Tag: صدر مملکت

  • یوم عاشور شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے: صدر پاکستان

    یوم عاشور شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے: صدر پاکستان

    اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا کہنا ہے کہ یوم عاشور ہمیں شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ آج کے دن ہمیں اسوہ حسینی کو یاد رکھنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یوم عاشور کے موقع پر قوم کے نام پیغام میں کہا کہ یوم عاشور ہمیں شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اعلیٰ مقاصد، استقامت اور حق کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے۔ واقعہ کربلا ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔

    صدر مملکت نے مزید کہا کہ حق و باطل کی لڑائی اس دور میں بھی جاری ہے، ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دینے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔

    یاد رہے کہ آج دنیا بھر میں نواسہ رسول ﷺ حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہل و عیال کی المناک شہادت کی یاد منائی جارہی ہے۔ ملک بھر میں مجالس و ماتمی محافل برپا کی جارہی ہیں جن کے لیے سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں۔

  • ڈاکٹر عارف علوی کی 30 گاڑیوں کے ہمراہ مزار قائد پر حاضری

    ڈاکٹر عارف علوی کی 30 گاڑیوں کے ہمراہ مزار قائد پر حاضری

    کراچی : صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے مزار قائد پر حاضری کے دوران دو درجن سے زائد گاڑیوں کا پروٹوکول لے کر وزیر اعظم عمران خان کے پروٹوکول نہ لینے کے دعوؤں کی دھجیاں اڑا دیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کی کراچی آمد کے موقع پر شہریوں کو سڑکوں کی بندش کا سامنا کرنا پڑگیا، ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم عمران خان کے پروٹوکول نہ لینے کے دعوؤں کی دھجیاں اڑا دی۔

    صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی حلف برداری کے بعد آج کراچی کا باقاعدہ دورہ کررہے ہیں، انہوں نے مزار قائد پر حاضری دی ، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی بھی کی، لیکن مزار قائد پر حاضری کے دوران بھی اطراف کی سڑکیں بن رہی۔

    قائد اعظم کے مزار کے موقع پر ان کے ہمراہ اگورنر سندھ عمران اسمعٰیل اور سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی بھی موجود ہے، ان کے علاوہ بھی شہر کی کئی معزز شخصیات نے صدرِ مملکت کے ہمراہ مزار قائد پر حاضری دی۔

    دورہ کراچی کے موقع پر صدر مملکت کے قافلے میں30 کے قریب گاڑیاں پروٹوکول میں شامل تھیں۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو  میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر عارف علوی کراچی کے عالمی ہوائی اڈے سے دو درجن سے زائد گاڑیوں کے پروٹوکول میں اپنے گھر جارہے ہیں جبکہ آج صبح مزار قائد پر حاضری کے موقع پر صدر مملکت کے ہمراہ بھاری پروٹوکول تھا اور اطراف کی سڑکیں بھی بند تھیں۔

    اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 13 ویں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے پروٹوکول لیے جانے پر شہریوں کی تنقید کا جواب سماجی رابطے کی ویب سایٹ ٹویٹر پر دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے حکام کو بھاری پروٹوکول دینے سے منع کیا تھا تاہم انہوں نے میری بات نہ مانی‘۔

  • صدرِمملکت عارف علوی کی مزارقائد پرحاضری

    صدرِمملکت عارف علوی کی مزارقائد پرحاضری

    کراچی : صدر ِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آج کراچی میں مزار قائد پر حاضری دی اور پھول چڑھائے، صدر بننے کے بعد یہ ان کا پہلا دورہ کراچی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی حلف برداری کے بعد آج کراچی کا باقاعدہ دورہ کررہے ہیں ، انہوں نے مزار قائد پر حاضری دی ، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی بھی کی۔

    قائد اعظم کے مزار کے موقع پر ان کے ہمراہ اگورنر سندھ عمران اسمعٰیل اور سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی بھی موجود ہے، ان کے علاوہ بھی شہر کی کئی معزز شخصیات نے صدرِ مملکت کے ہمراہ مزار قائد پر حاضری دی۔

