Tag: صحت کی خبریں

  • ہمیں اچانک میٹھا کھانے کی طلب کیوں ہوتی ہے؟

    ہمیں اچانک میٹھا کھانے کی طلب کیوں ہوتی ہے؟

    کبھی کبھار اچانک ہمارا دل کچھ میٹھا کھانے کو چاہنے لگتا ہے، بعض اوقات یہ طلب اتنی شدید ہوتی ہے کہ ہم سب کام چھوڑ کر میٹھا تلاشنا شروع کردیتے ہیں اور اسے کھا کر ہی دم لیتے ہیں۔

    ماہرین نے اس کی وجہ تلاش کرلی ہے۔

    دراصل جب ہم کسی خاص شے کی بھوک محسوس کرتے ہیں تو اس وقت ہمارے جسم کو کسی خاص شے کی ضروت ہوتی ہے، اس وقت ہمارے جسم کو درکار معدنیات میں سے کسی ایک شے کی کمی واقع ہو رہی ہوتی ہے اور جسم اس کمی کو پوری کرنا چاہتا ہے۔

    جسم اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں مجبور کرتا ہے اور ہم سارے کام چھوڑ کر اس خاص شے کی طلب مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    نہ صرف میٹھا بلکہ اکثر اوقات ہمارا دل بہت شدت سے کچھ نمکین، جنک فوڈ یا تلی ہوئی اشیا کھانے کو بھی چاہتا ہے۔ یہ سب جسم میں کچھ معدنیات کی کمی کا اشارہ ہوتا ہے۔

    جہاں تک میٹھے کا سوال ہے تو اس کا تعلق خون میں موجود شوگر سے ہے۔ جب ہمارے خون میں شوگر کی مقدار کم ہونے لگتی ہے، اور کیونکہ جسم کو توانائی پہنچانے کے لیے شوگر ایک اہم حیثیت رکھتی ہے تو ہمارا جسم ہمیں الارم دیتا ہے کہ فوری طور پر اس ضرورت کو پورا کیا جائے۔

    شوگر ہمارے جسم کے لیے فیول کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ضروری ہے کہ اس کو پورا کرنے کے لیے صحت مند مٹھاس کھائی جائے۔ اسے ڈونٹس، کیک یا مٹھائیوں سے پورا کرنا فائدے کے بجائے نقصان دے سکتا ہے۔

    اگر یہ کمی مستقل محسوس ہو، یعنی ہر وقت یا اکثر ہمارا دل میٹھا کھانے کو چاہنے لگے تو یہ ہائپو گلائسیمیا کی نشانی ہے جس میں خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ ایسے میں خوراک میں پروٹین کی مقدار بڑھا دینی چاہیئے تاکہ خون میں شوگر کی مقدار نارمل لیول پر آسکے۔

    ماہرین کے مطابق اگر ہمارا دل چاکلیٹ کھانے کو چاہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے جسم کو میگنیشیئم درکار ہے۔ چاکلیٹ کھانے کا فائدہ یہ ہے کہ ڈارک چاکلیٹ اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہے۔

    ماہرین طب کی تحقیق کے مطابق میگنیشیئم دل کی دھڑکن کو معمول کے مطابق رکھنے میں مدد دیتا ہے اور قوت مدافعت میں اضافہ کرتا ہے۔

    اس کی کمی سے نہ صرف امراض قلب اور ذیابیطس لاحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے بلکہ بے خوابی اور اینگزائٹی کی شکایت بھی ہوسکتی ہے لہٰذا ماہرین کی تجویز ہے کہ چاکلیٹ کی طلب پیدا ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ چاکلیٹ کو اپنی معمول کی خوراک کا حصہ بنائیں۔

    اس کے لیے روزانہ تھوڑی سی ڈارک چاکلیٹ کھا لینا مفید ہوسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بھی ہمیں پھل کھانے کی طلب ہوتی ہے تو یہ کوئی خوش آئند اشارہ نہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنی صحت سے غافل ہیں اور جسم کہہ رہا ہے کہ اسے اضافی وٹامنز، منرلز اور اینٹی آکسیڈنٹس کی ضرورت ہے۔

    ماہرین نے تجویز دی ہے کہ کمی ہونے کی صورت میں بھی کسی بھی شے بشمول پھلوں کا زیادہ استعمال نہ کیا جائے اور اعتدال میں رہ کھایا جائے۔

