Tag: صحت کی خبریں

  • بریسٹ کینسر ویکسین کے پہلے ٹرائل کا اعلان

    بریسٹ کینسر ویکسین کے پہلے ٹرائل کا اعلان

    دنیا بھر کی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کی روک تھام کے لیے تیار کی گئی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا اعلان کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے کلیو لینڈ کلینک نے 26 اکتوبر 2021 کو ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کی روک تھام کرنے والی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا اعلان کیا ہے۔

    بریسٹ کینسر کی اس قسم کے خلاف ہارمون یا ٹارگٹڈ ادویات کام نہیں کرتیں، اب تک بریسٹ کینسر کی اس خطرناک قسم کی روک تھام کے لیے ویکسینز کی تیاری لیبارٹری اور جانوروں تک محدود تھی، مگر اب انسانوں پر ٹرائل اہم ترین پیشرفت ہے۔

    اس ٹرائل میں ایسی خواتین کو شامل کیا جائے گا جو ابتدائی مرحلے میں ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر سے نجات پاچکی ہیں مگر اس کے دوبارہ لوٹنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔

    ماہرین کو توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں زیادہ خطرے سے دو چار صحت مند افراد کو شامل کیا جائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ طویل المعیاد بنیادوں پر ہمیں توقع ہے کہ یہ ایک مؤثر ویکسین ثابت ہوگی جس کے استعمال سے صحت مند خواتین بریسٹ کینسر کی اس جان لیوا قسم کا شکار ہونے سے بچ سکیں گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ بریسٹ کینسر کی وہ قسم ہے جس کے خلاف علاج سب سے کم مؤثر ہیں۔

    ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کا سامنا کینسر کی اس قسم کا سامنا کرنے والی 12 سے 15 فیصد خواتین کو ہوتا ہے اور تشخیص کے بعد ایک چوتھائی کے قریب مریض 5 سال کے اندر ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    ٹرائل میں شامل رضا کاروں کو یہ ویکسین 3 خوراکوں میں استعمال کروائی جائے گی جس میں ایک ایسی دوا شامل ہے جو اس قسم کا خطرہ بڑھانے والے ایک مخصوص پروٹین کے خلاف مدافعتی نظام کو متحرک کرے گی۔

    ہر خوراک میں 2 ہفتے کا وقفہ ہوگا اور آغاز میں چند خواتین کو کم مقدار کی خوراک دی جائے گی جس کے بعد ان کی مانیٹرنگ کی جائے گی اور پھر مقدار اور خواتین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔

    ٹرائل میں 18 سے 24 ایسی خواتین کو شامل کیا جائے گا جو گزشتہ 3 برسوں کے دوران ابتدائی مرحلے میں کینسر کو شکت دے چکی ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق ایک بار ہم تعین کرلیں کہ کتنی مقدار میں ویکسین دی جانی چاہیئے، اس کے بعد ہم مدافعتی نظام پر اس کے اثرات کی جانچ پڑتال کریں گے، جس سے یہ تعین کرنے میں مدد ملے گی ویکسین کتنی کارآمد ہے۔

    اس حوالے سے تحقیق ستمبر 2022 تک مکمل ہونے کا امکان ہے اور اس کے لیے فنڈز امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے فراہم کیے جائیں گے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ویکسین کی یہ حکمت عملی ممکنہ طور پر دیگر اقسام کی رسولیوں پر بھی کام کرسکتی ہے، اگر ٹرائل کامیاب ہوا تو اس سے بالغ افراد میں کینسر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے گی۔

  • کروڑوں افراد بینائی چھن جانے کے خطرے کا شکار

    کروڑوں افراد بینائی چھن جانے کے خطرے کا شکار

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں مناسب اقدامات نہ اٹھائے جانے کے باعث سنہ 2050 تک بینائی سے محروم افراد کی تعداد تین گنا ہونے کا خدشہ ہے۔

