Tag: صحت

  • افطار کے بعد سگریٹ پینے والے ہوشیار!

    افطار کے بعد سگریٹ پینے والے ہوشیار!

    رمضان المبارک کا روح پرور مہینہ جاری ہے اور اس ماہ میں مسلمان اس کی رحمتوں اور برکتوں سے فیض یاب ہونے میں مشغول ہیں۔ تاہم ایسے افراد جو روزہ کھولتے ہی سگریٹ پینے کے عادی ہیں وہ اپنے آپ کو جسمانی طور پر سخت خطرات میں مبتلا کردیتے ہیں۔

    ترکی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین کا کہنا ہے کہ روزہ افطار کرنے کے بعد سگریٹ پینے سے زیادہ خطرناک عمل کوئی نہیں۔

    تحقیق کے مطابق افطار کے وقت جسم کو پانی، گلوکوز اور آکسیجن کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے میں سگریٹ کے ایک کش سے شریانیں سکڑ جاتی ہیں اور خون میں آکسیجن مناسب مقدار میں جذب نہیں ہوتی۔

    اس کے نتیجے میں خون گاڑھا ہو جاتا ہے جس سے اس کے جمنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، دل کی دھڑکن بے ربط ہو جاتی ہے، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور ان سب عوامل سے دل کی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔

    تحقیق میں شامل ایک ماہر طب کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک میں افطار کے فوری بعد سگریٹ نوشی نہ صرف امراض قلب میں مبتلا کر سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ یہ جسمانی جھٹکوں اور ہاتھ پاؤں میں کپکپاہٹ کا باعث بھی بننے لگتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق آسان لفظوں میں افطار کے فوراً بعد سگریٹ پینا آپ کی اچانک موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ رمضان میں سگریٹ نوشی سے خون کی شریانوں کی دیواروں کو شدید نقصان پہنچتا ہے جو باقی سال بھر پہنچنے والے نقصان سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ طویل وقفے کے بعد سگریٹ پینے سے جسم کا تمام مدافعتی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے جو سخت نقصان دہ ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ یوں تو سگریٹ نوشی کے خطرات کو دیکھتے ہوئے اس کا استعمال کم کردینے میں ہی عافیت ہے، تاہم اگر سگریٹ کی شدید طلب ہو تو افطار کے 30 سے 40 منٹ بعد سگریٹ نوشی کی جاسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رمضان المبارک سگریٹ نوشی ترک کرنے کا اچھا موقع ہے کیونکہ جب انسان روزے کی حالت میں دن بھر میں تقریباً 13 سے 14 گھنٹے تک سگریٹ نہیں پیتا، تو یہ عمل سال بھر بھی کرسکتا ہے۔

    اسی طرح روزے دار کی طبیعت میں نظم و ضبط بھی پیدا ہوجاتا ہے جس سے وہ سگریٹ نوشی سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر سکتا ہے۔

  • گوشت کا زیادہ استعمال کینسر کی وجہ بن سکتا ہے

    گوشت کا زیادہ استعمال کینسر کی وجہ بن سکتا ہے

    سرخ گوشت کھانے کے نقصانات سے انکار نہیں اور اس کا زیادہ استعمال خطرناک بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق ہوئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق گوشت خوری اور کینسر کے درمیان مزید شواہد سامنے آگئے، برطانیہ میں 5 لاکھ افراد کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ گوشت خوری سے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

    سائنسدانوں کی جانب سے گوشت کے زیادہ استعمال اور کینسر کے درمیان تعلق پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے لیکن اب سائنس دانوں کو اس حوالے سے مزید شواہد ملے ہیں کہ زیادہ گوشت خوری کئی طرح کے سرطان کی وجہ بن سکتی ہے اور گوشت کم کھانے سے تقریباً تمام اقسام کے سرطان سے بچاؤ ممکن ہے۔

    برطانوی ماہرین کی ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جتنا زیادہ گوشت کے استعمال میں اضافہ ہوگا اتنا ہی زیادہ کینسر کا خطرہ بھی بڑھتا جائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گوشت خوری سے سن یاس کے بعد بریسٹ کینسر، بڑی آنت اور پروسٹیٹ کینسر کا خدشہ بطورِ خاص پیدا ہوتا ہے۔