    علاوہ ازیں ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب بھی ہمیں کچھ کھانے کی طلب ہو تو پہلے ایک گلاس پانی پینا چاہیئے۔ ہم بعض اوقات اپنے دماغ کے سگنل کا غلط مطلب بھی سمجھ سکتے ہیں۔

    یوں بھی ہوسکتا ہے کہ جسم کو پانی کو ضرورت ہو اور ہم اسے کچھ کھانے کی طلب سمجھ بیٹھیں، ایسے موقع پر پانی پینا ہمارے جسم کی ضرورت کا صحیح تعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔

  • انسداد ملیریا کا دن: کرونا وائرس ملیریا کے مریضوں کے لیے زیادہ ہلاکت خیز

    انسداد ملیریا کا دن: کرونا وائرس ملیریا کے مریضوں کے لیے زیادہ ہلاکت خیز

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ملیریا سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملیریا کی دوا کا استعمال دنیا بھر میں بڑھ گیا ہے جس سے ملیریا کے مریضوں کو دوا کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے یوں اس سال ملیریا سے ہلاکتیں دگنی ہوسکتی ہیں۔

    ملیریا کا دن منانے کا مقصد عوام میں ملیریا سے بچاؤ اور اس کے متعلق پیدا شدہ خدشات اور غلط فہمیوں کے متعلق آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ملیریا اینو فلیس نامی مادہ مچھر کے ذریعے پھیلنے والا متعدی مرض ہے جس کا جراثیم انسانی جسم میں داخل ہو کر جگر کے خلیوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔

    اس مرض کی صحیح تشخیص نہ ہونے سے ہر سال دنیا بھر میں ملیریا کے 20 کروڑ جبکہ پاکستان بھر میں 10 لاکھ کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔

    سنہ 2018 میں دنیا بھر میں ملیریا سے 4 لاکھ سے زائد افراد کی موت ہوئی جس میں سے 67 فیصد ہلاکتیں کمسن بچوں کی تھیں۔

    اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ملیریا کے 95 فیصد کیسز بھارت اور براعظم افریقہ میں سامنے آتے ہیں۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ملیریا کی دوا کا استعمال دنیا بھر میں بڑھ گیا ہے جس سے ملیریا کے مریضوں کو دوا کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے یوں اس سال ملیریا سے ہلاکتیں دگنی ہوسکتی ہیں۔

    دوسری جانب پاکستان کا شمار آج بھی ملیریا کے حوالے سے دنیا کے حساس ترین ممالک میں کیا جاتا ہے، پاکستان میں ملیریا دوسری عام پھیلنے والی بیماری ہے۔

    پاکستان میں گلوبل فنڈ کے تعاون سے ملیریا کی تشخیص کے لیے 3 ہزار 155 سرکاری و نجی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جن کا مقصد سنہ 2020 تک ملیریا کے مکمل خاتمے کے ہدف کو پورا کرنا تھا تاہم کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے سبب اس ہدف کی تکمیل اب مشکل نظر آتی ہے۔

    مچھروں سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر

    مچھروں سے پچنے کے لیے سب سے پہلے گھر سے پانی کے ذخائر ختم کریں۔ چھوٹی چھوٹی آرائشی اشیا سے لے کر بڑے بڑے ڈرموں میں موجود پانی کا ذخیرہ مچھروں کی افزائش کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ انہیں یا تو ختم کریں یا سختی سے ایئر ٹائٹ ڈھانپ کر رکھیں۔

    سورج نکلنے اور غروب ہونے کے وقت لمبی آستین والی قمیض پہنیں اور جسم کے کھلے حصوں کو ڈھانپ لیں۔

    جسم کے کھلے حصوں جیسے بازو اور منہ پر مچھر بھگانے والے لوشن کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

    گھروں اور دفتروں میں مچھر مار اسپرے اور کوائل میٹ استعمال کریں۔

    دروازوں، کھڑکیوں اور روشن دانوں میں جالی کا استعمال کریں۔

    گھروں کے پردوں پر بھی مچھر مار ادویات اسپرے کریں۔

    چند ایک پودے جیسے لیمن گراس ڈینگی مچھر کی افزائش کی روک تھام کے لیے بہترین ہیں۔

  • خبردار! یہ عام تکلیف کرونا وائرس کا اشارہ ہوسکتی ہے

    خبردار! یہ عام تکلیف کرونا وائرس کا اشارہ ہوسکتی ہے

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آشوب چشم بھی کرونا وائرس کی علامت ہوسکتی ہے لہٰذا اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کرنے کے بجائے فوراً دھیان دینے کی ضرورت ہے۔

