Tag: صحت

  • موٹاپے سے بچنے کے لیے رات کا کھانا ’دن‘ میں کھائیں

    موٹاپے سے بچنے کے لیے رات کا کھانا ’دن‘ میں کھائیں

    ماہرین موٹاپا کم کرنے کے بے شمار طریقے بتاتے ہیں۔ ان کے مطابق بے وقت کھانا یا بار بار کھانا موٹاپے کا سبب بنتا ہے جبکہ اگر جسم کو ایک مخصوص وقت کھانے کا عادی بنایا جائے تو یہ نظام ہاضمہ کے لیے بہتر ہوتا ہے۔

    حال ہی میں ماہرین نے موٹاپے پر قابو پانے کے لیے ایک اور دلچسپ تحقیق پیش کی ہے۔ انہوں نے دن کے ایک مخصوص حصہ میں رات کا کھانا کھانے اور اگلی صبح تک بھوکا رہنے کو موٹاپے میں کمی اور اس سے حفاظت کرنے والا عمل قرار دیا ہے۔

    مزید پڑھیں: موٹاپا دماغ کو جلد بوڑھا کرنے کا سبب

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق اگر آپ سر شام ہی رات کا کھانا کھا لیں اور اگلی صبح تک دوبارہ کچھ نہ کھائیں تو یہ عمل آپ کے نظام ہاضمہ کو آرام پہنچا کر اسے زیادہ فعال کرے گا۔ نتیجتاً آپ موٹاپے اور اس سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچ سکیں گے۔

    طبی ماہرین کی تجویز ہے کہ دن کا پہلا کھانا یعنی ناشتہ اگر جلدی کیا جائے یعنی کم از کم صبح 8 بجے تو یہ جسم اور دماغ دونوں کی توانائی کی ضروریات پورا کرتا ہے اور آپ کو موٹاپے سے محفوظ رکھتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سورج کی کرنیں موٹاپا کم کرنے میں مددگار

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بہت صبح کیا جانے والا ناشتہ ہمارے جسم سے زیادہ دماغ کے لیے فائدہ مند ہے۔ رات بھر سونے کے بعد ہمارا دماغ سست اور غیر فعال ہوتا ہے اور اسے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جو بھی پہلی غذا جسم میں جاتی ہے دماغ اسے اپنے لیے استعمال کرلیتا ہے۔

    ماہرین نے ناشتے میں چاکلیٹ کھانے کی بھی تجویز دی جس کے دماغی کارکردگی پر مفید اثرات ثابت کیے جاچکے ہیں۔ تحقیق کے مطابق صبح ناشتے میں کھائی جانے والی چاکلیٹ براہ راست دماغی خلیوں کی طرف جاتی ہے اور دماغی کارکردگی اور اس کی استعداد میں اضافہ کرتی ہے۔

    چونکہ اس کا بہت معمولی حصہ بقیہ جسم میں جاتا ہے لہٰذا یہ موٹاپے کا باعث بھی نہیں بنتی۔

    مزید پڑھیں: مرچیں کھانے سے موٹاپا کم کرنے میں مدد ملتی ہے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بار بار کھانے کے وقت کو تبدیل کرنا نظام ہاضمہ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے جس سے ہاضمے کا نظام غیر فعال ہو کر جسم کو موٹا کرنے لگتا ہے۔ لہٰذا متناسب اور چاق و چوبند جسم کے لیے ضروری ہے کہ کھانے کا مخصوص وقت مقرر کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صبح صبح کی جانے والی وہ غلطیاں جو پورا دن برباد کرسکتی ہیں

    صبح صبح کی جانے والی وہ غلطیاں جو پورا دن برباد کرسکتی ہیں

    رات کی پرسکون نیند ایک نعمت ہے۔ رات بھر سکون سے سونے کے بعد صبح اٹھتے ہی اگر غیر مناسب حالات کا سامنا کرنا پڑے تو رات کی پرسکون نیند بے فائدہ ہوجاتی ہے اور پورا دن بے کار گزرتا ہے۔

    بعض لوگ نیند سے اٹھ کر ایسی غلطیاں کرتے ہیں جو ان کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ آئیے جانتے ہیں وہ غلطیاں، شاید آپ بھی ان غلط عادات میں مبتلا ہوں۔

    آنکھ کھلتے ہی کام کرنا


    جیسے ہی آپ کی آنکھ کھلے ویسے ہی بستر سے اٹھ کر کام شروع کردینا پشت کے مسلز کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔ ساری رات حالت آرام میں رہنے کے بعد جسم سست ہوتا ہے اور فوری طور پر کام کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔

    نیند سے اٹھنے کے 1 سے 2 گھنٹے بعد کام شروع کریں۔


    بھوکا رہنا

    بعض لوگ صبح اٹھنے کے بعد بھوک محسوس نہیں کرتے چنانچہ وہ دن کا سب سے اہم کھانا یعنی ناشتہ چھوڑ دیتے ہیں۔ ناشتہ کرنا بے حد ضروری ہے لہٰذا اگر بھوک نہ لگے تب بھی ناشتہ ضرور کریں۔


    الارم کو ’سنوز‘ کرنا


    اگر آپ الارم کے بجتے ہی اسے ’سنوز‘ پر لگا کر دوبارہ سوجاتے ہیں اور 10 منٹ بعد الارم دوبارہ بج اٹھتا ہے، اور یہ سلسہ آدھے گھنٹے تک جاری رہتا ہے تو جان لیں کہ آپ اپنی صحت کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق الارم کی پہلی گھنٹی پر اٹھ کر بستر پر بیٹھ جانا زیادہ مفید ہے۔

    بار بار الارم بجنے سے نہ تو آپ ٹھیک سے سوپاتے ہیں اور نہ جاگ پاتے ہیں، یوں آپ کا دماغ تھکن کا شکار ہوجاتا ہے اور آپ سارا دن غنودگی محسوس کرتے رہیں گے۔


    ورزش نہ کرنا


    ورزش کرنے کے لیے سب سے مناسب وقت صبح کا ہے۔ اگر آپ دن کے کسی اور حصے میں ورزش کرتے ہیں تو یہ جسم کے لیے اتنی فائدہ مند نہیں جتنی صبح کی ورزش ہے۔

    بعض لوگ شام کے وقت ورزش کرتے ہیں۔ یہ ورزش ایک تھکن زدہ دن گزارنے والے جسم کو مزید تھکن کا شکار بنا دیتی ہے لہٰذا اس سے گریز کریں۔

    تو پھر کیا خیال ہے؟ کیا آپ اب بھی یہ غلطیاں کریں گے؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ 18-2017: صحت کے شعبے میں جدید اقدامات کی ضرورت

    بجٹ 18-2017: صحت کے شعبے میں جدید اقدامات کی ضرورت

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ آیا ہی چاہتا ہے اور ہر بار امیدیں پوری نہ ہونے کے باوجود عوام نے ایک بار پھر سے امیدیں لگا لی ہیں کہ شاید اس بار بجٹ میں عوام کا بھی خیال رکھا جائے۔

    لوگوں کی مسیحائی کا مقدس فریضہ انجام دینے والے لاکھوں ڈاکٹرز بھی پر امید ہیں کہ اس بار بجٹ میں نہ صرف ان کی ذاتی بلکہ شعبہ طب کی بہتری پر بھی توجہ دی جائے گی اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی طب میں کی جانے والی نئی ایجادات اور ٹیکنالوجیز کو متعارف کروایا جائے گا تاکہ معمولی بیماریوں کے ہاتھوں مرنے والے لاکھوں افراد کی جانیں بچائی جاسکیں۔

    پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ایسوسی ایشن طویل عرصے سے کوشش کر رہی ہے کہ بجٹ میں صحت کے لیے اعشاریوں پر مبنی بجٹ کے بجائے کل بجٹ کا 6 فیصد حصہ مختص کیا جائے۔

    انہوں نے کہا، ’لوگوں کی صحت، معاشروں اور ملکوں کی ترقی کی ضامن ہے۔ اگر لوگ صحت مند نہیں ہوں گے تو وہ کس طرح قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے‘؟

    ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ صحت جیسے اہم شعبے کے لیے بجٹ کا معقول حصہ مختص کرنا، اور اس رقم کو دانش مندی سے استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔

    انہوں نے اچانک پھیلنے والے وبائی امراض جیسے ڈینگی اور چکن گونیا کو صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے اقدامات پر زور دیا۔ ’ہم نے کئی سال پہلے خبردار کردیا تھا کہ ڈینگی کا مرض پاکستان میں پھیلے گا، تاہم اس وقت اس بات پر توجہ نہیں دی گئی‘۔

    ڈاکٹر قیصر نے دل دہلا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں زیکا وائرس بھی موجود ہے۔ یہ اچانک ایسے ہی ابھر کر سامنے آئے گا جیسے ڈینگی یا چکن گونیا سامنے آئے ہیں۔