    اس موقع پر صدرِ مملکت نے حسبِ روایت مہمانوں کے تاثرات کی کتاب میں بحیثیت صدرِ مملکت اپنے تاثرات درج کیے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ رات صدر مملکت عارف علوی نے وزیر اعظم عمران خان کے وژن پر عمل کرتے ہوئے ان کی کفایت شعاری اور سادگی مہم کی مثال قائم کردی، عارف علوی عوامی انداز اپناتے ہوئے بغیر پروٹوکول کے عام طیارے میں کراچی پہنچے تھے ۔

    صدر پاکستان اپنا سامان بھی خود اٹھا کر لے لائے اور سامان اے ایس ایف کی اسکیننگ مشین پر خود اسکین کروایا، عارف علوی نے مسافروں کی لائن میں لگ کر اپنا بورڈنگ پاس بھی خود وصول کیا تھا ۔

    عارف علوی چار ستمبر کو ہونے والے صدارتی الیکشن میں مولانا فضل الرحمن اوراعتزاز احسن کو شکست دے کر پاکستان کے تیرہویں صدر منتخب ہوئے تھے ،  انہوں نے 352 الیکٹورل ووٹ حاصل کیے تھے۔

  • صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

    صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی کل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

    اسلام آباد : صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے، وہ  مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے ملک کے نویں صدر ہوں گے۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے اپنا پہلا خطاب کریں گے، جس کے ساتھ ہی نئے پارلیمانی سال کا آغاز ہو جائے گا، صدر مملکت پارلیمنٹ کو گائیڈ لائن دیں گے۔

    عارف علوی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے والے نوویں صدر ہوں گے۔

    اُن سے قبل آٹھ سابق صدور ستائیس مرتبہ خطاب کر چکے ہیں، آصف زرداری اب تک واحد صدر ہیں، جنہیں سب سے زیادہ چھ مرتبہ مشترکہ اجلاس سے خطاب کا اعزازحاصل ہے۔

    ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان نے پانچ پانچ بار، ممنون حسین اور فاروق لغاری نے تین تین مرتبہ ، رفیق تارڑ نے دو جبکہ پرویز مشرف اوروسیم سجاد نے ایک ایک مرتبہ مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔

    مزید پڑھیں :ڈاکٹرعارف علوی نےصدرپاکستان کےعہدے کا حلف اٹھا لیا

    تئیس مارچ انیس سو پچاسی کو اُس وقت کے صدر ضیاء الحق نے پہلی بار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا۔

    یاد رہے 9 ستمبر کو صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی نے ملک کے 13 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تھا۔ ایوان صدر میں تقریب حلف برداری میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے صدرڈاکٹرعارف علوی سے حلف لیا تھا۔

    صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہیں، وہ پہلی بار 2013 کے انتخابات میں کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

  • کون ہوگا ایوانِ صدر کا اگلا مکین؟

    کون ہوگا ایوانِ صدر کا اگلا مکین؟

    پاکستان میں کل صدارتی انتخابات کا انعقاد ہوگا جس کے لیے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں رائے شماری ہوگی، صدر کے عہدے کے لیے پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن، تحریک انصاف کے عارف علوی اور متحدہ اپوزیشن کے امید وارمولانا فضل الرحمان میدان میں ہیں۔

    صدر پاکستان، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سربراہ ہوتا ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق صدر کو ماضی میں قومی اسمبلی کوتحلیل کرنے( سپریم کورٹ کی منظوری سے مشروط)، نئے اتخابات کروانے اور وزیر اعظم کو معطل کرنے جیسے اختیارات دئے گئے ۔ ان اختیارات کو فوجی بغاوتوں اور حکومتوں کے بدلنے پر با رہا مواقع پر تبدیل اور بحال کیا گیا۔ لیکن 2010ء کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعہ پاکستان کو نیم صدراتی نظام سے دوبارہ پارلیمانی نظام، جمہوری ریاست کی جانب پلٹا گیا۔اس ترمیم کے تحت صدر کے اختیارات میں واضح کمی کی گئی اور اسے صرف رسمی حکومتی محفلوں تک محدود کیا گیا جبکہ وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا۔