    اس تحقیق میں برطانوی بائیو بینک میں موجود ڈیٹا بیس سے 4 لاکھ 72 ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا اور ایک عرصے تک ان پر نظر رکھی گئی جس میں لاکھوں افراد کی اوسط عمر 40 سے 70 برس تھی اور مسلسل 11 برس تک ان کی طبی کیفیات کا جائزہ لیا جاتا رہا۔

    اس تحقیقی جائزے سے معلوم ہوا کہ 2006 سے 2010 کے درمیان یہ تمام افراد کینسر سے دور اور تندرست تھے، ان میں سے 52 فیصد افراد نے ہفتے میں پانچ مرتبہ گوشت کی عادت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ مچھلی، سرخ گوشت اور خنزیر وغیرہ کا گوشت کھانا پسند کرتے ہیں۔

    43 فیصد افراد نے صرف مچھلی کھانے کا اعتراف کیا جبکہ 10 ہزار یعنی 2.3 فیصد افراد نے صرف سبزی کھانے کا اعتراف کیا۔

    تاہم گیارہ برس بعد ان میں سے 54 ہزار سے زائد افراد خطرناک کینسر میں مبتلا ہو چکے تھے، انہیں بڑی آنت، پروسٹیٹ، اور خواتین کو چھاتی کا سرطان لاحق ہوچکا تھا۔

    تحقیق سے یہ بھی علم ہوا کہ سبزیاں کھانے سے عددی طور پر سرطان کا خطرہ 14 فیصد کم ہوجاتا ہے جبکہ مچھلی کھانے والوں میں اس کی شرح 10 فیصد کم دیکھی گئی اور زیادہ گوشت کھانے والے افراد میں کینسر کی شرح میں اضافہ سامنے آیا۔

  • بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مسلز بہتر بنانا بھی آسان

    بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مسلز بہتر بنانا بھی آسان

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں میں 30 سال کی عمر کے بعد مسلز کے حجم میں 3 سے 5 فیصد تک کمی آسکتی ہے جبکہ مسلز بنانے میں مددگار ہارمون ٹیسٹوسیٹرون کی سطح میں بھی 40 سال کی عمر کے بعد بتدریج کمی آتی ہے۔

    مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آنے والی اس قدرتی تنزلی کی رفتار کو سست یا ریورس کیا جاسکتا ہے، اس کا حل ہے وزن اٹھانا یا ویٹ لفٹنگ، اکثر ایسا کرنا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کے فزیکل تھراپسٹ شان پیڈیسنی نے بتایا کہ ویٹ ٹریننگ اپنے مسلز کے حجم کو برقرار رکھنے بلکہ بڑھانے کا بہترین طریقہ ہے، ورنہ دوسری صورت میں آپ عمر بڑھنے سے مسلز سے محروم ہوسکتے ہیں۔

    تاہم اسے کس طرح سے اپنایا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کریں۔

    ٹرینر کی خدمات

    ایک اچھا ٹرینر آپ کے لیے ایک پروگرام تشکیل دے سکتا ہے اور آپ کو درست تکنیک بھی سکھا سکتا ہے۔

    فری ویٹ مددگار

    فری ویٹ جیسے ڈمبلز، کیٹل بیلز اور باربیلز سے ٹریننگ مسلز بنانے کے لیے اکثر مشینوں سے زیادہ بہتر ثابت ہوتے ہیں، اگر جسمانی توازن برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا ہو تو ایکسرسائز مشینیں بہتر ہیں۔

    ٹانگوں کے مسلز پر خصوصی توجہ

    ویسے تو اہم مسلز کے حجم کو کم ہونے سے روکنے کے لیے پورے جسم کی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے مگر درمیانی عمر میں مردوں کو ٹانگوں کے مسلز پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق ٹانگوں کے مسلز روزمرہ کی متعدد سرگرمیوں جیسے اٹھنے بیٹھنے اور سیڑھیاں چڑھنے کا حصہ بنتے ہیں تو ان کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

    اس حوالے سے اٹھک بیٹھک، ڈیڈ لفٹ وغیرہ ٹانگوں کے مسلز بنانے کے لیے بہترین ورزشیں ہیں۔

