Tag: صحت کی خبریں

  • دماغ کھانے والا نیگلیریا کس طرح حملہ آور ہوتا ہے؟

    دماغ کھانے والا نیگلیریا کس طرح حملہ آور ہوتا ہے؟

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں دماغ کھانے والا جراثیم نیگلیریا ایک بار پھر متحرک ہوگیا، یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جراثیم کیا ہے اور کس طرح اپنا شکار بنا سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شہر قائد میں نیگلیریا پھر سے سر اٹھانے لگا، ملیر کے ایک فارم ہاؤس میں سوئمنگ پول میں نہانے والے 5 افراد اس وائرس کا شکار ہوگئے جن میں 8 سالہ بچہ بھی شامل تھا۔

    جناح اسپتال کے فزیشن ڈاکٹر محمد عمر سلطان کا کہنا ہے کہ یہ ایسا مرض ہے جو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا اور 2 سے 4 دن میں انسان کو موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔

    یہ مرض کس طرح اپنا شکار کرتا ہے؟

    ڈاکٹر عمر نے بتایا کہ نیگلیریا کا جراثیم بظاہر صاف دکھنے والے پانی میں موجود ہوتا ہے۔ وہ پانی جو میٹھا ہو، اور اس کا درجہ حرارت گرم ہو اس میں نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ جراثیم سوئمنگ پولز اور جھیلوں سمیت دیگر کھڑے ہوئے پانیوں میں ہوسکتا ہے۔

    اگر اس پانی میں نہایا جائے تو یہ ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور دماغ تک پہنچ کر اسے کھانا شروع کردیتا ہے۔ 4 سے 5 دن میں دماغ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    علامات

    اس جراثیم کے حملہ آور ہونے کا فوری طور پر علم نہیں ہوتا، تاہم یاد رکھیں اس مرض کی علامات میں:

    جھیل یا سوئمنگ پول میں نہانے کے 2 سے 4 دن کے اندر سونگھنے کی صلاحیت میں تبدیلی آنا

    گردن توڑ بخار ہونا

    گردن میں اکڑ محسوس ہونا

    چڑچڑا پن محسوس ہونا

    اور الٹیاں ہونا شامل ہے۔

    یاد رکھیں

    مندرجہ بالا علامات اگر اس وقت محسوس ہوں جب 2 یا 3 دن قبل آپ کسی جھیل یا سوئمنگ پول میں نہائے ہوں تو فوری طور پر الرٹ ہوجائیں اور ڈاکٹر کے پاس پہنچیں۔

    ان علامات کے لیے گھریلو ٹوٹکے اپنانے سے گریز کریں۔

    اگر 2 سے 3 دن کے اندر اس مرض کی تشخیص ہوجائے اور علاج شروع کردیا جائے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    ماہرین کے مطابق گرم اور مرطوب موسم نیگلیریا جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے چنانچہ اس موسم میں کھڑے پانی میں نہانے سے گریز کریں۔

    سوئمنگ کرتے ہوئے ناک کے لیے نوز پیڈز کا استعمال کریں۔

    پکنک پر جاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جس پول میں نہا رہے ہیں اس میں کلورین کی مناسب مقدار موجود ہے۔ غیر محفوظ پولز کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔

    کیا گھر میں بھی یہ جراثیم موجود ہوسکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق ہمارے گھروں میں آنے والا پانی بھی نہایت غیر محفوظ ذرائع سے ہم تک پہنچتا ہے چنانچہ اس میں بھی نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    اس سے بچنے کے لیے مرطوب موسم میں وضو کرتے ہوئے ناک میں ڈالنے کے لیے منرل واٹر یا ابلا ہوا پانی استعمال کریں۔

    گھر میں موجود پانی کے ذخائر میں مناسب مقدار میں کلورین شامل کریں۔

    کسی بھی قسم کے بخار کو معمولی مت سمجھیں اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • کیا موبائل فون کا استعمال دماغ کے لیے خطرناک ہے؟

    کیا موبائل فون کا استعمال دماغ کے لیے خطرناک ہے؟

    آج کل کے دور میں موبائل فون کے بغیر زندگی ناممکن ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ موبائل فون کا زیادہ استعمال دماغ میں رسولی کا سبب بن سکتا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ایک تحقیق کے مطابق موبائل فون کا زیادہ استعمال دماغ میں رسولی یا ٹیومر کا سبب بنتا ہے۔

