Tag: صحرائے چولستان

  • گرین پاکستان انیشیٹیو:  صحرائے چولستان میں زراعت کی بحالی پر کام جاری

    گرین پاکستان انیشیٹیو: صحرائے چولستان میں زراعت کی بحالی پر کام جاری

    گرین پاکستان انیشیٹیو کے تحت صحرائے چولستان میں زراعت کی بحالی پر کام جاری ہے، جس کا مقصدعالمی زرعی بیسٹ پریکٹس پرعمل پیرا ہونا ہے۔

    گرین پاکستان انیشیٹیو لِمز (لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم) کی زیرنگرانی صحرائے چولستان میں زراعت کو بحال کرنے پر مرکوز ہے، اِس اقدام کےتحت زراعت اورمویشیوں کےانتظام کوبہتر بنانے کیلیے جدیدزرعی ٹیکنالوجی کا استعمال کیاجاتاہے۔

    کسانوں کو پانی اور بجلی جیسے اہم وسائل فراہم کیے جاتے ہیں تاکہ دوردرازعلاقوں تک سال بھر رسائی کو یقینی بناکرچیلنجوں سےنمٹاجاسکے۔

    لمز نے چین سے درآمد شدہ اسمارٹ ایگریکلچر مشینری متعارف کرائی ہے، جو کارپوریٹ فارمنگ انیشیٹیو کےتحت جدید زرعی تکنیکوں میں ایک اہم تبدیلی کی علامت ہے۔

    لمز کی ابتدائی توجہ کا مرکزپنجاب کا علاقہ چولستان ہے، جو بتدریج بڑھ کر پورےملک میں بڑے پیمانےپر کارپوریٹ فارمنگ کے فروغ کا باعث بنے گا۔

    گرین پاکستان انیشیٹیو کا مقصدعالمی زرعی بیسٹ پریکٹس پرعمل پیراہونا، پیداواری صلاحیت کوبڑھانا اورپائیدارخوشحالی کوفروغ دینے کےلیے وسائل کا مؤثراستعمال کرنا ہے۔

  • قلعہ بجنوٹ جسے شہاب الدّین غوری نے مسمار کروا دیا تھا

    قلعہ بجنوٹ جسے شہاب الدّین غوری نے مسمار کروا دیا تھا

    قلعہ بجنوٹ کا پرانا نام ونجھروٹ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس قلعے کو شہاب الدّین غوری کے حکم پر تباہ کر دیا گیا تھا۔

    قدیم آثار پر معلوماتی کتابوں میں اس قلعے کو راجا ونجھہ یا بجا بھاٹیا سے منسوب کیا گیا ہے اور اس کی تعمیر کا سنہ 757ء لکھا ہے۔ بعض مؤرخین ان باتوں سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ راجہ ونجھا نے اسے 1178ء ہی میں تعمیر کروایا تھا لیکن اسے غوری نے مسمار کر دیا تھا۔ بعد میں راجہ کہڑ کے بیٹے راجہ تنو نے اسے ازسر نو تعمیر کیا۔ مؤرخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قلعے کا نام بیجا نوٹ تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجنوٹ ہو گیا۔ پھر یہ موسم اور حالات سے لڑتا رہا اور صدیوں بعد اس قلعے کو 1757ء میں موریا داد پوترہ نے دوبارہ تعمیر کروایا۔ اس تعمیر کے دو سو سال بعد آخر کار اس کا اوپری حصّہ منہدم ہو گیا۔ آج بھی اس قلعے کی بنیاد پر عمارت کے کھنڈر دیکھے جاسکتے ہیں، جن سے وہاں آمدورفت اور سرگرمیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

    یہ قلعہ بہاولپور شہر سے 163 کلومیٹر دور اور نواں کوٹ قلعہ سے 45 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی تعمیر میں مقامی چونے کا پتھر استعمال ہوا ہے۔ اس قلعے کو گولائی میں چاروں اطراف سے 300 فٹ تک پھیلایا گیا تھا۔ اس کے شمالی حصّے کی طرف 11 فٹ چوڑا داخلی دروازہ ہے اور تین کمرے اس کے اوپر بنائے گئے تھے۔ قلعے کی دیواریں 21 فٹ تک بلند رکھی گئی تھیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق قلعے کے 4 بڑے اور 2 چھوٹے برج تھے جن پر جانے کے لیے سیڑھیاں موجود تھیں۔ ایک برج مکمل طور پر مسمار ہو چکا ہے جب کہ باقی 3 انتہائی خستہ حالت میں ہیں اور اب تقریباً ڈھیر ہوچکے ہیں ۔

