Tag: صحت کی خبریں

  • وہ غذائیں جو گردوں میں پتھری کا سبب بن سکتی ہیں

    وہ غذائیں جو گردوں میں پتھری کا سبب بن سکتی ہیں

    ہم اپنے کھانے میں ایسی بے شمار اشیا کا استعمال کرتے ہیں جو بے خبری میں ہمیں نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہوتی ہیں۔ ہمارے کھانوں میں شامل کچھ ایسی ہی اشیا گردوں میں پتھری کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

    ایک روسی ویب سائٹ میں شائع شدہ مضمون کے مطابق روسی ڈاکٹر الیگزینڈر میاسنیخوف نے انکشاف کیا ہے کہ کھانے کی تین اقسام ایسی ہیں جو گردوں کی پتھری کا سبب بن سکتی ہیں۔

    ڈاکٹر الیگزینڈر نے کھانے کی ان اقسام کو زیادہ استعمال کرنے سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔

    ان کے مطابق گردے کی پتھری کا سبب بننے والے اجزا یا مادوں میں سے سب سے پہلے نمبر پر جانوروں کی چربی اور وہ پروٹین ہے جو سرخ گوشت میں پائی جاتی ہے، یہ مادے گردے کی پتھریوں کے خطرے کو بڑھاتے ہیں۔

    دوسری چیز نمک ہے، ڈاکٹر الیگزینڈر کے مطابق پالک اور سبزیوں جیسی کھانے کی چیزیں سب کے لیے فائدہ مند ہیں، لیکن وہ خون میں آکسیلیٹ (نمک اور آکسالک ایسڈ کے ایسٹر) میں اضافہ کرتی ہیں، جس سے پتھری کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    تیسری شے سافٹ ڈرنکس ہیں جو پتھری بننے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پتھری بننے سے بچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی پئیں، نمک، گوشت، تیل اور جانوروں کے پروٹینز میں کمی کردیں۔ دودھ کی مصنوعات کی معتدل مقدار بھی اس سے بچاتی ہے۔

  • آپ کے سر، گردن اور کندھوں میں درد کی وجہ آپ کا اسمارٹ فون تو نہیں؟

    آپ کے سر، گردن اور کندھوں میں درد کی وجہ آپ کا اسمارٹ فون تو نہیں؟

    کراچی: طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسمارٹ فون کے بے تحاشہ استعمال سے ہر عمر کے افراد میں ٹیکسٹ نیک سنڈروم کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، انہوں نے اس میں کمی کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر بھی تجویز کی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر تحسین ریاض نے شرکت کی اور موبائل فون سے ہونے والے طبی نقصانات کے بارے میں بتایا۔

    ڈاکٹر تحسین کا کہنا تھا کہ آج کل کے نوجوانوں میں ٹیکسٹ نیک سنڈروم کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، اس کی وجہ گردن جھکا کر موبائل فون کا گھنٹوں تک استعمال ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ گردن کا قدرتی پوسچر ایسا ہے کہ کانوں کو کندھوں کی سطح پر رکھا جائے، جب کوئی ڈیوائس استعمال کرنے کے لیے گردن کو جھکایا جاتا ہے تو گردن کے مسلز پر دباؤ پڑتا ہے اور ان میں سوزش پیدا ہوتی ہے۔

    ڈاکٹر تحسین کے مطابق اس کی وجہ سے سر، آنکھوں، کندھوں، گردن، ریڑھ کی ہڈی، اور بعض اوقات بازوؤں میں بھی درد ہونے لگتا ہے۔ موبائل فون کو استعمال کرتے وقت گردن جھکا لینے کی پوزیشن کو کچھوے والی پوزیشن بھی کہا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر موبائل فون یا دیگر ڈیوائسز کو معمولی وقت کے لیے استعمال کیا جائے تو ان تکالیف سے بچا جاسکتا ہے تاہم آج کل نوجوان رات رات بھر جاگ موبائل فون استعمال کرتے ہیں جس سے وہ بے خوابی کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔

    ڈاکٹر تحسین نے کہا کہ اس تکلیف سے بچنے کے لیے دوا کرنے سے قبل احتیاطی تدابیر اپنائی جانی ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو کوشش کریں کہ ڈیوائس کو آنکھوں کے لیول پر لے کر آئیں گردن کو نہ جھکائیں۔

    دفاتر میں کام کرنے والے افراد ہر آدھے گھنٹے بعد وقفہ لیں اور گردن کو حرکت دیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ کھڑے ہو کر کبھی بھی کام نہ کریں کیونکہ اس سے گردن میں پڑنے والے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • بھوک کی وجہ سے سر درد کیوں ہوتا ہے؟ ڈاکٹرز نے علاج بھی بتا دیا

    بھوک کی وجہ سے سر درد کیوں ہوتا ہے؟ ڈاکٹرز نے علاج بھی بتا دیا

    آپ نے دیکھا ہوگا اکثر لوگ سر درد کی شکایت کر رہے ہوتے ہیں، لیکن انھیں پتا نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سر درد کی وجوہ کئی ایک ہیں تاہم بعض اوقات سر میں درد بھوک لگنے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔

    یونی ورسٹی آف میلبورن آسٹریلیا میں ہونے والی ایک سائنسی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ سر درد میں بھوک 31 فی صد سبب بنتی ہے، ایسا زیادہ دیر کھانا نہ کھانے یا ناشتہ نہ کرنے سے ہوتا ہے۔

    صحت اور لائف اسٹائل کی ایک ویب سائٹ بولڈ اسکائی کی جامع رپورٹ کے مطابق بھوک کے علاوہ سر درد کی دیگر وجوہ کی شرح 29 فی صد ہے، جس میں تھکاوٹ، غصہ، موسم کا بدلنا، حیض آنا، سفر کرنا، شور کا ہونا اور نیند مکمل نہ کر سکنا وغیرہ شامل ہیں۔

    بھوک سے سر درد کیوں؟

    جسم میں پانی کی کمی، کیلوریز کی کم مقدار اور گلوکوز کی کمی وغیرہ سے سر درد ہو سکتا ہے، طبی ماہرین کہتے ہیں کہ ہمارے دماغ کو جب گلوکوز کی مکمل مقدار نہیں ملتی تو یہ مخصوص ہارمونز خارج کرتا ہے جن میں گلوکوجن، کورٹیسول اور ایڈرینالین وغیرہ ہوتے ہیں جو جسم میں گلوکوز اور شوگر کی کمی کو پورا کرتے ہیں۔

    دماغ کے ان ہارمونز کو خارج کرنے کے بعد ان کے منفی اثرات میں سر درد لاحق ہوتا ہے، اسی طرح تھکاوٹ کا احساس، سستی اور متلی وغیرہ ہونے لگتی ہے۔

    جسم میں پانی اور غذا کی کمی دماغ کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہے اور اسے تیز کرتی ہے جس کی وجہ سے سر میں درد شروع ہو جاتا ہے، تناؤ کے شکار افراد اور شوگر کے مریضوں کو سر کا درد زیادہ شدت سے ہوتا ہے۔ یونانی محققین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ بھوک اور تناؤ کی وجہ آدھے سر کا درد شروع ہو جائے۔

    بھوک کی وجہ سے درد کی علامات

    بھوک کی وجہ سے ہونے والے سر درد میں پیشانی کے دونوں اطراف میں دباؤ کے احساس کے ساتھ درد ہوتا ہے، اسی طرح گردن اور کندھوں میں تناؤ کی کیفیت شروع ہو جاتی ہے۔

    دیگر علامات میں آنتوں سے مختلف آوازیں آنا، تھکاوٹ محسوس کرنا، ہاتھ کانپنا، چکر آنا، پیٹ میں درد ہونا، پسینہ آنا، سردی محسوس ہونا اور عمل انہضام کے مسائل شامل ہیں۔