    سائٹ سیورز پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر منزہ گیلانی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد لوگوں کو اندھے پن سے بچایا جاسکتا ہے اور اگر فوری طور پر اس بیماری کو روکنے کے اقدامات نہ اٹھائے گئے تو لاکھوں لوگ اس کا شکار ہو سکتے ہیںَ

    انہوں نے کہا کہ اندھا پن قابل علاج مرض ہے لیکن آنکھوں کے علاج کی سہولیات نہ ہونے اور غربت کی وجہ سے اس مرض پر قابو پانے کی کوششوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پوری دنیا میں 2.2 ارب سے زائد افراد آنکھوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں متاثرہ افراد کی تعداد ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے جبکہ متاثرہ افراد میں سے نصف کا مرض قابل علاج ہے۔

    پوری دنیا میں نابینا افراد کی تعداد 2050 تک 11 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے جس کے سالانہ نقصان کا تخمینہ 410.7 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

    منزہ گیلانی نے کہا کہ پاکستان میں آنکھوں کے علاج کی سہولیات کو عالمی معیار کے مطابق بنانا ہوگا تاکہ اندھے پن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔

    ان کا کہنا کہ سائٹ سیورز نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر آنکھوں کی بینائی کے مختلف منصوبوں پرکام کیا ہے اوران منصوبوں کے ذریعے ملک میں آنکھوں کے علاج کی سہولیات میں بہتری آئے گی۔

  • ڈیری مصنوعات کے استعمال کا فائدہ سامنے آگیا

    ڈیری مصنوعات کے استعمال کا فائدہ سامنے آگیا

    حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ وہ افراد جو ڈیری مصنوعات کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں امراض قلب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

    آن لائن ریسرچ جرنل پی ایل او ایس میڈیسن کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں ماہرین نے دودھ کے استعمال اور دل کی صحت سے متعلق 18 مطالعات کا جائزہ لیا جو پچھلے 16 سال کے دوران سوئیڈن، امریکا، برطانیہ اور ڈنمارک میں کیے گئے تھے۔

    ان تمام مطالعات میں مجموعی طور پر 47 ہزار سے زائد رضا کار شریک ہوئے تھے، جن میں سے بیشتر کی ابتدائی عمر 60 سال کے لگ بھگ تھی۔

    اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ دودھ اور دودھ سے بنی غذائیں مثلاً دہی، مکھن اور پنیر وغیرہ زیادہ استعمال کرنے والوں میں امراض قلب کی شرح خاصی کم تھی۔

    یہی نہیں بلکہ اپنے روزمرہ معمولات میں سب سے زیادہ دودھ اور ڈیری مصنوعات استعمال کرنے والوں کےلیے دل کی بیماریوں کا خطرہ بھی سب سے کم دیکھا گیا۔

    ان کے مقابلے میں وہ افراد جن میں ڈیری پروڈکٹس استعمال کرنے رجحان کم تھا، ان کی بڑی تعداد اپنی بعد کی عمر میں دل اور شریانوں کی بیماریوں میں مبتلا ہوئی۔

    واضح رہے کہ طبّی ماہرین پچھلے کئی سال سے دودھ اور ڈیری مصنوعات کی کم مقدار استعمال کرنے پر زور دیتے آرہے ہیں کیونکہ ان میں چکنائی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، البتہ دوسری کئی تحقیقات سے اس کے برخلاف نتائج بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

    آسٹریلیا، امریکا، سوئیڈن اور چین کے ماہرین پر مشتمل اس مشترکہ پینل کی تحقیق نے بھی صحت کے حوالے سے دودھ اور دودھ سے بنی مصنوعات کی افادیت ثابت کی ہے۔

    ریسرچ پیپر کی مرکزی مصنفہ اور جارج انسٹی ٹیوٹ فار گلوبل ہیلتھ آسٹریلیا کی پروفیسر کیتھی ٹریو کا کہنا ہے کہ دل کی بیماریوں سے بچنے کے لیے دودھ پر مبنی غذاؤں کا استعمال مکمل طور پر ترک کردینا مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کی سنگینی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

  • کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟

    کیا ذیابیطس سے نجات پانا ممکن ہے؟

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ غذا میں تبدیلی لا کر ذیابیطس ٹائپ ٹو یعنی شوگر سے نجات پانا یا اسے ریورس کرنا ممکن ہوسکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی اور برطانیہ کی ٹیسائیڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ غذا اور طبی ماہرین (فارماسٹ) کی نگرانی کے ذریعے ذیابیطس کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔

    اس تحقیق میں ماہرین کے زیر انتظام ایک خصوصی غذائی پلان تیار کیا گیا اور 12 ہفتوں تک ذیابیطس کے مریضوں پر اس کی آزمائش کی گئی۔

    ان مریضوں کو کم کیلوریز، کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین والا غذائی پلان دیا گیا اور ان کی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کی گئی۔

    ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس ٹائپ 2 کا علاج ہوسکتا ہے اور کئی بار اسے غذائی مداخلت کے ذریعے ریورس بھی کیا جاسکتا ہے، مگر ہمیں ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے جس میں لوگ غذائی عادات میں تبدیلی پر عمل کرسکیں جبکہ اس دوران ان کی ادویات کی تبدیلیوں پر بھی نظر رکھی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ فارماسٹ کو ادویات کے حوالے سے مہارت ہوتی ہے اور وہ ذیابیطس کے مریضوں کی نگہداشت میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق جب ذیابیطس کے مریض کم کیلوریز یا کاربوہائیڈریٹس والی غذا استعمال کرتے ہیں، تو ان کو گلوکوز کی سطح کم کرنے والی ادویات کا استعمال کم کرنے یا نہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، کمیونٹی فارماسٹ اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 50 فیصد رضا کاروں کو کم کیلوریز، کم کاربوہائیڈریٹس اور زیادہ پروٹین والی غذا کا استعمال کروایا گیا جبکہ اس دوران ماہرین نے ان کا معائنہ جاری رکھا۔

    12 ہفتے بعد ذیابیطس کے ایک تہائی مریضوں کے لیے ادویات کی ضرورت نہیں رہی جبکہ کنٹرول گروپ کو بدستور ادویات کی ضرورت رہی۔

    محققین کے مطابق پہلے گروپ کے گلوکوز کنٹرول، اوسط جسمانی وزن، بلڈ پریشر اور مجموعی صحت میں نمایاں بہتری بھی آئی۔

    انہوں نے بتایا کہ غذائی حکمت عملی کو اپنانا بیماری کو ریورس کرنے کی کنجی ہے جس کے ساتھ ضروری ہے کہ فارماسٹ بھی ادویات کے استعمال کی مانیٹرنگ کرے۔

    اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے۔

  • بہت زیادہ فراغت بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے

    بہت زیادہ فراغت بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے

    آج کل کی زندگی میں بہت زیادہ مصروفیات تھکن کا شکار کردیتی ہیں اور اس کے لیے کچھ وقت فارغ رہ کر گزارنا بہترین حل ہے، تاہم اب ماہرین نے بہت زیادہ فراغت کو بھی نقصان دہ قرار دیا ہے۔

