج کا اٹیک ہوتا ہے تو دماغ کے متاثرہ حصوں میں موجود خلیات آکسیجن اور خون کی فراہمی بند ہونے کی وجہ سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    اس کے نتیجے میں جسم کی کمزوری اور بولنے، دیکھنے میں دشواری سمیت اور بہت سی اور علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس سے جسم کا پورا، آدھا یا کچھ حصہ ہمیشہ کے لیے مفلوج ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دفتری کام کی زیادتی فالج کا سبب

    ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں معذور افراد میں سب سے زیادہ تعداد فالج سے متاثرہ افراد کی ہے۔ دنیا بھر میں ہر 10 سیکنڈ میں ایک فرد اس مرض کا شکار ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خواتین کو فالج کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس بیماری کی بڑی وجوہات میں ہائی بلڈ پریشر، مرغن خوراک، سگریٹ نوشی اور تمباکو سے تیار کردہ مواد خصوصاً گٹکا شامل ہے۔ جسمانی مشقت نہ کرنے والے لوگ جب ورزش نہیں کرتے تو یہ فالج کے لیے آسان ہدف ہوتے ہیں۔


    فالج کے دورے کی تشخیص کیسے کی جائے؟

    فالج دنیا بھر میں اموات کی تیسری بڑی اور طویل مدتی معذوری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کو فالج کا اٹیک ہو اور اس کے 3 گھنٹے کے اندر اسے طبی امداد فراہم کردی جائے تو اس شخص کو عمر بھر کی معذوری سے بچایا جاسکتا ہے۔ لیکن اکثر افراد کو علم نہیں ہو پاتا کہ انہیں یا ان کے قریب بیٹھے شخص کو فالج کا اٹیک ہوا ہے۔

    اس سلسلے میں ماہرین کچھ طریقے تجویز کرتے ہیں جن کو اپنا کر فالج کی تشخیص کی جاسکتی ہے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

    فالج کی پہچان کرنے کے لیے 4 آسان طریقوں پر عمل کریں۔

    اگر آپ کو کسی شخص پر گمان ہو کہ اسے فالج کا اٹیک ہوا ہے تو اسے مسکرانے کے لیے کہیں۔ فالج کا شکار شخص مسکرا نہیں سکے گا کیونکہ اس کے چہرے کے عضلات مفلوج ہوچکے ہوں گے۔

    ایسے شخص سے کوئی عام سا جملہ ادا کرنے کے لیے کہیں، جیسے آج موسم اچھا ہے یا سب ٹھیک ہے۔ اگر اسے یہ بھی ادا کرنے میں مشکل ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسے فالج کا اٹیک ہوا ہے۔

    اٹیک کے شکار شخص سے دونوں ہاتھ اٹھانے کے لیے کہیں۔ ایسی صورت میں فالج کا شکار شخص مکمل طور پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھا سکے گا۔

    فالج کے اٹیک کا شکار شخص اپنی زبان کو سیدھا نہیں رکھ سکے گا اور اس کی زبان دائیں یا بائیں جانب ٹیڑھی ہوجائے گی۔

    یہ تمام کیفیات فالج کی واضح علامات ہیں، اگر آپ اپنے یا کسی دوسرے شخص کے اندر یہ کیفیات دیکھیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    مزید پڑھیں: سبزیوں اور پھلوں کا استعمال فالج سے بچاؤ میں مفید


    فالج سے بچاؤ

    ماہرین صحت کے مطابق فالج سے بچاؤ کی آسان ترکیب متحرک زندگی گزارنا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دن بھر میں صرف دس منٹ کی ورزش کرنے سے فالج کا خطرہ ایک تہائی حد تک کم ہوجاتا ہے۔

