Tag: صدارتی انتخاب

  • ن لیگ کا پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ

    ن لیگ کا پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوار کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد: اپوزیشن میں دوریاں بڑھنے لگیں، ن لیگ نے پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوارکی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا.

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن نے اپنا صدارتی امیدوار لانے پرغورشروع کر دیا ہے. ن لیگ نے موقف اختیار کیا ہے کہ بڑی پارلیمانی جماعت ہیں امیدوار لانا ہمارا حق ہے.

    واضح رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے گذشتہ روز سینیٹر اعتزاز احسن کو صدارتی انتخاب کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تھا۔

    آصف زرداری نے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کرنے کی منظوری دیتے ہوئے خورشید شاہ، شیری رحمان اور قمر زمان کائرہ کو مسلم لیگ ن سمیت دیگر اتحادی جماعتوں سے رابطے کرنے کا ٹاسک دیا تھا.

    البتہ ن لیگ نے پیپلزپارٹی کے صدارتی امیدوارکی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، توقع کی جارہی ہے کہ ن لیگ اپنا صدارتی امیدوار لائے گی.

    مزید پڑھیں: پیپلزپارٹی نے اعتزاز احسن کو صدارتی امیدوار نامزد کردیا

    یاد رہے کہ وزیراعظم کے انتخاب کے موقع پر اپوزیشن میں خلیج پیدا ہوئی تھی، جب پیپلزپارٹی نے ن لیگ کے امیدوار شہباز شریف کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا تھا.

    بعد ازاں پیپلزپارٹی وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے موقع پر بھی لاتعلق رہی تھی. دونوں ہی مراحل میں پی ٹی آئی نے میدان مار لیا تھا۔

  • پاکستان کا اگلا صدر کون ہوگا؟ الیکشن کمیشن نے تیاریاں شروع کردیں

    پاکستان کا اگلا صدر کون ہوگا؟ الیکشن کمیشن نے تیاریاں شروع کردیں

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کی تیاریاں شروع کردیں، ملک بھر کی ہائی کورٹس کو پولنگ افسران کی تعیناتی کیلئے درخواست کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق عام انتخابات کا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہونے کے بعد اب صدراتی انتخاب کے مرحلے کی تیاریاں جاری ہیں، اس سلسلے میں تمام ہائی کورٹس کو الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ آفیسرز کی تعیناتی کی درخواست کردی گئی ہے۔

    صدر پاکستان ممنون حسین کے بعد ملک کا اگلا صدر کون ہوگا؟ اس کیلئے الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کی تیاریاں شروع کردیں، الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹس سے پولنگ آفیسرز کی تعیناتی کی درخواست کردی ہے۔

    ،انتخابی شیڈول کا اعلان جلد کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ صدر مملکت ممنون حسین کی مدت صدارت نو ستمبر کو ختم ہورہی ہے
    صدرممنون حسین اطمینان سے اپنی معیاد مکمل کرکے گھرجائیں گے۔

    الیکشن کمیشن کے مطابق صدراتی انتخاب اگست کےآخری یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے،ممنون حسین اپنے پورے دور صدارت میں کسی تنازع میں نہیں پھنسے، البتہ پانامہ پیپرز کے حوالے سے ان کی تقریر کو بہت شہرت ملی۔

    علاوہ ازیں نواز لیگ حکومت میں گزشتہ سال پیش کیے جانے والے بجٹ میں صدر ممنون حسین کی تنخواہ میں چھ لاکھ روپے اضافہ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ان کی ماہانہ تنخواہ دولہ لاکھ روپے ہوگئی تھی۔

    اس وقت کے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ میں وزیراعظم کے دفتر کا بجٹ 91کروڑ67 لاکھ روپے سالانہ کر دیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: صدر ممنون حسین کی تنخواہ میں 6 لاکھ روپے کا اضافہ

    یاد رہے کہ پاکستان میں پاناما پیپرز کے انکشافات کے بعد صدر مملکت کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس بدعنوان لوگوں پر قدرت کا شکنجہ ہے، گزشتہ سال ممنون حسین نے کوٹری کے صنعتکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاناما اسکینڈل قدرتی آفت ہے، اس کی پکڑ میں بہت سے لوگ آئیں گے۔

  • پیوتن کا چوتھی بار صدر کے عہدے کے لیے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ

    پیوتن کا چوتھی بار صدر کے عہدے کے لیے انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ

    ماسکو : صدرِ روس ولادیمیر پیوتن نے آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے کے اظہار کے لیے اس سے بہتر جگہ اور موقع نہیں ملے گا.

