Tag: صحت

  • ایک عام عادت جو رات کی نیند کو پرسکون بنائے

    ایک عام عادت جو رات کی نیند کو پرسکون بنائے

    پرسکون نیند جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے، بے آرام نیند نہ صرف ہمارے مزاج پر منفی اثر ڈالتی ہے بلکہ جسمانی صحت کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔

    نیند کو بہتر کرنے کے لیے ماہرین کی طرف سے بے شمار تجاویز پیش کی جاتی ہیں، حال ہی میں ماہرین نے اچھی نیند کا سبب بننے والے ایک اور سبب کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نیند کا معیار بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں باقاعدگی لائی جائے، ان کے مطابق رات سونے اور اٹھنے کا ایک وقت مقرر کیا جائے اور اس پر پابندی سے عمل کیا جائے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ وقت مخصوص رکھا جائے اور چاہے ویک اینڈ ہو یا ہفتے کا کوئی اور دن، اس شیڈول پر عمل کیا جائے۔ باقاعدگی ایک ایسی کنجی ہے جو نیند کو بہتر بنا سکتی ہے۔

    ماہرین نے ایک اور وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سوتے ہوئے کمرے کا درجہ حرات سرد رکھنا چاہیئے۔ اگر سونے کے لیے ایک گرم، اور ایک سرد کمرے کا انتخاب کیا جائے تو گرم کمرے کی نسبت سرد کمرے میں جلدی اور پرسکون نیند آئے گی۔

  • خطۂ بحیرۂ روم شرقی میں صحت کے حوالے سے بڑی سرگرمی

    خطۂ بحیرۂ روم شرقی میں صحت کے حوالے سے بڑی سرگرمی

    قاہرہ: خطۂ بحیرۂ روم شرقی میں صحت کے حوالے سے بڑی سرگرمی شروع ہو گئی، وزیر صحت قادر پٹیل عالمی ادارہ صحت ایسٹ میڈیٹیرینین ریجن کی 69 ویں کانفرنس میں شرکت کے لیے قاہرہ پہنچ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے وزیر صحت قادر پٹیل نے قاہرہ میں سربراہ ڈبلیو ایچ او سے ملاقات کی، انھوں نے کہا کہ وہ کانفرنس میں دنیا کو پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے آگاہ کریں گے۔

    وزارت قومی صحت کے ترجمان کے مطابق قاہرہ میں ہونے والی ڈبلیو ایچ او ایمرو ریجن کی انہتر ویں کانفرنس میں سعودی عرب اور کویت سمیت َخلیجی اور افریقی ممالک کے وزرائے صحت  شریک ہوں گے۔

    ڈبلیو ایچ او کے علاقائی سربراہ حمد المندہاری نے ایمرو ریجن کے وزرائے صحت کو پاکستان میں سیلاب پر بریفنگ  دی، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے، ڈبلیو ایچ او سیلاب متاثرین کے لیے بھرپور امداد فراہم کر رہا ہے، مشکل کی اس گھڑی میں علاقائی ممالک بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

    کانفرنس کے دوران علاقائی صحت عامہ کو درپیش ہنگامی صورت حال سمیت حفاظتی ویکسین سے متعلقہ امور زیر غور آئیں گے۔ ترجمان وزارت صحت کے مطابق کانفرنس کے دوران عالمی صحت عامہ سے متعلق مستقبل کی جامع حکمت عملی ترتیب دی جائے گی۔

    کانفرنس کے موقع پر وزیر صحت عبدالقادر پٹیل نے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈھانوم اور ڈبلیو ایچ او کے علاقائی سربراہ احمد المندہاری سے ملاقات کی، جس می پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سمیت پولیو اور دیگر وبائی امراض کی صورت حال پر گفتگو کی گئی۔

    عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ سیلاب سے تین کروڑ سے زائد افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں، لاکھوں پاکستانیوں کو ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا سامنا ہے، سیلاب سے سندھ اور بلوچستان کے پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ سسٹم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں بچوں اور بوڑھے افراد سمیت ساڑھے چھ لاکھ سے زائد حاملہ خواتین موجود ہیں، جن کی محفوظ ڈیلیوری اور مناسب دیکھ بھال بڑا چیلنج ہے، تاہم حکومت پاکستان تمام تر چیلنجز کے باوجود سیلاب متاثرین کو ہر ممکن طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔

  • کافی کا عالمی دن: کیا آپ اس جادوئی مشروب کے فوائد سے واقف ہیں؟

    کافی کا عالمی دن: کیا آپ اس جادوئی مشروب کے فوائد سے واقف ہیں؟

    بے شمار خصوصیات کی حامل کافی نہ صرف اپنے اندر بیش بہا فوائد رکھتی ہے بلکہ یہ ایک پسندیدہ اور سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔

    آج دنیا بھر میں کافی کا عالمی دن منایا جارہا ہے، دنیا بھر میں روزانہ ڈیڑھ بلین سے زائد کافی کے کپ پیے جاتے ہیں۔

    بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ کافی کا اصل وطن مشرق وسطیٰ کا ملک یمن ہے۔ یمن سے سفر کرتی کافی خلافت عثمانیہ کے دور میں ترکی تک پہنچی، اس کے بعد یورپ جا پہنچی اور آج کافی یورپ کا سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔

    کافی انسانی جسم و دماغ کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔ آئیں آج اس کے فوائد جانتے ہیں۔

    جگر کے لیے فائدہ مند

    کیا آپ جانتے ہیں کسی بھی مشروب سے زیادہ کافی جگر کے لیے فائدہ مند ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزانہ 3 سے 4 کپ کافی پینے والے افراد میں جگر کے مختلف امراض کا خطرہ 80 فیصد کم ہوجاتا ہے جبکہ ان میں جگر کا کینسر ہونے کے امکانات بھی بے حد کم ہوجاتے ہیں۔

    دماغی امراض میں کمی

    سیاہ کافی آپ کے دماغ میں ڈوپامائن نامی مادے کی مقدار میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ مادہ آپ کے دماغ کو جسم کے مختلف حصوں تک سنگلز بھجنے کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔

    ڈوپامائن میں اضافے سے آپ پارکنسن جیسی بیماری سے بچ سکتے ہیں۔ اس بیماری کا شکار افراد کے اعصاب سست ہونے لگتے ہیں اور ان کی چال میں لڑکھڑاہٹ اور ہاتھوں میں تھرتھراہٹ ہونے لگتی ہے۔

    یہی نہیں ڈوپامائن کی زیادتی اور دماغی خلیات کا متحرک ہونا آپ کو بڑھاپے کے مختلف دماغی امراض جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا سے بچا سکتا ہے۔

    ڈپریشن سے نجات

    طبی ماہرین کافی کو پلیژر کیمیکل یعنی خوشی فراہم کرنے والا مادہ کہتے ہیں۔

    چونکہ کافی دماغی خلیات کو متحرک اور ڈوپامائن میں اضافہ کرتی ہے لہٰذا دماغ سے منفی جذبات پیدا کرنے والے عناصر کم ہوتے ہیں اور ڈپریشن اور ذہنی تناؤ میں کمی آتی ہے۔

    کینسر کا امکان گھٹائے

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ 3 سے 4 کپ کافی پینے والے افراد میں مختلف اقسام کے کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے، کافی جگر کے کینسر سمیت آنت اور جلد کے کینسر کے خطرات میں بھی کمی کرتی ہے۔

    ذہانت میں اضافہ

    کافی میں موجود کیفین آپ کے نظام ہضم سے خون میں شامل ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ آپ کے دماغ میں پہنچتی ہے۔

    وہاں پہنچ کر یہ آپ کے دماغ کے تمام خلیات کو متحرک کرتی ہے نتیجتاً آپ کے موڈ میں تبدیلی آتی ہے اور آپ کی توانائی، ذہنی کارکردگی اور دماغی استعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

    امراض قلب میں کمی

    ایک تحقیق کے مطابق دن میں 2 سے 3 کپ کافی پینا دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرنے کے برابر ہے۔ یہ فالج اور امراض قلب کے خطرے میں بھی کمی کرتی ہے۔

    سر درد سے نجات

    کافی میں موجود کیفین خون کی نالیوں کی سوجن کو کم کرتی ہے جس سے سر درد میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    ذیابیطس کا خطرہ گھٹائے

    سیاہ کافی ذیابیطس کے خطرے کو بھی کم کرتی ہے، لیکن اگر آپ اپنی کافی میں کریم اور چینی ملائیں گے تو اس مقصد کے لیے یہ بے اثر ہوجائے گی۔