    دو امریکی ریاستوں کی یونی ورسٹیوں کی ایک ٹیم کی تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ سر کا درد ہاضمے میں خرابی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور ممکن ہے کہ ہاضمے کے علاج سے سر کا درد بھی ٹھیک ہو جائے۔ اسی طرح سر میں درد ہونے کی وجوہ میں بدہضمی، قبض، آنتوں میں سوزش، گیسٹرو فیزیجل ریفلوکس وغیرہ بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ ان بیماریوں کا علاج کرنے سے سر کا درد ٹھیک ہونے کے ساتھ نظام زندگی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔

    بھوک کے درد سے بچنے کے لیے کیا کیا جائے؟

    1- کھانے کے اوقات میں صحت مند کھانا کھائیں

    2- ناشتہ کبھی ترک نہ کریں

    3- ایسے افراد جن کا کام مصروفیت والا ہوتا ہے وہ ہلکا پھلکا کھانا وقفے وقفے سے کھاتے رہیں

    4- چاکلیٹ یا میٹھے جوسز سے پرہیز کریں اس لیے کہ یہ جسم میں گلوکوز کے اضافے کا سبب بن سکتے ہیں جس کی وجہ سے شوگر میں اضافے کا خطرہ ہوتا ہے

    5- بھوک لگنے کی صورت میں پانی کازیادہ استعمال کریں تاکہ بھوک کا احساس کم ہوجائے

    6- پھل جیسے سیب، مالٹے یا گری دار اپنے سامنے رکھیں

    7- مکھن یا پھلوں کے جوس وقتاً فوقتاً استعمال کرتے رہیں

    ماہرین کہتے ہیں کہ جب آپ کا پیٹ خالی ہوتا ہے تو سر کا درد ہونا عام بات ہے اور یہ کھانے کے بعد ختم ہو جاتا ہے، تاہم ڈاکٹر سے مشورہ بھی ضروری ہے۔

  • سینے کا انفیکشن: علامات، علاج اور حفاظتی تدابیر

    سینے کا انفیکشن: علامات، علاج اور حفاظتی تدابیر

    موسم سرما میں جہاں ایک طرف تو کرونا وائرس اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے، وہیں مختلف موسمی بیماریاں اور انفیکشنز بھی مختلف افراد کو اپنا شکار بنا سکتے ہیں۔

    برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس نے موسم سرما میں لاحق ہوجانے والے سینے کے انفیکشن کے بارے میں حفاظتی گائیڈ جاری کی ہے جس میں اس کی علامات، علاج اور احتیاطی تدابیر کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

    سینے کا انفیکشن کیا ہے؟

    نزلے یا زکام کے بعد سینے کا انفیکشن نہایت عام ہوتا ہے، اگرچہ یہ زیادہ تر معمولی نوعیت کے ہوتے ہیں اور خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن بعض اوقات تشویشناک یہاں تک کہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

    سینے کے انفیکشن کی علامات

    سینے کے انفیکشن کی بنیادی علامات یہ ہیں۔

    مستقل کھانسی
    کھانسی کے ساتھ زرد یا سبز بلغم کا آنا یا کھانسی کے ساتھ خون آنا
    سانس کا پھولنا یا تیز اور پھولی ہوئی سانس آنا
    سانس میں خرخراہٹ
    بخار
    دل کی تیز دھڑکن
    سینے میں درد یا تناؤ
    تذبذب اور بدحواسی

    سینے میں انفیکشن کی مزید علامات یہ بھی ہوسکتی ہیں۔

    سر درد، تھکاوٹ، پسینہ آنا، بھوک نہ لگنا یا جوڑوں اور جسم کے مختلف حصوں میں درد ہونا۔