    اس بات کا اعلان صدر پیوتن نے بدھ کے روز نزہنی نووگوراڈ میں جی اے زیڈ آٹو موبائل فیکٹری میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انہوں نے کہا کہ میں روس کے لوگوں کی حمایت پر ان کا شکرگذار ہوں اور آج اس فیصلے سے آگاہ کرتا ہوں کہ آئندہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں بھی حصہ لوں گا.

    فیکٹری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ روس کو کھویا ہوا مقام دلانا میرا خواب ہے اور اس خواب کی تعبیر کے لیے سفر رواں دواں ہے اور کئی اہداف حاصل کر لیے ہیں خطے میں روس کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلم لیکن ابھی کرنے کو بہت کام ہیں اس لیے ایک بار پھر صدارتی الیکشن میں حصہ لوں گا.

    یاد رہے کہ ولادی میر پیوتن 2000 سے 2008 کے دوران دو مرتبہ صدارتی عہدے پر براجمان رہے ہیں چوں کہ آئینی طور پر وہ تیسری بار صدر نہیں بن سکتے تھے اس لیے 2008 کے بعد وزیراعظم بن گئے اور اپنے قریبی ساتھی دمتری مید ویدیف کو صدر بناکر اختیارات اپنے پاس رکھ لیے ہیں.

    بعد ازاں صدر مید ویدیف نے روس کے آئین میں خصوصی ترمیم کرکے صدارتی مدت کو چار سے بڑھا کر چھ سال کرکے خود مستعفی ہوگئے جس کے بعد 2012 میں ولادی میر پوتن تیسری مرتبہ چھے سال کے لیے صدر منتخب ہوگئے جس کی معیاد 2018 میں ختم ہو رہی ہے.

    پیوتن اگر 2018 میں بھی صدر منتخب ہونے میں کامیاب جاتے ہیں تو ان کی جیت یقینی ہے جس کے بعد وہ 2024 تک ملک کے صدر رہے تو جوزف اسٹالن سب سے زیادہ عرصے تک صدر رہنے کے ریکارڈ کو توڑ کر طویل مدت تک صدر رہنے والے پہلے روسی صدر بن جائیں گے.

  • ایرانی صدارتی انتخاب: حسن روحانی دوبارہ کامیاب

    ایرانی صدارتی انتخاب: حسن روحانی دوبارہ کامیاب

    تہران: ایران میں 12 ویں صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر حسن روحانی کی فتح کا اعلان کردیا گیا۔ وہ 58.6 فیصد ووٹ لے کر دوبارہ صدر منتخب ہوگئے۔

    ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق حسن روحانی نے اپنے حریف ابراہیم رئیسی پر واضح برتری حاصل کی جنہیں 39.8 فیصد ووٹ ملے۔

    حسن روحانی کی برتری ووٹوں کی گنتی کے چند گھنٹوں بعد ہی سامنے آگئی تھی جب انہوں نے قریباً ڈیڑھ لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ ان کے حامیوں اور حکومتی عہدیداران کو بھی ان کی فتح کا یقین ہوگیا تھا۔

    دوسری جانب صدارتی امیدوار ابراہیم رئیسی بھی انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے کا عندیہ دے چکے تھے۔

    ووٹنگ ٹرن آؤٹ 70 فیصد

    ایران میں 12 ویں صدر کے انتخاب کے لیے مجموعی طور پر ووٹنگ ٹرن آؤٹ بہتر رہا اور خواتین اور بزرگوں سمیت نوجوان افراد نے بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

    ایرانی وزارت داخلہ کے مطابق ایران میں 4 کروڑ لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔

    صدارتی انتخاب کے لیے پہلا ووٹ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے کاسٹ کیا گیا جس کے بعد پولنگ کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔

    پولنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بجے ہوا جو بلاتعطل شام 6 بجے تک جاری رہا۔ بعد ازاں پولنگ کے وقت میں 4 گھنٹے کا اضافہ کردیا گیا۔

