Tag: صفائی کا کام

  • 40 سال تک صفائی کا کام کرنے والا معمر جوڑا ایک ایک روپیہ جوڑ کر حج کرنے جا پہنچا

    40 سال تک صفائی کا کام کرنے والا معمر جوڑا ایک ایک روپیہ جوڑ کر حج کرنے جا پہنچا

    ارادہ نیک ہو تو منزل آسان ہو ہی جاتی ہے ایسا ہی کچھ ہوا انڈونیشیا سے تعلق رکھنے کے ایک معمر لیکن انتہائی غریب جوڑے کے ساتھ۔۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق لیگیمین نامی بزرگ اور انکی اہلیہ انڈونیشیا میں 40 سال سے صفائی ستھرائی کا کام کرتے ہیں۔ ان کی ہمیشہ سے دلی خواہش تھی کہ ایک بار کعبۃ اللہ کا دیکھ لیں اور حج کی سعادت حاصل کر لیں، لیکن غربت اور وسائل نہ ہونے کے باعث یہ خواہش برسوں حسرت بنی رہی۔

    تاہم اس معمر جوڑے نے اپنے اس سب سے حسین خواب کی تعبیر پانے کے لیے کم تنخواہ میں سے بھی روپیہ روپیہ جوڑا اور پھر اللہ کا کرم ہوا کہ وہ رواں برس حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب پہنچ گئے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق اس جوڑے نے اپنی خواہش کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے 1986 میں اپنی محدود آمدن میں سے بچت شروع کی۔ مقصد صرف ایک تھا کہ کسی روز اللہ کے گھر کی زیارت نصیب ہوگی۔

    یہ ان صادق جذبہ ہی تھا کہ وہ 40 سال بعد حجاز مقدس میں اس سر زمین پر پہنچ چکے ہیں جہاں بیت اللہ موجود ہے اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ ہے۔

    دونوں میاں بیوی نے جیسے ہی سعودی عرب کی سر زمین پر قدم رکھا۔ ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلک رہے تھے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں لیبیا کے ایک عازم حج کے ساتھ قدرت کا کرشمہ ہوا تھا۔ نوجوان کے نام کے ساتھ قذافی لگا ہونے کے باعث اسے جہاز میں سوار نہیں ہونے دیا گیا۔

    مذکورہ عازم کے بغیر جہاز نے دو بار اڑان بھری لیکن فنی خرابی کے باعث واپس آ گیا۔ جس کے بعد اس نوجوان کو جہاز میں سوار کرایا گیا تو جہاز بغیر کسی خرابی کے سعودی عرب جا پہنچا۔

    https://urdu.arynews.tv/viral-video-the-charismatic-story-of-a-libyan-citizen-going-on-hajj/

  • پاکستان میں صفائی کا کام کرنے والے افراد کو تحقیر اور ذلت کا سامنا کیوں ہے؟

    پاکستان میں صفائی کا کام کرنے والے افراد کو تحقیر اور ذلت کا سامنا کیوں ہے؟

    پاکستان میں گٹروں اور غلاظت کی صفائی کا کام کرنے والے محنت کشوں کو تحقیر اور ذلت آمیز رویوں کا سامنا رہتا ہے، صرف یہی نہیں، ان کو روزگار کا کوئی اور ذریعہ حاصل کرنے میں مختلف طرح کے امتیازی سلوک کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    سینیٹیشن کے شعبے سے وابستہ مسیحی اور ہندو محنت کشوں کو بہ ظاہر بھائیوں کا درجہ دیا جا تا ہے، مگر ان کے ساتھ برتاؤ حقیروں جیسا رہتا ہے، جب کہ وہ اپنی جان کی بازی لگا کر گندگی صاف کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔

    گٹر میں اترنے کے بعد موت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے!