  • دل سست ہوجائے گا: مریخ پر جانے والے انسانوں کے جسم میں حیرت انگیز تبدیلیاں

    دل سست ہوجائے گا: مریخ پر جانے والے انسانوں کے جسم میں حیرت انگیز تبدیلیاں

    امریکی خلائی ادارہ ناسا اور چین مریخ پر انسانوں کو بھیجنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، تاہم اس کے لیے انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا ہے جس میں سب سے اہم وہاں بھیجے جانے والے خلا بازوں کی زندگی اور صحت ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق مریخ پر انسانوں کو بھیجے جانے کے منصوبے میں سب سے اہم پہلو خلا بازوں کی صحت اور ان کی سلامتی ہے جن کو مریخ تک پہنچنے کے لیے کئی ماہ خلا میں گزارنے ہوں گے، جس کے بعد پڑوسی سیارے پر بھی کئی ماہ قیام کرنا ہوگا۔

    ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ بہت کم کشش ثقل کے باعث انسانوں کے لیے مریخ پر رہنا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔

    ان خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی نے ایک ریاضیاتی ماڈل تیار کیا ہے تاکہ یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ خلا باز مریخ تک سفر کرنے کے ساتھ ساتھ وہاں اپنا کام درست طریقے سے کرسکیں گے یا نہیں۔

    اس ماڈل اور اس کی پیشگوئیوں کے بارے میں تحقیقاتی مقالہ حال ہی میں جریدے نیچر میں شائع ہوا، تحقیقی ٹیم نے مریخ کے مشنز کے ممکنہ خطرات کے ساتھ ساتھ مریخ پر وقت گزارنے کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ سورج اور خلائی ذرائع کی ریڈی ایشن کے باعث مریخ پر قیام سے انسانی جسم میں بنیادی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔

    انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن میں بہت کم کشش ثقل کے اثرات کے حوالے سے ہونے والی تحقیق میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اس کے نتیجے میں مسلز اور ہڈیوں کا حجم گھٹ سکتا ہے جبکہ اعضا اور بینائی کے افعال پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیںِ۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ ہم جانتے ہیں کہ مریخ تک پہنچنے کا سفر 6 سے 8 ماہ کا ہوگا جس سے خون کی شریانوں کی ساخت یا دل کی مضبوطی پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جو کہ خلائی سفر کے دوران بے وزنی کا نتیجہ ہوگا۔

    تحقیق کے مطابق بہت زیادہ وقت کشش ثقل کے بغیر رہنے سے دل کی رفتار سست ہوسکتی ہے کیونکہ اسے زیادہ کام نہیں کرنا ہوگا جبکہ زمین پر کشش ثقل کے باعث اسے مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔

    محققین نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن سے واپسی کے بعد خلا باز بے ہوش ہوجاتے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جب خلا باز مریخ جائیں گے تو زیادہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ اگر مریخ پر قدم رکھتے ہی کوئی بے ہوش ہوگیا یا کوئی طبی ایمرجنسی ہوئی تو کوئی بھی مدد کے لیے موجود نہیں ہوگا، چنانچہ ضروری ہے کہ وہاں بھیجے جانے والے افراد مکمل طور پر فٹ اور مریخ کی کشش ثقل کو اپنانے کے قابل ہوں۔

    اس ماڈل کے لیے مشین لرننگ پر مبنی الگورتھم استعمال کیے گئے تھے جس میں آئی ایس ایس اور اپولو مشنز کا ڈیٹا فیڈ کیا گیا تھا۔

    نتائج سے ثابت ہوا کہ مریخ کے سفر کے لیے طویل خلائی پرواز سے دل کی شریانوں کے نظام میں تبدیلیاں آسکتی ہیں تاکہ وہ ماحول اپنا سکیں۔

    تحقیق کے مطابق اس سے عندیہ ملتا ہے کہ خلا بازوں کا جسم کئی ماہ کی خلائی پرواز کے مطابق خود کو بدل سکتا ہے مگر مکمل طور پر صحت مند اور فٹ ہونا شرط ہے۔

    اب یہ ماہرین بیمار یا کم صحت مند افراد پر طویل خلائی سفر کے اثرات جاننے کی کوشش کریں گے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا عام افراد بھی خلا کا سفر کرسکتے ہیں یا نہیں۔

  • پاک امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ، پاکستانی وفد واشنگٹن پہنچ گیا

    پاک امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ، پاکستانی وفد واشنگٹن پہنچ گیا

    اسلام آباد: پاک امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ کے لیے پاکستانی وفد واشنگٹن پہنچ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاک امریکا تعلقات میں بہتری کے لیے باہمی رابطوں میں تیزی آ گئی، امریکی دعوت پر پاک امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ میں شرکت کے لیے 4 رکنی پاکستانی وفد وزیر صحت قادر پٹیل کی قیادت میں واشنگٹن پہنچ گیا ہے۔