    سنہ 1956ء میں گورنر جنرل کی جگہ صدرِ مملکت کے عہدے کا قیام عمل میں آیا ، تب سے اب تک اس عہدے پر 13 صدور فائز ہوچکے ہیں جبکہ مختصر عرصے کے لیے دو افراد نگران صدر بھی رہے ہیں۔ 1956 کے آئین میں جب اس عہدے کو تخلیق کیا گیا تو اسکندر مرزا ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ صدر کا عہدہ پانچ سال پر مبنی ہوتا ہے۔ صدر کے عہدے کی میعاد ختم ہونے پر یا ان کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینٹ یہ عہدہ سنبھالتا ہے۔

    آئیے دیکھتے ہیں کون سی شخصیت کتنے عرصے کے لیے ایوانِ صدر کی مکین رہی ہیں۔

    اسکندر مرزا


    پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا تھے ، ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا اور انہوں نے 23 مارچ 1956 کو صدرِ مملکت کا عہدہ سنبھالا ، اور 27 اکتوبر 1958 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ اس سے قبل ملک میں صدر ِمملکت کا عہد ہ موجود نہیں تھا بلکہ گورنر جنرل ان اختیارات کا حامل ہوا کرتا تھا۔

    ایوب خان


    فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے27اکتوبرسنہ 1958ء نے سویلین حکومت کو برطرف کرکے پاکستان کی قیادت سنبھالی۔ وہ 25 مارچ 1969 تک ملک کے صدرمملکت کے عہدے پر فائز رہے ، اس دوران سنہ 1962 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی ، سنہ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستانی فوج کی قیادت بھی کی۔

    یحییٰ خان


    جنرل یحییٰ خان نے اپوزیشن کے پرزور احتجاج کے بعد مستعفی ہونے والے صدر ایوب کی جگہ 25 مارچ 1969 کو اقتدار سنبھالا ، ان کا دور سیاسی ابتلا اور کشمکش کا دور تھا ، انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب میں کشمکش جاری تھی ، سقوط ڈھاکہ کے چار دن بعد یعنی 20 دسمبر 1971 میں جنرل یحییٰ نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔

    ذوالفقارعلی بھٹو


    پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی رہنما ذوالفقار علی بھٹو نے 20 دسمبر 1971 کو منصبِ صدارت سنبھالا اور وہ 13 اگست 1973 تک اس عہدے پر فائز رہے، انہی کے دور میں پاکستان کا تیسر ا اورمتفقہ آئین تشکیل دیا گیا جس میں صدر کے بجائے وزیراعظم کے عہدے کو قوت دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صدارت سے استعفیٰ دے کر وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تھا۔

    فضل الہیٰ چودھری


    فضل الہیٰ چودھری کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا اور وہ 14 ا گست 1973 سے لے کر 16 ستمبر 1978 تک صدر کے عہدے پر فائز رہے، ان کے دور میں صدرِ مملکت کا اختیار انتہائی محدود تھا۔

    جنرل ضیا الحق


    سنہ 1977 میں فوجی حکومت کے قیام کےبعد 16 ستمبر 1978 کو فوجی حکمران جنرل ضیا الحق نے صدرِ مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا، وہ 17 اگست 1988 تک تاحیات اس عہدے پر فائز رہے ، ان کے دور میں طاقت کا تمام تر مرکز صدر مملکت کی ذات تھی۔

    غلام اسحاق خان


    چیئرمین سینٹ غلام اسحاق خان نے 17 اگست 1988 کوفضائی حادثے میں جنرل ضیا الحق کے جاں بحق ہونے کے بعد ہنگامی حالات میں صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھایا ، وہ دسمبر 1988 تک بیک وقت چیئرمین سینٹ اور صدرِمملکت کی ذمہ داری نبھاتے رہے ، اور دسمبر 1988 میں چیئرمین سینٹ کا عہدہ چھوڑ کر18 جولائی 1993 تک صدر کے عہدے پر فائز رہے۔

