Tag: صحرائے تھر

  • مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    مائی بھاگی: صحرائے تھر کی لوک گلوکارہ کو مداحوں سے بچھڑے 35 برس بیت گئے

    تھر میں گویا زندگی لوٹ آئی ہے، چھاجوں پانی برسا ہے اور یہ تو آغاز ہے۔ تھر کے باسی خوشی سے نہال ہیں، مگر 35 سال کے دوران جب بھی ساون کی رُت نے صحرا کو گھیرا، بادل گرجے اور چھما چھم برسے تھر اور اس کے باسیوں نے شدّت سے مائی بھاگی کی آواز میں‌ خوشی کے گیتوں کی کمی بھی محسوس کی ہے۔

    کون ہے جس نے صوبۂ سندھ کی اس گلوکار کا نام اور یہ گیت ”کھڑی نیم کے نیچے“ نہ سنا ہو؟ آج مائی بھاگی کی برسی ہے جن کی آواز کے سحر میں‌ خود صحرائے تھر بھی گرفتار رہا۔ وہ اسی صحرا کے شہر ڈیپلو میں پیدا ہوئی تھیں۔ والدین نے ان کا نام ’’بھاگ بھری‘‘ رکھا۔

    بھاگ بھری نے شادی بیاہ کی تقریبات اور خوشی کے مواقع پر لوک گیت گانے کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے انھیں‌ بہت پسند کیا۔ وہ گاؤں گاؤں پہچانی گئیں اور پھر ان کی شہرت کو گویا پَر لگ گئے۔

    7 جولائی 1986ء کو وفات پاجانے والی مائی بھاگی کی تاریخِ پیدائش کا کسی کو علم نہیں‌۔ انھوں نے اپنی والدہ سے گلوکاری سیکھی اور مشہور ہے کہ وہ اپنے گیتوں کی موسیقی اور دھن خود مرتّب کرتی تھیں۔

    مائی بھاگی کو تھر کی کوئل کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے جن کے گائے ہوئے گیت آج بھی کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔

    مائی بھاگی کے فنِ گائیکی اور ان کی آواز نے انھیں‌ ریڈیو اور بعد میں‌ ٹیلی ویژن تک رسائی دی۔ انھوں نے تھر کی ثقافت اور لوک گیتوں کو ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرونِ ممالک میں بھی اُجاگر کیا۔ مائی بھاگی کی آواز میں‌ ان لوک گیتوں کو سماعت کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھے، جو تھری زبان سے ناواقف تھے۔

    1981ء میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے انھیں‌ تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ریڈیو پاکستان نے مائی بھاگی کو شاہ عبداللطیف بھٹائی ایوارڈ، قلندر لعل شہباز اور سچل سرمست ایوارڈ سمیت درجنوں اعزازات اور انعامات دیے اور ملک بھر میں انھیں‌ پہچان اور عزّت ملی۔

  • وزیراعظم عمران خان آئندہ مہینے تھرجائیں گے

    وزیراعظم عمران خان آئندہ مہینے تھرجائیں گے

    اسلام آباد : وزیر اعظم عمران خان آئندہ مہینے تھر کا دورہ کریں گے ، بتایا جارہا ہے کہ تھر کے لیے اس موقع پر خصوصی پیکج کا بھی اعلان کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بتایا جارہا ہے کہ وزیر اعظم آئندہ مہینے کی آٹھ تاریخ کو تھر کا دورہ کریں گے ، اس موقع پر وہ تھر کول منصوبے کا بھی معائنہ کریں گے۔

    ذرائع کا کہنا ہےکہ وزیراعظم عمران خان کے اس دورے کے دوران صحرائے تھر کے علاقےچھاچھرومیں جلسےسےخطاب بھی متوقع ہے، جبکہ وزیراعظم عمران خان خصوصی طورپرتھرپیکج کااعلان بھی کریں گے۔

