Tag: صنفی امتیاز

  • سوئٹزر لینڈ میں صنفی تفریق کے خلاف ہزاروں خواتین کی ملک گیر ہڑتال

    سوئٹزر لینڈ میں صنفی تفریق کے خلاف ہزاروں خواتین کی ملک گیر ہڑتال

    برن: سوئٹزر لینڈ میں لاکھوں خواتین کم معاوضوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔ سوئٹزر لینڈ میں اس وقت خواتین کو مردوں کے مقابلے میں 20 فیصد کم معاوضے دیے جارہے ہیں۔

    خواتین کی جانب سے دی گئی ملک گیر ہڑتال کی کال پر مختلف شہروں میں دفتری اوقات کے دوران مظاہرے ہوئے اور خواتین نے کام چھوڑ کر کم معاوضوں کے خلاف احتجاج کیا۔

    اس دن کو سوئٹزر لینڈ میں ہی سنہ 1991 میں کیے جانے والے مظاہرے کے 28 برس بھی مکمل ہوگئے جس کے بعد حکام صنفی مساوات کا ایکٹ تیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس ایکٹ کے تحت خواتین کو صنفی تفریق اور جنسی حملوں کے خلاف قانونی تحفظ حاصل ہوگیا۔

    صنفی مساوات کے حوالے سے سوئٹزر لینڈ کسی مثالی پوزیشن پر نہیں، یہاں خواتین کو ووٹ دینے کا حق سنہ 1971 میں دیا گیا تھا۔

    مظاہرے میں شریک ایک خاتون کا کہنا تھا، ’یہ آج کے دور میں بھی ایک قدامت پسند ملک ہے، کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ہمیں ووٹ دینے کے لیے 70 کی دہائی تک انتظار کرنا پڑا‘۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ سوئٹزر لینڈ میں عدم مساوات کئی مغربی یورپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کی ہر سال جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق سوئٹزر لینڈ صنفی عدم مساوات میں عالمی درجہ بندی میں 20 ویں پوزیشن پر ہے۔

  • بچے کی پیدائش سے قبل والدین کو جنس بتانے پر پابندی کے لیے بل پر کام شروع

    بچے کی پیدائش سے قبل والدین کو جنس بتانے پر پابندی کے لیے بل پر کام شروع

    لاہور: پنجاب حکومت نے صوبے میں جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل کے بڑھتے واقعات روکنے کے لیے قانون سازی کافیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے اسقاط حمل کے واقعات پر قابو پانے کے لیے غور شروع کر دیا ہے، اس سلسلے میں صوبائی سطح پر قانون سازی کی جائے گی۔

    [bs-quote quote=”جینڈر امبیلنس کا خطرہ لا حق ہو سکتا ہے، جس سے نمٹنے کے پیشِ نظر قانون سازی ضروری ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”وزیرِ صحت”][/bs-quote]

    قانون سازی کے مطابق پیدائش سے پہلے والدین کو بچے کی جنس بتانے پر پابندی عائد ہوگی۔

    صوبائی وزیرِ صحت یاسمین راشد نے اس سلسلے میں منعقدہ ایک اجلاس میں کہا کہ اب 3 ماہ سے بھی پہلے بچے کی جنس کا تعین ممکن ہو چکا ہے۔

    یاسمین راشد نے کہا کہ طب کے شعبے میں اس ایڈوانسمنٹ کے باعث بیٹوں کے خواہش مند والدین بیٹی کامعلوم ہوتے ہی اسقاط حمل کی کوشش کرتے ہیں۔

    صوبائی وزیرِ صحت کا کہنا تھا کہ اس طرزِ عمل سے جینڈر امبیلنس کا خطرہ لا حق ہو سکتا ہے، جس سے نمٹنے کے پیشِ نظر قانون سازی ضروری ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  صحت کی بہترین سہولیات کیلئے پبلک ہیلتھ مینجمنٹ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ


    صوبائی وزیرِ صحت یاسمین راشد نے مزید بتایا کہ پنجاب میں اس سلسلے میں قانون سازی کے لیے بل لانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے، قانون بننے کے بعد والدین کو بچے کی جنس بتانا قانونی طور پر جرم ہو جائے گا۔

    خیال رہے کہ قانون لانے کا مقصد بچی ہونے کی صورت میں اسقاط حمل کرانے کے قابلِ مذمت رجحان کا خاتمہ ہے، اسلام خواتین کو برابر کے حقوق دیتا ہے، یہ قانون صنفی امتیاز کے خاتمے کی طرف ایک اہم قدم ہوگا۔

