Tag: صدر اوباما

  • ‘مجھے تم پر بے حد فخر ہے’

    ‘مجھے تم پر بے حد فخر ہے’

    واشنگٹن: امریکی صدر بارک اوباما اپنے الوداعی خطاب میں خاتون اول مشل اوباما کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے۔ انہوں نے مشل اوباما کو قوم کے نوجوانوں کے لیے بہترین مثال قرار دیا۔

    شکاگو میں امریکی صدر بارک اوباما نے وائٹ ہاؤس سے رخصتی سے قبل اپنا الوداعی خطاب کیا۔ خطاب میں وہ اپنی اہلیہ مشل اوباما اور بیٹیوں کو بہترین خراج تحسین پیش نہ کرنا بھولے۔

    خطاب کے دوران جیسے ہی انہوں نے اپنی اہلیہ کا نام لیا، ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ اس دوران صدر اوباما آبدیدہ ہوگئے اور انہیں اپنے جذبات پر قابو پانے میں کافی وقت لگ گیا۔

    obama-5

    انہوں نے مشل اوباما کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مشل گزشتہ 25 سالوں سے نہ صرف میری اہلیہ اور بچوں کی ماں بلکہ میری بہترین دوست ثابت ہوئیں۔

    انہوں نے کہا، ’تم نے خود سے وہ ذمہ داری اٹھائی جو کسی نے تم پر عائد نہیں کی۔ تم نے خود اس کردار کا تعین کیا اور باوقار طریقے سے اسے نبھایا‘۔

    obama-4

    صدر اوباما نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ’تم نے وائٹ ہاؤس کو ایسی جگہ بنا دیا جو سب کے لیے تھی۔ تم نے خاتون اول کے عہدے کے لیے ایک اعلیٰ معیار قائم کردیا اور تم اس کی بہترین مثال بن گئیں‘۔

    امریکی صدر نے کہا، ’مجھے تم پر فخر ہے۔ پورے امریکا کو تم پر فخر ہے‘۔

    یاد رہے کہ گزشتہ 8 سال سے مشل اوباما اپنے سادہ و باوقار انداز کی وجہ سے امریکیوں کی پسندیدہ ترین شخصیت بن چکی تھیں۔ صدر اوباما کے دور صدارت کے دوران وہ خود بھی خاصی سرگرم رہیں۔

    امریکی خاتون اول نے ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاص طور پر کام کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ’لیٹ گرلز لرن‘ نامی منصوبے کا آغاز کیا۔

    اس منصوبے کے تحت پاکستان، افغانستان، اردن اور کئی افریقی ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکولوں کی تعمیر اور دیگر تعلیمی منصوبوں کا آغاز کیا گیا۔ ان منصوبوں کے لیے امریکی بجٹ کی ایک خطیر رقم مختص کی گئی۔

    مشل اوباما نے ہالی ووڈ اداکارہ میرل اسٹریپ اور بالی ووڈ اداکارہ فریدہ پنٹو کے ہمراہ لائبیریا اور مراکش میں بھی تعلیمی منصوبوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے شعور و آگاہی کی مہم چلائی۔

    michelle-2

    مشل اوباما کی سربراہی میں چلنے والا ایک اور منصوبہ ’مائی برادرز کیپر‘ ہے۔ اس کے تحت امریکا میں آباد سیاہ فام نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور ان کی استعداد میں اضافہ کے لیے کام کیا گیا تاکہ وہ اپنی کمیونٹی اور امریکی معاشرے کی ترقی میں مثبت کردار ادا کر سکیں۔

    مشل اوباما اپنی ہر تقریر میں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے، انہیں محنت کرنے، آگے بڑھنے اور وقت ضائع کرنے والے فیشن ٹرینڈز کے پیچھے نہ بھاگنے کی تلقین کرتی رہیں۔

