Tag: صدارتی امیدوار

  • صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمان کی متحدہ رہنماؤں سے ملاقات، تعاون کی درخواست

    صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمان کی متحدہ رہنماؤں سے ملاقات، تعاون کی درخواست

    کراچی : صدارتی مشن پر کراچی میں موجود صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمان ایم کیو ایم کے مرکز بہادرآباد جا پہنچے، انہوں نے متحدہ رہنماؤں سے الیکشن میں تعاون کی درخواست کی۔

    تفصیلات کے مطابق جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان وفد کے ساتھ ایم کیو ایم مرکز بہادرآباد پہنچے، انہوں نے متحدہ رہنماؤں سے ملاقات میں صدارتی الیکشن کیلئے تعاون کی درخواست کی۔

    اس موقع پر عامرخان، فیصل سبزواری، کنورنوید جمیل، میئر کراچی وسیم اختر اور دیگر موجود تھے، ملاقات میں سیاسی صورتحال سمیت صدر کےانتخاب سے متعلق گفتگو کی گئی، مولانا فضل الرحمان نے صدارتی الیکشن میں ووٹ کیلئے ایم کیوایم رہنماؤں سے تعاون کی درخواست کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملکی سیاست میں توازن برقرار رکھنے کیلئے متحدہ اپوزیشن نے مجھ پر اعتماد کیا ہے، صدارتی انتخاب میں ایم کیوایم اپوزیشن کے امیدوارکو ووٹ دے، ماضی میں بھی آپ ہمارا ساتھ دیتے آئے ہیں، امید ہے ایم کیوایم میرے حق میں فیصلہ کرے گی۔

    اس موقع پر عامرخان نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کراچی کے مسائل حل ہوں، عوام کو ریلیف ملے، حمایت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ رابطہ کمیٹی اجلاس میں کریں گے، مولانا صاحب سے ہمارے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں، مستقبل میں بھی تعلقات رکھیں گے۔

    عامر خان نے بتایا کہ مولانا صاحب کی بات رابطہ کمیٹی میں رکھیں گے جو فیصلہ ہوگا آگاہ کردینگے، ہم موجودہ حکومت کا حصہ ہیں، اس کے علاوہ ہماری صدارتی امیدوار عارف علوی سے بھی بات ہوئی تھی۔

    ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ایم کیوایم رہنماؤں سے ملاقات کی ہے، انہوں نے سنجیدگی سے ہماری درخواست سنی۔

    ایم کیوایم ہمیشہ پارلیمانی سیاست کا حصہ رہی ہے، وہ ملکی استحکام کیلئے کام کا بڑا تجربہ بھی رکھتی ہے، امید ہے ایم کیوایم ہماری تجویز پر سنجیدگی سے غور بھی کرے گی، اور ایم کیوایم ایسا فیصلہ کرے گی جس کے مثبت اثرات نکلیں گے۔

  • تحریک انصاف ملک کی بڑی جماعت ہے لیکن اکثریتی پارٹی نہیں، مولانا فضل الرحمان

    تحریک انصاف ملک کی بڑی جماعت ہے لیکن اکثریتی پارٹی نہیں، مولانا فضل الرحمان

    کراچی : جمیعت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ میرے صدارتی امیدوار ہونے پر پی پی سے بات جاری ہے، پی ٹی آئی بڑی جماعت ہے لیکن اکثریتی پارٹی نہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کنگری ہاؤس میں پیر پگارا سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، صدارتی مشن پر کراچی میں موجود صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمان نے جی ڈی اے اور ایم کیو ایم رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔

    مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صدارتی انتخاب کے معاملے میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں ٹینشن پیدا ہوگئی تھی، مجھے کہا گیا تھا کہ آپ برج کا کردار ادا کریں، اسی لئے مجھے حزب اختلاف کا کنوینر بنایا گیا۔

    دونوں جماعتوں کو دو دن کا موقع دیا کہ ایک امیدوار پر متفق ہوجائیں، صدارتی امیدوار کے لیے اگر ن لیگ اعتزاز احسن کے نام پر متفق ہوجاتی تو ہمیں بھی قبول ہوتا، میرا نام اس لئے آگیا تاکہ پی پی متفق ہوجائے، آصف زرداری سے میرے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، میرے صدارتی امیدوارہونے پر پی پی سے بات چیت تاحال جاری ہے۔

    اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ تاخیر سے ہوا، متحدہ اپوزیشن نے مجھے صدارتی امیدوار بنایا ہے، مطمئن ہوں کہ صدارتی انتخاب کا معرکہ سر کرلیں گے۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف نے سوچا نمبر زیادہ ہیں تو ہمیں ایوان میں جانا چاہئے، تحریک انصاف اس وقت ملک کی بڑی جماعت ضرور ہے لیکن اکثریتی پارٹی نہیں۔