    پاک امریکا ہیلتھ ڈائیلاگ کا آغاز 25 جولائی سے ہو گا، اب تک ڈائیلاگ کے 9 ورچول رائونڈز ہو چکے ہیں، ڈائیلاگ میں وزارت صحت حکام اور ماہرین صحت ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوں گے۔

    پاکستانی وفد میں سربراہ این آئی ایچ، ڈائریکٹر وزارت صحت ڈاکٹر بصیر اچکزئی، امریکا میں پاکستانی سفیر مسعود خان، اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور محکمہ صحت حکام شریک ہیں۔

    ذرائع وزارت صحت کے مطابق ہیلتھ ڈائیلاگ میں صحت کے مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کے فروغ پر بات ہوگی، بارڈر ہیلتھ سیکیورٹی سروسز، غیر متعدی امراض، کرونا وبا، چائلڈ ایمونائزیشن، نیوٹریشن، ماں بچے کی صحت کے مسائل، سی ڈی سی، اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں اصلاحات پر غور کیا جائے گا۔

    پاکستانی وفد ہیلتھ ڈائیلاگ میں شعبہ صحت کے چیلنجز کی نشان دہی کرے گا، وفد امریکا کو شعبہ صحت میں باہمی تعاون کے ثمرات اور شعبہ صحت میں ممکنہ تعاون بارے آگاہ کرے گا۔

    ذرائع نے بتایا کہ امریکا پاکستانی شعبہ صحت میں اصلاحات کے لیے تکنیکی معاونت فراہم کرے گا، شعبہ صحت کی ٹیکنالوجی ٹرانسفر میں تعاون سمیت امریکی محکمہ صحت پاکستانی طبی ماہرین اور عملے کو تربیت بھی فراہم کرے گا۔

    امریکا پاکستان کو شعبہ صحت کی اپ گریڈیشن میں معاونت سمیت کرونا وائرس روک تھام، پولیو، متعدی، اور غیر متعدی امراض کے لیے بھی تعاون فراہم کرے گا۔

    ذرائع کے مطابق امریکا پاکستانی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اور لیبارٹریز کے لیے آلات بھی فراہم کرے گا، جب کہ رواں ماہ پاکستان کو امریکا 4 جدید موبائل لیبارٹریز فراہم کر چکا ہے۔

  • خون کے عطیے کا عالمی دن: خون دینے سے قبل یہ ہدایات یاد رکھیں

    خون کے عطیے کا عالمی دن: خون دینے سے قبل یہ ہدایات یاد رکھیں

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج خون کے عطیے کا عالمی دن منایا جارہا ہے، پاکستان میں ہر لمحے لاکھوں مریض خون کے عطیے کے منتظر ہوتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے تحت دنیا بھر میں ہر سال 14 جون کو خون کے عطیات دینے کا دن منایا جاتا ہے تاکہ لوگوں میں خون کا عطیہ دینے کا مثبت رجحان بڑھے۔ اس دن کو منانے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت نے 2005 میں 58 ویں ہیلتھ اسمبلی کے موقع پر کیا جس کا مقصد محفوظ انتقال خون کو یقینی بنانا تھا۔

    یہ دن کارل لینڈ اسٹینر کی سالگرہ (14 جون 1868) سے بھی منسوب ہے جنہوں نے اے بی او بلڈ گروپ سسٹم ایجاد کیا تھا جس کی مدد سے آج بھی خون انتہائی محفوظ طریقے سے منتقل کیا جاتا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 10 کروڑ سے زائد افراد خون کا عطیہ دیتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ خون عطیہ کرنے سے انسان تندرست اور بے شمار بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خون کا عطیہ دینے سے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے، خون کی روانی میں بہتری آتی ہے، دل کے امراض لاحق ہونے کا خطرہ کم ہوتا ہے اور فاضل کیلوریز جسم سے زائل ہوتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ عطیہ کنندہ کے خون کی باقاعدگی سے جانچ مفت ہوتی رہتی ہے اور دیگر افراد کی نسبت اسے مہلک بیماریوں اور ان سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی ملتی رہتی ہے۔

    پاکستان میں ہر سال اندازاً 32 لاکھ خون کی بوتلوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن آگاہی نہ ہونے کے سبب اندازاً صرف 18 لاکھ بوتلیں ہی فراہم ہو پاتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دیتے ہوئے مندرجہ ذیل ہدایات کو یاد رکھنا چاہیئے۔

    خون کا عطیہ 16 سے 60 سال تک کی عمر کے افراد دے سکتے ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے سے پہلے وافر مقدار میں پانی پینا از حد ضروری ہے۔