    سینے کا انفیکشن کیسے ہوتا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سینے کا انفیکشن پھیپھڑوں یا سانس کی نالی کا انفیکشن ہوتا ہے، اس میں حلق کی سوجن اور نمونیہ سامنے آسکتا ہے۔ حلق کی سوجن کی زیادہ تر بیماریاں وائرس کے سبب ہوتی ہیں جبکہ نمونیہ بکٹیریا کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    یہ انفیکشنز عام طور پر اس وقت پھیلتے ہیں جب کوئی متاثرہ شخص کھانس دے یا چھینک دے، اس کے ذریعے سیال کے چھوٹے چھوٹے ذرات، جن میں وائرس یا جراثیم موجود ہوتے ہیں، ہوا میں پھیل جاتے ہیں اور وہاں پر موجود دوسرے لوگ انہیں سانس کے ذریعے اپنے اندر لے جاتے ہیں۔

    اگر آپ اپنے ہاتھوں کے اندر، کسی چیز یا کسی سطح پر چھینک ماریں اور کوئی دوسرا شخص آپ سے ہاتھ ملائے، یا اپنے منہ یا ناک کو ہاتھ لگانے سے قبل ان سحطوں کو چھولے تو یہ انفیکشن پھیل سکتے ہیں۔

    چند مخصوص افراد کو سینے کے تشویشناک انفیکشن سے دوچار ہونے کے خطرے کا سامنا ہوتا ہے مثلاً شیر خوار اور بہت ہی کم عمر بچے، نشونما کے مسائل سے دوچار بچے، وہ افراد جن کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے، بڑی عمر کے افراد، حاملہ خواتین، سگریٹ نوشی کے عادی افراد، وہ لوگ جن کو طویل مدت کی بیماریوں کا سامنا ہوتا ہے، وہ لوگ جن کا مدافعتی نظام کمزور ہو۔

    کسی حالیہ بیماری کی وجہ سے، کسی پیوند کاری، زیادہ اسٹیرائڈز والی خوراک، یا کیمو تھراپی سے گزرنے والا شخص بھی اس کا آسان شکار ہوتا ہے۔

    کیا گھر پر علاج کرنا ممکن ہے؟

    سینے کے بہت سے انفیکشن تشویشناک نہیں ہوتے اور چند دنوں یا ہفتوں میں ٹھیک ہو جاتے ہیں، مریض کو عموماً ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی بشرطیکہ علامات تشویشناک نہ ہوں۔

    گھر پر رہتے ہوئے مندرجہ ذیل اقدامات کریں۔

    زیادہ سے زیادہ آرام کریں۔

    جسم میں پانی کا ضیاع روکنے کے لیے سیال مادے کی زیادہ مقدار استعمال کریں تاکہ پھیپھڑوں میں موجود بلغم پتلا ہو کر آسانی کے ساتھ کھانسی کے ذریعے باہر نکل سکے۔

    درد میں افاقہ کرنے والی ادویات لیں

    متواتر کھانسی کے سبب پیدا ہونے والی گلے کی سوزش میں افاقہ حاصل کرنے کے لیے شہد اور لیموں کا گرم مشروب نوش کریں۔

    سانس لینا آسان بنانے کے لیے سوتے ہوئے اضافی تکیوں کے ذریعے سر اونچا رکھیں۔

    سگریٹ نوشی ترک کریں۔

    کھانسی کی دوائی سے اجتناب کریں کیونکہ اس کی افادیت کا معمولی سا ثبوت ملا ہے، کھانسی تیزی کے ساتھ پھیپھڑوں کے بلغم سے چھٹکارہ حاصل کر کے انفیکشن صاف کرنے میں مدد دیتی ہے۔

    اینٹی بائیوٹک سینے کے کئی طرح کے انفیکشن میں تجویز نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ اسی صورت میں کام کرتی ہے جب انفیکشن وائرس کے بجائے جراثمیوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہو۔

    ڈاکٹر صرف اسی وقت اینٹی بائیوٹک تجویز کریں گے جب ان کے خیال میں مریض کو نمونیہ یا پیچیدگی کا سامنا ہوگا، مثلاً پھیپھڑوں کے ارد گرد سیال اکٹھا ہونے لگے۔