    ایک بار ایک تقریب میں وہ امریکی لڑکیوں کو لڑکوں سے دور رہنے اور اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز رکھنے کی ہدایت بھی کر چکی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا، ’اس عمر میں کوئی لڑکا اس قابل نہیں جو آپ کو آپ کی تعلیم سے بھٹکا دے۔ اگر آپ کی عمر میں، میں اس بارے میں سوچتی تو میری شادی امریکی صدر سے نہ ہوئی ہوتی‘۔

  • نو دریافت شدہ مچھلی کا نام اوباما رکھ دیا گیا

    نو دریافت شدہ مچھلی کا نام اوباما رکھ دیا گیا

    امریکا میں ایک نو دریافت شدہ نایاب مچھلی کا نام امریکی صدر کے نام پر اوباما رکھ دیا گیا۔ یہ قدم صدر اوباما کے بحر الکاہل کی آبی حیات کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

    اوباما نامی یہ مچھلی رواں برس جون میں امریکی ریاست ہوائی کے سمندر میں تقریباً 90 میٹر گہرائی سے دریافت کی گئی۔

    سنہرے اور سرخ رنگوں والی اس چھوٹی سی مچھلی کو صدر اوباما نے بے حد پسند کیا اور اس کو اپنے نام سے منسوب کرنے پر خوشی کا اظہار کیا۔

    obama-3

    صدر اوباما اس سے قبل بحر الکاہل پر بنائی گئی آبی حیات کی پناہ گاہ کو وسیع کرنے کے منصوبے کی منظوری بھی دے چکے ہیں جس کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی آبی پناہ گاہ بن جائے گی۔ یہاں 7000 آبی جاندار رکھے گئے ہیں جن میں معدومی کے خطرے کا شکار ہوائی کی مونگ سگ ماہی اور سیاہ مونگے شامل ہیں۔

    کچھ عرصہ قبل صدر اوباما نے اس پناہ گاہ کا دورہ بھی کیا تھا۔ اوباما کا یہ دورہ ان کے 8 سالہ صدارتی عہد کے دوران ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تغیرات سے بچاؤ کے اقدامات کو سیاسی ایجنڈے میں سرفہرست رکھنے کی ایک کڑی ہے۔

    obama-4

    وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے والے امریکا کے پہلے صدر ہیں۔

    مزید پڑھیں: امریکا میں نو دریافت شدہ کیڑا صدر اوباما سے منسوب

    اس سے قبل بھی صدر اوباما کے ماحول دوست اقدامات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے کئی نو دریافت شدہ جانداروں کو ان سے منسوب کیا گیا ہے۔ سائنس دانوں نے ایک مکڑی، 3 مچھلیوں، ایک بیکٹیریا، 2 کیڑوں اور ایک پرندے کی نایاب قسم کا نام بھی اوباما رکھا تھا۔

  • ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    واشنگٹن: امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلد ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر اوباما کے دور میں کیے گئے بیشتر معاہدوں کو منسوخ اور پالیسیوں کو تبدیل کردیں گے جس سے دنیا بھر میں تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی ہے۔

    اگر وہ حقیقتاً اپنی اس بات پر عمل کر بیٹھے تو دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

    یہ معاہدہ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی عالمی کانفرنس میں طے پایا تھا۔ اس تاریخی معاہدے پر 195 ممالک نے دستخط کیے تھے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    امریکا بھی اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک میں شامل ہے تاہم ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب اس معاہدے پر تشویش کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کوئی بھی ایک ملک یہ معاہدہ ختم تو نہیں کر سکتا لیکن اگر امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوجاتا ہے اور صدر اوباما کے داخلی سطح پر کیے گئے اقدامات کو روک دیا جاتا ہے تو دنیا بھر میں کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