    امریکن اکیڈمی آف اوفتھلمولوجی کا کہنا ہے کہ کسی شخص میں آشوب چشم ہونا کرونا وائرس کا اشارہ ہوسکتا ہے، اس سے قبل بھی چند پورٹس میں کہا گیا تھا کہ آشوب چشم کا عارضہ کووڈ 19 کی علامت ہوسکتا ہے۔

    تحقیقی جریدے جرنل آف وائرلوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے لیے چین کے 30 مریضوں کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد دریافت کیا گیا تھا کہ ایک مریض کو آشوب چشم کا سامنا تھا جبکہ دیگر 29 افراد میں کرونا وائرس آنکھوں کی رطوبت میں دریافت کیا گیا۔

    علاوہ ازیں واشنگٹن میں کام کرنے والی ایک نرس کا حوالہ بھی دیا گیا جس نے بتایا تھا کہ اس نے کرونا وائرس کے بزرگ مریضوں میں آشوب چشم یا آنکھوں کی سرخی دیکھی۔

    کرونا وائرس آنکھوں کے راستے جسم میں داخل ہوسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے اس سے بچنے کے لیے ناک، منہ اور آنکھوں کو نہ چھونے کی احتیاطی تجویز دی ہے۔

    ڈاکٹرز نے فی الوقت کانٹیکٹ لینس استعمال نہ کرنے اور اس کی جگہ چشمے استعمال کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔

    اس سے قبل سونگھنے اور ذائقے کی حس ختم ہوجانے کو بھی کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی علامت کہا گیا تھا۔ برٹش ایسوسی ایشن آف اوٹرہینولرینگولوجی کے ماہرین نے کہا تھا کہ اگر آپ کی ذائقے اور سونگھنے کی حس کم یا ختم ہو گئی ہے تو غالب امکان ہے کہ آپ کے جسم میں کرونا وائرس پہنچ چکا ہے۔

    ماہرین کے مطابق سونگھنے کی صلاحیت یا زبان سے ذائقہ ختم ہونے کے بعد کسی بھی وقت متاثرہ شخص کو بخار اور کھانسی جیسی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں۔

  • ننھے بچوں کی وہ حرکات جو ان میں ایک سنگین مرض کی نشاندہی کرتی ہیں

    ننھے بچوں کی وہ حرکات جو ان میں ایک سنگین مرض کی نشاندہی کرتی ہیں

    آج دنیا بھر میں اعصابی بیماری آٹزم سے آگاہی کا دن منایا جاتا ہے۔ آٹزم سے متاثرہ بچوں میں بولنے، سمجھنے، سیکھنے کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔ تاحال اس مرض کا علاج یا اس کے اسباب دریافت نہیں کیے جاسکے ہیں۔

    آٹزم کا شکار ہونے والے افراد کسی اہم موضوع یا بحث میں کسی خاص نکتے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے اور اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں دوسروں کے جذبات سمجھنے میں بھی دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آٹزم کا شکار افراد کو بات چیت کرنے، زبان سمجھنے اور استعمال کرنے میں دشواری، لوگوں کے ساتھ سماجی تعلقات استوار کرنے اور اپنے رویے اور تخیلات کو استعمال کرنے میں دشواری پیش آسکتی ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق وہ افراد جو 50 سال کی عمر مں باپ بنے ان کی آنے والی نسلوں میں آٹزم کا خطرہ بڑھ گیا، ایسے افراد کی اولاد نارمل ہوتی ہے تاہم اولاد کی اولاد آٹزم کا شکار ہوسکتی ہے۔

    تاحال اس مرض کے حتمی نتائج اور اس کا علاج دریافت نہیں کیا جاسکا۔ آٹزم کا شکار افراد دوسروں سے الگ تھلگ رہنا اور اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں تاہم کچھ افراد کو دوسروں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اکیلے اپنی زندگی نہیں گزار سکتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی بچے کی نہایت کم عمری میں ہی اس میں آٹزم کا سراغ لگایا جاسکتا ہے، ایسے بچے بظاہر نارمل اور صحت مند دکھائی دیتے ہیں تاہم ان کی کچھ عادات ان کے آٹزم میں مبتلا ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں وہ عادات کون سی ہیں۔

