Tag: صدام حسین

  • صدام حسین کو کیسے چھپایا گیا؟

    صدام حسین کو کیسے چھپایا گیا؟

    صدام حسین کی روپوشی پر بنائی جانے والی فلم ’ہائیدنگ صدام حسین‘ کا آفیشل ٹریلر جاری کردیا گیا۔

    سعودی عرب میں بحیرہ احمر فلم فیسٹیول میں نمائش کے لیے بنائی گئی دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح عراقی کسان علا نامق نے صدام حسین کو 235 دنوں تک امریکی فوجیوں سے چھپا رکھا تھا۔

    فلم ’ہائیڈنگ صدام حسین‘ کے ڈائریکٹر ہلکاوت مصطفیٰ نے اپنے اس پروجیکٹ کو 14 سال تک خفیہ رکھا، اب انھوں نے اپنی فلم کے ٹریلر کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔

    واضح رہے کہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد صدام حسین اقتدار سے بے دخل ہوگئے تھے، اس کے بعد وہ روپوش ہو گئے۔

    حیرت انگیز طور پر صدام حسین تقریباً آٹھ مہینوں تک گرفتاری سے بچتے رہے، تاہم انھیں تکریت قصبے کے قریب ایک سرنگ سے پکڑا گیا تھا۔

    اس دوران وہ کافی پراگندہ حالت میں تھے اور ان کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ بعد ازاں ان پر مقدمہ چلایا گیا اور تین سال بعد انھیں پھانسی دے دی گئی تھی۔

  • ’’صدام حسین نے 4 روز قبل ڈکیتی مزاحمت پر شہری کو قتل کیا تھا‘‘

    ’’صدام حسین نے 4 روز قبل ڈکیتی مزاحمت پر شہری کو قتل کیا تھا‘‘

    کراچی: سپرہائی وے پولیس نے ڈکیتی مزاحمت پر شہری کو قتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرلیا۔

    کراچی کے علاقے سائٹ سپرہائی وے پولیس نے جمالی پل کے قریب کارروائی کرتے ہوئے ڈکیتی مزاحمت پر شہری کو قتل کرنے والے ملزم صدام حسین کو گرفتار کرلیا۔

    ایس ایس پی ایسٹ زبیر نذیر شیخ کے مطابق گرفتار ملزم صدام حسین نے 4 روز قبل ڈکیتی مزاحمت پر شہری کو قتل کیا تھا، واقعے کے خلاف سپرہائی وے پر احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

    ایس ایس پی ایسٹ کا کہنا ہے کہ آج ملزم پھر اپنے ساتھی عمر افغانی کے ساتھ مل کر ڈکیتی کررہا تھا، پولیس کے پہنچتے ہی عمر افغانی فرار ہوگیا تاہم صدام حسین کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

    ایس ایس پی زبیر نذیر شیخ نے بتایا کہ ملزم سے پستول، چھینا ہوا موبائل فون اور دیگر سامان برآمد کرنے کے بعد مقدمہ درج کر لیاگیا۔

  • ’اسرائیل پر بم برسائے‘: وہ ملک جہاں صدام حسین آج بھی ہیرو ہے

    ’اسرائیل پر بم برسائے‘: وہ ملک جہاں صدام حسین آج بھی ہیرو ہے

    عمان: عراق میں صدام حسین کا اقتدار ختم ہوئے 20 سال گزر چکے ہیں، خود عراق تو اس آمر کو بھول جانا جاتا ہے، لیکن پڑوسی ملک اردن میں صدام حسین کی مقبولیت آج بھی عروج پر ہے۔

    20 مارچ 2003 کو اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق میں اسلحے کے ذخائر کی موجودگی کو جواز بنا کر عراق کی آزادی نامی آپریشن شروع کیا جس میں ڈیڑھ لاکھ امریکی اور 40 ہزار برطانوی فوجیوں نے حصہ لیا۔

    امریکی حملے کے بعد سنہ 1979 سے برسر اقتدار صدام حسین روپوش ہوگئے اور 8 ماہ بعد امریکی فوجیوں نے انہیں ڈھونڈ نکالا، ان پر مقدمہ چلا، انہیں سزا سنائی گئی اور 30 دسمبر 2006 کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔

    عراق میں اب صدام حسین کی تصویر نمایاں کرنا یا ان کے حق میں نعرہ لگانا قابل گرفتاری جرم ہے۔

    لیکن اردن میں صورتحال مختلف ہے، یہاں آج بھی لوگ صدام حسین کی تصویر اپنے ساتھ رکھتے ہیں، صدام حسین کی تصویر پر مبنی اسٹیکرز اور موبائل کورز اردن کے نوجوانوں میں بھی بے حد مقبول ہیں۔

    دراصل اردن میں صدام حسین کو فلسطین کی حمایت، عرب قومیت پرستی اور مغربی تسلط کے خلاف ان کی صاف گوئی کی وجہ سے انہیں بے حد پسند کیا جاتا ہے۔

    صدام کا دور دیکھنے والے اکثر اردنی انہیں ایماندار عرب رہنما کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

    خلیل عطیہ نامی شخص نے غیر ملکی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدام حسین فلسطین کی حمایت میں ایک توانا آواز تھے، انہوں نے نہ صرف فلسطینیوں کی حمایت کی بلکہ وہ فلسطینی شہدا کے خاندانوں کی مالی امداد بھی کرتے تھے، اور اسرائیلی حملوں میں تباہ ہوجانے والے گھر بھی تعمیر کروا دیا کرتے تھے۔

    خلیل کا کہنا تھا کہ صدام حسین واحد عرب لیڈر تھے جنہوں نے عسکری بیس قائم کیا، اور گولیوں سے لے کر میزائل بنائے جن میں سے 39 میزائل اسرائیل پر فائر کیے گئے۔

    انہوں نے کہا کہ صدام کے دور میں ہزاروں اردنی نوجوانوں نے عراقی جامعات سے وظیفے پر تعلیم حاصل کی، ’صدام کے بعد عراق رفتہ رفتہ تباہ ہوگیا‘۔

    دارالحکومت عمان کے رہائشی انس نہان کہتے ہیں کہ یہاں صدام حسین اس لیے بھی مقبول ہیں کیونکہ وہ پورے عرب خطے کی ترقی چاہتے تھے۔

    انس اپنی دکان پر صدام حسین کی تصاویر سے مزین موبائل کورز فروخت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’آج اگر صدام حسین ہوتے تو بہت کچھ مختلف ہوتا، یمن اور شام پر بم نہ برسائے جارہے ہوتے، اور اسرائیل بھی اپنی حد میں رہتا‘۔

  • ’خواتین و حضرات! ہم نے انہیں دھر لیا ہے!‘

    ’خواتین و حضرات! ہم نے انہیں دھر لیا ہے!‘

    عراق میں امریکی انتظامیہ کے سربراہ پال بریمر نے ایک پریس کانفرنس میں‌ صدام حسین کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا اور اس دوران انھوں نے کہا تھا، ’خواتین و حضرات! ہم نے انہیں دھر لیا ہے۔‘

    بریمر نے اس پریس کانفرنس میں اسے عراق کی تاریخ کا ایک ’عظیم دن‘ بھی قرار دیا تھا۔

    صدام حسین کی گرفتاری کے اگلے روز 14 دسمبر 2003ء کو یہ پریس کانفرنس کی گئی تھی جس میں گرفتاری کو امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بڑی کام یابی بتایا گیا اور اس کا جشن بھی منایا گیا، لیکن بعد کے برسوں میں عراق جنگ کو بش انتظامیہ کی غلطی اور ‘منہگی مہم جوئی’ کہہ کر اس جنگ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ عراق میں امریکی افواج کے داخلے کے بعد مفرور صدام حسین کو آج ہی کے دن ان کے آبائی شہر تکریت کے ایک مقام پر تہ خانے سے گرفتار کیا گیا تھا، وہ کئی روز سے اس جگہ چھپے ہوئے تھے۔

    بعد میں صدام حسین پر عراقی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی دے دی گئی۔

    حملے کی بنیادی وجہ تو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے وہ ہتھیار تھے جس نے بالخصوص نائن الیون کے بعد عراق کو ‘سرکش ریاست’ اور اس کے سربراہ صدام حسین کو عالمی امن کے لیے ‘خطرہ’ بنا دیا تھا۔ لیکن جنگ کی آگ ٹھنڈی ہوتی چلی گئی اور ان ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔

    دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں، دانش ور اور عراق کے عوام بھی ‘سپر پاورز’ کی طرف دیکھتے رہے کہ صدام کی گرفتاری کے بعد وہ کب عراق میں خطرناک ہتھیاروں تک پہنچیں‌ گے اور انھیں ‘عالمی امن’ کی خاطر تلف کردیا جائے گا، لیکن ایسا کوئی اعلان نہیں‌ کیا گیا۔

    یادش بخیر، ایران میں اسلامی انقلاب اور امریکا مخالف اقتدار کے بعد جب صدام حسین نے سنہ 1980ء میں ایران کے ساتھ جنگ چھیڑی تھی تو کون جانتا تھا کہ یہ لڑائی آٹھ سال تک جاری رہے گی اور دس لاکھ انسان اس کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔ لیکن اس وقت یہ ضرور کہا جانے لگا تھا کہ صدام حسین کو امریکا کی خاموش حمایت حاصل ہے اور جنگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ کئی برس بعد اسی صدام حسین کو امریکا نے تخت سے اتار کر تختۂ دار پر پہنچا دیا۔

    صدر بش کی حکومت میں اس کارروائی کو دنیا نے اخلاقی طور پر درست تسلیم نہیں کیا بلکہ امریکا اور برطانیہ میں ہی اس کے خلاف زبردست مظاہرے نہیں کیے گئے بلکہ دنیا بھر میں‌ بش انتظامیہ کی زور دار مخالفت ہوئی۔ یہ بات بھی قابلِ‌ ذکر ہے کہ امریکا میں صدر بش کی صدارتی انتخابات میں کام یابی کے بعد ہی عراق میں تبدیلیٔ حکومت کی باتیں عام ہونے لگی تھیں۔

    امریکی صدر بش اور ان کے بڑے اتحادی برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی حکومت کا دعوٰی تھا کہ صدام حسین وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار حاصل کر رہے ہیں جو خطّے میں مغربی مفادات کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسی بنیاد پر 2003ء میں اتحادی فوج نے عراق پر حملہ کر دیا۔

    رواں برس مئی میں اس وقت دل چسپ صورتِ‌ حال پیدا ہوگئی جب سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش روس اور یوکرین جنگ پر گفتگو کررہے تھے کہ ان کی زبان پھسل گئی اور وہ عراق پر امریکی حملے کو ’غیر مصنفانہ، بلاجواز اور وحشیانہ حملہ‘ قرار دے بیٹھے۔ میڈیا کے مطابق وہ روانی میں کہہ گئے کہ ’یہ روس میں مؤثر احتسابی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہے اور عراق پر مکمل طور پر غیر منصفانہ، بلاجواز اور وحشیانہ حملہ کرنا ایک شخص کا فیصلہ ہے۔‘ تاہم سابق صدر کو فوراً غلطی کا احساس ہوگیا اور اپنے جملے کی تصحیح کرتے ہوئے بولے، ’میرا مطلب یوکرین تھا۔‘

    عراق میں امریکا کا یہ آپریشن 2011ء تک جاری رہا۔ اس حملے میں‌ اور بعد کے برسوں میں عراق میں جھڑپوں اور مسلح گروہوں کی کارروائیوں میں ہزاروں عام شہری قتل ہوئے۔ امریکا دنیا کو نائن الیون کی سازش میں عراق کے کردار اور اپنے ملک میں کارروائی سے اس کے تعلق پر بھی دنیا کو مطمئن نہیں کرسکا۔

    صدام حسین کی بات کی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ وہ عراق کے طویل عرصے تک مطلق العنان حکم راں رہے اور نہایت ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ صدام حسین کا غیرمصالحانہ طرزِ حکومت بھی عراق کو دنیا میں نمایاں کرتا رہا۔ جوانی میں صدام حسین بعث پارٹی سے وابستہ ہوگئے تھے اور 1956ء میں جنرل عبدالکریم قاسم کے خلاف ایک ناکام بغاوت میں بھی حصّہ لیا۔ انھوں‌ نے اپنے دورِ‌ حکومت میں ایران کے ساتھ جنگ چھیڑی اور بعد میں‌ کویت پر حملہ کیا۔