    فاروق لغاری


    پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق لغاری نے 14 نومبر 1993 میں صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا اور 2 دسمبر سنہ 1997 تک اس عہدے پر فائز رہے ، اس دوران انہوں نے کرپشن کے الزامات کے سبب اپنی ہی پارٹی کی حکومت برطرف کردی۔

    محمد رفیق تارڑ


    پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے محمد رفیق تارڑ نے 1 جنوری 1998 میں عہدہ سنبھالا اور 20 جون 2001 تک اس عہدے پر فائز رہے ، ان کی صدارت کے دوران جنرل پرویز مشرف نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف ایمرجنسی کا نفاذ کردیا۔

    جنرل پرویز مشرف


    جنرل پرویز مشرف ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے تھے ، 20 جون 2001 کو رفیق تارڑ کے استعفے کے بعد انہوں صدر مملکت کے عہدے کا حلف اٹھا یا اور بعد ازاں اپنے عہدے کو قانونی بنانے کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد بھی کرایا۔ پرویز مشرف 18 اگست 2008 تک صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہے۔

    آصف علی زرداری


    بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین کا عہدہ سنبھالنے والے آصف علی زرداری9 ستمبر2013 تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے ، ان کے دور میں آئین میں اٹھارویں ترمیم لائی گئی جس کے تحت صدرِ مملکت نے 58 ٹو بی ( اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اختیار) جیسے اختیارات پارلیمنٹ کو سرینڈر کردیے۔

    ممنون حسین


    پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ممنون حسین نے 9 ستمبر 2013 کو اپنے عہدے کا حلف اٹھایا اور رواں ماہ ستمبر میں ان کے عہدے کی مدت ختم ہورہی ہے ، ممنون حسین کا تعلق کراچی سے ہے اورانہیں پاکستان کی تاریخ میں ایسے صدر کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے اپنا دامن سیاسی تنازعات سے دور رکھا۔

    اس کے علاوہ تین ادوار میں چیئر مین سینٹ کچھ عرصے تک صدرِ مملکت کے فرائض انجام دیتے رہے،

    یہ مواقع تب پیش آئے جب صدر نے اپنی آئینی مدت مکمل کیے بغیر استعفیٰ دیا۔

    وسیم سجاد


    صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کے استعفے کے بعد چیئرمین سینٹ وسیم سجاد نے 18 جولائی 1993 میں قائم مقام صدر کےعہدے کا حلف اٹھایا اور وہ 14 نومبر 1993 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ دسمبر 1997 میں صدر فاروق لغاری کے استعفے کے سبب چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے ایک بار پھر قائم مقام صدر کے عہدے کا حلف اٹھایااور 1 جنوری 1998 تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    محمد میاں سومرو


    پاکستان مسلم لیگ ق سے تعلق رکھنے والے محمد میاں سومرو نے صدر پرویز مشرف کے استعفے کے سبب صدرِ مملکت کے عہدے کاحلف اٹھایا اور وہ اس عہدے پر 9 ستمبر 2008 تک فائز رہے۔

  • قاتل کی رحم کی اپیل مسترد کردیں: زینب کے والد کا صدر مملکت کو خط

    قاتل کی رحم کی اپیل مسترد کردیں: زینب کے والد کا صدر مملکت کو خط

    لاہور: صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں زیادتی کے بعد بے دردی سے قتل کی جانے والی 6 سالہ ننھی زینب کے والد نے صدر پاکستان کو خط لکھ کر قاتل عمران کی رحم کی اپیل مسترد کرنے کی درخواست کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ننھی زینب کے والد امین انصاری نے صدر مملکت ممنون حسین کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ زینب کے قاتل عمران کی رحم کی اپیل مسترد کردی جائے۔