    بار بار مٹھی کھولنا اور بند کرنا: یہ آٹزم کی نہایت واضح نشانی ہے۔

    اکثر پنجوں کے بل چلنا

    اپنے سر کو کسی چیز سے مستقل ٹکرانا: کوئی بھی کام کرتے ہوئے یہ بچے اپنے سر کو کسی سطح سے مستقل ٹکراتے ہیں۔

    لوگوں کے درمیان یا اجنبی جگہ پر مستقل روتے رہنا اور غیر آرام دہ محسوس کرنا

    اپنے سامنے رکھے پانی یا دودھ کو ایک سے دوسرے برتن میں منتقل کرنا

    بہت زیادہ شدت پسند اور ضدی ہوجانا

    آوازوں پر یا خود سے کی جانے والی باتوں پر دھیان نہ دے پانا: ایسے موقع پر یوں لگتا ہے جیسے بچے کو کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا۔

    نظریں نہ ملا پانا: ایسے بچے کسی سے آئی کانٹیکٹ نہیں بنا پاتے۔

    بولنے اور بات کرنے میں مشکل ہونا

    کسی کھانے یا کسی مخصوص رنگ کے کپڑے سے مشکل کا شکار ہونا: ایسے بچے اکثر اوقات کپڑے پہنتے ہوئے الجھن کا شکار ہوجاتے ہیں کیونکہ کپڑے کے اندرونی دھاگے انہیں بے چینی میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بچے نظر بچا کر کپڑوں کو الٹا کر کے بھی پہن لیتے ہیں۔

    مزید رہنمائی کے لیے یہ ویڈیو دیکھیں۔

  • ٹی بی کا عالمی دن: پاکستان تپ دق کا شکار ممالک میں چھٹے نمبر پر

    ٹی بی کا عالمی دن: پاکستان تپ دق کا شکار ممالک میں چھٹے نمبر پر

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج تپ دق یا ٹی بی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا رہا ہے، پاکستان ٹی بی کے شکار ممالک میں چھٹے نمبر پر ہے۔

    ٹی بی ایک ایسا مرض ہے جو پھیپھڑوں پر اثرانداز ہوتا ہے اور ہوا کے ذریعے ایک سے دوسرے شخص میں منتقل ہوسکتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ٹی بی کا مرض دنیا بھر میں ہر روز 5 ہزار جانیں لے لیتا ہے، صرف 2018 میں اس مرض سے دنیا بھر میں 15 لاکھ افراد کی ہلاکت ہوئی۔

    اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ایک تہائی ٹی بی کے مریضوں میں مرض کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی، یا وہ علاج کی سہولیات سے محروم ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غربت، غذائی قلت، گندے گھروں میں رہنا اور صفائی کا انتظام نہ ہونا ٹی بی سمیت بہت سی بیماریوں کا آسان شکار بنا دیتا ہے۔

    اسی طرح پہلے سے مختلف امراض جیسے ایڈز یا ذیابیطس کا شکار ہونا، اور طویل عرصے تک تمباکو نوشی اور شراب نوشی کا استعمال بھی اس مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات کو بڑھا دیتا ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ٹی بی کے شکار ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال لگ بھگ 70 ہزار افراد ٹی بی کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ٹی بی کے باعث موت کا شکار ہونے والے افراد میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔

    تاہم پاکستان نے اس مرض کے خاتمے کے لیے قابل تعریف کوششیں کیں ہیں، ٹی بی کے خاتمے کی جدوجہد میں پاکستان کو عالمی رول ماڈل تسلیم کیا جاچکا ہے اور سنہ 2016 میں یو ایس ایڈ چیمپئینز آف ٹی بی ایوارڈ بھی پاکستان نے اپنے نام کیا۔

    پاکستان میں سنہ 2025 تک تپ دق کی شرح میں 50 فیصد کمی کا ہدف رکھا گیا ہے جس پر کام جاری ہے۔