    عطیہ دینے سے قبل مناسب ناشتہ لازمی کیجیئے تاکہ آپ کے خون میں شوگر کا تناسب برقرار رہے۔

    خون کا عطیہ دینے سے 24 گھنٹے قبل احتیاطاً سگریٹ نوشی ترک کردیجیئے۔

    اگر آپ باقاعدگی سے خون کا عطیہ دیتے ہیں تو اپنی مقررہ تاریخ سے 2 ہفتے قبل اپنی خوراک میں آئرن کی حامل اشیا کا اضافہ کردیں جن میں انڈے، گوشت، پالک وغیرہ شامل ہیں۔

    خون دینے سے 24 گھنٹے قبل فربہ کرنے والی غذائیں خصوصاً فاسٹ فوڈ کھانے سے گریز کریں۔

    اگر خون دینے کے دوران آپ کو ہاتھوں یا پیروں میں سردی محسوس ہو تو فوری کمبل طلب کرلیں۔

    یاد رکھیں اگر آپ شراب نوشی کرتے ہیں تو آخری مرتبہ شراب کے استعمال کے بعد اگلے 48 گھنٹے تک آپ خون کاعطیہ نہیں دے سکتے۔

    خون عطیہ کرنے کے بعد چند منٹ بستر پر لیٹے رہیں اور اس دوران ہلکی غذا یا جوس لیں، عموماً یہ اشیا ادارے کی جانب سے فراہم کی جاتی ہیں۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد پہلی خوراک بھرپور لیں جس میں پروٹین کی مقدار زیادہ ہو، عموماً مرغی یا گائے کا گوشت اس سلسلے میں بہترین ہے۔

    خون کا عطیہ دینے کے بعد کم سے کم 3 گھنٹے تک سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں۔

    کم سے کم ایک دن تک بھاری وزن اٹھانے اور ایکسر سائز سے گریز کریں۔

  • یہ علامات دیکھ لیں تو سمجھ جائیں کہ قوت مدافعت کمزور ہو رہی ہے

    یہ علامات دیکھ لیں تو سمجھ جائیں کہ قوت مدافعت کمزور ہو رہی ہے

    امیونٹی سسٹم یعنی انسانی قوت مدافعت ہمارے جسم کو نہ صرف مختلف بیماریوں بلکہ ماحولیاتی قوتوں کے حملوں سے بھی محفوظ رکھتی ہے، اس لیے اسے سمجھنے کی بہت اہمیت ہے۔

    اگر آپ یہ علامات دیکھ لیں تو سمجھ جائیں کہ قوت مدافعت کمزور ہو رہی ہے، اور آپ کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیئں، کیوں کہ جب مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے تو یہ جسم کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کے لیے مؤثر انداز میں کام نہیں کر پاتا۔

    1. بار بار نزلہ

    اگر آپ کو بار بار نزلہ ہو رہا ہے یا نزلے کی علامات دوبارہ آ رہی ہیں، تو سمجھ لیں کہ آپ کا مدافعتی نظام کمزور ہے، لیکن یہ یاد رکھیں کہ سردی اور اس سے پیدا ہونے والا انفیکشن اکثر سات سے 10 دن میں ٹھیک ہو جاتا ہے۔

    2. مستقل تھکاوٹ

    سخت محنت کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونا فطری ہے، لیکن اگر کافی آرام ملنے کے بعد بھی تھکاوٹ برقرار رہتی ہے تو یہ مدافعتی نظام کی کمزوری کی علامت ہو سکتی ہے، وجہ یہ ہے کہ جب جسم کا دفاعی نظام مؤثر انداز میں کام نہیں کر رہا ہوتا تو یہ تیزی سے تھکاوٹ محسوس کرتا ہے۔

    3. جِلدی بیماریاں اور زخموں کا نہ بھرنا

    اگر آپ نے محسوس کیا کہ جلد پر آپ کے زخم ٹھیک ہونے میں معمول سے زیادہ وقت لے رہے ہیں تو آپ کا مدافعتی نظام کمزور ہے، مدافعتی نظام جلد کو شفا بخش اور مؤثر بیکٹیریا یا جراثیم سے لڑنے میں مدد کرتا ہے، اور انفیکشن کا خطرہ کم کرتا ہے۔

    مدافعتی نظام کے کمزور ہونے سے جلد کے معمول کے کام میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے، جس کی وجہ سے جلد کے انفیکشن سے لڑنے کی قوت کمزور ہو جاتی ہے۔

