Tag: صدارتی انتخابات

  • یوکرین میں صدارتی انتخابات، معروف کامیڈین کی جیت کے امکانات روشن

    یوکرین میں صدارتی انتخابات، معروف کامیڈین کی جیت کے امکانات روشن

    کیو: یوکرین میں صدارتی انتخابات کا سلسلہ جاری ہے، جس میں معروف کامیڈین ولودیمیر زیلنسکی کے صدر بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق یوکرائن کے صدارتی انتخابات میں پہلی مرتبہ سیاسی پس منظر نہ ہونے کے باوجود مزاحیہ اداکار ولودیمیر زیلنسکی کی صدر بننے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ یورکین میں ہونے والے سروسے کے مطابق اداکار صدر بن چکے ہیں، سروے کے نتائج کے مطابق ولیودیمیر نے تقریباً 73 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

    رواں سال یکم اپریل کو یوکرائن میں اتوار کے روز منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے سرکاری نتائج کے مطابق پہلی مرتبہ بغیر کسی سیاسی پس منظر ایک کامیڈین نے ملک کے سابق صدر و وزیر اعظم پر واضح برتری حاصل کی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پیر کے روز تمام پولنگ اسٹیشنز سے موصول ہونے والے نتائج کے مطابق ولادمیر زیلنسکی نے مجموعاً 30 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ملک کے صدر پیٹرو پوروشینکو صرف 16 فیصد ووٹ حاصل کرسکے۔

    خیال رہے کہ ولادیمیر زیلنسکی نے اپنے ٹیلی ویژن شو میں ایک شخص کا کردار ادا کیا تھا جو کرپشن کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے صدر بن جاتا ہے اور اب ان کا یہ کردار حقیقت کا روپ دھارتا جا رہا ہے۔

    ولادمیر زیلنسکی نے یکم اپریل کو برطانوی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے کہا تھا کہ ’میں بہت خوش ہوں لیکن حتمی کارروائی نہیں ہے‘۔

    یوکرائنی اداکار نے صدارتی الیکشن میں‌ واضح برتری حاصل کرلی

    اکتالیس سالہ اداکار کو بڑی تعداد میں ملنے والے ووٹ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ یوکرائن کی عوام اب نیا رہنما چاہتے ہیں جس کا ملک کی کرپشن زدہ سیاسی اشرافیہ سے کوئی تعلق نہ ہو اور جو مشرقی یوکرائن میں روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ 5سال سے جاری تنازع ختم کرنے میں نئی سوچ پیش کر سکے۔

  • امریکا کے صدارتی انتخابات ٹرمپ اور روس کے درمیان کوئی رابطہ ثابت نہیں ہوا

    امریکا کے صدارتی انتخابات ٹرمپ اور روس کے درمیان کوئی رابطہ ثابت نہیں ہوا

    واشنگٹن : امریکی انتخابات کے دوران روسی مداخلت سے متعلق امریکی محکمہ صحت انصاف نے ملر رپورٹ کانگریس میں پیش کر دی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار کا کہنا ہے کہ 2016ء کے انتخابات میں ٹرمپ اور روس کے درمیان کوئی رابطہ ثابت نہیں ہوا البتہ روس کی انٹیلی جنس نے ہیکرز کے ذریعے امریکی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی تھی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ روسی ہیکرز نے کچھ ای میلز حاصل کرکے وکی لیکس جیسی ویب سائٹ کو بھی دیں تھیں۔

    دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رد عمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ نہ ہی رابطہ ثابت ہوا اور نہ ہی مداخلت کے ثبوت ملے، نفرت کرنے والوں اور ڈیموکریٹس کا ” گیم اوور“ ہو چکا ہے۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ مذکورہ رپورٹ کے ذریعے سارا بوجھ صدر ٹرمپ پر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    قانونی مشاوروں کا کہنا تھا کہ رپورٹ میں کہیں بھی یہ تحریر نہیں تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے روسی سازش کا حصّہ تھے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بارہا تحقیقات میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے حتیٰ کہ انہوں نے رابرٹ ملر کو بھی ہٹانے کی کوشش کی تھی۔