    حال ہی میں امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا کہ دن بھر میں ساڑھے 3 گھنٹے سے زیادہ فراغت ذہن پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور 7 گھنٹے تک فارغ رہنا لوگوں کو خود برا محسوس ہونے لگتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہم نے فارغ وقت اور خوشی کے درمیان ایک اتار چڑھاؤ پر مبنی تعلق کو دریافت کیا، اگر فراغت کا وقت بہت کم ہے تو بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں کو بہت زیادہ تناؤ محسوس ہوتا ہے، مگر زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کوئی فرد بہت زیادہ فارغ رہ کر گزارتا ہے تو بھی اس کی شخصیت اور خوشی پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر فراغت کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے، اگر اس کو تعمیری مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو شخصیت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 21 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو 2012 اور 2013 کے دوران ایک سروے کا حصہ بنایا گیا تھا۔ ان افراد سے گزشتہ 24 گھنٹوں کا تفصیلی احوال معلوم کیا گیا اور ان سے اپنی ذہنی حالت کے بارے میں رپورٹ کرنے کا کہا گیا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ فارغ رہ کر 5 گھنٹے گزارنے سے لوگوں میں خوشی کا احساس گھٹنے لگتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق جن لوگوں کو بہت کم یا بہت زیادہ فراغت ہوتی ہے وہ ذہنی طور پر بدترین اثرات محسوس کرتے ہیں جبکہ معتدل وقت گزارنے والوں کا ذہنی تناؤ کم ہوتا ہے۔

    ماہرین نے تسلیم کیا کہ یہ تحقیق کچھ پہلوؤں سے محدود تھی جیسے ضروری نہیں کہ بہت زیادہ فارغ وقت ہر فرد پر یکساں اثرات مرتب کرتا ہو، تحقیق کے نتائج لوگوں کے تاثرات پر مبنی تھے لہٰذا ضروری نہیں کہ ہر ایک کو اسی طرح کے تجربے کا سامنا ہوتا ہو۔

  • طبی ماہرین کا پاکستان میں ذیابیطس سے متعلق پریشان کن انکشاف

    طبی ماہرین کا پاکستان میں ذیابیطس سے متعلق پریشان کن انکشاف

    کراچی: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد افراد کو اپنے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا علم نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین صحت نے کہا ہے کہ ذیابیطس کووِڈ سے بڑی عالمی وبا ہے، جو پاکستان جیسے غریب ممالک میں کرونا وائرس سے زیادہ افراد کی جان لے رہی ہے، پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 2 کروڑ سے زائد ہے، جب کہ تقریباً 2 کروڑ افراد ایسے ہیں جنھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ ذیابیطس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

    آج کراچی میں پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی اور ڈسکورِنگ ڈائبیٹیز پروجیکٹ کے تحت ملک بھر میں 200 سے زائد ڈائبیٹیز کلینکس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔

    افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر ابرار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً دو کروڑ افراد کو اپنے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کے بارے میں علم ہی نہیں اور انھیں اپنی بیماری کا علم اس وقت ہوتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔

    پاکستان اینڈوکرائن سوسائٹی نے ایسے مریضوں کی بروقت تشخیص کے لیے مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے ساتھ مل کر ڈسکورِنگ ڈائبیٹیز پروجیکٹ شروع کیا ہے، اس پروجیکٹ کے تحت ایک مفت ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے جہاں پر فون کر کے ذیابیطس کے خطرے سے دوچار افراد رہنمائی اور فری ٹیسٹنگ سمیت تشخیص کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔

    بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائیبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنالوجی سے وابستہ معروف ماہر امراض ذیابیطس ڈاکٹر مسرت ریاض کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا غیر تشخیص شدہ دو کروڑ افراد میں کئی ہزار بچے اور حاملہ خواتین بھی شامل ہیں، جنھیں اس بات کا علم ہی نہیں کہ وہ اپنے طرز زندگی کے باعث ذیابیطس جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ عوام کو چاہیے کہ وہ جلد سے جلد اپنی کھانے پینے کی عادات اور طرز زندگی کو بدلیں، ورزش کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بناتے ہوئے اپنے معمولات تبدیل کریں، تاکہ وہ صحت مند زندگی گزار سکیں۔

    جناح اسپتال سے وابستہ معروف اینڈوکرائنالوجسٹ ڈاکٹر عروج لعل رحمٰن کا کہنا تھا کہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے ایسے افراد جن کے خاندان میں کوئی نہ کوئی شخص ذیابیطس میں مبتلا ہے، موٹاپے کا شکار ہیں، انھیں کسی علامت کے ظاہر ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے جلد از جلد اپنی شوگر چیک کروانی چاہیے، تاکہ انھیں اس بیماری کی پیچیدگیوں اور مہلک اثرات سے بچایا جا سکے۔

