Tag: صحت کی خبریں

  • آٹزم سے آگاہی کا دن: وہ بچے جنہیں معمول سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے

    آٹزم سے آگاہی کا دن: وہ بچے جنہیں معمول سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے

    آج دنیا بھر میں اعصابی خرابی آٹزم سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے، پاکستان میں آٹزم کے حوالے سے گزشتہ 10 سے 15 سال کے دوران شعور میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔

    آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

    پاکستان سینٹر فار آٹزم کی ڈائریکٹر ساجدہ علی نے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کے دوران بتایا کہ یہ نیورولوجیکل ڈس آرڈر یعنی اعصابی خرابی ہے، یہ پیدائشی ہوتی ہے اور تا عمر رہتی ہے۔

    ساجدہ علی کا کہنا ہے کہ آج کل یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اسمارٹ فون کے زیادہ استعمال کی وجہ سے بچوں میں یہ مرض پرورش پانے لگا ہے، اس خیال کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

    ان کے مطابق بچوں کے اندر اس خرابی کا 6 ماہ کے اندر بھی پتہ چل سکتا ہے کیونکہ 6 ماہ کا بچہ بھی آواز دینے پر متوجہ ہوتا ہے، مسکراتا ہے یا اس کی آنکھوں میں تاثرات ظاہر ہوتے ہیں، لیکن آٹزم کا شکار بچے کو کسی کی آواز پر متوجہ ہونے میں وقت لگتا ہے۔

    ساجدہ علی کے مطابق ایسے بچوں کو سوشل کمیونیکیشن میں بہت زیادہ پریشانی ہوسکتی ہے۔ وہ اپنی مطلوبہ شے کو یا تو خود حاصل کرنے کی کوشش کریں گے یا اس تک نہیں پہنچ سکیں گے تو رونا شروع کردیں گے، لیکن کہہ کر اپنی طلب کا اظہار نہیں کرسکیں گے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ اس خرابی میں 2 انتہائیں ہوسکتی ہیں، مشہور سائنسدان آئن اسٹائن بھی آٹزم کا شکار تھا اور وہ ایک انتہا پر تھا۔ ایک انتہا ایسے بچوں کے ذہنی طور پر بہت زیادہ فعال ہونے کی یا دوسرے لفظوں میں ذہین ہونے کی ہے، یا پھر ان میں کوئی خاص صلاحیت قدرتی طور پر موجود ہوسکتی ہے۔

    دوسری انتہا میں بچہ عام بچوں کی نسبت کند ذہن ہوسکتا ہے اور اسے کچھ نیا سیکھنے یا سمجھنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔

  • مرگی: وجوہات، علامات اور احتیاطی تدابیر

    مرگی: وجوہات، علامات اور احتیاطی تدابیر

    دنیا بھر میں آج یعنی 26 مارچ کو مرگی سے آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، مرگی ایک دماغی یا اعصابی خرابی ہے اور اس کیفیت میں دورے پڑتے ہیں۔

    مرگی سے آگاہی کے عالمی دن کو پرپل ڈے بھی کہا جاتا ہے، اس دن لوگ جامنی رنگ کا لباس پہنتے ہیں یا لوینڈر ربن کا استعمال کرتے ہیں۔

    لوینڈر پودے کو مرگی کے بارے میں شعور کا رنگ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ مرگی میں مبتلا افراد کے الگ تھلگ رہنے اور ان کی تنہائی کے غالب احساس کی نمائندگی کرتا ہے۔

    یہ دن سب سے پہلے سنہ 2008 میں منایا گیا جب کینیڈا کے صوبے نوا اسکوشیا سے تعلق رکھنے والی ایک 8 سالہ طالبہ کیسی ڈی میگن نے مرگی ایسوسی ایشن کی طرف سے منعقدہ پریزینٹیشن میں اپنی مرگی کی کیفیت کے بارے میں اپنے ساتھیوں کو بتایا۔

