Tag: صحت کی خبریں

  • کھانے کے فوری بعد نہانے کے طبی نقصانات

    کھانے کے فوری بعد نہانے کے طبی نقصانات

    اکثر اوقات ہم اپنی زندگی میں ایسی عادتوں پر عمل پیرا ہوتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے لیے نقصان دہ ہیں۔ ایسی ہی ایک عادت کھانا کھانے کے فوراً بعد غسل کرنے کی ہے۔

    کھانا کھانے کے فوراً بعد غسل کرنے سے ہمارے بڑے اکثر ہمیں منع کیا کرتے ہیں، طبی سائنس نے بھی اسے نقصان دہ ثابت کردیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کھانا کھانے کے فوراً بعد نہانا ہاضمے میں مشکل پیدا کرسکتا ہے۔

    دراصل جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو معدے کے گرد دوران خون کی گردش بڑھ جاتی ہے جس سے کھانا آسانی سے ہضم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ہم کھانا کھانے کے فوراً بعد نہانے چلے جائیں گے تو خون کی روانی صرف معدے کے بجائے پورے جسم میں تیز ہوجائے گی اور یوں ہاضمے کا عمل رک جائے گا۔

    نہانے کے بعد ہمارے جسم کا درجہ حرارت بھی کم ہوجاتا ہے اور جب یہ درجہ حرارت اپنے معمول پر واپس آتا ہے تو ہاضمے کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے جسمانی اعضا خصوصاً دل کو خون پمپ کرنے کے لیے اضافی کام کرنا پڑتا ہے۔

    ہاضمے کا عمل رک جانے یا سست پڑجانے سے طبیعت میں بوجھل پن پیدا ہوسکتا ہے جبکہ تیزابیت بھی ہوسکتی ہے۔

    اس تمام عمل سے بچنے کے لیے ماہرین کی تجویز یہی ہے کہ کھانا کھانے کے بعد نہانے کے بجائے، نہانے کے بعد کھانا کھایا جائے جب جسم ہلکا پھلکا ہوتا ہے اور طبیعت تازہ دم ہوتی ہے۔

  • خوش رہنا چاہتے ہیں تو یہ ترکیب آزما لیں

    خوش رہنا چاہتے ہیں تو یہ ترکیب آزما لیں

    آج کل کی مصروف زندگی میں خوشی ایک نایاب شے بن گئی ہے، لیکن بہت کم لوگ اس چیز کو سمجھتے ہیں کہ ہماری غذا نہ صرف جسمانی اثرات مرتب کرتی ہے بلکہ ہماری نفسیات اور دماغ پر بھی اپنا اثر چھوڑتی ہے۔

    آسٹریلیا میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق زیادہ پھل اور سبزیاں کھانا نہ صرف آپ کو جسمانی طور پر صحت مند رکھتا ہے بلکہ آپ کو خوش بھی رکھتا ہے۔

    کوئنز لینڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی اس تحقیق سے پتہ چلا کہ سبزیاں اور پھل کھانا صرف طبی اور جسمانی طور پر ہی فائدہ مند نہیں بلکہ نفسیاتی طور پر بھی بہتری کا سبب بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے لیے 12 ہزار سے زائد افراد کو منتخب کیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ اپنے غذائی چارٹ کے ساتھ اپنی کیفیات کو بھی ڈائری میں لکھیں۔

    نتائج سے پتہ چلا کہ وہ افراد جنہوں نے اپنی غذا میں پھل اور سبزیاں استعمال کیے تھے ان کے اندر مسرت اور اطمینان کے احساسات زیادہ دیکھے گئے۔

    تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا کہ جن افراد نے 2 سال تک سبزیوں اور پھلوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنائے رکھا وہ جذباتی اور نفسیاتی طور پر زیادہ مستحکم ہوگئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سبزیاں اور پھل ہمارے جسمانی نظام کو صحت مند رکھتی ہیں اور دوران خون میں اضافہ کرتی ہیں جس سے ہمارا دماغ بھی ہلکا پھلکا رہتا ہے اور ہم اطمینان اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔

    اس کے برعکس جنک فوڈ ہمارے جسم میں چکنائی اور غیر معیاری اجزا کی مقدار میں اضافہ کردیتا ہے جبکہ دماغ پر بھی ناخوشگوار اثرات ڈال کر ہمیں ذہنی تناؤ میں مبتلا رکھتا ہے۔

  • الزائمر کی ابتدائی علامات کون سی ہیں؟

    الزائمر کی ابتدائی علامات کون سی ہیں؟

    الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو عموماً 60 سال سے زائد عمر کے افراد میں عام ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمر اموات کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں نیورولوجسٹ ڈاکٹر عبدالمالک نے شرکت کی اور اس مرض کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر مالک کا کہنا تھا کہ ڈیمینشیا یا نسیان بڑھاپے میں لاحق ہونے والا عام مرض ہے اور الزائمر اس کی ایک قسم ہے جو زیادہ خطرناک ہے، روٹین کے کاموں میں تبدیلی پیدا ہونا اور معمولی چیزوں کو بھول جانا ڈیمینشیا کی علامت ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ 60 سال کی عمر کے افراد کی آبادی میں 7 فیصد کو ڈیمینشیا کا خطرہ لاحق ہوتا ہے جبکہ 80 سال کے افراد میں یہ 15 فیصد تک ہوجاتا ہے۔

    ڈاکٹر مالک نے بتایا کہ ڈیمینشیا اور الزائمر کی ابتدائی علامات مشترک ہیں، جیسے معمولی چیزیں بھول جانا، روٹین کی عادات میں تبدیلی آنا، جیسے اگر کوئی شخص ساری زندگی ذاتی صفائی ستھرائی کا خیال رکھتا ہو اور اچانک وہ اس سے لاپرواہ ہوجائے تو یہ الارمنگ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض اوقات یادداشت کے مسائل غذائی بے قاعدگی سے بھی جڑے ہوتے ہیں جیسے وٹامن ڈی 12 کی کمی یادداشت کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے ایسی علامات کی صورت میں ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کیا جائے۔

    ڈاکٹر مالک کا مزید کہنا تھا کہ بزرگ افراد کا خیال رکھنے والوں کو اس حوالے سے آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے گھر میں موجود بزرگوں کو توجہ سے دیکھ بھال کرسکیں۔

  • کھانا کھانے کے بعد پیٹ پھولنے اور گیس کی شکایت کو کیسے کم کیا جائے؟

    کھانا کھانے کے بعد پیٹ پھولنے اور گیس کی شکایت کو کیسے کم کیا جائے؟

    کھانا کھانے کے بعد اکثر اوقات پیٹ پھولنے کی تکلیف اور گیس کا سامنا ہوتا ہے، اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے پہلے سے کوئی بیماری بھی کبھی کبھار پیٹ پھولنے کا باعث بن جاتی ہے۔

    حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ غذائی عادات میں کچھ تبدیلیوں سے اس مسئلے کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔

    سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کون سی غذائیں اس تکلیف کا سبب بنتی ہیں۔ کاربو ہائیڈریٹس، چکنائی اور پروٹینز پیٹ پھولنے کا باعث بن سکتے ہیں، تاہم کچھ غذائیں اس مسئلے کو زیادہ بدترین بنا دیتی ہیں، ایسی عام غذاؤں میں سیب، بیج، گوبھی، دودھ کی مصنوعات، آڑو اور ناشپاتی قابل ذکر ہیں۔

    ان غذاؤں کا کم استعمال اس تکلیف میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔

    غذا میں فائبر کی مقدار پر نظر رکھیں، فائبر والی غذائیں جیسے اجناس، بیج اور دالیں پیٹ پھولنے اور گیس کا باعث بن سکتی ہیں، ویسے تو یہ غذذائیں صحت کے لیے مفید ہوتی ہیں تاہم کچھ افراد کو زیادہ فائبر پیٹ پھولنے کے مسئلے کا شکار بنا سکتا ہے۔

    فائبر صحت بخش غذا کا اہم حصہ ہے، مگر بتدریج غذا میں اس کی مقدار بڑھانی چاہیئے۔

    غذا میں زیادہ نمک طویل العیاد بنیادوں پر متعدد امراض بشمول ہائی بلڈ پریشر کا شکار بناسکتا ہے، زیادہ نمک کا استعمال جو بہت مختصر عرصے میں سامنے آجاتا ہے پیٹ پھولنا ہے۔