    ٹیمپو برقرار رکھنا

    لفٹنگ کو 7 سیکنڈ ٹیمپو میں مکمل کرنا چاہیئے، یعنی 3 سیکنڈ میں ویٹ لفٹ کرنا، ایک سیکنڈ رکنا اور 3 سیکنڈ نیچے کرنا۔

    اگر آپ سے کم از کم 8 بار وزن اوپر نیچے نہیں کیا جارہا تو پھر یہ عمل اپنی سہولت کے مطابق آرام سے مسلز کو تھکائے بغیر 8 بار مکمل کریں۔ مسلز اسی صورت میں مضبوط ہوتے ہیں جب آپ ان میں مزاحمت کا اضافہ کریں۔

    2 دن بھی کافی

    ہر ہفتے کم از کم 2 بار ویٹ ٹریننگ کرنا مثالی سمجھا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہفتے میں 2 دن فل باڈی ٹریننگ سے مسلز کی مضبوطی میں نمایاں بہتری آسکتی ہے اور ورزش کو باقاعدہ بنانے سے 4 سے 6 ہفتوں میں نتائج کو محسوس کرسکتے ہیں۔

    آرام دیں

    مسلز کو ریکوری کے لیے ورزش کے مزید سیشنز میں کم از کم 48 گھنٹے کا وقفہ ضرور دیں۔

    یاد رکھیں

    ماہرین کے مطابق درمیانی عمر کے مردوں کو زیادہ مسلز کے حصول کے لیے بھاری وزن کی ورزشوں کو کم بار کرنا چاہیئے، مثال کے طور پر ہر ورزش کے 3 سیٹس کو 8 دفعہ دہرانا بہترین ہے، مگر آپ اپنی ضرورت کے مطابق اس میں کمی بیشی کرسکتے ہیں۔

  • ورزش آنکھوں کی صحت کے لیے بھی مفید

    ورزش آنکھوں کی صحت کے لیے بھی مفید

    اسکرینز کا مستقل استعمال آنکھوں کو خشک کردیتا ہے جس سے آنکھیں تکلیف کا شکار ہوجاتی ہیں، تاہم ماہرین نے اب اس کا انوکھا حل دریافت کیا ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ ورزش سے آنکھوں کی خشکی اور کھنچاؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔

    آنکھوں کی خشکی یا ڈرائی آئز ایسی کیفیت ہے جس میں آنکھوں کی نمی کم ہونے لگتی ہے اور ڈاکٹر قطرے ٹپکانے کے کا مشورہ دیتے ہیں، لیکن اس کی شدید کیفت آنکھوں میں درد اور کھنچاؤ کی وجہ بننے لگتی ہے۔

    کینیڈا میں واٹرلو یونیورسٹی نے اس عمل کا بھرپور جائزہ لیا ہے، انہوں نے پلک جھپکانے کے عمل کو ایک نعمت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر بار پلکیں آنکھ پر نمی کی ایک تہہ چڑھا دیتی ہیں۔ یہ نمی آنکھ کو خشکی، گرد و غبار اور جراثیم وغیرہ سے بچاتی ہیں۔

    تاہم جدید دور میں اسکرین دیکھنے سے خشک آنکھوں کے امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اسی لیے واٹرلو یونیورسٹی نے غور کیا کہ کیا ورزش اس کیفیت سے بچا سکتی ہے۔

    اس ضمن میں پروفیسر ہائنز اوٹرے اور ان کے ساتھیوں نے 52 افراد بھرتی کیے، اس کے بعد انہیں دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا یعنی ایک گروہ کو کھلاڑی قرار دیا گیا اور دوسرے کو عام فرد کہا گیا۔

    ان میں سے کھلاڑی یا ایتھلیٹ گروہ سے کہا گیا کہ وہ ہفتے میں 5 مرتبہ ورزش کرے اور دوسرے گروہ کو ہفتے میں صرف ایک مرتبہ ورزش کرنے کو کہا۔

    اس دوران ان کی آنکھوں کا جائزہ لیا جاتا رہا جس کے بعد معلوم ہوا کہ ورزش کرنے والے گروپ کی آنکھوں میں نمی بہت اچھی طرح برقرار رہی اور آنکھوں کی مجموعی بہتر صحت پر اس کے اثرات ہوئے۔

