Tag: صحت

  • ڈائری لکھنے کے حیرت انگیز فوائد

    ڈائری لکھنے کے حیرت انگیز فوائد

                  ایک زمانے میں ذاتی ڈائری لکھنے کا رواج نہایت عام تھا، ہر دوسرا شخص ڈائری لکھا کرتا تھا اور اس میں اپنے دن بھر کے واقعات درج کیا کرتا تھا۔

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روایت ختم ہوتی گئی۔ جدید ٹیکنالوجی، موبائل فون، کمپیوٹر اور ٹیبلیٹس نے ایک طرف تو ڈائری کی جگہ لے لی تو ساتھ ہی اس وقت کو بھی مصروف کردیا جس وقت میں ڈائری لکھی جاتی تھی۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں ڈائری لکھنا آپ کو کیا کیا فوائد دے سکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق روزانہ ڈائری لکھنا بہت سے جسمانی و دماغی فوائد پہنچا سکتا ہے۔ یہ عادت انسان کی قوت مدافعت کو بہتر بناتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ڈائری لکھنا سانس کے مرض استھما میں کمی کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    ڈائری لکھنے کا سب سے اہم فائدہ دماغی تناؤ اور ڈپریشن میں کمی آنا ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈائری میں اپنے جذبات اور احساسات لکھ لینا آپ کو دماغی طور پر پرسکون کرتا ہے جس سے آپ کے ڈپریشن میں کمی آتی ہے۔

    یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی سے اپنی پریشانی کہہ کر اپنا دل ہلکا کرلیں۔

    ڈائری لکھنے سے انسان کو اپنی غلطیوں کو سمجھنے، انہیں درست کرنے، ان سے سیکھنے اور مستقبل میں نہ دہرانے میں بھی مدد ملتی ہے۔

    ہم دن بھر میں مختلف قسموں کی صورتحال سے گزرتے ہیں اور ان پر مختلف ردعمل دیتے ہیں، بعد میں ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارا ردعمل مناسب نہیں تھا۔

    ڈائری لکھنے کی عادت کی صورت میں دن گزرنے کے بعد جب ہم نئے سرے سے اس صورتحال پر غور کرتے ہیں تو اس صورتحال کا تجزیہ کرنے اور اس پر مناسب ردعمل کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوتے ہیں، یوں ہم جذباتی طور پر اپنے آپ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

    ڈائری لکھنے کی عادت آپ کو برے دنوں میں بھی اچھی اور خوشگوار یادیں یاد کروا سکتی ہے جس سے آپ کے دکھ اور ڈپریشن میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    اور ہاں، یاد رہے کہ ماہرین کے مطابق ڈائری لکھنے کا مطلب لمبے چوڑے صفحات بھرنا نہیں، ایک مخصوص وقت میں چند سطروں میں اپنے دن بھر کا احوال لکھ دینے سے بھی آپ مندرجہ بالا فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔

    تو پھر آپ کب سے یہ فائدہ مند عادت اپنا رہے ہیں؟

  • صحت کے شعبے میں حقیقی معنوں میں انقلابی تبدیلیاں لارہے ہیں، ڈاکٹرظفر مرزا

    صحت کے شعبے میں حقیقی معنوں میں انقلابی تبدیلیاں لارہے ہیں، ڈاکٹرظفر مرزا

    اسلام آباد: معاون خصوصی برائے صحت ظفرمرزا کا کہنا ہے کہ عوام کو بنیادی صحت کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بنیادی مرکز صحت  شاہ اللہ دتہ کا دورہ کیا، سیکرٹری وزارت ہیلتھ ڈاکٹر اللہ بخش ملک ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ ڈاکٹراسد حفیط بھی ان کے ہمراہ تھے۔

    ڈاکٹر ظفرمرزا کو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی جانب سے درپیش چیلنجز اور مسائل پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

    اس موقع پر ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ اسلام آباد کیپٹل کے ہیلتھ کیئر سسٹم کو ماڈل ہیلتھ کیئر سسٹم بنانے کا آغاز کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ماڈل ہیلتھ سنٹر کا آغاز شاہ اللہ دتہ کے بنیادی  ہیلتھ یونٹ سے کر رہے ہیں۔