    اس بچی نے مرگی میں مبتلا مریضوں کو سپورٹ کرنے کے لیے پرپل ڈے منانے کا خیال پیش کیا، اب یہ دن مرگی کے بارے میں شعور پھیلانے کا ایک بین الاقوامی دن بن گیا ہے۔

    مرگی دراصل ایک دماغی یا اعصابی خرابی ہے، اس کیفیت میں دورے پڑتے ہیں جو دماغ کے فعل میں ایک عارضی برقی خلل یا کیمیائی تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے سارا جسم متاثر ہوتا ہے۔

    ایپی لپسی فاؤنڈیشن پاکستان کی صدر اور نیورولوجسٹ فوزیہ صدیقی اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ہمارا جسم ایک مشین کی طرح ہے اور دماغ اس کا مدر بورڈ ہے جس میں مختلف کنیکشنز موجود ہیں۔

    ان کے مطابق یہ بالکل کسی بجلی کے سوئچ بورڈ جیسا ہے، جس میں کبھی کوئی ایک کرنٹ ادھر سے ادھر ہوجائے تو مذکورہ کنیکشن جل بجھ ہونے لگتا ہے، اسی طرح دماغ کا کنیکشن بھی ادھر ادھر ہوجائے تو اس سے متصل جسم کا عضو جھٹکے لینے لگتا ہے، اس کے بعد جسم کا خود کار دفاعی نظام اسے شٹ ڈاؤن کردیتا ہے جس کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے۔

    علامات

    مرگی کے دورے کے دوران مریض کا بے ہوش ہونا، زبان کا دانتوں کے بیچ میں آجانا، ہاتھ پاؤں کا مڑ جانا یا اکڑ جانا، آنکھوں کی پتلیوں کا اوپر چڑھ جانا، منہ کا سختی سے بند ہوجانا عام ہے۔

    اس دورے کا دورانیہ 1 سے 2 منٹ کا ہوتا ہے اور اگر کسی مریض میں پانچ منٹ سے زیادہ یہ علامات برقرار رہیں تو اسے فوراً اسپتال لے جانا چاہیئے۔

    بچوں میں پائی جانے والی مرگی میں بچے کوئی بھی کام کرتے کرتے اچانک 10 سے 15 سیکنڈ کے لیے گم صم یا خاموش ہوجاتے ہیں۔

    مرگی کے کچھ مریض اچانک کھڑے کھڑے نیچے گر جاتے ہیں، اس میں سر پر چوٹ لگنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    دورے کے دوران دیگر افراد کو کیا کرنا چاہیئے؟

    یاد رکھیں، اگر آپ کسی کو مرگی کا دورہ پڑتے دیکھیں تو مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل کریں۔

    دورے کے دوران مریض کے منہ میں کپڑا نہیں ٹھونسنا چاہیئے، ایسے موقع پر اس کے گلے کے گرد اسکارف یا ٹائی کو ڈھیلا کردیں، اس کے ارد گرد سے نوکیلی اشیا دور ہٹا دیں تاکہ وہ زخمی نہ ہو، اور کروٹ کے بل لٹا دیں تاکہ زبان حلق میں نہ جائے۔

    مریض کے منہ میں کپڑا ٹھونسنے سے سانس رک سکتی ہے اور مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ مرگی کا دورہ 2 سے 3 منٹ پر مشتمل ہوتا ہے اس وقت کو گزر جانے دیں اور اسے روکنے کی کوشش نہ کریں، روکنے کی صورت میں یہ دورہ طویل ہوسکتا ہے۔ 2 سے 3 منٹ تک دورہ پڑنے کے بعد مریض بے ہوش ہوجاتا ہے اگر نہ ہو تو اسے فوری طور پر اسپتال کی ایمرجنسی میں لے کر جایا جائے۔

    مرگی کے مریضوں کو ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں اپنے ساتھ رکھنی چاہئیں اور ہاتھ پر بینڈ باندھنا چاہیئے جس پر ان کی بیماری کے بارے میں تحریر ہو اور بتایا گیا ہو کہ دورہ پڑنے کی صورت میں ان کے پاس موجود دوا انہیں کھلا دی جائے۔

