Tag: صحت

  • دانتوں کو صحت مند بنانے کے لیے یہ چیز استعمال کریں

    دانتوں کو صحت مند بنانے کے لیے یہ چیز استعمال کریں

    ناریل کا تیل مختلف استعمالات کے لیے عام شے ہے جو بے حد فوائد رکھتا ہے، لیکن اس کا استعمال گلے اور دانتوں کے لیے بھی بہت فائدہ مند ہے۔

    ناریل کا تیل کھانا پکانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں شامل اینٹی مائکروبیل اور اینٹی آکسیڈنٹ صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہیں۔

    اس کا استعمال دانتوں کے امراض اور کیڑوں کی روک تھام، مسوڑھوں کی سوزش کم کرنے اور دانتوں کی چمک دمک برقرار رکھنے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

    دانتوں کے امراض سے نجات کے لیے اس کا استعمال انتہائی سہل ہے، روزانہ ایک چمچ ناریل کے تیل سے غرارے کریں اور اس کے لیے اسے دیر تک منہ میں گھماتے رہیں، پھر برش یا مسواک سے دانت صاف کرلیں۔

    باقاعدگی سے برش نہ کرنے سے دانتوں میں غذا کے ذرات پھنس کر ان پر میل جمنے کے علاوہ خردبینی حیوانیے، بیکٹریاز بھی جمع ہوجاتے ہیں، جن کے سبب رفتہ رفتہ دانتوں کی چمک دمک ختم ہونے لگتی ہے۔

    ایسی صورت میں ناریل کے تیل سے غرارے کرنا انتہائی سود مند ثابت ہوتا ہے، کیوں کہ غراروں کے دوران ناریل کا تیل منہ کی جھلی میں جذب ہوکر نہ صرف ورم کم کرتا ہے، بلکہ دانتوں کے اندر موجود نقصان دہ بیکٹریاز کو تلف بھی کردیتا ہے۔

    علاوہ ازیں یہ سانس کو خوشبودار کرتا ہے اور مسوڑھوں کی حفاظت کے ساتھ دانتوں کو گلنے سڑنے سے بھی بچاتا ہے۔

    بعض افراد کو ناریل کے تیل سے الرجی بھی ہوسکتی ہے، ایسے لوگ اس کے استعمال سے گریز کریں۔

  • باڈی اسپرے چھڑکنے سے پہلے اس کے خطرے سے آگاہ ہوجائیں!

    باڈی اسپرے چھڑکنے سے پہلے اس کے خطرے سے آگاہ ہوجائیں!

    خوشبو کے لیے استعمال کیے جانے باڈی اسپریز یا ایئر فریشنر بظاہر تو اچھے معلوم ہوتے ہیں لیکن اپنے اندر ایسے اجزا رکھتے ہیں جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

    حال ہی میں برطانیہ میں ایک 14 سالہ بچی باڈی اسپرے کے بے تحاشہ استعمال کے باعث ہلاک ہوگئی جس کے بعد ان اسپریز کے استعال پر سوالیہ نشان اٹھ گئے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ بابر سعید خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ باڈی اسپریز اور ایئر فریشنر بالعموم بڑوں اور بالخصوص بچوں کے لیے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر بابر کا کہنا تھا کہ ان اسپریز میں ایسے اجزا موجود ہوتے ہیں جو سانس کے ساتھ پھیپھڑوں میں جا کر طبیعت خرابی کا سبب بن سکتے ہیں، علاوہ ازیں ان کی وجہ سے حرکت قلب بند بھی ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا اگر جسم کی صفائی ستھرائی رکھی جائے، اور گھروں کو بھی صاف رکھا جائے اور ہوا کی مناسب آمد و رفت کا خیال رکھا جائے تو نہ بدبو پیدا ہوگی نہ خوشبویات کی ضرورت پڑے گی۔

    ڈاکٹر بابر نے یہ بھی کہا کہ ہمارے گھروں کی تعمیر ایئر کنڈیشنر کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے اور وینٹی لیشن کے تمام ذرائع بند ہوجاتے ہیں، ایسے گھروں اور کمروں میں آکسیجن کی کمی واقع ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ صبح اٹھنے کے بعد سر درد اور سر میں بھاری پن محسوس ہوتا ہے۔

  • جلد کی خوبصورتی کے لیے گرم پانی پینے کی عادت نہایت فائدہ مند

    جلد کی خوبصورتی کے لیے گرم پانی پینے کی عادت نہایت فائدہ مند

    ہمارے جسم کو روزانہ 8 گلاس پانی کی ضرورت ہے جو جسم کے لیے ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ فائدہ مند بھی ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ گرم پانی ان فوائد کو بڑھا دیتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق گرم پانی پینے کے فوائد حیران کن ہیں، آئیں جانتے ہیں گرم پانی پینے سے کیا کیا فائدے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    گرم پانی کا استعمال جلد پر ایکنی کے نتیجے میں ہونے والی سوجن کو کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے اور جلد کو تازگی فراہم کرتا ہے۔

