Tag: صدق جائسی

  • چھکڑوں‌ پر لدی دس سال کی تنخواہ

    چھکڑوں‌ پر لدی دس سال کی تنخواہ

    سرکار مرحوم ایک وسیع میدان میں کرسی پر رونق افروز تھے۔ اسٹاف کے تمام امرا دست بستہ دائیں اور بائیں کھڑے تھے۔

    چابک سوار شاہی اصطبل کے گھوڑوں پر شہ سواری کے کمالات دکھا رہے تھے۔ سرکار مرحوم بہ نگاہ غور ایک ایک کے ہنر کو ملاحظہ فرما رہے تھے۔ ایک سرکش گھوڑا اپنے چابک سوار کو بہت تنگ کر رہا تھا۔ چابک سوار اپنے فن میں ایسا ماہر تھا کہ میخ کی طرح اس کی پیٹھ پر جما بیٹھا تھا۔

    یکایک سرکار مرحوم داغ کی طرف متوجہ ہوئے، فرمایا۔

    ”کیوں داغ! تم بھی کبھی گھوڑے پر بیٹھے ہو؟“

    انھوں نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ ”جوانی میں خانہ زاد بیٹھا ضرور ہے، مگر اس کو مدتیں گزریں، زمانہ ہوگیا۔“

    ارشاد ہوا۔ ”اچھا آج ہمیں اپنی شہ سواری دکھاﺅ۔“

    داغ نے عرض کیا، ”بہت خوب“

    سرکار کے اشارے پر وہی بدلگام سرکش گھوڑا حاضر کیا گیا، بے چارے داغ صاحب ﷲ کا نام لے کر سوار ہوئے۔

    ادھر انھوں نے باگ ہاتھ میں لی، اُدھر سرکار کے اشارے پر چابک سوار نے گھوڑے کو چابک رسید کی۔ چشمِ زدن میں داغ صاحب زمین پر قلابازیاں کھا رہے تھے اور گھوڑا تھا کہ آندھی کی طرح جنگل کی طرف بھاگا جارہا تھا۔

    پہلے داغ صاحب اٹھائے گئے، پھر سولہ چابک سوار اپنے گھوڑوں پر اس کے تعاقب میں جنگل کی طرف بھاگے، داغ صاحب کے چوٹ نہ آئی تھی، گرد جھاڑ کر سرکار مرحوم کے سامنے حاضر ہوئے، سرکار کا ہنسی کے مارے بُرا حال تھا۔

    جب خوب جی بھر کے ہنس چکے تو فرمایا۔

    ”تم بہت اچھا سوار ہوئے، میں تمہیں چابک سواروں کا افسر مقرر کروں گا۔“ داغ صاحب آداب بجا لائے۔

    پوچھا، ”ہماری ریاست میں کتنے دن سے ہو؟“

    انھوں نے عرض کیا۔ ”دس سال سے۔“

    سرکار نے مہا راجا بہادر (مہا راجا سرکشن پرشاد) کی طرف دیکھا۔ انھوں نے ہاتھ باندھ کر سَر جھکایا۔

    ارشاد ہوا، ”ہم نے داغ کو ایک ہزار ماہانہ پر شاعرِ دربار مقرر کیا۔ ان کی دس برس کی تنخواہ ایک ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے ابھی ابھی ان کو دے دو۔“

    یہ حکم دے کر اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔

    دوسرے دن بارہ بجے سارے شہر نے دیکھا کہ بنڈیوں (چھکڑوں) پر داغ صاحب کی دس سال کی تنخواہ لدی ہوئی پولیس کے دستے کی حفاظت میں داغ کے گھر جارہی ہے۔

    (صدقِ جائسی کی آپ بیتی سے انتخاب)

  • مصری شہری سے مصافحے کے بعد توبہ استغفار کا ورد!

    مصری شہری سے مصافحے کے بعد توبہ استغفار کا ورد!

    میر محبوب علی خاں، نظامِ دکن کے ایک رفیق خاص اور مصاحب نواب ناصر الدولہ تھے، نظام کے پوتے شاہ زادہ معظم جاہ انھیں ہمیشہ پیا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔

    اعلیٰ حضرت نواب میر محبوب علی خاں صاحب خلد آشیانی کے مرکب میں پیانے ہندوستان کے متعدد سفر کیے تھے۔ مگر ہندوستان کے باہر کبھی جانے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ یہ اتفاق بڑھاپے میں پیش آیا جب پہلی بار پرنس (بادشاہ زادہ معظم جاہ) کے ہمراہ مقامات مقدسہ کی زیارت کو تشریف لے گئے۔

    عبا، قبا اور عمامے کو علمائے ہند کے زیب بر اور زینت سر دیکھ کر پیا جانتے تھے کہ یہ لباس صرف علما اور صلحا ہی سے مختص ہے جس روز بغداد پہنچے، اس کے دوسرے ہی دن ہوٹل میں پرنس کے پاس بیٹھے تھے کہ خادم نے ایک ملاقاتی کارڈ پرنس کے سامنے پیش کیا۔ ملاقاتی ایک جوان عمر کا مصر تھا جس کی سرخ و سفید رنگت پر سیاہ داڑھی بہت زیب دیتی تھی۔

    اسے عمامے اور عبا میں ملبوس دیکھ کر پیا دینی پیشوا سمجھ کر تعظیم بجا لائے، مصافحہ کرکے ہاتھ چومے، آنکھوں سے لگائے، اہلاً و سہلاً، مرحبا کہہ کر خیر مقدم کیا پھر اپنی جگہ نہایت ادب سے بیٹھ گئے۔ مصری تھوڑی دیر فرانسیسی زبان میں پرنس سے باتیں کرکے جانے لگا تو پیا نے پھر اسے احترام سے رخصت کیا۔

    اس کے جانے کے بعد پرنس سے دریافت کیا ”صاحب! یہ کوئی عالم دین تھے یا کسی درگاہ کے متولی؟ چہرہ کیسا نورانی تھا کہ خانہ زاد کا دل روشن ہوگیا۔“ پرنس نے فرمایا ”کاروباری آدمی تھا، میرے پاس اس غرض سے آیا تھا کہ حسینانِ بغداد کوملاحظہ فرمانے کے لیے ایک گھنٹہ مجھے بھی مرحمت فرمایئے تو ایسی صورتیں دکھاؤں کہ حسینانِ ہند یک سر آپ کی نگاہوں سے گرجائیں۔“ پیا نے کہا ”استغفراللہ! اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے“ پیا منہ پر طمانچے مار مار کر توبہ اور استغفار میں مصروف تھے…… پھر اس سفر میں پیا نے کسی عالم دین سے بھی مصافحہ نہ کیا۔
    یہ سطور صدق جائسی کی آپ بیتی سے لی گئی ہیں.