    انہوں نے ان جان لیوا امراض کے درست طریقے سے سدباب کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا۔ ’اب جبکہ چکن گونیا پھیل گیا ہے، تو خطیر رقم خرچ کر کے اس کی کٹ منگوائی جارہی ہے۔ جبکہ مرض کی جڑ پر کسی کی توجہ نہیں‘۔

    ڈاکٹر قیصر کے مطابق ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس مچھر کی ایک ہی قسم سے ہوتے ہیں تو بجائے ان تینوں امراض پر بے تحاشہ رقم خرچ کرنے کے، اگر اس مچھر کے خاتمے پر توجہ دی جائے تو یہ تینوں خطرناک امراض خود ہی ختم ہوجائیں گے۔

    ڈاکٹرز کو سہولیات کی فراہمی

    اقوام متحدہ کی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ طب سے وابستہ افراد کو سہولیات کی فراہمی اور مراعات میں اضافہ سب سے زیادہ ضروری ہے اور ہمارے دیہی علاقوں میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی کی وجہ یہی ہے۔

    انہوں نے کہا، ’ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تنخواہیں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے ڈاکٹرز کے برابر ہونی چاہئیں‘۔

    ان کے مطابق سرکاری اسپتالوں میں لیبارٹریز اور مختلف امراض کے تشخیص کی مشینوں کی بھی ازحد ضرورت ہے۔ ’کئی امراض کو غلط تشخیص کیا جاتا ہے جس کے باعث بعض اوقات معمولی مرض بھی، جس کا بآسانی علاج کیا جاسکتا ہے، بڑھ کر جان لیوا صورت اختیار کرلیتا ہے‘۔

    انہوں نے ایک اور امر کی طرف اشارہ کیا کہ چھوٹے علاقوں، قصبوں اور گاؤں دیہاتوں میں صرف ڈسپنسریز بنانا کافی نہیں جہاں معمولی سر درد اور بخار کی ادویات موجود ہوں۔ بلکہ مختلف امراض کی باقاعدہ اسپیشلائزڈ ویکسین اور ادویات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔

    خواتین اور بچے مختلف امراض کا آسان ہدف

    ڈاکٹر سارہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں کی صحت کسی بھی ملک کی اول ترجیح ہونی چاہیئے کیونکہ یہ دونوں صحت مند ہوں گے تو ہی نئی نسل معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے گی، ’لیکن ہمارے یہاں صورتحال الٹ ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں بچوں کی پیدائش میں خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا ہوتا ہے جن پر دانش مندانہ حکمت عملی اپنا کر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔

    ان کے مطابق گاؤں دیہاتوں میں سرگرم عمل دائیوں، مڈ وائفس اور نرسز کی درست تربیت ضروری ہے تاکہ ان کے ہاتھوں کسی کی زندگی برباد نہ ہو۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق طب کے شعبے میں خواتین اور بچوں کے لیے مندرجہ ذیل خصوصی اصلاحات کی جانی بے حد ضروری ہیں۔

    حمل شروع ہونے سے لے کر بچے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد تک خواتین کے لیے خصوصی طبی سہولیات کی فراہمی اور دیکھ بھال۔

    نومولود بچوں کی تربیت یافتہ نرسز کے ہاتھوں دیکھ بھال۔

    ڈیلیوری کے لیے آسان اور کم قیمت پیکجز۔

    سرکاری اسپتالوں میں ماہر اطفال کی تعیناتی۔

    پیدائش سے قبل ماں کے لیے اور پیدائش کے بعد نومولود بچے کے لیے ضروری تمام ویکسین اور ٹیکوں کی دستیابی۔

    دور دراز گاؤں دیہاتوں میں موجود سرکاری اسپتالوں میں حاملہ خواتین کے لیے تمام ضروری سہولیات جیسے مطلوبہ ادویات، الٹرا ساؤنڈ مشینوں اور پیدائش کی بعد کسی پیچیدگی کی صورت میں وینٹی لیٹرز کی موجودگی۔

    صفائی ستھرائی کا فقدان

    ڈاکٹر سارہ نے مختلف پیچیدگیوں کے بڑھنے کی اہم وجہ صفائی ستھرائی کے فقدان کو قرار دیا۔

    ان کا کہنا تھا، ’گھروں میں اسپتال کھول لیے گئے ہیں جہاں ڈیلیوریز کروائی جارہی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں قائم سرکاری ڈسپنسریوں میں بھی صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا‘۔