  • صدارتی امیدوارسے متعلق پیپلزپارٹی فیصلے پر نظرثانی کرے، مولانا فضل الرحمان

    صدارتی امیدوارسے متعلق پیپلزپارٹی فیصلے پر نظرثانی کرے، مولانا فضل الرحمان

    اسلام آباد : جے یو آئی (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ صدارتی امیدوار سے متعلق پیپلزپارٹی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، سو فیصد امید ہے کہ آصف زرداری میری بات مان جائیں گے۔

    یہ بات انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ مولانا فضل الرحمان جو کہ حالیہ صدارتی الیکشن میں امیدوار بھی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ صدارتی امیدوار نامزد کرنے پر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں شہباز شریف، اسفندیار ولی، حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی کا شکر گزار ہوں، ایم ایم اے کی جماعتوں نے بھی مجھے نامزد کرنے کی اجازت دی۔

    ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے درمیان صدارتی امیدوار کیلئے اتفاق نہ ہوسکا، ن لیگ نےاعتزاز احسن کے نام پر اعتراض کیا، کوشش تھی کہ ایک ہی امیدوارحکومت کامقابلہ کرے، دو امیدواروں کے کھڑے ہونے سے اپوزیشن کے ووٹ تقسیم ہوں گے۔

    امید ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک نام پراتفاق کرلیں گے، ن لیگ اپنے امیدوارسے دستبردارہوگئی، اب پی پی کو بھی ضد نہیں کرنی چاہئے، اس حوالے سے پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ ملاقات کروں گا، آصف زرداری سے کہوں گا کہ وہ اعتزاز احسن کا نام واپس لیں اور صدارتی امیدوار سے متعلق پیپلزپارٹی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

    اس سے اعتزازاحسن کی عزت میں کوئی فرق نہیں آئے گا،اسی امید کے ساتھ ہی آصف زرداری سے ملنے جارہا ہوں، سو فیصد امید ہے کہ وہ میری بات مان جائیں گے۔

    مزید پڑھیں: مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمٰن کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کے نتائج کو مسترد کرتے ہیں،2018کاالیکشن دھاندلی زدہ تھا، صدارتی امیدوار کیلئے اپوزیشن کے نمبرز زیادہ ہیں، اپوزیشن کا ایک امیدوار ہو تو ہم حکومت کو شکست دے سکتے ہیں، اے پی سی میں تجویز کیا تھا کہ وزیراعظم پیپلزپارٹی سے ہو، پیپلزپارٹی نے کہا کہ ن لیگ کی اکثریت ہے تو ان ہی کا امیدوارہونا چاہئے۔

  • مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمٰن کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا

    مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمٰن کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا

    اسلام آباد: مسلم لیگ ن نے جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو حتمی طور پر صدارتی امیدوار نامزد کردیا۔ صدارتی انتخاب کے لیے اب اپوزیشن کی جانب سے دو امیدوار حکومتی امیدوار کا مقابلہ کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اپوزیشن پارٹیوں کے اجلاس میں اعتزاز احسن کے نام پر ڈیڈ لاک برقرار رہنے کے بعد پیپلز پارٹی کے علاوہ، مسلم لیگ ن سمیت تمام جماعتوں نے مولانا فضل الرحمٰن کو حتمی طور پر صدارتی امیدوار نامزد کردیا ہے۔

    مولانا فضل الرحمٰن کچھ دیر میں کاغذات نامزدگی جمع کروائیں گے۔

    خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے صدارتی انتخاب کے لیے سینئر رہنما اعتزاز احسن کو نامزد کیا گیا تاہم مسلم لیگ ن کو ان کے نام پر تحفظات تھے۔

    گزشتہ روز ہونے والے اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن کا نام واپس لینے سے انکار کردیا تھا۔

    مسلم لیگ ن نے متفقہ صدارتی امیدوار کے لیے رضا ربانی اور یوسف رضا گیلانی کا نام تجویز کیا تاہم پیپلز پارٹی اعتزاز احسن کے نام سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھی۔

    اب آج مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمٰن کو حتمی طور پر صدارتی امیدوار نامزد کردیا ہے۔

    دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار عارف علوی ہیں۔

    خیال رہے کہ ملک کے نئے صدر کا انتخاب 4 ستمبر کو ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق کاغذات نامزدگی سے متعلق 30 اگست کو حتمی فہرست جاری ہوگی۔

  • اپوزیشن کے 2 امیدوار ہوئے تو فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا: اعتزاز احسن