    گرم پانی پینے کا ایک اور فائدہ یہ ہے کہ آپ کا جسم آپ کی جلد سے تمام زہریلے مادوں کو بہت آسانی سے باہر نکال دیتا ہے، اور یہ آپ کی رنگت اور بناوٹ میں مجموعی طور پر بہتری کا باعث بنتا ہے، لہٰذا خشک یا کھردری جلد کو صاف کرنے کے لیے گرم پانی پینا اپنی عادت بنالیں۔

    ایکنی کی وجہ سے چہرے پر اکثر نشانات رہ جاتے ہیں تو اس کا سب سے مؤثر علاج گرم پانی ہے، یہ نہ صرف ان نشانات کو کم کرتا ہے بلکہ ایکنی سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔

    جس طرح آپ اپنے چہرے پر جمی چکنائی اور گرد کو صاف کرنے کے لیے کلینزنگ کرتے ہیں، اسی طرح جسم کو بھی ڈیٹوکس کرنا نہایت ضروری ہے، گرم پانی جسم کے زہریلے مادوں کو جسم سے باہر خارج کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

    اس طرح عمر رسیدگی کی قبل از وقت سامنے آنے والی علامات کو روکا جا سکتا ہے۔

    جب ہم گرم پانی پیتے ہیں تو یہ ہمارے خلیات کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتا ہے، ان میں لچک اور کولیجن کی پیداوار کو بڑھاتا ہے اور جلد کے مجموعی معیار کو بہتر بناتا ہے۔

    پانی نہ صرف جلد کو ہائیڈریٹ رکھتا ہے، بلکہ یہ دنیا کا بہترین مشروب ہے جو جسم کے ہر عضو کے نظام کو متاثر کرتا ہے، پٹھوں سے لے کر ہاضمے تک یہ سب کو صحت مند رکھتا ہے۔

    جب ہاضمہ بہتر اور جسم صحت مند ہوگا تو دوران خون بھی بہتر رہے گا، جو چہرے پر سرخی اور جلد کی چمک کا باعث بنے گا۔

  • کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر ہے؟ ٹونا مچھلی کی اقسام اور مکمل معلومات

    پچھلی تحریر میں ہم نے مرکری کی سطح کے حوالے سے بتایا تھا کہ کون سی مچھلی کتنی مقدار میں کھانی چاہیے؟ اب اس تحریر میں ایک اور اہم سوال کا جواب فراہم کیا جا رہا ہے کہ کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر ہے؟

    دنیا بھر میں ٹونا کی کل 15 اقسام پائی جاتی ہیں، جب کہ پاکستان کے پانیوں میں اس کی عام طور سے اور زیادہ دیکھی جانی والی 4 اقسام موجود ہیں۔

    1… یلو فِن ٹونا (Yellowfin Tuna)

    2… بلو فِن ٹونا (Bluefinfin Tuna)

    3… بونیٹو (Bonito)

    4… بِگ آئی ٹونا (bigeye Tuna)

    مندرجہ بالا چار اقسام میں بلو فِن ٹونا بہت کم نظر آتی ہے، جب کہ باقی 3 اقسام عام ہیں۔

    یہ تو آپ نے پڑھا ہوگا کہ مچھلی قدرت کی جانب سے طاقت کا ایک خزانہ ہے، ماہرین غذائیات کہتے ہیں کہ ایک صحت مند جسم کی تشکیل لیے مچھلی کا باقاعدہ استعمال نہایت ضروری ہے، لیکن جیسا کہ پھول کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں، ویسا ہی مچھلی کے بیش بہا فائدوں کے ساتھ اس کا ایک نقصان بھی ہے۔

    یہ نقصان مرکری (پارہ) کی صورت میں ہے، جو صحت کے لیے نقصان دہ ہے، مچھلی کی ہر جاتی کا الگ الگ مرکری لیول ہوتا ہے، تو آئیں، ٹونا کے مرکری لیول کو سمجھتے ہیں۔

    ٹونا میں کتنا مرکری ہے؟

    ٹونا کی اقسام میں سب سے زیادہ مرکری بلو فِن ٹونا میں پایا جاتا ہے، جو کہ 1.0 پی پی ایم ہے، جو کہ ایک مہلک سطح ہے۔ اس کے بعد بگ آئی ٹونا ہے جس میں 0.689 پی پی ایم مرکری پایا جاتا ہے، جو کہ پارے کی ہائی لیول سمجھی جاتی ہے۔ تیسرے نمبر پر یلو فِن ٹونا ہے جس کا مرکری لیول 0.354 ہے، جو کہ ایک قابل قبول اور میڈیم رینج ہے، جب کہ آخر میں بونیٹو ہے۔ اگر چہ بونیٹو میں باقی ٹونا کی نسبت کم پارہ پایا جاتا ہے لیکن اس کا گوشت ڈارک، ٹوٹنے پھوٹنے، اور ذائقہ دار نہ ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔

    پہچان

    اگرچہ تصاویر ساتھ دی گئی ہیں لیکن پھر بھی آسانی کے لیے بتاتے چلیں کہ بلو فِن پر نیلے رنگ کی پٹی ہوتی ہے، جو اوپر کی سمت آنکھوں کے پیچھے سے شروع ہو کر دم تک جاتی ہے، بونیٹو پر اوپر کی سمت دھاریاں اور ڈاٹ ہوتے ہیں۔ بگ آئی کے پر کالے اور جسم سلور اور کالے رنگ کی ہوتی ہے، جب کہ یلو فِن کے پر پیلے اور آنکھوں کے پیچھے سے ایک پیلا شیڈ دم تک جاتا ہے۔