    یہ تحقیق جنوبی کوریا کے نیشنل کینسر سینٹر اور سیئول نیشنل یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کی گئی ہے، جس کے مطابق 46 فیصد امریکی روزانہ 5 سے 6 گھنٹے فون استعمال کرتے ہیں اور 11 فیصد دن میں سات گھنٹے سے زیادہ اپنی ڈیوائس سے چپکے رہتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ 10 سال کے عرصے کے دوران سیل فون کا 1 ہزار گھنٹوں سے زیادہ استعمال یعنی محض 17 منٹ روزانہ بھی دماغ میں رسولی پیدا ہونے کے خطرے کو 60 فیصد بڑھا دیتا ہے۔ جو لوگ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے موبائل فونز استعمال کر رہے ہیں، ان میں رسولی کا خطرہ ان لوگوں سے نسبتاً زیادہ ہے جو پانچ سال یا اس سے کم عرصے سے فونز کا استعمال کر رہے ہیں۔

    برکلے پبلک ہیلتھ میں سینٹر فار فیملی اینڈ کمیونٹی ہیلتھ کے ڈائریکٹر جوئل ماسکووچ کہتے ہیں کہ موبائل فون کا استعمال صحت کے مختلف مسائل کو جنم دیتا ہے اور بدقسمتی سے ہماری سائنسی برادری نے اس پر بہت کم توجہ دی ہے۔

    ایک تحقیق میں 20 سال کے عرصے کے دوران 4 لاکھ 20 ہزار موبائل فون صارفین کا ریکارڈ جمع کیا گیا اور ماہرین نے دیکھا کہ موبائل فون اور دماغ کی رسولیوں میں کوئی تعلق نہیں۔ البتہ دوسری تحقیق میں کہا گیا کہ موبائل فون کا بہت زیادہ استعمال دماغی رسولی کی ایک خاص قسم کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔

    یہاں تک کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے بھی اس کے صحت پر مضر اثرات سے انکار کیا۔ ان کے خیال میں اب تک کوئی ایسا مستقل یا قابل بھروسہ سائنسی ثبوت نہیں ملا جو موبائل فونز سے نکلنے والی ریڈیو فریکوئنسی سے صحت کے مسائل پیدا کرنے کے حق میں ہو۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت موبائل فون سے چھٹکارا پانا تو مشکل ہے لیکن کچھ اقدامات کی مدد سے آپ اپنے موبائل فون کا استعمال محدود کر سکتے ہیں اور اس کے تابکاری کے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔

    جب استعمال نہ کر رہے ہوں تو فون کا وائی فائی اور بلیو ٹوتھ بند کر دیں۔

    فون کو جسم سے کم از کم 10 انچ کے فاصلے پر رکھیں۔ اگر جیب میں رکھنا مجبوری ہو تو اسے ایئر پلین موڈ پر رکھیں۔

    کالز کے لیے ہیڈ فونز یا اسپیکر فون کا استعمال کریں۔

    سوتے ہوئے اپنا فون دوسرے کمرے میں رکھیں۔

    سگنل کمزور آرہے ہوں تو فون استعمال نہ کریں۔

  • کپڑے دھوتے ہوئے یہ غلطیاں خطرناک انفیکشن میں مبتلا کرسکتی ہیں

    کپڑے دھوتے ہوئے یہ غلطیاں خطرناک انفیکشن میں مبتلا کرسکتی ہیں

    کپڑے دھونا گھروں کی ایک عام روٹین ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ کپڑے دھوتے یا خشک کرتے وقت ہم بہت سی عام غلطیاں بھی کرتے ہیں جن کا جلد پر براہ راست منفی اثر پڑتا ہے۔

    ایک بین الاقوامی ویب سائٹ نے جلد اور صحت کو پہنچنے والے نقصانات سے بچنے کے لیے کپڑے دھونے اور خشک کرنے میں عام غلطیوں پر ماہرین کے مشوروں کی ایک رپورٹ شائع کی ہے، وہ غلطیاں کچھ یہ ہیں۔

    صابن کا بہت زیادہ استعمال کرنا

    کپڑے دھوتے وقت جب آپ ضرورت سے زیادہ صابن استعمال کرتے ہیں تو اس کی بقایا جات کپڑوں میں رہ جاتی ہیں جو پہننے کے بعد جلد کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں، اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو جلد میں زخم بھی بن سکتے ہیں۔