    کھانے میں نمک اور مرغن غذاؤں کا استعمال کم کیا جائے۔

    سگریٹ نوشی بھی فالج کی ایک وجہ ہے۔ اس عادت کو ترک کر کے فالج سے بچا جاسکتا ہے۔

  • کوئٹہ: ڈاکٹروں کی سنگین غفلت، لڑکی زندگی بھر کے لیے معذور

    کوئٹہ: ڈاکٹروں کی سنگین غفلت، لڑکی زندگی بھر کے لیے معذور

    کوئٹہ: اپینڈکس کے آپریشن کے دوران ڈاکٹروں کی سنگین غفلت کے باعث لڑکی زندگی بھر کے لیے یورین بیگ کی محتاج ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کوئٹہ میں ڈاکٹروں نے لڑکی کے آپریشن کے دوران دوہری غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یورین کی نالی کاٹ دی اور مریضہ کے پیٹ میں نیڈل بھی چھوڑ دی۔

    [bs-quote quote=”ڈاکٹروں نے آپریشن کے دوران مریضہ کے پیٹ میں سوئی بھی چھوڑ دی تھی” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    ڈاکٹروں کی غفلت کے باعث 17 سال کی یاسمین عمر بھر کے لیے یورین بیگ کی محتاج ہو گئی، والد نے بیٹی کے علاج کے لیے گھر تک بیچ دیا۔

    بروری روڈ کی رہائشی طالبہ یاسمین کو ایک سال قبل اپینڈکس کی سرجری کروانی پڑی تو بی ایم سی کے ڈاکٹروں سے رجوع کیا جہاں آپریشن کروانے کے بعد وہ آج تک تکلیف سے دوچار ہے۔

    بی ایم سی کے ڈاکٹرز کی غفلت کا انکشاف اس وقت ہوا جب یاسمین کو تشویش ناک حالت میں کراچی منتقل کیا گیا، یاسمین کے والد نے غربت میں اب تک اس کے علاج پر لاکھوں روپے خرچ کیے۔


    یہ بھی پڑھیں:  وزیر اعظم عمران خان کا کوئٹہ میں کینسر اسپتال بنانے کا اعلان


    یاسمین کے والد محمد سلیمان نے بتایا کہ دوبارہ رابطہ کرنے پر متعلقہ ڈاکٹرز کا رویہ زیادہ مایوس کن تھا، انھوں نے بیٹی کی صحت کے ساتھ کھیلنے والے ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

  • کیا پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ممکن ہے؟

    کیا پاکستان سے پولیو کا خاتمہ ممکن ہے؟

    دنیا بھر میں آج انسداد پولیو کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں صرف 3 ممالک پاکستان، افغانستان اور نائجیریا ایسے ممالک ہیں جہاں آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پولیو جیسا مرض موجود ہے۔

    عالمی ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ہم اس موذی مرض کے خلاف جنگ 99 فیصد تک جیت چکے ہیں اور اگر ان 3 ممالک سے بھی پولیو کا خاتمہ ہوجائے تو یہ وائرس پوری دنیا سے ختم ہوجائے گا۔

    پاکستان بھر میں پچھلے ایک سے 2 سال کے عرصے میں انسداد پولیو وائرس کے حوالے سے ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔

    ایک وقت تھا جب پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں میں انسداد پولیو کے قطروں کو بانجھ کردینے والی دوا سمجھا جاتا تھا اور لوگ اسے اپنے بچوں کو پلانے سے احتراز کرتے تھے۔

    سرسید اسپتال کراچی کے ڈاکٹر اقبال میمن کے مطابق ایک بار جب وہ لوگوں میں پولیو کے خلاف آگاہی اور شعور بیدار کرنے کے لیے ایک مہم میں شامل ہوئے تو انہوں نے لوگوں سے یہ بھی سنا کہ ’پولیو ویکسین میں بندر کے خون کی آمیزش کی جاتی ہے جس سے ایبولا اور دیگر خطرناک امراض کا خدشہ ہے‘۔

    تاہم اب اس حوالے سے لوگوں کی سوچ میں بے انتہا تبدیلی آرہی ہے جس کا نتیجہ ہر سال پولیو کیسز کی گھٹتی ہوئی تعداد ہے۔

