Tag: صحت

  • دماغی اور جسمانی صحت کے لیے سفر کے 5 فوائد

    دماغی اور جسمانی صحت کے لیے سفر کے 5 فوائد

    دماغی صحت کا خیال رکھنے کے لیے مختلف ورزشوں، اچھی نیند اور متوازن غذا کے بارے میں تو آپ جانتے ہی ہوں گے لیکن کیا آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس کے لیے سفر کرنا بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے؟

    ماہرین کہتے ہیں کہ سفر ہمیشہ نفسیاتی صحت پر مثبت طور پر اثر انداز ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت سے لوگوں کو سفر کی اہمیت کا احساس نہیں ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس طرح سفر قوت مدافعت کو اور موڈ کو بہتر بناتا ہے، افسردگی کا مقابلہ کرتا ہے، اور دماغی صحت کو بہتر بناتا ہے۔

    جب آپ سفر کی منصوبہ بندی کرتے ہیں تو اس کے مثبت اثرات شخصیت پر بھی پڑتے ہیں، اس حوالے سے بولڈ اسکائی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ میں سفر کے ایسے پانچ فوائد بتائے گئے ہیں جو دماغ اور جسمانی صحت پر مرتب ہوتے ہیں۔

    دماغی صحت: سفر دماغ کو مزید وسعت دینے میں مدد کرتا ہے، کیوں کہ نئے تجربات سے علم میں وسعت اور لچک آتی ہے اور دماغ کو عروج ملتا ہے، جب کہ معمول کے شب و روز کے مسائل اور پریشانیاں بھی پیچھے رہ جاتی ہیں، جس سے دماغ کو مضبوط ہونے کا وقت مل جاتا ہے۔

    جسمانی قوت مدافعت: سفر جسمانی قوت مدافعت کے نظام کی نشوونما میں معاون ہوتا ہے جو کرونا وائرس سے بچنے میں مدد دیتا ہے، کیوں کہ سفر کے دوران مختلف قسم کی آب و ہوا سے واسطہ پڑتا ہے، جسمانی سرگرمی بڑھ جاتی ہے اور ذہن بھی استحکام حاصل کرتا ہے، جس سے قوت مدافعت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    فیصلہ سازی پر اثر: کیا آپ جانتے ہیں کہ سفر فیصلے کرنے میں سکون اور لچک کا بھی باعث بنتا ہے؟ جب آپ نئے ممالک اور خطوں کا سفر کرتے ہیں تو آپ کا ذہن آپ کو مختلف ماحول اور ثقافتوں کے مطابق ڈھالنے میں مدد فراہم کرتا ہے، جس کے نتیجے میں جسمانی اور ذہنی طور پر مختلف مہارتیں حاصل ہوتی ہیں، اور فیصلہ سازی اور دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تربیت ملتی ہے۔

    دل کی بیماری سے بچاؤ: سفر کرنے والے افراد کو بہت کم ذہنی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسا کہ تناؤ، اضطراب، مایوسی یا افسردگی وغیرہ۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ بہت زیادہ سفر کرتے ہیں وہ دل کی پریشانیوں اور دل کے دورے کی شاذ و نادر ہی شکار ہوتے ہیں۔

    مجموعی اچھی صحت: جیسا کہ سفر انسانی دماغ اور روحانی حالت پر اثر انداز ہوتا ہے، اور اس کا اظہار جسمانی اثر سے جھلکتا ہے، انسان میں صبر پیدا ہوتا ہے۔ سفر شفا یابی اور اچھی صحت میں معاونت کرتا ہے، خاص طور پر سمندر کے ذریعے سفر کرنا بہت مفید ہوتا ہے۔

  • کیا لیموں کے بیج میں بھی غذائیت ہوتی ہے؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    کیا لیموں کے بیج میں بھی غذائیت ہوتی ہے؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    ہم پھلوں کے بیج عموماً پھینک دیا کرتے ہیں، کچھ بیج تو بہت کڑوے ہوتے ہیں جیسا کہ لیموں کا بیج، لیکن اگر آپ لیموں کے بیج کے فوائد اور اس میں موجود غذائیت کے بارے میں جان جائیں تو آپ کو حیرت ہوگی۔