    اپوزیشن کے 2 امیدوار ہوئے تو فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا: اعتزاز احسن

    اسلام آباد: پیپلز پارٹی کی جانب سے نامزد صدارتی امیدوار اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے 2 امیدوار ہوئے تو فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا۔ ن لیگ کو بھی یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک امیدوار ہونا چاہیئے۔

    تفصیلات کے مطابق صدارتی انتخاب کے لیے پیپلز پارٹی کے امیدوار اعتزاز احسن نے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیے۔ کاغذات میں میاں رضا ربانی اور راجہ پرویز اشرف اعتزاز احسن کے تجویز کنندہ ہیں۔

    کاغذات جمع کروانے کے بعد اعتزاز احسن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فارم ایک ہی صفحے پر مشتمل ہے۔

    اعتزاز احسن نے کہا کہ مجھے نامزد کرنے کا جو طریقہ کار تھا وہ تھوڑا مختلف تھا، پیپلز پارٹی کی ایک میٹنگ تھی جس میں، میں موجود نہیں تھا۔ اعتراض کیا گیا کہ بغیر مشاورت کے میرا نام دے دیا گیا۔

    مزید پڑھیں: مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمٰن کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا

    انہوں نے بتایا کہ پارٹی میٹنگ میں میرے نام کی تجویز آل پارٹیز کانفرنس میں دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ پارٹی میٹنگ میں اتفاق رائے پبلک ہوئی جس پر پرویز رشید نے برا مانا۔ جو اعتراض پرویز رشید نے کیا اس کی توقع ہی نہیں تھی۔

    انہوں نے کہا کہ پرویز رشید کے اعتراض کا جواب مسلم لیگی رہنماؤں نے دے دیا، ان کا کہنا ہے پرویز رشید کی رائے ذاتی ہے پارٹی پالیسی نہیں۔

    اعتزاز احسن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کرنا اعزاز ہے۔ اپوزیشن کے 2 امیدوار ہوئے تو فائدہ تحریک انصاف کو ہوگا۔ ن لیگ کو بھی یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ ایک امیدوار ہونا چاہیئے۔

  • صدارتی امیدوار: پیپلز پارٹی کا ہنگامی اجلاس، اعتزاز احسن کا نام واپس لینے پر غور

    صدارتی امیدوار: پیپلز پارٹی کا ہنگامی اجلاس، اعتزاز احسن کا نام واپس لینے پر غور

    اسلام آباد : صدارتی انتخاب میں ن لیگ کی جانب سے اعتزاز احسن کے نام پر اعتراض کے بعد پیپلز پارٹی نے نئے ناموں پر غور شروع کردیا، مشاورت کے بعد آج ہی نام (ن) لیگ کو بھجوادیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے زرداری ہاؤس میں پیپلزپارٹی کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، رہنماؤں نے صدر کے نام کیلئے اعتزا احسن کے بجائے دیگر ناموں پر مشاورت کی، اجلاس میں بلاول بھٹو اور آصف زرداری کانفرنس کال کے ذریعے شریک ہوئے،اس موقع پر سید خورشید شاہ، شیری رحمان، قمرزمان کائرہ، راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی بھی موجود تھے۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ن لیگ کے اعتراض کے بعد پیپلزپارٹی اعتزاز احسن کے علاوہ ایک اور نام دینے پرتیار ہے، صدارتی انتخاب کیلئے دوسرےامیدوار کےنام کا فیصلہ کیا جارہا ہے۔

    پیپلزپارٹی ہرحال میں اپنی پارٹی کاامیدوارلاناچاہتی ہے،ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ مشاورت اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی منظوری کے بعد نئے صدارتی امیدوار کا نام آج ہی ن لیگ کو بھجوادیا جائے گا، اجلاس میں فرحت اللہ بابر، خورشید شاہ، فاروق ایچ نائیک، میاں رضا ربانی اور تاج حیدر سمیت پارٹی کے سینئرناموں پرمشاورت کی گئی۔

    مزید پڑھیں: اپوزیشن جماعتوں کا متفقہ صدارتی امیدوارلانے کا فیصلہ، اعلان کل کیا جائے گا

    واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کو نون لیگ کی جانب سے پیشکش کی گئی تھی کہ اگر وہ صدارتی امیدوار کے لیے اعتزاز احسن کے علاوہ کوئی اور نام پیش کرے تو اس پر مشاورت ہو سکتی ہے۔

  • پیپلزپارٹی نے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا

    پیپلزپارٹی نے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا

    اسلام آباد: پاکستان پیپلزپارٹی نے سینیٹر اعتزاز احسن کو صدارتی انتخاب کے لیے اپنا امیدوار نامزد کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری نے پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد صدارتی انتخاب میں اپنا امیدوار لانے کا فیصلہ کیا۔