    چربی والی غذاؤں سے بھی گریز کریں، بہت زیادہ چربی والی غذاؤں کو ہضم کرنے کے لیے جسم کو زیادہ وقت لگتا ہے اور یہ غذائی نالی سے سست روی سے گزرتی ہیں، جس کے نتیجے میں پیٹ پھول سکتا ہے۔

    میٹھے مشروبات کی مقدار کم کریں، سافٹ ڈرنکس جیسے کاربونیٹڈ واٹر اور سوڈا بھی پیٹ پھولنے کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں، کیونکہ ان مشروبات کو پینے سے جسم میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس جمع ہونے لگتی ہے، جو پیٹ پھولنے کا باعث بنتی ہے۔

  • ہمارے روزمرہ کے استعمال میں موجود وہ اشیا جو جگر کی خرابی کا سبب بن سکتی ہیں

    ہمارے روزمرہ کے استعمال میں موجود وہ اشیا جو جگر کی خرابی کا سبب بن سکتی ہیں

    جگر ہمارے جسم کا اہم ترین، دوسرا بڑا اور نظام ہاضمہ میں اہم کردار ادا کرنے والا عضو ہے۔ ہم جو بھی شے کھاتے ہیں، چاہے غذا ہو یا دوا، وہ ہمارے جگر سے گزرتی ہے۔

    جگر غذا کو ہضم ہونے، توانائی کے ذخیرے اور زہریلے مواد کو نکالنے کا کام کرتا ہے، تاہم مختلف عادات یا وقت گزرنے کے ساتھ جگر کو مختلف امراض کا سامنا ہوسکتا ہے اور مختلف وائرسز جیسے ہیپاٹائٹس اے، بی اور سی سمیت دیگر جان لیوا بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    یہاں یہ بات جاننی ضروری ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں بظاہر عام سی چیزیں جگر کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ چیزیں مندرجہ ذیل ہیں۔

    میٹھے کا استعمال

    بہت زیادہ میٹھا کھانے کا شوق جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے جبکہ ذیابیطس اور دیگر امراض کا خطرہ بھی الگ بڑھتا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ جگر کا کام ہی شکر کو چربی میں بدلنا ہے، اگر خوراک میں چینی کی مقدار بہت زیادہ ہوگی تو جگر بہت زیادہ چربی بنانے لگے گا جو کہ جگر کے امراض کا باعث بن جاتا ہے۔

    سپلیمنٹس کا استعمال

    ایک تحقیق کے مطابق ہربل سپلیمنٹس جگر کے افعال کو متاثر کر سکتے ہیں، جس سے ہیپاٹائٹس اور جگر کی خرابی کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، ان سپلیمنٹس کا استعمال کرنا ہو تو پہلے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کریں۔

    علاوہ ازیں ہمارے جسم کو درکار وٹامن اے تازہ پھلوں اور سبزیوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے، تاہم اگر اس کے لیے سپلیمنٹس کا استعمال کیا جائے تو بھی مشکل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    موٹاپا

    جگر میں اضافی چربی کا ذخیرہ جگر پر چربی چڑھنے کے عارضے کا باعث بنتا ہے، اس کے نتیجے میں جگر سوجن کا شکار ہوتا ہے۔

    وقت کے ساتھ جگر سخت ہونے لگتا ہے اور ٹشوز میں خراشیں پڑسکتی ہیں، زیادہ جسمانی وزن یا موٹاپے کے شکار افراد، درمیانی عمر کے افراد یا ذیابیطس کے مریضوں میں یہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے، تاہم اس کی روک تھام کے لیے صحت بخش غذا اور ورزش سے مدد لی جاسکتی ہے۔

    سافٹ ڈرنکس

    ایک تحقیق میں کہا گیا کہ جو لوگ بہت زیادہ میٹھے مشروبات اور سافٹ ڈرنکس کا استعمال کرتے ہیں، ان میں جگر پر چربی چڑھنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    درد کش ادویات

    درد کش ادویات کی زیادہ مقدار بھی جگر کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔

  • خواتین میں آئرن کی کمی کی علامات کون سی ہیں؟

    خواتین میں آئرن کی کمی کی علامات کون سی ہیں؟

    ہمارے جسم میں موجود معدنیات کی مناسب مقدار جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے ضروری ہے، ان کی کمی یا زیادتی پیچیدہ طبی مسائل کا سبب بن سکتی ہے، انہی میں سے ایک آئرن بھی ہے۔

    آئرن جسم میں کئی اہم کام سر انجام دیتا ہے، اس کے ذریعے جسم کو آکسیجن کی منتقلی ہوتی ہے اور پٹھوں کی نقل و حرکت ہوتی ہے، جسم میں خون کی کمی کی سب سے بڑی وجہ آئرن کی کمی ہوتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 33 فیصد غیر حاملہ خواتین، 40 فیصد حاملہ خواتین اور 42 فیصد بچے آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق آئرن کی کمی بالغ افراد پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے، جیسے تھکاوٹ، ناقص جسمانی کارکردگی، کام میں عدم دلچسپی وغیرہ۔

    حاملہ خواتین میں آئرن کی کمی کی وجہ سے ہیمو گلوبن، وزن اور حمل کی مدت میں کمی ہو سکتی ہے۔

    ڈائٹ آف ٹاؤن کلینک سے تعلق رکھنے والی ماہر غذا عبیر ابو رجیلی نے خواتین میں آئرن کی کمی کی علامت کے بارے میں بتایا ہے۔

    تھکاوٹ

    اگر آپ انتہائی تھکاوٹ کے ساتھ موڈ کی خرابی اور کمزوری محسوس کرتی ہیں، جس سے آپ کو سوچ بچار میں مشکل پیش آتی ہے اور جسمانی سرگرمیاں بھی نہ ہونے کے برابر ہیں تو آپ آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔

    آنکھوں کے گرد حلقے

    آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ہونا خون میں آئرن کی کمی کی علامت ہے، اگر آپ اس مشکل کا شکار ہیں تو آپ کو ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیئے۔

    چکر آنا اور سر درد

    جسم میں آئرن کی کمی سر درد اور جسم میں درد کا سبب بنتی ہے لیکن یہ اتنا عام نہیں جتنی دوسری علامات ہیں۔

    دل کی دھڑکن میں تیزی

    دل کی دھڑکن میں تیزی جسم میں آئرن اور خون کی کمی کی سب سے عام علامات میں سے ایک ہے، کیونکہ ہیمو گلوبن کی کمی آکسیجن کی کمی کا سبب بنتی ہے۔

    سانس لینے میں دشواری

    جب ہیمو گلوبن کی سطح جو پورے جسم کو آکسیجن فراہم کرتی ہے، کم ہوجاتی ہے تو اس سے چلنے یا کسی بھی سرگرمی کے وقت تھکاوٹ اور سانس میں رکاوٹ کا احساس ہوتا ہے، اس کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے جسم میں پٹھوں کو کام کرنے کے لیے مطلوبہ آکسیجن نہیں مل رہی ہے۔

    آئرن کی کمی کی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کریں اور اس کی ہدایات کے مطابق دوا و غذا کاا ستعمال کریں۔

  • ہماری روزمرہ کی غذا میں شامل وہ چیز جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    ہماری روزمرہ کی غذا میں شامل وہ چیز جو کینسر سے بچا سکتی ہے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک متوازن خوراک ہمیں تمام طبی مسائل سے بچا سکتی ہے اور ہم صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ دودھ سے بنی مصنوعات کینسر سے تحفظ دے سکتی ہیں۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ دودھ سے بنی مصنوعات کا روزانہ استعمال آنتوں کے کینسر کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرسکتا ہے۔ طبی جریدے بی ایم جے میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ دودھ یا اس سے بنی مصنوعات کا روزانہ استعمال آنتوں کے کینسر کا خطرہ 19 فیصد تک کم کر سکتا ہے۔

    آنتوں کا کینسر، پھیپھڑوں، بریسٹ اور مثانے کے سرطان کے ساتھ دنیا میں سب سے عام کینسر کی قسم ہے، جس سے ہر سال لاکھوں اموات ہوتی ہیں۔