    صدارتی انتخابات کے لیے ملک بھر میں 63 ہزار پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے۔

    اس موقع پر سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے اور ملک بھر میں 3 لاکھ سے زائد سیکورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ٹرمپ کی ممکنہ فتح: ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی

    ٹرمپ کی ممکنہ فتح: ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی

    امریکی انتخابات کے غیر متوقع نتائج کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے امریکی صدر بننے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں جس کے بعد ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں شدید مندی دیکھی جارہی ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار بھی پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔

    امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک کے نتائج کے مطابق ڈونلد ٹرمپ کو واضح برتری حاصل ہے۔

    گزشتہ روز ہیلری کے کامیاب ہونے کی امید پر دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹوں میں تیزی دیکھی گئی تھی۔ مگر آج صبح غیر متوقع نتائج کے باعث ایشیائی اسٹاک مارکیٹ مندی کا شکار ہوگئی۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی ممکنہ فتح کے خدشے کے پیش نظر ایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں مندی کی لہر دوڑ گئی۔ میکسیکن پیسو اور امریکی ڈالر کی قدر میں کمی دیکھی گئی جبکہ خام تیل سستا اور سونا مہنگا ہوگیا۔

    جاپانی اسٹاک مارکیٹس میں 4 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ ہانگ کانگ اسٹاک مارکیٹ میں ساڑھے 600 پوائنٹس کی مندی دیکھی گئی۔ بھارتی اسٹاک مارکیٹ کا آغاز ہی 1500 پوائنٹس کی مندی سے ہوا۔

    پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بھی ٹریڈنگ کے دوران ساڑھے 700 پوائنٹس کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

    دوسری جانب امریکی اور میکسیکن کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی۔ امریکی ڈالر کی قدر جاپانی ین کے مقابلے میں ساڑھے تین فیصد اور یورو کے مقابلے دو فیصد میں گر گئی۔ میکسیکن پیسو کی قدر میں 10 فیصد کمی ہوئی۔

    خام تیل کی قیمت میں بھی ایک ڈالر کی کمی جبکہ سونے کی قیمت میں 51 ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

  • امریکا اب تک خاتون صدر سے محروم کیوں؟

    امریکا اب تک خاتون صدر سے محروم کیوں؟

    امریکی صدارتی انتخابات اب چند ہی گھنٹوں کی دوری پر ہیں۔ اس بار صدارتی انتخاب کے لیے ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ مدمقابل ہیں۔

    ہیلری کلنٹن سابق صدر بل کلنٹن کی اہلیہ اور سابق وزیر خارجہ بھی رہ چکی ہیں۔ ان کا سیاسی اور امور حکومت کا تجربہ نہایت وسیع ہے لہٰذا ان کے جیتنے کے امکانات بھی خاصے روشن ہیں۔

    حالیہ انتخابات میں اگر وہ جیت جاتی ہیں تو وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر ہوں گی۔

    مزید پڑھیں: امریکا کی فیشن ایبل خواتین اوّل

    لیکن ہیلری کلنٹن واحد خاتون صدارتی امیدوار نہیں ہیں۔ امریکا کی طویل جمہوری تاریخ میں کئی خواتین صدارتی انتخابات میں کھڑی ہوئیں، لیکن یا تو وہ پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل کرنے میں ناکام رہیں، یا پھر حتمی مرحلے میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    اس ضمن میں ہمیں سب سے پہلا نام ایکول رائٹس پارٹی کی وکٹوریہ ووڈ ہل کا ملتا ہے جو سنہ 1872 کے انتخابات میں بطور صدارتی امیدوار کھڑی ہوئیں۔ تاہم مطلوبہ ووٹس نہ ملنے کے باعث وہ پارٹی کی جانب سے نامزدگی نہ حاصل کر سکیں۔

    یہاں ان خواتین امیدواروں کے بارے میں بتایا جارہا ہے جو امریکی امور حکومت کو چلانے کا عزم لیے میدان میں اتریں لیکن ناکام رہیں۔

    :گریسی ایلن

    6

    سنہ 1940 میں امریکا کی سرپرائز پارٹی نے گریسی ایلن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن وہ صرف 42 ہزار ووٹ حاصل کرسکیں۔