    ان کے مطابق، ’چونکہ دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان ہے، لہٰذا ایک کم عمر لڑکی جس کا جسم کمزور ہو، اور جس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی کمزور ہو، مختلف جراثیموں کا آسان ہدف بن سکتے ہیں جو جان لیوا انفیکشنز پیدا کرسکتے ہیں‘۔

    شعور و آگاہی بھی ضروری

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق صحت سے متعلق بڑے پیمانے پر شعور و آگاہی کے پھیلاؤ کی بھی ضرورت ہے اور اس ضمن میں خصوصی پروگرامز بنا کر حکومت اور عوام دونوں اپنا کردار ادا کریں۔

    انہوں نے کہا، ’دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ یہ عمل ایک کم عمر لڑکی کو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے کیونکہ کم عمری میں بچوں کی پیدائش نہ صرف ماں بلکہ بچے کی صحت کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے‘۔

    ان کے مطابق کم عمری کی شادیاں بے شمار امراض میں مبتلا کرسکتی ہیں۔ بعض اوقات نو عمر لڑکیاں بچوں کی پیدائش کے دوران جان کی بازی بھی ہار جاتی ہیں۔

    انہوں نے کہا، ’نہ صرف حکومت بلکہ معاشرے میں بسنے والے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہم ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں‘۔

    ذہنی امراض کا سدباب اولین ترجیح

    ملک کے بدلتے حالات، دہشت گردی، غربت، بے روزگاری اور مختلف معاشرتی مسائل کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہی ہے اور ماہرین کے مطابق ان امراض کے سدباب کو اولین ترجیح دینی ضروری ہے۔

    کراچی میں ذہنی امراض کے اسپتال کاروان حیات کے ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے، ’یوں تو صحت ویسے ہی ایک نظر انداز شدہ شعبہ ہے لہٰذا باوجود اس کے، کہ ذہنی امراض کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے، یہ توقع کرنا بے فائدہ ہے کہ حکومت اس شعبے کی طرف خصوصی توجہ کرے‘۔

    انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے جو سب سے عام ذہنی مرض ہے۔ اس شعبے میں ہنگامی طور پر اصلاحات کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت جلد یہ دنیا کی بڑی بیماریوں میں سے ایک بن جائے گی۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق ذہنی امراض پر کام شروع کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی کا فروغ ہے۔ ’آج بھی کسی سے کہا جائے کہ کسی ماہر نفسیات کے پاس جاؤ، تو وہ ناراض ہوجاتا ہے کہ کیا تم مجھے پاگل یا نفسیاتی سمجھتے ہو‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ذہنی امراض کے حوالے سے بڑے پیمانے پر لوگوں میں شعور پھیلانے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی ہوا نہیں، عام اور قابل علاج مرض ہے۔ ’آج بھی اگر کوئی شخص کسی دماغی بیماری کا شکار ہوجائے تو اسے جن بھوت کا اثر سمجھ کر جعلی پیر فقیروں کے چکر لگائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو علم ہی نہیں کہ دماغی امراض بھی اب ایسے ہی عام ہوگئے ہیں جسیے نزلہ، زکام یا بخار‘۔

    ان کے مطابق جس طرح حکومت خاندانی منصوبہ بندی، ایڈز یا ڈینگی سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہمات چلاتی ہے، اسی طرح ذہنی امراض کے بارے میں بھی معلومات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ اگر ابتدائی مرحلے میں ذہنی امراض کی تشخیص کرلی جائے تو باآسانی ان کا علاج ہوسکتا ہے جس کے بعد مریض صحت مند ہو کر معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔ ’لیکن بات وہی کہ ذہنی مرض کو عام مرض کی طرح سمجھ کر ڈاکٹر کے پاس جایا جائے‘۔


    ماہرین طب کو امید ہے کہ اگر حکومت شعبہ صحت کو اہم خیال کرتے ہوئے نہ صرف بجٹ کا ایک خطیر حصہ اس مد میں مختص کرے، بلکہ اس بجٹ کے استعمال میں ذہانت، دور اندیشی اور ایمانداری سے بھی کام لے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ شعبہ بہتری کی طرف گامزن ہوجائے۔

