Tag: صدر ٹرمپ

  • ٹوئٹ میں غلطی کے بعد ٹرمپ ایک بار پھر مذاق کی زد میں

    ٹوئٹ میں غلطی کے بعد ٹرمپ ایک بار پھر مذاق کی زد میں

    واشنگٹن: سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر نہایت فعال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی جلد بازی کے سبب ایک بار پھر سب کے مذاق کا نشانہ بن گئے۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے ایک لفظ کے غلط ہجے کردی۔

    اپنے ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’میڈیا کی مسلسل منفی کوریج کے باوجود‘ تاہم انہوں نے لفظ کوریج کو جلدی میں غلط ٹائپ کردیا جس کے بعد وہ کوو فی فی بن گیا۔

    صدر ٹرمپ کا یہ غلط ٹوئٹ سامنے آنا تھا کہ ٹوئٹر پر طنز و مزاح کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بعض لوگوں نے اسے ٹرمپ کی جانب سے کوئی خفیہ پیغام سمجھا۔

    ٹوئٹ سامنے آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ٹرمپ کا یہ غلط ہجے ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔

    غلط لفظ کی اس مقبولیت کے بعد لندن کے ریجنٹ انگلش سینٹر کو بھی وضاحت کرنی پڑی کہ ’مذکورہ لفظ تاحال انگریزی زبان کا حصہ نہیں ہے‘۔

    بعد ازاں صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا، ’کون اس لفظ کے معنی تلاش کر سکتا ہے؟ انجوائے کریں‘۔

    اسی روز سی این این کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں جب ٹرمپ کے مقابل سابق صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن سے اس کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے ٹرمپ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، ’میرے خیال میں یہ روس کے لیے کوئی خفیہ پیغام ہے‘۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بھلکڑ ٹرمپ کی قومی ترانے کے دوران بدحواسیاں

    بھلکڑ ٹرمپ کی قومی ترانے کے دوران بدحواسیاں

    واشنگٹن: ہر سال کی طرح اس سال بھی امریکی صدارتی محل وائٹ ہاؤس میں ایسٹر کی تقریبات منعقد ہوئیں اور تقریب کے دوران ٹرمپ بدحواسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قومی ترانہ پڑھتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھنا بھول گئے۔

    اس بار وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایسٹر کی تقریب گزشتہ سالوں کے مقابلے میں کچھ پھیکی سی رہی۔ اس بار بہت کم لوگوں نے تقریب میں شرکت کی۔

    اس کے برعکس بارک اوباما کے صدارتی دور میں بہت سے مہمان وائٹ ہاؤس میں آتے تھے جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہوتی تھی۔ صدر اوباما بچوں کے ساتھ گھل مل جاتے اور انہی کی طرح بچہ بن کر کھیلتے تھے۔

    تقریب میں جب قومی ترانہ پڑھا گیا تو بالکونی پر کھڑی خاتون اول میلانیا اور ان کے بیٹے بیرن ٹرمپ نے تو سینے پر ہاتھ رکھا مگر صدر ٹرمپ ہاتھ رکھنا بھول گئے۔

    میلانیا نے ٹہوکا مار کر انہیں یاد دلایا جس کے بعد صدر ٹرمپ کو بھی یاد آیا اور انہوں نے سینے پر ہاتھ رکھ کر بقیہ ترانہ سنا۔

    ٹرمپ کی اس حرکت نے انہیں ایک بار پھر امریکی میڈیا کی تنقید اور غیر ملکی میڈیا کے مذاق کا نشانہ بنا دیا۔

  • جرائم پیشہ افراد کی بے دخلی کے لیے ملٹری آپریشن کیا گیا: ٹرمپ کا دعویٰ

    جرائم پیشہ افراد کی بے دخلی کے لیے ملٹری آپریشن کیا گیا: ٹرمپ کا دعویٰ

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکا سے جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروشوں کو بے دخل کرنے کے لیے ملٹری آپریشن کیا گیا۔ ٹرمپ کے اس بیان کی وضاحت ہوم لینڈ سیکیورٹی سیکریٹری جون کیلی نے کی۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک اور ہنگامہ خیز بیان کے بعد ہوم لینڈ سیکریٹری کو وضاحتیں دینی پڑیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جرائم پیشہ افراد اور منشیات فروشوں کو بے دخل کرنے کے لیے ملٹری آپریشن کیا گیا۔