    معاون خصوصی برائے صحت نے کہا کہ ہر ماہ میں اس بنیادی ہیلتھ سینٹر کا دورہ کروں گا خود جاری آصلاحات اور ترقیاتی کاموں کی مانیٹرنگ کروں گا۔

    انہوں نے کہا کہ میری پوری ٹیم بڑی محنت سے اس پر کام کر رہی ہے، بنیادی  ہیلتھ یونٹ کو مثالی یونٹ بنائیں گے اس کو ماڈل کے ظور پر پیش کریں گے۔

    ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ اسلام آباد کے صحت کے مراکز الیکٹرانک ریکارڈنگ اور کمپیوٹرز کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس یہاں کی پوری آبادی کا ڈیٹا موجود ہوگا۔

    معاون خصوصی برائے صحت نے کہا کہ لوگوں کی تمام بیماریاں اور ان کی موجودگی سے متعلق ہمارے پاس پوری آگاہی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہیلتھ کیئر سسٹم اگلے ڈیڑھ سال کے اندر اندر ایک ماڈل ہیلتھ کیئر سسٹم بن جائے گا۔

    وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے مزید کہا کہ صحت کے شعبے میں حقیقی معنوں میں انقلابی تبدیلیاں لا رہے ہیں۔

  • پنجاب کی سابق حکومت کی جعلی صحت اسکیم، عوام کو اربوں روپے کا چونا

    پنجاب کی سابق حکومت کی جعلی صحت اسکیم، عوام کو اربوں روپے کا چونا

    لاہور: سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت کے ایک اور سکینڈل کا پردہ فاش ہوگیا، سابق حکومت نے جعلی صحت اسکیموں سے عوام کو اربوں روپے کا چونا لگایا۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت کے ایک اور سکینڈل اور نااہلی سے پردہ فاش کردیا۔ سابق پنجاب حکومت نے من پسند نجی کمپنی میڈی ارج کے ساتھ پنجاب بھر میں 20 موبائل ہیلتھ یونٹ چلانے کا معاہدہ طے کیا تھا۔

    وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق ایک موبائل ہیلتھ یونٹ پر ماہانہ 25 لاکھ روپے خرچ ہوتے رہے۔ حکومت پنجاب اب اسی فری موبائل ہیلتھ یونٹ کو 25 لاکھ کے بجائے ماہانہ صرف 10 لاکھ روپے کے اخراجات پر ہزاروں مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔

    صوبائی وزیر نے کہا کہ فری موبائل ہیلتھ یونٹس لاہور، ملتان، بہاولپور، شیخوپورہ اور رحیم یار خان کے دور دراز علاقوں میں مریضوں کو بہترین علاج معالجہ کی مفت سہولت فراہم کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ فری موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے اب تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد مریضوں کو مفت علاج معالجے اور ادویات کی سہولت فراہم کر چکے ہیں۔ مریض فری موبائل ہیلتھ یونٹس کے ذریعے ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ، تمام بلڈ ٹیسٹس، اور آکسیجن سمیت مفت ادویات کی سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ شہباز شریف کی کرپٹ حکومت نے ماضی میں جعلی صحت اسکیموں سے عوام کو اربوں روپے کا چونا لگایا۔

  • ریٹائرمنٹ کا حیران کن فائدہ

    ریٹائرمنٹ کا حیران کن فائدہ

    کیا بہت سے لوگوں کی طرح آپ بھی ریٹائرمنٹ کو اپنی متحرک زندگی کا اختتام سمجھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کیا کریں گے؟ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ زندگی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    آسٹریلیا سے شائع ہونے والے جریدے ’ایج اینڈ ایجنگ‘ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جب لوگ مکمل طور پر کام کرنا بند کردیتے ہیں تو اس کے ایک سال بعد وہ زندگی سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔

    اس سے قبل ریٹائرمنٹ کے بعد خوشی کے بارے میں متضاد آرا تھیں۔ بعض ماہرین کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا ختم ہوجاتا ہے اور زندگی میں کچھ کرنے کا مقصد نہیں رہتا جو انسان میں بیزاری پیدا کرتا ہے۔

    دوسرے گروپ کا کہنا تھا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ وہ کام کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں جو وہ ساری عمر کرنا چاہتے ہیں پر کر نہیں پاتے۔