    دوسرے گروہ میں یہ رحجان بہت کم دیکھا گیا جس س سے ثابت ہوا کہ ورزش بینائی اور آنکھوں کی نمی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ورزش کے دوران آنکھوں میں نمی پہنچانے والے غدود زیادہ سرگرم ہوجاتے ہیں۔

  • کنو کے چھلکوں‌ میں حسن کا راز

    کنو کے چھلکوں‌ میں حسن کا راز

    کنو کے چھلکے عام طور سے لوگ پھینک دیتے ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کنو کے چھلکوں کے صحت اور خوب صورتی پر حیران کُن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    کنو اگر وٹامن سی سے بھرپور پھل ہے تو اس کے چھلکوں میں فائبر، وٹامن بی 6، کیلشیم، وٹامن اے، فولک ایسڈ سمیت ’پولی فینول‘ جیسے اجزا پائے جاتے ہیں جو کہ دل، معدے اور جِلدی امراض میں بے حد مفید ثابت ہوتے ہیں۔

    کنو کے چھلکے اور خوب صورتی

    کنو کے چھلکوں کو کاٹ کر خشک کر لیں، اب اس سے مزیدار چائے اور قہوہ بنایا جا سکتا ہے، یہ چائے بھی وٹامن سی سے بھرپور ہے، اس قہوے کا استعمال خاص طور پر جِلد پر متاثر کن نتائج مرتب کرتی ہے۔

    کنو کے چھلکوں کو اُبال کر نہانے والے پانی میں شامل کرنے سے جسم سے خوشبو آئے گی اور آپ کی جلد تروتازہ، موسمی الرجیز اور انفیکشنز سے پاک رہے گی۔

    کنو کے چھلکوں کو جلد پر ملنے سے ایکنی کیل مہاسوں سے دنوں میں چھٹکارہ حاصل ہو سکتا ہے، چھلکوں کو خشک کرنے کے بعد اچھی طرح پیس کر ان کا پاؤڈر بنالیں، اب اس پاؤڈر کو شہد میں اچھی طرح حل کریں اور چہرے پر ماسک کے طور پر استعمال کریں۔

    چھلکوں میں موجود تیزابیت کی وجہ سے دانتوں کو بھی چمکایا جا سکتا ہے۔

    استعمال

    کنو کے چھلکوں کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی شکل میں کھایا جا سکتا ہے اور انھیں باریک باریک کاٹ کر سلاد میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یا ان کو شربت کے طور پر بھی غذا میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

    احتیاط:

    کنو کے چھلکوں کا استعمال اگر پہلی بار کیا جا رہا ہے تو شروع میں اس کا استعمال کم مقدار میں شروع کریں۔

  • نئے سال کے اہداف: وبا کے دور میں صحت کو پہلی ترجیح بنائیں

    نئے سال کے اہداف: وبا کے دور میں صحت کو پہلی ترجیح بنائیں

    سال نو کا پہلا دن خود سے بہت سے وعدے کرنے اور نئے اہداف طے کرنے کا نام ہوتا ہے، چونکہ گزشتہ 2 سال سے دنیا صحت کے حوالے سے ایک شدید دھچکے سے گزر رہی ہے تو اب وقت ہے کہ اپنی صحت کو اپنی پہلی ترجیح بنائی جائے۔

    اپنی صحت کے لیے اہداف طے کرنا صرف نئے سال میں وزن کم کرنے کے ہدف کا نام نہیں، بلکہ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ وبا کے اس دور میں آپ خود کو محفوظ رکھ سکیں، اور یہی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

    تو آئیں پھر آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اس سال آپ نے خود کو کیسے صحت مند رکھنا ہے، آخر صحت مند رہنا ہی آج کے دور میں سب سے بڑی کامیابی ہے۔

    صحت مند غذائیں سب سے ضروری

    سب سے پہلے تو اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ جو بھی کھائیں وہ صحت مند اور غذائیت بخش ہو۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ آپ کی قوت مدافعت میں اضافہ ہو اور آپ بیماریوں کا آسان شکار نہ بنیں۔