    خط کے متن کے مطابق زینب کے بہیمانہ قتل پر پورے ملک میں بے چینی پھیلی، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی مجرم عمران کی اپیلیں خارج کردیں۔

    زینب کے والد کا کہنا ہے کہ مجرم کسی رعایت یا معافی کا مستحق نہیں۔ مجرم عمران کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ پھر کوئی ایسی حرکت نہ کر سکے۔

    خیال رہے کہ زینب کے والد نے گزشتہ ماہ قاتل عمران کو سرعام پھانسی دینے کے لیے بھی درخواست لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی تھی۔

    یاد  رہے کہ رواں برس جنوری میں ننھی زینب کے بہیمانہ قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ننھی زینب کو ٹیوشن پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں اغوا کیا گیا تھا جس کے دو روز بعد اس کی لاش ایک کچرا کنڈی سے برآمد ہوئی۔

    زینب کو اجتماعی زیادتی، درندگی اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گئی تھی۔

    زینب قتل کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے مختصرٹرائل تھا، مجرم کی گرفتاری کے بعد چالان جمع ہونے کے 7 روز میں ٹرائل مکمل کیا گیا۔

    انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے خلاف جیل میں روزانہ تقریباً 10 گھنٹے سماعت ہوئی اور اس دوران 25 گواہوں نے شہادتیں ریکارڈ کروائیں۔

    اس دوران مجرم کے وکیل نے بھی اس کا دفاع کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد اسے سرکاری وکیل مہیا کیا گیا۔

    17 فروری کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے ملزم عمران کو 4 بار سزائے موت اور 32 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صدر ممنون حسین کی نااہلی کے لیے درخواست دائر

    صدر ممنون حسین کی نااہلی کے لیے درخواست دائر

    اسلام آباد: صدر پاکستان ممنون حسین کی نااہلی کے لیے دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکریٹری قانون سے جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین کی نااہلی کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کی۔

    درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ آئین پاکستان کے تحت صدر پاکستان کا غیر جانبدار ہونا لازمی ہے۔ صدر ممنون حسین مسلم لیگ ن کے رہنما ہیں۔

    درخواست گزار کا کہنا ہے کہ صدر ممنون حسین نے کاغذات نامزدگی میں غلط بیان حلفی جمع کروایا لہٰذا وہ صادق اور امین نہیں رہے اور آرٹیکل 62، 63 کے تحت نااہل ہیں۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت ممنون حسین کی صدارت کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے۔

    درخواست میں سیکریٹری قانون، نگراں وزیر اعظم اور آرمی چیف کو فریق بنایا گیا ہے۔

    عدالت نے سیکریٹری قانون سے جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • الیکشن کمیشن کی صدر کو عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی سمری ارسال

    الیکشن کمیشن کی صدر کو عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی سمری ارسال

    اسلام آباد : الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کو عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کی سمری ارسال کردی، جس میں 25تا 27جولائی 2018 کی تاریخیں تجویز کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں عام انتخابات کی تیاریاں جاری ہے ، عام انتخابات کا مجوزہ شیڈول تیار کرلیا گیا اور الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کیلئے صدر مملکت ممنون حسین کو سمری بھجوا دی۔

    ذرائع الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کیلئے صدر کو3 تاریخیں تجویز کی ہیں، انتخابات کیلئے جولائی کے آخری ہفتے کی 3تاریخیں تجویز کی گئی ہے۔

    الیکشن کمیشن کے مطابق تجویز کردہ تاریخیں 25 تا 27 جولائی 2018 کی ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ عام انتخابات 2018 کے لئے الیکشن کمیشن یکم جون کو شیڈول جاری کرے گا جبکہ صدر مملکت ممنون حسین کی طرف سے سمری کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن عام انتخابات کی شیڈول کا باقاعدہ اعلان کرے گا۔