    :لنڈا جینز

    9

    سنہ 1972 میں لنڈا جینز کو سوشلسٹ ورکرز پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار نامزد کیا گیا۔

    :مارگریٹ رائٹ

    سنہ 1976 میں امریکا کی پیپلز پارٹی نے مارگریٹ رائٹ کو بطور صدارتی امیدوار منتخب کیا لیکن انہوں نے جمی کارٹر سے شکست کھائی۔

    :ایلن میک کرومیک

    5

    سنہ 1980 میں امریکا کی رائٹ ٹو لائف پارٹی نے ایلن میک کرومیک کو اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا تاہم وہ بری طرح شکست سے دو چار ہوئیں۔

    :سونیا جانسن

    8

    سنہ 1984 میں سٹیزن پارٹی نے سونیا جانسن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا۔

    :لینورا فلنائی

    3

    سنہ 1988 میں نیو الائنس پارٹی کی جانب سے لینورا فلنائی صدارتی انتخابات میں کھڑی ہوئیں تاہم انہیں جارج بش سینئر سے شکست کھانی پڑی۔

    سنہ 1992 میں نیو الائنس پارٹی نے لینورا فلنائی کو دوبارہ اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا اور ایک بار پھر انہوں نے بل کلنٹن سے شکست کھائی۔

    :سنتھیا مک کینی

    4

    سنہ 2008 میں گرین پارٹی نے سنتھیا مک کینی کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن اس سال انتخابات میں امریکی تاریخ بدل گئی اور پہلی بار ایک سیاہ فام صدر بارک اوباما صدر منتخب ہوکر وائٹ ہاؤس جا پہنچا۔

    :روزینے بار

    سنہ 2012 میں ہی صدر اوباما کے دوسرے دور حکومت سے قبل پیس اینڈ فریڈم پارٹی کی جانب سے روزینے بار ان کے مدمقابل آئیں لیکن چونکہ صدر اوباما کا وائٹ ہاؤس میں ابھی قیام باقی تھا لہٰذا انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

    :جل اسٹین

    2

    سنہ 2012 میں ہی گرین پارٹی نے بھی جل اسٹین کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کیا لیکن وہ بھی شکست سے دو چار ہوئیں۔

    :ہیلری کلنٹن

    1

    ہیلری کلنٹن نے 2008 میں صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑے ہونے کی کوشش کی تاہم وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی حاصل نہ کرسکیں۔ اس کے بعد وہ صدر اوباما کی ٹیم کا حصہ بن گئیں۔ حالیہ الیکشن میں وہ ایک بار پھر صدارتی امیدوار ہیں اور یہ واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت ہے کہ اس بار اقتدار کا ہما کس کے سر بیٹھے گا۔

  • ہیلری کلنٹن کا خفیہ ہتھیار: پاکستان سے تعلق رکھنے والی مسلمان ہما عابدین

    ہیلری کلنٹن کا خفیہ ہتھیار: پاکستان سے تعلق رکھنے والی مسلمان ہما عابدین

    واشنگٹن: امریکا کے صدارتی انتخابات اگلے ماہ منعقد ہونے والے ہیں اور امریکی عوام کی اکثریت سمیت دنیا بھر کے امن پسند افراد ڈیمو کریٹک امیدوار ہیلری کلنٹن کے صدر بننے کے خواہش مند ہیں۔

    اب تک کے سروے اور رپورٹس کے مطابق ہیلری کلنٹن کو ڈونلڈ ٹرمپ پر برتری بھی حاصل ہے۔ ہیلری کلنٹن کی ٹیم میں جہاں بے شمار باصلاحیت اور ذہین افراد شامل ہیں وہیں ایک خاتون ایسی بھی ہیں جو اپنی بہترین صلاحیتوں کے باوجود صرف اس لیے ناقدین کی نظروں میں کھٹکتی ہیں کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔

    huma-5

    جی ہاں، امریکا کی ممکنہ آئندہ صدر کی ٹیم میں شامل خاتون ہما محمود عابدین نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ ان کا تعلق پاکستان سے بھی ہے۔ ہما ایک طویل عرصہ سے مختلف امریکی سرکاری عہدوں پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