    صحت مند رہنے کے لیے کھانے کی مقدار کم یا زیادہ کرنے کے بجائے ڈائٹ میں تبدیلی کریں، پھلوں اور خصوصاً سبزیوں کا استعمال بڑھا دیں۔

    روزمرہ کی غذا میں سبزیاں، پھل، دودھ، انڈے، دالیں اور مچھلی شامل کریں، اس سے آپ کے جسم کو درکار توانائی اور غذائی اجزا کی ضرورت پوری ہوگی۔

    کچن میں کیا رکھنا ہے؟

    اس سال اپنے کچن میں نئے برتن لانے کے بجائے اسے دالوں، گندم، سبزیوں، پھلوں، جڑی بوٹیوں اور صحت بخش تیلوں سے بھر لیں۔ یقیناً اگلے سال میں آپ کی غذائی عادات بھی بہتر ہوجائیں گی۔

    گھر کے کھانے کو ترجیح دیں

    کیا آپ جانتے ہیں مستقل بنیادوں پر باہر کا کھانا کھانا نہ صرف آپ کو کینسر سمیت بے شمار بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے بلکہ یہ ہماری قوت مدافعت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    باہر کے بنے کھانوں میں مرچ مصالحوں اور مضر صحت تیل کی بہتات ہوتی ہے۔ اس کے برعکس گھر کا بنا ہوا صاف ستھرا کھانا آپ کو امراض قلب، بلڈ پریشر اور ذیابیطس سے تحفظ فراہم کرے گا اور آپ کی قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوگا۔

    چنانچہ اگلے سال کے اہداف میں باہر کے کھانے سے پرہیز اور گھر کے کھانے کی ترجیح بھی شامل کرلیں۔

    ایک دن گوشت کے بغیر

    ہفتے کا ایک دن گوشت کے بغیر ضرور گزاریں، گو کہ گوشت جسم کو وٹامنز، پروٹین اور آئرن تو فراہم کرتا ہے تاہم اس کا استعمال اعتدال میں کرنا چاہیئے اور ایک دن گوشت سے پرہیز اس کا نہایت بہترین طریقہ ہے۔

    گوشت کی جگہ سبزیوں کی مزیدار ڈش، انڈے، دال اور پھل دن کا بہترین کھانا ثابت ہوگا۔

    پانی کو مت بھولیں

    ہر موسم میں پانی کا زیادہ استعمال نہ چھوڑیں۔ پانی نظام ہاضمہ کو فعال رکھتا ہے اور کھانا جلد ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے، یہ وزن میں زیادتی یا کمی کرنے کے لیے ضروری ہے۔

    پھل اور سبزیاں بہترین دوست

    کیا آپ جانتے ہیں پھل اور سبزیاں ہمیں بے شمار فوائد پہنچاتی ہیں؟ یہ نہ صرف خون کے بہاؤ کو معمول پر رکھ کر امراض قلب اور بلڈ پریشر سے بچاتی ہیں بلکہ موڈ اور نفسیات پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتی ہیں۔

    پھل اور سبزیاں کھانا ڈپریشن اور ذہنی تناؤ سے بھی بچاتا ہے جبکہ جسم میں خوشی پیدا کرنے والے ہارمونز میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

    حرکت میں آئیں

    اس سال بھاری بھرکم ورزش کے منصوبے بنانے کے بجائے صرف اتنا کریں کہ دن میں کچھ وقت چہل قدمی کرلیں یا صرف سیڑھیاں چڑھ لیں۔ گو کہ جسم کو زیادہ سے زیادہ فعال رکھنا جسمانی و ذہنی صحت کے لیے نہایت ضروری ہے، لیکن اگر آپ یہ نہیں بھی کرسکتے تب بھی معمولی حرکت ضرور کریں۔

    کوشش کر کے بیٹھنے اور لیٹنے کا وقت مختصر کرتے جائیں اور خود کو حرکت میں لائیں، آہستہ آہستہ آپ خود میں واضح فرق محسوس کریں گے۔

    یاد رکھیں، جان ہے تو جہاں ہے، اگر آپ صحت مند اور تندرست ہوں گے تو ہی زندگی کی دیگر رنگینیوں سے لطف اندوز ہوسکیں گے۔

  • نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن قرار

    ذہنی صحت کے لیے کام کرنے والے عالمی اداروں نے نئی نسل کو ڈپریسڈ جنریشن قرار دیتے ہوئے ڈپریشن کی متعدد وجوہات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 50 فیصد نوجوان غربت، بیروزگاری اور اقتصادی مشکلات کے سبب خودکشی کرتے ہیں جبکہ ماہرین نفسیات کے مطابق 80 فیصد نوجوان ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر لیتے ہیں۔

    نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ خود کشی کی بڑی وجوہات میں نفسیاتی امراض، غربت، بے روزگاری، منشیات کا استعمال، امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بےعزتی کا خوف اور منفی مقابلے کا رجحان بھی شامل ہیں۔

    دنیا کے تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی صورت میں سماجی ناہمواری موجود ہے جس کی وجہ سے لوگ ذہنی انتشار کا شکار ہو رہے ہیں جس کا منطقی انجام خود کشی جیسے بہت بھیانک روپ میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔

    مینٹل ہیلتھ ڈیلی نے خودکشی کے متعدد اسباب میں خاص طور پر 15 وجوہات کا ذکر کیا ہے، ان وجوہات میں ذہنی بیماریاں، ناخوشگوار تجربات، ایذا، ڈر، خوف، ناپختہ شخصیت، نشیلی ادویات کا استعمال، غذائی مسائل، بے روزگاری، اکیلا پن، رشتے اور تعلقات سے جڑے مسائل، جینیاتی امراض، خواہشات کی عدم تکمیل، جان لیوا امراض، دائمی جسمانی اور ذہنی درد و تکلیف، معاشی مسائل اور ڈاکٹرز کی جانب سے تجویز کردہ ادویات کی وجہ سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں وغیرہ شامل ہیں۔

    امتحان میں ناکامی، کم عمری کی شادی، گھریلو تشدد، طعنہ زنی، بے عزتی کا خوف، منفی مقابلے کا رجحان، گھریلو تشدد اور لڑائی کی کو بھی خود کشی کے اسباب میں شامل کیا جاتا ہے۔

    ڈپریشن سے چھٹکارا کیسے ممکن ہے؟

    پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہمارا سماجی نظام ہے جہاں اولاد یا رشتوں سے زیادہ روایات، رسوم اور باہر والوں کی آرا کو اہمیت دی جاتی ہے۔

    ڈپریشن ایک مخصوص کیفیت کا نام ہے جس میں مریض خود کو تنہا، اداس اور ناکام تصور کرتا ہے، یہ مرض واقعات کے منفی رخ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

    اس کیفیت میں اگر مریض کو فیملی یا دوست و احباب کی طرف سے مناسب مدد نہ ملے اور بروقت علاج پر توجہ نہ دی جائے تو مریض کی ذہنی حالت بگڑنے لگتی ہے جو اس کی سوشل اور پروفیشنل زندگی دونوں کے لیے مہلک ہے۔

    عالمی اداروں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق سنہ 2011 کے بعد 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں میں اس مرض کی شرح تشویش ناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

    تاہم نئی نسل ڈپریسڈ جنریشن کیوں بنتی جارہی ہے؟ اس کی کچھ وجوہات درج ذیل ہیں۔

    جنریشن گیپ: ماہرین کے مطابق گزشتہ کچھ سال میں آنے والے ٹیکنالوجی کے طوفان نے نئی اور پرانی نسل کے درمیان بے تحاشہ فاصلہ پیدا کردیا ہے جس کی وجہ سے دونوں نسلوں کے درمیان گفت و شنید کی کمی پیدا ہوگئی ہے۔

    سوشل میڈیا: ڈپریشن کی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی ہے جس پر لوگ اپنی مصنوعی شخصیات پیش کرتے ہیں نتیجتاً دیگر افراد احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

    اسمارٹ فونز کا زیادہ استعمال: موبائل فونز کے بہت زیادہ استعمال سے دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، قوت برداشت کم ہونے سے نوجوان نسل میں ڈپریشن کی شرح تیزی سے بڑھی ہے مگر ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بجائے سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا ہیں۔