    اینڈ پولیو پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پولیو کیسز کی بلند ترین شرح سنہ 2014 میں دیکھی گئی جب ملک میں پولیو وائرس کے مریضوں کی تعداد 306 تک جا پہنچی تھی۔

    یہ شرح پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی۔ اس کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئیں تھی۔ اسی سال پڑوسی ملک بھارت پولیو فری ملک بن گیا۔

    تاہم اس کے بعد عالمی تنظیموں کے تعاون سے مقامی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد سنہ 2015 میں یہ تعداد گھٹ کر 54 اور سنہ 2016 میں صرف 20 تک محدود رہی۔

    سنہ 2017 میں پولیو کے 8 کیسز ریکارڈ کیے گئے جبکہ رواں برس یہ تعداد مزید کم ہوگئی اور اب تک ملک میں 6 پولیو کیسز کی تشخیص کی گئی ہے۔

    تصویر بشکریہ: اینڈ پولیو پاکستان

    خوش آئند بات یہ ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں فاٹا (جسے اب صوبہ خیبر پختونخواہ کا حصہ بنا دیا گیا ہے) میں جہاں پولیو ویکسین سے بے زاری عام تھی اور سنہ 2014 میں وہاں سے 179 پولیو کیسز منظر عام پر آئے، انہی علاقوں میں مقامی حکام کی کوششوں سے لوگوں کے خیالات میں اس قدر تبدیلی آچکی ہے کہ لوگوں نے اہم فریضہ سمجھ کر اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانا شروع کیے جس کے بعد ان علاقوں سے پولیو کیسز کی شرح نہایت کم ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: قبائلی علاقوں میں پولیو کیسز کی شرح صفر

    عالمی ادارہ صحت نے بھی پاکستان کی ان کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ پاکستان بہت جلد پولیو فری ملک بن جائے گا۔

    آج کے دن وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ بچوں کے لیے پولیو سے پاک، محفوظ اور صحت مند پاکستان بنائیں گے۔ انہوں نے کہا ہے کہ عوام کے تعاون سے پولیو فری پاکستان بنائیں گے۔

  • آپ کے بچے کو بیمار کرنے والی حیرت انگیز وجہ

    آپ کے بچے کو بیمار کرنے والی حیرت انگیز وجہ

    کیا آپ کو اپنے بچہ بیمار اور سست سا لگتا ہے؟ کیا آپ اسے بیماری کے خدشے کے پیش نظر ڈاکٹر کے پاس لے گئے لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہے، اس کے باوجود آپ مطمئن نہیں؟

    تو پھر آپ کے لیے یہ جاننا باعث حیرت ہوگا کہ آپ کے بچے کے بیمار ہونے کی وجہ اس کا جسمانی طور پر غیر فعال ہونا بھی ہوسکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر 4 میں سے 1 بچہ مناسب طور پر فعال نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں کی زد میں ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں 2018 سے 2030 تک کا ایک ایجنڈا لانچ کیا ہے جس کامقصد دنیا بھر میں جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    ادارے کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر فعال کرنے کے لیے ہمیں خاص کوششوں کی ضرورت نہیں۔ ایسا نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ تعلیم دی جائے یا کوئی طویل المدتی منصوبہ بنایا جائے۔ اس کے لیے صرف ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی دنیا کو ایسا بنائیں جہاں جسمانی سرگرمیاں فروغ پاسکیں۔

    ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد (بچے اور بڑے) ایسے ہیں جو جسمانی طور پر سرگرم نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق ہمیں لاحق ہونے والی کئی بیماریاں ایسی ہیں جن سے صرف جسمانی سرگرمی کے ذریعے باآسانی چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔

    ماہرین نے تجویز دی ہے کہ جسمانی طور پر سرگرم رہنے کے لیے پیدل چلنا اور سائیکل چلانا بہترین طریقہ کار ہیں۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ رسی کودنے کے فوائد جانتے ہیں؟