    پی پی کے چیئرمین اور آصف زرداری نے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے کی منظوری دی جبکہ خورشید شاہ، شیری رحمان اور قمر زمان کائرہ کو مسلم لیگ ن سمیت دیگر اتحادی جماعتوں سے رابطے کرنے کا ٹاسک دے دیا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے رہنما جلد سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کر کے اپنے امیدوار کی حمایت مانگیں گے۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف نے صدراتی انتخاب کے لیے ڈاکٹر عارف علوی کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: عمران خان نے ڈاکٹرعارف علوی کو صدارتی امیدوارنامزد کردیا

    واضح رہے کہ صدر مملکت ممنون حسین کے عہدے کی مدت 8 ستمبر 2018 کو پوری ہورہی ہے، اُس سے قبل نئے صدر کے انتخاب کے لیے 4 ستمبر کو پولنگ کا انعقاد کیا جائے گا۔

    دوسری جانب الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کے لیے نوٹی فکیشن جاری کردیا جس کے مطابق امیدوار 27 اگست کو دوپہر 12 بجے تک اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراسکتے ہیں۔

    صدارتی انتخاب کے لیے جمع کروائے جانے والے امیدواروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال 29 اگست کی صبح 10 بجے ہوگی جبکہ 30 اگست دن 12 بجے تک امیدوار اپنی نامزدگی واپس لے سکیں گے جس کے بعد حتمی فہرست آویزاں کی جائے گی۔

  • امریکا اب تک خاتون صدر سے محروم کیوں؟

    امریکا اب تک خاتون صدر سے محروم کیوں؟

    امریکی صدارتی انتخابات اب چند ہی گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔ اس بار صدارتی انتخاب کے لیے ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ مدمقابل ہیں۔

    ہیلری کلنٹن سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ اور سابق وزیر خارجہ بھی رہ چکی ہیں۔ ان کا سیاسی اور امور حکومت کا تجربہ نہایت وسیع ہے لہٰذا ان کے جیتنے کے امکانات بھی خاصے روشن ہیں۔

    حالیہ انتخابات میں اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر ہوں گی۔

    مزید پڑھیں: امریکا کی فیشن ایبل خواتین اوّل

    لیکن ہیلری کلنٹن واحد خاتون صدارتی امیدوار نہیں ہیں۔ امریکا کی طویل جمہوری تاریخ میں کئی خواتین صدارتی انتخابات میں کھڑی ہوئیں، لیکن یا تو وہ پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہیں، یا پھر حتمی مرحلے میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس ضمن میں ہمیں سب سے پہلا نام ایکول رائٹس پارٹی کی وکٹوریہ ووڈ ہل کا ملتا ہے جو سنہ 1872 کے انتخابات میں بطور صدارتی امیدوار کھڑی ہوئیں۔ تاہم مطلوبہ ووٹس نہ ملنے کے باعث وہ پارٹی کی جانب سے نامزدگی نہ حاصل کر سکیں۔

    یہاں ان خواتین امیدواروں کے بارے میں بتایا جارہا ہے جو امریکی امور حکومت کو چلانے کا عزم لیے میدان میں اتریں لیکن ناکام رہیں۔

    :گریسی ایلن

    6

    سنہ 1940 میں امریکا کی سرپرائز پارٹی نے گریسی ایلن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن وہ صرف 42 ہزار ووٹ حاصل کرسکیں۔

    :لنڈا جینز

    9

    سنہ 1972 میں لنڈا جینز کو سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔

    :مارگریٹ رائٹ

    سنہ 1976 میں امریکا کی پیپلز پارٹی نے مارگریٹ رائٹ کو بطور صدارتی امیدوار منتخب کیا لیکن انہوں نے جمی کارٹر سے شکست کھائی۔

    :ایلن میک کرومیک

    5

    سنہ 1980 میں امریکا کی رائٹ ٹو لائف پارٹی نے ایلن میک کرومیک کو اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا تاہم وہ بری طرح شکست سے دو چار ہوئیں۔

    :سونیا جانسن

    8

    سنہ 1984 میں سٹیزن پارٹی نے سونیا جانسن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا۔

    :لینورا فلنائی

    3

    سنہ 1988 میں نیو الائنس پارٹی کی جانب سے لینورا فلنائی صدارتی انتخابات میں کھڑی ہوئیں تاہم انہیں جارج بش سینئر سے شکست کھانی پڑی۔