    ہما کے والد سید زین العابدین ایک بھارتی مصنف ہیں جبکہ والدہ صالحہ محمود عابدین پاکستانی ہیں جو امریکہ جانے کے بعد مختلف اخبارات و رسائل سے وابستہ رہیں۔

    مزید پڑھیں: صومالیہ کی پہلی خاتون صدارتی امیدوار

    ہما کی پیدائش امریکی ریاست مشی گن میں ہوئی تاہم دو سال کی عمر میں وہ اپنے والدین کے ساتھ جدہ چلی گئیں جہاں انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ امریکا واپس آگئیں اور مختلف تعلیمی اداروں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

    ہما کی پہلی جاب وائٹ ہاؤس میں تھی۔ انہوں نے 1996 میں وائٹ ہاؤس میں انٹرن شپ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا جہاں انہیں اس وقت کی خاتون اول ہیلری کلنٹن کی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ یہیں سے ہیلری نے ان میں چھپی صلاحیتوں کو پہچانا اور ہما کو مستقلاً اپنی ٹیم میں شامل کرلیا۔

    huma-4

    اس کے بعد سے ہیلری نے جب بھی کسی سیاسی عہدہ کے لیے جدوجہد کی، چاہے وہ سینیٹر کا انتخاب ہو، 2007 میں صدارتی امیدوار کے لیے نامزدگی کی مہم ہو یا موجودہ صدارتی انتخاب کے لیے چلائی جانے والی مہم، ہر ناکام اور کامیاب سفر میں ہما ان کے ساتھ رہیں۔ سنہ 2007 میں ایک مشہور صحافی ربیکا جانسن نے ہما کو ’ہیلری کا خفیہ ہتھیار‘ کا نام دیا۔

    اوباما کے پہلے دور صدارت کے دوران جب ہیلری کلنٹن سیکریٹری خارجہ رہیں، ہما اس وقت ان کی ڈپٹی چیف آف اسٹاف رہیں۔ یہ عہدہ اس سے قبل کسی کے پاس نہیں تھا اور ہما کے لیے یہ خصوصی طور پر تخلیق کیا گیا۔

    صرف یہی نہیں ہما کو خصوصی رعایت دی گئی کہ وہ دارالحکومت واشنگٹن میں رہنے کے بجائے نیویارک میں اپنے گھر میں رہ کر بھی کام کرسکتی ہیں تاکہ وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکیں۔

    ہما پر نہ صرف ہیلری کلنٹن بلکہ بل کلنٹن بھی بے حد اعتماد کرتے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہما کلنٹن فاؤنڈیشن کا بھی حصہ ہیں جس کا سرکاری امور سے کوئی تعلق نہیں۔

    huma-3

    ہیلری کے دیگر رفقا کا کہنا ہے کہ ہما ایک ذہین اور نہایت باصلاحیت خاتون ہیں۔ جب ہیلری سیکریٹری خارجہ تھیں تب وہ مشرق وسطیٰ کے معاملات پر ہما سے مشورے لیا کرتیں۔ ہما کو مشرق وسطیٰ کے معاملات پر گہری نظر تھی اور وہ نہایت دور اندیش تجزیے پیش کیا کرتی تھیں۔

    تقریباً اپنی تمام عمر امریکا میں گزارنے کے باوجود ہما اپنے بنیادی تشخص کو نہیں بھولیں۔ وائٹ ہاؤس میں انٹرن شپ کے دوران وہ ’جرنل آف مسلم مائنرٹی افیئرز‘ نامی رسالے کی نائب مدیر بھی رہیں جس میں امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کے مسائل و موضوعات کو پیش کیا جاتا تھا۔

    سنہ 2012 میں کانگریس کے چند ری پبلکن اراکین نے الزام عائد کیا کہ ہما کا ایک بھائی بھی ہے جس کی شناخت کو دنیا سے چھپایا گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کا تعلق مختلف شدت پسند تنظیموں سے ہے اور ایسے شخص کی بہن کا اہم سرکاری عہدوں پر تعینات رہنا امریکی سلامتی کے لیے سخت خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔

    تاہم اس الزام کو کانگریس کی اکثریت اور امریکی عوام نے مکمل طور پر مسترد کردیا۔

    huma-2

    ہما ہندی، اردو اور عربی زبان پر عبور رکھتی ہیں۔ انہوں نے ایک کانگریسی رکن انتھونی وینر سے شادی کی جس سے ان کا بیٹا بھی ہے تاہم 6 سال بعد انہوں نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی۔