    غذائیت

    لیموں کے بیجوں میں اچھی خاصی مقدار میں اینٹی آکسڈینٹ ہوتے ہیں، جو بنیادی طور پر وٹامن سی ہیں، لیموں کے بیجوں میں سیلائیلیک ایسڈ ہوتا ہے، جو درد کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیموں کے بیجوں میں امینو ایسڈ ہوتا ہے، جیسے امرود کے بیجوں میں ہوتا ہے، اور ان میں پروٹین اور چربی کی مقدار بھی ہوتی ہے جو صحت کے لیے اچھی ہوتی ہے۔

    فوائد

    زہر کو نکالنا: لیموں کے بیج کڑوے ہونے کے باوجود صحت کے لیے بہت مفید ہیں، یہ ہمارے جسم سے زہریلے اور دیگر ناپسندیدہ مادوں سے پاک کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

    درد دور کرنا: لیموں کے بیج سر درد اور جسم کے دیگر دردوں کو دور کرنے میں بھی مددگار ہیں، ان میں موجود ایسڈ دراصل اسپرین کا ایک اہم جز ہے۔

    پیٹ کے کیڑوں کا خاتمہ: لیموں کے بیج سے پیٹ کے کیڑوں کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے، یہ اس کا ایک قدرتی علاج ہے، لیموں کے بیج کچل کر انھیں پانی یا دودھ کے ساتھ ابالیں، پھر بچوں کو کھلائیں۔

    جلد کی نشوونما: جلد کی تازگی برقرار رکھنے کے لیے کچھ مصنوعات میں بھی لیموں کے بیج استعمال کیے جاتے ہیں، ان میں وٹامن سی ہوتا ہے، یہ اینٹی آکسیڈنٹ ہے۔

    مہاسوں کا علاج: لیموں کے بیج کا تیل مہاسوں کے علاج میں بہت مؤثر ہے، اس کے تیل میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہوتی ہیں۔

    موڈ میں بہتری: لیموں کے بیجوں کو موڈ کو بہتر بنانے کے لیے اروما تھراپی کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی خوش بو سے کمرے سے مچھر بھی بھاگ جاتے ہیں۔

    احتیاط: پورے بیجوں کی بجائے پسے ہوئے بیج کھائیں کیوں کہ پیسے ہوئے بیج ہاضمے کے لیے کم نقصان دہ ہوتے ہیں، چڑچڑے پن والے، آنتوں کے سنڈروم میں مبتلا افراد اور وہ لوگ جو قبض اور پیٹ کی خرابی، بدہضمی کی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ اس کا استعمال نہ کریں۔

  • فون کی نیلی روشنی کا اثر دماغ تک پہنچانے والے خلیات دریافت

    فون کی نیلی روشنی کا اثر دماغ تک پہنچانے والے خلیات دریافت

    کیلی فورنیا: سائنس دانوں نے ایک طبی مطالعے میں آنکھوں میں ایسے خلیات کو شناخت کیا ہے جو ارگرد کی روشنی کا تعین کرتے ہوئے جسمانی گھڑی کے نظام کو ری سیٹ کرنے کا کام کرتے ہیں، جب یہ خلیات رات گئے مصنوعی روشنی کی زد میں آتے ہیں تو ہماری اندرونی گھڑی الجھن کا شکار ہو جاتی ہے، جس کا نتیجہ مختلف طبی مسائل کی شکل میں نکل سکتا ہے۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا کے Salk انسٹی ٹیوٹ فار بائیولوجیکل اسٹیڈیز کی اس تحقیق میں جن خلیات کا تعین کیا گیا ہے، انھیں نیلی روشنی کے حوالے سے سب سے زیادہ حساس بتایا گیا ہے، جس کا اثر دماغ تک پہنچتا ہے تو جسم کی حیاتیاتی گھڑی متاثر ہوتی ہے اور بے خوابی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، یہ روشنی عام ایل ای ڈی لائٹس اور دیگر ڈیوائسز جیسے اسمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ میں استعمال ہوتی ہے۔

    یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ رات کو تیز روشنی (اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ وغیرہ سے خارج ہونے والی روشنی) سے جسم کی حیاتیاتی گھڑی متاثر ہوتی ہے اور بے خوابی کا خطرہ بڑھتا ہے، یہ جسمانی گھڑی صحت کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے اور دن رات کا سائیکل متاثر ہونے سے مختلف امراض جیسا کہ کینسر، امراض قلب، موٹاپے اور ذیابیطس ٹائپ ٹو سمیت دیگر بیماریوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔

    رات کو موبائل فون کے استعمال سے پڑنے والے دباؤ سے تناؤ کا باعث بننے والے ہارمون کورٹیسول کا اخراج دماغ میں بڑھ جاتا ہے، جس سے دماغ میں برقی سرگرمی بڑھ جاتی ہے اور وہ جلد پر سکون نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ ماضی میں یہ مشورہ سامنے آتا رہا ہے کہ سونے سے ایک یا 2 گھنٹے پہلے اسکرین کا استعمال ترک کر دینا چاہیے۔

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نابینا افراد میں بھی ان کی حیاتیاتی گھڑی دن رات کے سائیکل سے آگاہ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے نابینا بھی روشنی کا احساس کر لیتے ہیں، تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ آئی پی آر جی سی ایس نامی یہ خلیات روشنی کے سگنل دماغ کو بھیجتے ہیں اور نابینا افراد بھی ان کی مدد سے دن یا رات کا تعین کر لیتے ہیں۔

    اس تحقیق کے بعد محققین کا کہنا ہے کہ ٹی وی، کمپیوٹر مانیٹر اور اسمارٹ فون اسکرین کو ایسے ڈیزائن کیا جا سکتا ہے جس سے نیلی روشنی کے دماغ پر اثر انداز ہونے کو روکا جا سکتا ہے۔

  • صحت کا عالمی دن: کیا غریب ممالک کو کرونا ویکسین کی منصفانہ فراہمی ہوسکے گی؟

    صحت کا عالمی دن: کیا غریب ممالک کو کرونا ویکسین کی منصفانہ فراہمی ہوسکے گی؟

    آج دنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جارہا ہے، رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ایسی دنیا تشکیل دینا ہے جس میں تمام افراد کو منصفانہ اور صحت مند ماحول حاصل ہو۔

    7 اپریل 1948 میں جب عالمی ادارہ صحت قائم کیا گیا، تو ادارے نے پہلی ہیلتھ اسمبلی کا انعقاد کیا۔ اس اسمبلی میں ہر سال 7 اپریل، یعنی عالمی ادارہ صحت کے قیام کے روز کو صحت کا عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی گئی۔

    اس دن کو منانے کا مقصد ایک طرف تو اس ادارے کے قیام کے دن کو یاد رکھنا ہے، تو دوسری طرف اس بات کا شعور دلانا ہے کہ دنیا کی ترقی اسی صورت ممکن ہے جب دنیا میں بسنے والا ہر شخص صحت مند ہو اور بہترین طبی سہولیات تک رسائی رکھتا ہو۔

    رواں برس عالمی ادارہ صحت نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں منصفانہ طبی سہولیات کی اہمیت آج جس قدر محسوس ہورہی ہے، اس سے پہلے کبھی نہ ہوئی۔ گزشتہ سال کی کرونا وائرس وبا نے اب تک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور اس موقع پر بھی معاشرتی و طبقاتی تفریق کا بھیانک چہرہ سامنے آیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈنہم مستقل ان خدشات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ کرونا وائرس ویکسین کی تقسیم نہایت غیر منصفانہ ہوسکتی ہے جس میں غریب ممالک محروم رہیں گے۔

    کچھ عرصہ قبل انہوں نے کہا تھا کہ ابھی تک دنیا کے 36 ممالک ایسے ہیں جہاں تاحال کرونا ویکسی نیشن شروع نہیں کی گئی، ان میں سے 16 ممالک کو کویکس (ویکسین کی تقسیم کی اسکیم) کے تحت ویکسین کی فراہمی کا پروگرام ہے۔ اس کے باوجود باقی 20 ممالک ویکسین سے محروم رہیں گے۔

    دوسری جانب امیر ممالک اپنے شہریوں کے لیے پہلے ہی ویکسین کی کروڑوں ڈوزز حاصل کرچکے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت امیر ممالک سے اپیل بھی کرچکا ہے کہ وہ غریب اقوام و ممالک کو کرونا ویکسین کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر ایک کروڑ خوراکیں عطیہ کریں۔