    ٹونا اور سرمائی میں مچھلی فروشوں کا فراڈ

    مچھلی سے عوام کی عدم دل چسپی کے باعث مچھلی فروش اس کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سستی مچھلیاں مہنگی مچھلیوں والے نام بتا کر لوگوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ اگر ہم صرف ٹونا کی بات کریں تو مشہور مچھلی کنگ میکرل یعنی کہ سرمائی کے نام پر ٹونا بیچی جاتی ہے۔

    دونوں کی قیمت میں ڈبل سے بھی زیادہ فرق ہوتا ہے، سرمائی کی A گریڈ کی قیمت آج کل 1600 روپے ہے، جب کہ ٹونا کی 500 روپے۔ تصاویر میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ دونوں کی جسمانی ساخت اور رنگ میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن مچھلیوں سے لوگوں کی لاعلمی انھیں اپنے ہی ہاتھوں لٹوا دیتی ہے۔

    اسی طرح بونیٹو یعنی کہ چکی فش کو اصلی ٹونا کے نام پر بیچا جاتا ہے، بونیٹو کی قیمت 200 روپے تک ہوتی ہے جب کہ ٹونا کی 500 کے آس پاس ہوتی ہے۔

    کون سی ٹونا صحت کے لیے بہتر اور ذائقے دار ہے؟

    جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ بلو فِن اور بگ آئی ٹونا کا مرکری لیول بہت زیادہ ہوتا ہے، اور بونیٹو بے کار ہے، اس لیے ان تینوں کو نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے، بالخصوص بلو فن ٹونا کو۔

    یلو فِن کا مرکری لیول میڈیم رینج کا ہے، گوشت بھی زیادہ سیاہ نہیں ہے، فوائد بھی بہت ہیں اور ذائقہ بھی اچھا ہے، اس لیے ہمیشہ یلو فِن ٹونا ہی خریدیں۔ چوں کہ یلو فن کی تعداد کم ہے اس لیے یہ آپ کو مارکیٹ سے کم ہی دستیاب ہوگی، اور آپ کو بگ آئی ہر طرف ملے گی، لیکن اگر آپ کو یلو فِن نہیں ملتی تو آپ بہ حالت مجبوری بگ آئی ٹونا بھی لے سکتے ہیں۔ لیکن پھر آپ کو خوراک میں رد و بدل کرنی پڑے گی۔

    یلو فِن آپ مہینے میں 4 مرتبہ کھا سکتے ہیں لیکن بگ آئی ٹونا صرف 2 مرتبہ کھانا بہتر ہے۔ ایف ڈی اے کی تجویز کردہ خوراک کے مطابق آپ بگ آئی ٹونا 5 اونس یعنی 140 گرام ہفتے میں 3 مرتبہ کھا سکتے ہیں۔

    یلو فِن ٹونا کے فوائد

    یلو فِن ٹونا میں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز ہوتے ہیں، جو دل کی صحت کو بہتر بنانے اور کولیسٹرول کو کم کرنے، دماغی افعال کو بڑھانے اور آنکھوں کی صحت کو بہتر کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اومیگا 3 ہڈیوں اور جوڑوں کی بیماری دور کرنے اور کینسر کو روکنے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے، اس میں اومیگا 3 کا لیول 0.4 گرام پر 6 اونس ہے۔

    یلو فِن ٹونا پروٹین میں زیادہ اور کیلوریز میں کم ہوتی ہے، اس لیے یہ جسم کو طاقت دینے کے ساتھ ساتھ وزن بھی بڑھنے نہیں دیتی، یہ پوٹاشیم کا بھی بھرپور ذریعہ ہے۔ ایک 3 اونس یلو فِن ٹونا کی سروِنگ میں 93 کیلوریز ہوتی ہیں، اور یہ 21 گرام پروٹین فراہم کرتا ہے۔ اس میں موجود پوٹاشیم بلڈ پریشر کی سطح کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یلو فِن کے 100 گرام میں 527 ملی گرام پوٹاشیم ہوتا ہے۔

    یلو فن ٹونا میں زنک، مینگنیز اور وٹامن سی جیسے غذائی اجزا ہوتے ہیں جو قوت مدافعت کو بڑھانے اور بیماریوں کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتے ہیں، 100 ملی گرام میں 42 ملی گرام میگنیشیم اور 64 ملی گرام زنک ہوتا ہے۔ زنک ایک اہم معدنیات ہے جو جسم کے بہت سے معمول کے افعال اور نظاموں کے لیے ضروری ہے، بشمول مدافعتی نظام، زخم بھرنے، خون کا جمنا، تھائرائیڈ گلینڈ کی حفاظت کرنا، ذائقہ اور سونگھنے کی حس کو معمول میں رکھنا۔ زنک حمل، بچپن اور جوانی کے دوران معمول کی نشوونما میں بھی مدد کرتا ہے۔