  • ملک میں ایک روز میں 2 نئے پولیو کیسز سامنے آگئے

    ملک میں ایک روز میں 2 نئے پولیو کیسز سامنے آگئے

    اسلام آباد: ملک میں ایک روز میں 2 نئے پولیو کیسز سامنے آگئے جس کے بعد رواں برس پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 31 ہوگئی، نئے پولیو کیسز صوبہ خیبر پختونخواہ اور سندھ میں ریکارڈ کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ملک میں پولیو کے 2 نئے کیس سامنے آگئے۔ ایک کیس صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع خیبر کے علاقے نیکی خیل کا ہے جہاں 3 سالہ بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔

    فیلڈ سپروائزر میڈیکل افسر ڈاکٹر عثمان کا کہنا ہے کہ متاثرہ بچی کو انسداد پولیو قطرے پلائے گئے تھے، نئے کیس کے بعد رواں سال ضلع خیبر میں پولیو کیسز کی تعداد 7 ہوگئی۔

    ذرائع قومی ادارہ صحت نے بھی سندھ میں ایک اور پولیو کیس کی تصدیق کی ہے، سندھ کے ضلع نوشہرو فیروز کی 4 سالہ بچی پولیو وائرس کا شکار ہوئی ہے۔

    یاد رہے کہ رواں برس ملک بھر میں اب تک پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 31 ہوچکی ہے جن میں سے 16 صوبہ خیبر پختونخواہ، 9 سندھ اور 5 بلوچستان سے سامنے آئے ہیں۔ صوبہ پنجاب سے 1 پولیو کیس ریکارڈ کیا گیا ہے۔

    پولیو کے حوالے سے سال 2019 بدترین رہا جب ملک بھر میں 146 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے، پولیو کی یہ شرح سنہ 2014 کے بعد بلند ترین شرح ہے۔ 2014 میں پولیو وائرس کے 306 کیسز سامنے آئے تھے اور یہ شرح پچھلے 14 سال کی بلند ترین شرح تھی۔

    سنہ 2015 میں ملک میں 54، 2016 میں 20، 2017 میں سب سے کم صرف 8 اور سنہ 2018 میں 12 پولیو کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔

    اس تمام عرصے میں پولیو کیسز کی سب سے زیادہ شرح صوبہ خیبر پختونخواہ میں دیکھی گئی۔ صوبہ سندھ بدقسمتی سے اس حوالے سے دوسرے نمبر پر رہا۔

    گزشتہ برس کے مجموعی 146 پولیو کیسز میں سے صرف خیبر پختونخواہ میں ریکارڈ کیے گئے پولیو کیسز کی تعداد 92 تھی۔ 30 کیسز سندھ میں اور بلوچستان اور پنجاب میں 12، 12 کیسز سامنے آئے تھے۔

  • گردوں کا عالمی دن: جنک فوڈ گردوں کے لیے زہر قاتل

    گردوں کا عالمی دن: جنک فوڈ گردوں کے لیے زہر قاتل

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ورلڈ کڈنی ڈے یا گردوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ خود سے دوائیں کھانا یعنی سیلف میڈیکیشن اور جنک فوڈ گردوں کے امراض کی بڑی وجہ ہیں۔

    گردوں کا عالمی دن منانے کا مقصد گردوں کے امراض اور ان کی حفاظت سے متعلق آگہی و شعور پیدا کرنا ہے۔ یہ دن ہر سال مارچ کی دوسری جمعرات کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 24 لاکھ اموات گردوں کے مختلف امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں اور یہ امراض موت کا چھٹا بڑا سبب بن چکے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گردوں کے امراض کا خدشہ مردوں سے زیادہ خواتین میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 19 کروڑ 50 لاکھ خواتین گردوں کے مختلف مسائل کا شکار ہیں۔

    دوسری جانب گردوں کے امراض میں مبتلا ڈائیلاسز کروانے والے مریضوں میں زیادہ تعداد خواتین کے بجائے مردوں کی ہوتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گردوں کے امراض خواتین میں ماں بننے کی صلاحیت کو متاثر کرتے ہیں جبکہ یہ حمل اور پیدائش میں پیچیدگی اور نومولود بچے میں بھی مختلف مسائل کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ادھر پاکستان کے محکمہ صحت کے مطابق پاکستان میں 1 کروڑ 70 لاکھ کے قریب افراد گردے کے مختلف امراض میں مبتلا ہیں اور ایسے مریضوں کی تعداد میں سالانہ 15 سے 20 فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔

    پاکستان میں ہر سال 20 ہزار اموات گردوں کے مختلف امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق گردوں کے امراض سے بچنے کے لیے پانی کا زیادہ استعمال، سگریٹ نوشی اور موٹاپے سے بچنا ازحد ضروری ہے۔ خود سے دوائیں کھانا یعنی سیلف میڈیکیشن اور جنک فوڈ بھی گردوں کے امراض کی بڑی وجہ ہیں۔

    ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ خصوصاً گرمی میں گردوں کے مریضوں کو زیادہ پانی پینا چاہیئے تاکہ پیشاب میں پتھری بنانے والے اجزا کو خارج ہونے میں مدد ملتی رہے کیونکہ یہی رسوب دار اجزا کم پانی کی وجہ سے گردے میں جم کر پتھری کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔

    گردے کے امراض کی بر وقت تشخیص کے لیے باقاعدگی سے بلڈ، شوگر، بلڈ پریشر، یورین ڈی آر اور الٹرا ساؤنڈ کروانا بھی ضروری ہیں۔

  • جناح اسپتال لاہور میں ایم ایس کی کرسی میوزیکل چیئر بن گئی

    جناح اسپتال لاہور میں ایم ایس کی کرسی میوزیکل چیئر بن گئی

    لاہور: جناح اسپتال لاہور میں ایم ایس کی کرسی میوزیکل چیئر بن گئی ہے، گزشتہ ایک سال میں جناح اسپتال کے کئی ایم ایس تبدیل کیے گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق جناح اسپتال لاہور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی کرسی غیر یقینی کا شکار ہو گئی ہے، ایک سال کے عرصے میں کوئی ایم ایس کرسی پر نہ ٹک سکا، سلیکشن کمیٹی نے محمد اقبال شاہد کی بہ طور ایم ایس تعیناتی کی سفارش کی تھی جس پر محکمہ صحت نے 28 جنوری کو ان کی مستقل تعیناتی کے احکامات جاری کیے۔

    محکمہ صحت نے اب اچانک ڈاکٹر محمد اقبال شاہد کو 25 فروری کو عہدے سے ہٹا دیا ہے، جس پر انھوں نے ایم ایس کی سیٹ سے ہٹانے کے آرڈر سروس ٹربیونل میں چیلنج کر دیے، سروس ٹربیونل نے اقبال شاہد کو سیٹ سے ہٹانے کے آرڈر معطل کر دیے۔

    موصولہ اطلاعات کے مطابق ٹریبونل نے محمد اقبال شاہد کو ایم ایس سیٹ پر کام نہ کرنے پر کل 12 مارچ کو طلب کر رکھا ہے، ایم ایس کو کام سے روکنے کے لیے ایم ایس آفس پر تالے بھی لگوا دیے گئے ہیں، معلوم ہوا کہ تالے پرنسپل علامہ اقبال میڈیکل کالج کی جانب سے لگوائے گئے۔

    یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جناح اسپتال لاہور میں اس وقت اقبال شاہد، پروفیسر عارف تجمل اور ڈاکٹر یحییٰ سلطان کے درمیان رسہ کشی جاری ہے، یہ واضح نہیں ہو پایا ہے کہ اس وقت اسپتال کے ایم ایس محمد اقبال شاہد ہیں یا ڈاکٹر یحییٰ سلطان؟ اسپتال کے ایم ایس کی ہر دو گھنٹے کے بعد تختی تبدیل کر دی جاتی ہے، مستقل ایم ایس نہ ہونے سے اسپتال کے انتظامی امور بری طرح متاثر ہو گئے ہیں۔

    اسپتال کی ایم آر آئی اور انجیو گرافی مشین 6 ماہ سے خراب ہے، تشخیصی ٹیسٹ کی کٹس ختم ہو چکی ہیں اور مریضوں کی دہائیاں سننے والا کوئی نہیں۔

  • چند گھنٹوں میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا ماسک تیار

    چند گھنٹوں میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا ماسک تیار

    برطانوی ماہرین نے ایسا ماسک تیار کرلیا جو کم وقت میں اور بالکل درست کرونا وائرس کی تشخیص کرسکتا ہے، جان لیوا کرونا وائرس سے دنیا بھر میں اب تک 3 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔

    برطانیہ کی یونیورسٹی آف لیسسٹر کے ماہرین نے کرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کی جانچ کے لیے جدید ماسک تیار کیا ہے۔ اس ماسک کے اندر تھری ڈی پرنٹڈ پٹیاں نصب کی گئی ہیں اور یہی پٹیاں وائرس کی تشخیص میں معاون ثابت ہوں گی۔