    عالمی ادارہ صحت کی کویکس ویکسین شیئرنگ اسکیم بھی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ دنیا کے 92 غریب ممالک کی کرونا ویکسین تک رسائی ہو اور اس کی قیمت ڈونرز ادا کریں۔

  • خبردار! کولڈ ڈرنک پینے سے قبل یہ پڑھ لیں

    خبردار! کولڈ ڈرنک پینے سے قبل یہ پڑھ لیں

    سافٹ ڈرنک پینا ہماری معمول کا حصہ بن چکا ہے، ہم میں سے ہر شخص اکثر سافٹ ڈرنک پیتا دکھائی دیتا ہے اور بعض افراد تو اس کے اس قدر دیوانے ہوتے ہیں کہ روزانہ پیتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سافٹ ڈرنک کا ایک گلاس بھی ہمارے جسم کے لیے بے حد نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    سافٹ ڈرنکس کے یوں تو بے حد نقصانات ہیں جن میں سب سے عام موٹاپا اور ذیابیطس ہے، اس کے علاوہ سافٹ ڈرنکس کے دیر سے ظاہر ہونے والے نقصانات اور بیماریوں کی بھی طویل فہرست ہے جس میں دانتوں اور ہڈیوں کو نقصان، جلدی امراض، امراض قلب، ڈپریشن، مرگی، متلی، دست، نظر کی کمزوری اور جلد پر خارش شامل ہیں۔

    تاہم ان خطرناک ڈرنکس کا ایک اور نقصان یہ بھی ہے کہ یہ کینسر کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔

    متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں متعدد اقسام کے کینسر اور سافٹ ڈرنکس کے استعمال کے درمیان مضبوط تعلق کو دیکھا گیا، تحقیق کے مطابق ہفتے میں صرف دو سافٹ ڈرنکس ہی انسولین کی سطح بڑھا دیتے ہیں جس سے لبلبے کے کینسر کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔

    اسی طرح روزانہ ایک سافٹ ڈرنک کا استعمال مردوں میں مثانے کے کینسر کا خطرہ 40 فیصد تک بڑھا سکتا ہے جبکہ ڈیڑھ سافٹ ڈرنک کا روزانہ استعمال خواتین میں بریسٹ کینسر کے امکان میں اضافہ کردیتا ہے۔

    سافٹ ڈرنک میں شامل اجزا 6 اقسام کے کینسر پیدا کرنے کا باعث بن سکتے ہیں، اور اس کے باعث ہونے والے کینسر میں پیٹ اور مثانے کا کینسر سب سے عام ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس زہر کو اپنی غذا سے دور رکھنا چاہیئے اور اس کی جگہ پانی، تازہ پھلوں کا جوس اور شیکس استعمال کرنے چاہئیں۔

  • جادوئی اثرات کی حامل کلونجی کی چائے

    جادوئی اثرات کی حامل کلونجی کی چائے

    کلونجی شفا اور فوائد کا خزانہ ہے، اس کا باقاعدہ استعمال بے تحاشہ جسمانی فوائد پہنچا سکتا ہے، کلونجی اور دیگر بوٹیوں کی چائے گلے کے بے شمار مسائل سے بچا سکتی ہے۔

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں ڈاکٹر بلقیس نے کلونجی کے فوائد بتاتے ہوئے اس کی چائے بنانے کا طریقہ بتایا۔

    ڈاکٹر بلقیس کے مطابق کلونجی کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں:

    کلونجی امیون بوسٹر ہے جس سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔

    پھیپھڑوں کے لیے بے حد فائدہ مند ہے۔

    پرسکون نیند لانے میں مدد گار ہے۔

    جسم کے مختلف اعضا کے درد میں کمی لاسکتی ہے۔

    نزلہ زکام اور ناک بند ہونے کی صورت میں صرف کلونجی سونگھنے سے تکلیف میں کمی ہوسکتی ہے۔

    سر میں درد ہو تو کلونجی کو ہلکا سا توے پر گرم کر کے ماتھے پر لگائیں، درد میں فوری افاقہ ہوگا۔