    خیال رہے کہ امریکا اس وقت کاربن سمیت دیگر نقصان دہ (گرین ہاؤس) گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    فرانس کی وزیر ماحولیات اور گزشتہ ماحولیاتی کانفرنس کی سربراہ سیگولین رائل کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اچانک اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ معاہدے کی شق کے مطابق 3 سال سے قبل کوئی ملک معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں اگر کوئی ملک پیچھے ہٹنا بھی چاہے تو اسے کم از کم ایک سال قبل باقاعدہ طور پر اس سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ’گویا ہمارے پاس ابھی 4 سال کا وقت ہے‘۔

    لیکن انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جس معاہدے کو تیار کرنے اور پوری دنیا کو ایک صفحہ پر لانے میں 20 سال سے زائد کا عرصہ لگا، امریکا اس معاہدے سے بآسانی دستبردار ہوجائے گا‘۔

    واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس شکست خوردہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کلائمٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی نقصانات سے بچاؤ کے لیے اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ تھیں۔

    ٹرمپ ۔ ماحول دشمن صدر؟

    لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ انہوں نے امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے یعنی اب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے۔

    trump-2

    یہی نہیں وہ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

    :صدر اوباما ۔ ماحول دوست صدر

    اس سے قبل صدر اوباما نے داخلی سطح پر کئی ماحول دوست منصوبے شروع کر رکھے تھے جن کے لیے ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ انہیں ختم کردیں گے۔

    مزید پڑھیں: صدر اوباما کی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوششیں

    صدر اوباما نے کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانے کی منظوری دی تھی تاہم اس کے لیے انہوں نے ایوان نمائندگان میں موجود ری پبلکن اراکین سے کئی بحث و مباحثے کیے تھے۔

    obama-3

    ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح دیگر ری پبلکن بھی صرف دہشت گردی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ کلائمٹ چینج ان کے نزدیک غیر اہم مسئلہ ہے۔

    صدر اوباما کی انسداد ماحولیاتی تبدیلی کی حکمت عملی میں ماہرین نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ کلائمٹ چینج فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے باعث قدرتی آفات میں ہونے والا اضافہ ہمیں اس بات پر مجبور کرے گا کہ ایمرجنسی اقدامات کے شعبوں میں بجٹ کا بڑا حصہ صرف کیا جائے۔

    obama-2

    ماہرین کے مطابق امریکا کے علاوہ بھی دنیا بھر میں قحط اور سیلاب کے باعث امن و امان کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور امن و امان کی خراب صورتحال لوگوں کو ان کے گھر چھوڑنے پر مجبور کردے گی جس کے بعد دنیا کو پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے مسائل کی میزبانی کرنی ہوگی۔

    مزید پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی جنگوں کی وجہ بن سکتی ہے

    امریکا کے نئے صدر ٹرمپ ایک ماحول دشمن صدر ثابت ہوں گے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحول اور زمین کا احساس کرنے والے افراد کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

  • وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    دنیا میں خواتین کی آبادی لگ بھگ مردوں کے برابر ہو چکی ہے، اس کے باوجود آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کو صنفی تفریق کا سامنا ہے۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ عدم مساوات خواتین کے خلاف بڑے بڑے سنگین جرائم کا سبب ہے اور انہیں روکنے میں حکومتیں اور عدالتیں بھی ناکام ہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پائی جاتی ہے۔ یہاں خواتین کو جان کا تحفظ تو حاصل ہے لیکن عملی میدان میں انہیں وہ مواقع حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہیں یا یوں کہہ لیں کہ مردوں کے مقابلے میں انہیں کم باصلاحیت خیال کیا جاتا ہے۔

    ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر دفاتر میں مختلف چیلنجنگ ٹاسک کے لیے پہلے مرد ملازمین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ خواتین کی باری اس وقت آتی ہے جب کم از کم 2 سے 3 مرد ملازمین اس کام کو کرنے سے انکار کرچکے ہوں۔

    اسی طرح دفاتر میں خواتین کے آئیڈیاز اور تجاویز کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر بعض مرد ملازمین ان کی تجاویز کو اپنی طرف سے پیش کر کے مالکان سے داد وصول کرلیتے ہیں اور اس آئیڈیے کی خالق خاتون حیران پریشان رہ جاتی ہے۔