  • مائیکرو ویوو میں تیار ہونے والی چائے صحت کے لیے فائدے مند ہے، تحقیق

    مائیکرو ویوو میں تیار ہونے والی چائے صحت کے لیے فائدے مند ہے، تحقیق

    سڈنی: آسٹریلیا میں ہونے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مائیکرو ویو ومیں تیارکردہ چائے صحت کے لیے فائدے مند ہے، اس کے استعمال سے دل کے امراض اور وزن میں کمی ہوسکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیوکاسل میں ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ مائیکرو  ویوو  میں تیار ہونے والی چائے میں ’پولی فینلز اور تھینائن‘ کے اثرات 80 فیصد موجود رہتے ہیں۔

    سائنسی ماہرین کے مطابق ایک چائے کے کپ میں پولی فینلز اور تھینائن کی 80 فیصد مقدار انسانی صحت کے لیے فائدے مند ہے کیونکہ یہ اجزا جڑی بوٹیوں یا سبز چائے میں پائے جاتے ہیں۔

    سائنسی ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ یہ دونوں اشیاء کولیسٹرول، زیابیطس، ہائی بلڈ پریشر اور دل سے متعلق امراض کے ساتھ ساتھ وزن میں کمی کے لیے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔

    تحقیق کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مائیکرو ویوومیں بنائی جانے والی چائے پینے والے شخص کو جسمانی آرام پہنچتا ہے اور وہ بیماریوں سے محفوظ بھی رہتا ہے۔

    قبل ازیں مختلف وقتوں میں سائنسی ماہرین مائیکرو ویوو میں گرم کی جانے والی اشیاء کے حوالے سے خبردار کرتے رہے ہیں، ایسے ماہرین کا ماننا ہے کہ مائیکرو ویو و میں موجود بلب کی شعاعیں انسانی صحت کے لیے مضر ہیں۔


    نوٹ: اگرآپ کو یہ خبرپسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • گھر میں پودے اگانے کے فوائد سے واقف ہیں؟

    گھر میں پودے اگانے کے فوائد سے واقف ہیں؟

    گھر میں پودے اگانے کے کئی فوائد ہیں۔ طبی ماہرین نے باقاعدہ اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ گھر میں اگائے گئے پودے طرز زندگی اور صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    ایک ڈاکٹر ایمی لاک کے مطابق ان کا بچپن جس گھر میں گزرا وہاں بے شمار پودے تھے۔ ’جب میں اس گھر سے باہر نکلی تو مجھے اندازہ ہوا کہ پودوں کی کمی مجھ پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ مجھے پودوں کی کمی محسوس ہونے لگی۔ چنانچہ میں جہاں بھی گئی میں نے اپنے آس پاس پودے ضرور لگائے‘۔

    گھر میں پودے اگانے کے مثبت اثرات کیا ہیں، آئیے آپ بھی جانیں۔

    :دماغی صحت پر اثرات

    plant-4
    ماہرین کے مطابق پودے چاہے درختوں کی شکل میں ہوں یا چھوٹے گملوں میں، یہ دماغی صحت پر اچھے اثرات ڈالتے ہیں۔ پودے آپ کا موڈ بہتر کرتے ہیں، آپ کے ذہنی دباؤ کو کم کرتے ہیں اور آپ کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق فطرت آپ کے موڈ کو تبدیل کردیتی ہے۔ اسی طرح اگر آپ کوئی تخلیقی کام کرنا چاہتے ہیں تو پودوں کے قریب بیٹھ کر کریں اس سے یقیناً آپ کی تخلیقی کارکردگی بہتر ہوگی۔

    :ہوا کے معیار میں بہتری

    plant-3
    گھر میں موجود پودے گھر کی ہوا کے معیار کو بہتر بناتے ہیں۔ آج کل جو ہوا ہمیں میسر ہے وہ آلودگی سے بھرپور ہے۔ پودے ہوا کو آلودگی سے صاف کرتے ہیں اور ہوا کو تازہ کرتے ہیں۔ پودے ہوا میں نمی کے تناسب بھی بڑھاتے ہیں۔

    :درد میں کمی کے لیے معاون

    plant-6
    سائنسدانوں کے مطابق پودے درد اور تکلیف کو کم کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں۔ ایک ریسرچ کے تحت ایک اسپتال میں مریضوں کے قریب پودے رکھے گئے۔ جن کے قریب پودے تھے ان مریضوں نے درد کش دواؤں کا کم استعمال کیا بہ نسبت ان مریضوں کے جن کے قریب پودے نہیں رکھے گئے تھے۔

