Tag: صدارتی ریفرنس

  • جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق  صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے

    جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے

    اسلام آباد : جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے اور کہا ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے ریفرنس کی سماعت کی۔

    9 رکنی لارجربینچ میں جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیے اور کہا کہ سپریم کورٹ بھٹوکیس میں فیصلہ سناچکی اور نظرثانی بھی خارج ہوچکی، ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ سپریم کورٹ دوسری نظرثانی نہیں سن سکتی۔

    جسٹس منصورعلی شاہ نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمے میں کہا کہ ایک معاملہ ختم ہوچکا ہے، عدالت کو یہ توبتائیں اس کیس میں قانونی سوال کیا ہے؟ فیصلہ برا تھاتوبھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جاسکتا، یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے، آپ عدالت کوکوئی قانونی حوالہ تو دیں۔

    دوران سماعت جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا جب یہ مقدمہ چلا کیا اس وقت آئین موجود تھا، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جس وقت مقدمہ چلا اسوقت ملک میں مارشل لا تھا تو جسٹس منصور نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کےتحت بنیادی سوالات واضح کرنا ہوں گے، کیا اس کیس میں آئین سے انحراف کا معاملہ ہے۔

    جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے آرٹیکل186کےتحت سپریم کورٹ کے کسی حتمی فیصلےپر نظرثانی نہیں کی جاسکتی ، اٹارنی جنرل بتائیں اس معاملے پرکون سےقانونی سوالات ہیں جن کافیصلہ کرنا ہے۔

    اعلیٰ عدلیہ کے حج نے کہا کہ اس پر تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے مزید کتنے ریویوکرینگے ، صدر مملکت نے کہہ دیا کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کون ساقانونی جواز ہے کہ سپریم کورٹ کارروائی کرے، جو بھی فیصلہ کیاگیا اسوقت کے قوانین کے مطابق کیا گیا ، موجودہ صورتحال میں کون سا قانونی معاملہ ہے جس پر عدالت فیصلہ دے۔

    جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ آپ کہہ رہے ہیں مارشل لا دورمیں عدلیہ آزادانہ کام نہیں کرتی ، آپ کو ثبوت دینا ہوگا کہ مارشل لادورمیں عدلیہ آزاد نہیں تھی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ساتھی جج نے انتہائی اہم نوعیت کے سوالات اٹھائے ہیں، اب تک دو سوالات اٹھے ہیں ایک آئینی اور دوسرا فوجداری قوانین کا، ہمیں دونوں سوالات پر عدالتی معاونت کی ضرورت پڑے گی۔

  • ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس: بلاول بھٹو کی سماعت براہ راست دکھانے کی درخواست دائر

    ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس: بلاول بھٹو کی سماعت براہ راست دکھانے کی درخواست دائر

    اسلام آباد : پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ذوالفقار علی بھٹو سےمتعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت براہ راست دکھانے کے لئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس سے متعلق پیپلزپارٹی نے متفرق درخواست دائرکردی۔

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریفرنس پر سماعت براہ راست دکھانے کے لئے درخواست دائر کی گئی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ ذوالفقار بھٹو سےمتعلق صدارتی ریفرنس 12 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر ہے،ذوالفقار بھٹو کو ایک قتل کی سازش کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی۔

    دائر درخواست میں کہنا تھا کہ ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دے دی گئی لیکن ان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے، استدعا ہے کہ کیس کی سماعت کی کارروائی براہ راست نشر کرنےکی اجازت دی جائے۔

    یاد رہے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس پر سماعت 12 دسمبر کو ہوگی، چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی کی سربراہی میں9رکنی لارجربینچ سماعت کرے گا۔

    9رکنی لارجربینچ میں جسٹس سردارطارق مسعود، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

    خیال رہے آصف علی زرداری کی جانب سے 2011 میں فیصلے پر صدراتی ریفرنس بھجوایا گیا تھا۔

  • ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل سے متعلق ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کیے جانے کا امکان

    ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل سے متعلق ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کیے جانے کا امکان

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل سے متعلق ریفرنس آئندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس سماعت کیلئے مقرر کیے جانے کا امکان ہے۔

    ذرائع نے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ میں ذوالفقاربھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دینے کا ریفرنس آئندہ ہفتے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے گا۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سےمتعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت لارجر بینچ کرے گا، ریفرنس کی سماعت کیلئے چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ تشکیل دیا جائے گا۔

    یاد رہے سابق صدرزرداری نے 2011 میں بھٹو کی پھانسی کے فیصلے پر صدارتی ریفرنس بھجوایا تھا۔

  • آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ آج شام  5بجے سنایا جائے گا

    آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ آج شام 5بجے سنایا جائے گا

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے آرٹیکل تریسٹھ اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو آج شام پانچ بجےسنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت میں پیش ہوئے اور سوشل میڈیا کی شکایت کرتے ہوئے کہا عدم حاضری پر سوشل میڈیا پر میرے خلاف باتیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نہ دیکھا کریں۔

    اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل میں سوال کیا کیا آرٹیکل 63اےایک مکمل کوڈ ہے، کیا آرٹیکل 63اے میں مزید کچھ شامل کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا پارٹی پالیسی سےانحراف کر کےووٹ شمار ہو گا؟

    اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ عدالت ایڈوائزی اختیارمیں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے، صدارتی ریفرنس اورقانونی سوالات پرعدالت کی معاونت کروں گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا اپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے؟ کیا اپ کہہ رہے ہیں۔کہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کر دیا جائے۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا۔ بطور اٹارنی جنرل اپ اپنا موقف لے سکتے ہیں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریفرنس سابق وزیراعطم کی ایڈوائس پر فائل ہوا۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یہ حکومت کاموقف ہے؟ تو اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے بتایا کہ
    میراموقف بطور اٹارنی جنرل ہے ، سابق حکومت کامؤقف پیش کرنے کےلیے وکلاموجود ہیں، صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لیکر ریفرنس فائل کرناچاہیے تھا،انونی ماہرین کی رائےمختلف ہوتی توصدر ریفرنس بھیج سکتے تھے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں۔ آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے اور سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

    جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر 2 فریقین سامنے آئے ہیں، ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں، دوسرا فریقین سیاسی جماعت ہوتی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا۔ تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں، صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ہے، ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ٹیکنیکل نہیں آئینی معاملہ ہے، عدالتی آبزرویشنز سے اتفاق نہیں کرتا لیکن در تسلیم خم کرتا ہوں، صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یا عوامی دلچسپی کے معاملہ ہر رائے مانگی جاسکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ارٹیکل 186 میں پوچھا سوال حکومت کی تشکیل سے متعلق نہیں ہے تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ماضی میں ایسے واقعات پر صدر مملکت نے ریفرنس نہیں بھیجا، عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظر میں بھی دیکھیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کو صدارتی ریفرنس کے لیے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینے کی ضرورت نہیں، ارٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں، کیا اپ صدر مملکت کے ریفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے حکومت کی طرف کوئی ہدایات نہیں ملی، اپوزیشن اتحاد اب حکومت میں اچکا ہے۔ اپوزیشن کا حکومت میں آنے کے بعد بھی صدارتی ریفرنس میں موقف وہی ہو گا، جو پہلے تھا، میں بطور اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کروں گا۔

    اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ عدالت نے رکن اور سیاسی جماعت کےحقوق کو بھی دیکھنا ہے، انحراف پررکن کے خلاف کاروائی کا طریقہ کار آرٹیکل 63 اے میں موجود ہے، آرٹیکل 63 اے کے تحت انخراف پر اپیلیں عدالت عظمیٰ میں آئے گی۔

    اشتر اوصاف نے کہا کہ صدر مملکت کے ریفرنس پر رائے دینے سے اپیلوں کی کاروایی پر اثر پڑے گا، آرٹیکل 63ون کے انحراف سے رکن خودبخود ڈی سیٹ نہیں ہو جاتا، انحراف کرنے سے رکن کو شوکاز نوٹس سے وضاحت مانگی جاتی ہے، سربراہ وضاحت سے مطمئن نہ ہو تو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

    جس پر جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ کیا صدر مملکت نے پارلیمنٹ میں اپنی سالانہ تقریر میں یہ معاملہ کبھی اٹھایا، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے کبھی کسی جماعت نے کوئی اقدام اٹھایا؟ کیا کسی سیاسی جماعت نے تریسٹھ اے کی تشریح یا ترمیم کے لیے کوئی اقدام اٹھایا۔

    اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سینٹ میں ناکامی کے بعد سابق وزیراعظم نے ارکان کو کوئی ہدایات جاری نہیں کی، عمران خان نے ارکان سے اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے بیان جاری کیا۔ عمران خان نے کہا تھا کہ ارکان اپنے ضمیر کے مطابق مجھے اعتماد کا ووٹ دینے کا فیصلہ کریں، مجھے ووٹ نہیں دیں گے تو گھر چلا جاؤں گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ پارٹی سربراہ کی مرضی ہے وہ ہدایات جاری کریں یا نہ کریں تو اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک کے وقت بھی وہی وزیراعظم تھے، سابق وزیر اعظم نے اپنے پہلے موقف سے قلا بازی لی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم اپنی ہدایات میں تبدیلی نہیں کر سکتا؟ کیا وزیراعظم کے لیے اپنی ہدایات میں تبدیلی کی ممانعت ہے؟

    جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم نے آئین کے تحت حلف لیا ہوتا ہے، وزیر اعظم اپنی بات سے پھر نہیں سکتا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے مزید استفسار کیا کہ کیا انحراف کرنا بددیانتی نہیں ہے؟ کیا انحراف کرنا امانت میں خیانت نہیں ہوگا؟ کیا انخراف پر ڈی سیٹ ہونے کے بعد آرٹیکل 62( 1) ایف کا اطلاق ہو سکتا ہے؟ کیا انحراف کرکے ڈالا گیا ووٹ شمار ہوگا۔ ان سوالات کے برائے راست جواب دیں۔

    اشتراوصاف نے کہا عدالت کےسوال کا جواب نہ دے پاؤں لیکن گزارشات دےسکتا ہوں، عوام کے سامنے ارکان جوابدہ ہیں، قانون میں 7سال سزا لکھی ہے تو سزائےموت نہیں دی جاسکتی۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیامنحرف کی سزا کے لیے قانون نہیں بنایاجاسکتا؟ اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ قانون بنایا جاسکتا ہے لیکن پارلیمنٹ نےقانون نہیں بنایا ؟

    جسٹس منیب اختر نے مزید استفسار کیا کس بنیاد پر کہتے ہیں آرٹیکل 63اے کا اطلاق نہیں ہوتا؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا آئین میں ترمیم تک آرٹیکل باسٹھ63 کااطلاق نہیں کرسکتے ، جس پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ابھی تک آپ کہہ رہے ہیں قانون بن سکتا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے جسٹس منیب اختر سے مکالمے میں کہا عدالت آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی، آرٹیکل 62 اور 63 میں ترمیم پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے، آئین پنالٹی فراہم کرتا ہے،ترمیم کےبغیراضافہ نہیں کیا جاسکتا،اٹارنی جنرل

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آئین کی فراہم پنالٹی کوقانون سے بڑھایا جاسکتا ہے۔

    سماعت کے اختتام پر عدالت کی پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کی سرزنش

    ریفرنس کی سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کےوکیل بابر اعوان کی سخت الفاظ میں سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی نظر میں کوئی پارٹی چھوٹی بڑی نہیں سب برابر ہیں، عدالت بات کر رہی ہو تو مداخلت مت کریں ،بات سنیں ۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا مت بتائیں عدالت کو کہ کونسی بڑی پارٹی سے ہیں ، عدالت نےکیس پارٹی سائز نہیں بلکہ آئین کی تشریح کے لیےسنا ہے، آپ کا موقف ہم نے 2مرتبہ سنا آپ کےنکات ہمیں سمجھ گئے ہیں، اب آپ دو منٹ میں کیا کہنا چاہتےہیں ہم 2منٹ اوربیٹھ جاتے ہیں۔

    وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں 10منٹ لوں گا ، عدالت نےبابر اعوان کو10منٹ دیے جانے کی استدعا مسترد کر دی۔

    چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس میں کہا آرٹیکل 63 اے ووٹنگ سے متعلق ارکان کو پابند بناتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ووٹ کے لیے پابند کیا جائے تو تحریک عدم اعتماد پر آرٹیکل 95غیر مؤثر ہو جائے گا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کیاہارس ٹریڈنگ کے بغیر عدم اعتماد ہو سکتی ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت اپنےبنائےوزیر اعظم کوہٹا کر نیالا سکتی ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا آرٹیکل 63 اے کی پیروی سے آرٹیکل 95 کیسے غیر مؤثر ہوگا؟ ایسی صورت میں صدر مملکت وزیر اعظم کواعتماد کے ووٹ کا کہہ سکتےہیں، جس پر اشتراوصاف کا کہنا تھا کہ صدراسی جماعت کا ہو، جس کا وزیراعظم ہے تو اعتماد کے ووٹ کا نہیں کہے گا۔

    عدالت نے آرٹیکل 63اے کی تشریح سےمتعلق صدارتی ریفرنس پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، صدارتی ریفرنس پر شام 5 بجے فیصلہ سنایا جائے گا۔

  • صدارتی ریفرنس پر سماعت : رکن پارلیمنٹ کوووٹ ڈالنے سے نہیں روکا جاسکتا، اصل سوال صرف نااہلی کی مدت کا ہے، سپریم کورٹ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ میں آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رکن پارلیمنٹ کوووٹ ڈالنے سےنہیں روکا جا سکتا، نہ ہی آئین میں رکن پارلیمنٹ کا ووٹ تسلیم کرنے کی گنجائش ہے، اصل سوال صرف نااہلی کی مدت کا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجربنچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس منیب اختر،جسٹس اعجازالاحسن ، جسٹس مظہرعالم خان،جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آج بھی گزشتہ سماعت والا ہی مسئلہ ہے، مناسب ہو گا کہ وکلا اور دیگر افراد باہر چلے جائیں ، جو کھڑے ہیں لاؤنج سے سماعت سن لیں، اس سے پہلے کہ عدالت کو سختی سے باہرنکالنا پڑے۔

    سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں ،آئی سی ٹی کوصدارتی ریفرنس میں فریق بناتے ہوئے تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردئیے۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید نے صدارتی ریفرنس پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں، عدالت چاہے تو صوبوں کو نوٹس جاری کرسکتی ہے، صوبوں میں موجود سیاسی جماعتیں پہلےہی کیس کا حصہ ہیں۔

    عدالت نے صوبائی حکومتوں کو بھی صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کردیئے۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ جے یو آئی اور پی آئی ٹی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی، جے یو آئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہے، کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ایئرپورٹ جاتا ہے، کشمیر ہائی وے سے گزر کر تمام جماعتوں کے کارکنان اسلام آباد آتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کسی کوووٹنگ سے 48گھنٹے پہلے مہم ختم کرنےکا پابند کرتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں، معلوم نہیں عدم اعتماد پر ووٹنگ کب ہو گی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امورکومتاثر کرنا نہیں ہوتا، وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا ہےکہ قانون پر عمل کریں گے، جلسہ اور دھرنا پرامن ہو گا۔.

    چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتےہیں، جس پر عدالت میں قہقہے لگے، اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہو جائے گا۔

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا آئی جی اسلام آباد سے بات ہو گئی ہے، پولیس کے اقدامات سے مطمئن ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اچھی بات ہے پولیس قانون کے مطابق کارروائی کررہی ہے، صوبائی حکومتیں بھی تحریری طور پر جوابات جمع کرائیں ، حریری جوابات پر صدارتی ریفرنس پرسماعت میں آسانی ہوگی۔

    عدالت نے کہا کامران مرتضیٰ نے پرامن دھرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس میں دیئے پی ٹی آئی کی جانب سے ڈنڈا بردار ٹائیگر فورس بنانا افسوسناک ہے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا جے یو آئی بھی اپنے ڈنڈے تیل سے نکالے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تمام جماعتیں جمہوری اقدار کی پاسداری کریں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سندھ ہاؤس میں حکومتی اراکین نے وزیراعظم کیخلاف ووٹ دینے کا کہا، اس سلسلے میں 1992 کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا۔

    اٹارنی جنرل نے کہا سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ضمیر تنگ کررہا ہے تومستعفی ہو جائیں، 1992کے بعد سے بہت کچھ ہو چکا ہے، بہت کچھ ہوا مگر اس انداز میں وفاداریاں تبدیل نہیں ہوئیں، آرٹیکل 63اے کےتحت اراکین پارٹی ہدایات کے پابند ہیں اور وزیراعظم کے الیکشن ،عدم اعتماد پر ارکان پارٹی پالیسی پر ہی چل سکتے ہیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کیا آرٹیکل 63اے میں نااہلی کا ذکر ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا آرٹیکل 63اے کی ہیڈنگ ہی نااہلی سے متعلق ہے، نااہلی کے لیے آئین میں طریقہ کار واضح ہے، آرٹیکل 63،63،62 اے کوالگ الگ نہیں پڑھاجاسکتا ، عدالت پارلیمانی نظام کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے چکی۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آرٹیکل17 اور 18 عام شہریوں کا آزادانہ ووٹ کا حق دیتا ہے، عام شہری اور رکن اسمبلی کےووٹ میں فرق بتانا چا رہے ہیں ، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ سینیٹ الیکشن ریفرنس میں بھی یہ معاملہ سامنے آیاتھا تو اٹارنی جنرل نے کہا عام شہری اور اراکین اسمبلی کے ووٹ کیلئے قوانین الگ الگ ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل دیئے کہ سیاسی جماعتیں پارٹی نظام کی بنیاد ہیں، عدالت نے ماضی میں پارٹی پالیسی سے انحراف روکنےکی آبزرویشن دی، عدالت نے کہا مسلم لیگ بطورجماعت کام نہ کرتی اور مسلم لیگ ارکان آزادانہ الیکشن لڑتے تو توپاکستان نہ بن پاتا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 63،62 کو الگ الگ نہیں، ساتھ تسلسل میں پڑھا جاسکتا ہے ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس لئے بھی ملا کر پڑھناچاہئےکہ یہ آرٹیکلز نااہلیت کی بات کررہے ہیں تو جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ جنرل الیکشن میں عوام کے ووٹ،پارلیمنٹ میں رکن کے ووٹ میں فرق ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا عدالتی فیصلے میں دی گئی آبزرویشن بہت اہمیت کی حامل ہے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عوام کامینڈیٹ ایوان میں اجتماعی حیثیت میں سامنے آتا ہے، سیاسی جماعتیں عوام کےلیےایوان میں قانون سازی کرتی ہیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ووٹ کا حق اراکین اسمبلی کو ہے نہ پارٹی اراکین کو، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا 4 مواقع پر اراکین اسمبلی کی پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی ہے، پارٹی ڈسپلن کی پابندی لازمی بنانے کے لیے آرٹیکل 63 اے لایا گیا۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں ادارے ہیں ،ڈسپلن کی خلاف ورزی سے ادارے کمزور ہوتے ہیں، پارٹی لائن کی پابندی نہ ہو توسیاسی جماعت تباہ ہو جائے گی۔