    یہی نہیں اکثر شعبوں میں خواتین تنخواہوں اور دیگر سہولیات کے معاملے میں بھی مردوں کی ہم صلاحیت ہونے کے باوجود ان سے پیچھے ہیں۔

    اقوام متحدہ خواتین (یو این وومین) مختلف حکومتوں پر زور دے رہی ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ مہم ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن کی سربراہی میں چلائی جارہی ہے۔

    کام کرنے کی جگہوں پر خواتین مساوات کیسے حاصل کرسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خواتین ہی ایک دوسرے کو ان کے حقوق دلا سکتی ہیں۔ اگر دفاتر میں کسی خاتون کے ساتھ صنفی تفریق کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو خواتین ایک دوسرے کی حمایت کرکے اور آپس میں متحد ہو کر اس رویے کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فرانس کی خاتون وزرا کا شوقین مزاج مرد سیاست دانوں کے خلاف محاذ

    تاہم اس کی ایک عمدہ مثال وائٹ ہاؤس میں دیکھنے میں آئی۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکا جیسے ملک میں بھی صںفی تفریق پائی جاتی ہے جہاں اس کا تصور بھی محال لگتا ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکی صدارتی محل یعنی وائٹ ہاؤس تک میں خواتین ملازمین صنفی تفریق کا شکار ہیں۔

    وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک خاتون جولیٹ ایلپرن نے ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وہاں موجود خواتین نے صنفی تفریق کا مقابلہ کیا۔ ان کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    وہ بتاتی ہیں، ’وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک تہائی سے زائد عملہ مردوں پر مشتمل تھا۔ خواتین جب میٹنگز میں اپنی تجاویز پیش کرتیں تو انہیں نظر انداز کردیا جاتا۔ وہ جب بات کرنے کی کوشش کرتیں تو ان کی بات کو کاٹ دیا جاتا۔ اکثر اوقات خواتین کی جانب سے پیش کیے گئے آئیڈیاز کو نظر انداز کردیا گیا اور تھوڑی دیر بعد کسی مرد نے انہیں اپنا آئیڈیا بنا کر پیش کردیا جس کے بعد میٹنگ روم تالیوں سے گونج اٹھتا‘۔

    جولیٹ کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وائٹ ہاؤس کی تمام خواتین نے ایک حکمت عملی ترتیب دی اور اس پر عمل کرنا شروع کیا۔ میٹنگ میں جب کوئی خاتون کوئی مشورہ یا تجویز پیش کرتیں تو دیگر تمام خواتین اپنی باری پر اس نکتہ کو بار بار دہراتیں اور اس خاتون کا نام لیتیں جنہوں نے یہ نکتہ پیش کیا ہوتا۔

    اس سے میٹنگ میں موجود مرد عہدیداران نے مجبوراً ان کی بات پر توجہ دینی شروع کردی۔ خواتین کی اس حکمت عملی سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ مردوں نے ان کے آئیڈیاز کو چرا کر انہیں اپنے نام سے پیش کرنا چھوڑ دیا۔

    جولیٹ کا کہنا تھا، ’آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں۔ اس صورتحال کو صدر اوباما نے بھی محسوس کرلیا اور وہ مرد عہدیداران کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ اہمیت دینے لگے‘۔

    خیال رہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق صدر باراک اوباما وہ پہلے صدر ہیں جو صنفی مساوات کے قائل ہیں۔ ان کی انتظامیہ کو امریکی تاریخ کی سب سے متنوع انتظامیہ کہا جاتا ہے جس میں خواتین اور سیاہ فام افراد شامل ہیں اور یہ افراد اعلیٰ عہدوں پر بھی تعینات ہیں۔

     مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    جولیٹ بتاتی ہیں کہ جب صدر اوباما کا دوسرا دور صدارت شروع ہوا تو خواتین کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دی جانے لگی اور میٹنگز کے دوران مرد و خواتین دونوں کو بولنے کا یکساں وقت دیا جانے لگا۔