    کلونجی کا تیل روزانہ 1 سے 2 بوند روزانہ پینے سے پیٹ کے کیڑے ختم ہوجاتے ہیں۔

    گلا خراب ہو، ٹانسلز ہوں یا کھانسی ہو تو کلونجی کو نیم گرم کر کے ململ کے کپڑے میں باندھیں اور پوٹلی بنا کر گلے کی سکائی کریں، فوری آرام حاصل ہوگا۔

    کلونجی کی چائے

    ڈاکٹر بلقیس نے کلونجی کی چائے بنانے کا طریقہ بھی بتایا۔

    اس کے لیے 2 کپ پانی پین میں ڈالیں، اس میں 1 سے 2 چمچ کلونجی شامل کریں، سیاہ زیرہ آدھا چائے کا چمچ، سونف 1 چمچ، 1 سے 2 کڑے پتے اور ادرک کا ٹکڑا شامل کریں۔

    اسے اتنا پکائیں کہ 2 کپ پانی 1 کپ رہ جائے۔

    اسے چھان لیں اور دل چاہے تو ایک چمچ شہد ڈال کر پئیں، اسے اتنا گرم ہونا چاہیئے جتنا برداشت کرسکیں اور اسے گلے میں روک روک کر پئیں۔

    بعد ازاں اس کے اوپر پانی نہ پئیں۔

    اس کا باقاعدہ استعمال ہاضمے اور گلے کے مسائل کو ٹھیک رکھے گا جبکہ قوت مدافعت میں اضافہ اور دوران خون میں بھی بہتری آئے گی۔

  • مزیدار فرنچ فرائز کھانے کا وہ نقصان جو آپ نہیں جانتے

    مزیدار فرنچ فرائز کھانے کا وہ نقصان جو آپ نہیں جانتے

    گرما گرم مزیدار فرنچ فرائز چاہے گھر کے بنے ہوں یا باہر کے، جب سامنے آتے ہیں تو بے اختیار دل للچانے لگتا ہے، لیکن یہ فرنچ فرائز آپ کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آلو اور آلو سے بنی ہوئی اشیا بلند فشار خون یعنی ہائی بلڈ پریشر کے خطرے میں اضافہ کر سکتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق آلو کا استعمال ہائی بلڈ پریشر کے خطرے میں 11 سے 17 فیصد اضافہ کرسکتا ہے۔

    البتہ کرسپی چپس کھانے سے یہ خطرہ نہیں ہوتا کیونکہ اسے کیمیائی عمل سے گزار کر اس میں موجود نہ صرف مضر بلکہ مفید اجزا کو بھی ضائع کردیا جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق آلو چونکہ تیزی سے توانائی میں اضافہ کرتا ہے اس لیے یہ ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ پیدا کرتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بلڈ پریشر کی وجہ سے ذہنی دباؤ میں اضافہ اور خلیوں کی کارکردگی میں کمی بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    ایک اور تحقیق میں بتایا گیا کہ وہ خواتین جو اپنی غذا میں آلو کا زیادہ استعمال کرتی ہیں ان میں حمل کے دوران ذیابیطس کا خطرہ 50 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

    البتہ دالیں اور سبزیاں استعمال کرنے سے اس خطرے میں 9 سے 12 فیصد کمی ہوجاتی ہے۔

  • خواتین: کیسے معلوم ہوگا کہ وٹامن ڈی کی کمی ہو چکی ہے؟

    خواتین: کیسے معلوم ہوگا کہ وٹامن ڈی کی کمی ہو چکی ہے؟

    وٹامن ڈی نہ صرف جسم کے لیے مفید ہے بلکہ کئی امراض سے بچاتا بھی ہے، اس کی کمی یا نقص سے کئی مہلک امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے اگر کوئی کرونا وائرس کا شکار ہو جائے تو بھی اس کے نظام تنفس کی بہتری کے لیے وٹامن ڈی مفید ہوتا ہے۔

    ڈائٹ آف ٹاؤن کلینک سے تعلق رکھنے والی ماہر غذائیت عبیر ابو راجیلی نے وٹامن ڈی کی کمی کی علامات کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

