Tag: صلیبی جنگیں

  • صلیبی جنگوں کے فاتح صلاح الدین ایوبی نے آج مصرکی حکومت سنبھالی تھی

    صلیبی جنگوں کے فاتح صلاح الدین ایوبی نے آج مصرکی حکومت سنبھالی تھی

    اسلامی تاریخ کے دلیر ترین حاکم صلاح الدین ایوبی نے آج کے دن مصر کی امارت سنبھالی تھی، انہوں نے صلیبی جنگوں میں فتح حاصل کرکے یروشلم کو اسلامی حکومت میں شامل کیا تھا۔

    سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوئے تھے جو کہ اب عراق میں شامل ہے۔ شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس لشکر کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔

    مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 26 مارچ 1169 ء میں انہیں مصر کا حاکم مقرر کیا گیا تھا۔ اسی زمانے میں میں انہوں نے یمن بھی فتح کر لیا۔ سلطان نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد صلاح الدین زنگی خاندان کو ہٹا کر تخت نشین ہوئے۔

    مصر کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران میں صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔

    سنہ 1186ء میں مسیحیوں کے ایک ایسے ہی حملے میں رینالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر مسیحی امرا کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً رینالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے حطین میں اسے جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا۔

    اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار مسیحی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ۔

    ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد مسیحیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔اس فتح میں بیت المقدس پورے 88 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ انہوں نے مسجد اقصٰی میں داخل ہوکر نور الدین زنگی کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔ اس طرح نور الدین زنگی کی خواہش صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں پوری ہوئی۔

    سرخ رنگ صلاح الدین ایوبی کے مفتوحہ ممالک کی نشاندہی کررہا ہے

    جب بیت المقدس پر قبضے کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اورفرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی اپنی فوجیں لے کر فلسطین پہنچے۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔

    مسیحی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار مسیحی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔

    تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو مسیحیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور 500 مسیحی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی۔ وہ تمام مال اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔

    عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک مسیحیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔

    واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران میں سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔

    اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے مسیحیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے، صلیب اعظم ہنوز مسلمانوں کے ہی قبضے میں رہی ۔ رچرڈ شیردل، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جبکہ جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباً چھ لاکھ مسیحی ان جنگوں میں کام آئے۔

    مسجد امیہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کی آخری آرام گاہ

    صلاح الدین ایوبی 20 سال انتہائی شاندار فتوحات کے ساتھ 4 مارچ 1193 میں انتقال کر گئے تھے ۔ انہیں شام کے موجودہ دار الحکومت دمشق کی مسجد امیہ کے نواح میں سپرد خاک کیا گیا۔ ۔ مورخ ابن خلکان کے مطابق ان کی موت کا دن اتنا تکلیف دہ تھا کہ ایسا تکلیف دہ دن اسلام اور مسلمانوں پر خلفائے راشدین کی موت کے بعد کبھی نہیں آیا۔

    موجودہ دور کے ایک انگریز مورخ لین پول نے بھی سلطان کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھتا ہے کہ اس کے ہمعصر بادشاہوں اور ان میں ایک عجیب فرق تھا۔ بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کے سبب عزت پائی اور اس نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہردلعزیزی کی دولت کمائی۔صلاح الدین ایوبی کی قائم کردہ حکومت ان کے والد نجم الدین ایوب کے نامی پر ”ایوبی“ کہلاتی تھی تاہم ان کے جانشین اتنے اہل ثابت نہ ہوئے اور یورپ سے آنے والے صلیبی سیلاب کے سامنے طاقت ور بند کی طرح موجود اس حکومت کا شیرازہ بکھر گیا۔