    اس تحقیق کے دوران 80 کلینیکل ٹرائلز اور مشاہداتی تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کر کے دیکھا گیا کہ مختلف غذائیں اور ادویات کس حد تک آنتوں کے کینسر کے خطرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ پھلوں، فائبر اور سبزیوں کا بہت زیادہ استعمال اس بیماری سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہے مگر دودھ سے بنی مصنوعات بھی اس حوالے سے کردار ادا کر سکتی ہیں۔

    دودھ اور اس سے بنی مصنوعات کے استعمال کے اثرات اور کینسر کی تشخیص کے حوالے سے متضاد رپورٹس سامنے آئی ہیں مگر نئی تحقیق میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ یہ جان لیوا بیماری سے بچاؤ کے لیے مفید ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹھوس طور پر یہ بتانا مشکل ہے کہ دودھ یا اس سے بنی مصنوعات کی کتنی مقدار اس بیماری سے بچا سکتی ہے، کیونکہ ان کی متعدد مصںوعات دستیاب ہیں اور کئی بار تحقیقی رپورٹس کے نتائج بھی متضاد ہوتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پھلوں، سبزیوں اور فائبر کا زیادہ استعمال زیادہ مؤثر ہوتا ہے جس سے آنتوں کے کینسر کا خطرہ 50 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے، اس کے مقابلے میں سرخ اور پراسیس گوشت کا بہت زیادہ استعمال اس کینسر کا خطرہ 20 فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔

  • بچوں کے ٹچ اسکرین استعمال کرنے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    بچوں کے ٹچ اسکرین استعمال کرنے کا ایک اور نقصان سامنے آگیا

    آج کل کے بچے اپنا زیادہ تر وقت مختلف اسکرینز کے سامنے گزارتے ہیں، اس کے بے شمار نقصانات کے ساتھ ایک نقصان یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹچ اسکرین استعمال کرنے والے بچوں میں توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی لندن یونیورسٹی، کنگز کالج لندن اور باتھ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں کہا گیا کہ جب بچے زیادہ وقت ٹچ اسکرین ڈیوائسز کے ساتھ گزارتے ہیں، تو ان میں ڈیوائسز سے دور رہنے والے بچوں کے مقابلے میں کسی کام کے دوران دھیان بھٹکنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے نتائج سے بچوں کی نشوونما پر اسکرین پر گزارے جانے والے وقت کے اثرات کی اہمیت سامنے آتی ہے، خاص طور پر کووڈ 19 کی وبا کے دوران بچوں میں ٹچ اسکرین ڈیوائسز کا استعمال زیادہ بڑھ گیا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے 12 ماہ کے بچوں میں ٹچ اسکرین ڈیوائسز کے مختلف دورانیے کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔ تحقیق میں ان بچوں کا جائزہ ڈھائی سال تک لیا گیا اور انہیں لیبارٹری میں 3 بار یعنی پہلے 12 ماہ، پھر 18 ماہ اور آخری بار ساڑھے 3 سال کی عمر میں بلایا گیا۔

    ہر بار ان بچوں کی توجہ کو جانچنے کے لیے کمپیوٹر ٹاسکس میں ایک آئی ٹریکر کو استعمال کیا گیا۔

    ان ٹاسکس میں اشیا اسکرین کے مختلف حصوں میں رکھ کر دیکھا گیا کہ بچے کتنی تیزی سے ان اشیا کو دیکھتے ہیں اور کس حد تک توجہ بھٹکانے والی اشیا سے خود کو بچاتے ہیں۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ ٹچ اسکرین پر زیادہ وقت گزارنے والے بچے اشیا کو بہت تیزی سے دیکھتے ہیں مگر توجہ بھٹکانے والی اشیا کو نظرانداز نہیں کرپاتے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم یہ حتمی نتیجہ نکالنے سے قاصر ہیں کہ ٹچ اسکرین کا استعمال توجہ کی صلاحیت پر اثرات مرتب کرتی ہے، کیونکہ جن بچوں کی توجہ جلد بھٹک جاتی ہے، وہ ٹچ اسکرین کے توجہ کھینچنے والے فیچرز کو بھی بہت پسند کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم تحقیق کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ کیا حقیقی دنیا میں بھی بچوں کی توجہ آسانی سے بھٹک جاتی ہے یا نہیں۔