    اتحقیقاتی رپورٹ اسپیشل کونسل رابرٹ ملر نے تحریر کی تھی، ادھر کانگریس اسپیکر نینسی پیلوسی نے چار سو صفحات پر مشتمل رپورٹ عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

  • انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات میں ایک بار پھرجوکو ویدودو کامیاب

    انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات میں ایک بار پھرجوکو ویدودو کامیاب

    جکارتہ: انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو صدارتی انتخاب میں ایک بار پھر کامیاب ہوگئے، انہوں نے 54 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

    تفصیلات کے مطابق انڈونیشیا کے صدارتی انتخابات میں جوکوویدودو اور ان کے حریف پرابوو سوبیانتو دونوں نے فتح کا اعلان کردیا۔

    جوکوویدودو نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں حتمی نتائج کا انتظار کرنا چاہیے لیکن رائے عامہ کے 12 سروے نے واضح نتائج دیے ہیں جو بتا رہے ہیں جوکو ویدودو نے 54 اور پرابوو سوبیانتو نے 45 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

    دوسری جانب سابق فوجی جنرل پرابوو سوبیانتو نے صدارتی انتخابات میں 62 فیصد ووٹ حاصل کرکے انتخابات میں اپنی جیت کا دعویٰ کیا ہے۔

    انڈونیشیا کے جنرل الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ نے ملک بھر میں قائم 8 لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشنز میں سے 808 کے نتائج جاری کیے تھے جس کے مطابق پرابوو سوبیانتو نے 45 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

    انڈونیشین انتخابات میں پارلیمان کی 575 اور مقامی حکومتوں کی 19 ہزار817 نشستیں ہیں اور انتخابات کو پرامن بنانے کے لیے 4 لاکھ 43 ہزار پولیس اور 4 لاکھ 20 ہزار فوجی اہلکار تعینات تھے۔

    واضح رہے کہ انڈونیشیا کی کُل آبادی 26 کروڑ 40 لاکھ ہے اور اس کے 33 صوبے ہیں۔

  • بحرین میں پارلیمانی انتخابات 24 نومبر کو ہوں گے

    بحرین میں پارلیمانی انتخابات 24 نومبر کو ہوں گے

    منامہ: بحرین حکام کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ملک میں پارلیمانی انتخابات رواں سال 24 نومبر کو ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بحرین میں صدارتی انتخابات رواں سال 24 نومبر کو منعقد کیے جائیں گے، جس کے لیے تیاریاں بھی جاری ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق بحرین کے شاہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ملک میں پارلیمانی انتخابات 24 نومبر کو ہوں گے۔

    ملکی عوامی نمائندہ کونسل کے اراکین انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی 17 سے 21 اکتوبر کے درمیان جمع کراسکیں گے۔

    حکم نامے کے مطابق عوامی نمائندہ کونسل کے ارکان انتخاب کے لیے ہفتہ 24 نومبر کو صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں گے۔

    بحرین میں آج پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں

    خیال رہے کہ بحرین میں اس سے قبل پارلیمانی انتخابات نومبر 2014 میں ہوئے تھے، جبکہ حزب مخالف کی مرکزی جماعت الوفاق نے دیگر تین گروپوں کے ساتھ مل کر انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔

    پارلیمانی اور مونسپل کونسل کی نشستوں کے لیے 419 امیدوار میدان میں آئے، ملک میں اہل ووٹروں کی تعداد تقریباً ساڑھے تین لاکھ کے قریب تھی، جبکہ حکومتی جماعتوں کو نتائج میں برتری رہی۔

    واضح رہے کہ بحرین کی اپوزیشن مکمل طور پر ملک میں جمہوریت کا نفاذ چاہتی ہے، اور ان کی جانب سے متعدد بار یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ شاہ حماد کو منصب سے ہٹایا جائے۔