    جولیٹ کے مطابق یہ تکنیک ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اپنی شناخت منوانے کے لیے خواتین کو خود متحد ہونا پڑے گا اور جب تک وہ آپس میں متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گی، تب تک ہمیں اکیسویں صدی میں بھی صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑے گا۔

  • امریکا میں نو دریافت شدہ کیڑا صدر اوباما سے منسوب

    امریکا میں نو دریافت شدہ کیڑا صدر اوباما سے منسوب

    میامی: امریکی سائنس دانوں نے ایک نئے دریافت شدہ کیڑے کو امریکی صدر بارک اوباما کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان کے نام سے منسوب کردیا۔

    کیچوے کی شکل کا یہ چپٹا کیڑا ملائیشیا میں پایا گیا اور کچھوؤں میں مختلف اقسام کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ بہت کم پایا جاتا ہے۔ اس کا نام امریکی صدر بارک اوباما کے نام پر کوائنڈ بارکٹریما اوبامئی رکھا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: کئی عشروں بعد نئی اینٹی بائیوٹک دریافت

    یہ دریافت امریکی ریاست انڈیانا کے سینٹ میری کالج میں پروفیسر تھامس پلیٹ کی جانب سے کی گئی۔ وہ ایک طویل عرصہ سے کچھوؤں کی مختلف بیماریوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ کیڑا اپنے میزبان کے جسم پر حملہ آور ہونے تک سخت جدوجہد کرتا ہے جبکہ اسے شکار کے مدافعتی نظام کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا بھی ہوتا ہے۔

    obama

    ان کے مطابق وہ اس سے قبل بھی کئی دریافتوں کا نام ان لوگوں کے نام پر رکھ چکے ہیں جنہوں نے انہیں متاثر کیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ دریافت انسانوں میں پھیلنے والی بیماری سسٹوسومائسس کے علاج کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی جو کچھوؤں اور گھونگے وغیرہ جیسے جانداروں سے تعلق کے باعث ہوتی ہے۔

    مزید پڑھیں: انسان کو جرم پر اکسانے والا جین دریافت

    نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے کی جانے والی یہ تحقیق کچھوؤں کی افزائش میں اضافہ کے لیے بھی معاون ثابت ہوگی جنہیں غیر قانونی تجارت اور رہائش گاہوں میں کمی کے باعث معدومی کا خدشہ لاحق ہے۔

    کچھوے کی غیر قانونی تجارت پر پڑھیئے تفصیلی رپورٹ

  • کوشش ہےدہشتگردایٹمی مراکزتک نہ پہنچیں،امریکی صدرباراک اوباما

    کوشش ہےدہشتگردایٹمی مراکزتک نہ پہنچیں،امریکی صدرباراک اوباما

    واشننگٹن: امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ جوہری تنصیبات کادفاع موثر بنانا پہلی ترجیح ہے، ایٹمی ہتھیاروں کولاحق خطرات ابھی بھی باقی ہیں۔

    امریکہ میں جاری جوہری کانفرنس میں پچاس ممالک کےسربراہان اورمندوبین شریک ہیں، کانفرنس سے خطاب میں امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ رنگ نسل سے بالاتر ہوکر دہشتگردی کیخلاف متحدہوناہوگا کیونکہ ایٹمی ہتھیاروں کولاحق خطرات ابھی بھی باقی ہیں،کوشش ہےدہشتگردایٹمی مراکزتک نہ پہنچیں۔

    امریکی صدرکا کہنا تھا کہ ملکرکام کرنےسےجوہری موادتک دہشتگردوں کی رسائی ناممکن ہوئی، انکا کہنا تھا کہ امریکہ نے جوہری سلامتی کے لیے اہم پیش رفت کی ہے۔

