Tag: صفی لکھنوی

  • صفی لکھنوی: کلاسیکی دور کے ایک مقبول شاعر

    صفی لکھنوی: کلاسیکی دور کے ایک مقبول شاعر

    دبستانِ لکھنؤ کے صفی لکھنوی اردو کلاسیکی شاعری کے آخری اہم شعراء میں سے ایک تھے جو اپنے دور میں بے حد مقبول ہوئے۔ اس کا سبب ان کے کلام کی شیرینی، تنوع، لطافت اور سادہ طرزِ بیان بھی ہے۔ صفی لکھنوی 25 جون 1950ء کو وفات پا گئے تھے۔

    صفی لکھنوی کی شاعری اس وقت کے علم و ادب میں‌ ممتاز شہر لکھنؤ کی خاص فضا اور ماحول کی عکاس ہے۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا اور باذوق افراد اس شعر کو ابتدائے شوق ہی میں‌ پڑھ چکے ہوتے ہیں۔

    غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
    ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

    صفی لکھنوی جن کا اصل نام سید علی نقی زیدی تھا۔ وہ 3 جنوری 1862ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی سیکھی اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں‌ داخل ہوئے۔ امتحان پاس کرنے کے بعد 1879ء میں تدریس سے وابستہ ہوگئے۔ ان کا مضمون انگریزی تھا۔ بعد ازاں محکمہ دیوانی میں ملازم ہوئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔

    صفی نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور ہر صنفِ‌ سخن میں‌ خوب خوب لکھا۔ انھوں نے بلاشبہ اپنے فنِ‌ شاعری سے لکھنؤ کی بزمِ ادب کو رونق بخشی اور بطور شاعر ممتاز ہوئے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ صفی نے روایت و جمالیات کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کے عام شعری مزاج سے ہٹ کر شاعری کی، اور یہی ان کی انفرادیت و امتیاز ہے۔ مولانا حسرت موہانی جیسی علم و ادب میں ممتاز شخصیت انھیں ’مصلحِ طرزِ لکھنؤ‘ کہا کرتی تھی۔

    اگرچہ وہ دور غزل کی مقبولیت کا تھا، لیکن صفی نے غزل گوئی کے ساتھ بالخصوص نظم کو اپنی قوّتِ متخیّلہ سے اس طرح سجایا اور ایسے موضوعات پر کلام لکھا جن پر بہت کم شعرا توجہ دے رہے تھے۔ صفی لکھنوی نے اس دور میں قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔ غزل اور نظم کے علاوہ اردو شاعری کی رائج اصناف جیسے قصیدہ، رباعی اور مثنوی میں بھی صفی نے طبع آزمائی کی ہے۔

    صفی لکھنوی نے شعر و ادب کا وقیع سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔ یہاں ہم ان کی ایک غزل نقل کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئی تھی۔

    جانا، جانا جلدی کیا ہے؟ ان باتوں کو جانے دو
    ٹھہرو، ٹھہرو، دل تو ٹھہرے، مجھ کو ہوش میں آنے دو

    پانو نکالو خلوت سے، آئے جو قیامت آنے دو
    سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو

    بادل گرجا، بجلی چمکی، روئی شبنم، پھول ہنسے
    مرغِ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو

    ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر بھی شکن پیشانی پر
    موجِ صبا سے تم نہ بگڑو زلفوں کو بل کھانے دو

    کثرت سے جب نام و نشاں ہے کیا ہوں گے گم نام صفیؔ
    نقش دلوں پر نام ہے اپنا نقشِ لحد مٹ جانے دو

  • یومِ وفات: صفی لکھنوی کلاسیکی دور کے ممتاز اور مقبول شاعر تھے

    یومِ وفات: صفی لکھنوی کلاسیکی دور کے ممتاز اور مقبول شاعر تھے

    لکھنؤ کے دبستانِ شاعری میں صفی لکھنوی کا نام ان کے کلام کی شیرینی، تنوع، لطافت، شگفتگی اور سادگی کے سبب نمایاں‌ ہے اور ان کی شاعری لکھنؤ کی ادبی فضا اور ماحول کی عکاس ہے جو انھیں ہم عصر شعرا میں ممتاز کرتی ہے۔ صفی لکھنوی 24 جون 1950ء کو وفات پا گئے تھے۔

    صفی لکھنوی جن کا اصل نام سید علی نقی زیدی تھا۔ وہ 3 جنوری 1862ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی سیکھی اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں‌ داخل ہوئے۔ امتحان پاس کرنے کے بعد 1879ء میں تدریس سے وابستہ ہوگئے اور انگریزی پڑھانے پر مامور ہوئے۔ بعد ازاں محکمہ دیوانی میں ملازم ہوگئے اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

    صفی نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور لکھنؤ کی بزمِ ادب کو اپنے فن سے رونق بخشی۔ صفی نے لکھنؤ کے عام شعری مزاج سے ہٹ کر شاعری کی، جس نے انھیں منفرد اور نمایاں‌ شناخت دی۔ مولانا حسرت موہانی انھیں ’مصلحِ طرزِ لکھنؤ‘ کہا کرتے تھے۔

    صفی نے غزل کی عام روایت سے ہٹ کر نظم کو اپنی قوّتِ متخیّلہ سے سجایا اور قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاس ہیں۔ اس کے علاوہ قصیدہ، رباعی اور مثنوی جیسی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔

    صفی لکھنوی کو شاعری کے کلاسیکی دور کا آخری اہم اور مقبول شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے شعر و ادب کا بڑا وقیع سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    صفی لکھنوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    جانا، جانا جلدی کیا ہے؟ ان باتوں کو جانے دو
    ٹھہرو، ٹھہرو دل تو ٹھہرے، مجھ کو ہوش میں آنے دو

    پانو نکالو خلوت سے آئے جو قیامت آنے دو
    سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو

    بادل گرجا، بجلی چمکی، روئی شبنم، پھول ہنسے
    مرغِ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو

    ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر بھی شکن پیشانی پر
    موجِ صبا سے تم نہ بگڑو زلفوں کو بل کھانے دو

    کثرت سے جب نام و نشاں ہے کیا ہوں گے گم نام صفیؔ
    نقش دلوں پر نام ہے اپنا نقشِ لحد مٹ جانے دو