    2019 سے اب تک گٹر کی صفائی کرنے والے متعدد ورکر ہلاک ہو چکے ہیں۔ گٹر کی زہریلی گیس سے بچ جانے والے ایک ورکر شہباز مسیح کا کہنا ہے کہ جب اُن جیسا کوئی ورکر گھر سے گٹر کی صفائی کے لیے نکلتا ہے تو اسے زندہ واپسی کا یقین نہیں ہوتا۔

    2017 میں عرفان مسیح نامی شخص سندھ کے شہر عمر کوٹ میں بند گٹر کو صاف کرتے ہوئے بے ہوش ہو گیا تھا مگر مسلمان ڈاکٹروں نے رمضان کے مہینے میں اس گٹر کی صفائی کرنے والے ایک ورکر کا علاج کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا تھا کہ رمضان میں انھیں پاک صاف رہنے کی ضرورت ہے اور سیوریج کے ورکر کا بدن غلاظت سے بھرا ہوا تھا۔ علاج نہ ہونے کی بنا پر عرفان مسیح اپنی زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔

    استحصالی برتاؤ کا ساما

    سندھ میں حالیہ سالوں میں ایک بڑی تبدیلی یہ آئی ہے کہ چھوٹے اور درمیانے شہروں میں سینیٹیشن ورکرز کی اوسطاً نصف تعداد مسلمانوں کی ہوتی ہے، مگر سب کے سب خاکروب مذہبی تفریق کے بغیر بھی لوگوں کی تضحیک کا شکار بنتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)اور عالمی ادارہ لیبر( آئی ایل او) کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک میں ہاتھ سے صفائی کا کام کرنے والے محنت کشوں کو ان کے مخصوص سماجی ڈھانچے اور مخصوص طبقے سے تعلق کی بنا پر استحصالی برتاؤ کا سامنا رہتا ہے۔

    ایشیا میں مجموعی محنت کشوں میں صفائی کا کام کرنے والے محنت کشوں کی شرح فی صد

    جنوبی ایشیا میں صفائی کے پیشے کو بُرا سمجھنے جانے کے پیچھے ہندوؤں میں ذات پات کا مذہبی عنصر موجود ہے۔ پاکستان اگرچہ ایک مسلم ملک ہے مگر سماجی اور روایتی طور پر یہ تفریق بھارت اور دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی موجود ہے۔ اس کی مثال ان اشتہارت سے لی جا سکتی ہے، مخصوص ملازمتوں کا جب اشتہار دیا جاتا ہے تو غیر مسلم کی شرط رکھی جاتی ہے۔

    صفائی کے کام سے وابستہ افراد کے اعداد و شمار

    ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر طرح کے سینیٹری ورکرز، سوئپرز، کلینرز، سیور مینز اور گھروں میں صفائی و ستھرائی کا کام کرنے والے ورکرز کی تعداد 15 لاکھ تک ہے۔

    پاکستان بھر میں گٹروں اور سڑکوں کی صفائی سمیت انڈسٹریز اور دفاتر میں واش رومز کی صفائی پر مامور افراد میں سے 80 فی صد لوگ غیر مسلم ہیں اور ایسا کام کرنے والوں میں مسیحی اور ہندوؤں کی اکثریت ہے۔

    پاکستان میں اقلیتی برادری پر کام کرنے والی محقق سارہ سنگھا کی ’’دلت کرسچینز اینڈ کاسٹ کانشیئس نیس‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں صفائی کا کام کرنے والوں میں 80 فی صد مسیحی اور ہندو برادری سے تعلق رکھتے تھے، اور حیران کن طور پر دونوں برادریوں کی نچلی ذات کے افراد مذکورہ کام سر انجام دے رہے تھے۔ سندھ میں پچھلے کچھ سالوں سے خاکروبوں میں کافی بڑی تعداد مسلمانوں کی بھی شامل کی گئی ہے، مگر حیران کن بات یہ ہے کہ مسلمان خاکروب بھی امتیازی سلوک کا شکار بنتے ہیں۔