    سب سے زیادہ خطرہ کن لوگوں کو؟

    کچھ لوگوں کو وٹامن ڈی کی کمی کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں شامل ہیں 65 سال سے زیادہ عمر کے مرد و خواتین، حاملہ عورتیں، بچوں کو دودھ پلانے والی عورتیں، موٹاپے کا شکار افراد، آنتوں میں سوزش والے افراد، سخت جلد والے افراد اور ایسے لوگ جو سورج کی روشنی نہیں لیتے۔

    وٹامن ڈی کے ذرائع

    سورج کی شعاعوں کے سامنے رہنے سے انسانی جسم وٹامن ڈی خود کار طریقے سے پیدا کرتا ہے، سورج کی روشنی میں روزانہ 10-15 منٹ بیٹھنے سے جسم کو وٹامن ڈی ملتا ہے، اس کے علاوہ کھانے کے ذرائع جیسے انڈے کی زردی، پنیر، دودھ سے تیار کردہ اشیا، اور سالمن مچھلی وغیرہ سے بھی اس کی کافی مقدار مہیا ہوتی ہے۔

    روزانہ مطلوبہ مقدار

    بچوں کو روزانہ 400 IU وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے، اور ایک سال سے 70 سال کی عمر تک انھیں روزانہ 600 IU کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ 70 سے زیادہ عمر کے افراد کو روزانہ 800 IU کی ضرورت ہوتی ہے۔

    خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی کی علامات

    قوت مدافعت کی کمزوری

    وٹامن ڈی جسم کی قوت مدافعت کو تیز کرنے، نزلہ زکام اور انفلوئنزا سے بچنے اور بیماری کی مدت کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، یہ وٹامن سفید خون کے خلیوں کی سرگرمی کو بڑھاتا ہے جو بیکٹیریا سے لڑتے ہیں۔

    اگر آپ آسٹیوپوروسس، دائمی تھکاوٹ، اکتاہٹ، دائمی درد، جوڑوں میں سوزش وغیرہ سے دو چار ہیں تو یہ آپ کے جسم میں وٹامن ڈی کی کمی کی نشان دہی کرتا ہے۔ جسم میں وٹامن ڈی اور موسمی اختلافات، جسم میں انفیکشن کی موجودگی خاص طور پر سانس کے انفیکشن، کے درمیان گہرا تعلق ہے۔

    دل اور شریانوں کی بیماری

    وٹامن ڈی عمر رسیدہ افراد کو قوت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس سے موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، خصوصاً دل کی بیماریوں سے بچاتا ہے۔ اگر آپ ہائی بلڈ پریشر، یا دل کی بیماریوں سے دو چار ہیں، یا پہلے دل کا دورہ پڑا ہے تو یہ وٹامن ڈی کی کمی کی نشان دہی کرتا ہے۔

    ذہنی دباؤ

    کچھ مطالعات میں وٹامن ڈی اور افسردگی کے مابین ایک ربط دکھایا گیا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افسردگی کے خطرے کے تناظر میں وٹامن ڈی کی سطح کو بہتر بنانا ضروری ہے۔

  • کیا آپ کا بچہ ٹریننگ کپ میں کم دودھ پیتا ہے؟

    کیا آپ کا بچہ ٹریننگ کپ میں کم دودھ پیتا ہے؟

    کجھ والدین فکر مند ہو جاتے ہیں کہ جب سے انہوں نے اپنے بچہ کا فیڈنگ بوتل یا کپ چھڑوایا ہے تو ان کا بچہ کم دودھ یا پانی پی رہا ہے۔

    تاہم، یہ ایک عارضی تبدیلی ہے اور والدین کو اطمینان کرنا چاہیے ۔ چھوٹے بچوں کونئے پینے کے کپ کو جاننے اور استعمال کے لیے کچھ وقت کی ضرورت ہے۔ایک دفعہ وہ کپ کے عادی ہو جائیں گے ، تو وہ آسانی سے اور جتنا چاہیں کے پیئں گے۔

    ہمیں پینے کے کپ کو متعارف کروانے میں تاخیر اور بوتل کے استعمال کوطویل نہیں کرنا چاہیے ۔