    کپڑوں کو اچھی طرح خشک نہ کرنا

    بعض اوقات جب کپڑے مکمل طور پر خشک نہیں ہوتے ہیں تو کپڑوں میں فنگس پیدا ہونے کی وجہ سے انفیکشن ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کپڑوں کو لکڑی کی الماری میں رکھنے سے بدبو اور کئی اقسام کے بیکٹیریا بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔

    مریضوں کے کپڑے ٹھنڈے پانی میں دھونا

    مریضوں کے کپڑے الگ سے دھونے چاہئیں اور اس کے لیے گرم پانی کا استعمال کیا جانا چاہیئے تاکہ ان کپڑوں میں موجود جراثیم کسی ایسے شخص کو منتقل نہ ہوں جو مریض سے براہ راست نہیں ملتا۔

    مریض کے کپڑے ایک سے زیادہ بار دھونے چاہئیں اور خشک کرنے کے بعد کسی صاف الماری میں الگ رکھنے چاہئیں۔

    کپڑوں کو دھونے کے بعد نچوڑنے میں سستی کرنا

    اپنی صحت کی حفاظت کے لیے کپڑوں کو دھونے کے بعد اچھی طرح نچوڑنا چاہیئے کیونکہ صابن وغیرہ کپڑوں سے صرف داغ اور گندگی کو دور کرتے ہیں، بیکٹیریا کو ختم نہیں کرتے۔

    ماہرین جراثیم کے خاتمے کے لیے کپڑے دھونے کے بعد انہیں اچھی طرح نچوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

    کپڑوں کو گھر کے اندر خشک کرنا

    سب سے عام غلطی کپڑے گھر کے اندر خشک کرنا ہے، کپڑوں کو براہ راست سورج کی روشنی میں خشک کرنا چاہیئے، آپ کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیئے کہ کپڑے جیسے ہی خشک ہوں ان کے رنگ کو محفوظ رکھنے کے لیے دھوپ سے نکال لیں۔

    سورج کی روشنی بیکٹیریا کو ختم کرنے اور گیلے کپڑوں کی بو سے نجات دلانے میں بہت مدد کرتی ہے۔

    چند اہم مشورے

    ماہر امراض جلد ڈاکٹر نیویڈیتا دادو کہتی ہیں کہ کپڑوں میں صابن کی باقیات اور کپڑے دھونے اور خشک کرنے میں دیگر غلطیاں جلد میں شدید انفیکشن کا سبب بن سکتی ہیں، لہٰذا جن لوگوں کو الرجی جیسے مسائل ہوں انہیں ان غلطیوں سے بچنا چاہیئے۔

    ماہرین نے وارننگ دی ہے کہ گیلے یا اچھی طرح خشک نہ کیے ہوئے کپڑے پہننے سے پیشاب کی نالی میں بھی انفیکشن ہو سکتا ہے، علاوہ ازیں دھوپ میں خشک نہ کیے گئے کپڑوں کے جراثیم مریضوں کے مدافعتی نظام کو کمزور کرسکتے ہیں، بعض حالات میں یہ بیکٹیریا پھیپھڑوں میں مہلک انفیکشن کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔

  • خون کا عطیہ: لینے والے کی ضرورت، دینے والے کے لیے نعمت

    خون کا عطیہ: لینے والے کی ضرورت، دینے والے کے لیے نعمت

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خون کے عطیے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں ہر سال سینکڑوں مریض بر وقت خون فراہم نہ ہونے کے سبب دم توڑ جاتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے تحت دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو خون کے عطیات دینے کا دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں خون کا عطیہ دینے کا مثبت رجحان بڑھے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے 2005 میں 58 ویں ہیلتھ اسمبلی کے موقع پر کیا جس کا مقصد محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانا تھا۔