    یاد رہے 8 جولائی کو اسلام آباد میں چیف الیکشن کمشنر کی زیرصدارت عام انتخابات کی تیاریوں سے متعلق اہم اجلاس منعقد ہوا تھا، اجلاس میں عام انتخابات کی پولنگ کے لیے دو تاریخوں پر غور اور پولنگ اسٹیشنز پر بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی پر پیش رفت کا جائزہ لیا گیا تھا۔


    مزید پڑھیں : الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کی دو تاریخوں پرغور شروع کردیا


    ذرائع کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخاب 2018 کے انعقاد کیلئے دو مجوزہ تاریخوں پر غور شروع کردیا ہے، جس میں سے ایک تاریخ کا حتمی فیصلہ جلد کرلیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق الیکشن 2018 کی پولنگ کے لیے 25 یا 26 جولائی کی تاریخوں پر غور کیا جارہا ہے۔

    واضح رہے کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت جون کے مہینے میں ختم ہورہی ہے جس کے بعد جولائی کے مہینے میں انتخابات کے انعقاد کا امکان ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • یوم اقبال پر صدر اور وزیر اعظم کے پیغامات

    یوم اقبال پر صدر اور وزیر اعظم کے پیغامات

    اسلام آباد: یوم اقبال کے موقع پر صدر مملکت ممنون حسین اور وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پیغامات دیتے ہوئے اقبال کے افکار پر عمل کرنے پر زور دیا۔

    تفصیلات کے مطابق یوم اقبال پر اپنے پیغام میں صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا تھا کہ اپنی شاعری میں اقبال نے پیغام دیا ہے کہ بہادر اقوام مشکلات سے نمٹنے کے لیے محنت اور دل جمعی سے لڑتی ہیں۔

    انہوں نے زور دیا کہ قوم کو علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہوگا۔


    وزیر اعظم کا پیغام

    یوم اقبال پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ شاعر مشرق نے آزاد اور خود مختار ریاست کا تصور پیش کیا۔ علامہ اقبال کے افکار نے منزل کے راستے کی نشاندہی کی۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اقبال ہماری فکری روایات کا سب سے روشن حوالہ ہیں، علامہ اقبال نے ایک مستحکم ریاست کا خواب دیکھا جبکہ افکار اقبال نے مایوسی کے ماحول میں امید کا چراغ روشن رکھا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ جمہوری حکومت نے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑی، دہشت گردی کے خاتمے سے معیشت مستحکم اور ملکی ترقی ہوئی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کا شور شرابہ

    پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس: صدر کے خطاب کے دوران اپوزیشن کا شور شرابہ

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر مملکت ممنون حسین کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے شور شرابہ کیا اور ’گو نواز گو‘ کے نعرے لگائے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں منعقد ہوا۔

    مشترکہ اجلاس میں وزیر اعظم، مسلح افواج کے سربراہان، وزرائے اعلیٰ، گورنرز اور سفارت کار شریک ہوئے۔

    اجلاس کے موقع پر غیر ملکی سفیروں اور مسلح افواج کے سربراہان کی شرکت کے باعث پارلیمنٹ ہاؤس کی سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کیے گئے۔

    مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت ممنون حسین نے بھی خطاب کیا۔ یہ ان کا موجودہ پارلیمنٹ سے چوتھا خطاب ہے۔

    صدر ممنون حسین کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے طے شدہ حکمت عملی کے تحت شور شرابہ کیا۔ اس دوران ایوان میں ’گو نواز گو‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔

    خطاب کے دوران اپوزیشن اراکین نے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے بھی احتجاج کیا اور بعد ازاں اجلاس سے واک آوٹ کر گئے۔

    صدر مملکت کا خطاب

    اپنے خطاب میں صدر مملکت ممنون حسین کا کہنا تھا کہ ملک میں جمہوریت نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ بعض عناصر کی وجہ سے فرد اور ریاست کے درمیان رشتہ کمزور ہوا۔ بلوچستان اور فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے اقدامات ترقیاتی عمل کا حصہ ہے۔

    صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ دوسروں پر ذمہ داری ڈالنا قوموں کو آگے بڑھنے سے روکتا ہے۔ ترقیاتی عمل پر مختلف طبقات کا اختلاف ہونا غیر فطری نہیں لیکن اختلاف رائے کو انتشار میں بدلنے کا راستہ حکمت سے بند کیا جائے۔

    اپنے خطاب میں قومی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ شرح نمو گزشتہ 10 سال میں سب سے بلند سطح پر رہی ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر 23 ارب ڈالرز کی بلند ترین سطح کو چھو چکے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بڑھتی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید اسپتال بنائے جائیں۔

    صدر ممنون کا کہنا تھا کہ پاکستان کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہماری دفاعی مصنوعات معیاری اور کم قیمت ہیں۔ خواتین کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے۔

    انہوں نے کہا کہ سڑکوں کی تعمیر سے آمد و رفت کے ذرائع میں بہتری آئی ہے۔ توانائی بحران پر ماضی میں توجہ نہیں دی گئی۔ تجویز دی تھی کہ گلگت بلتستان کو نیشنل گرڈ سے منسلک کردیا جائے۔

    پاک چین دوستی

    اپنے خطاب میں صدر ممنون حسین کا کہنا تھا کہ پاک چین دوستی ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان اور چین اقتصادی تعاون میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں۔ اقتصادی راہداری پاک چین دوستی کی ایک مثال ہے۔

    مسئلہ کشمیر

    مسئلہ کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے صدر ممنون کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت ہمیشہ جاری رکھیں گے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کی مذمت کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت سے تمام مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جائے تاہم بھارت کی جانب سے ہماری کسی پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ بھارت نے ہمیشہ لائن آف کنٹرول پر جارحیت کا مظاہرہ کیا۔

    افغان دھماکے پر اظہار افسوس

    صدر ممنون نے گزشتہ روز افغانستان میں ہونے والے دھماکے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ کئی سال کی خانہ جنگی سے افغانستان کو کافی نقصان ہوا ہے۔ افغان حکومت اور لوگوں سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن تک خطے میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا۔

    دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات

    دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے صدر ممنون کا کہنا تھا کہ اسلامی دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اخلاص کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔

    انہوں نے خصوصاً ترکی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور ترکی محبت کے گہرے رشتے سے منسلک ہیں۔ خوشی ہے کہ پاک ترک دوستی گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ پاکستان روس کے ساتھ تعلقات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔

    دہشت گردی کے خلاف جنگ

    صدر ممنون کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ میں ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں شہریوں اور جانباز سپاہیوں کی قربانیوں پر فخر ہے۔ انتہا پسندی کے اثرات کے خاتمے کے لیے قومی بیانیہ قوت سے پیش کیا جائے۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان ایٹمی اسلحے کے عدم پھیلاؤ پر یقین رکھتا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔

    ان کے مطابق مردم شماری کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔ مردم شماری میں جان دینے والوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔

    خطاب کے آخر میں صدر مملکت نے کہا کہ مسائل سے کس طرح نمٹنا ہے اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرتی ہے۔ تاریخ میں پارلیمنٹ کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔


    صدر مملکت ممنون حسین کے خطاب کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ خطاب ختم ہونے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف سے ارکان پارلیمنٹ نے ملاقات کی اور ان سے مصافحہ کیا۔

    یاد رہے کہ آئین کے آرٹیکل 56 کے تحت نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب روایتی آئینی ضرورت ہے۔ گزشتہ برس بھی صدر مملکت نے 4 جون کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا۔

    یہ صدر ممنون کا موجودہ حکومت کی پارلیمنٹ سے چوتھا اور آخری خطاب تھا۔ تاہم صدر اس کے بعد اپنا ایک اور آخری خطاب کریں گے جو انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل کے بعد آئندہ آنے والی پارلیمنٹ سے ہوگا۔