    سنہ 1992 میں نیو الائنس پارٹی نے لینورا فلنائی کو دوبارہ اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا اور ایک بار پھر انہوں نے بل کلنٹن سے شکست کھائی۔

    :سنتھیا مک کینی

    4

    سنہ 2008 میں گرین پارٹی نے سنتھیا مک کینی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن اس سال انتخابات میں امریکی تاریخ بدل گئی اور پہلی بار ایک سیاہ فام صدر بارک اوباما صدر منتخب ہوکر وائٹ ہاؤس جا پہنچا۔

    :روزینے بار

    سنہ 2012 میں ہی صدر اوباما کے دوسرے دور حکومت سے قبل پیس اینڈ فریڈم پارٹی کی جانب سے روزینے بار ان کے مدمقابل آئیں لیکن چونکہ صدر اوباما کا وائٹ ہاؤس میں ابھی قیام باقی تھا لہٰذا انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    :جل اسٹین

    2

    سنہ 2012 میں ہی گرین پارٹی نے بھی جل اسٹین کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن وہ بھی شکست سے دو چار ہوئیں۔

    :ہیلری کلنٹن

    1

    ہیلری کلنٹن نے 2008 میں صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑے ہونے کی کوشش کی تاہم وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل نہ کرسکیں۔ اس کے بعد وہ صدر اوباما کی ٹیم کا حصہ بن گئیں۔ حالیہ الیکشن میں وہ ایک بار پھر صدارتی امیدوار ہیں اور یہ واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت ہے کہ اس بار اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا۔

  • ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ صحت مند قرار

    ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ صحت مند قرار

    واشنگٹن : امریکی ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے معالج نے ان کی جسمانی صحت کو زبردست قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صحت کے بارے میں حالیہ چیک اپ کے بعد اپنے معالج ڈاکٹر ہارولڈ این بورنسٹین کا خط جاری کیا ہے۔ جس میں ان کی جسمانی صحت کو زبردست قرار دیا ہے۔

    ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار 70 سالہ ٹرمپ کا قد چھ فٹ تین انچ ہے اور وزن 116 کلو ہے جو کہ ان کے قد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

    ٹرمپ نے اپنی مخالف امیدوار ہیلری کلنٹن کی بیماری اور صدارتی مہم کینسل ہونے کے بعد کہا تھا کہ وہ اپنی صحت کی رپورٹ جاری کریں گے۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل ہیلری کلنٹن کی ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ امریکی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے لیے ’صحت مند اور فِٹ ہیں۔‘

    ان کی انتخابی مہم نے ان کی طبی معلومات نشر کی تھیں جن کے مطابق ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے امریکی صدارتی امیدوار کی صحت نمونیا کی تشخیص کے بعد بحال ہو رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نمونیا کا شکار ہوگئیں

    ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ وہ جمعرات سے دوبارہ اپنی مہم شروع کریں گی،وہ گذشتہ ہفتے اچانک بیمار پڑ گئی تھیں۔

    یاد رہے کہ ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں کا شمار معمر ترین امریکی صدارتی امیدواروں میں ہوتا ہے، اور ان پر خاصا دباؤ تھا کہ وہ اپنی صحت کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں۔

    ٹرمپ مسلسل کہتے آئے ہیں کہ کلنٹن کے پاس صدر بننے کے لیے درکار جسمانی اور ذہنی قوت نہیں ہےتاہم کلنٹن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کے مخالفین ان کی صحت کے بارے میں ایک ’پاگلانہ سازشی نظریہ‘ پھیلا رہے ہیں۔

  • ہیلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ سے معافی مانگ لی

    ہیلری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ سے معافی مانگ لی

    واشنگٹن : امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے نصف حامیوں کو’گھٹیا‘ کہنے پر معافی مانگ لی۔

    تفصیلات کےمطابق امریکہ میں صدارتی مہم کے دوران مخالف امیدوار کے حامیوں کو ناپسندیدہ کہنے پر ہیلر ی کلنٹن نے معافی مانگ لی۔

    اس سے قبل ڈیمو کریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن نے گزشتہ روز انتخابی مہم کے دوران ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کو نسل پرست اور ناپسندیدہ قرار دیا تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے ایک ایسے شخص کو کمپین چلانے کا چارج دیا ہےجوسب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے تاہم ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ان الفاظ پر شرمندہ ہیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے ہلیری کلنٹن کے بیان کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ان کا بیان لاکھوں دلچسپ اور محنت کرنے والے لوگوں کے لیے توہین آمیز ہے‘۔

    واضح رہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہیں،عوام کی زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کےلیے امیدواروں کے درمیان الفاظ کی جنگ اور شعلہ بیانی بھی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