    امریکی صدر کے بیان نے ایک بار پھر تنقید کا طوفان کھڑا کر دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ حکام وضاحتیں دینے پر مجبور ہوگئے۔ سیکریٹری ہوم لینڈ سیکیورٹی جون کیلی کا کہنا ہے کہ بے دخلی کے لیے کوئی ملٹری آپریشن نہیں کیا گیا۔

    میکسیکو کا دورہ کرنے والے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری جون کیلی کو مشکل صورتحال کا سامنا رہا۔ میکسیکن وزیر خارجہ نے امریکی حکام سے ملاقاتوں میں ٹرمپ کی پالیسیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اشتعال انگیز قرار دیا۔

    میکسیکو سٹی میں رہنے والے امریکی شہریوں نے بھی ٹرمپ کی میکسیکو کے لیے پالیسیوں کے خلاف امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کیا۔ مظاہرین نے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر روکنے کا مطالبہ کیا۔

  • صدر ٹرمپ کی جھوٹی سرزمین

    صدر ٹرمپ کی جھوٹی سرزمین

    لندن: برطانوی دارالحکومت لندن کے شہری اس وقت دیواروں پر ایک تصویر دیکھ کر حیران رہ گئے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ محو رقص نظر آرہے ہیں اور ان کے ساتھ لکھا ہے ’جھوٹ کی سرزمین‘۔

    تصویر میں صدر ٹرمپ جس شخصیت کی بانہوں میں بانہیں ڈالے محو رقص ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ برطانوی وزیر اعظم تھریسا مئے ہیں۔

    lie-2

    یہ گرافٹی (دیوار پر کی جانے والی مصوری) دراصل ایک آرٹسٹ نے تخلیق کی ہے جس میں اس نے ان دونوں رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

    اس کی ترغیب اسے گزشتہ سال کی مشہور فلم ’لا لا لینڈ‘ کے پوسٹرز کو دیکھ کر ہوئی اور اس نے اس پوسٹر کی طرز پر صدر ٹرمپ کی تصویر کے ساتھ ’لائی لائی لینڈ‘ یعنی جھوٹ کی سرزمین لکھ ڈالا۔

    بمبی نامی اس آرٹسٹ کا کہنا ہے، ’یہ فلم شاندار تو ضرورہے مگر یہ ہماری نسل کے سیاہ ترین سیاسی دور میں ریلیز ہوئی ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ جیسے منتقم مزاج شخص نے امریکی صدارت کا حلف اٹھایا ہے‘۔

    اور یہی نہیں، صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے کچھ عرصہ بعد اسی فنکار نے ایک اور گرافٹی بنائی تھی جس میں ٹرمپ کے انتخابی نعرے کی ہجو میں لکھا تھا، ’امریکا کو دوبارہ عقلمند بناؤ‘۔ اس کے ساتھ امریکا کا مجسمہ آزادی ایک ڈھانچے کی صورت میں موجود تھا۔

    lie-3

  • صدر ٹرمپ کے بے تکے مصافحے

    صدر ٹرمپ کے بے تکے مصافحے

    اب جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا چکے ہیں تو اپنی مختلف حرکات و سکنات کے باعث مسلسل میڈیا کے طنز و تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ٹرمپ کے مختلف رہنماؤں سے کیے جانے والے عجیب وغریب مصافحے بھی مذاق کا نشانہ بن گئے۔

    اس تمام سلسلے کا آغاز اس وقت ہوا جب صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلی تقریر کی۔ تقریر کے بعد انہوں نے نائب صدر مائیک پنس سے مصافحہ کیا۔

    یہ مصافحہ نہایت عجیب و غریب تھا جس میں ٹرمپ نے ہاتھ ملاتے ہوئے پنس کا ہاتھ فرط جذبات اور گرم جوشی سے اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا۔