  • کیا فائزر کے مقابلے میں موڈرنا ویکسین دل کی سوزش کا زیادہ باعث بنتی ہے؟

    کیا فائزر کے مقابلے میں موڈرنا ویکسین دل کی سوزش کا زیادہ باعث بنتی ہے؟

    کیا فائزر کے مقابلے میں موڈرنا ویکسین دل کی سوزش کا زیادہ باعث بنتی ہے؟ اس سلسلے میں ایک نیا تحقیقی مطالعہ سامنے آ گیا ہے۔

    جمعرات کو برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں کہا گیا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف موڈرنا کی ویکسین فائزر ویکسین کے مقابلے میں دل کی سوزش کا زیادہ باعث بنتی ہے۔

    ڈینش زبان کی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موڈرنا کمپنی کی MRNA.O ویکسین سے دل کے پٹھوں میں سوزش پیدا کرنے کا امکان 4 گنا زیادہ ہے، تاہم محققین کا کہنا ہے کہ یہ اس ویکسین کا وہ سائیڈ ایفیکٹ (مضر اثر) ہے جو بہت نایاب ہے، اور یہ فائزر ویکسین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

    اس تحقیق میں تقریباً 85 فی صد ڈین نسل کے لوگ شامل تھے، یعنی ان کی مجموعی تعداد 49 لاکھ تھی، جن کی عمریں 12 سال یا اس سے زیادہ تھیں، تحقیق کے دوران mRNA پر مبنی کرونا ویکسینز اور دل کی سوزش کے درمیان تعلق پر تحقیقات کی گئیں، جسے مائیوکارڈائٹس یا مائیوپیری کارڈائٹس بھی کہا جاتا ہے۔

    واضح رہے کہ اسرائیل اور امریکا میں کی جانے والی ابتدائی ریسرچز میں نے فائزر اور موڈرنا کی طرف سے تیار کردہ mRNA ویکسینز کا ٹیکہ لگانے کے بعد دل کی سوزش کے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشان دہی کی جا چکی ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موڈرنا کی ویکسین کے ساتھ ویکسینیشن کا تعلق ڈینش آبادی میں مائیوکارڈائٹس (myocarditis) یا مائیوپیری کارڈائٹس کے نمایاں طور پر بڑھے ہوئے خطرے سے تھا۔

    تاہم ڈنمارک کے محققین کا کہنا ہے کہ ایم آر این اے ٹیکنالوجی والی ان دونوں ویکسینز سے دل کی سوزش لاحق ہونے کا مجموعی خطرہ بہت ہی کم تھا۔

    محققین کے مطابق فائزر ویکسین سے 71,400 افراد میں صرف 1 کیس دل کی سوزش کا سامنے آیا، جب کہ موڈرنا ویکسین سے 1 کیس فی 23,800 افراد میں سامنے آیا، نیز، سوزش کے زیادہ تر کیسز ہلکی نوعیت کے تھے۔

  • چاکلیٹ کے یہ فوائد جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    چاکلیٹ کے یہ فوائد جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ چاکلیٹ میں غذائیت اور بڑی بیماریوں سے بچانے والے مادے صحت پر مثبت اثرات ڈال سکتے ہیں۔

    ویسے تو چاکلیٹ کی کئی اقسام ہیں لیکن خالص ڈارک چاکلیٹ میں براہ راست کوکوا بیجوں سے حاصل شدہ چاکلیٹ کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔

    ڈارک چاکلیٹ فائبر اور معدنیات سے بھری ہوتی ہے، اگر 100 گرام کی چاکلیٹ بار لی جائے جس میں 70 سے 85 فیصد کوکوا موجود ہو تو اس میں مندرجہ ذیل مقدار کے حساب سے معدنیات موجود ہوں گی۔

    فائبر: 11 گرام

    آئرن: 67 فیصد

    میگنیشیئم: 58 فیصد

    کوپر: 89 فیصد

    میگنیز: 98 فیصد

    اس کے علاوہ چاکلیٹ میں فاسفورس، زنک، پوٹاشیئم اور سلینیئم بھی وافر مقدار میں پایا جاتا ہے تاہم 100 گرام چاکلیٹ روزانہ کی بنیاد پر کھانا نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس میں 600 کیلوریز اور شوگر بھی موجود ہوتی ہے۔