    مرگی کے مریضوں کو اپنا طرز زندگی قدرتی رکھنا چاہیئے، رات کو دیر سے سونا، ذہنی دباؤ، گرم موسم، الکوحل کا استعمال، ٹیلی وژن اور کمپیوٹر کا زیادہ استعمال ان کی بیماری کو بڑھا سکتا ہے۔

    یاد رکھیں مرگی قابل علاج مرض ہے اور اس کا مریض معاشرے کے دیگر افراد کی طرح بھرپور زندگی گزارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

  • پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد میں ٹی بی کی تشخیص

    پاکستان میں ہر سال لاکھوں افراد میں ٹی بی کی تشخیص

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تپ دق یا ٹیوبر کلوسس (ٹی بی) سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، پاکستان میں ہر سال 4 لاکھ سے زائد افراد میں ٹی بی کی تشخیص ہوتی ہے۔

    ٹی بی ایک ایسا مرض ہے جو پھیپھڑوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور ہوا کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ 4 لاکھ 10 ہزار افراد ٹی بی کا شکار ہو جاتے ہیں، صرف 2 سے 3 سال میں یہ تعداد دگنی ہوچکی ہے جو سنہ 2017 میں 2 لاکھ تھی۔

    ٹی بی کے باعث موت کا شکار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے اور خواتین سمیت پاکستان میں ہر سال ٹی بی کے باعث 69 ہزار ہلاکتیں ہوتی ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ایک تہائی ٹی بی کے مریضوں میں مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی، یا وہ علاج کی سہولیات سے محروم ہیں۔

    سنہ 2018 میں دنیا کی 23 فیصد آبادی یعنی 1 ارب 70 کروڑ افراد ٹی بی کا شکار ہوئے، یہ مرض ہر سال 15 لاکھ افراد کی جان لے لیتا ہے۔

    بھارت اس مرض کا شکار دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، دنیا بھر میں ٹی بی کے 87 فیصد کیسز بھارت میں تشخیص ہوتے ہیں۔

    ٹی بی کیسے لاحق ہوسکتا ہے؟

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غربت، غذائی کمی، گندے گھروں میں رہنا اور صفائی کا انتظام نہ ہونا ٹی بی سمیت بہت سی بیماریوں کا آسان شکار بنا دیتا ہے۔

    اسی طرح پہلے سے مختلف امراض جیسے ایڈز یا ذیابیطس کا شکار ہونا، اور طویل عرصے تک تمباکو نوشی اور شراب نوشی کا استعمال بھی اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔

    ٹی بی کی علامات

    اگر آپ اپنے یا کسی اور کے اندر یہ علامات دیکھیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ یہ علامات ممکنہ طور پر ٹی بی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

    دو ہفتے سے زیادہ کھانسی یا بخار

    بہت زیادہ تھکاوٹ

    رات کو پسینہ آنا

    بھوک اور وزن کی کمی

    کھانسی میں خون آنا

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان علامات پر فوری توجہ دے کر ابتدائی مرحلے میں مرض کی تشخیص کی جاسکتی ہے۔

  • ایک عام عادت جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    ایک عام عادت جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    کینسر ایک عام مرض بنتا جارہا ہے اور حال ہی میں ماہرین نے اس سے بچنے کے لیے ایک عام عادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ صحت بخش غذا اور دیگر طبی مسائل جیسے فشار خون اور ذیابیطس کو کنٹرول میں رکھنا امراض قلب کے ساتھ ساتھ کینسر کا خطرہ بھی کم کرتا ہے۔

    میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور دیگر اداروں کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ امراض قلب کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 20 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا تھا اور آغاز میں ان میں کوئی بھی کینسر کا شکار نہیں تھا۔