  • مسلم لیگ (ن) کی قیادت صدارتی امیدوار کے لیے فضل الرحمان کے نام پر ڈٹ گئی

    مسلم لیگ (ن) کی قیادت صدارتی امیدوار کے لیے فضل الرحمان کے نام پر ڈٹ گئی

    اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) کی قیادت صدارتی امیدوار کے لیے فضل الرحمان کے نام پر ڈٹ گئی، سابق اسپیکر ایاز صادق نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ن لیگ مولانا فضل الرحمان کو ہی ووٹ دے گی۔

    تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے نام پر ن لیگی ارکان کے اختلاف کے باوجود قیادت ان پر ڈٹ گئی ہے، ایاز صادق کا کہنا تھا کہ امید ہے پیپلز پارٹی بھی اپوزیشن کے امیدوار پر متفق ہوگی۔

    میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’فضل الرحمان کے ووٹ اب بھی اعتزاز احسن سے زیادہ ہیں، اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمان کے نام پر اتفاق کیا تھا، پیپلز پارٹی نے جلد بازی میں اعتزاز احسن کا نام دیا۔‘

    سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے شہباز شریف کو ووٹ نہیں دیا تھا، ہم نے کوشش کی کہ معاملات اتفاق رائے سے حل ہوں، مسلم لیگ (ن) نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔

    مولانا فضل الرحمان


    دوسری طرف مشترکہ پریس کانفرنس سے مولانا فضل الرحمان نے بھی خطاب کرتے ہوئے کہا ’ہم نے پیپلز پارٹی کی درخواست کو سنجیدگی سے لیا، لیکن پیپلز پارٹی نے ہماری درخواست کو سنجیدہ نہیں لیا۔‘

    انھوں نے کہا کہ آصف زرداری سے درخواست کی کہ صدارتی الیکشن میں وقت کم ہے، اپوزیشن کا ایک امیدوار ہونا چاہیے، پوری اپوزیشن تو ایک پارٹی امیدوار کے حق میں دست بردار نہیں ہوگی، ایک پارٹی کے لیے پوری اپوزیشن کے حق میں بیٹھنا آسان ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  فضل الرحمان کی نامزدگی پر ن لیگی ارکان میں اختلافات سامنے آ گئے


    مولانا نے کہا ’ہماری کوشش ہوگی کہ پیپلز پارٹی سنجیدہ اپوزیشن کا کردار ادا کرے، اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی کیا مشکلات ہیں، کون سا دباؤ ہے یہ وہی بتا سکیں گے، تاہم یہ واضح ہے کہ ن لیگ کو اعتزاز احسن قبول نہیں۔

  • صدارتی انتخابات کی سمری تیار ،چیف الیکشن کمشنر کو بھجوادی

    صدارتی انتخابات کی سمری تیار ،چیف الیکشن کمشنر کو بھجوادی

    اسلام آباد : صدارتی انتخابات کی سمری چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دی گئی، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اگست کے آخر یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں انتخابات کرا سکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق صدارتی انتخابات کی سمری تیار کرکے چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دی گئی ہے، قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے حلف کے بعد شیڈول جاری کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ اگست کے آخر یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں انتخابات کرا سکتے ہیں۔

    خیال رہے صدر کی آئینی مدت 9 ستمبر 2018 کو پوری ہوگی ، صدر کی آئینی مدت پوری ہونے سے 30دن قبل انتخابات کرانے ہوتے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ صدارتی انتخابات کے حوالے آئینی تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں، عام انتخابات میں تاخیر کی وجہ سے صدارتی انتخابات کے لیے وقت کم ہے۔

    نئی اسمبلیاں ملک کے 13ویں صدر کا انتخاب کریں۔

    واضح رہے کہ 25جولائی کو ہونے والے انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کی جاری کردہ پارٹی پوزیشن کے مطابق وفاق میں تحریک انصاف 116نشستوں کے ساتھ سب سے پہلے نمبر پر ن لیگ 64 اور پی پی 43 نشستوں کے تیسرے نمبر پر ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صدارتی انتخابات میں کامیابی پرشہبازشریف کی ترک صدرکو مبارکباد