    نائب صدر مائیک پنس اس صورتحال سے خاصے جزبز نظر آئے۔

    اس کے بعد کچھ اسی قسم کا مصافحہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب ٹرمپ نے نیل گورسچ کو امریکی وفاقی ایپلیٹ عدالت کا جج مقرر کیا۔ نامزدگی کی تقریب میں تقریر کے بعد جب نیل نے ٹرمپ سے مصافحہ کیا تو ٹرمپ نے ایک بار پھر ان کے ہاتھ کو کئی دفعہ اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا۔

    trump-3

    اس بار تو یوں لگا کہ دھان پان سے نیل گورسچ ٹرمپ کی کھینچا تانی سے گر پڑیں گے۔

    کچھ دن قبل جب جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے ٹرمپ سے ملنے پہنچے تو ٹرمپ اس بار بھی اپنے نامعقول مصافحے سے باز نہ آئے۔ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے موقع پر شنزو ایبے بھی ٹرمپ کی اس کھینچا تانی کا نشانہ بن گئے۔

    trump-2

    تاہم ہر وقت ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے رکھنے والے ایبے ایسے وقت میں بھی اپنی مسکراہٹ نہ بھولے، البتہ وہ الجھن کا شکار ضرور نظر آئے۔

    اور ہاں، برطانوی وزیر اعظم تھریسا مئے، جو ٹرمپ سے بطور امریکی صدر ملاقات کرنے والی پہلی عالمی رہنما تھیں، جب ٹرمپ سے ملاقات کے لیے پہنچیں تو ٹرمپ نے مستقل ان کا ہاتھ تھامے رکھا، کہ کہیں وہ اپنی اونچی ہیل کے باعث گر نہ پڑیں۔

    برطانوی میڈیا کو ٹرمپ کی یہ حرکت سخت ناگوار گزری اور اس نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے کہا کہ اس قدر خوش اخلاقی کا مظاہرہ تو ٹرمپ نے کبھی اپنی اہلیہ کے ساتھ بھی نہیں کیا۔

    اب ٹرمپ اپنی عادت سے مجبور ہوں، یا عالمی رہنماؤں سے ملتے ہوئے ٹرمپ خوشی سے بے قابو ہو کر ایسے مصافحے کرتے ہوں، امریکی میڈیا کا تو یہی مشورہ ہے، کہ جس کو اپنی جان اور عزت عزیز ہو، وہ ٹرمپ سے مصافحہ کرنے سے گریز کرے۔

  • ‘ٹرمپ کی حلف برداری سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں’

    ‘ٹرمپ کی حلف برداری سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں’

    واشنگٹن: امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کل صدارت کے عہدے کا حلف اٹھالیں گے۔ لیکن ان کی تقریب حلف برداری کے ٹکٹ فروخت کرنے والے آج کل سخت پریشانی سے دو چار ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی ان ٹکٹوں کو خریدنا نہیں چاہتا۔

    امریکا کے مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس بار صدر کی تقریب حلف برداری کے ٹکٹوں کی فروخت میں حد درجہ کمی دیکھی گئی۔ ’یوں لگتا ہے کسی کو صدر کی حلف برداری سے کوئی دلچسپی نہیں‘۔

    تصاویر: امریکا کے ارب پتی صدر ٹرمپ کا گھر

    ان ٹکٹوں کو فروخت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ الیکشن سے قبل بہت سے افراد نے ان سے کہا تھا کہ وہ مذکورہ تقریب کے ٹکٹ ان سے خریدں گے۔ لیکن شاید ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح ان کے لیے غیر متوقع تھی۔

    اب جبکہ فروخت کرنے والوں نے بہت سے ٹکٹ خرید کر اپنے پاس رکھ لیے، تو کوئی بھی امریکی ان ٹکٹوں پر اپنا پیسہ ضائع نہیں کرنا چاہتا اور ٹکٹ بیچنے والے بھاری نقصان سے دو چار ہوگئے۔

    مزید پڑھیں: ٹرمپ اہلیہ کے بغیر وائٹ ہاؤس جائیں گے

    یاد رہے کہ 8 سال قبل جب جنوری 2009 میں صدر اوباما نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا تھا تو اس تقریب میں 20 لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔

  • ٹرمپ کا غلط ٹوئٹ کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کا سبب

    ٹرمپ کا غلط ٹوئٹ کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کا سبب

    نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر غلط ٹوئٹ کر کے دنیا بھر میں مذاق کا نشانہ بن گئے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں اپنی بیٹی ایوانکا کی جگہ کسی دوسری ایوانکا کا ذکر کردیا۔ مذکورہ ایوانکا نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ٹرمپ کو کلائمٹ چینج کی طرف توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دے ڈالا۔

    دو دن بعد صدارت کا حلف اٹھانے والے ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر کو بے احتیاطی سے استعمال کرنے پر تنقید و مذاق کا نشانہ بن گئے۔