    عراق کے صدر پر عائد کردہ الزامات اور ان کے جرائم کی فہرست میں کردوں کو زہریلی گیس سے ہلاک کرنا بھی شامل تھا۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں‌ اور ملک میں‌ اپنے مخالفین پر تشدد اور انھیں موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے بھی وہ مشہور رہے۔

    دسمبر ہی میں‌ صدام حسین کو تختۂ دار پر کھینچا گیا تھا اور اس کے بعد سابق امریکی صدر جارج بش کو یہ کہنا پڑا کہ عراق حملہ غلطی تھی اور سب کچھ حقیقت پر مبنی نہیں تھا۔

    عراق میں امن وامان کی صورتِ حال اب بھی بہتر نہیں‌ ہے اور سیاسی جماعتیں کم زور اور بٹی ہوئی ہیں جب کہ انتہا پسند اور مختلف مسلح گروہ بھی مرکزی حکومت کے لیے مسئلہ بنے رہتے ہیں۔

    امریکا نے عراق پر 2003ء میں حملہ کیا تھا، مارچ کی ایک صبح بغداد پر بم باری کے بعد امریکی صدر بش نے دنیا کے سامنے عراق پر حملے کا اعلان کیا تھا۔ امریکا کو اس کارروائی پر حلیف ممالک کا دباؤ بھی تھا، جب کہ جرمنی اور فرانس نے عراق پر فوجی کارروائی کی مخالفت کی تھی۔

    عراقی صدر کی گرفتاری کے ساتھ ہی عالمی میڈیا نے دکھایا کہ عراق میں‌ مختلف مقامات پر صدام حسین کی تصاویر کو پھاڑا جارہا ہے اور عوام ان سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے ان بڑے بڑے مجسموں کو ڈھا رہے ہیں۔

    چند تصاویر میں امریکی فوجیوں کو بھی صدام حسین کے مجسمے میں ان کے چہرے پر امریکی پرچم لپیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

  • لندن میں صدام حسین کے نام کی یادگاری تختی

    لندن میں صدام حسین کے نام کی یادگاری تختی

    لندن: ایسٹ لندن میں نصب عراق کے سابق ڈکٹیٹر صدام حسین کی یادگاری تختی ہٹا دی گئی، تختی کی تنصیب پر سوشل میڈیا پرغم و غصے کا اظہارکیا جارہا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق یہ تختی ایسٹ لندن کے علاقے ویسٹیڈ کے ایک پارک کی بنچ پر گزشتہ اتوار کو نصب کی گئی تھی۔ وکٹوریہ رچرڈ نامی سوشل میڈیا صارف نے اس کی تصویر شیئر کی تو اسے بے پناہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

    سابق عراقی صدر اپریل 1937 کو پیدا ہوئے تھے اور کئی دہائیوں تک عراق پر بلا شرکت غیرے حاکم رہے۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد امریکا نے افغانستان کے بعد عراق پر بھی حملہ کیا اور صدام حسین کی حکومت برطرف کردی۔ سنہ 2006 میں انہیں انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے الزام میں سزائے موت سنا کر تختہ دار کے حوالے کردیا گیا۔ ان کا دور ظلم اوراحساسِ برتری کے خبط کے دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے اس تختی کی تنصیب پر ملے جلے جذبات کا اظہار کیا ، کچھ نے اسے مذاق قرار دیا تو کچھ کے نزدیک یہ ایک بے رحمانہ حرکت تھی۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ صدام حسین کے کسی ہم نام کی یاد میں نصب کی گئی ہے اور سال پیدائش اور سال وفات کی مماثلت محض اتفاقیہ ہے۔

    بہرحال اس تختی کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے اور اسے ہٹائے جانے کے بعد وینسٹیڈ کے رہائیشیوں کی جانب سے جو ردعمل ظاہر کیا جارہا تھا وہ بھی اب کم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ بہرحال یہ معلوم ہونا ابھی باقی ہے کہ وہ تختی پارک کی اس بنچ پر کس نے اور کیوں نصب کی تھی۔