  • سوئٹزرلینڈ میں صنفی امتیاز، خواتین کا یکساں اجرت نہ ملنے پر احتجاج

    سوئٹزرلینڈ میں صنفی امتیاز، خواتین کا یکساں اجرت نہ ملنے پر احتجاج

    برن : سوئٹزرلینڈ میں صنفی امیتاز کی بنا پر کم تنخواہ ملنے پر 20 ہزار سے زائد افراد پارلیمنٹ ہاوس کے باہر احتجاج کررہے ہیں، مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے ہیں جن پر ’یکساں تنخواہ‘ کے نعرے درج ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق یورپی ملک سوئٹزرلینڈ میں صنفی امیتاز کی بنیادوں پر تنخواہوں کی ادائیگی کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں صنف نازک نے دارالحکومت برن میں واقع پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے صنفی امیتاز کو ختم کرکے خواتین اور مردوں کو یکساں اجرت دینے کا مطالبہ کیا۔

    یورپی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ خواتین کو مردوں سے کم تنخواہ دئیے جانے پر 40 مزدور یونینز کے اراکین نے احتجاجی مارچ میں شرکت جن کی تعداد 20 ہزار سے زائد تھی۔

    مزدور یونین ’یونیا‘ کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ ’خواتین ملازمین صنفی بنیادوں پر مردوں سے کم تنخواہ ملنے پر نالاں ہیں‘۔

    مقامی میڈیا کے مطابق 40 مزدور یونینز نے مشترکا بیان میں کہا کہ ہزاروں ملازمین کا مطالبی ہے کہ قانون ساز افراد ایک جیسی ملازمت کرنے والے افراد کو اجرت کی ادائیگی بھی برابری سے کرے۔

    مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے ہاتھوں میں پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر ’یکساں تنخواہ‘ کے نعرے تحریر تھے۔

    یورپی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ سوئٹزرلینڈ میں سنہ 1981 سے صنفی برابری کا قانون نافذ ہے تاہم اس کے باوجود خواتین کو مردوں سے 20 فیصد کم تنخواہ دی جاتی ہے۔

    یونیا کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر کورین اسکارر کا کہنا تھا کہ ’ سوئٹزرلینڈ میں ایک ہی شعبے میں ملازمت کرنے والے مرد و خواتین کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ خواتین کو 3 لاکھ سوئس فرانک کا دھوکا دیا جاتا ہے کیونکہ وہ خاتون ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ رواں سال 9 جنوری کو انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی ’گوگل‘ کے خلاف سابق ملازمین مرد و خواتین نے الگ الگ قانونی مقدمات دائر کرتے ہوئے کمپنی پر امتیازی سلوک کا الزام عائد کیا تھا۔

    خواتین کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں ادارے پر خواتین کے مقابلے میں مردوں کو زیادہ تنخواہیں دینے کا الزام عائد گیا تھا۔

    برطانوی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق گوگل پر خواتین نے ابتدائی طور پر ستمبر 2017 میں مقدمہ دائر کیا تھا۔

  • افغانستان میں پتلی تماشوں کے ذریعے خواتین کی تعلیم کے فروغ کی کوشش

    افغانستان میں پتلی تماشوں کے ذریعے خواتین کی تعلیم کے فروغ کی کوشش

    آپ کو سیسم اسٹریٹ نامی امریکی ٹی وی شو تو ضرور یاد ہوگا جس میں پیش کیے جانے والے مختلف پتلے مختلف کرداروں کی صورت میں مزے مزے کی باتیں کرتے تھے۔

    اب ایسا ہی ایک ٹی وی شو افغانستان میں بھی پیش کیا جارہا ہے جس کے ذریعے ملک میں خواتین کی تعلیم اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    افغان سیسم اسٹریٹ میں نارنجی رنگ کا زیرک نامی پتلا اپنی بڑی بہن کا بے حد خیال رکھتا ہے جو تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

    گزشتہ سال سے شروع کیے جانے والے اس شو کو نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا بھر میں بے حد مقبولیت مل رہی ہے۔

    شو میں ایک چھوٹی بچی زری کو مرکزی کردار بنایا گیا ہے جو تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ اب اس میں اس کے چھوٹے بھائی 4 سال کے زیرک کو بھی شامل کیا گیا ہے اپنی بڑی بہن سے بے حد متاثر ہے اور اس کی طرح تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔

    دونوں کردار افغانستان کے روایتی پہناووں میں ملبوس ہیں۔

    افغانستان کے ٹولو ٹی وی، جہاں سے یہ پروگرام نشر کیا جاتا ہے، کے سربراہ مسعود سنجر کا کہنا ہے کہ یہ پتلے چھوٹے بچوں کی ذہن سازی کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے کہ وہ اپنی بہنوں سے محبت کریں اور تعلیم حاصل کرنے کو برا نہ سمجھیں۔