    یہ ساری کہانی دراصل اس وقت شروع ہوئی جب امریکی ریاست میسا چیوسٹس سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر لارنس گڈ اسٹین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کی تعریف میں ٹوئٹ کیا۔

    انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ کو ٹیگ کرنا چاہا لیکن غلطی سے ایوانکا ٹرمپ کی جگہ ایوانکا میجک کو ٹیگ کردیا جو برطانیہ میں ایک ڈیجیٹل کنسلٹنٹ ہیں۔

    بیٹی کی اس تعریف پر صدر ٹرمپ خوشی سے پھولے نہ سمائے اور اسی غلطی کے ساتھ بیٹی کی تعریف میں خود بھی ایک ٹوئٹ کردیا جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کو نہایت باکردار اور عظیم قرار دیا۔

    ٹرمپ کی اس غلطی کی نشاندہی ہوتے ہی ٹوئٹر پر ایک طوفان آگیا اور لوگوں نے ٹرمپ کو تنقید و مذاق کا ہدف بنا لیا۔

    دوسری جانب غلطی سے ٹرمپ کے ٹوئٹ میں آنے والی ایوانکا میجک نے موقع سے فائدہ اٹھا کر ٹرمپ کو مفید مشوروں سے نواز دیا۔

    انہوں نے ٹرمپ کو جواب دیتے ہوئے کہا، ’آپ پر بہت بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ کیا میں آپ کو تجویز دوں کہ ٹوئٹر کا استعمال احتیاط سے کریں اور کلائمٹ چینج کے بارے میں جاننے کے لیے مزید وقت صرف کریں‘۔

    ایوانکا نے اس ٹوئٹ کے ذریعہ ٹرمپ کی توجہ ماحولیاتی نقصانات اور موسمیاتی تغیرات کی جانب دلوانے کی کوشش کی جو پہلے ہی ماحول سے دشمنی پر تلے بیٹھے ہیں۔

    اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ بارہا کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں جس نے ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنے والوں کو سخت تشویش میں مبتلا کردیا۔

    انہوں نے امریکا میں کوئلے کی صنعت کی بحالی سمیت کئی ماحول دشمن اقدامات شروع کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

    اس سے قبل آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکار اور اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیاتی تبدیلی لیونارڈو ڈی کیپریو نے بھی صدر ٹرمپ، ان کی بیٹی ایوانکا اور ان کے عملے کے دیگر ارکان سے ملاقات کی تھی۔

    ملاقات میں لیو نے قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے پیش کیے تھے جن کے ذریعہ نئی نوکریاں پیدا کر کے امریکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

  • ماحولیاتی بہتری کے لیے صدر ٹرمپ کو تجاویز

    ماحولیاتی بہتری کے لیے صدر ٹرمپ کو تجاویز

    واشنگٹن: آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکار اور اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیاتی تبدیلی لیونارڈو ڈی کیپریو نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی جس میں ماحول سے متعلق مختلف شعبہ جات اور اقدامات زیر بحث آئے۔

    لیونارڈو ڈی کیپریو فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو ٹیری ٹمنن کے مطابق لیو نے امریکی صدر ٹرمپ، ان کی بیٹی ایوانکا اور ان کے عملے کے دیگر ارکان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں لیو نے قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے پیش کیے جن کے ذریعہ نئی نوکریاں پیدا کر کے امریکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق لیو نے امریکی صدر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح تجارتی و رہائشی تعمیراتی منصوبے شروع کیے جائیں جو قابل تجدید توانائی پر مشتمل اور ماحول دوست ہوں، ان سے لاکھوں بے روزگار امریکیوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    واضح رہے کہ لیونارڈو ڈی کیپریو کو ملاقات میں خاص طور پر قابل تجدید یعنی ماحول دوست توانائی کے ذرائع کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں، یعنی عنقریب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے جو ماحولیاتی آلودگی میں بدترین اضافہ کریں گے۔

    گو کہ لیو نے امریکی صدارتی انتخاب میں شکست خوردہ امیدوار ہیلری کلنٹن کی حمایت کی تھی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب وہ ان کے ساتھ مل کر ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔

    لیو نے صدر ٹرمپ کو اپنی ڈاکیو منٹری بی فور دی فلڈ بھی پیش کی جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔

    واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کی ماحول دشمنی اور لاعلمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ بارہا کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔

    صرف یہی نہیں بلکہ ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ امریکا میں کوئلے کی صنعت کی بحالی کے علاوہ صدر ٹرمپ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

  • لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب؟

    لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب؟

    واشنگٹن: آسکر ایوارڈ یافتہ ہالی ووڈ اداکار اور اقوام متحدہ کے خیر سگالی سفیر برائے ماحولیاتی تبدیلی لیونارڈو ڈی کیپریو نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی جس میں انہوں نے صدر کو ماحول دوست اقدامات کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔

    لیونارڈو ڈی کیپریو فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹو ٹیری ٹمنن کے مطابق لیو نے امریکی صدر ٹرمپ، ان کی بیٹی ایوانکا اور ان کے عملے کے دیگر ارکان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں لیو نے قابل تجدید توانائی کے کئی منصوبے پیش کیے جن کے ذریعہ نئی نوکریاں پیدا کر کے امریکی معیشت کو سہارا دیا جاسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: لیونارڈو ڈی کیپریو کی بے گھر افراد کی بحالی کے لیے کوشش

    فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق لیو نے امریکی صدر کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح تجارتی و رہائشی تعمیراتی منصوبے شروع کیے جائیں جو قابل تجدید تونائی پر مشتمل اور ماحول دوست ہوں، ان سے لاکھوں بے روزگار امریکیوں کو روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔

    گو کہ لیو نے امریکی صدارتی انتخاب میں شکست خوردہ امیدوار ہیلری کلنٹن کی حمایت کی تھی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب وہ ان کے ساتھ مل کر ماحول کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں۔

    لیو نے صدر ٹرمپ کو اپنی ڈاکیو منٹری بی فور دی فلڈ بھی پیش کی جو موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔

    لیونارڈو، ٹرمپ کو قائل کرنے میں کتنے کامیاب رہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کی ماحول دشمنی اور لاعلمی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

    اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ بارہا کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔ ان کا انتخابی منشور بھی ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔

  • ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟

    واشنگٹن: امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلد ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر اوباما کے دور میں کیے گئے بیشتر معاہدوں کو منسوخ اور پالیسیوں کو تبدیل کردیں گے جس سے دنیا بھر میں تشویش کی شدید لہر دوڑ گئی ہے۔

    اگر وہ حقیقتاً اپنی اس بات پر عمل کر بیٹھے تو دنیا بھر میں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیاتی نقصانات کے سدباب کے لیے کی جانے والی پیرس کلائمٹ ڈیل کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

    یہ معاہدہ گزشتہ برس پیرس میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی عالمی کانفرنس میں طے پایا تھا۔ اس تاریخی معاہدے پر 195 ممالک نے دستخط کیے تھے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے۔ دنیا بھر میں ہونے والی صنعتی ترقی مضر (گرین ہاؤس) گیسوں کے اخراج کا باعث بن رہی ہے جو ایک طرف تو دنیا کی فضا کو آلودہ کر رہی ہیں، دوسری جانب یہ دنیا بھر کے موسم کو بھی گرم (گلوبل وارمنگ) کر رہی ہیں۔

    اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ وہ ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دیں گے، قدرتی ذرائع جیسے سورج اور ہوا سے توانائی پیدا کریں گے اور ماحول اور جنگلی حیات کو بچانے کے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟

    یہی نہیں وہ ان ممالک کی مالی امداد بھی کریں گے جو کلائمٹ چینج یا ماحولیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ ممالک عموماً ترقی پذیر ممالک ہیں اور کاربن گیسوں کے اخراج میں تو ان کا حصہ نہیں، لیکن یہ اس کے مضر اثرات (سیلاب، شدید گرمی، قحط) کا بری طرح شکار ہو رہے ہیں۔

    امریکا بھی اس معاہدے کی توثیق کرنے والے ممالک میں شامل ہے تاہم ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد اب اس معاہدے پر تشویش کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کوئی بھی ایک ملک یہ معاہدہ ختم تو نہیں کر سکتا لیکن اگر امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوجاتا ہے اور صدر اوباما کے داخلی سطح پر کیے گئے اقدامات کو روک دیا جاتا ہے تو دنیا بھر میں کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