    صدراوباما نے بتایا کہ جوہری موادکی حفاظت کےکنونشن کی ایک سو دو ممالک نےتوثیق کردی ہے۔

  • صدر اوباما کا گن سیفٹی کنٹرول پر نئی حکمت عملی کا اعلان

    صدر اوباما کا گن سیفٹی کنٹرول پر نئی حکمت عملی کا اعلان

    واشنگٹن : امریکی صدر براک اوباما نے کانگریس کی مخالفت کے باوجود خصوصی اختیارات کے تحت اسلحے کی فروخت کے حوالے سے نئے قوانین کا اعلان کر دیا ہے۔

    امریکا میں معصوم بچوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے صدر اوباما کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ امریکا میں بڑھتے ہوئے شدت پسندی کے واقعات کے سد باب کیلئے امریکی صدر براک اوباما نے اسلحے کے غیر قانونی استعمال کو روکنے کے سلسلے میں صدارتی حکم نامے کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت اسلحہ خریدنے والوں کی زیادہ جانچ پڑتال کی جاسکے گی۔

    صدر اوباما کے مطابق اسلحہ فروخت کرنے والوں کے پاس لائسنس ہونا چاہئیے جبکہ خریداروں کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی جس کیلئے ایف بی آئی میں اضافی اہلکار بھرتی کئے جائیں گے۔

    نئے قوانین کے تحت وزارت دفاع، انصاف اور ہوم لینڈ سیکورٹی سمارٹ گن ٹیکنالوجی میں اسلحے کی سیفٹی میں اضافے کے طریقے تلاش کریں گے تاکہ بچے اسلحے کا استعمال نہ کر سکیں۔

    اپنے خطاب کے دوران امریکا میں بچوں کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے صدر اوباما کی آنکھیں بھی بھر آئیں جبکہ دہشت گردی کے دیگر واقعات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے تمام مذاہب کو امریکا میں آزادی اورحفاظت کے ساتھ عبادت کی اجازت کا حق بھی یاد دلایا۔

    صدر اوباما کے مطابق نئے قوانین میں کانگریس سے ذہنی صحت کی دیکھ بھال کیلئے پچاس کروڑ امریکی ڈالر کی منظوری کا بھی کہا جائے گا ۔

    دوسری جانب ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں شامل ٹیڈ کروز اور مارکو روبیو نے صدر اوباما کی اقدامات کی شدید مخالفت کی ہے۔

    اسلحے کے خریدو فروخت کے حوالے سے صدر اوباما کے نئے اعلانات پر امریکا بھر کے اسلحہ ڈیلر شدید غم و غصے کا شکار ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اسلحہ رکھنا ہر امریکی کا قانونی حق ہے۔

  • ایران سے جوہری معاہدہ امریکی مفاد میں ہوگا، صدر اوباما

    ایران سے جوہری معاہدہ امریکی مفاد میں ہوگا، صدر اوباما

    واشنگٹن: امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ایران سے جوہری معاہدہ امریکی مفاد میں ہوگا،وہ اپنے نام پر کوئی برا معاہدہ نہیں کر سکتے۔

     جمعہ کو واشنگٹن کے ایک سنے گاگ میں گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کے صدر نے کہا کہ ایران کے ساتھ مجوزہ جوہری معاہدے پر ان کے دستخط ہوں گے،وہ چاہتے ہیں کہ یہ ایک اچھا معاہدہ ہو ،کوئی نہیں چاہے گا کہ اس کے نام سے کوئی برا معاہدہ منسوب ہو۔

    امریکہ صدر نے کہا کہ وہ ایران سے معاہدے کی ضمانت نہیں دے سکتے اور ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کو روکنے کی پوری کوشش کی جائے گی۔

    انہوں نے کہا کہ ایران سے جوہری معاہدے کے معاملے پر امریکہ میں یہودی خاصے ناراض ہیں اور اسے اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دے رہے ہیں۔