    یہ دن کارل لینڈ اسٹینر کی سالگرہ (14 جون 1868) سے بھی منسوب ہے جنہوں نے ’اے بی او بلڈ گروپ سسٹم‘ ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے آج بھی خون انتہائی محفوظ طریقے سے منتقل کیا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کا عنوان ہے، خون دیں تاکہ دنیا دھڑکتی رہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10 کروڑ سے زائد افراد خون کا عطیہ دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے خون عطیہ کرنے سے انسان تندرست اور بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خون کا عطیہ دینے سے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے، خون کی روانی میں بہتری آتی ہے، دل کے امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے اور فاضل کیلوریز جسم سے زائل ہوتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دنیا بھر کے ان تھیلیسمیا مریضوں کے لیے بھی زندگی کی نوید ہے جنہیں ہر کچھ عرصے بعد خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 10 ہزار میں سے 4 سے 5 بچے تھیلیسمیا میجر یا مائنر کا شکار ہوتے ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ عطیہ کنندہ کے خون کی باقاعدگی سے جانچ مفت ہوتی رہتی ہے اور دیگر افراد کی نسبت اسے مہلک بیماریوں اور ان سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی ملتی رہتی ہے۔

    خون کا عطیہ دیتے ہوئے مندرجہ ذیل ہدایات کو یاد رکھنا چاہیئے۔

    خون کا عطیہ 16 سے 60 سال تک کی عمر کے افراد دے سکتے ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے سے پہلے وافر مقدار میں پانی پینا از حد ضروری ہے۔

    عطیہ دینے سے قبل مناسب ناشتہ لازمی کیجئے تاکہ آپ کے خون میں شوگر کا تناسب برقرار رہے۔

    خون کا عطیہ دینے سے 24 گھنٹے قبل احتیاطاً سگریٹ نوشی ترک کر دیں۔

    اگر آپ باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیتے ہیں تو اپنی مقررہ تاریخ سے 2 ہفتے قبل اپنی خوراک میں آئرن کی حامل اشیا کا اضافہ کردیں جن میں انڈے، گوشت، پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    خون دینے سے 24 گھنٹے قبل فربہ کرنے والی غذائیں خصوصاً فاسٹ فوڈ کھانے سے گریز کریں۔

    اگر خون دینے کے دوران آپ کو ہاتھوں یا پیروں میں سردی محسوس ہو تو فوری کمبل طلب کرلیں۔

    یاد رکھیں اگر آپ شراب نوشی کرتے ہیں تو آخری مرتبہ شراب کے استعمال کے بعد اگلے 48 گھنٹے تک آپ خون کاعطیہ نہیں دے سکتے۔

    خون عطیہ کرنے کے بعد چند منٹ بستر پر لیٹے رہیں اور اس دوران ہلکی غذا یا جوس لیں، عموماً یہ اشیا ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد پہلی خوراک بھرپور لیں جس میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو، عموماً مرغی یا گائے کا گوشت اس سلسلے میں بہترین ہے۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد کم سے کم 3 گھنٹے تک سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔

    کم سے کم ایک دن تک بھاری وزن اٹھانے اور ایکسر سائز سے گریز کریں۔

  • مرچ مصالحے والی غذائیں فائدہ مند یا نقصان دہ؟

    مرچ مصالحے والی غذائیں فائدہ مند یا نقصان دہ؟

    مرچ مصالحے سے بھرپور غذاؤں کو صحت کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا تھا تاہم اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک تحقیق میں حیرت انگیز انکشاف ہوا ہے۔

    حال ہی میں امریکا کی پین اسٹیٹ یونیورسٹی اور کلیمسن یونیورسٹی کی جانب سے الگ الگ 2 تحقیقی رپورٹس میں غذا میں مرچ مسالے کے استعمال سے دل کی شریانوں پر مرتب مثبت اثرات پر روشنی ڈالی گئی۔

    ایک تحیق میں دریافت کیا گیا کہ غذا میں مرچ مصالحہ شامل کرنا امراض قلب کے خطرے سے دو چار افراد میں بلڈ پریشر میں کمی لانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ دوسری تحقیق میں ان کا استعمال ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں میں کولیسٹرول میں کمی لانے میں مدد گار قرار دیا گیا۔

    پین اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق میں غذا میں مرچ مصالحے کے اضافے سے کارڈیو میٹابولک اثرات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ یہ اضافہ بلڈ پریشر میں کمی لانے کے لیے مفید ہوتا ہے جو امراض قلب کا باعث بننے والے ایک اہم ترین عنصر ہے۔

    اس تحقیق میں 71 افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان پر تجربات کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ زیادہ مرچوں والی غذا کھانے والے افراد میں اگلے 24 گھنٹے کے دوران بلڈ پریشر کی سطح میں کمی آئی تاہم بلڈ شوگر یا کولیسٹرول کی سطح میں کوئی فرق نہیں آیا۔