    اس بارے میں ایک ریٹائرڈ پروفیسر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ، ’ممکن ہے ریٹائرمنٹ کے بعد خوش رہنے کی وجہ یہ ہو کہ ہم اپنے روزمرہ کے کاموں کو زیادہ اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں اور ہمیں کسی چیز کی جلدی نہیں ہوتی‘۔

    تحقیق میں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ ریٹائرڈ افراد ریٹائرمنٹ سے پہلے جو کام کرتے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ کام کرنے میں نہایت خوشی محسوس کرتے ہیں۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ ریٹائرڈ افراد نے جب جسمانی یا سماجی سرگرمی میں حصہ لیا تو وہ زیادہ خوش اور مطمئن پائے گئے جبکہ گھر کے یا دیگر کام کرنے والے افراد نسبتاً کم مطمئن تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خوش رہنے کا تعلق نیند پوری ہونے سے بھی دیکھا گیا۔

    تحقیق کے مطابق کل وقتی نوکری سے ریٹائر ہونے والے افراد نے اگر کوئی جز وقتی ملازمت بھی کی تو اس سے ان کی خوشی میں اضافہ ہوا اور وہ اس نوکری سے لطف اندوز ہوتے دیکھے گئے۔

    اس بارے میں کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی پروفیسر کینتھ شلٹز کا کہنا ہے، ’جب لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد کام کرتے ہیں تو ان کا تجربہ مختلف ہوتا ہے۔ آپ کیریئر کے معاملے میں دباؤ کا شکار نہیں ہوتے نہ ہی آپ کو دوڑ میں آگے نکلنے کی فکر ہوتی ہے‘۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ جو لوگ ریٹائرمنٹ کے قریب ہوتے ہیں انہیں اضافی کام کرنا بوجھ معلوم ہوتا ہے اور اس سے ان کے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • صادق آباد کے 320 کلو وزنی شخص کو لاہور منتقل کر دیا گیا

    صادق آباد کے 320 کلو وزنی شخص کو لاہور منتقل کر دیا گیا

    لاہور: صادق آباد کے 320 کلو وزنی شخص نور الحسن کو لاہور منتقل کر دیا گیا، نور الحسن کو پاک فوج کی جانب سے ایئر ایمبولینس کی مدد فراہم کی گئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق موٹاپے کے شکار شخص کو لاہور منتقل کر دیا گیا ہے، نور الحسن کا وزن تین سو بیس کے جی ہے، لاہور منتقلی کے لیے انھیں پاک فوج نے ایئر ایمبولینس فراہم کی۔

    نور الحسن کا موٹاپا کم کرنے کے لیے نجی اسپتال میں سرجری کی جائے گی، انھوں نے ایک ویڈیو میں آرمی چیف سے اپیل کی تھی کہ انھیں ایئر ایمبولینس کی مدد فراہم کی جائے، جس پر پاک فوج کے سربراہ نے ہدایت جاری کر دی تھی۔

    نور الحسن کو گھر سے ایک ٹرک میں ڈال کر لے جایا گیا، بعد ازاں آرمی ہیلی کاپٹر میں انھیں لاہور منتقل کر دیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں:  آرمی چیف کی 320 کلو وزنی شہری کی مدد کے لیے ہدایت

    قبل ازیں نور الحسن کو ہیلی کاپٹر میں بٹھانے کے لیے ریسکیو 1122 سے مدد لی گئی، ریسکیو 1122 نے کرین کی مدد سے نور الحسن کو ایئر ایمبولیس میں سوار کیا۔

    ڈاکٹر معاذ الحسن لاہور میں نور الحسن کا موٹاپا کم کرنے کے لیے سرجری کریں گے۔

    واضح رہے کہ نور الحسن انتہائی زیادہ وزن کی وجہ سے حرکت کرنے سے قاصر ہیں، اور وہ دس سال سے بستر پر پڑے ہوئے ہیں، انھیں عام ایمبولینس پر منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا۔

  • آرمی چیف کی 320 کلو وزنی شہری کی مدد کے لیے ہدایت

    آرمی چیف کی 320 کلو وزنی شہری کی مدد کے لیے ہدایت

    صادق آباد: ضلع رحیم یار خان کے علاقے صادق آباد سے موٹاپے کے شکار ایک شہری نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مدد کی درخواست کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صادق آباد کے بیمار نور حسن نے آرمی چیف سے مدد کی درخواست کی ہے، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے صادق آباد کے شہری کی مدد کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔

    صادق آباد کے شہری نور حسن کا وزن 320 کلو گرام ہے، موٹاپے کے شکار شہری نے سوشل میڈیا پر آرمی چیف سے مدد کی اپیل کی تھی۔

    موٹاپے کی بیماری کے شکار نور حسن کو فوجی ایئر ایمبولینس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، نور حسن کو خصوصی ہیلی کاپٹر پر کل صادق آباد سے لاہور منتقل کیا جائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  آرمی چیف نے کینسر میں مبتلا 2 بچیوں کی خواہش پوری کر دی، آئی ایس پی آر

    پاک فوج کا ہیلی کاپٹر نور حسن کو لاہور منتقل کرے گا، نور حسن انتہائی زیادہ وزن کی وجہ سے حرکت کرنے سے قاصر ہے، اور وہ دس سال سے بستر پر پڑا ہوا ہے۔ نور حسن نے ایئر ایمبولینس کے لیے درخواست کی تھی۔

    موٹاپے میں مبتلا شہری کو عام ایمبولینس پر منتقل نہیں کیا جا سکتا تھا، لاہور کے نجی اسپتال میں نور حسن کا علاج کیا جائے گا۔

    یاد رہے کہ مارچ کے مہینے میں آرمی چیف نے کینسر میں مبتلا 2 بچیوں کی خواہش پوری کی تھی، بچیوں نے سپاہی بننے کی خواہش کی تھی، جویریہ اور روبا نے فوجی وردیاں پہن کر یادگار شہدا پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی۔

  • ملک کے 6 بڑے شہروں کے سیوریج میں پولیو وائرس موجود

    ملک کے 6 بڑے شہروں کے سیوریج میں پولیو وائرس موجود

    اسلام آباد: ملک کے مختلف شہروں سے نئے لیے گئے سیوریج کے نمونوں میں بھی پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی۔ نمونے کراچی اور لاہور سمیت 6 بڑے شہروں سے لیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق 8 اپریل تا 15 مئی کو مختلف شہروں سے لیے گئے سیوریج پانی کے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق 6 بڑے شہروں کے سیوریج میں پولیو وائرس کی موجودگی ثابت ہوگئی۔

    مذکورہ شہروں میں کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ، حیدر آباد اور راولپنڈی شامل ہیں۔

    کوئٹہ کے ریلوے پل اور طاؤس آباد کے علاقوں میں سیوریج میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔ حیدر آباد میں تلسی داس پمپنگ اسٹیشن، راولپنڈی میں صفدر آباد اور پشاور کے شاہین ٹاؤن کے سیوریج میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔

    لاہور میں آؤٹ فال ایف، جی، ایچ کے سیوریج میں جبکہ کراچی کے سہراب گوٹھ، راشد منہاس روڈ، چکورا نالہ اور کورنگی نالہ کے سیوریج میں پولیو وائرس کی موجودگی پائی گئی۔

    خیال رہے کہ اس وقت دنیا بھر میں صرف پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس موجود ہے۔

    رواں برس اب تک ملک میں 20 پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں۔ سب سے زیادہ پولیو کیسز خیبر پختونخواہ میں ریکارڈ کیے گئے جن کی تعداد 8 تھی، 6 کیسز قبائلی علاقوں میں، اور 3، 3 پنجاب اور سندھ میں ریکارڈ کیے گئے۔

    پولیو میں اضافے کو دیکھتے ہوئے پولیو ویکسی نیشن کے لیے عمر کی حد میں اضافے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا جس کے بعد راولپنڈی اور پشاور میں 10 سال تک کے بچوں کی بھی پولیو ویکسی نیشن کی جائے گی۔

  • پولیو کا شکار 19 میں 17 بچوں کا انسداد پولیو قطرے نہ پینے کا انکشاف

    پولیو کا شکار 19 میں 17 بچوں کا انسداد پولیو قطرے نہ پینے کا انکشاف

    اسلام آباد: وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے پولیو بابر بن عطا کا کہنا ہے کہ ملک میں رواں برس سامنے آنے والے 19 پولیو کیسز کے خون کے نمونے لے کر ٹیسٹ کروائے گئے جس سے پتہ چلا کہ 17 بچوں نے پولیو کے قطرے پیے ہی نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کا اجلاس سینیٹر عتیق شیخ کی سربراہی میں ہوا۔ وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے پولیو بابر بن عطا کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے۔