    ڈسکورنگ ڈائبٹیز پروجیکٹ کے انچارج اور مقامی دوا ساز ادارے فارم ایوو کے چیف ایگزیکٹو آفیسر سید جمشید احمد کا کہنا تھا کہ اگر فوری طور پر اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 2045 تک دس کروڑ سے زیادہ ہو جائے گی۔

  • کیا آپ کا بچہ بیمار سا محسوس ہوتا ہے؟

    کیا آپ کا بچہ بیمار سا محسوس ہوتا ہے؟

    اکثر اوقات ہمیں اپنے گھر میں یا ارد گرد موجود بچے کچھ کچھ بیمار سے لگتے ہیں، والدین بچوں کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر بتاتا ہے کہ بچہ بالکل صحت مند ہے اور اسے کوئی بیماری نہیں۔

    لیکن اس کے باوجود بچہ بیمار اور سست سا دکھائی دیتا ہے۔ آپ کے لیے یہ جاننا باعث حیرت ہوگا کہ کسی بچے کے بیمار ہونے کی وجہ اس کا جسمانی طور پر غیر فعال ہونا بھی ہوسکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ دنیا بھر میں ہر 4 میں سے 1 بچہ مناسب طور پر فعال نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں کی زد میں ہے۔

    اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت نے کچھ عرص قبل ایک پروگرام بھی شروع کیا ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں خاص طور پر بچوں میں جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دینا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس کا کہنا ہے کہ بچوں کو جسمانی طور پر فعال کرنے کے لیے ہمیں خاص کوششوں کی ضرورت نہیں۔ ایسا نہیں کہ اس کے لیے باقاعدہ تعلیم دی جائے یا کوئی طویل المدتی منصوبہ بنایا جائے۔ اس کے لیے صرف ہمیں یہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنی دنیا کو ایسا بنائیں جہاں جسمانی سرگرمیاں فروغ پاسکیں۔

    ماہرین کے مطابق اس وقت دنیا میں ایک ارب سے زائد (بچے اور بالغ) افراد ایسے ہیں جو جسمانی طور پر سرگرم نہ ہونے کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار ہیں۔

    ان کے مطابق ہمیں لاحق ہونے والی کئی بیماریاں ایسی ہیں جن سے صرف جسمانی طور پر حرکت کے ذریعے باآسانی چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔ ماہرین نے تجویز دی ہے کہ جسمانی طور پر سرگرم رہنے کے لیے پیدل چلنا اور سائیکل چلانا بہترین طریقہ کار ہیں۔

  • رات بھر نیند نہیں آتی؟ تو یہ غذائیں کھائیں

    رات بھر نیند نہیں آتی؟ تو یہ غذائیں کھائیں

    آج کل اچھی نیند کا حصول ایک مشکل بن گیا ہے، دن کا زیادہ تر وقت اسکرینز کا استعمال ہماری نیند کو بے حد متاثر کرتا ہے جبکہ کام اور زندگی کے دیگر مسائل کا تناؤ بھی اچھی نیند آنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ ہم نیند کی کمی کا شکار اس وقت ہوتے ہیں جب ہمارے اعصاب پرسکون نہیں ہوپاتے۔ پرسکون اعصاب ہی اچھی نیند لانے کا سبب بنتے ہیں اور اعصاب کو پرسکون رکھنے کے لیے دماغی و جسمانی ورزشیں اور ہلکی پھلکی غذائیں استعمال کی جاسکتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ غذائیں شام یا رات سونے سے قبل استعمال کرلی جائیں تو آپ ایک اچھی اور بھرپور نیند سو سکتے ہیں۔