    اٹارنی جنرل نے کہا 1985میں غیر جماعتی بنیاد پر الیکشن ہوئے تھے، محمد خان جونیجو کووزیراعظم بننے کے لیے پارٹی صدر بننا پڑا تھا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے سیاسی اور قانونی محرکات الگ ہیں، سیاسی اثرتو یہ ہے کہ رکن کو دوبارہ ٹکٹ نہیں ملے گا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا اراکین پارٹی کیساتھ اپنے حلقوں کو جوابدہ نہیں ؟ پارٹی ڈسپلن کی پابندی کس کس حد تک ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پارٹی میں بات نہ سنی جا رہی ہو تومستعفی ہوا جا سکتا ہے، مستعفی ہوکر رکن اسمبلی دوبارہ عوام میں جا سکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا امیدواروں کو پتہ ہوتا ہے وہ کب آزادی سے ووٹ نہیں دے سکتے، دوسری کشتی میں چھلانگ لگانے والے کو سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ایم این اے پارٹی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو نا اہل قرار پائے گا ، وزیر اعظم کی درخواست، اسپیکر ریفرنس کے بعد نااہلی کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہی ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا کسی رکن کو پارٹی کے خلاف فیصلے کے اظہار کا حق ہے؟ کیا دوسری کشتی میں چھلانگ لگا کر حکومت گرائی جاسکتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے بیشتر جمہوری حکومتیں چندووٹوں کی برتری سےقائم ہوتی ہیں، کیا دوسری کشتی میں جاتے جاتے پہلا جہاز ڈبویا جا سکتا ہے؟ جسٹس منیب اختر کا بھی کہنا تھا کہ چھلانگیں لگتی رہیں تومعمول کی قانون سازی بھی نہیں ہوسکتی۔

    عدالت نے کہا آرٹیکل 63 اے سے انحراف پر آئین نے نااہلی کاایک طریقہ کار دیا گیا ہے، اب پنڈورا باکس کھل گیا تو میوزیکل چیئر ہی چلتی رہے گی، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ معاملہ صرف 63 اے کی تلوار کا نہیں پورا سسٹم ناکام ہونے کا ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے سب نے اپنی مرضی کی توسیاسی جماعت ادارہ نہیں ہجوم بن جائے گی، انفرادی شخصیات کو طاقتور بنانے سے ادارے تباہ ہو جاتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال پر نہیں جاؤں گا، معاملہ پارلیمنٹ پر ہی چھوڑنا چاہیے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا فلور کراسنگ کی اجازت ترقی یافتہ ممالک میں ہے، کیا آپ پارٹی لیڈر کوبادشاہ سلامت بنانا چاہتے ہیں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی کوبادشاہ نہیں تولوٹا بھی نہیں بنانا چاہتے ، مغرب کے بعض ممالک میں فلور کراسنگ کی اجازت ہے، مغرب میں کرسمس سے پہلے قیمتیں کم ہوجاتی ہیں، یہاں رمضان سے پہلے مہنگائی ہو جاتی ہے، ہر معاشرے کے اپنے ناسور ہوتے ہیں۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعتوں کے اندر بحث ہوتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس سے زیادہ بحث کیا ہوگی کہ سندھ ہاؤس میں بیٹھ کرپارٹی پر تنقید ہورہی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا جتنا مرضی غصہ ہو پارٹی کیساتھ کھڑے رہنا چاہیے، مغرب میں لوگ پارٹی کے اندر غصے کا اظہار کرتے ہیں، رکن پارلیمنٹ کو ووٹ ڈالنے سےنہیں روکا جا سکتا، نہ ہی آئین میں گنجائش ہے کہ رکن پارلیمنٹ کا ووٹ تسلیم نہ کیا جائے تاہم پارٹی پالیسی کےخلاف ووٹ دینے والے کی اگرنااہلی ہے تواس کی مدت کتنی ہو۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ضمیرکی آواز نہیں کہ اپوزیشن کیساتھ مل جائیں، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان میں اپنے ہی لوگوں نےعدم اعتماد کیا، بلوچستان میں حکومت بدل گئی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا بلوچستان میں دونوں گروپ باپ پارٹی کےدعویدارتھے، پارٹی ٹکٹ پر اسمبلی آنے والا پارٹی ڈسپلن کاپابند ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ ووٹ ڈال کرشمارنہ کیا جانا توہین آمیزہے، آرٹیکل63 اے میں نااہلی کا پورا نظام دیا گیا ہے، اصل سوال اب صرف نااہلی کی مدت کا ہے، آرٹیکل 63 اے کی روح کو نظر انداز نہیں کرسکتے، عدالت کا کام خالی جگہ پر کرنا نہیں ، ایسے معاملات ریفرنس کے بجائے پارلیمنٹ میں حل ہونے چاہئیں، عدالت نے آرٹیکل 55 کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہر رکن ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنالے تو نظام کیسے چلے گا، جس پر جسٹس مظہر عالم نے کہا آرٹیکل 63 فور بہت واضح ہے ، آرٹیکل 63 فور کے تحت ممبر شپ ختم ہونانااہلی ہے تو اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ اصل سوال ہی آرٹیکل 63 فور واضح نہ ہونے کا ہے، خلاف آئین انحراف کرنے والے کی تعریف نہیں کی جاسکتی ، جو آئین میں نہیں لکھا اسے زبردستی نہیں پڑھا جاسکتا ،آرٹیکل 62 ون ایف کہتا ہے رکن کوایماندار اور امین ہونا چاہیے۔