    ڈاکٹر کے پاس کب جائیں؟

    ڈاکٹر کے پاس صرف مندرجہ ذیل صورتوں میں جائیں۔

    مریض بہت زیادہ بیمار محسوس کرے اور علامات شدید نوعیت کی ہوں

    علامات میں بہتری نہ آئے

    سینے میں درد یا سانس لینے میں دشواری

    کھانسی کے ساتھ خون یا بلغم میں خون آنا

    جلد یا ہونٹ نیلے پڑ جانا

    علاوہ ازیں اگر مریض حاملہ ہو، 56 سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہو، مریض کا وزن زیادہ ہو، مریض پانچ سال سے کم عمر ہو، مدافعتی نظام کمزور ہو یا مریض طویل مدت کی بیماری کا شکار ہو تو ایسی صورت میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔

    ڈاکٹر اسٹیتھو اسکوپ کے ذریعے سینے کی آواز سن کر بیماری کی تشخیص کرے گا جبکہ چھاتی کا ایکسرے، سانس کے ٹیسٹس اور بلغم یا خون کا ٹیسٹ کروانے کا بھی کہہ سکتا ہے۔

    سینے کے انفیکشن کی مندرجہ ذیل طریقے سے روک تھام کی جاسکتی ہے۔

    سگریٹ نوشی ترک کریں، سگریٹ نوشی انفیکشن کے خلاف پھیپھڑوں کی قوت مدافعت کو کمزور کرتی ہے۔

    کھانستے اور چھینکتے ہوئے منہ ڈھانپیں۔

    متوازن غذاؤں کا استعمال کریں۔

    ویکسینیشن

    اگر مریض کو سینے کے انفیکشن کا شدید خطرہ لاحق ہے تو ڈاکٹر نزلے اور نمونیہ کے انفیکشن کے خلاف ویکسین لگوانے کی تجویز دے سکتا ہے۔

    یہ ویکسینیشن مستقبل میں سینے کے انفیکشن کے امکانات کم کرسکتی ہے۔

    عام طورپر نزلے اورنمونیہ کی ویکسی نیشن حسب ذیل کے لیے تجویز کی جاتی ہے

    شیر خوار اور بہت کم عمر بچے

    حاملہ خواتین

    56 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد

    طویل عرصے سے بیمار یا کمزور مدافعتی نظام کے حامل افراد

  • فالج سے بچاؤ کا دن: معمولی سی حرکت بڑھاپے میں فالج سے بچا سکتی ہے

    فالج سے بچاؤ کا دن: معمولی سی حرکت بڑھاپے میں فالج سے بچا سکتی ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج فالج سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم میں سے ہر 4 میں سے 1 شخص کو عمر بڑھنے کے ساتھ فالج لاحق ہونے کا خطرہ ہے۔

    آج کا دن منانے کا مقصد اس جان لیوا بیماری اور اس سے بچاؤ کے بارے میں شعور و آگاہی پیدا کرنا ہے۔

    فالج ایک ایسا مرض ہے جو دماغ میں خون کی شریانوں کے بند ہونے یا ان کے پھٹنے سے ہوتا ہے۔ جب فالج کا اٹیک ہوتا ہے تو دماغ کے متاثرہ حصوں میں موجود خلیات آکسیجن اور خون کی فراہمی بند ہونے کی وجہ سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    اس کے نتیجے میں جسم کی کمزوری اور بولنے، دیکھنے میں دشواری سمیت دیگر کئی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس سے جسم کا پورا، آدھا یا کچھ حصہ ہمیشہ کے لیے مفلوج ہوسکتا ہے۔

    عالمی اسٹروک آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ ہم میں سے ہر 4 میں سے 1 شخص کو عمر بڑھنے کے ساتھ فالج لاحق ہونے کا خطرہ ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں معذور افراد میں سب سے زیادہ تعداد فالج سے متاثرہ افراد کی ہے۔ دنیا بھر میں ہر 10 سیکنڈ میں ایک شخص اس مرض کا شکار ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خواتین کو فالج کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے۔