  • لوگ ہکلاتے کیوں ہیں؟

    لوگ ہکلاتے کیوں ہیں؟

    زبان میں لکنت یا ہکلاہٹ ایک ایسا مرض ہے جس سے ہم عام طور پر واقف ہیں۔ ہمارے آس پاس موجود افراد میں سے ایک نہ ایک شخص ضرور ہکلاتا ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 7 کروڑ افراد ایسے ہیں جو ہکلاہٹ کا شکار ہیں یا جن کی زبان میں لکنت ہے۔

    وہ گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دہراتے ہیں، کسی لفظ میں موجود کسی ایک حرف (عموماً شروع کے حرف) کو ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔

    ایسا وہ جان بوجھ کر نہیں کرتے بلکہ یہ عمل ان سے غیر اختیاری طور پر سرزد ہوتا ہے۔

    زبان کی اسی لکنت کا شکار افراد کی پریشانی کا احساس دلانے کے لیے آج آگاہی برائے ہکلاہٹ کا عالمی دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد اس مرض کے بارے میں شعور پیدا کرنا ہے۔

    ہکلاہٹ کی وجوہات کیا ہیں؟

    ماہرین اس مرض کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ ان مطابق یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے، اور نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ بعض افراد کسی پریشان کن صورتحال میں بھی ہکلانے لگتے ہیں جو جزوی ہوتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق ہکلاہٹ کا تعلق بول چال سے منسلک خلیوں کی کمزوری سے ہوسکتا ہے۔

    ہکلاہٹ کی ایک اور وجہ بچوں کی نشونما میں تاخیر بھی ہو سکتی ہے۔ یہ مسئلہ لڑکیوں کی نسبت لڑکوں میں چار گنا زیادہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں یا بڑی عمر کے افراد میں عموماً اس مسئلہ کی وجہ فالج کا دورہ یا دماغ کی چوٹ ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق 2 سے 5 سال کی عمر کے دوران جب بچے بولنا سیکھتے ہیں تو وہ ہکلاتے ہیں۔ 98 فیصد بچے نارمل طریقے سے بولنے لگتے ہیں لیکن 2 فیصد بچوں کی ہکلاہٹ مستقل ہوجاتی ہے اور باقاعدہ مرض کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

    ایک اور تحقیق سے پتہ چلا کہ زبان کی لکنت کی وجہ جسم میں موجود 3 مختلف جینز میں پایا جانے والا نقص ہے۔

    علاج کیا ہے؟

    لکنت کا شکار اکثر افراد خود اعتمادی کی کمی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں جو ان کے لیے زندگی میں کئی مسائل کا باعث بنتا ہے۔

    لکنت کا سب سے پہلا علاج تو آپ کو خود کرنے کی ضرورت ہے کہ جب بھی آپ اپنے آس پاس کسی شخص کو ہکلاہٹ کا شکار دیکھیں تو اس کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔

    ہکلاہٹ پر قابو پانے کے لیے مختلف اسپیچ تھراپی کی جاتی ہیں جن میں سانسوں کی آمد و رفت اور گفتگو کو مختلف انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ تھراپی کسی مستند معالج کے مشورے اور نگرانی میں کی جاسکتی ہے۔

    سنہ 2010 میں اس موضوع پر ہالی ووڈ میں ایک فلم ’دا کنگز اسپیچ‘ بنائی گئی۔ فلم میں انگلینڈ کے شہزادہ البرٹ کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے جو ہکلاہٹ کا شکار تھا۔

    اس کے باپ کی موت کے بعد تخت کو ایک بادشاہ کی ضرورت تھی لیکن البرٹ اپنی ہکلاہٹ کے مرض کے باعث ہچکچاہٹ کا شکار تھا۔ وہ عوامی اجتماعات میں خطاب کے دوران اپنی ہکلاہٹ کے باعث بے حد شرمندگی کا شکار تھا۔

    فلم میں اس کی اہلیہ ایک معالج کو اس کا مرض دور کرنے پر مامور کرتی ہے جو مختلف نفسیاتی اور طبی طریقوں سے بالآخر اس کا علاج کردیتا ہے۔