    آپ کی جلد جراثیم سے لڑنے میں سب سے پہلی رکاوٹ ہے، جِلد پر بار بار خارش ہونا یا خشک جلد سوزش کی علامت ہے اور ہو سکتا ہے کہ آپ کا مدافعتی نظام بھی کمزور ہو۔

    4. خون کی خرابی

    خون کی کچھ بیماریاں کمزور مدافعتی نظام کی نشان دہی کرتی ہیں جن میں ہیموفیلیا، انیمیا، خون کا جمنا اور خون کا کینسر (جیسا کہ لیمفوما، لیوکیمیا، اور مائیلوما) شامل ہیں۔

    5. اعضا کی سوزش

    اعضا کی سوزش جسم کی قوت مدافعت کو بھی سُست کر سکتی ہے، جس کی وجہ خلیوں کا انفیکشن، بیکٹیریا، ٹروما یا گرمی ہو سکتی ہے، جسم میں کسی قسم کی چوٹ سوزش کا باعث بن سکتی ہے اور یہ کمزور مدافعتی نظام کی علامت ہے۔

    6. اس کے علاوہ آٹو امیون امراض ہیں، مدافعتی نظام کی یہ بیماریاں مدافعتی نظام کی سرگرمی کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہیں، اگر یہ نظام ضرورت سے زیادہ متحرک ہو تو جسم اپنے ٹشوز کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتا ہے، جس سے آٹو امیون بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

    اسی طرح کمزور مدافعتی نظام بچوں کی کمزور نشوونما کا باعث بنتا ہے، لہٰذا اگر آپ نے محسوس کیا کہ آپ کا بچے کا جسم معمول کے مطابق نہیں بڑھ رہا ہے تو آپ کو ڈاکٹر سے بچے کا معائنہ کروانے کی ضرورت ہے، یاد رہے کہ بعض اوقات نشوونما میں تاخیر ناقص خوراک کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔

  • لسی صرف گرمی کا توڑ ہی نہیں بے شمار فوائد کا باعث

    لسی صرف گرمی کا توڑ ہی نہیں بے شمار فوائد کا باعث

    موسم گرما میں مائع اشیا کا استعمال نہایت ضروری ہے تاکہ جسم میں پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکے، گرم موسم میں استعمال کیے جانے والے مشروبات میں لسی سرفہرست ہے۔

    لسی صرف گرمی کا توڑ ہی نہیں بلکہ اس کے بے شمار فائدے بھی ہیں، آئیں جانتے ہیں وہ کون سے فائدے ہیں۔

    لسی کا استعمال ہمارے نظام ہاضمہ کو بہتر بنانے کے لیے مفید ہے کیونکہ دہی معدے کے لیے ہلکا اور صحت کو فائدہ پہنچانے والے بیکٹیریا سے بھرپور ہوتا ہے جس کے استعمال سے کھانا ہضم ہونے میں مدد ملتی ہے۔

    اس کا استعمال ہماری آنتوں کو چکنا کرتا ہے اور ہاضمے کے عمل کو ہموار بناتا ہے۔

    لسی کا استعمال صحت مند بیکٹیریا کی توسیع کو متاثر کرتا ہے اور ہماری آنتوں میں خراب بیکٹیریا کی افزائش کو کم کرتا ہے، لسی میں موجود پرو بائیوٹکس جسم میں خراب کولیسٹرول کی سطح کو متوازن کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

    لسی میں لیکٹک ایسڈ اور وٹامن ڈی کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے جو ہمارے جسمانی نظام کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس کا استعمال ہمارے مدافعتی نظام کو بہتر بناتا ہے اور ہمارے جسم کو کئی بیماریوں سے لڑنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

    لسی ایک نہایت ٹھنڈا مشروب ہے جس کا گرمیوں میں استعمال ہمارے جسم کو گرمی کے اثرات سے بچاتا ہے، لسی کا استعمال جسم کو تروتازہ بناتا ہے، یہ جسم کو ڈی ہائیڈریٹ نہیں ہونے دیتی اس لیے گرمی کے موسم میں لسی کا استعمال بے حد ضروری ہے۔

    لسی کا استعمال ہماری ہڈیوں کو مضبوط بناتا ہے کیونکہ اس میں کیلشیئم کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے، لسی کا استعمال ہڈیوں کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ دانتوں کو بھی مضبوط بناتا ہے۔

    لسی میں لیکٹک ایسڈ کی وافر مقدار ہوتی ہے جو چہرے سے نشانات دور کرتا ہے اور ہماری جلد کو ہموار بنانے کے لیے مفید ہے، لسی کا مستقل استعمال ہماری جلد کو بھی خوبصورت بناتا ہے۔