    اس بیماری کی بڑی وجوہات میں ہائی بلڈ پریشر، مرغن خوراک، سگریٹ نوشی اور تمباکو سے تیار کردہ مواد خصوصاً گٹکا شامل ہے۔ جسمانی مشقت نہ کرنے والے لوگ جب ورزش نہیں کرتے تو یہ فالج کے لیے آسان ہدف ہوتے ہیں۔

    فالج سے بچاؤ کیسے ممکن ہے؟

    عالمی اسٹروک آرگنائزیشن کے مطابق فالج کے اس خطرے کو صرف جسمانی حرکت کے ذریعے ٹالا جاسکتا ہے، جسمانی طور پر زیادہ سے زیادہ فعال رہنا نہ صرف فالج بلکہ امراض قلب، شوگر اور دیگر کئی بیماریوں سے بچا سکتا ہے۔

    اس کے لیے کسی باقاعدہ ورزش کی ضرورت نہیں بلکہ روز مرہ کے گھریلو کام، باہر کے کام جیسے سودا سلف وغیرہ لانا، دن میں کچھ وقت کی چہل قدمی اور سیڑھیاں چڑھنا اترنا بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر فعال رہنے سے بڑھاپے میں دماغی بیماریوں جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا سے بھی تحفظ ممکن ہے۔

  • فوبیا ختم کرنے کے طریقے

    فوبیا ختم کرنے کے طریقے

    گھبراہٹ ایک عام انسانی احساس ہے، ہم سب کو اس کا تجربہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم کسی مشکل یا کڑے وقت سے گذرتے ہیں، فوبیا کسی ایسی مخصوص صورت حال یا چیز کا خوف ہے جو خطرناک نہیں ہوتی اور عام طور پر لوگوں کے لیے پریشان کن بھی نہیں ہوتی۔

    فوبیا کی عام وجوہات

    ہم میں سے کچھ لوگوں کی طبیعت اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ ہر بات پر پریشان رہتے ہیں، تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ اس طرح کی طبیعت جینز کے ذریعے وراثت میں بھی مل سکتی ہے، تاہم وہ لوگ بھی جو قدرتی طور پر ہر وقت پریشان نہ رہتے اگر ان پر بھی مستقل دباؤ پڑتا رہے تو وہ بھی گھبراہٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    فوبیا یا گھبراہٹ میں عام طور پر اس طرح کے واقعات ذہن میں آتے ہیں جن میں انسان کی جان کو خطرہ ہو مثلاً کار یا ٹرین کے حادثات اور آگ وغیرہ۔ ان واقعات میں شامل افراد مہینوں یا سالوں تک گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار رہ سکتے ہیں چاہے خود انھیں کوئی جسمانی چوٹ نہ لگی ہو، یہ علامات پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر میں پائی جاتی ہیں۔

    نشہ آور اشیا مثلاً ایمفیٹا مائنز ایل ایس ڈی یا ایکسٹیسی کے استعمال کی وجہ سے بھی گھبراہٹ ہونا عام بات ہے۔

    گھبراہٹ سے کیسے چھٹکارا پایا جائے

    فوبیا سے چھٹکارہ پانے کا آسان طریقہ ہے کہ جو پریشانیاں آپ کو لاحق ہیں، ان پر کھل کر گفتگو کریں، ایسے دوست یا رشتے داروں سے بات چیت کریں جن پر آپ اعتماد کرتے ہوں۔

    خود کو مصروف رکھیں اور تعمیری سوچ پیدا کریں۔

    اگر آپ مسلسل اس کیفیت سے گزر رہے ہو تو اپنے فیملی ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

    یہ کتابچہ رائل کالج آف سائکائٹرسٹس، یو کے اور ڈپارٹمنٹ آف سائکائٹرٰ ی آغا خان یونیورسٹی کراچی کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔

  • انسداد پولیو کا عالمی دن: پاکستان میں پولیو کیسز میں 65 فیصد کمی

    انسداد پولیو کا عالمی دن: پاکستان میں پولیو کیسز میں 65 فیصد کمی

    دنیا بھر میں آج انسداد پولیو کا عالمی دن منایا جارہا ہے، طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں پولیو کیسز میں 65 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