    پاکستانی اور دنیا بھر کی خواتین کے لیے عزم و ہمت کی روشن مثال ہما کہتی ہیں، ’میں اپنے مقام سے خوش ہوں۔ میں نہ صرف تاریخ میں ذرا سی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب رہوں گی، بلکہ اس مقام پر رہ کر میں لوگوں کی مدد بھی کرسکتی ہوں‘۔

  • ہجوم ہیلری کلنٹن کی طرف پشت کیے کیوں کھڑا ہے؟

    ہجوم ہیلری کلنٹن کی طرف پشت کیے کیوں کھڑا ہے؟

    واشنگٹن: ایک امریکی فوٹوگرافر نے صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی ایک انوکھی تصویر اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کی جسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی نے انسانی رویوں کو کس طرح بدل دیا ہے۔

    تصویر میں ہیلری کلنٹن پوڈیم پر کھڑی ہاتھ ہلا رہی ہیں لیکن پورا ہجوم انہیں دیکھنے کے بجائے ان کی طرف پیٹھ کیے کھڑا ہے۔ دراصل سینکڑوں افراد پر مشتمل یہ ہجوم ہیلری کے ساتھ ’سیلفی‘ لینے کے لیے موبائل کو ہاتھ میں لیے ہیلری کی طرف پشت کیے کھڑا ہے۔

    hillary-2

    وکٹر این جی نامی فوٹوگرافر نے تصویر کے ساتھ ایک خط بھی لکھا جس میں وہ لکھتے ہیں، ’پیارے مشہور انسان، اگر ہم اپنے آپ کو تمہارے ساتھ کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم اپنی پشت تمہاری طرف کرلیتے ہیں اور تمہیں دیکھنے سے انکار کر دیتے ہیں‘۔

    ’تم خدارا ناراض مت ہونا۔ لیکن تم سے زیادہ ہم تمہاری شہرت کے دیوانے ہیں۔ تمہاری طرف پشت کرنے سے تم ہمارے ساتھ کھڑے نظر آؤ گے جس سے تھوڑی بہت شہرت ہمیں بھی مل جائے گی‘۔

    ’دراصل ہم اس لمحہ کو جینے سے زیادہ اسے دوبارہ دیکھنے کی کوشش میں مگن ہیں اور اس کوشش میں ہم اس لمحہ سے ٹھیک طرح سے لطف اندوز ہی نہیں ہو پاتے‘۔

    دنیا کی سب سے پہلی سیلفی *

    وکٹر نے مزید لکھا، ’اگر ہم کسی کو پسند کرتے ہیں تو اسے دیکھنے کے بجائے اس کے ساتھ دکھائی دینا پسند کرتے ہیں‘۔

    فوٹو گرافر وکٹر نے اس تصویر کو ’2016 ۔ ہم سب‘ کا نام دیا۔

  • قزاقستان: صدارتی انتخاب میں نورسلطان نذربایوف کی واضح برتری

    قزاقستان: صدارتی انتخاب میں نورسلطان نذربایوف کی واضح برتری

    قزاقستان: صدارتی انتخابات میں صدر نورسلطان نذربایوف کو واضح برتری حاصل ہے۔

    روس اور چین کے درمیان پھیلے اس وسیع ملک میں پچانوے لاکھ ووٹرز ہیں جبکہ ووٹ ڈالنے کے لیے نو ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، جہاں ووٹروں کی بڑی تعداد نے صدر نورسلطان نزربایوف کےحق میں ووٹ ڈالے ہیں۔

    گذشتہ چھبیس سال سےاقتدار چھہتر سالہ صدرنورسلطان کے ہی ہاتھوں میں ہے، جنھیں فادر آف دی نیشن بھی کہا جاتا ہے، ان کے دو حریفوں کو بھی حکومت نواز تصور کیا جاتا ہے۔

    سابق صوبائی عہدیدار ترگن سیزدیکوف اور ٹریڈ یونین کے رواں سربراہ ابوالغازی کوسائنوف صدر نورسلطان کے خلاف میدان میں ہیں لیکن واضح برتری صدر نور سلطان کو ہی حاصل ہے ۔