    سماجی تضحیک ہی نہیں، سوشل سیکیورٹی کا المیہ بھی

    پاکستان میں صفائی کے پیشے سے وابستہ افراد سماجی تضحیک کا شکار ہوتے ہیں، اس پر مبنی رپورٹ (اسٹیگما ان سینیٹیشن) کے مطابق خاکروبوں کو معاشرے میں تضیحک آمیز ریوں کے ساتھ ساتھ ہیلتھ اور سوشل سیکیورٹی کی سہولیات جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔

    انتہائی کم اُجرت کے باوجود حفاظتی لباس اور آلات کے بغیر لوگوں کی غلاظت اور گندگی کو صاف کرنے والے خاکروب عام طور پر سانس اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور انھیں کوئی ہیلتھ انشورنس بھی نہیں دی جاتی۔

    ترقی پذیر ممالک میں صفائی کے کام سے وابسہ افراد سب سے زیادہ امتیازی اور استحصالی برتاؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ کئی بین لاقوامی تنظیمیں اس پیشے سے وابستہ افراد کی فلاح بہبود کے لیے سرگرم عمل بھی ہیں۔

  • اسکول میں صفائی کرنے والی خاتون برسوں بعد پرنسپل بن گئیں

    اسکول میں صفائی کرنے والی خاتون برسوں بعد پرنسپل بن گئیں

    ہر انسان کی زندگی معجزوں سے بھری پڑی ہے، بعض اوقات زندگی میں ایسے ایسے معجزے رونما ہوتے ہیں جو کسی انسان کی پوری زندگی بدل دیتے ہیں۔

    امریکی خاتون پام ٹلبرٹ کی زندگی بھی ایسا ہی ایک معجزہ لگتی ہے تاہم یہ معجزہ انہوں نے اپنی انتھک محنت، لگن اور جذبے سے کیا۔ امریکی ریاست لوزیانا کی یہ خاتون آج اس اسکول میں بطور اسسٹنٹ پرنسپل کام کر رہی ہیں جہاں کبھی وہ خاکروب کی ملازمت کیا کرتی تھیں۔

    پام نے لوزیانا کے ایک اسکول میں صفائی کرنے اور بس ڈرائیور کی ذمہ داری نبھائی، یہی نہیں وہ ایک مرض کی وجہ سے لکھنے اور پڑھنے میں بھی مشکلات کا شکار تھیں۔

    وہ بتاتی ہیں کہ بعض وفعہ وہ کوئی معمولی سا لفظ بھی نہیں پڑھ پاتی تھیں جس کے بعد وہ فرسٹریشن کا شکار ہو کر کئی گھنٹوں تک روتی رہتی تھیں۔

    پام نے اپنی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی تھی۔ جب ان کے یہاں بچوں کی پیدائش ہوئی تو پام نے بچوں کی کتابوں کے ذریعے پھر سے لکھنے پڑھنے سے اپنا رشتہ جوڑا۔

    انہی کتابوں کی وجہ سے وہ پھر سے پڑھنے کی جانب مائل ہوئیں اور اپنی تعلیم کا ادھورا سلسہ دوبارہ جوڑا۔ جلد ہی لوزیانا کی سدرن یونیورسٹی سے انہوں نے بیچلرز اور پھر ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرلی۔

    پھر اسی ادارے سے انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ پی ایچ ڈی بھی کرلیا۔

    پام اب اسی اسکول کی اسسٹنٹ پرنسپل بن چکی ہیں جہاں کبھی وہ صفائی کی ملازمت کیا کرتی تھیں۔ وہ اپنی زندگی کے بارے میں کہتی ہیں، ’معجزے رونما ہوتے ہیں، یقین نہیں آتا تو میری زندگی دیکھ لیں جو کسی معجزے سے کم نہیں‘۔

    وہ اپنے بچوں کی بھی بے حد شکر گزار ہیں جن کے حوصلہ دلانے کی وجہ سے ہی وہ آج اس مقام پر ہیں۔ ’میرے بچے میرے استاد ہیں، اگر وہ مجھے ہمت نہ دیتے تو میں آج یہاں نہ ہوتی‘۔