    گزشتہ برس تک دنیا بھر میں صرف 3 ممالک پاکستان، افغانستان اور نائجیریا ایسے ممالک تھے جہاں آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پولیو جیسا مرض موجود تھا تاہم نائیجیریا رواں برس اگست میں پولیو کو شکست دے کر پولیو فری ملک بن گیا۔

    اب یہ مرض صرف پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے۔

    عالمی ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ہم اس موذی مرض کے خلاف جنگ 99 فیصد تک جیت چکے ہیں اور اگر ان دونوں ممالک سے بھی پولیو کا خاتمہ ہوجائے تو یہ وائرس پوری دنیا سے ختم ہو جائے گا۔

    پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں میں انسداد پولیو وائرس کے حوالے سے ڈرامائی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔

    ایک وقت تھا جب پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ علاقوں میں انسداد پولیو کے قطروں کو بانجھ کردینے والی دوا سمجھا جاتا تھا اور لوگ اسے اپنے بچوں کو پلانے سے احتراز کرتے تھے۔

    سرسید اسپتال کراچی کے ڈاکٹر اقبال میمن کے مطابق ایک بار جب وہ لوگوں میں پولیو کے خلاف آگاہی اور شعور بیدار کرنے کے لیے ایک مہم میں شامل ہوئے تو انہوں نے لوگوں سے یہ بھی سنا کہ ’پولیو ویکسین میں بندر کے خون کی آمیزش کی جاتی ہے جس سے ایبولا اور دیگر خطرناک امراض کا خدشہ ہے‘۔

    تاہم اب اس حوالے سے لوگوں کی سوچ میں بے انتہا تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ وسیع پیمانے پر چلائی جانے والی آگاہی مہمات ہیں۔

    اینڈ پولیو پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پولیو کیسز کی بلند ترین شرح سنہ 2014 میں دیکھی گئی جب ملک میں پولیو وائرس کے مریضوں کی تعداد 306 تک جا پہنچی تھی۔

    یہ شرح پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی۔ اس کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئیں تھی۔ اسی سال پڑوسی ملک بھارت پولیو فری ملک بن گیا۔

    تاہم اس کے بعد عالمی تنظیموں کے تعاون سے مقامی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد سنہ 2015 میں یہ تعداد گھٹ کر 54 اور سنہ 2016 میں صرف 20 تک محدود رہی۔

    سنہ 2017 میں پولیو کے 8 کیسز ریکارڈ کیے گئے، سنہ 2018 میں 12 جبکہ 2019 میں ایک بار پھر پولیو کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا اور 147 پولیو کیسز ریکارڈ ہوئے۔

    رواں برس اب تک ملک میں پولیو کیسز کی تعداد 79 ہوچکی ہے، سب سے زیادہ پولیو کیسز بلوچستان سے سامنے آئے جن کی تعداد 23 ہے۔

    اس کے بعد سندھ اور خیبر پختونخواہ میں 22، 22 کیسز ریکارڈ ہوئے جبکہ پنجاب سے 12 پولیو کیسز سامنے آئے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پولیو کیسز میں 65 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے انسداد پولیو کے لیے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ پاکستان بہت جلد پولیو فری ملک بن جائے گا۔

  • دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    دماغی صحت کا عالمی دن: پاکستان میں ہر 3 میں سے 1 شخص ڈپریشن کا شکار

    آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں دماغی صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 سے کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 1 ارب کے قریب افراد کسی نہ کسی دماغی عارضے کا شکار ہیں۔

    مختلف دماغی امراض میں سب سے عام مرض ڈپریشن اور اینگزائٹی ہیں جو بہت سی دیگر بیماریوں کا بھی سبب بنتے ہیں۔ ہر سال عالمی معیشت کو ان 2 امراض کی وجہ سے صحت کے شعبے میں 1 کھرب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق ذہنی مسائل کا شکار افراد کے ساتھ تفریق برتنا، غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا اور ایسے افراد کو مزید تناؤ زدہ حالات سے دو چار کرنا وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے دماغی صحت میں بہتری کے اقدامات کے نتائج حوصلہ افزا نہیں۔