  • صدر اوباما نے نئی امریکی سیکورٹی پالیسی کا اعلان کردیا

    صدر اوباما نے نئی امریکی سیکورٹی پالیسی کا اعلان کردیا

    واشنگٹن :امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ افغانستان میں استحکام اور جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کیلئے پاکستان کیساتھ ملکر کام کرتے رہیں گے۔

    کانگریس میں نئی سیکیورٹی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے صدربراک اوباما کا کہنا تھا کہ افغانستان میں استحکام ، دہشت گردی کے خاتمے اور جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کیلئے پاکستان کیساتھ ملکر کام کرتے رہیں گے، بھارت اورپاکستان دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ۔

    صدر اوباما نے نئی سیکورٹی پالیسی میں ڈرون حملے جاری رکھنے کا اشارہ دیتے ہوئے امریکا کی اسلام مخالف جنگ کے تاثر کی نفی کی۔

    دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اوربھارت امریکا کے اسٹریٹجک مفادات کے لئے اہم ہیں، دونوں ملکوں کے ساتھ دفاعی مفادات وابستہ ہیں۔

     ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے میڈٰیا سے گفتگو میں کہا کہ بھارت کے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے چاہئیں۔

  • اوباما انتظامیہ کیلئے 2014 مشکل سال

    اوباما انتظامیہ کیلئے 2014 مشکل سال

    واشنگٹن: آنے والا نیا سال صدر اوباما کیلئے کئی سیاسی ، اقتصادی اور سیکورٹی چیلنجز لے کر آرہا ہے جبکہ 2014 بھی اوباما انتظامیہ کیلئے کافی مشکل سال رہا ۔

    اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 2014 اوباما انتظامیہ کیلئے مشکل سال تھا، وسط مدتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کو شکست، ری پبلکنز کادونوں ایوانوں پر غلبہ، داعش کا ایک مضبوط اور منظم دہشت گرد تنظیم کے طور پر اُبھرنا اور افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ۔ تاہم ان سب واقعات کے باوجود صدر اوباما کا رویہ جارحانہ رہا۔

    شدید سیاسی مخالفت کے باوجود امریکی صدر نے رواں برس امیگریشن اصلاحات کا اعلان کیا، جس سے امریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم قریب پچاس لاکھ افراد ملک بدری سے بچ سکیں گے، صدر اوباما نے امریکہ اور کیوبا کے پانچ دہائیوں کی سرد مہری کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔

    امریکی صدر نے فیکٹریوں سے نکلنے والے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے لئے قانون پر بھی دستخط کئے، رواں سال امریکی صدر براک اوباما افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء اور گوانتاناموبے کے قید خانے کو بند کرنے کے لئے پُر عزم نظر آئے جبکہ سونی پکچرز پر ہیکرز کے حملے پر بھی صدر اوباما نے جارحانہ انداز اپنائے رکھا۔

    صدر اوباما ہمیشہ سے ہی امریکہ میں مقیم سیاہ فام کمیونٹی کے نمائندے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں لیکن ان کے ہی دور اقتدار میں کئی نہتے سیاہ فام نوجوانوں کو سفید فام پولیس اہلکاروں نے قتل کیا، جس پر امریکہ بھر میں شدید مظاہرے بھی ہوئے لیکن کسی پولیس اہلکار کو سزا نہیں دی گئی۔

    سیاہ فام کمیونٹی سال 2014 میں براک اوباما کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر ملے جلے ردِعمل کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔

    امریکہ میں آنے والا نیا سال صدر اوباما کیلئے کئی چیلنجز لے کر آرہا ہے جس میں ملک میں نئے ٹیکس عائد کرنے کے ساتھ ساتھ نئی تجارتی پالیسی بھی شامل ہے۔

    امید کی جارہی ہے کہ نئے سال میں وائٹ ہاؤس اقتصادی تبدیلیوں پر زور دے گا، جس کا مقصد مڈل کلاس افراد کی زندگیوں میں بڑی تبدیلی لانا ہے۔