    بابر بن عطا نے اجلاس کو بتایا کہ ملک میں رواں برس سامنے آنے والے 19 پولیو کیسز کے خون کے نمونے لے کر ٹیسٹ کروائے گئے جس سے پتہ چلا کہ 17 بچوں نے پولیو کے قطرے پیے ہی نہیں۔

    سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ پولیو پر سینیٹر عائشہ رضا کے حوالے سے ٹویٹر پر دیے گئے پیغامات پر ہمارے تحفظات ہیں، بابر عطا اس کی وضاحت کریں۔ ’ٹویٹ ٹویٹ نہ کھیلا جائے اس لیے ہم نے اس مسئلہ کو کمیٹی ایجنڈے پر لیا ہے‘۔

    بابر عطا نے کہا کہ میں نے سینیٹ کا نام کسی بھی ٹویٹ میں استعمال نہیں کیا اگر ایسا ثابت ہو تو استعفیٰ دے دوں گا۔

    انہوں نے کہا کہ جس دن میرا نوٹیفکیشن ہوا اس دن مجھے ایک اخبار میں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس انٹرویو میں عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ بابر عطا یونیسیف میں ایک کلرک تھا۔ ’جب سوشل میڈیا پر مجھ پر حملہ کیا جاتا ہے تو میں کس جگہ جاﺅں‘۔

    عتیق شیخ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے میڈیکل کالجز کی فیس مقرر کر دی ہے پھر اضافی پیسے کیوں وصول کیے جا رہے ہیں۔

    سیکریٹری صحت زاہد سعید نے کہا کہ پرائیویٹ میڈیکل کالجز نے طلبا کی انشورنس کے لیے انشورنس کمپنیوں سے مک مکا کر لیا ہے۔ پی ایم ڈی سی قوانین کے مطابق پرائیویٹ میڈیکل کالجز خود سے اپنی مرضی کی انشورنس کمپنی سے انشورنس نہیں کروا سکتے۔

    عتیق شیخ نے کہا کہ اسلام آباد کے میڈیکل کالجز کی فیس کی مد میں تفصیلات کمیٹی میں پیش کی جائیں۔ پی ایم ڈی س کونسل کے صدر طارق بھٹہ شریف آدمی ہیں ان کے اختیار میں کچھ نہیں اصل اختیارات تو رکن علی رضا کے پاس ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ فیڈرل ہیلتھ اتھارٹی کا ایکٹ بنے ایک سال گزر گیا لیکن آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ وزیر اعظم کو خط لکھیں گے کہ ریگولیٹری اتھارٹی کے معاملات کو جلد ختم کیا جائے۔

  • ملک میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آ گیا، کراچی میں بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق

    ملک میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آ گیا، کراچی میں بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق

    کراچی: ملک میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آ گیا، کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے 6 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔

    ذرایع کے مطابق کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے 6 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے جس کے بعد ملک میں پولیو کیسز میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے۔

    ذرایع نے بتایا کہ پولیو سے متاثرہ بچے کے والدین ویکسین پلانے سے انکاری تھے، بچے کے نمونے 8 مئی کو قومی ادارہ صحت بھجوائے گئے تھے جہاں سے وائرس کی تصدیق ہوئی۔

    ملک میں رواں برس سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد 17 ہو گئی ہے، رواں برس کے پی سے 11، پنجاب اور سندھ سے تین تین پولیو کیس سامنے آ چکے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  سندھ میں خطرے کی گھنٹی بج گئی، پولیو کا ایک اورکیس سامنے آگیا

    یاد رہے کہ 7 مئی کو لاڑکانہ میں تین سالہ بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی تھی، تین سالہ فضا کو 10 بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے اور بچوں کے حفاظتی ٹیکے بھی لگائے جا چکے تھے۔

    اس سے قبل 21 مارچ کو کراچی کے علاقے لیاری سنگولین کی ساڑھے 3 سال کی صفیہ میں پولیو کی تصدیق ہوئی تھی، بچی نے پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کی تمام خوراکیں پی رکھی تھیں۔