  • ناشتے میں کھائی جانے والی وہ غذا جو بے حد فائدہ مند ہے

    ناشتے میں کھائی جانے والی وہ غذا جو بے حد فائدہ مند ہے

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ روزانہ ناشتے میں دلیہ کھانا دن کے آغاز پر ایک بھرپور غذا ہے جس کے بے شمار طبی فوائد ہیں۔

    دلیہ ایک صحت بخش اور ہلکی پھلکی غذا ہے جو جسم کو بھرپور توانائی فراہم کرتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دلیہ امراض قلب کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے ناشتے میں دلیے کا انتخاب کیا تو گویا آپ نے ایک بہترین غذا کا انتخاب کیا ہے۔ غذائیت سے بھرپور دلیہ آپ کو سارا دن چاک و چوبند اور توانا رکھے گا اور آپ ایک متحرک اور بھرپور دن گزاریں گے۔

    صرف ناشتے میں ہی نہیں، بلکہ دن کے کسی بھی حصے میں دلیہ کھانا آپ کو یکساں فوائد فراہم کرتا ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ دلیے کے بے شمار فوائد ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔

    دلیہ کولیسٹرول میں کمی کرتا ہے۔

    امراض قلب کے خطرے کو کم کرتا ہے۔

    قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔

    خون میں شوگر کی سطح کو معمول کے مطابق رکھ کر ذیابیطس کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    بچوں کو استھما سے بچاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف اقسام کے فلیورڈ سیریلز میں مصنوعی مٹھاس ڈالی جاتی ہے جو موٹاپے سمیت کئی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔ ان کی جگہ سادے دلیہ کا استعمال جسم کے لیے بہترین غذا ہے۔

  • کرونا وائرس: بزرگ افراد کے علاوہ کس عمر کے لوگ خطرے میں؟

    کرونا وائرس: بزرگ افراد کے علاوہ کس عمر کے لوگ خطرے میں؟

    کرونا وائرس نے بزرگ افراد کو زیادہ متاثر کیا ہے تاہم اب حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق نے درمیانی عمر کے افراد کو لاحق خطرے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کو عام طور پر معمر افراد کے لیے زیادہ خطرناک سمجھا جاتا ہے مگر یہ درمیانی عمر کے لوگوں کے لیے بھی اتنی ہی جان لیوا ہے۔

    ڈارٹ ماؤتھ کالج کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر کے افراد کے لیے کووڈ 19 سے موت کا خطرہ کسی گاڑی کے حادثے کے مقابلے میں 100 گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق اس بیماری سے بچوں اور نوجوانوں کی اموات بہت کم ہیں، تاہم درمیانی عمر اور معمر افراد میں اس بیماری سے موت کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

    طبی جریدے یورپین جرنل آف ایپی ڈمولوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ 25 سال سے کم عمر افراد میں کووڈ سے موت کا امکان ہر 10 ہزار میں سے ایک کو ہوتا ہے جبکہ 60 سال کے ہر 100 میں سے 2، 70 سال کی عمر کے ہر 40 میں سے ایک جبکہ 80 سال کی عمر کے ہر 1 میں سے ایک فرد کو یہ خطرہ ہوتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے محققین نے کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والے افراد کی عمروں کی جانچ پڑتال کی اور ایک واضح تعلق دریافت کیا۔ محققین کا کہنا تھا کہ امریکا میں لگ بھگ 40 فیصد ہلاکتیں 40 سے 74 سال کی عمر کے افراد کی تھیں جبکہ 60 فیصد 75 سال سے زائد عمر کے تھے۔

    اس کے مقابلے میں بچوں اور نوجوانوں کی ہلاکتوں کی شرح 3 فیصد سے بھی کم تھی۔

    محققین نے کہا کہ اگرچہ کووڈ 19 کی ویکسینز اب تقسیم ہونا شروع ہوگئی ہیں، مگر ہر ایک تک ان کو پہنچنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں اور اس عرصے کے دوران جس حد تک احتیاط ممکن ہوسکے کرنی چاہیئے۔