    خیال رہے کہ امریکا اس وقت کاربن سمیت دیگر نقصان دہ (گرین ہاؤس) گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔

    مزید پڑھیں: کاربن گیس پہلے سے زیادہ خطرناک

    فرانس کی وزیر ماحولیات اور گزشتہ ماحولیاتی کانفرنس کی سربراہ سیگولین رائل کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ اچانک اس معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ معاہدے کی شق کے مطابق 3 سال سے قبل کوئی ملک معاہدے سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ علاوہ ازیں اگر کوئی ملک پیچھے ہٹنا بھی چاہے تو اسے کم از کم ایک سال قبل باقاعدہ طور پر اس سے آگاہ کرنا ہوگا۔ ’گویا ہمارے پاس ابھی 4 سال کا وقت ہے‘۔

    لیکن انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جس معاہدے کو تیار کرنے اور پوری دنیا کو ایک صفحہ پر لانے میں 20 سال سے زائد کا عرصہ لگا، امریکا اس معاہدے سے بآسانی دستبردار ہوجائے گا‘۔

    واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کئی بار کلائمٹ چینج کو ایک وہم اور مضحکہ خیز چیز قرار دے چکے ہیں۔ اس کے برعکس شکست خوردہ صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کلائمٹ چینج اور دیگر ماحولیاتی نقصانات سے بچاؤ کے لیے اقدامات اٹھانے میں سنجیدہ تھیں۔

    ٹرمپ ۔ ماحول دشمن صدر؟

    لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ ٹرمپ کا انتخابی منشور ماحول دشمن اقدامات سے بھرا پڑا ہے۔ انہوں نے امریکا کی دم توڑتی کوئلے کی صنعت کو دوبارہ بحال کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے یعنی اب امریکا میں بیشتر توانائی منصوبے کوئلے سے چلائے جائیں گے۔

    trump-2

    یہی نہیں وہ گیس اور تیل کے نئے ذخائر کی تلاش کا ارادہ بھی رکھتے ہیں جن کے لیے کی جانے والی ڈرلنگ اس علاقے کے ماحول پر بدترین اثرات مرتب کرتی ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہہ رکھا ہے کہ کلائمٹ چینج کے سدباب کے سلسلے میں تمام پروگراموں کے لیے اقوام متحدہ کی تمام امداد بند کر دی جائے گی۔

    :صدر اوباما ۔ ماحول دوست صدر

    اس سے قبل صدر اوباما نے داخلی سطح پر کئی ماحول دوست منصوبے شروع کر رکھے تھے جن کے لیے ٹرمپ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ انہیں ختم کردیں گے۔

    مزید پڑھیں: صدر اوباما کی ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوششیں

    صدر اوباما نے کلائمٹ چینج کو قومی سلامتی کے لیے ایک اہم خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے قومی سلامتی پالیسی کا حصہ بنانے کی منظوری دی تھی تاہم اس کے لیے انہوں نے ایوان نمائندگان میں موجود ری پبلکن اراکین سے کئی بحث و مباحثے کیے تھے۔

    obama-3

    ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح دیگر ری پبلکن بھی صرف دہشت گردی کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں جبکہ کلائمٹ چینج ان کے نزدیک غیر اہم مسئلہ ہے۔

    صدر اوباما کی انسداد ماحولیاتی تبدیلی کی حکمت عملی میں ماہرین نے اس کی وضاحت یوں کی تھی کہ کلائمٹ چینج فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس کے باعث قدرتی آفات میں ہونے والا اضافہ ہمیں اس بات پر مجبور کرے گا کہ ایمرجنسی اقدامات کے شعبوں میں بجٹ کا بڑا حصہ صرف کیا جائے۔

    obama-2

    ماہرین کے مطابق امریکا کے علاوہ بھی دنیا بھر میں قحط اور سیلاب کے باعث امن و امان کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور امن و امان کی خراب صورتحال لوگوں کو ان کے گھر چھوڑنے پر مجبور کردے گی جس کے بعد دنیا کو پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے مسائل کی میزبانی کرنی ہوگی۔

    مزید پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی جنگوں کی وجہ بن سکتی ہے

    امریکا کے نئے صدر ٹرمپ ایک ماحول دشمن صدر ثابت ہوں گے یا نہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم ان کی فتح نے دنیا بھر میں ماحول اور زمین کا احساس کرنے والے افراد کو سخت پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