    لہٰذا اس گرمی کے موسم میں خود کو لسی کے استعمال سے ضرور فائدہ پہنچائیں تاکہ یہ تمام فوائد حاصل کر کے پرسکون گرمیاں گزاری جاسکیں۔

  • ایئر کنڈیشنر کا بے تحاشا استعمال، ہوش رُبا انکشافات

    ایئر کنڈیشنر کا بے تحاشا استعمال، ہوش رُبا انکشافات

    کرۂ ارض کا درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے، پاکستان سمیت مختلف ممالک گرمی کی شدید کی لپیٹ میں ہیں، توانائی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ میں اضافے کے باعث شہریوں کو روزہ مرہ زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    ایسے میں ایئر کنڈیشنر کا استعمال روز بہ روز بڑھتا جا رہا ہے، کچھ عرصہ پہلے تک لوگ اے سی لگانا ایک عیاشی سمجھتے تھے لیکن اب ضروریاتِ زندگی میں شمار ہونے لگا ہے، زیادہ تر دفاتر میں ائیر کنڈیشنر لگا ہوتا ہے، اسی لیے ایسے لوگ گھروں میں بھی چاہے ایک ہی کیوں نہ ہو، اے سی لگا لیتے ہیں۔

    تاہم اے سی کا بے تحاشا استعمال کرنے کے ایسے نقصانات ہیں جن کا جاننا آپ کے لیے بےحد ضروری ہے، سارا دن ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھنے سے کئی طرح کی بیماریاں لا حق ہو سکتی ہیں، جن میں سانس کی بیماری، پھیپھڑوں کی بیماری، جسم میں مستقل درد، جلد کے مسائل وغیرہ بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔

    سانس کے مسائل:

    اے سی میں رہنے سے گرمی سے تو نجات مل جاتی ہے لیکن اس کی مستقل ٹھنڈک پھیپھڑوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اگر اے سی کے فلٹر کی بار بار صفائی نہ کی جائے تو اس میں سے بھی جراثیم اورگرد وغبار ہوا کے ساتھ ہماری سانس میں شامل ہو جاتا ہے، جس سے الرجی اور دوسری بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

    بیکٹیریا:

    ایک خاص قسم کے بیکٹیریا لیگیونیلانیموفیلا کی وجہ سے سانس لینے کے عمل کو متاثر کرنے والی ایک بیماری لیگیونیئر بھی لا حق ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ پھیپھڑوں کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ رہتا ہے، جو لوگ نزلہ زکام کے مستقل مریض ہیں ان کو خاص کر بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

    سر اور کندھے:

    ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈک سے سر اور کندھوں میں مستقل درد رہنا شروع ہو جاتا ہے، اس کی ٹھنڈک جسم کے پٹھوں اور جوڑوں کو متا ثر کرتی ہے، اس سے جسم کے مختلف حصے متاثر ہوتے ہیں اور یہ ٹھنڈک جسم میں بیٹھ جاتی ہے۔

    خاص طور پر اگر اے سی کی کولنگ زیادہ ہو تو پھر تو یہ زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے کیوں کہ اس ٹھنڈک سے نکل کر جب آپ باہر کے درجہ حرارت میں آتے ہیں تو یہ زیادہ مضر صحت ہو تا ہے، جسم کا درجہ حرارت بار بار کم زیادہ ہوتا ہے جو کہ آپ کے جسم پر اثر انداز ہو تا ہے۔

    احتیاط:

    کوشش یہ کرنی چاہیے کہ مستقل سارا دن اے سی میں نہ رہیں بلکہ کچھ وقت کے لیے نارمل ٹمپریچر میں بھی اپنے جسم کو رکھیں تاکہ ٹھنڈ کا اثر کچھ کم ہو۔

    اے سی کا ٹمپریچر کم پہ نہ رکھیں، اکثر لوگوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ بہت زیادہ کولنگ پسند کرتے ہیں، اسی لیے وہ ایئر کنڈیشنر کا ٹمپریچر 16 سے 22 کے درمیان میں رکھتے ہیں، جو کہ جسم کے لیے مضر ہوتا ہے، بہت زیادہ ٹھنڈک جوڑوں کو متاثر کرتی ہے اور جوڑوں میں درد کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔

    جلدی بڑھاپا:

    کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ مستقل ایئر کنڈیشنر میں رہنے والے جلدی بوڑھے ہو جاتے ہیں؟ ٹھنڈک سے جلد پر جھریاں جلدی بڑھ جاتی ہیں، کیوں کہ اے سی کمرے کی نمی کو کھینچ لیتا ہے، اور خشکی بڑھ جاتی ہے، چناں چہ اے سی میں زیادہ بیٹھنے یا رہنے والوں کی جلد بھی خشک ہو جاتی ہے اور یوں جھریاں ہونے لگتی ہیں۔