    اٹارنی جنرل نے سوال کیا کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے، کیا خیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا آرٹیکل 95 کے تحت ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے، ووٹ اگر ڈالا جاسکتا ہے تو شمار بھی ہوسکتا ہے، حکومت کے پاس جواب ہے توعدالت سے سوال کیوں پوچھ رہی ہے، اگر اس نقطے سے متفق ہیں تو اس سوال کو واپس لے لیں۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا ووٹ پارٹی کیخلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63اے قابل عمل نہیں ہوگا، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کی ڈیکلریشن پر کیا انکوائری کرے گا، کیا الیکشن کمیشن تعین کرے گا پارٹی سے انحراف درست ہے یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کا کام صرف یہ دیکھنا ہوگا طریقہ کار پرعمل ہوا یا نہیں۔

    اٹارنی جنرل نے جواب میں دیا کہ پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہوسکتا، کیا پارٹی سے انحراف کرنے پر انعام ملنا چاہیے، کیا خیانت کرنے والے امین ہو سکتے ہیں، ووٹ پارٹی کیخلاف ڈالے بغیر آرٹیکل 63 اے قابل عمل نہیں ہوگا، پارٹی پالیسی سے انحراف درست نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا آپ کتنے وقت تک دلائل مکمل کرلیں گے تو اٹارنی جنرل نے کہا 2 گھنٹے میں دلائل مکمل کر لوں گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کل فل کورٹ ریفرنس ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا موجودہ ریفرنس کا موجودہ اجلاس سے تعلق ہے، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ عدالت کو آئین کی تشریح کرنی کرنی پڑے گی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالتی کارروائی کو اسمبلی اجلاس سے منسلک نہ کریں، کیا اس ریفرنس پر فیصلے کی جلدی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا چاہتے ہیں ووٹنگ سے قبل عدالتی رائے آجائے۔

    جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئینی اعتبار سے یہ اہم مقدمہ ہے، عدالت کی اصل ترجیح معمول کے مقدمات ہیں، کل نماز جمعہ کے بعد ایک گھنٹہ سماعت کریں گے۔

    سپریم کورٹ نے رضا ربانی کو عدالتی معاون بنانے کی استدعا مستردکردی اور کہا آپ سیاسی جماعت کے رہنما ہیں عدالتی معاون نہیں بن سکتے، آپ کا مؤقف ضرور سنیں گے۔

    سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز اٹارنی جنرل خالد جاوید نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ تحریک عدم اعتماد میں منحرف رکن کا ووٹ شمار ہوگا یا نہیں ، یہ اسپیکر کی صوابدید ہے۔

    خالد جاوید کا کہنا تھا کہ منحرف ارکان کا ووٹ چیلنج کر دیا جائے یا متنازع قرار دیا جائے تو ایوان میں اسپیکر کا فیصلہ حتمی ہوگا، جسے عدالت میں چیلنج بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے مثالیں بھی موجود ہیں۔

    منحرف رکن اپنے ڈی سیٹ کے فیصلے کیخلاف عدالت جا سکے گا تاہم صدراتی ریفرنس میں سپریم کورٹ سے منحرف رکن کی تاحیات نااہلی پر رائے لی جارہی ہے۔

    یاد رہے سپریم کورٹ نے آرٹیکل63اے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر لارجر بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو صدارتی ریفرنس پر نوٹس جاری کر دیئے تھے۔

  • پاکستان تحریک انصاف  نے صدارتی ریفرنس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

    پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنس پر جواب میں کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کی انفرادی حیثیت نہیں ہوتی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے صدارتی ریفرنس پر جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ، جس میں کہا ہے کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹ کی انفرادی حیثیت نہیں ہوتی۔