    ان کی ٹیم نے پروگرام سے متعلق ایک سروے کیا جس سے پتہ چلا کہ وہ بچے اور والدین جن کے پاس ٹی وی کی سہولت موجود ہے، ان کی 80 فیصد تعداد اس پروگرام کو نہایت شوق سے دیکھتی ہے۔

    سنجر کے مطابق یہ پتلے بچوں کو اس بات کا شعور دیں گے کہ وہ عام افغان روایات کے برعکس خواتین اور ان کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں۔

    سماجی رویوں میں تبدیلی

    اس ٹی وی شو کے مرکزی خیال میں اہم مقصد کے ساتھ ساتھ اس کی باریکیوں میں بھی اصلاح کا پہلو رکھا گیا ہے۔

    پروگرام کا مرکزی کردار زیرک جو ایک چھوٹا سا بچہ ہے، چشمے کا استعمال کرتا ہے۔ شو کی پروڈیوسر وجیہہ سیدی کے مطابق اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ افغان معاشرے میں چھوٹے بچوں کا چشمہ پہننا ایک شرمندگی کی بات سمجھی جاتی ہے۔

    وجیہہ کے مطابق اس شو کے ذریعے وہ اس رویے کو ختم کرنا چاہتی ہیں اور بتانا چاہتی ہیں کہ چشمہ پہننا ایک عام بات ہے۔

    افغان معاشرے میں تبدیلی لانے کا عزم لیے یہ شو صرف ٹی وی پر ہی نہیں بلکہ ریڈیو پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

    علاوہ ازیں شو کی ٹیم نے ایک موبائل تھیٹر بھی تشکیل دیا ہے جو افغانستان کے دور دراز دیہاتوں میں جا کر وہاں کے بچوں کو یہ پتلی تماشہ دکھاتا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صنفی امتیاز پر مبنی سوال پر ٹینس کھلاڑی نے صحافی کو ٹوک دیا

    صنفی امتیاز پر مبنی سوال پر ٹینس کھلاڑی نے صحافی کو ٹوک دیا

    معروف ٹینس کھلاڑی اینڈی مرے نے صنفی امتیاز پر مبنی سوال پر صحافی کو ٹوک کر اس کی تصحیح کر ڈالی۔

    برطانیہ میں جاری گرینڈ سلیم ایونٹ ومبلڈن 2017 کے کوارٹر فائنل میں ٹینس کے صف اول کے برطانوی کھلاڑی اینڈی مرے کو امریکی کھلاڑی سیم کوئیری سے شکست کھانی پڑی۔

    میچ کے بعد پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ سیم کوئیری پہلے امریکی کھلاڑی ہیں جو کسی گرینڈ سلیم ایونٹ کے سیمی فائنل میں پہنچے ہیں، اس بارے میں مرے کا کیا خیال ہے؟

    صحافی کے سوال کے دوران ہی اینڈی مرے نے ان کی بات کاٹ کر تصحیح کی، ’پہلے مرد کھلاڑی‘۔

    ان کے ٹوکنے کے بعد صحافی نے تصحیح کرتے ہوئے دوبارہ اپنے سوال کو دہرایا۔

    یاد رہے کہ امریکی کھلاڑی سرینا ولیمز خواتین ٹینس کھلاڑیوں میں صف اول کی کھلاڑی ہیں اور وہ سنہ 2009 سے اب تک 12 گرینڈ سلیم جیت چکی ہیں لیکن صحافی غالباً ان کی فتوحات کو بھول گیا۔

    اینڈی مرے کے اس جواب کے بعد سرینا ولیمز نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

    ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، ’غالباً اس وقت کوئی بھی خاتون کھلاڑی ایسی نہیں ہونی چاہیئے جو اینڈی مرے کی حمایت نہ کرے‘۔

    انہوں نے کہا کہ اینڈی مرے نے ہمیشہ سے ٹینس میں خواتین کے حقوق کی بات کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم سب ان سے محبت کرتے ہیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صنفی امتیاز سے بچانے والا لفظ

    صنفی امتیاز سے بچانے والا لفظ

    لندن: برطانیہ کی قدیم ترین آکسفورڈ یونیورسٹی نے مختلف صنف کے افراد کو خفت اور مشکل سے بچانے کے لیے فیصلہ کیا ہے کہ یونیورسٹی کے اندر طلبا اپنی گفتگو اور پڑھائی میں ’ہی‘ اور ’شی‘ کے بجائے متبادل لفظ ’زی‘ استعمال کریں گے۔

    یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں مروج ضابطے کے مطابق کسی شخص کو اس کی مقابل جنس (لڑکی کو لڑکا، یا لڑکے کو لڑکی) سے پکارا جانا معیوب بات ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کی عظیم درسگاہ آکسفورڈ کی سیر کریں