    ٹھوس غذا کی اشیاء کو متعارف کرانے اور مناسب وقت پر پینے کا کپ نہ صرف مناسب غذائیت بچوں کے لیے فراہم کرتے ہیں ، بلکہ ان کے اورو موٹر کی نشونما کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ چھوٹے بچوں کو پینے کا کپ 12 مہینے کی عمر سے شروع کروا دینا چاہیے، اور فیڈینگ بوتل کا استعمال 18 مہینے کی عمر کے بعد بند کر دینا چاہیے۔ تکمیلی کھانا کھلانے کے آغاز پر، شیر خوار بچے آہستہ آہستہ ٹھوس غذا زیادہ کثرت سے کھاتے ہیں، تاہم ان کے کُل دودھ کے استعمال میں بتدریج کمی ہوتی ہے۔ یہ دودھ چھوڑنے کی ایک اچھی علامت ہے۔ بار بار ، "صرف دودھ” کھانے کا پیٹرن 1 سال کی عمر کے لیے مناسب نہیں ہے۔ ان کے لیے آہستہ آہستہ دن میں 3 باقاعدہ کھانے اور اس کے درمیان 1-2 غذائیت سے بھر پور سنیکس کا نمونہ ہونا چاہیے۔

    چھوٹے بچے اب دودھ بطور غذا پر انحصارنہیں کرتے ہیں۔ دودھ غذائیت سے بھرپور کھانا کھانے کی اشیاء کا ایک حصہ بن جاتا ہے ۔ والدین بچوں کو دودھ باقاعدہ کھانےیا سنیکس کے ساتھ پینے کے لیے دے سکتے ہیں ۔ آپ دودھ کو مختلف پکوان میں استعمال کر سکتے ہیں ، جیسے کہ ناشتے کے لیے دلیہ ، دوپہر کو سنیک میں مِنی سینڈوچ کے ساتھ دودھ کا ایک گلاس ،یا کھیر۔یہ بچوں کو دودھ پلانے کا عملی طریقہ ہے لیکن ان کے ٹھوس غذاء کھانے کی ضرورت پر سمجھوتا کیے بغیر۔

    دودھ اور ڈیری مصنوعات کیلشیم کا اچھا ذریعہ ہیں، جو کہ ہڈیوں کی صحت اور نشونما کے لیے ضروری ہے۔ محکمہ صحت ایک سے پانچ برس کے بچوں کےلئے روزانہ 360- 480 ملی لٹر دودھ دینے کی تجویز کرتا ہے۔ دودھ کے علاوہ ڈیری مصنوعات (دہی ، خمیر)، کیلشیم ملی سویا مصنوعات (جیسا کہ ٹوفو، خشک سیم دہی)،اضافی کیلشیم سویملک اورہری سبزیاں کیلشیم سے بھرپور ہیں۔جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں وہ کم دودھ پیتے ہیں ۔ والدین کو صحت مند کھانے کی ہدایات پر عمل کرنے اور ان کیلشیم سے بھرپور کھانے کی اشیاء کو روزانہ فراہم کرنے کے لئے مشورہ دیا جاتا ہے۔آپ کے لیے چند مندرجہ ذیل مشورے ہیں:

    ناشتہ
    دودھ کا دلیہ
    نرم پنیر سے بھرے سینڈوچ (مثال کے طور پر: ابلے انڈے اور نرم پنیر سینڈوچ ، ٹیونا پنیر سینڈوچ )
    دودھ یا اضافی کیلشیم سویمالک

    دوپہر / رات کا کھانا

    پھلیاں
    پتوں والی ہری سبزیاں (مثال کے طور پر،چوئے ثم، خشک سیم دہی اور بھنا ہوا قیمہ

    سنیک آپشن

    تازہ پھل سادہ دہی کے ساتھ
    کھیر
    پھلوں کا ملک شیک (بغیر چینی کے گھر میں تیار کردہ ملک شیک)
    میوے اور بیج کھائیں (مثال کے طور پر: کالے تلوں کا میٹھا سُوپ، بادام کا میٹھا سُوپ، ابلی مونگ پھلی )

  • نوزائیدہ بچوں میں یرقان کیوں ہوتا ہے، سبب جانیے

    نوزائیدہ بچوں میں یرقان کیوں ہوتا ہے، سبب جانیے

    یرقان کا مطلب جلد اور جسم کے ریشوں کی رنگت کا زرد ہونا ہے، یہ رنگت زیادہ تر جلد یا آنکھوں کے سفید حصہ میں زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ تمام نارمل نوزائیدہ بچوں میں سے تقریبا نصف میں یرقان دیکھا جاتا ہے۔