  • اپنی ہڈیوں کو کمزوری سے بچائیں

    اپنی ہڈیوں کو کمزوری سے بچائیں

    بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ انسانی جسم کی ہڈیاں کمزور ہوتی جاتی ہیں تاہم ہڈیوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہڈیوں کے بھربھرے پن یا آسٹیو پوروسس کی بیماری ہے جو ہڈیوں کو کسی بھی تکلیف کا آسان شکار بنا دیتی ہیں۔

    آج دنیا بھر میں ہڈیوں کے بھربھرے پن کی بیماری یعنی آسٹیو پوروسس سے آگاہی کا دن منایا جارہا ہے۔

    اس بیماری کی علامات عموماً دیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کی ابتدائی علامات میں مریض کو جوڑوں کے درد کے ساتھ ساتھ اٹھنے بیٹھنے میں بھی تکلیف کا احساس ہونا ہے۔

    ہڈیوں کے بھربھرے پن کا شکار شخص کسی وجہ سے گر جائے یا کوئی گہری چوٹ لگے تو اس کے ہاتھوں یا پیر کی ہڈی میں فریکچر کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    یہ بیماری یوں تو پورے جسم کی ہڈیوں کو متاثر کرتی ہے، لیکن ریڑھ، کولہے اور کلائی پر اس کا زیادہ اثر پڑتا ہے اور اس کا آغاز مرد و خواتین دونوں میں 45 سال کی عمر کے بعد ہوتا ہے۔


    آسٹیو پوروسس سے بچاؤ کے طریقے

    اس بیماری سے بچاؤ کا سب سے آسان حل نوجوانی سے متحرک زندگی گزارنا اور ورزش کرنا ہے۔ ورزش ہڈیوں کو مضبوط اور لچکدار بناتی ہے، لیکن خیال رہے کہ ورزش اپنی جسامت کے حساب سے کریں۔ بہت زیادہ بھاری بھرکم ورزشوں سے پرہیز کریں۔

    ہڈیوں کے لیے وٹامن ڈی سب سے بہترین ہے جس کا سب سے آسان ذریعہ دھوپ کی شعاعیں ہیں۔ روزانہ 10 سے 15 منٹ دھوپ میں گزارنے کو اپنا معمول بنا لیں۔

    کیلشیم سے بھرپور غذائیں یعنی دودھ، پنیر، دہی، مچھلی اور انڈوں کو اپنی روزانہ کی غذا کا حصہ بنائیں۔

    یاد رکھیں نوجوانی سے اپنی صحت کا خیال رکھنا بڑھاپے میں آپ کو بہت سے طبی مسائل سے بچاسکتا ہے۔

  • گمبٹ انسٹی ٹیوٹ: حکومتِ سندھ نے گرانٹ 2000 ملین روپے کر دی

    گمبٹ انسٹی ٹیوٹ: حکومتِ سندھ نے گرانٹ 2000 ملین روپے کر دی

    خیر پور: صوبہ سندھ کے ضلع خیر پور کے شہر گمبٹ میں قائم پیر سید عبد القادر شاہ جیلانی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسپتال کی گرانٹ حکومتِ سندھ نے 1500 ملین سے بڑھا کر 2000 ملین روپے کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اپنی نوعیت کا ایک نہایت جدید ترین اور ہزاروں مریضوں کے لیے زندگی کی نوید بن گیا ہے، رواں سال حکومتِ سندھ نے بھی اسپتال کے گرانٹ میں اضافہ کر دیا۔

    [bs-quote quote=”گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اعضا کی پیوند کاری کے سلسلے میں مثال بن گیا ہے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پاکستان میں جہاں اعضا کی خرابی کے باعث ہر سال ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جن کا علاج اعضا کی پیوند کاری ہی سے ممکن ہو، وہاں گمبٹ انسٹی ٹیوٹ اعضا کی پیوند کاری کے سلسلے میں ایک مثال بن گیا ہے۔