    صدارتی انتخابات میں کامیابی پرشہبازشریف کی ترک صدرکو مبارکباد

    لاہور: سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے ترک صدر رجب طیب اردگان کو ایک بار پھر صدر منتخب ہونے پرترکش زبان میں مبارکباد دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹرپر اپنے پیغام میں رجب طیب اردگان کو صدارتی انتخابات میں کامیابی پر ترکش زبان میں مبارکباد پیش کی ہے۔

    شہبازشریف نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی انتخابات میں کامیابی پر ترک صدر اور وزیراعظم بن علی یلدرم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ رجب طیب اردگان کی قیادت میں ترکی ایک غیرمعمولی تبدیلی سے گزر رہا ہے اور جی 20 کلب میں اس کی شمولیت اس کی اقتصادی صلاحیت کی بڑھتی ہوئی علامت ہے

    ترکی کے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ صدر رجب طیب اردگان صدارتی انتخابات پہلے مرحلے میں جیت گئے ہیں انہیں 53 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

    سرکاری میڈیا کے مطابق صدارتی انتخابات کے علاوہ ملک میں پارلیمانی انتخاب بھی ہوئے اور اب تک گنے گئے 96 فیصد ووٹوں میں رجب طیب اردگان کی اے کے پارٹی 43 فیصد ووٹوں سے آگے ہے جبکہ محرم انسے کی پارٹی سی پی ایچ کے پاس 23 فیصد ووٹ ہیں۔

    ترک صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردگان فتح یاب

    واضح رہے کہ صدراتی انتخاب میں کامیابی کے بعد رجب طیب اردگان دوسری مرتبہ پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہوگئے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ترک صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردگان فتح یاب‘ دوسری بارصدرمنتخب

    ترک صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردگان فتح یاب‘ دوسری بارصدرمنتخب

    انقرہ: ترکی کے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ صدر رجب طیب اردگان صدارتی انتخابات پہلے مرحلے میں جیت گئے ہیں انہیں 53 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

    ترک سرکاری میڈیا کے مطابق رجب طیب اردگان نے صدارتی انتخابات میں 53 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے حریف محرم انسے 31 فیصد ووٹ ہی حاصل کرسکے ہیں تاہم نتائج حتمی اعلان 29 جون کو کیا جائے گا۔

    الیکشن کمیشن کے بیان سے قبل ہی صدر رجب طیب اردگان نے انتخابات میں اپنی کامیابی کے اعلان کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں اپنی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا۔

    ترک صدر کی جانب سے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں فتح کے اعلان کے بعد ان کے حامی جشن منانے کے لیے سڑکوں پرنکل آئے۔

    دوسری جانب حزب اختلاف محرم انسے نے اب تک رجب طیب اردگان کی کامیابی کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا اور کہا کہ نتائج جو بھی ہوں وہ ملک میں جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

    سرکاری میڈیا کے مطابق صدارتی انتخابات کے علاوہ ملک میں پارلیمانی انتخاب بھی ہوئے اور اب تک گنے گئے 96 فیصد ووٹوں میں رجب طیب اردگان کی اے کے پارٹی 43 فیصد ووٹوں سے آگے ہے جبکہ محرم انسے کی پارٹی سی پی ایچ کے پاس 23 فیصد ووٹ ہیں۔

    خیال رہے کہ ترکی میں یہ انتخابات نومبر 2019 میں ہونے تھے لیکن ترک صدر نے انہیں قبل ازوقت کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس انتخاب میں کامیابی کے بعد رجب طیب اردگان دوسری مرتبہ پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہوگئے۔

    یاد رہے کہ ترکی میں 15 جولائی 2016 کو رجب طیب اردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش میں کم سے کم 260 افراد ہلاک اور 2200 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

    واضح رہے کہ رجب طیب اردگان 2014ء میں صدر بننے سے قبل 11 سال تک ملک کے وزیراعظم کےعہدے پرفائر رہ چکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صدارتی انتخابات :مون جے ان جنوبی کوریا کےنئےصدر منتخب