    یاد رہے کہ تھر پاکستان کا سب سے پسماندہ ضلع ہے جہاں غربت اور پسماندگی کی شرح باقی ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ صحرائی علاقہ ہونے کے سبب وہاں غذائی قلت کے مسائل عام ہیں جس کے سبب بچوں کی اموات وہاں معمول کا سلسلہ ہیں۔ رواں ماہ بھی اب تک سول اسپتال مٹھی میں 53 بچے دم توڑ چکے ہیں۔

    یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثا ر نے بھی تھر میں ہونے والی بچوں کی اموات پر وہاں کا دورہ کیا تھا ۔ اس موقع پر سندھ حکومت کو وہاں مزید بہتر کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔

    دوسری جانب سندھ حکومت کا موقف ہے کہ ان کی حکومت تھر میں متحرک ہے ، بچوں کی غذائی قلت دور کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں جبکہ صاف پانی کی فراہمی کے لیے بھی تھر میں آر او پلانٹس نصب کیے جاچکے ہیں۔

    تھر میں سندھ حکومت کے اشتراک سے اینگرو کول انرجی پراجیکٹ بھی زیر تکمیل ہے جس سے ابتدائی طور 660 میگا واٹ بجلی پیدا ہونے کا امکان ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ تھر کول انتظامیہ علاقے کی حالت بدلنے کے لیے بھی اقدامات کررہی ہے، جس میں بچوں کے لیے معیاری اسکولوں کا قیام، اسپتالوں کی بہتری کے لیے اقدامات اور مقامی آبادی کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا شامل ہیں۔

    گذشتہ کچھ سالوں سے صحرائے تھر خشک سالی کا شکا ر تھا جس کے سبب وہاں غذا اور پانی کے مسائل سنگین ہوگئے تھے ، تاہم حالیہ بارشوں کے بعد امید ہے کہ تھر کی صورتحال میں بہتری آئے گی۔

    گزشتہ سال وفاقی وزیرصحت عامرمحمود کیانی نے تھر کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت جلد تھر کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کرے گیا۔ عامرکیانی کا کہنا تھا کہ حکومت مشکل میں تھرکےباسیوں کوتنہانہیں چھوڑے گی، تھر کے باسیوں کے لئے جلد صحت کارڈ کا اجرا کیا جائے گا۔

  • اقوام متحدہ کا وفد تھر کا دورہ کرے گا

    اقوام متحدہ کا وفد تھر کا دورہ کرے گا

    کراچی: صحرائے تھر میں غذائی قلت کا معاملہ اقوام متحدہ میں بھی گونج اٹھا، اقوام متحدہ کا وفد تھر کا دورہ کرنے کے لیے آج پاکستان پہنچے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی انڈر سیکریٹری فوزلی ملامبونو صوبہ سندھ کے صحرا تھر کا دورہ کرنے کے لیے آج پاکستان پہنچ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کا وفد 5 دسمبر کو تھر کا دورہ کرے گا۔

    اقوام متحدہ کی انڈر سیکریٹری تھر کے مختلف دیہاتوں کا دورہ کریں گی۔ مٹھی میں اقوام متحدہ کے تحت سماجی خدمات کا دائرہ بڑھانے کا جائزہ لیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق اقوام متحدہ صحرائے تھر میں ماں و بچوں کی صحت کے لیے خصوصی پروگرام کا آغاز کرے گا۔ اقوام متحدہ محکمہ ترقی نسواں سندھ کے اشتراک سے پروگرام شروع کرے گا۔

    منصوبے کے تحت تھر میں کم عمری کی شادی کے خلاف اور خواتین کی صحت کے لیے بھی پروگرام شروع کیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ صحرائے تھر میں گزشتہ کافی عرصے سے غذائی قلت کے باعث ہزاروں بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ مختلف اداروں اور حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات کے باوجود صورتحال پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔

  • تھرمیں ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعے پہلا فروٹ فارم قائم

    تھرمیں ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعے پہلا فروٹ فارم قائم