    یہ بھی ملاحظہ کریں:  کراچی: ساڑھے 3 سال کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق

    خیال رہے اس وقت دنیا میں صرف 2 ممالک پاکستان اور افغانستان ایسے ہیں جہاں اب تک پولیو کا مرض مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔

  • دفتری ملازمین کے لیے 3 دن کا ویک اینڈ مالکان کے لیے فائدہ مند

    دفتری ملازمین کے لیے 3 دن کا ویک اینڈ مالکان کے لیے فائدہ مند

    ویک اینڈ کا آغاز ہوچکا ہے اور ہر ویک اینڈ کی طرح اس ویک اینڈ پر بھی آپ نے بہت سی تفریحات یا آرام کا منصوبہ بنا رکھا ہوگا لیکن ساتھ ہی کاموں کی ایک لمبی فہرست بھی اپنے انجام پانے کے لیے آپ کا انتظار کر رہی ہوگی۔

    ہم میں سے بہت سے افراد کو لگتا ہے کہ ایک یا 2 دن کا ویک اینڈ بہت جلدی گزر جاتا ہے اور انہیں مزید ایک دن کی تعطیل چاہیئے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قسم کے خیالات کا اظہار کرنے پر ایسے افراد کو بہت اجنبی نظروں سے دیکھا جاتا ہو۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں سائنسدانوں کا بھی یہی خیال ہے کہ ہر شخص کو ہفتے میں کم از کم 3 دن کا ویک اینڈ دیا جانا چاہیئے؟

    ان کا خیال ہے کہ 3 دن کا ویک اینڈ آپ کے کام کی استعداد اور کارکردگی میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    کے اینڈرس ایرکسن نامی ماہر نفسیات کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ کسی شخص کی بہترین صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے دن میں صرف 4 سے 5 گھنٹے کام لیا جائے۔

    ان کا کہنا ہے کہ کام کے 8 گھنٹوں میں سے بیشتر وقت لوگ سوشل میڈیا پر بے مقصد اسکرولنگ کرنے میں گزار دیتے ہیں۔

    اس کی جگہ اگر انہیں 4 یا 5 گھنٹے اس طرح کام کرنے کا کہا جائے جس کے دوران وہ بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹے رہیں، تو زیادہ بہتر اور معیاری نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    کے اینڈرس ایرکسن کے علاوہ بھی دیگر کئی ماہرین طب و سائنس کا کہنا ہے کہ ہفتے کے آغاز کے بعد ابتدا کے 4 دن ہماری توانائی برقرار رہتی ہے اور ہم بڑے بڑے ٹاسک سر انجام دے سکتے ہیں۔

    اس کے بعد ہم تھکن اور بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہماری کارکردگی میں کمی آنے لگتی ہے۔

    کچھ اسی طرح کی تحقیقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سنہ 2008 میں امریکی ریاست اوٹاہ کے گورنر نے بھی ایسا منصوبہ تشکیل دیا تھا جس کے تحت ملازمین ہفتے میں صرف 4 دن کام کریں گے، لیکن ان 4 دنوں میں وہ 10 گھنٹے اپنے دفاتر میں گزاریں گے۔

    اس رواج کا آغاز ہونے کے بعد مجموعی طور پر نہ صرف بجلی اور توانائی کے استعمال میں کمی دیکھی گئی، بلکہ ملازمین کی کارکردگی اور ان کے کام کے معیار میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔

    اسی طرح ایک اور امریکی ریاست کولو راڈو میں بھی ایک اسکول نے چوتھی اور پانچویں جماعت کے طالب علموں کے لیے اوقات کار میں کمی کردی جس کے بعد طلبا کی ذہنی استعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔ طلبا نے خاص طور پر سائنس اور ریاضی کے مضامین میں بہترین کارکردگی کا مظاہر کیا۔

    تو گویا ثابت ہوا کہ ایک یا 2 دن کا ویک اینڈ ہمارے لیے کافی نہیں، ہمارے اداروں کو ہماری بہترین کارکردگی حاصل کرنے کے لیے کم از کم 3 دن کی تعطیلات فراہم کرنی ہوں گی۔

    اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