    15 سال کے دوران 2 ہزار 548 افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی اور محققین نے دریافت کیا کہ امراض قلب کا باعث بننے والے روایتی عناصر جیسے عمر، جنس اور تمباکو نوشی، کینسر سے بھی متعلق ہے۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ دل پر دباؤ ڈالنے والے عناصر سے کینسر کا امکان بھی 40 فیصد بڑھ گیا، اس کے مقابلے میں دل کو صحت مند رکھنے والی عادات جیسے بلڈ پریشر، کولیسٹرول، بلڈ شوگر اور جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنا اور صحت بخش غذا کا استعمال کینسر کا خطرہ بھی کم کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کی شریانوں سے جڑے امراض اور کینسر کے درمیان تعلق براہ راست نہیں مگر ہماری عادات یا رویے اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل ہیں۔

    تحقیق میں موٹاپے اور سگریٹ نوشی کے نتیجے میں جسم میں دائمی ورم اور کینسر کے درمیان تعلق کو بھی دریافت کیا گیا۔

    ماہرین نے مزید کہا کہ پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال دل کی صحت کے لیے مفید ہوتا ہے جو کولیسٹرول کی سطح میں کمی کے ساتھ ورم سے لڑنے والے اجزا سے بھرپور ہوتے ہیں۔

  • مصروف ترین شیڈول میں خود کو فٹ رکھنے کا وقت کیسے نکالا جائے؟

    مصروف ترین شیڈول میں خود کو فٹ رکھنے کا وقت کیسے نکالا جائے؟

    آج کل کی مصروف زندگی میں ورزش اور فٹنس کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہوگیا ہے تاہم ہلکی پھلکی ورزش کے ساتھ کچھ چھوٹی چھوٹی سرگرمیاں کرتے رہنا انسان کو خوش اور فٹ رکھتا ہے۔

    ایک عراقی فٹنس کوچ ریچل ساسردوتی نے 6 آسان سی ٹپس بتائی ہیں جن پر عمل کر کے مصروف ترین شیڈول میں بھی خود کو فٹ رکھنا ممکن ہو سکتا ہے۔

    پرعزم رہیں

    خود کو صحت مند رکھنے کے سفر کا آغاز کرنے سے پہلے سب سے اہم اپنے آپ سے عزم کرنا ہے، جب آپ کسی بھی کام کا ارادہ کرتے ہیں تو اسے تکمیل تک پہنچانے کے لیے خود سے عزم کرتے ہیں۔

    خود کو جوابدہ سمجھیں

    اپنے کچھ قریبی افراد کو اپنے ارادوں کے بارے میں بتاتے رہنا ضروری ہے، انہیں آگاہ رکھنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ وہ آپ کی ہمت بندھاتے رہیں۔

    اپنی تصاویر کا ریکارڈ رکھیں

    اپنے آپ میں تبدیلی دیکھنا ہی ایک حوصلہ افزا بات ہے جو آپ کو یہ ہمت دیتی ہے کہ ثابت قدمی سے اپنا عمل جاری رکھیں۔ اپنی تصاویر کے ذریعے ایک ریکارڈ مرتب کیجیے۔ جب آپ کچھ دن بعد اپنا موازنہ ان تصاویر سے کریں گے تو آپ کو فرق نظر آئے گا جس سے آپ کو ورزش جاری رکھنے کی ترغیب ملے گی۔

    چھوٹے قدموں سے شروعات

    جب آپ ورزش یا واک شروع کریں تو ضروری نہیں کہ آپ خود پر زیادہ سے زیادہ ورزش کرنے اور واک کا دورانیہ بڑھانے کا دباؤ ڈالیں بلکہ پہلے کم وقت اور چھوٹے قدموں سے شروع کریں۔ پہلے دن کم وقت کی واک کریں تو کوئی حرج نہیں لیکن بعد میں آہستہ آہستہ اسے بڑھاتے رہیں۔

    کچھ نہ کچھ کریں

    خود کو یہ یاد دہانی کرواتے رہیں کہ کچھ نہ کرنے سے کچھ کر لینا ہمیشہ بہتر ہوتا ہے اور اس طرح آپ ناکامی کے احساس اور خوف سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔

    ورزش کا انتخاب سوچ سمجھ کر کریں

    اپنے لیے کسی بھی ورزش کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیجیے جس سے آپ لطف اندوز بھی ہو سکیں، یہ صرف مشقت نہیں ہونی چاہیئے۔

  • وہ نشانیاں جو صحت مند ہونے کی علامت ہیں

    وہ نشانیاں جو صحت مند ہونے کی علامت ہیں

    صحت کو دنیا کی سب سے بڑی دولت قرار دیا جاتا ہے، لیکن یہ کیسے جانا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص صحت مند ہے یا نہیں؟ یہاں وہ علامات بتائی جارہی ہیں جو کسی فرد کے صحت مند ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔

    سب سے پہلی نشانی ہے بھوک لگنے پر کھانا اور اعتدال میں کھانا، اگر آپ باہر کھانے کے عادی نہیں اور نہ ہی نفسیاتی طور پر کھانے کی لت کے شکار ہیں، تو یہ آپ کی صحت کے لیے اچھا ہے اور اس حوالے سے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔

    ہر شخص کی خوراک کی اپنی ضروریات ہیں، ایسا کوئی فارمولا نہیں جو یہ تخمینہ لگاسکے کہ آپ کو کتنی کیلوریز کی ضرورت ہے، یہ ہر ایک کی انفرادی ضرورت ہے۔ آپ بہت کم کھاسکتے ہیں یا بہت زیادہ، جو اکثر لوگ نارمل سمجھتے ہیں۔ سب سے اہم امر یہ ہے کہ اپنے جسم کی سنیں اور سمجھیں کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اگر ایسا کرپاتے ہیں تو اچھی صحت آپ کے ہاتھ میں ہی ہے۔

    اگر آپ لفٹ کی جگہ سیڑھیوں کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ اچھی جسمانی ساخت رکھتے ہیں، صحت مند سمجھنے کے لیے بہت زیادہ اسٹینما کی ضرورت نہیں، طبی ماہرین کے مطابق اگر آپ کسی بلند عمارت میں کچھ منزلوں پر سیڑھیاں بغیر وقفے کے چڑھ جاتے ہیں اور منزل پر پہنچنے پر ٹھیک ہوتے ہیں تو جسمانی طور پر آپ صحت مند ہیں، یا جسم روزمرہ کی جسمانی سرگرمیاں آرام سے سر انجام دے سکتا ہے۔

    اگر آپ مختلف جذبات کے حامل ہیں تو بھی آپ صحت مند ہیں، ایک تحقیق کے مطابق کبھی کبھار غصہ کرنا ایک عام چیز ہے، اداسی بھی نارمل ہے جبکہ چڑچڑا پن اور مایوسی محسوس کرنا بھی غیرمعمولی نہیں۔ یہ تمام جذبات اچھی ذہنی صحت کی نشانی ہیں۔

    ایک اور علامت یہ بھی ہے کہ بستر پر فوراً لیٹتے ہی نہ سویا جائے۔ طبی ماہرین کے مطابق سونے کے عام معمول میں 10 سے 20 منٹ لگتے ہیں کیونکہ اس کے دوران جسم پرسکون ہوتا ہے اور پھر نیند کی حالت میں چلا جاتا ہے۔

  • گردوں کا عالمی دن: گردوں کے امراض ہر سال 17 لاکھ اموات کی وجہ

    گردوں کا عالمی دن: گردوں کے امراض ہر سال 17 لاکھ اموات کی وجہ

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج گردوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر میں ہر سال 17 لاکھ سے زائد افراد گردوں کی مختلف بیماریوں کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

    گردوں کا عالمی دن منانے کا مقصد گردوں کے امراض اور ان کی حفاظت سے متعلق آگہی و شعور پیدا کرنا ہے۔ یہ دن ہر سال مارچ کی دوسری جمعرات کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 17 لاکھ اموات گردوں کے مختلف امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں اور یہ امراض موت کا چھٹا بڑا سبب بن چکے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گردوں کے امراض کا خدشہ مردوں سے زیادہ خواتین میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 19 کروڑ 50 لاکھ خواتین گردوں کے مختلف مسائل کا شکار ہیں۔