    میگنیشیم جسم میں بہت سے افعال کے لیے اہم ہے، یہ عضلات اور اعصاب کو صحیح طریقے سے کام کرنے، بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر کو صحیح سطح پر رکھنے اور پروٹین، ہڈی اور ڈی این اے بنانے کے لیے ضروری ہے، وقت کے ساتھ میگنیشیم کی کم سطح کیلشیم اور پوٹاشیم کی سطح کو کم کر سکتی ہے۔

    سیلینئیم

    سب سے اہم بات یہ کہ یلو فِن ٹونا میں سب سے زیادہ سیلینیم ہوتا ہے جو کہ 92 مائکرو گرام فی 3 اونس ہے، اس کے بعد جھینگے، کیکڑے، سیپیاں، لور یا سارڈین اور حجام ہیں جن میں 60 مائکروگرام تک سیلینیم ہوتا ہے۔ باقی سمندری غذاؤں میں یلو فِن سے تقریباً آدھا سیلینیم ہوتا ہے۔

    سیلینیم مختلف انزائمز اور پروٹینز کا ایک لازمی جزو ہے، جسے سیلینو پروٹین کہتے ہیں، جو ڈی این اے بنانے اور سیل کو پہنچنے والے نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں مدد کرتے ہیں۔ سیلینیم مدافعتی نظام کے افعال اور تولیدی عمل کو بہتر بنانے میں مدد کر تا ہے۔ اس لیے بانجھ پن کی ادویات میں سیلینیم شامل کیا جاتا ہے تا کہ تولیدی عمل کو بڑھایا جا سکے۔

    یہ تھائرائیڈ ہارمون، میٹابولزم اور ڈی این اے کی ترتیب کو برقرار رکھنے اور جسم کو آکسیڈیٹیو نقصان اور انفیکشن سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، اور امیون سسٹم کو طاقت دے کر جسم کو بیماریوں سے لڑنے میں مدد دیتا ہے۔

    ان نتائج سے معلوم ہوا کہ مچھلی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے، مچھلی باقاعدگی سے ہر کوئی نہیں کھاتا، سب فاسٹ فوڈز، کڑاھیاں، بریانیاں اور پلیٹرز کی طرف جاتے ہیں، اور بیماریاں پیسوں سے خرید کر خوشی خوشی نوش کرتے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شوگر، بلڈ پریشر، ہڈیوں اور دل کی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔

    مچھلی کے باقاعدہ استعمال سے ان بیماریوں سے بچاؤ بالکل ممکن ہے، ماہرین غذائیات کے مطابق جو لوگ باقاعدگی سے مچھلی کھاتے ہیں، ان میں شوگر اور بلڈ پریشر کی سطح نارمل ہوتی ہے، ہڈیاں مضبوط اور صحت مند اور دل بالکل نارمل کام کر رہا ہوتا ہے۔ اس لیے مچھلی سارا سال باقاعدگی سے کھانی چاہیے۔

    A گریڈ خریدیں اور فرائی نہ کریں

    لیکن خیال رہے کہ ہمیشہ تازی یعنی A گریڈ اور 5 کلو سے نیچے کا پیس لیا کریں، اور ٹونا کو اپنی خوراک کا لازمی حصہ بنائیں، بدقسمتی سے ٹونا کو اس کے لال گوشت کی وجہ سے پاکستان میں پسند نہیں کیا جاتا، جب کہ امریکا، یورپ، چین اور جاپان میں اس کے فوائد کی وجہ سے یہ بہت مقبول اور مہنگی مچھلی ہے۔

    یاد رکھیں کہ ٹونا مچھلی فرائی کرنے کے لیے نہیں ہے، اس کو ہمیشہ بریانی اور سالن یا قورمے کے لیے استعمال کریں۔

  • پاؤں کی چھوٹی انگلی کسی چیز سے ٹکرانے پر شدید تکلیف کیوں ہوتی ہے؟

    پاؤں کی چھوٹی انگلی کسی چیز سے ٹکرانے پر شدید تکلیف کیوں ہوتی ہے؟

    کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کے پاؤں کی چھوٹی انگلی بے دھیانی میں کسی چیز سے ٹکرائی ہو اور آپ شدید تکلیف سے ناچ اٹھے ہوں؟

    ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ گھر میں گھوم رہے ہیں اور اچانک پیر کی چھوٹی انگلی کسی چیز سے ٹکرا جائے اور اس کے ساتھ ہی شدید تکلیف کا جھٹکا پورے جسم میں دوڑنے لگے۔

    ایسا ہوتے ہی آپ کے منہ سے چیخ نکل جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اپنی جگہ منجمد ہوگئے ہیں۔

    درحقیقت کوئی بھی تکلیف ایسی نہیں ہوتی جتنی پاؤں کی چھوٹی انگلی کے کسی دروازے یا میز وغیرہ سے ٹکرانے سے ہوتی ہے، حیران کن طور پر عموماً چوٹ معمولی ہوتی ہے تو پھر ایسا کیوں لگتا ہے جیسے پیر میں کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو؟