  • آج عیسائیوں کی مقدس رومی سلطنت ختم ہوئی تھی

    آج عیسائیوں کی مقدس رومی سلطنت ختم ہوئی تھی

    کراچی (ویب ڈیسک) – قرون وسطیٰ میں یورپ اور بالخصوص مشرقی یورپ کے ایک بڑے خطے پر راج کرنے والی ’’مقدس رومی سلطنت‘‘ جو کہ 800 عیسویں میں نامور بادشاہ شارلیمن کی تاج پوشی سے قائم ہوئی تھی تقریباً ایک ہزار سال تک یورپ کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد 1806 میں فرانسیسی شہنشاہ نپولین بونا پارٹ کے ہاتھوں اختتام پذیر ہوئی۔

    عیسائیوں کی مقدس قومی سلطنت پوپ لیو سوم کی جانب سے شارلمین کی تاج پوشی کے ساتھ قائم ہوئی اور شارلمین کے انتقال کے بعد فرانسیسی سلطنت تین حصوں میں تقسیم ہوگئی جس کے ایک حصے مشرقی فرانکیا کے بادشاہ خود کو ’’مقدس رومی شہنشاہ‘‘ کہلواتے تھے۔

    مقدس رومی سلطنت کا نشان
    مقدس رومی سلطنت کا نشان

     

    ’’مقدس رومی شہنشاہ‘‘ کا باقاعدہ خطاب سب سے پہلے فریڈرک باربروسا نے اپنے لئے منتخب کیا جو 1152ء سے 1190ء تک تخت پر متمکن رہا۔ اسی حکمران نے اپنی مذہبی نظریات کی بنا پر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگیں شروع کیں تھیں۔

    سلطنت کے زیرِاثر رہنے والے قابل ِ ذکرملک آج جرمنی، آسٹریا، پولینڈ، جمہوریہ چیک فرانس، نیدرلینڈ،اٹلی اورسوئٹزرلینڈ کہلاتے ہیں۔

    سلطنِ عثمانیہ اور آسٹریا کے درمیان سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی جاری رہے والی جنگوں نے مقدس رومی سلطنت کو شدید ترین نقصان پہنچایا، یہاں تک کہ 1683 میں عثمانی فوجیں آسٹریا پر ایک فیصلہ کبن یلغار کرنے کے ارادے سے نکلیں اورآسٹریا کی حامی مقدس رومی سلطنت کے دارالحکومت’’ویانا‘‘ تک پہنچ گئیں تھیں لیکن اس وقت کے پولش حکمران ’’جان سیبوسکی‘‘ کی مداخلت کے باعث عثمانی فوجیں شکست سے دوچار ہوئیں۔

    سلطنت 1618ء سے 1648ء تک جاری جنگ تیس سالہ سے شدید متاثر ہوئی اور سلطنت کی تقریبا 30 فیصد آبادی اس جنگ میں کام آگئی۔

    سلطنت کا کبھی کوئی باقادہ دارالخلافہ نہیں رہا بلکہ وقت اور حالات کی ضرورت کے تحت مختلف شہرتوں کو دارالخلافہ قرار دیا جاتا رہا جن میں میونخ، پراگ اور ویانا قابل ذکرہیں۔

    تقریباً ایک ہزارئیے تک یورپ کی تاریخ میں کلیدی کردار ادا کرنے والی مقدس رومی سلطنت ستروھیں اور اٹھارویں صدی میں ہونے والی یورپ کی عظیم جنگوں کے باعث کمزور پڑنا شروع ہوگئی تھی۔ پرشیا نے سلطنت کے ایک اہم صوبے آسٹریا پر اپنا تسلط قائم کرلیا تھا اور جرمنی میں رومی شہنشاؤں کی قوت کمزور پڑ رہی تھی۔

    والٹیئر
    والٹیئر

     

    مشہورفرانسیسی فلسفی والٹئیر کا کہنا ہے کہ مقدس رومی سلطنت نہ تو کبھی مقدس تھی، نہ ہی رومی اورنہ ہی وہ کبھی باقاعدہ سلطنت تھی۔

    بالاخر چھ اگست 1806 کو فرانس کے شہنشاہ اور عظیم فاتح نپولین بونا پارٹ نے ’’مقدس رومی سلطنت‘‘ کا باقاعدہ خاتمہ کردیا۔