    یہ پٹیاں پہننے والے کی سانس کے ساتھ خارج ہونے والے چھینٹوں کو محفوظ کرتی ہیں اور بعد ازاں صرف اس ماسک کوٹیسٹ کر کے مذکورہ شخص میں کرونا وائرس کی درست تشخیص کی جاسکتی ہے۔

    2 یورو کا یہ ماسک اس سے قبل ٹیوبر کلوسس (ٹی بی) بھی تشخیص کرنے کے کام آچکا ہے، ماہرین کے مطابق ماسک نے ٹی بی کے 90 فیصد کیسز کی درست تشخیص کی۔

    اب یہ ماسک کرونا وائرس کی بھی تشخیص کرسکتا ہے کیونکہ یہ وائرس بھی ٹی بی ہی کی طرز پر پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت کرونا وائرس کی تشخیص میں 48 گھنٹوں کا وقت لگ جاتا ہے، متاثرہ ممالک سے واپس آنے والے والے افراد کی علامات کا جائزہ لینا، اس کے بعد ان کے نمونے جمع کرنا، انہیں ٹیسٹ کے لیے بھیجنا اور وہاں سے منفی یا مثبت تصدیق ہو کر واپس آنے تک 48 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔

    اس کے برعکس یہ ماسک صرف آدھے دن میں وائرس کی تشخیص کرسکتا ہے۔

    فی الوقت اس ماسک کی قیمت 2 یورو ہے تاہم اگر اسے بڑے پیمانے پر بنایا جائے تو اس کی قیمت مزید کم ہوجائے گی۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 89 ہزار 608 ہوچکی ہے جبکہ مہلک ترین وائرس کا شکار 45 ہزار 120 افراد صحتیاب بھی ہوئے ہیں۔

    کرونا وائرس سے اب تک دنیا بھر میں اموات کی تعداد 3 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔

  • کینسر کا عالمی دن: پاکستان میں کینسر کی شرح میں تشویشناک اضافہ

    کینسر کا عالمی دن: پاکستان میں کینسر کی شرح میں تشویشناک اضافہ

    آج دنیا بھر میں کینسر سے آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کا مقصد لوگوں کو اس مرض کے خطرات سے آگاہ کرنا اور اس کی روک تھام اور علاج کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہے۔

    کینسر کے خلاف آگاہی کا عالمی دن منانے کا آغاز یونین فار انٹرنیشنل کینسر کنٹرول نے سنہ 2005 میں کیا تھا۔ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتوں میں سے ہر آٹھویں ہلاکت کی وجہ کینسر ہے۔

    دنیا بھر میں ہر سال اندازاً 1 کروڑ سے زائد افراد مختلف اقسام کے کینسر کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ یہ تعداد ایڈز، ٹی بی اور ملیریا کی وجہ سے ہونے والی مشترکہ اموات سے بھی زائد ہے۔

    یو آئی سی سی کے مطابق سنہ 2030 تک دنیا بھر میں 3 کروڑ سے زائد افراد کینسر کا شکار ہوں گے۔

    پاکستان کینسر کا شکار افراد کے حوالے سے ایشیا کا سرفہرست ملک ہے۔ پاکستان میں کینسر سے جاں بحق ہونے والے افراد کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس میں بھی سب سے زیادہ تعداد سینے کے سرطان سے متاثرہ مریضوں کی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال چالیس ہزار سے زائد مریض بریسٹ کینسر کے سبب جاں بحق ہوتے ہیں۔

    کینسر کی بے شمار وجوہات ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ جینز میں رونما ہونے والے تغیرات ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ غذا میں پائے جانے والے چند عناصر مثلاً ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلاٹوکسن، تابکار اثرات، الیکٹرو میگنیٹک شعاعیں، وائرل انفیکشنز، فضائی، آبی اور غذائی آلودگی، فوڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائیں، سگریٹ نوشی، شیشہ کا نشہ، زہریلا دھواں اور زرعی ادویات وغیرہ کینسر کا سبب بن سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق غیر متحرک طرز زندگی گزارنا بھی کینسر کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ 30 سال سے کم عمری میں بچوں کی پیدائش اور بچوں کو طویل عرصہ تک اپنا دودھ پلا کر خواتین بریسٹ کینسر کے خطرے میں کمی کر سکتی ہیں۔