    دوسری جانب گردوں کے امراض میں مبتلا ڈائیلاسز کروانے والے مریضوں میں زیادہ تعداد خواتین کے بجائے مردوں کی ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گردوں کے امراض خواتین میں ماں بننے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں جبکہ یہ حمل اور پیدائش میں پیچیدگی اور نومولود بچے میں بھی مختلف مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔

    پاکستان میں بھی محکمہ صحت کے مطابق 1 کروڑ 70 لاکھ کے قریب افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں اور ایسے مریضوں کی تعداد میں سالانہ 15 سے 20 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

    پاکستان میں ہر سال 20 ہزار اموات گردوں کے مختلف امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق گردوں کے امراض سے بچنے کے لیے پانی کا زیادہ استعمال، سگریٹ نوشی اور موٹاپے سے بچنا ازحد ضروری ہے۔ خود سے دوائیں کھانا یعنی سیلف میڈیکیشن اور جنک فوڈ بھی گردوں کے امراض کی بڑی وجہ ہیں۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ خصوصاً گرمی میں گردوں کے مریضوں کو زیادہ پانی پینا چاہیئے تاکہ پیشاب میں پتھری بنانے والے اجزا کو خارج ہونے میں مدد ملتی رہے کیونکہ یہی رسوب دار اجزا کم پانی کی وجہ سے گردے میں جم کر پتھری کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔

  • خبردار! کولڈ ڈرنک پینے سے قبل یہ پڑھ لیں

    خبردار! کولڈ ڈرنک پینے سے قبل یہ پڑھ لیں

    سافٹ ڈرنک پینا ہماری معمول کا حصہ بن چکا ہے، ہم میں سے ہر شخص اکثر سافٹ ڈرنک پیتا دکھائی دیتا ہے اور بعض افراد تو اس کے اس قدر دیوانے ہوتے ہیں کہ روزانہ پیتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سافٹ ڈرنک کا ایک گلاس بھی ہمارے جسم کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    سافٹ ڈرنکس کے یوں تو بے حد نقصانات ہیں جن میں سب سے عام موٹاپا اور ذیابیطس ہے، اس کے علاوہ سافٹ ڈرنکس کے دیر سے ظاہر ہونے والے نقصانات اور بیماریوں کی بھی طویل فہرست ہے جس میں دانتوں اور ہڈیوں کو نقصان، جلدی امراض، امراض قلب، ڈپریشن، مرگی، متلی، دست، نظر کی کمزوری اور جلد پر خارش شامل ہیں۔

    تاہم ان خطرناک ڈرنکس کا ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ یہ کینسر کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

    متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں متعدد اقسام کے کینسر اور سافٹ ڈرنکس کے استعمال کے درمیان مضبوط تعلق کو دیکھا گیا، تحقیق کے مطابق ہفتے میں صرف دو سافٹ ڈرنکس ہی انسولین کی سطح بڑھا دیتے ہیں جس سے لبلبے کے کینسر کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔

    اسی طرح روزانہ ایک سافٹ ڈرنک کا استعمال مردوں میں مثانے کے کینسر کا خطرہ 40 فیصد تک بڑھا سکتا ہے جبکہ ڈیڑھ سافٹ ڈرنک کا روزانہ استعمال خواتین میں بریسٹ کینسر کے امکان میں اضافہ کردیتا ہے۔

    سافٹ ڈرنک میں شامل اجزا 6 اقسام کے کینسر پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، اور اس کے باعث ہونے والے کینسر میں پیٹ اور مثانے کا کینسر سب سے عام ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس زہر کو اپنی غذا سے دور رکھنا چاہیئے اور اس کی جگہ پانی، تازہ پھلوں کا جوس اور شیکس استعمال کرنے چاہئیں۔

  • نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کے لیے بری خبر

    نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں کے لیے بری خبر

    بعض افراد کے دفتری امور رات میں کام کرنے کا بھی تقاضہ کرتے ہیں جبکہ بعض افراد خود ہی سارا دن سو کر نائٹ شفٹ میں کام کرنا پسند کرتے ہیں، تاہم اب ایسے ہی افراد کو ماہرین نے بری خبر سنا دی۔

    حال ہی میں امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ رات کی شفٹ میں کام کرنے والے افراد میں کینسر کی مخصوص اقسام کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی ہیلتھ سائنسز کی تحقیق میں بتایا گیا کہ نائٹ شفٹ میں کام کرنے والے افراد میں کینسر کا خطرہ کیوں بڑھتا ہے، تحقیق کے دوران دن یا رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے صحت مند افراد کو شامل کرکے جانچ پڑتال کی گئی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ رات کو کام کرنے والے افراد کے جسموں کا 24 گھنٹوں کا قدرتی ردھم متاثر ہوتا ہے جس سے کینسر سے متعلق مخصوص جینز متحرک ہوجاتے ہیں۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ اس کے نتیجے میں ان افراد میں ڈی این اے کو نقصان پہنچنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ ڈی این اے کی مرمت کرنے والے میکنزمز اس نققصان کی تلافی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے شواہد مسلسل سامنے آرہے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ رات کی شفٹوں میں کام کرنے والے افراد میں کینسر کی شرح دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

    خیال رہے کہ ہمارے جسم کے اندر ایسی قدرتی حیاتیاتی گھڑی ہوتی ہے جو 24 گھنٹے کے دن اور رات کے دورانیے کے مطابق کام کرنے والے میکنزم سے لیس ہوتی ہے۔

    یعنی اس کی سرگرمیوں کی سطح دن یا رات میں مختلف ہوتی ہیں اور ماہرین کا خیال تھا کہ اس ردھم میں مداخلت کے نتیجے میں کینسر کا خطرہ بڑھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے 14 افراد پر مختلف شفٹوں کے تجربات سلیپ لیبارٹری میں ایک ہفتے تک کیے۔

    ان میں سے 50 فیصد کو 3 دن تک نائٹ شفٹ کا شیڈول دیا گیا جبکہ باقی کو 3 دن کے لیے ڈے شفٹ کا حصہ بنایا گیا۔

    ان کے اندر کی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کے لیے انہیں 24 گھنٹے تک جگائے رکھا گیا اور مسلسل روشنی اور کمرے کے درجہ حرارت میں رکھتے ہوئے ہر 3 گھنٹے بعد خون کا نمونہ لیا گیا۔

    ان نمونوں کے تجزیے میں دریافت ہوا کہ کینسر سے متعلق جینز کی سرگرمیاں نائٹ شفٹ میں کام کرنے والوں میں ڈے شفٹ کے افراد کے مقابلے میں مختلف تھیں۔ خاص طور پر ڈی این اے کی مرمت کرنے والے جینز کے افعال متاثر دریافت کیے گئے۔

    محققین نے پھر ان جینز کے افعال میں تبدیلیوں کے ممکنہ اثرات کو دیکھا اور دریافت کیا کہ ان میں مخصوص اقسام کے کینسر کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

  • سال 2021 میں آپ کو کون سی ورزش کرنی چاہیئے؟

    سال 2021 میں آپ کو کون سی ورزش کرنی چاہیئے؟

    طبی ماہرین نے سال 2021 کے لیے چند ورزشیں تجویز کی ہیں جو مشکل معلوم ہوتی ہیں لیکن وزن کم کرنے کے لیے بہت مؤثر ہوسکتی ہیں۔

    ماہرین کی جانب سے تجویز کردہ ہائی انٹینسٹی انٹر ویل ٹریننگ اور ورزشیں برپیز، اسکواٹس جمپس، پلانک جیکس، لنجز ود این اوبلیق ٹوئسٹ شامل ہیں جن کے ذریعے دنوں میں وزن میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