    گمبٹ انسٹی ٹیوٹ کو ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی نے 43 برس میں اپنی پُر عزم ٹیم کے ساتھ مل کر صرف 2 کمروں پر مشتمل ڈسپنسری سے ترقی دیتے ہوئے 800 بستروں پر مشتمل جدید اسپتال میں تبدیل کیا۔

    یہاں جدید ترین مشینری کے ذریعے جنرل میڈیسن کے علاوہ مختلف سرجریز، ڈائیلیسز، انجیو گرافی، انجیو پلاسٹی، بائی پاس اور بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولیات مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  سندھ کے سرکاری طبی مراکز کی مخدوش صورتِ حال، کرپشن عروج پر


    گمبٹ انسٹی ٹیوٹ میں نو مولود بچوں کے لیے وینٹی لیٹرز، انکیوبیٹرز، ایڈوانس آئی سی یو اور خواتین کے تمام آپریشنز بھی مفت کیے جاتے ہیں۔

    انسٹی ٹیوٹ میں خطے کا جدید ترین اینمل ہاؤس اور ٹری پلانٹ قائم کیا گیا ہے، جہاں آنے والے دور میں زیرِ تعلیم طلبہ و طالبات کو ریسرچ کے بہترین مواقع میسر آئیں گے۔

    ادارے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رحیم بخش بھٹی کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایمان داری، ارادے اور جنون سے کام کریں تو ہر چیز ممکن ہے، سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔

  • ہاتھ دھونا آپ کی زندگی بچا سکتا ہے

    ہاتھ دھونا آپ کی زندگی بچا سکتا ہے

    آج دنیا بھر میں ہاتھ دھونے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہاتھ دھونے اور غذا کے درمیان تعلق کا ہے۔

    ہاتھ دھونے کے عالمی دن کو منانے کا مقصد اس عمل کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے جو بے شمار جان لیوا بیماریوں سے بچا سکتا ہے۔

    دنیا بھر میں اس وقت سالانہ 22 لاکھ اموات ایسی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن سے صرف درست طریقے سے ہاتھ دھونے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ان بیماریوں میں نزلہ، زکام، نمونیا، ہیپاٹائٹس، اور سانس کی بیماریاں شامل ہیں۔

    یہ 22 لاکھ اموات زیادہ تر ان پسماندہ ممالک میں ہوتی ہیں جہاں صحت و صفائی کی سہولیات کا فقدان اور بے انتہا غربت ہے۔ اس قدر غربت کہ یہ لوگ ایک صابن خریدنے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے۔

    مزید پڑھیں: صابن کے استعمال شدہ ٹکڑے زندگیاں بچانے میں مددگار

    ماہرین کے مطابق جراثیم زیادہ تر کھانے پینے کے دوران انسانی جسم میں داخل ہوتے ہیں اورہاتھ، پیر اور منہ کے امراض، جلدی انفیکشن، ہیپاٹائٹس اے اور پیٹ کے امراض بھی ہاتھ نہ دھونے کی عادت کی وجہ سے ہمیں نشانہ بنا سکتے ہیں۔

    ایک تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیا کی تقریباً آدھی سے زیادہ آبادی کے پاس بیت الخلا کی سہولت نہیں ہے۔ افریقہ کے جنوبی علاقے میں یہ تعداد 28 فیصد تک ہے۔

    اس طرح کی خراب صفائی ستھرائی کی صورت حال کے بعد اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ مذکورہ علاقوں میں بچوں میں ہیپاٹائٹس، نمونیہ اور اسہال جیسی بیماریاں عام ہیں اور اکثر ان سے اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانا پکانے، کھانے اور بچوں کو کھلانے سے قبل ہاتھ دھونے کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔

    طبی ماہرین کے مطابق صابن کے ساتھ اچھی طرح ہاتھ دھونے سے اسہال کا خطرہ 30 سے 50 فیصد تک کم ہو جاتا ہے۔