    صحت کے حوالے سے چاکلیٹ کے بہتر نتائج اسی وقت حاصل ہوں گے جب اسے اعتدال میں کھایا جائے۔

    ڈارک چاکلیٹ صحت بخش فیٹی ایسڈز کی بھی حامل ہے، اس میں اولک ایسڈ، اسٹیرک ایسڈ، اور پالمیٹک ایسڈ بھی موجود ہوتے ہیں، اولیک ایسڈ بالخصوص قلبی صحت کے لیے مفید ہے جو زیتون کے تیل میں بھی پایا جاتا ہے۔

    اسٹیرک ایسڈ کولیسٹرول پر معتدل اثر ڈالتا ہے جبکہ پالمیٹک ایسڈ کولیسٹرول کو بڑھاتا تو ہے لیکن یہ چاکلیٹ میں موجود کل چکنائی کا صرف ایک تہائی حصہ ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ ڈارک چاکلیٹ میں بلڈ پریشر کو کم کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔

    چاکلیٹ میں فلیونولز جسم میں نائٹرک آکسائڈ خارج کرواتے ہیں، نائٹرک آکسائڈ ایک سگنل کے ذریعے شریانوں کو ڈھیلا کردیتا ہے جس کی وجہ سے بلڈ پریشر زیادہ سے کم ہوجاتا ہے۔

  • نیند کی کمی کا حیران کن نقصان

    نیند کی کمی کا حیران کن نقصان

    نیند کی کمی سے بے شمار طبی و نفسیاتی مسائل لاحق ہوسکتے ہیں تاہم اب اس کا ایک ایسا نقصان سامنے آیا ہے جو اب تک نظروں سے اوجھل تھا۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق نیند کی کمی متعدد طبی مسائل کا خطرہ بڑھاتی ہے مگر اس کے نتیجے میں لوگ جلد بوڑھے بھی ہوسکتے ہیں۔

    ایکسٹر یونیورسٹی کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر کے ایسے افراد جو نیند کی کمی کے شکار ہوتے ہیں، ان کا عمر بڑھنے کے بارے میں تصور منفی ہوجاتا ہے جس کا نتیجہ جسمانی، ذہنی اور ذہنی صحت پر منفی اثرات کی شکل میں مرتب ہوتا ہے۔

    تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ جو افراد اپنی نیند کو بدترین تصور کرتے ہیں وہ خود کو بوڑھا بھی سمجھتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر زیادہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔

    محققین نے بتایا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ ہم سب کو اپنی زندگی کے مختلف حصوں میں مثبت اور منفی تبدیلیوں کا تجربہ ہوتا ہے، مگر کچھ افراد بہت زیادہ منفی تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ جیسا ہم جانتے ہیں کہ بڑھاپے کے بارے میں منفی تصورات مستقبل میں جسم، دماغ اور ذہن کی صحت کا تعین کرتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق سے عندیہ ملتا ہے کہ ناقص نیند کے شکار افراد خود کو بوڑھا محسوس کرتے ہیں اور عمر بڑھنے کے حوالے سے زیادہ منفی خیالات رکھتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے مگر ایک وضاحت یہ ہے کہ زیادہ منفی خیالات جسم اور ذہن دونوں پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔

    اس تحقیق میں 50 سال یا اس سے زائد عمر کے 4482 افراد کو شامل کیا گیا تھا، ان افراد کے مسلسل ذہنی ٹیسٹ کیے گئے اور طرز زندگی سے متعلق سوالنامے بھروائے گئے۔

    تحقیق کا مقصد یہ سمجھنا تھا کہ ایسے کونسے عناصر ہیں جو بڑھاپے میں لوگوں کو ذہنی طور پر صحت مند رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جن لوگوں کو نیند کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے ان میں جلد بڑھاپے کا امکان دیگر سے زیادہ ہوتا ہے، ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ان شواہد میں اضافہ ہوتا ہے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ نیند صحت مند بڑھاپے کے لیے کتنی اہم ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج جریدے بی ہیوریل سلیپ میڈیسن میں شائع ہوئے۔