    تحریک انصاف نے جواب میں تاحیات نااہلی پرکوئی رائے نہیں دی اور کہا تاحیات نااہلی پرعدالت جو بھی رائے دے اس پر مطمئن ہوں گے تاہم الیکشن کمیشن عدالتی رائے کے نتیجےمیں عملدرآمد کا پابند ہوگا۔

    خیال رہے سپریم کورٹ بار ، مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی صدارتی ریفرنس پر جواب جمع کرا چکی ہے۔

    سپریم کورٹ بار نے تحریک عدم اعتماد میں ووٹ کے حق کو انفرادی قرار دے دیا اور کہا آرٹیکل63 کے تحت کسی ایم این اے کو ووٹ سے پہلے نہیں روکا جاسکتا۔

    (ن) لیگ نے صدارتی ریفرنس کو عدالت کے قیمتی وقت کا ضیاع قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ آئین کا آرٹیکل 63 اے اور 95 واضح ہے، آئین کے تحت ہر رکن کو ووٹ ڈالنے کا حق ہے کیونکہ ہر رکن اسمبلی کا کاسٹ کیا گیا ووٹ گنتی میں شمار بھی ہوگا۔

    جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی) نے آرٹیکل 63 اے غیر جمہوری قرار دے دیا اور کہا اسپیکر کو اراکین کے ووٹ مسترد کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا، سپریم کورٹ نے رائے دی تو الیکشن کمیشن فورم غیر مؤثرہوجائے گا۔

  • جسٹس قاضی فائزعیسیٰ  نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلئے قائم بینچ پر اعتراض اٹھا دیا

    جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلئے قائم بینچ پر اعتراض اٹھا دیا

    اسلام آباد : جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلئے قائم بینچ پر اعتراض اٹھا دیا اور کہا بینچ کی تشکیل سے پہلے سینئرججز سے مشاورت نہیں کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلئے قائم بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان عطا بندیال کو خط لکھ دیا۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا خط تین صفحات پر مشتمل ہے ، خط کی کاپی اٹارنی جنرل ،سپریم کورٹ بار صدر احسن بھون کوبھی ارسال کی گئی ہے۔

    خط میں کہا کہ روایت کے مطابق بینچ سینئرموسٹ ججزپرمشتمل نہیں ، انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہئیے ہوتا ہوانظر بھی آنا چاہیے، ریفرنس سماعت کیلئے سینئر موسٹ ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیاجاتا ہے۔

    آئین کی تشریح جیسے اہم معاملے پر بینچ کی تشکیل میں سینئر ججز کو نظر انداز کیا گیا، صدارتی ریفرنس پر پوری قوم کی نظریں ہیں، اہم کیس کیلئےبینچ کی تشکیل سے پہلے سینئر جج سے مشاورت نہیں کی گئی۔

    لارجر بینچ میں سینئر ججز کو شامل نہیں کیا گیا، بینچ کی تشکیل سے پہلے رولز کو فالو نہیں کیا گیا، بینچ میں سینیارٹی پرچوتھے آٹھویں اور تیرہویں نمبر کے ججزکو شامل کیا گیا، اہم قانونی ،آئینی سوالات پرسینئر ججز کا بینچ میں شامل ہونا چاہیے۔

    جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سول سرونٹ کی بطور رجسٹرار تقرری پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا میری رائےمیں رجسٹرار کی تقرری خلاف آئین ہے، یہ خط لکھنے سے پہلے دو بار سوچا۔

    سپریم کورٹ بار درخواست،ریفرنس ایک ساتھ سماعت کیلئے مقرر کرنے کا حکم آیا، سپریم کورٹ بار کی درخواست اور صدارتی ریفرنس ایک ساتھ نہیں سنا جا سکتا کیونکہ سپریم کورٹ بار کی درخواست آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی گئی ہے، صدارتی ریفرنس مشاورتی دائرہ اختیار ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز چیف جسٹس پاکستان عطا بندیال نے صدارتی ریفرنس کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل دیا تھا۔

  • وفاقی حکومت کا صدارتی ریفرنس آج ہی فائل کرنے کا فیصلہ

    وفاقی حکومت کا صدارتی ریفرنس آج ہی فائل کرنے کا فیصلہ

    اسلام آباد : وفاقی حکومت نے آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس آج ہی فائل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت سیاسی کمیٹی کا اجلاس ہوا ، جس میں قانونی ماہرین، اسد قیصر، ڈاکٹر بابر اعوان، اسد عمر اور فوادچوہدری نے شرکت کی۔

    اجلاس میں آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس آج ہی فائل کرنے کا فیصلہ کیا گیا، قانونی ٹیم نے وزیراعظم کو صدارتی ریفرنس کے خدوخال پر بریفنگ دی۔

    وزارت پارلیمانی امور سمری وزیراعظم کو بھیجے گی ، وزیراعظم کی منظوری کے بعد ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا جائے گا۔