    نوزائیدہ بچوں پیلاہٹ کے اسباب

    پیدائش کے بعد پہلے چند دنوں میں آپ کے بچے کا جگر اتنی اچھی طرح کام نہیں کرتا جتنی اچھی طرح یہ بعد میں کام کرتا ہے لہذا خون میں بیلیروبن اکٹھی ہو جانے کا رجحان ہوتا ہے، جس کی وجہ سے جلد اور آنکھوں کے سفید حصے میں پیلاہٹ پیدا ہوتی ہے۔

    (بیلیروبن ایک رنگدار مادہ ہے جو سرخ خون کے خلیوں کے اندر موجود ہوتا ہے اور جیسے ہی یہ خلیے اپنی جگہ تبدیل کرتے ہیں یہ مادہ قدرتی طور پر آزاد ہو جاتا ہے)۔ نوزائیدہ بچوں میں سرخ خون کے خلیے اْن کی ضرورت سے زیادہ ہوتے ہیں، جب یہ زائد سرخ خون کے خلیے ٹوٹتے ہیں تو یہ  بیلیروبن کو آزاد کر دیتے ہیں۔

    کن بچوں کو یرقان ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے؟

    صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں یرقان ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، اس کے علاوہ کسی انفیکشن جیسے پیشاب کی نالی کے انفیکشن میں مبتلا نوزائیدہ بچے، پھر وہ بچے جس کا خون کا گروپ اپنی ماں سے مختلف ہو، اس کے خون کے خلیات زیادہ تیزی سے ٹوٹ پھوٹ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں یرقان ہو جاتا ہے۔

    کیا یرقان نوزائیدہ بچوں کے لئے نقصان دہ ہے؟

    بیشتر ننھے بچوں کیلئے یرقان نقصان دہ نہیں ہوتا، تاہم جگر میں گھلنے کے عمل سے نہ گزرنے والے بیلیروبن کی بہت زیادہ ہونے کے باعث سماعت کے مسائل ہو سکتے ہیں اور دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
    ایسے بچے جو ابتدائی عمر میں جگر کی بیماری میں مبتلا ہو، وہ بظاہر صحتمند دکھائی دیتے ہیں، مگر بیلیروبن کی زیادہ مقدار بہنے کی صورت میں بچوں کے نظام انہضام اور جگر میں مسائل پیدا ہوسکتے ہیں، جس کے لئے نظام انہضام اور جگر کے اسپیشلسٹ ڈاکٹرز کو معائنہ کرانا ضروری ہوتا ہے۔

    نوزائیدہ بچوں میں ہونے والے یرقان کا علاج

    پہلے ہفتے میں ہلکے یرقان کیلئے مائع پلانے  کے علاوہ کوئی عالج ضروری نہیں ہوتا، نوزائیدہ بچوں کے جسم میں پانی کی بہتر مقدار جاتے رہنا نہایت ضروری ہے، کیونکہ پانی کی تھوڑی سی کمی کی وجہ سے اکثر یرقان بہت بڑھ جاتا ہے

     درمیانی حد کے یرقان کا علاج اس طرح کیا جاتا ہے کہ بچے کو ننگے بدن )آنکھوں پر حفاظتی ماسک لگا کر( ایک تیز روشنی یا نیلی مائل روشنی کے نیچے رکھا جاتا ہے، اسے فوٹوتھراپی کہتے ہیں اور یہ علاج کئی طریقوں سے محفوظ سمجھا جاتا ہے، فوٹو تھراپی کی روشنی جلد میں موجود بیلیروبن کو توڑ پھوڑ کر یرقان کو ہلکا کر دیتی ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ نگرانی کے بغیر بچے کو دھوپ میں براہ راست رکھنے کا مشورہ نہیں دیا جاتا کیونکہ یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے اور بچے کی جلد جھلس سکتی ہے۔

    یہ ریسرچ فیکٹ شیٹ کی جانب سے معلومات عامہ کے تحت شائع کی گئی ہے۔