    :جڑی بوٹیاں حاصل کریں

    plant-1
    گھر میں اگائے پودوں سے ہمیں غذائی اشیا اور جڑی بوٹیاں بھی حاصل ہوسکتی ہیں۔ جیسے ایلو ویرا، ہربز وغیرہ۔ ان پودوں سے اس مد میں خرچ ہونے والی رقم کی بھی بچت ہوسکتی ہے۔

  • خواتین ڈاکٹرز مرد ڈاکٹروں سے بہتر؟

    خواتین ڈاکٹرز مرد ڈاکٹروں سے بہتر؟

    آپ جب بھی کسی بیماری کا علاج کروانے جاتے ہیں تو خواتین ڈاکٹرز کو ترجیح دیتے ہیں یا مرد ڈاکٹرز کو؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مرد ڈاکٹرز آپ کا زیادہ بہتر علاج کر سکیں گے تو آپ کو فوراً اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔

    امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق خواتین ڈاکٹرز مرد ڈاکٹرز کی نسبت مریضوں کی زیادہ بہتر نگہداشت اور خیال کر سکتی ہیں۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ خواتین ڈاکٹرز خصوصاً مریض بزرگوں کا نہ صرف بہتر علاج کرتی ہیں بلکہ ان کا خیال بھی رکھتی ہیں۔

    خواتین ڈاکٹرز کے زیر علاج رہنے والے بزرگ افراد کے مرنے کی شرح کم دیکھی گئی جبکہ ان کے دوبارہ اسی بیماری کی وجہ سے پلٹ کر آنے کا امکان بھی کم ریکارڈ کیا گیا۔

    doctor-2

    یہ تحقیق دراصل طب کے شعبے میں مرد اور خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہوں اور دیگر سہولیات کا فرق دیکھنے کے لیے کی گئی۔ تحقیق میں دیکھا گیا ترقی یافتہ ممالک میں خواتین ڈاکٹرز کی تنخواہیں و مراعات مرد ڈاکٹرز کے مقابلے میں کم ہیں۔

    امریکا میں کیے جانے والے تحقیقی سروے میں مرد و خواتین کو ملنے والی سہولیات کا جائزہ بھی لیا گیا جن کی مقدار برابر تھی البتہ تنخواہ میں 50 ہزار ڈالر کا فرق دیکھا گیا۔

    تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر اشیش جھا کا کہنا ہے کہ طب کے شعبہ میں خواتین ڈاکٹرز کی کم تنخواہیں طب کے معیار کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

    ان کے مطابق حالیہ تحقیق ثابت کرتی ہے کہ کسی ملک کی صحت کی سہولیات کو بہترین بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ خواتین کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے۔

    ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ایک اور پروفیسر انوپم جینا نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’سروے کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ طبی شعبہ میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے اور مرد و خواتین کے درمیان تفریق کو ختم کیا جائے‘۔

  • دفتر میں سالگرہ منانے کا نقصان

    دفتر میں سالگرہ منانے کا نقصان

    اگر آپ اپنے دفتر میں اپنی یا اپنے ساتھیوں کی سالگراہیں منانے اور ان میں شریک ہونے کے عادی ہیں تو جان جائیں کہ آپ اپنی صحت کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں۔

    ماہرین طب نے خبردار کیا ہے کہ دفاتر میں ’کیک کلچر‘ موٹاپے اور دانتوں کی مختلف بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔ دفاتر میں اکثر ساتھیوں کی سالگراہیں، منگنی، شادی یا کسی کامیابی کی خوشی منانے کے لیے کیک کاٹا جاتا ہے اور ماہرین کے مطابق یہ صحت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

    cake-3

    ماہرین کے مطابق ایک دن کیک کاٹنا اور کھانا وزن کم کرنے پر کام کرنے والے افراد کی کوششوں کو ضائع کردیتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی جگہ پھلوں یا پنیر کا استعمال کیا جائے۔

    لندن کے رائل کالج آف سرجنز کے ایک پروفیسر کے مطابق دفاتر لوگوں میں شوگر، وزن میں اضافے اور دانتوں کی خراب صحت کی سب سے بڑی وجہ بن گئے ہیں۔

    cake-2

    پروفیسر کے مطابق کیک پر مکمل پابندی لگانا درست نہیں البتہ کم مقدار میں اور لنچ کے ساتھ کیک کھایا جائے۔

    واضح رہے برطانیہ میں ہر سال 65 ہزار افراد دانتوں کے مختلف امراض کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔

  • نمونیا کی تشخیص کرنے والی جیکٹ تیار

    نمونیا کی تشخیص کرنے والی جیکٹ تیار

    کمپالا: افریقی ملک یوگنڈا میں انجینئرز نے ایسی اسمارٹ جیکٹ ایجاد کی ہے جس کے ذریعہ نہایت کم وقت میں نمونیا کی تشخیص کی جاسکے گی۔

    اس ایجاد ک خالق اولیویا کوبورونگو نامی طالبہ ہے جسے اس ایجاد کا خیال اس وقت آیا جب اس کی دادی اس مرض کا شکار ہوگئیں اور مرض کی درست تشخیص نہ ہونے کے باعث وہ انہیں ایک سے دوسرے اسپتال تک لے کر گھومتے رہے۔

    مزید پڑھیں: نمونیا اور اس کی علامات سے آگاہی حاصل کریں

    اولیویا نے اس خیال کا اظہار کچھ انجینئرز اور ڈاکٹرز کے ساتھ کیا اور کچھ ہی عرصہ بعد ’ماما اوپ‘ (مدرز ہوپ ۔ ماں کی امید) نامی میڈیکل کٹ تخلیق کرلی گئی۔

    اس کٹ میں ایک اسمارٹ جیکٹ اور موبائل فون ایپلی کیشن شامل ہے جو نمونیا کی تشخیص کر سکتی ہے۔

    :استعمال کا طریقہ کار

    نمونیے کی تشخیص کے لیے اس جیکٹ کو متاثرہ بچے کو پہنایا جائے گا جس کے بعد جیکٹ میں موجود سینسرز بچے کے پھیپھڑوں کی آواز، اس کے درجہ حرارت اور سانس کی آمد و رفت کی رفتار سے مرض کی تشخیص کریں گے۔

    اس کے بعد یہ سینسرز بلو ٹوتھ کے ذریعہ جمع شدہ ڈیٹا کو موبائل فون کی ایپ میں بھیجیں گے جو اسی مقصد کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ ایپ میں موصول شدہ ڈیٹا کی جانچ کے بعد مرض کی نوعیت اور اس کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔

    uganda-1

    واضح رہے کہ نمونیا، ملیریا اور ٹی بی کی تشخیص کا واحد ذریعہ اسٹیتھو اسکوپ کے ذریعہ پھیپڑوں کی آواز سننا ہے جو ان تینوں امراض میں غیر معمولی ہوجاتی ہے۔ سانس سے متعلق امراض میں پھیپھڑوں سے چرچرانے کی آوازیں آتی ہیں۔

    یکساں طریقہ تشخیص کے باعث اکثر نمونیا کو ملیریا سمجھ کر اس کا علاج کیا جاتا ہے اور اس دوران وہ وقت گزر جاتا ہے جس میں نمونیا کا بروقت علاج کر کے اسے جان لیوا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افریقی ممالک میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے۔ ان ممالک میں انگولا، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔

    دوسری جانب یونیسف کا کہنا ہے کہ صرف یوگنڈا میں ہر سال 24 ہزار سے زائد بچے نمونیا کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں اکثر بچوں کی درست تشخیص نہیں ہو پاتی اور ان کے نمونیے کو ملیریا سمجھ کر اس کا علاج کیا جاتا ہے۔

  • یادداشت میں بہتری لانا چاہتے ہیں؟ یہ اشیا کھائیں

    یادداشت میں بہتری لانا چاہتے ہیں؟ یہ اشیا کھائیں

    کیا آپ جانتے ہیں کہ پھل اور سبزیاں نہ صرف ہمیں جسمانی بلکہ دماغی طور پر بھی فائدہ پہنچاتی ہیں اور ہماری دماغی استعداد میں اضافہ کرتی ہیں؟

    fruits-2

    کینیڈا کی مک ماسٹر یونیورسٹی کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق تازہ پھل اور سبزیاں دماغی کارکردگی اور یادداشت میں اضافہ کرتی ہیں۔ ماہرین نے اس فہرست میں تمام پھلوں اور سبز سبزیوں کے ساتھ زیتون کے تیل اور گری دار میووں کو بھی شامل کیا۔