    غیر ملکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے سے طلبا پر امید ہیں کہ درسگاہ میں لیکچرز اور سیمینارز کے دوران لفظ ’زی‘ کا استعمال کیا جائے گا تاکہ کسی بھی جنس کے افراد کی دل آزاری نہ ہو۔

    یونیورسٹی میں تیسری جنس کے حقوق کے لیے سرگرم گروہوں کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا تعلق سیاسیات یا آزادی اظہار سے نہیں ہے، بلکہ یہ ہر جنس کے افراد کی حقیقت اور ان کے حقوق کو تسلیم کرنے کی طرف ایک قدم ہے۔

    یونیورسٹی نے یہ فیصلہ نہ صرف تیسری جنس کے افراد کے لیے کیا ہے، بلکہ اسے کرتے ہوئے ان افراد کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے جو وقت کے ساتھ اپنی مرضی یا طبی وجوہات کی بنا پر اپنی جنس تبدیل کروا لیتے ہیں۔

  • پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول: پاکستان کتنا کامیاب ہے؟

    پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول: پاکستان کتنا کامیاب ہے؟

    آج اقوام متحدہ کا دن منایا جارہا ہے۔ آج سے 71 سال قبل آج ہی کے دن اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا منشور نافذ العمل کیا گیا۔

    رواں برس یہ دن پائیدار ترقیاتی اہداف کے نام کیا گیا ہے۔ نئی صدی کے آغاز میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز مقرر کیے تھے جن کی مدت 2001 سے 2015 تک تھی۔

    یہ مدت ختم ہونے کے بعد گزشتہ برس سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا۔ اب یہ تمام شعبوں اور اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    ان اہداف کو انگریزی حرف تہجی کے 5 ’پیز‘ میں تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ ان اہداف کی تکمیل میں آسانی ہو۔ یہ ’پیز‘ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک پر مشتمل ہیں۔

    اس میں کل 17 اہداف شامل ہیں جن میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے۔ دیگر اہداف یہ ہیں۔

    بھوک کا خاتمہ

    بہتر صحت

    معیاری تعلیم

    صنفی برابری

    پینے اور صفائی کے لیے پانی کی فراہمی

    قابل برداشت اور صاف توانائی کے ذرائع

    باعزت روزگار اور معاشی ترقی

    صنعتوں، ایجادات اور انفراسٹرکچر کا فروغ اور قیام

    ہر قسم کے امتیاز کا خاتمہ

    sdg
    پائیدار شہری ترقی

    اشیا کا ذمہ دارانہ استعمال

    موسمیاتی (بہتری کے لیے کیا جانے والا) عمل

    آبی حیات کا تحفظ

    زمین پر پائی جانے والی حیات (درخت، جانور، پرندے) کا تحفظ

    امن، انصاف اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اقدامات

    اہداف کی تکمیل کے لیے عالمی تعاون

    آج کے دن کا مقصد عام لوگوں میں ان تمام اہداف کے بارے میں آگاہی اور حکومتوں پر ان کی تکمیل کے لیے زور دینا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان کو ان اہداف کی تکمیل کے لیے خطیر سرمایے، ان تھک محنت اور خلوص نیت کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔

    اگر صرف پہلا ہدف یعنی غربت کا خاتمہ دیکھا جائے تو پاکستان اب تک اس کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں بری طرح ناکام ہے اور ملک کی 38 فیصد سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے۔

    یہی حال تعلیم کا ہے۔ پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔

    اسی طرح پاکستان کے نوجوان، جو کہ ملک کی آبادی کا 63 فیصد ہیں، میں سے نصف بے روزگار ہیں جو باعزت روزگار اور معاشی ترقی کے ہدف میں ہماری ناکامی کا ثبوت ہیں۔

    صنفی امتیاز میں بھی پاکستان بہت آگے ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق پاکستان صنفی امتیاز کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے جہاں صنفی بنیادوں پر تفریق اپنے عروج پر ہے۔

    جہاں تک بات ماحولیات اور جنگلی و آبی حیات کے تحفظ کی ہے، خوش قسمتی سے پاکستان ان ممالک میں تو شامل نہیں جو زہریلی اور مضر صحت گیسوں کا اخراج کر کے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کر رہے ہیں، البتہ ان 12 ممالک میں ضرور شامل ہے جو اس اضافے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت پر پڑھیں تفصیلی رپورٹ

    ملک میں جنگلی حیات کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں تاہم ملک میں سرگرم عمل عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات آئی یو اسی این، ڈبلیو ڈبلیو ایف اور حکومتی کوششوں سے اس شعبہ میں کچھ بہتری نظر آتی ہے۔