    قلعہ بجنوٹ کے اندر پانی کے دو تالاب بھی بنائے گئے تھے جو 21 فٹ پر محیط تھے اور ان کی گہرائی 40 فٹ تک تھی۔

  • پاکستان کے پانچ خوبصورت ریگستانی علاقے

    پاکستان کے پانچ خوبصورت ریگستانی علاقے

    کراچی : کراہ ارض پر موجود بنجر زمین کو ریگستان کہا جاتا ہے ، دنیا بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں ریگستان موجود ہیں، جن میں سے کچھ بہت زیادہ گرم اور کچھ ٹھنڈے ہیں۔

    کیا آپ کے علم میں ہے کہ  پاکستان میں بھی پانچ صحرا واقع ہیں جن کے نام اور خصوصیات قابل ذکر ہیں جو درج ذیل ہیں۔

    صحرائے تھر

    1

    صحرائے تھر پاکستان کے جنوب مشرقی اور بھارت کے شمال مغربی سرحد پر واقع ہے، اس صحرا کو ’’ عظیم ہندوستانی صحرا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

    اس کا رقبہ دو لاکھ مربع کلومیٹر یا ستتر ہزار مربع میل ہے۔اس کا شمار دنیا کے نویں بڑے گرم ترین صحرا میں کیا جاتاہے۔

    صحرائے چولستان

    5

    یہ صحرا  بہاولپورشہر اور پنجاب سے تیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، اس علاقے کو پنجاب کا اہم ترین صحرا جانا جاتا ہے اورمقامی طور پریہ علاقہ ’’روہی‘‘ کے نام سے مشہور ہے،  جنوب مشرق میں یہ صحرا راجھستان سے جاکرملتا ہے، عام طور پر یہاں رہنے والے مقامی افراد کو خانہ بدوش کہا جاتا ہے۔

    ہر سال اس صحرا میں پاکستان کی سب سے بڑی جیپ ریلی منعقد کی جاتی ہے جسے دنیا کے مختلف ممالک سے لوگ خصوصی طور پر دیکھنے آتے ہیں۔

    صحرائے تھل

    2

    یہ کوہِ نمک کے جنوب میں دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان میانوالی ، بھکر ، خوشاب اور مضظرگڑھ کے علاقوں پر واقع ہے،خوشاب سے میانوالی کے جنوب کا سارا علاقہ تھل صحرا کا ہے۔

    دریائے سندھ سے نکالی جانے والی ایک نہر کے باعث یہاں کے لوگوں کو پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہے، مقامی لوگوں کی محنت صحرا کو آہستہ آہستہ زرعی علاقے میں تبدیل کررہی ہے، جس سے اس علاقے کا قدرتی حسن ماند پڑتا جا رہا ہے۔

     صحرائے وادی سندھ

    4

    صحرائے وادیِ سندھ پاکستان کے شمالی علاقے میں غیرآباد صحرا ہے۔ دریائے چناب اور دریائے سندھ کے درمیان اور پنجاب کے شمال مغربی علاقے پر 19500 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔

    عام طور پر یہ صحرا سردیوں میں بے حد ٹھنڈا اور گرمیوں میں ملک کے گرم ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے، موسم کی تبدیلیوں کے باعث یہ صحرا غیرآباد علاقہ ہے۔

    صحرائے خاران

    3

    یہ صحرائے صوبہ بلوچستان کے جنوب مغرب میں واقعہ ہے، اس صحرا کو عام طور پر ’’مٹی کا صحرا‘‘ کہا جاتا ہے۔ پاکستان نے 30 مئی 1998 کو  اپنے دوسرا جوہری تجربہ ’’ چاغی‘‘ کا تجربہ بھی اسی صحرا میں کیا تھا۔