Tag: صنفی تفریق

  • پاکستان میں صنفی مساوات کی پوزیشن، صدر پاکستان کو تشویش

    پاکستان میں صنفی مساوات کی پوزیشن، صدر پاکستان کو تشویش

    خواتین کے حقوق کے حوالے سے جاری کردہ عالمی فہرست میں پاکستان کی خراب رینکنگ پر صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے میں مؤثر اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم (ورلڈ اکنامک فورم) نے گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018 جاری کردی جس میں پاکستان کو 149 ممالک کی فہرست میں 148 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔

    پاکستان جنوبی ایشیا کے دیگر تمام ممالک میں بھی آخری نمبر پر ہے۔

    سنہ 2006 سے مرتب کی جانے والی اس رپورٹ کا انحصار کسی ملک میں خواتین کو میسر تعلیم اور صحت کی سہولیات، اقتصادی مواقعوں اور سیاسی اختیارات کی فراہمی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی 44.3 فیصد ہے جبکہ اس کی نسبت مردوں میں 69.1 فیصد ہے۔ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.6 فیصد ہے۔

    صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے صدارتی ٹویٹر اکاؤنٹ پر رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، انہوں نے حکام، مجلس مقننہ، اور عدلیہ سے اس صورتحال کی طرف توجہ دینے کی اپیل کی۔

    فہرست میں پہلے نمبر پر آئس لینڈ ہے جہاں دنیا میں سب سے زیادہ صنفی مساوات ہے۔

  • ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    نیویارک: سابق امریکی سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن کا کہنا ہے گزشتہ برس ان کی انتخابی مہم کو ناکام بنانے میں اس رویے کا بہت بڑا ہاتھ تھا جس میں خواتین کو نفرت اور تعصب کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

    سنہ 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد پہلی بار دیے جانے والے انٹرویو میں ہیلری کلنٹن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکی ابھی تک ایک خاتون کو بطور صدر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

    انہوں نے کہا، ’پہلی خاتون صدر کا تصور بہت سے افراد کے لیے ایک پرجوش اور خوش کن تصور ہوگا، لیکن زیادہ تر افراد اس سے خوفزدہ تھے‘۔

    hilary-2

    نیویارک میں جاری وومین ان دا ورلڈ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’امریکی صدارتی انتخاب میں خواتین سے نفرت کے رویے نے اہم کردار ادا کیا، اور ہمیں اس بات کو تسلیم کرنا ہوگا‘۔

    ہیلری کا کہنا تھا کہ وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کس طرح ایسی پالیسیاں بنا رہی ہے جو ہزاروں لوگوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ یہ پالیسیاں خصوصاً دنیا بھر کی خواتین کے حقوق کے لیے خطرہ ہیں۔

    انہوں نے کہا، ’خواتین کو تعصب اور نفرت کا نشانہ بنانے کا رجحان جو آج کل جاری ہے، اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کسی کے سیاسی ایجنڈے میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔ یہ صرف ذاتی عمل ہے۔ ہم جتنا خواتین کی حمایت کریں گے اتنا ہی جمہوریت مضبوط ہوگی‘۔

    مزید پڑھیں: وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق

    سابق خاتون اول کا کہنا تھا کہ ان کا مزید کسی انتخاب لینے کا کوئی ارادہ نہیں تاہم وہ ایک کتاب لکھنے جارہی ہیں جس میں وہ ان محرکات پر روشنی ڈالیں گی جن کے باعث وہ امریکا کی پہلی خاتون صدر بننے سے رہ گئیں۔

    وہ کہتی ہیں، ’یہ کتاب ان 6 کروڑ سے زائد افراد کے لیے لکھی جارہی ہے جنہوں نے مجھے ووٹ دیا‘۔

    ہیلری کلنٹن امریکی خاتون اول رہنے کے ساتھ اوباما انتظامیہ میں سیکریٹری خارجہ بھی رہ چکی ہیں۔ وہ اس سے قبل بھی بارک اوباما کے مدمقابل بطور صدارتی امیدوار کھڑے ہونے کا ارادہ رکھتی تھیں تاہم اس وقت ڈیمو کریٹک پارٹی نے اوباما کو اپنا امیدوار منتخب کیا۔

    مزید پڑھیں: امریکا کی فیشن ایبل خواتین اول

    گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں ہیلری کلنٹن ایک بار پھر ٹرمپ سے شکست کھا گئیں اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں صدر منتخب ہوگئے۔

  • وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق سے کیسے چھٹکارہ پایا گیا؟

    دنیا میں خواتین کی آبادی لگ بھگ مردوں کے برابر ہو چکی ہے، اس کے باوجود آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کو صنفی تفریق کا سامنا ہے۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں یہ عدم مساوات خواتین کے خلاف بڑے بڑے سنگین جرائم کا سبب ہے اور انہیں روکنے میں حکومتیں اور عدالتیں بھی ناکام ہیں۔

    ترقی یافتہ ممالک میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال پائی جاتی ہے۔ یہاں خواتین کو جان کا تحفظ تو حاصل ہے لیکن عملی میدان میں انہیں وہ مواقع حاصل نہیں جو مردوں کو حاصل ہیں یا یوں کہہ لیں کہ مردوں کے مقابلے میں انہیں کم باصلاحیت خیال کیا جاتا ہے۔