    دوسری تحقیق میں مصالحے کے سپلیمنٹس اور ذیابیطس کے مریضوں میں بلڈ کولیسٹرول کی سطح میں کمی کو دریافت کیا گیا۔ اس تحقیق میں 28 افراد کو کنٹرول ٹرائل کا حصہ بنایا گیا تھا جو ذیابیطس ٹائپ 2 کے شکار تھے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ مرچ مصالحے کے طبی اثرات کو واضح طور پر جانا جاسکے، تاہم شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ ان کا استعمال فائدہ ہی پہنچاتا ہے۔

  • کافی پینے سے بینائی کو خطرہ؟

    کافی پینے سے بینائی کو خطرہ؟

    ہم میں سے تقریباً ہر شخص کافی پیتا ہے لیکن اب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ وہ افراد جن کے خاندان میں موتیا موجود ہو، وہ کافی کا استعمال کم کردیں۔

    بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ خوراک اور جینیاتی ردعمل کے نتیجے میں گلوکوما (کالا موتیا) کی بیماری لاحق ہوسکتی ہے اور آنکھوں پر پڑنے والے اس دباؤ کے نتیجے میں بینائی متاثر ہوسکتی ہے۔

    ایچن اسکول آف میڈیسن ماؤنٹ سینائی نیویارک میں کی گئی اس تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وہ مریض جن کے خاندان میں موتیا کی ہسٹری ہو، یعنی جینیاتی طور پر گلوکوما کی بیماری خاندان سے منتقل ہونے کا خدشہ ہو انہیں کیفین والے مشروبات کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

    محققین کے مطابق کیفین کے استعمال سے ان میں نابینا پن کے خطرات تین گنا تک بڑھ سکتے ہیں۔

  • یہ علامات برین ٹیومر کی نشانی ہوسکتی ہیں

    یہ علامات برین ٹیومر کی نشانی ہوسکتی ہیں

    دنیا بھر میں آج دماغ کی رسولی یا برین ٹیومر اور اس سے بچاؤ سے متعلق آگاہی کے لیے برین ٹیومر کا دن منایا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر 1 لاکھ میں 2 سے 3 افراد برین ٹیومر کا شکار بن سکتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق برین ٹیومر کا شکار خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ دماغی رسولی کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے اور سنہ 2035 تک اس مرض کا شکار افراد کی تعداد ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

    ماہرین کے مطابق اب تک دماغی رسولی بننے کی واضح وجوہات طے نہیں کی جاسکی ہیں تاہم بہت سے بیرونی و جینیاتی عوامل اس مرض کو جنم دے سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ دماغ میں رسولی بننے کی سب سے اہم وجہ بچپن میں تابکار شعاعوں میں وقت گزارنا ہے جو آگے چل کر برین ٹیومر کو جنم دے سکتا ہے۔

    اس ضمن میں موبائل فون ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جن کا مستقل اور حد سے زیادہ استعمال اور ان سے نکلنے والی شعاعیں دماغ پر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے۔

    بدقسمتی سے اس کی تشخیص اس وقت ہوتی ہے جب یہ ناقابل علاج بن چکا ہوتا ہے، البتہ اس سے جڑی چند علامتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے تو ابتدائی مرحلے میں ہی اس کا علاج ہوسکتا ہے۔

    برین ٹیومر کی ابتدائی علامات

    سر درد

    سر درد کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اگر چند اور علامات کے ساتھ مسلسل سر درد رہے تو یہ برین ٹیومر کی نشانی ہو سکتی ہے چنانچہ فوری طور پر ٹیسٹ کروا کے تسلی کر لینی چاہیئے۔

    بے ہوشی کے دورے

    اگر اچانک اور بغیر کسی وجہ کے غشی کے دورے پڑتے ہوں یا بے ہوشی جیسی حالت ہو جاتی ہو تو یہ بھی برین ٹیومر کی نشانی ہوسکتی ہے، ایسے میں فوری طور پر کسی اچھے نیورولوجسٹ سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔

    چکھنے اور سونگھنے کی حس میں کمی

    اچانک سے چکھنے، سونگھنے اور بھوک لگنے کی حس کا ختم ہوجانا بھی برین ٹیومر کی نشانی ہو سکتی ہے۔