    مزید پڑھیں: روزانہ خشک میوہ جات کا استعمال بے شمار بیماریوں سے بچائے

    ماہرین نے بتایا کہ یہ تمام غذائی اشیا ہمارے دماغ کو بوسیدگی سے محفوظ رکھتی ہیں اور ہم خرابی یادداشت کا شکار ہونے سے بھی بچ جاتے ہیں۔ یہی نہیں پھل اور سبزیاں ہماری دماغ کی استعداد اور فعالیت میں بھی اضافہ کرتی ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے 40 ممالک میں 27 ہزار سے زائد افراد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا جس کے بعد انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ درمیانی عمر میں پھلوں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال دماغ کے لیے نہایت مفید ہے۔

    fruits-3

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ صحت بخش غذاؤں کی وجہ سے موسمی و وبائی اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہونے کا امکان بھی 24 فیصد کم ہوجاتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چونکہ پھل اور سبزیاں کم چکنائی کی حامل، پوٹاشیئم، ریشہ، فولک ایسڈ، وٹامن اے اور وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں لہٰذا یہ فالج، کینسر اور امراض قلب سے بھی بچاتے ہیں۔

  • دفتر میں کرسی پر بیٹھنے کا درست انداز

    دفتر میں کرسی پر بیٹھنے کا درست انداز

    دفتر میں دن کا بڑا حصہ بیٹھ کر گزارنا بے شمار مسائل و طبی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔

    مستقل بیٹھے رہنے سے آپ سب سے پہلے موٹاپے کا شکار بنتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کو کمر، پیٹھ اور گردن کا درد شروع ہوتا ہے۔

    کچھ عرصہ بعد ورزش نہ کرنے اور خون کی روانی سست ہونے کے باعث آپ کی ٹانگوں میں بھی درد شروع ہوجاتا ہے۔ مزید آگے چل کر یہ امراض قلب اور فالج کا سبب بھی بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دفتر میں ورزش کرنے کی کچھ تراکیب

    اس سے قبل طبی ماہرین تجویز دیتے تھے کہ آپ کو ان مسائل سے بچنے کے لیے اپنی کرسی پر 90 ڈگری کے زاویے سے بیٹھنا چاہیئے یعنی بالکل سیدھا، کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بغیر۔

    chair-1

    لیکن جدید تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس انداز سے بیٹھنا آپ کے لیے سخت نقصان دہ ہے اور اگر آپ اس انداز سے بیٹھنے کے عادی ہیں تو آپ کے تمام طبی مسائل کی جڑ بیٹھنے کا یہی انداز ہے۔

    نیویارک کی کورنیل یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایلن ہیج کہتے ہیں کہ اس انداز سے بیٹھنے پر آپ کو مختلف کاموں کے لیے اپنے جسم کی مطابقت کرنا مشکل کام ہوگا۔

    مزید پڑھیں: دفتر میں 8 گھنٹے گزارنا کتنا ضروری؟

    مثال کے طور پر اگر آپ کی کمپیوٹر اسکرین آگے رکھی ہے تو ایسے پوز میں بیٹھتے ہوئے آپ کو تھوڑا آگے جھکنا ہوگا جس سے آپ کی کمر، گردن، پیٹھ، اور کولہوں پر شدید دباؤ پڑے گا نتیجتاً آپ مختلف اقسام کے درد میں مبتلا ہوجائیں گے۔

    ان کا کہنا ہے کہ دفتر میں کرسی پر زیادہ سے زیادہ آرام دہ حالت میں بیٹھنا چاہیئے یعنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر۔ اس طریقے سے آپ کے جسم کا زور کرسی پر ہوگا۔

    desk-3

    انہوں نے بتایا کہ آرام دہ حالت میں بیٹھنے سے آپ کے کولہوں، کمر اور گردن پر زور نہیں پڑے گا۔ اس انداز میں آپ کی ٹانگیں بھی آرام دہ حالت میں رہیں گی اور آپ انہیں میز کے نیچے پھیلا سکیں گے جس سے ٹانگوں میں خون کی روانی بہتر ہوگی۔

    اس طریقے سے بیٹھنے پر آپ 8 گھنٹوں کے علاوہ بھی مزید وقت کے لیے بیٹھ کر کام کرسکیں گے۔ یاد رہے کہ یہ عین وہی طریقہ ہے جو ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    desk-4

    اسی طرح جب آپ اپنی ڈیسک پر بیٹھیں تو چیزوں کو اپنے حساب سے ترتیب دیں۔ کمپیوٹر اسکرین، ماؤس اور کی بورڈ اگر دور رکھا ہے تو اسے قریب کرلیں تاکہ آپ بغیر دباؤ اور کھنچاؤ کے کام کرسکیں۔

    اور ہاں دن میں ایک سے 2 بار چائے کے وقفے لینا نہ بھولیں تاکہ آپ اپنے پورے جسم میں خون کی روانی کو تیز کرسکیں۔