    اخروٹ

    اخروٹ میں موجود مائنو ایسڈ دماغ میں سیروٹنن اور میلاٹونین نامی مادہ پیدا کرتا ہے جو ہمارے دماغ کو پرسکون بنا کر بہترین نیند لانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند لانے والی بعض دواؤں میں مصنوعی طور پر میلاٹونن کی آمیزش کی جاتی ہے۔ لہٰذا ان دواؤں سے بہتر میلاٹونن کا قدرتی ذخیرہ ہے جو اخروٹ کی شکل میں باآسانی دستیاب اور صحت بخش ہے۔

    بادام

    بادام میں موجود میگنیشیئم دماغی تناؤ کو کم اور سر درد کا علاج کرتا ہے۔ یہ دراصل دماغ اور اعصاب کو پرسکون کرتا ہے۔ یہی نہیں روزانہ بادام کھانا دماغی کارکردگی اور استعداد میں بھی اضافہ کرتا ہے۔

    شکر قندی

    اگر آپ رات میں بہترین نیند سونا چاہتے ہیں تو شام میں شکر قندی کھائیں۔ یہ نہ صرف ذائقہ دار ہے بلکہ اس میں موجود کاربوہائیڈریٹس اور وٹامن بی 6 معدے کی تیزابیت کو ختم کرتے ہیں جس کی وجہ سے آپ سو نہیں پاتے۔

    گرم دودھ

    رات سونے سے قبل ایک گلاس نیم گرم دودھ پینے کے بعد آپ بستر پر لیٹتے ہی نیند کی آغوش میں چلے جائیں گے۔ نہ صرف دودھ بلکہ وہ تمام غذائیں جن میں کیلشیئم موجود ہو جیسے دہی یا پنیر وغیرہ نیند لانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔

    البتہ ان کے استعمال سے قبل وقت اور موسم کو ضرور مدنظر رکھیں۔ صرف نیم گرم دودھ ہر موسم میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    کیلے

    کیلے میں پوٹاشیئم اور میگنیشیئم وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں جو اعصاب اور پٹھوں کو آرام دہ اور ہلکا پھلکا کرتے ہیں جس کے بعد آپ ایک پرسکون نیند سوتے ہیں۔

  • وہ پھل جو آپ کے ناشتے کو توانائی کا خزانہ بنا دیں

    وہ پھل جو آپ کے ناشتے کو توانائی کا خزانہ بنا دیں

    ناشتہ توانائی کا وہ بوسٹر ہے جو دن بھر ہمیں تازہ دم اور چاک و چوبند رکھتا ہے، ناشتہ نہ کرنے ہمارے جسم کے لیے بے حد نقصان کا سبب ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ناشتہ کیے بغیر گھر سے نہیں نکلنا چاہیئے اور اگر گھر میں بنا ہوا عین حفظانِ صحت کے مطابق صحت بخش غذاؤں سے ناشتہ کیا جائے تو دن کی یہ پہلی غذا سارا دن جسم کو توانائی فراہم کرتی ہے۔

    ناشتے میں استعمال کی جانے والی کچھ ایسی غذائیں بھی ہیں جو برسہا برس آپ کو تندرست و جوان رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

    فٹنس ایکسپرٹس بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بڑھتی عمر اگرچہ ایک قدرتی عمل ہے مگر اس کا 80 فیصد تعلق ہمارے طرزِ زندگی اور غذا سے ہوتا ہے، انسان میں بڑھتی عمر کے اثرات سب سے پہلے چہرے اور بالوں پر ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔

    ناشتہ چونکہ دن کی اہم ترین غذا ہوتی ہے لہٰذا اس میں اگر ضروری اور متوازن غذاؤں کا باقاعدگی سے استعمال جاری رکھا جائے تو باآسانی جھریوں سے بچا جاسکتا ہے۔