    قوت سماعت و بصارت میں کمی

    بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اگر سننے یا دیکھنے میں دقت محسوس ہو یا کلی طور پر سماعت و بصارت چلی جائے تو اس کی ایک وجہ برین ٹیومر بھی ہو سکتی ہے۔

    ایسی صورت میں برین ٹیومر دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچاتا ہے جو سماعت اور بصارت کو کنٹرول کرتے ہیں اور ٹیومر کے باعث اپنا کردار ادا کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔

    چہل قدمی یا توازن برقرار رکھنے میں دقت

    اگر مریض چلنے میں دقت محسوس کرے یا کھڑے کھڑے توازن برقرار نہ رکھ سکے تو یہ بھی دماغی رسولی کی نشانی ہے۔

    بولنے میں تکلیف کا سامنا

    برین ٹیومر کے اثرات دماغ کے ان حصوں پر ہوجائیں جو قوت گویائی کے لیے مخصوص ہوں تو ایسے میں مریض کی قوت گویائی ختم ہو جاتی ہے، وہ الفاظ کی ادائیگی میں مشکل محسوس کرتا ہے اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔

    فالج کے اثرات

    چہرے کے ایک حصے کا بے حس ہوجانا یا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کا حرکت نہ کرنا فالج کی علامات ہیں اور فالج کی وجہ برین ٹیومر کا ہونا بھی ہو سکتا ہے، اس لیے فالج کو بھی برین ٹیومر کی ایک علامت قرار دیا جاتا ہے۔

    ڈپریشن

    چوںکہ خوشی اور غم کے جذبات کا کنٹرول بھی دماغ کے مخصوص حصوں میں ہوتا ہے اس لیے برین ٹیومر مریض میں ڈپریشن کی علامات پیدا کرنے کا سبب بھی ہوسکتا ہے۔

    اوپر دی گئی علامات کسی اور مرض کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن بہتر ہے کہ ان علامتوں کے نمودار ہوتے ہی فوری طور پر اپنے معالج سے مشورہ کریں اور ضروری ٹیسٹ کروائیں تاکہ بروقت مرض کی تشخیص کی جا سکے۔

  • اپنے جگر کا خیال رکھنے کا دن

    اپنے جگر کا خیال رکھنے کا دن

    آج دنیا بھر میں جگر کی حفاظت اور صحت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے جگر کا عالمی دن منایا جارہا ہے، جگر ہمارے جسم کا دوسرا بڑا اور نظام ہاضمہ میں اہم کردار ادا کرنے والا عضو ہے۔ ہم جو بھی شے کھاتے ہیں، چاہے غذا ہو یا دوا، وہ ہمارے جگر سے گزرتی ہے۔

    اگر جگر کی صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ باآسانی خراب ہو کر ہمیں بہت سے امراض میں مبتلا کرسکتا ہے۔ جگر کا ایک عام مرض ہیپاٹائٹس ہے جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    اس اہم عضو کی اسی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے آج دنیا بھر میں جگر کا دن منایا جارہا ہے۔

    جگر کی خرابی کی علامات

    یہاں ہم آپ کو ان علامات کے بارے میں بتا رہے ہیں جو جگر کی خرابی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اگر آپ کو ان میں سے کسی بھی علامت کا سامنا ہے توآپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔

    وزن میں اچانک کمی

    بھوک ختم ہوجانا

    غنودگی، چکر آنا اور متلی کا احساس

    ہر وقت تھکاوٹ کا احساس

    پیٹ کے اوپری حصے میں تکلیف محسوس ہونا

    جگر کے امراض سے حفاظت

    جگر کو مختلف امراض اور مسائل سے بچانے کے لیے مندرجہ ذیل حفاظتی تدابیر اپنانے کی ضروت ہے۔

    صحت مندانہ طرز زندگی اپنایا جائے۔

    گوشت، پھل، سبزی، اور ڈیری غذائیں متوازن طریقے سے کھائی جائیں تاکہ جسم کی تمام غذائی ضروریات پوری ہوں۔

    خون کی منتقلی کے دوران نہایت احتیاط برتی جائے ورنہ یہ ہیپاٹائٹس کا سبب بن سکتا ہے۔