    اس سوال کا جواب پیروں میں اعصابی فائبرز کی اقسام اور تعداد میں چھپا ہوا ہے جو آپ کو تکلیف سے ناچنے پر مجبور کرتا ہے۔

    جسم میں تکلیف کا احساس اعصابی خلیات nociceptors سے پھیلتا ہے جس کے فائبر جلد، مسلز اور اندرونی اعضا تک پھیلے ہوتے ہیں اور متاثرہ خلیات سے سگنل کی شکل میں ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

    ان خلیات کی اقسام مختلف طرح کے نقصان پر الگ الگ ردعمل ظاہر کرتی ہیں، جیسے کسی گرم چیز کو چھونے پر thermal nociceptors متحرک ہوتے ہیں۔

    اسی طرح پیروں کی انگلیوں میں چوٹ لگنے پر mechanical nociceptors حرکت میں آتے ہیں، یہ خلیات دباؤ، زخم اور کٹ لگ جانے کے حوالے سے حساس ہوتے ہیں۔

    جب یہ خلیات متحرک ہوتے ہیں تو یہ متاثرہ انگلی سے ایک پیغام ریڑھ کی ہڈی تک فائبر کے پیچیدہ جال سے بھیجتے ہیں، یہ پیغام دماغ تک پہنچتا ہے اور پھر cerebral cortex تک چلا جاتا ہے۔

    دماغ کا یہ حصہ لمس، درجہ حرارت اور تکلیف کے سگنلز پر ردعمل ظاہر کرتا ہے اور جسم کے اعضا کے حوالے سے مختلف احساسات پیدا کرتا ہے۔

    اس دماغی حصے میں پیروں اور اس کی انگلیوں سے متعلق مرکز بالکل درمیان ہوتا ہے جہاں 2 دماغی حصے ایک دوسرے سے مل رہے ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق انگلیوں میں چوٹ لگنے سے دماغ تک سگنل بیک وقت نہیں پہنچتے۔

    چوٹ لگنے پر درد کا پہلا جھٹکا ایسے فائبر دماغ تک پہنچاتے ہیں جو سگنلز بھیجنے کے معاملے میں بہت زیادہ مؤثر نظام کے حامل ہوتے ہیں، اس کے چند سیکنڈ بعد دماغ کو درد کے سگنل سی فائبرز پہنچاتے ہیں۔

    یہ فائبر پیروں کی انگلیوں کے بیشتر حصے کو کور کرتے ہیں اور یہ تکلیف ورم کی شکل میں زیادہ بدتر ہوجاتی ہے۔

    پیر میں تکلیف محسوس کرنے والے اعصاب چوٹوں جیسے انگلی پر چوٹ کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، کیونکہ پیروں میں چربی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے جس سے جھٹکے کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح جب پیر کی انگلی کو چوٹ لگتی ہے تو زیادہ امکان یہ ہوتا ہے کہ جگہ متاثر ہوئی ہو جہاں اعصابی فائبر زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔

    مگر اچھی بات یہ ہے کہ انگلی پر لگنے والی چوٹ سے ہونے والی شدید تکلیف عموماً چند منٹ یا گھنٹوں بعد ختم ہوجاتی ہے، مگر کبھی کبھار اس چوٹ سے سنگین انجری کا سامنا بھی ہوتا ہے یا ہڈی کا جوڑ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے۔

    اگر چوٹ کے بعد شدید تکلیف کا سامنا ایک یا 2 دن بعد بھی ہورہا ہو تو بہتر ہے کہ ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔

  • موسم سرما کا پھل امردو فوائد کا خزانہ

    موسم سرما کا پھل امردو فوائد کا خزانہ

    امرود موسم سرما کا پھل ہے جو اپنے بے شمار فوائد رکھتا ہے، سیزن کے دوران اس کا باقاعدہ استعمال بے شمار بیماریوں سے بچا سکتا ہے۔

    امرود وٹامن سی، آئرن، کیلشیئم اور فائبر سے بھرپور ہوتا ہے، طبی ماہرین کے مطابق اس پھل کے پتوں میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس اور وٹامنز جسم میں گردش کرنے والے مضر فری ریڈیکلز کے نقصانات سے دل کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

    علاوہ ازیں اس میں موجود پوٹاشیم اور حل پذیز فائبر بھی دل کی صحت میں اہم کردار کرتے ہیں۔

    امرود کے پتوں کا نچوڑ (ایکسٹریکٹ) بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے جبکہ نقصان دہ کولیسٹرول کو کم کرکے فائدہ مند کولیسٹرول کو بڑھاتا ہے۔

    یہ پھل وزن کم کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے، اس پھل میں37 کیلوریز موجود ہوتی ہیں جو انسانی جسم کو روزانہ کی بنیاد پر درکار فائبر کی 12 فیصد مقدار فراہم کرتی ہیں جس کے باعث انسانی جسم کے وزن میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    کم کیلوریز کے باوجود یہ آپ کا پیٹ جلدی بھر دیتا ہے جس کے باعث زیادہ غذا تناول کرنے کی عادت سے بھی چھٹکارا مل جاتا ہے اور وزن میں کمی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