    تخم بالنگا

    تخم بالنگا کا استعمال عموماً مشروبات میں کیا جاتا ہے لیکن اس کے بیج بڑھتی عمر کے اثرات کم کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں، تخمِ بالنگا پروٹین سے بھرپور ہوتا ہے، اس میں پایا جانے والا اومیگا 3 فیٹی ایسڈ انسان میں بڑھتی عمر کے اثرات کم کرنے اور جلد کو ہائیڈریٹ اور موئسچرائز رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    تخم بالنگا کے بیج ذائقے دار نہیں ہوتے اسی لیے انہیں صبح ناشتے کے وقت پانی میں یا پڈنگ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے، تخم بالنگا کے بیجوں کی پڈنگ بنانے کے لیے بادام، کاجو، بیری اور چیری کا استعمال سود مند ثابت ہوتا ہے۔

    جو کا دلیہ

    مختلف تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ ناشتے میں جو کا دلیہ کھانے سے خراب کولیسٹرول میں کمی واقع ہوتی ہے، جو کے دلیے میں پلانٹ فائبر، نائٹروجن کمپاؤنڈز، گوند، چینی اور فیٹس کی معمولی مقدار کے علاوہ نشاستہ بھی پایا جاتا ہے جو کہ انسانی جسم سے خراب کولیسٹرول کی مقدار کم کر کے تندرست بناتا ہے۔

    سبز چائے

    مختلف اقسام کی چائے میں بڑھتی عمر کے اثرات زائل کرنے والے اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں تاہم دیگر اقسام کی چائے کی نسبت سبز چائے میں اینٹی ایجنگ خصوصیات زیادہ پائی جاتی ہیں۔

    پپیتا

    پپیتا مختلف اقسام کی اینٹی آکسیڈنٹس خصوصیات، معدنیات اور پروٹینز پر مشتمل ہوتا ہے، پپیتے میں موجود خصوصی انزائمز (پاپین، بیٹاکیروٹین اور لائیکوپین) کی موجودگی اسے صحت اور جِلد کے لیے متعدد فوائد کا حامل بناتی ہے۔

    دن کا آغاز پپیتے جیسے ذائقے دار پھل سے بھی کیا جا سکتا ہے، یہ پیٹ کی صفائی اور میٹا بولزم کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے نہایت مفید پھل ہے۔

    بلیو بیری

    اگرچہ بلیو بیریز دکھنے میں چھوٹی ہوتی ہیں لیکن یہ چھوٹا سا پھل انسانی جسم میں جا کر بیش بہا فوائد کا باعث بنتا ہے۔ بلیو بیریز اینٹی ایجنگ خصوصیت سیت متعدد بیماریوں کے خلاف مزاحمت کا کام کرتی ہیں، بلو بیریز کے استعمال سے طویل عرصے تک چاق و چوبند اور جوان رہا جا سکتا ہے۔

  • ہر 30 سیکنڈ میں ایک شخص کی ہیپاٹائٹس سے موت

    ہر 30 سیکنڈ میں ایک شخص کی ہیپاٹائٹس سے موت

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ہیپاٹائٹس سے بچاؤ اور اس کے خلاف آگہی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر 30 سیکنڈ میں ایک شخص ہیپاٹائٹس کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں لوگوں کو موت کے منہ میں پہنچانے والی، ٹی بی کے بعد ہیپاٹائٹس دوسری بڑی بیماری ہے۔ دنیا بھر میں 35 کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں اور زیادہ تر علاج سے محروم ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہا ہے کہ دنیا بھر میں سالانہ 4 لاکھ کے قریب افراد اس مرض کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا شکار دوسرا بڑا ملک ہے، صرف پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ پاکستان میں اس مرض کی صرف 2 اقسام بی اور سی کے ہی ڈیڑھ کروڑ مریض موجود ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچنے کے لیے احتیاط ہی بہترین طریقہ ہے جس سے آپ خود کو اس موذی مرض سے بچا سکتے ہیں، استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال، گندا پانی، غیر معیاری اور ناقص غذا ہیپاٹائٹس کا سبب بننے والی بڑی وجوہات ہیں۔