    صحرائے تھر 50 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا وسیع و عریض علاقہ ہے جہاں تا حدِ نگاہ صرف ریت ہی ریت دکھائی دیتی ہے، لیکن اب اسی صحرا کے چند محدود گوشوں میں منظر بدل رہا ہے، اور وہاں خوشحالی سبزے کی شکل میں لہرانا شروع ہوچکی ہے۔

    دریائے سندھ کے پانی سے سیراب ہونے والے صوبہ سندھ کا علاقہ تھر ایک قدرتی صحرا ہے اور اس کا شمار دنیا کے ساتویں بڑے صحرا کے طور پر ہوتا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ مربع کلو میٹر کا علاقہ بھارت میں جبکہ لگ بھگ 50 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ پاکستان میں ہے۔ یہاں کا سب سے اہم مسئلہ غربت ہے جس کی وجہ یہاں کے رہائشیوں کی معیشت کا غیر متوازن ہونا ہے ۔

    یہاں کے باشندوں کی معیشت کا دارومدار مویشیوں اور بارانی زراعت پر ہے،جس سال مون سون کے موسم میں بارشیں 150ملی میٹرسے کم ہوں، یہاں گوار اور باجرے کی فصل خراب ہوجاتی ہے اور قدرتی گھاس بھی نہیں اگ پاتی جس کے سبب مویشی اور مور مرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    یہاں کی مقامی آبادی بالخصوص بچے غربت اور غذائی قلت کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور ہر سال ہزاروں بچے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ تھر واسیوں کے اس بنیادی مسئلے کے حل کے لیے کراچی کے سماجی کارکنوں کی ایک تنظیم ’دعا فاؤنڈیشن‘ نے صحرائے تھر میں زیرِ زمین پانی سے کاشت کاری اور فروٹ فارمنگ کا آغاز کیا ہے۔

    اس تنظیم نے گذشتہ دوسالوں میں تھر کی تحصیل کلوئی ، ڈپلو اور نگرپارکر میں تیس ایگروفارم منصوبے بنا کر مقامی لوگوں کے حوالے کئے ہیں اور ان ایگروفارمزمیں گندم، کپاس، سرسوں اور پیاز جیسی فصلیں زیرِ زمین پانی کو استعمال میں لاتے ہوئے کامیابی سے کاشت کی جارہی ہیں۔

    حال ہی میں دعا فاونڈیشن نے پاک بھارت سرحد کے ساتھ واقع تھر کی دور دراز اور سب سے پس ماندہ تحصیل ڈاہلی میں ایک ماڈل ایگرو وفروٹ فارم بنایا ہے۔ اس فروٹ فارم کی تعمیر کے لیےڈاہلی کے گوٹھ سخی سیار کے ایک سرکاری اسکول ٹیچرشہاب الدین سمیجو کی آبائی زمین پر پہلے ساڑے چار سو فٹ بورنگ کروائی گئی۔

    پانی نکالنے کے لئے سولرسسٹم نصب کیا گیا اورتین ایکڑزمین پرڈرپ اری گیشن سسٹم کی تنصیب کی گئی۔ ڈرپ سسٹم کی تنصیب میں عمر کوٹ میں واقع پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل کے ایرڈ زون ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کےڈاکٹر عطاء اللہ خان اور انجینئر بہاری لال نے تیکنکی مدد فراہم کی۔

    یہ تھرپارکر کاپہلا فروٹ فارم ہے جہاں کھجور اور بیر کے دو دو سو، اور زیتون اور انار کے سو سو پودے لگائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگل جلیبی اور سوہاجنا کے بھی 25،25 پودے لگائے گئے ہیں اور اب یہ پودے آہستہ آہستہ پھلنا پھولنا شروع ہوگئے ہیں۔