  • دفاتر میں بیٹھ کر دن گزارنے والے کون سی ورزش کریں؟

    دفاتر میں بیٹھ کر دن گزارنے والے کون سی ورزش کریں؟

    ملازمت پیشہ افراد کی اکثریت اسکرین کے سامنے دن کا طویل حصہ بیٹھ کر گزارتی ہے، یہ عادت ان میں کئی موذی امراض جیسے ذیابیطس، موٹاپا، عارضہ قلب اور ذہنی امراض کا سبب بن رہی ہے۔

    ماہرین صحت اس عادت کو تمباکو نوشی کی طرح خطرناک تصور کرتے ہیں۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے انکشاف کیا کہ بیٹھنے کے ایک دن کے مضر اثرات کو دور کرنے کے لیے ایک خاص دورانیے تک ورزش کرنا نہایت ضروی ہے۔

    تحقیق کے مطابق اگر آپ نے دن کے دس گھنٹے بیٹھ کر گزارے ہیں تو اس کے صحت پر مضر اثرات سے بچنے کے لیے ہر روز 40 منٹ کی ورزش یا جسمانی سرگرمی جس میں اعتدال سے بھرپور یا شدت والی ورزش شامل ہو، انجام دینا نہایت ضروری ہے اور ماہرین کی نزدیک یہ درست دورانیہ ہے۔

    یہ تحقیق 2020 میں شائع ہونے والے ایک میٹا تجزیے پر مبنی ہے جس میں سابقہ نو مطالعات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔

    تحقیق سے پتہ چلا کہ کچھ معمولی نوعیت کی جسمانی سرگرمیاں جیسے سائیکل چلانا، تیز چہل قدمی اور باغبانی بھی آپ کو قبل از وقت موت کے خطرے کو کم کرنے مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے تجویز دی تھی کہ زیادہ دیر بیٹھے رہنے کا ازالہ کرنے کے لیے ہر ہفتے 150 سے 300 منٹ کی اعتدال یا 75 سے 150 منٹ کی سخت جسمانی سرگرمی یا ورزش انجام دی جائے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ لفٹ کے بجائے سیڑھیوں پر چلنا، بچوں اور پالتو جانوروں کے ساتھ کھیلنا، یوگا میں حصہ لینا یا رقص کرنا، گھر کے کام کاج کرنا، پیدل چلنا اور سائیکل چلانا یہ سب ایسی جسمانی سرگرمیاں ہیں جو لوگ روزمرہ کے کاموں کے درمیان کر کے خود کو زیادہ متحرک بناسکتے ہیں۔

    اگر آپ یہ سب کام کرتے ہیں تو پھر روزانہ 30 سے 40 منٹ سخت ورزش کا اہتمام نہ کریں، بلکہ ہلکی ورزش جس کا دورانیہ کم ہو اس سے آغاز کریں۔

  • غصے پر قابو پانے کے لیے یہ طریقے آزمائیں

    غصے پر قابو پانے کے لیے یہ طریقے آزمائیں

    غصہ آنا ایک نارمل رویہ ہے اور غصے کا اظہار بھی بے حد ضروری ہے، غصے کو دبائے رکھنا اور برداشت کرنا ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بے حد نقصان دہ ہے۔

    تاہم بہت زیادہ اور شدید غصہ آنا بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے، یہ نہ صرف صحت کو متاثر کرتا ہے بلکہ تعلقات اور سماجی زندگی میں بھی بگاڑ پیدا کرتا ہے۔

    آج آپ کو غصے کو قابو کرنے کے طریقے بتائے جارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ اپنا غصہ کنٹرول کرسکتے ہیں اور کسی ممکنہ نقصان سے بچ سکتے ہیں۔

    اظہار کرنے سے قبل پرسکون ہونے کا انتظار کریں

    غصے میں کچھ بھی کہنے سے قبل انتظار کرنا بہتر ہے، جب آپ کا دماغ پرسکون ہوگا تب ہی اس کے بارے میں سوچنا آسان ہوگا کہ آپ کیا اظہار کرنا چاہ رہے ہیں۔

    غصے کی حالت میں اکثر غلط بات منہ سے نکل جاتی ہے یا غلط فیصلہ ہوجاتا ہے جو بعد میں پچھتاوے کا باعث بنتا ہے۔

    منظر سے ہٹ جائیں

    جس لمحے آپ کو لگتا ہے کہ تناؤ بڑھ رہا ہے اور آپ غصے میں میں کچھ بھی کہہ دیں گے تو اس مقام سے دور ہو کر کسی قسم کی جسمانی ورزش کی کوشش کریں۔

    پیدل چلنا، بائیک چلانا یا یہاں تک کہ چہل قدمی کرنا بھی آپ کے تناؤ کی سطح کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگی، اس طرح آپ پرسکون ہو کر صورتحال کا صحیح انداز میں سامنا کر پائیں گے۔

    گہری سانسیں لیں

    سانس کی مشق دماغ کو پرسکون رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اس لیے غصہ کی حالت میں کوشش کریں کہ گہری سانسیں لیں۔