    ریفرنس فائنل کرنے کیلئے اٹارنی جنرل اور بابر اعوان کو ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔

    اس حوالے سے مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے بتایا کہ صدر آئین کے آرٹیکل63 اے کے تحت ریفرنس بھیج رہےہیں اور میری وزارت ریفرنس فائل کرنےکےحوالے سے سمری بھیج رہی ہے۔

    بابر اعوان کا کہنا تھا کہ ریفرنس میں 2سوالات اٹھائے جائیں گے، اس حوالے سے سپریم کورٹ کافیصلہ موجود ہے، موجودہ چیف جسٹس 5 رکنی بینچ کے سربراہ تھے۔

    مشیر پارلیمانی امور نے کہا کہ اس فیصلے میں اصول طے کیے گئے ہیں، جہاں نااہلی کے عرصے کا تعین نہیں وہاں نااہلی تاحیات تصور ہوگی۔

    انھوں نے مںحرف ارکارن کو پیغام میں کہا کہ ہمارے ارکان کے پاس موقع ہےوہ واپس آجائیں، اگروہ واپس آجائیں توٹھیک ورنہ نااہلی تاحیات ہوگی، غیرمنتخب ارکان کا جس وقت چاہیں نام واپس لیا جا سکتا ہے۔

    ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عدم اعتماد ناکام ہوگی اور حکومت 5سال پورے کرے گی تاہم قومی اسمبلی اجلاس کا فیصلہ اسپیکر قومی اسمبلی کریں گے۔

  • ‘آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس 21 مارچ تک دائر کیا جائے گا’

    ‘آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس 21 مارچ تک دائر کیا جائے گا’

    اسلام آباد : اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پیر21 مارچ تک دائر کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق آئین کے آرٹیکل 63 کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اے آر وائی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر کام شروع کر دیا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس پیر21 مارچ تک دائر کر دیا جائےگا، سپریم کورٹ کی رائے کے بعد آرٹیکل 63 پر بحث ازخود ختم ہوجائے گی۔

    خالد جاوید خان نے مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں حکومت آئین اور قانون سے باہر نہیں جائےگی، جو کچھ بھی ہوگا آئین کے اندر رہتے ہوئے ہوگا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ منحرف ارکان کو 5 سال نااہل کرنے کا آرڈیننس تیار نہیں ہوا، 5 سال نااہلی کا اٹارنی جنرل آفس میں کوئی آرڈیننس نہیں بنا گیا ، آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس پرعدالت سے رائے کا فیصلہ ہوا، وزارت قانون کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔

    یاد رہے گذشتہ روز حکومت نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس فائل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    فوادچوہدری کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے رائے لی جائیگی پارٹی ممبرہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوتوووٹ کی کیاقانونی حیثیت ہوگی اور وفاداریاں تبدیل کرنے پر نااہلی زندگی بھرہوگی یا نہیں۔

    وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا کہ ریفرنس میں رائے لی جائے گی کہ کیا ایسے ممبران کودوبارہ انتخاب لڑنے کی اجازت ہو گی؟ اور سپریم کورٹ سے درخواست کی جائے گی کہ ریفرنس روزانہ سن کر فیصلہ کیا جائے

  • بڑی خبر ! وفاقی حکومت کا ہارس ٹریڈنگ کے خلاف صدارتی ریفرنس لانے کا  فیصلہ

    بڑی خبر ! وفاقی حکومت کا ہارس ٹریڈنگ کے خلاف صدارتی ریفرنس لانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : وفاقی حکومت نے ہارس ٹریڈنگ کےخلاف صدارتی ریفرنس لانے کا فیصلہ کرلیا ، صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلےکی روشنی میں لایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کی زیرصدارت حکومتی سیاسی کمیٹی کااجلاس ہوا، جس میں ہارس ٹریڈنگ کے خلاف صدارتی ریفرنس لانے کا فیصلہ کرلیا گیا، صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کے 2018 کے فیصلے کی روشنی میں لایا جائے گا۔

    وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں آئینی اور قانونی آپشنز پر غور کیا گیا اور اس حوالے سے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان اور اٹارنی جنرل نے وزیراعظم کو بریفنگ دی۔

    اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت بنی گالہ میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا تھا ، جس میں پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اور وفاقی وزرا شریک ہوئے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ اہم مشاورتی اجلاس میں موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور منحرف ارکان اسمبلی کیخلاف قانونی کارروائی کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔

    یاد رہے حکومت نے آرٹیکل 63اے کی تشریح کیلئے سپریم کورٹ میں ریفرنس فائل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، جس میں رائے لی جائیگی پارٹی ممبرہارس ٹریڈنگ میں ملوث ہوتوووٹ کی کیا قانونی حیثیت ہوگی اور وفاداریاں تبدیل کرنے پر نااہلی زندگی بھرہوگی یا نہیں۔