    برپیز

    برپیز ایک ایسی ورزش ہے جس کے دوران پورا جسم سینہ، پیٹ، ٹانگوں اور بازوؤں کے پٹھے ایک ساتھ متحرک ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں زیادہ کیلوریز کو جلنے میں مدد ملتی ہے۔

    اس ورزش کو کرنے کے لیے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور اپنے بازوؤں کو اوپر کی جانب سیدھا کر لیں، اب اسکواٹس یعنی بیٹھک کی پوزیشن میں آئیں اور اس کے بعد پلانک کی پوزیشن میں اپنے جسم کو بازوؤں اور پاؤں کی مدد سے زمین سے اوپر رکھیں، اب اپنے پاؤں کو موڑیں اور چھلانگ لگاتے ہوئے دوبارہ کھڑے ہو جائیں۔

    یہ ورزش روزانہ 10 منٹ تک دو حصوں میں کریں، ہر حصے میں 10 بار یہی عمل دہرائیں، برپیز کرنے کے بعد زیادہ سے زیادہ 5 منٹ کا وقفہ لیں، اس کے بعد اسکواٹس جمپ شروع کر دیں۔

    اسکواٹس جمپ

    اس ورزش کے لیے سیدھے کھڑے ہو جائیں اور ہاتھوں کو اوپر کی جانب سیدھا کرلیں، پاؤں کے درمیان 1 سے ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ رکھیں، اب چھلانگ لگاتے ہوئے نیچے کی جانب ایسے جائیں جیسے کسی کرسی پر بیٹھ رہے ہوں، اس عمل کو 10 منٹ میں 2 بار دہرائیں، ہر سیٹ میں 10 اسکواٹس ضرور کریں۔

    پلانک جیکس

    اس ورزش سے پیٹ کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں، چربی کو پگھلنے میں مدد ملتی ہے، عام پلانک ورزش کی طرح زمین پر الٹا لیٹ جائیں، اب اپنے ہاتھوں اور پاؤں کی مدد سے اپنا سارا جسم زمین سے اوپر اٹھالیں، ہاتھوں پر گرفت مضبوط رکھتے ہوئے اب جمپنگ جیکس کی طرح چھلانگ لگاتے ہوئے فاصلہ لائیں اور دوبارہ ٹانگوں کو ایک ساتھ ملا لیں، اس ورزش کو بھی 10 منٹ تک 2 سیٹ بنا کر کریں، ہر سیٹ میں کم از کم 20 پلانک جیکس ضرور لگائیں۔

    لنجز ود این اوبلیق ٹوئسٹ

    لنجز وِد این اوبلیق ٹوئسٹ ورزش براہ راست آپ کے پیٹ اور ٹانگوں کے پٹھوں کو متحرک کر کے انہیں سڈول شکل دیتی ہے، اس ورزش سے برداشت پیدا ہوتی ہے اور خود کو متوازن رکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

    اس ورزش کو کرنے سے پہلے اپنے پاؤں پر سیدھا کھڑے ہو جائیں اور آگے کی جانب ایک لمبا قدم بڑھائیں، اب پچھلی ٹانگ کے گھٹنے کے اوپر خود کو بیٹھنے میں مدد دیں، اور آگے والی ٹانگ کو موڑ لیں، اس کے بعد اپنے ہاتھوں کو آگے کی جانب سیدھا کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جانب ہلکی رفتار سے موڑیں۔

    اب سیدھا کھڑے ہو جائیں، اس بار جو ٹانگ پہلے پیچھے تھی اب آگے کی جانب رکھیں اور آگے والی ٹانگ کو پیچھے کی جانب، اگر اس ورزش کے دوران آپ کو گرنے کا ڈر ہو تو کسی کرسی کا سہارا بھی لے سکتے ہیں، اس ورزش کو بھی لگاتار 10 منٹ تک کریں۔

    ورزش دہرانے کے درمیان کم سے کم 20 سے 30 سیکنڈز کا وقفہ ضرور لیں۔