    گہری سانسیں لینے سے آپ کے جسم کی لڑائی یا غصے کے ردعمل کی مختلف علامات کی نفی کرنے میں مدد ملتی ہے جیسے تناؤ کی صورت میں جو علامتیں سامنے آتی ہیں ان میں پٹھوں میں تناؤ، ضرورت سے زیادہ پسینہ آنا، دل کی دھڑکن میں اضافہ، اور تیز یا سست رفتاری سے سانس لینا شامل ہے۔

    بات کہنے کا انداز بدلیں

    کسی بھی مسئلے کے بارے میں بات کرتے وقت، لفظ ’میں‘ کے ساتھ دلائل پر توجہ مرکوز رکھیں تاکہ مخالف شخص پر یہ ظاہر کیا جا سکے کہ آپ حقیقت میں کیسا محسوس کر رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ غیر ضروری طور پر دوسرے فریق پر الزام لگانے سے گریز کریں۔

    مثال کے طور پر، آپ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے برا لگا کہ آپ 15 منٹ تاخیر سے پہنچے، یہ نہ کہیں کہ آپ کبھی بھی وقت پر نہیں آتے۔

    مزاح کا استعمال کریں

    طنز و مزاح کی ایک جھلک بھی تناؤ کو دور کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی واقعی لڑنا نہیں چاہتا، کچھ مزاحیہ جملے ادا کرنے سے ہر طرح کے جھگڑے کو فوری ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

    البتہ اس میں طنز کا عنصر شامل نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اس طرح یہ دوسرے شخص کے جذبات کو ٹھیس پہنچا سکتا ہے اور صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔

    معاف کرنا اور سبق لینا سیکھیں

    معاف کرنا ہر کسی کے لیے آسان نہیں ہوتا لیکن رنجش یا کدورت رکھنا ایسا عمل ہے جو آپ کی بہت ساری مثبت توانائیوں کو ضائع کردیتا ہے۔

    تناؤ ختم ہونے کے بعد، مستقبل میں اسی طرح کی پریشانی سے بچنے کے لیے ماضی سے سبق سیکھنا نہایت ضروری ہے۔

  • ڈراؤنے خوابوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    ڈراؤنے خوابوں سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    ڈراؤنے خواب لوگوں کی نیندیں اڑا سکتے ہیں اور اگر کوئی شخص مستقل اس کا شکار ہو تو اس کے لیے سونا بہت مشکل ہوجاتا ہے جس سے اس کی صحت پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    سائنسدانوں نے ڈراؤنے اور بھیانک خوابوں سے چھٹکارے کے لیے پیانو کی دھن سنانے کا انوکھا طریقہ دیافت کرلیا۔

    ڈراؤنے خواب اکثر افراد کو جگائے رکھتے ہیں اور انہیں سکون سے سونے نہیں دیتے، یہ لوگ دیگر فراد کی طرح پرسکون اور گہری نیند نہیں لے پاتے بلکہ وہ نیند میں کسی انجانے خوف اور ڈراؤنے خواب کی وجہ سے جاگ جاتے ہیں، اس طرح وہ خوف میں مبتلا رہتے ہیں جس کا اثر براہ راست ان کی صحت پر پڑتا ہے۔

    سائنسدانوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے ایک تحقیق کی جس میں ایسے 36 افراد کو شامل کیا گیا جو ڈراؤنے خواب دیکھا کرتے تھے جبکہ اس کے لیے انہوں نے 2 آسان سے علاج کے امتزاج سے حیرت انگیز نتائج حاصل کیے۔

    جنیوا یونیورسٹی اسپتال اور سوئٹزر لینڈ کی یونیورسٹی آف جنیوا کے ماہر نفسیات لیمپروس پیرو گامروس کا کہنا ہے کہ خوابوں میں محسوس ہونے والے جذبات کی اقسام اور ہماری جذباتی بہبود کے درمیان ایک مضبوط رشتہ ہوتا ہے۔

    اسی مشاہدے کی بنیاد پر انہیں خیال آیا کہ وہ لوگوں کے خوابوں کو جذبات سے جوڑ کر ان کی مدد کر سکتے ہیں۔

    اس تحقیق میں انہوں نے اسی طریقہ کار کو اختیار کر کے ڈراؤنے خوابوں میں مبتلا مریضوں کو جذباتی طور پر مضبوط اور انتہائی منفی خوابوں کی تعداد کو کم کرنے میں استعمال کیا۔

    اس تحقیق میں رضا کاروں کو اپنے ڈراؤنے خوابوں کو مثبت انداز میں لکھنے کو کہا گیا اور پھر سوتے وقت مثبت تجربات سے وابستہ دھنیں انہیں سنائی گئی، یہ عمل اس وقت تک دہراگیا جب تک ڈراؤنے خواب کا دورانیہ کم یا ختم نہیں ہوگیا۔

    تحقیق کے نتائج کے مطابق اگر انسان برے خوابوں کو مثبت انداز میں تحریر کرتا ہے پھر نیند میں اسی مثبت سوچ سے وابستہ دھنیں سنتا ہے اور پھر اسے تحریر میں لاتا ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ خواب اس جذبات سے منسلک ہوجاتے ہیں جو مثبت ہوتے ہیں اور اس طرح ڈراؤنے خواب سے نجات حاصل کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

    تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈراؤنے خواب کا تعلق نیند کے معیارکا بہتر نہ ہونا یا اس میں خلل واقع ہونا، نیند کی کمی، کسی بیماری یا ادویات کے استعمال سے بھی ہوسکتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم نے ڈراؤنے خوابوں میں تیزی سے کمی دیکھی جس کے ساتھ ساتھ خواب بھی جذباتی طور پر زیادہ مثبت ہوتے گئے۔ یہ نتائج نیند کے دوران جذباتی عمل کے مطالعے اور نئے علاج کی ترقی دونوں کے لیے بہت امید افزا ہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق یہ طریقہ ڈراؤنے خوابوں کی تعدد اور شدت کو کم کر سکتا ہے، تاہم یہ علاج تمام مریضوں کے لیے مؤثر نہیں ہے۔

  • جوڑوں کے درد سے کیسے بچا جائے؟

    جوڑوں کے درد سے کیسے بچا جائے؟

    آج دنیا بھر میں گٹھیا یا جوڑوں کے درد کی بیماری سے بچاؤ اور آگاہی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ یہ مرض عمر کے کسی بھی حصے میں ہوسکتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔

    آرتھرائٹس نامی اس بیماری کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں کسی حادثے کے نتیجے میں چوٹ لگنا، میٹا بولک نظام کی خرابی، بیکٹریل اور وائرل انفیکشن کے بالواسطہ یا بلا واسطہ اثرات اور کیلشیئم کی کمی شامل ہیں۔

    آرتھرائٹس یا جوڑوں کا درد ایک عام مرض ہے جس کی کئی اقسام ہیں۔ گٹھیا میں بدن کے مختلف جوڑوں پر سوزش ہو جاتی ہے اور اس کا درد شدید ہوسکتا ہے۔ یہ مرض طویل عرصے تک مریض کو شدید تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق گٹھیا کا مرض مرد و خواتین اور بچوں کو کسی بھی عمر میں اپنا شکار بنا سکتا ہے۔

    مرض کی علامات

    گٹھیا کے درد کی عام علامات میں شدید درد، سوجن، جوڑوں میں حرکت کی طاقت کم ہوجانا اور ان کے حرکت کرنے میں فرق آجانا شامل ہیں۔

    ان علامات کے ساتھ بعض دفعہ مریض کو بخار، وزن میں تیزی سے کمی اور تھکاوٹ کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

    علاج

    اگر ابتدائی مراحل میں اس مرض کی تشخیص کر لی جائے تو نہ صرف آسانی سے اس پر قابو پایا جاسکتا ہے بلکہ دیگر اعضا کو بھی مزید نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق اس سے نجات کے لیے سب سے آسان ترکیب جوڑوں کو متحرک رکھنا ہے۔ آسان ورزشیں (معالج کے مشورے کے مطابق) اس بیماری میں مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔

    آرتھرائٹس کا شکار جوڑوں کو آرام دینے کے لیے ماہرین یوگا بھی تجویز کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں یوگا کے ایسے پوز جن میں کمر اور گردن کو آسانی سے حرکت دی جاسکے مفید ہیں۔

    علاوہ ازیں جوڑوں کے درد میں سبز چائے کا استعمال بھی مفید ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق روزانہ 4 کپ سبز چائے کے استعمال سے جسم میں ایسے کیمیائی عناصر کی مقدار بڑھ جاتی ہے جو جوڑوں کے درد میں مبتلا ہونے کا امکان کم کردیتے ہیں۔

    سبز چائے میں موجود اینٹی آکسیڈنٹس سوجن میں کمی لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے پٹھوں میں آنے والی توڑ پھوڑ اور درد میں نمایاں کمی آتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہلدی کا استعمال بھی جوڑوں کے مریضوں کی تکلیف اور سوجن میں کمی لاتا ہے۔ ہلدی کا آدھا چائے کا چمچ کھانے پر چھڑک کر روزانہ استعمال کریں۔

    کیلشیئم سے بنی چیزوں کا استعمال بڑھا دیں۔ کم مقدار میں کیلشیئم کا استعمال ہڈیوں کا بھربھرا پن یا کمزوری کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔ دودھ یا اس سے بنی مصنوعات، گوبھی اور سبز پتوں والی سبزیاں کیلشیئم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔

    ہڈیوں اور جوڑوں کی تکالیف کی ایک بڑی وجہ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی بھی ہے۔ اس کے حصول کا سب سے آسان طریقہ روزانہ 10 سے 15 منٹ دھوپ میں بیٹھنا ہے۔

    کیا نہ کریں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہڈیوں یا جوڑوں کی تکلیف کے لیے مختلف کریموں سے مالش سے گریز کیا جائے۔ یہ مرض کو کم کرنے کے بجائے بعض اوقات بڑھا دیتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف معالج کی جانب سے تجویز کی جانے والی کم پوٹینسی والی کریموں کی مہینے میں ایک بار مساج ہی مناسب ہے، اور اس کے لیے بھی زیادہ تکلیف کا شکار اعضا پر زور آزمائی نہ کی جائے۔