    جسمانی صفائی کا خیال رکھا جائے۔

    گھر سے دور ہوتے ہوئے نلکے کا پانی پینے سے گریز کیا جائے۔

    تمباکو نوشی، شراب نوشی اور دیگر اقسام کی منشیات سے گریز کیا جائے۔

    ورزش کو زندگی کا معمول بنایا جائے۔

  • آپ کی یہ عام عادت آپ کو موت کا شکار بنا سکتی ہے

    آپ کی یہ عام عادت آپ کو موت کا شکار بنا سکتی ہے

    دن کا زیادہ تر حصہ بیٹھ کر گزارنے کی عادت بے شمار امراض کا باعث بن سکتی ہے حتیٰ کہ یہ آپ کو موت کے منہ میں بھی دھکیل سکتی ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہ رہنا متعدد امراض بشمول امراض قلب، فالج، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس ٹائپ 2 اور متعدد اقسام کے کینسر اور قبل از وقت موت کا خطرہ بڑھانے والا عنصر ثابت ہوچکا ہے۔

    اس نئی تحقیق میں 168 ممالک کا سنہ 2016 کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور محققین نے دریافت کیا کہ سست طرز زندگی غیر متعدی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ ہر ہفتے ڈیڑھ سو منٹ سے بھی کم معتدل یا 75 منٹ کی سخت جسمانی سرگرمیوں کو سست طرز زندگی قرار دیا جاتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ امیر ممالک کے رہائشیوں میں سست طرز زندگی سے جڑے امراض کا خطرہ غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے مقابلے میں 2 گنا سے زیادہ ہے۔

    سنہ 2016 میں امیر ممالک میں جسمانی سرگرمیوں کی سطح متوسط ممالک کے مابلے میں دوگنا کم تھی تاہم متوسط ممالک میں سست طرز زندگی سے لوگوں کو زیادہ خطرے کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ وہاں کی آبادی زیادہ ہونا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں سست طرز زندگی کے نتیجے میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے 69 فیصد متوسط ممالک میں ہوئیں، اسی طرح غیرمتعدی امراض سے ہونے والی 80 فیصد اموات متوسط اور غریب ممالک میں ہوئیں۔

    اس طرز زندگی کے نتیجے میں سب سے زیادہ اموات لاطینی امریکا، کیرئیبین ممالک، ایشیا پیسیفک اور مغربی ممالک میں ہوئیں۔ اس کے مقابلے میں سب سے کم شرح سب صحارا افریقہ، اوشیانا، مشرقی اور جنوبی مشرقی ایشیا میں دیکھنے میں آئی۔

  • ذیابیطس کے کون سے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے؟

    ذیابیطس کے کون سے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے؟

    بیماریوں اور ان سے جڑے معاملات میں لوگوں میں مختلف قسم کے مفروضے پھیلے ہوتے ہیں، اور لوگ ان مفروضوں کو حقیقت سمجھ کر عمل کر رہے ہوتے ہیں، حالاں کہ ان میں سے اکثر درست نہیں ہوتے۔

    ایسا ہی ایک مفروضہ ذیابیطس کے مریضوں میں بھی عام ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے۔

    طبی ماہرین نے اس حوالے سے وضاحت کی ہے کہ بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خون دینے سے بلڈ شوگر لیول متاثر ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریض خون کا عطیہ دے سکتے ہیں، لیکن یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ان کا بلڈ شوگر لیول نارمل ہو، اور جو لوگ انسولین لگاتے ہیں وہ عطیہ نہیں دے سکتے، تاہم عام دوائیاں کھانے والے شوگر مریض خون عطیہ کر سکتے ہیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس میٹابولزم کا مرض ہے، اس سے مریض کا جسم متاثر ہوتا ہے، خون نہیں، یہ ذہن میں رہے کہ اگر مریض کو دل یا گردوں کی بیماری نہیں ہے تو وہ خون دے سکتا ہے۔

    ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہر صحت مند شخص کو خون کا عطیہ دینا چاہیے اور شوگر کے مریضوں کو اس سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔

    طبی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ خون دیتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، جیسا کہ آپ روزے سے نہ ہوں، آپ نے اچھی طرح کھانا کھایا ہو، اور عطیہ دینے سے قبل خون کا نمونہ دیں۔

    خون دیتے وقت کچھ لوگوں پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ خالی پیٹ نہ ہوں۔