    مختلف ممالک اپنے کل بجٹ کا اوسطاً صرف 2 فیصد ذہنی صحت پر خرچ کر رہے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔

  • کرونا وائرس کی وجہ سے دانتوں کو بھی نقصان

    کرونا وائرس کی وجہ سے دانتوں کو بھی نقصان

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے مختلف طبی اثرات سامنے آرہے ہیں اور حال ہی میں ایک اور نقصان نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران دانتوں کے امراض میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

    امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن کے ایک پروفیسر کے مطابق کرونا وائرس کی وجہ سے دانتوں کی نگہداشت میں تعطل اور تناؤ کے تیجے میں کچھ ڈینٹسٹ کو دانتوں میں کریک، جبڑوں کی سوجن اور کیوٹیز کے کیسز میں اضافہ نظر آرہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران دانتوں میں مسائل کے شکار مریضوں کی تعداد بڑھی ہے جبکہ ایسے مریضوں کی بھی کمی نہیں جن کو جبڑوں کی سوجن کا سامنا ہے۔

    ایک ماہر دندان کے مطابق دانتوں کے فریکچر کی شرح گزشتہ 6 برسوں سے بھی زیادہ ہے۔ گھروں میں زیادہ وقت گزارنے کے دوران زیادہ میٹھی اشیا کا استعمال ہورہا ہے اور اکثر افراد دانت صاف کرنے بھول جاتے ہیں جس سے دانتوں کے مسائل میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق یکم جولائی سے ستمبر کے وسط میں دانتوں کے کریک بھروانے والوں کی شرح 120 فیصد تک بڑھ گئی جبکہ ماؤتھ گارڈز کی فروخت میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں اس برس 15 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن اور سی ڈی سی نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران ڈینٹسٹس کے پروٹوکول بھی تیار کیے ہیں۔

  • سست زندگی گزارنا بڑھاپے میں کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟

    سست زندگی گزارنا بڑھاپے میں کیا نقصان پہنچا سکتا ہے؟

    آج دنیا بھر میں بڑھاپے میں یادداشت کو خراب کرنے والی بیماری الزائمر سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق جسمانی طور پر غیر فعال اور سست زندگی گزارنا بڑھاپے میں یادداشت کی خرابی کا سبب بن سکتا ہے۔

    الزائمر ایک دماغی مرض ہے جو عموماً 65 سال سے زائد عمر کے افراد میں عام ہے۔ اس مرض میں انسان اپنے آپ سے متعلق تمام چیزوں اور رشتوں کو بھول جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق الزائمر اموات کی وجہ بننے والی بیماریوں میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    اس مرض سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے ہر سال 21 ستمبر کو الزائمر کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 4 کروڑ 60 لاکھ افراد اس بیماری سے متاثر ہیں، ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں 2050 تک ہر 8 میں سے ایک شخص اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ خون میں شکر کی مقدار کی کمی سے یادداشت کی کمی واقع ہونے لگتی ہے اور یہی الزائمر اور ڈیمینشیا جیسے امراض کا سبب بنتی ہے۔ خون میں شکر کی مقدار اور سطح کو نارمل حالت میں رکھ کر اس بیماری کو روکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

    اس کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ فشار خون زیادہ ہونے سے بھی دماغ میں گلوکوز کی فراہمی کے تناسب میں گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جسمانی طور پر فعال رہنا بھی دماغ کے لیے فائدہ مند ہے اور یادداشت کی خرابی سے بچا سکتا ہے۔ چھوٹی موٹی دماغی مشقیں جیسے ریاضی کی مشقیں زبانی حل کرنا، حساب کرنا، چیزوں کو یاد کرنا، پزل حل کرنا بھی دماغ کو چست اور فعال رکھتا ہے۔