    صدارتی انتخابات :مون جے ان جنوبی کوریا کےنئےصدر منتخب

    سیول : جنوبی کوریا کےصدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کےرہنما مون جے ان نے کامیابی حاصل کرلی۔انہوں نے صدارتی انتخابات میں 41فیصد ووٹ حاصل کیے۔

    تفصیلات کےمطابق جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں خطاب کرتئے ہوئے 64سالہ مون نے صدارتی انتخابات میں اپنی کامیابی کا اعلان کیا اور کہاکہ وہ اب عوام کےصدر ہیں۔

    انسانی حقوق کے لیے آوازبلند کرنے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما مون جے ان نے کہاکہ مجھے خوشی ہورہی ہےکہ لوگوں کی اکثریت ملک کی ترقی چاہتی ہے۔

    جنوبی کوریا کےالیکشن کمیشن کےمطابق مون جےان نے انتخابات میں 08۔41فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مدمقابل ہانگ جون نے03۔24فیصد ووٹ لیے۔


    کرپشن کےالزامات‘جنوبی کوریا کی سابق صد پرفرد جرم عائد


    یاد رہےکہ جنوبی کوریا میں بدعنوانی کے الزامات کے تحت سابق خاتون صدر پاک گن کے عہدےسے دستبردار ہونےکے بعد جنوبی کوریا میں یہ صدارتی انتخابات کرائے گئے ہیں۔

    ارک گن کی سہیلی چوئی سن سل پر الزام ہے کہ انہوں نے صدر سے اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف کمپنیوں پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ لاکھوں ڈالرز کے عطیات ان اداروں کو دیں جن کا انتظام چوئی سون سل کے پاس تھا۔

    واضح رہےکہ کرپشن اسیکنڈل میں سابق صدر پارک گن کو رواں سال مارچ میں عہدے سے دستبردار ہونا پڑاتھا اور اب انہیں مقدمات کا سامنا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں

  • براک اوباماکوفرانس کےصدارتی انتخاب لڑنے کی دعوت

    براک اوباماکوفرانس کےصدارتی انتخاب لڑنے کی دعوت

    پیرس : سابق امریکی صدر براک اوباما کوفرانس کے صدارتی انتخابات لڑنے کو کہاجارہاہےجس کے لیےہزاروں لوگوں نے ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق فرانس میں آن لائم مہم کےذریعے سابق امریکی صدر کو فرانس کے صدارتی انتخابات لڑنے کی دعوت دی جارہی ہے جس کے لیے اب تک 42000افراد لوگوں نے ان کی حمایت کی ہے۔

    o1

    آن مہم کے پوسٹروں پر سابق امریکی صدر براک اوباماکے2008کے صدارتی انتخابات کا نعرہ ’ہم کرسکتے ہیں‘ فرانسیسی زبان میں لکھا ہوا ہے۔

    غیرملکی میڈیاسے بات کرتے ہوئےاس مہم سے وابستہ ایک شخص کا کہناتھاکہ ہم اس مہم کے ذریعےامیدواروں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ آئندہ ماہ ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ان میں سے کوئی بھی متاثر کن امیدوار نہیں ہے۔

    o2

    فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی رہنما ماری لی پین صدارتی انتخابات میں اب تک کہ سب سےمضبوط امیدوار سمجھی جارہی ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں دائیں بازو کے امیدوارفرانسوا فیلن کو مالی اسکینڈل کا سامنا ہے جس سے اس سے ماری لی پین کی برتری اور واضح ہوتی نظر آرہی ہے۔

    یاد رہےکہ سابق امریکی صدر براک اوباما چونکہ فرانس کے شہری ہی نہیں ہیں اس لیے وہ انتخاب میں حصہ لینے کے اہل ہی نہیں۔

    o3

    مزید پڑھیں:فرانسیسی صدرکاانتخابات میں حصہ نہ لینےکااعلان

    واضح رہےکہ گزشتہ سال دسمبر میں فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نےدوبارہ انتخاب میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر کے سب کو حیران کردیاتھا۔

    o4