  • غیر ضروری آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک رجحان

    غیر ضروری آپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرناک رجحان

    لندن: ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں خواتین بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری طور پر آپریشن کروانا پسند کرتی ہیں، آپریشن سے بچے کی پیدائش ایک ’عالمی وبا‘ بن گئی ہے۔

    برطانوی میگزین دی لانسیٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان خواتین میں بھی آپریشن کا رجحان بڑھ گیا ہے جن کے ہاں بچے کی نارمل پیدائش ممکن ہوتی ہے۔

    [bs-quote quote=”غیر ضروری آپریشن کروانے والی زیادہ تر وہ خواتین ہیں جن کی مالی حیثیت مستحکم ہے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری آپریشن زیادہ تر خطرناک ثابت ہوتے ہیں، ماہرین کے مطابق اس طرزِ عمل سے زچہ بچہ کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، نیز ماؤں کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    دی لانسیٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نئی صدی کی ابتدا سے پندرہ برسوں میں (2000 تا 2015) آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش کے عالمی کیسز میں تقریباً دُگنا اضافہ ہوا ہے۔

    غیر ضروری آپریشن کروانے والے ممالک کے سلسلے میں عالمی ادارۂ صحت اور یونی سیف نے اعداد و شمار اکھٹے کیے، اس کے مطابق ایسے ممالک کی تعداد 169 تھی جہاں مذکورہ رجحان تھا یا اس کے برعکس یعنی آپریشن کی ضرورت ہوتے ہوئے بھی آپریشن نہیں کیے گئے۔


    یہ بھی پڑھیں:  چنیوٹ: لیڈی ڈاکٹر کی فرض شناسی، خاتون نے رکشے میں بچی کو جنم دے دیا


    لانسیٹ کی تحقیق کے مطابق بچوں کی پیدائش کے لیے غیر ضروری آپریشن کروانے والی زیادہ تر وہ خواتین ہیں جن کی مالی حیثیت مستحکم ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ بعض ممالک تو ایسے بھی ہیں جہاں سرجری فیشن کا حصہ بن چکی ہے۔

  • بریسٹ کینسر کے خلاف آگاہی کے لیے کام کرنے والی ’چنگنونا‘

    بریسٹ کینسر کے خلاف آگاہی کے لیے کام کرنے والی ’چنگنونا‘

    لاطینی امریکا سے تعلق رکھنے والی ایلیہنڈرا کمپووردی چاہتی ہیں کہ بریسٹ کینسر کے خلاف آگاہی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے اور وہ اس کے لیے نہایت سرگرم ہیں۔

    ایلیہنڈرا ہارورڈ یونیورسٹی کی گریجویٹ ہیں، وہ صحافی اور ماڈل بھی ہیں جبکہ سابق صدر اوباما کی مشیر بھی رہ چکی ہیں۔

    بریسٹ کینسر کے بارے میں مزید معلومات

    ان کے سماجی کاموں کی وجہ سے انہیں ’چنگنونا‘ کہا جاتا ہے۔ لاطینی امریکا میں لفط چنگونا ایسی خواتین کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو بھلائی کے لیے مردانہ وار کام کرے اور کسی سے نہ ڈرے۔

    وہ کہتی ہیں، ’صدر ٹرمپ اپنی گفتگو میں خواتین کے جسم کا ذکر کرتے ہیں، ٹھیک ہے ایسا ہے تو ایسا ہی صحیح، خواتین کا جسم صرف خوبصورت دکھنے کے لیے نہیں، ہم ایک مکمل انسان ہیں‘۔

    ایلیہنڈرا ایسے جین کی حامل ہیں جو خواتین میں بریسٹ کینسر کا خطرہ عام خواتین کے مقابلے میں 85 فیصد بڑھا دیتا ہے۔

    یہ جین ان کے خاندان میں موجود ہے اور ان کی والدہ سمیت خاندان کی کئی خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہیں۔

    ایلیہنڈرا چاہتی ہیں کہ اس مرض کے خلاف نہ صرف زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلائی جائے بلکہ ہم اپنے بچوں کو بھی اس بارے میں آگاہ کریں۔