    تنظیم کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر فیاض عالم کا کہنا ہے کہ تھرپاکر میں زیر زمین پانی سے کئی علاقوں میں نہ صرف محدود پیمانے پر کاشت کاری ہوسکتی ہے بلکہ ڈرپ اری گیشن سسٹم کے ذریعہ بڑے پیمانے پر پھلوں کےدرخت لگا کرعلاقے کے لوگوں کی معیشت کو بہتر بھی بنایا جاسکتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ زیتوں کے پودے اسپین کی نسل کے ہیں اور اسلام آباد کی ایک نرسری سے منگوائے گئے ہیں جبکہ کھجور کےدرخت اصیل نسل کے ہیں اور خیر پور سے منگوائے گئے ہیں۔

    ڈاکٹر فیاض نے یہ بھی بتایا کہ سندھ حکومت زراعت کو فروغ دینے کے لیے ڈرپ اری گیشن سسٹم اورسولر سسٹم کی تنصیب پر کسانوں کوساٹھ فیصد سبسڈی بھی دے رہی ہے لیکن ہمیں اس سہولت کے بارے میں معلومات نہیں تھیں، تاہم اپنے اگلے منصوبوں کے لئے ہم یہ سبسڈی حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

    تھر میں فروٹ فارمنگ کا آغاز ریت کے اس سمندر میں ایک سرسبز اور صحت مند مستقبل کی نشانی ہے اور امید ہے کہ جب یہ درخت تناور ہوکر پھل دینا شروع کردیں گے تو یہاں کے لوگوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوجائے گا۔

  • پاکستان کے پانچ خوبصورت ریگستانی علاقے

    پاکستان کے پانچ خوبصورت ریگستانی علاقے

    کراچی : کراہ ارض پر موجود بنجر زمین کو ریگستان کہا جاتا ہے ، دنیا بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں ریگستان موجود ہیں، جن میں سے کچھ بہت زیادہ گرم اور کچھ ٹھنڈے ہیں۔

    کیا آپ کے علم میں ہے کہ  پاکستان میں بھی پانچ صحرا واقع ہیں جن کے نام اور خصوصیات قابل ذکر ہیں جو درج ذیل ہیں۔

    صحرائے تھر

    1

    صحرائے تھر پاکستان کے جنوب مشرقی اور بھارت کے شمال مغربی سرحد پر واقع ہے، اس صحرا کو ’’ عظیم ہندوستانی صحرا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس کا رقبہ دو لاکھ مربع کلومیٹر یا ستتر ہزار مربع میل ہے۔اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے گرم ترین صحرا میں کیا جاتاہے۔

    صحرائے چولستان

    5

    یہ صحرا  بہاولپورشہر اور پنجاب سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس علاقے کو پنجاب کا اہم ترین صحرا جانا جاتا ہے اورمقامی طور پریہ علاقہ ’’روہی‘‘ کے نام سے مشہور ہے،  جنوب مشرق میں یہ صحرا راجھستان سے جاکرملتا ہے، عام طور پر یہاں رہنے والے مقامی افراد کو خانہ بدوش کہا جاتا ہے۔

    ہر سال اس صحرا میں پاکستان کی سب سے بڑی جیپ ریلی منعقد کی جاتی ہے جسے دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ خصوصی طور پر دیکھنے آتے ہیں۔

    صحرائے تھل

    2

    یہ کوہِ نمک کے جنوب میں دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان میانوالی ، بھکر ، خوشاب اور مضظرگڑھ کے علاقوں پر واقع ہے،خوشاب سے میانوالی کے جنوب کا سارا علاقہ تھل صحرا کا ہے۔

    دریائے سندھ سے نکالی جانے والی ایک نہر کے باعث یہاں کے لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہے، مقامی لوگوں کی محنت صحرا کو آہستہ آہستہ زرعی علاقے میں تبدیل کررہی ہے، جس سے اس علاقے کا قدرتی حسن ماند پڑتا جا رہا ہے۔

     صحرائے وادی سندھ

    4

    صحرائے وادیِ سندھ پاکستان کے شمالی علاقے میں غیرآباد صحرا ہے۔ دریائے چناب اور دریائے سندھ کے درمیان اور پنجاب کے شمال مغربی علاقے پر 19500 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔

    عام طور پر یہ صحرا سردیوں میں بے حد ٹھنڈا اور گرمیوں میں ملک کے گرم ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، موسم کی تبدیلیوں کے باعث یہ صحرا غیرآباد علاقہ ہے۔

    صحرائے خاران

    3

    یہ صحرائے صوبہ بلوچستان کے جنوب مغرب میں واقعہ ہے، اس صحرا کو عام طور پر ’’مٹی کا صحرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے 30 مئی 1998 کو  اپنے دوسرا جوہری تجربہ ’’ چاغی‘‘ کا تجربہ بھی اسی صحرا میں کیا تھا۔

  • تھر: قحط نے آج مزید 4بچوں کی جان لے لی

    تھر: قحط نے آج مزید 4بچوں کی جان لے لی

    تھر: قحط نے آج تھر میں مزید چار بچوں کی جان لے لی، پچاسی دنوں میں اب تک دوسو سولہ بچے جان کی بازی ہار گئے۔

    صحرائے تھر کی پیاس دو سو سے زیادہ بچوں کی جان لینے کے باوجود نہ بجھ سکی، بچوں کو بچانے کے لئے بڑے بڑے حکومتی اعلانات ہوئے دورے ہوئے لیکن کہیں بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے، یہی وجہ ہے کہ اب تک اموات کا سلسلہ جاری ہے۔

    غذائی قلت ہو یا ادویات کی کمی مٹھی کے سول اسپتال میں ایک نومولود دم توڑ گئی جبکہ سول اسپتال میں بھی ایک اور ماں کی گود سونی ہوگئی، ڈیپلو کے گاوں گھبن میں چار روزہ بچی نے دم توڑ دیا۔

    ہرمانی کالونی میں بھی غذائی قلت نے چار روز بچہ کی جان لے لی، تھری واسیوں کا کہنا ہے کہ حکومتی عہدیداروں کے وعدوں اور دعوں سے ان کی مشکلات حل نہیں ہوسکے گی، مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

  • تھر میں غذائی قلت، جاں بحق بچوں کی تعداد 145ہوگئی

    تھر میں غذائی قلت، جاں بحق بچوں کی تعداد 145ہوگئی

    تھرپارکر: صحرائے تھر میں موت کا راج جاری ہے۔ سول اسپتال مٹھی میں تین روز کا بچہ دم توڑ گیا ہے۔ دوماہ میں ہلاکتوں کی تعداد ایک سوپینتالیس ہوگئی ہے۔

    تھر بن گیا ہے موت کا گھر خوراک کی کمی اور طبی سہولیات کا فقدان یا حکومت کی لاپرواہی تھری واسیوں کو آئے روز موت کی وادی میں دھکیل رہی ہے۔ دوماہ میں ایک سو پینتالیس سے زائد بچے دنیا چھوڑ گئے۔

    سول اسپتال مٹھی کا حال یہ ہے کہ پچاس بچے زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور انکیوبیٹر کی تعداد بھی محدود ہے۔ کئی بچوں کو تشویشناک حالت میں حیدرآباد منتقل کیا جاتا ہے اور جانے کیلئے ایمبولنس بھی نہیں ملتی ہے۔

    حالات کی ستم ظریفی اور حکومت کی لاپرواہی نے تھری واسیوں کو درد کی تصویر بنا دیا ہے۔

  • تھر:مزید دو بچوں کی ہلاکت، تعدادایک سوتینتیس تک جا پہنچی

    تھر:مزید دو بچوں کی ہلاکت، تعدادایک سوتینتیس تک جا پہنچی

    مٹھی: تھرپارکر میں بچوں کی ہلاکتیں نہ رک سکیں ،آج بھی دوبچوں نے دم توڑ دیا۔ہلاکتوں کی تعدادایک سو تینتیس ہوگئی۔سول اسپتال مٹھی میں چونسٹھ بچے زیر علاج ہیں۔