    احتیاط:

    اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ پانی کا استعمال بڑھا دیا جائے یا پھر روم ہیومیڈیفایئر کا استعمال کیا جائے، جو کمرے میں نمی کا تناسب برقرار رکھے۔

  • مرغی کا گوشت کھانے سے قبل یہ جان لیں

    مرغی کا گوشت کھانے سے قبل یہ جان لیں

    دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر مرغی کا گوشت استعمال کیا جاتا ہے، اسی لیے اس کی کم وقت میں زیادہ پروڈکشن کے نت نئے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں جو مرغی کے معیار اور اس کی غذائیت پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

    جو مرغی آج دنیا بھر میں بطور غذا استعمال کی جارہی ہے اس کے سائز میں پچھلے 50 برسوں میں 364 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہتبدیلی دوسری جنگ عظیم کے بعد آئی۔

    اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جنگ کے دوران مرغی کے گوشت کی طلب میں اضافہ ہوا تو کئی کمپنیوں نے اس پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے مرغیوں کی افزائش کرنے کا فیصلہ اس طرح کیا کہ وہ سائز میں بڑی ہوں تاکہ کسٹم میں کم مہنگی پڑے۔

    مرغیوں کے سائز میں اضافہ کے لیے انہیں مصنوعی ہارمونز اور کیمیکل سے بھرپور غذا دی گئی، عام طور مرغیاں اناج اور گھاس پھوس کھاتی ہیں تاہم فارم کی مرغیوں کو بنیادی طور پر مکئی اور سویا کھلایا جاتا ہے تاکہ یہ کم وقت میں موٹی اور بڑی ہوجائے۔

    پاکستان میں ان مرغیوں کو کم وقت میں بڑا کرنے کے لیے مختلف انجیکشن لگائے جاتے ہیں جبکہ انہیں جو دانہ کھلایا جاتا ہے وہ بھی گندی اشیا سے ملا کر بنایا جاتا ہے۔ یہی کیمیکل مرغی سے انسانوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔

    دیکھا جائے تو آج کل مرغی کے نام پر ایک بڑا غیر صحت بخش پرندہ کھایا جارہا ہے، نوے کی دہائی کے اوائل میں مرغیاں تقریباً 4 ماہ میں تیار ہوتی تھی جبکہ آج کل یہی برائلرمرغی صرف 47 دن میں تیار ہو جاتی ہے تاکہ طلب کو پورا کیا جا سکے۔

    آج کے دور میں مرغی کی بنیادی خوراک کاربوہائیڈریٹ ہے، جسے ہم ہائی انرجی ڈائیٹ کہتے ہیں جو یقیناً موٹاپے کا باعث بنتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ ہے۔ انہیں جب وزن کم کرنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے کاربوہائیڈریٹ کو کم کیا جاتا ہے۔

    مرغیاں جو کچھ بھی کھائیں گی وہ اسی طرح ان کے گوشت کی صورت میں انسانوں میں منتقل ہوگا، مثال کے طور پر فارمی چکن میں اومیگا 6 سے اومیگا 3 کا تناسب زیادہ ہوتا ہے جبکہ چراگاہوں کے قدرتی ماحول پالی جانے والی مرغیوں میں یہ تناسب نہایت کم ہوتا ہے۔

    متوازن میں غذا میں گوشت اور سبزیوں کا تناسب بہتر ہونا چاہیئے، چکن تمام ضروری غذائی اجزا کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ چکن پروٹین، کیلشیم، امینو ایسڈ، وٹامن B-3، وٹامن B-6، میگنیشیم اور دیگر اہم غذائی اجزا کا بھرپور ذریعہ ہے۔

    تاہم ہر قسم کا چکن صحت کے لیے مفید نہیں ہے، دیسی مرغی کے مقابلے میں برائلر مرغی کی افادیت کافی کم ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ برائلر چکن کو ریگولر کھانے سے آپ کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، اس کا کثرت سے استعمال جسم میں بہت سی بیماریاں پیدا کرتا ہے۔

    برائلرز کے بجائے دیسی چکن کھائی جائے تو اچھا ہے، جبکہ اس کے ساتھ سبزیاں اور دیگر اناج کا استعمال بھی کیا جائے تاکہ جسم کو تمام تر غذائی اجزا مناسب مقدار میں میسر آسکے۔