    صحرائے تھر میں بھوک ،موت کا پیٹ بھر رہی ہے۔کھانے کو لقمہ نہیں۔پانی کی بوند نہیں۔بیمار ہوجائیں تو دوا تک نہیں ملتی ۔ایسا لگتا ہے تھر واسی اس سرزمین کا حصہ نہیں۔

    روز مائوں کی گود اجڑتی ہے اور روز ان کی آہ و بکا سنائی دیتی ہے مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔اقدامات کئے جاتے ہیں تو دوروں کی حد تک محدود رہتے ہیں۔

    سول اسپتال مٹھی میں چھیالیس بچے موت سے لڑرہے ہیں مگر انکیوبیٹر اورسہولیات کی کمی سے کئی بچے موت کے منہ میں چلےجاتے ہیں۔

    سرکاری و نجی سطح پر امدادتوملتی ہے مگر شہر سے قریب تر علاقوں میں، مگر دوردراز کے گاؤں والوں کا کوئی حال تک نہیں پوچھتا اور بس تھر واسی روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں۔

  • تھرپارکر: غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد125 ہوگئی

    تھرپارکر: غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کی تعداد125 ہوگئی

    تھر پارکر: مٹھی میں غذائی قلت کا شکار بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے۔ آج ایک اور بچی نے غذائی قلت کی وجہ سے دم توڑ دیا ہے اور سوا دو ماہ میں موت کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد ایک سو پچیس تک پہنچ گئی ہے۔

    صرف سوا دو ماہ میں تھر پارکر کے مختلف علا قوں میں زندگی کی بازی ہارنے والے بچوں کی تعداد ایک سو پچیس تک جا پہنچی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں اموات کی وجہ خوراک کی کمی ہے۔

    یہ کہانی صحرائے تھر کی ہے، جہاں ہر گزرتے دن کوئی کلی بن کھلے مرجھا جاتی ہے۔ خون کی کمی کاشکار لاغر مائیں جسمانی اور دماغی طور پر کمزور بچوں کو جنم دے رہی ہیں جس کے سدباب کیلئے صوبائی حکومت تو خاموش ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ وقافی حکومت بھی زبانی جمع خرچ کر نے میں مصروف ہے۔

    تھر کے اسپتال بیمار اورلاچار بچوں سے بھرے پڑے ہیں، جو تکلیف سے کراہتے رہتے ہیں، بلکتے ہیں اور پھر روتے روتے زندگی ہارجاتے ہیں۔ اسپتال تو موجود ہے لیکن علاج کی بہتر سہولت دستیاب نہیں ہے۔

    ایک طرف خوراک کی کمی تو دوسری جانب ادویات نہ ملنے کی بھی شکایات مل رہی ہیں۔ بیماری اور بھوک بچوں کو نگل رہے ہیں۔

  • مٹھی :غذائی قلت سےایک خاتون اورایک بچہ دم توڑ گیا

    مٹھی :غذائی قلت سےایک خاتون اورایک بچہ دم توڑ گیا

    مٹھی :سول اسپتال مٹھی میں غذائی قلت سےایک خاتون اورایک بچہ دم توڑ گیا۔ ڈیڑھ ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد 58 ہوگئی ،صحرائے تھرمیں قحط سالی لوگوں کی جان کے در پہ ہے ۔ خوراک کی کمی اور مناسب طبی سہولیات کے نہ ہونے کے باعث کئی افراد موت کی نیند سوگئے

    سول اسپتال مٹھی میں غذائی قلت سے ایک خاتون اورایک بچہ آج پھر دم توڑ گیا ،گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں ہلاکتوں کی تعداد 58 ہوگئی ۔ مٹھی میں انسان تو انسان جانور اور مویشی بھی اس قلت کی نظر ہورہے ہیں ۔

    انتطامیہ کی جانب سے مناسب اقدامات نہ کئے جانے پر لوگ سراپا احتجاج ہیں اور ہلاکتوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے لیکن انتظامیہ کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