    ایک عام مشاہدہ یہ ہے کہ اکثر دفاتر میں مختلف چیلنجنگ ٹاسک کے لیے پہلے مرد ملازمین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ خواتین کی باری اس وقت آتی ہے جب کم از کم 2 سے 3 مرد ملازمین اس کام کو کرنے سے انکار کرچکے ہوں۔

    اسی طرح دفاتر میں خواتین کے آئیڈیاز اور تجاویز کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اس موقع پر بعض مرد ملازمین ان کی تجاویز کو اپنی طرف سے پیش کر کے مالکان سے داد وصول کرلیتے ہیں اور اس آئیڈیے کی خالق خاتون حیران پریشان رہ جاتی ہے۔

    یہی نہیں اکثر شعبوں میں خواتین تنخواہوں اور دیگر سہولیات کے معاملے میں بھی مردوں کی ہم صلاحیت ہونے کے باوجود ان سے پیچھے ہیں۔

    اقوام متحدہ خواتین (یو این وومین) مختلف حکومتوں پر زور دے رہی ہے کہ کام کرنے والی خواتین کی تنخواہیں اتنی ہی ہونی چاہئیں جتنی مردوں کی ہیں۔ یہ مہم ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن کی سربراہی میں چلائی جارہی ہے۔

    کام کرنے کی جگہوں پر خواتین مساوات کیسے حاصل کرسکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خواتین ہی ایک دوسرے کو ان کے حقوق دلا سکتی ہیں۔ اگر دفاتر میں کسی خاتون کے ساتھ صنفی تفریق کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تو خواتین ایک دوسرے کی حمایت کرکے اور آپس میں متحد ہو کر اس رویے کے خلاف آواز اٹھا سکتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: فرانس کی خاتون وزرا کا شوقین مزاج مرد سیاست دانوں کے خلاف محاذ

    تاہم اس کی ایک عمدہ مثال وائٹ ہاؤس میں دیکھنے میں آئی۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ امریکا جیسے ملک میں بھی صںفی تفریق پائی جاتی ہے جہاں اس کا تصور بھی محال لگتا ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکی صدارتی محل یعنی وائٹ ہاؤس تک میں خواتین ملازمین صنفی تفریق کا شکار ہیں۔

    وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک خاتون جولیٹ ایلپرن نے ایک غیر ملکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ کس طرح وہاں موجود خواتین نے صنفی تفریق کا مقابلہ کیا۔ ان کے مطابق صدر اوباما کے دور صدارت سے قبل وائٹ ہاؤس میں صنفی تفریق اپنے عروج پر تھی۔

    مزید پڑھیں: صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    وہ بتاتی ہیں، ’وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک تہائی سے زائد عملہ مردوں پر مشتمل تھا۔ خواتین جب میٹنگز میں اپنی تجاویز پیش کرتیں تو انہیں نظر انداز کردیا جاتا۔ وہ جب بات کرنے کی کوشش کرتیں تو ان کی بات کو کاٹ دیا جاتا۔ اکثر اوقات خواتین کی جانب سے پیش کیے گئے آئیڈیاز کو نظر انداز کردیا گیا اور تھوڑی دیر بعد کسی مرد نے انہیں اپنا آئیڈیا بنا کر پیش کردیا جس کے بعد میٹنگ روم تالیوں سے گونج اٹھتا‘۔

    جولیٹ کے مطابق اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے وائٹ ہاؤس کی تمام خواتین نے ایک حکمت عملی ترتیب دی اور اس پر عمل کرنا شروع کیا۔ میٹنگ میں جب کوئی خاتون کوئی مشورہ یا تجویز پیش کرتیں تو دیگر تمام خواتین اپنی باری پر اس نکتہ کو بار بار دہراتیں اور اس خاتون کا نام لیتیں جنہوں نے یہ نکتہ پیش کیا ہوتا۔

    اس سے میٹنگ میں موجود مرد عہدیداران نے مجبوراً ان کی بات پر توجہ دینی شروع کردی۔ خواتین کی اس حکمت عملی سے یہ فائدہ بھی ہوا کہ مردوں نے ان کے آئیڈیاز کو چرا کر انہیں اپنے نام سے پیش کرنا چھوڑ دیا۔

    جولیٹ کا کہنا تھا، ’آہستہ آہستہ چیزیں تبدیل ہونا شروع ہوگئیں۔ اس صورتحال کو صدر اوباما نے بھی محسوس کرلیا اور وہ مرد عہدیداران کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ اہمیت دینے لگے‘۔

    خیال رہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق صدر باراک اوباما وہ پہلے صدر ہیں جو صنفی مساوات کے قائل ہیں۔ ان کی انتظامیہ کو امریکی تاریخ کی سب سے متنوع انتظامیہ کہا جاتا ہے جس میں خواتین اور سیاہ فام افراد شامل ہیں اور یہ افراد اعلیٰ عہدوں پر بھی تعینات ہیں۔

     مزید پڑھیں: فٹبال کے ذریعے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ۔ افغانستان کی خالدہ پوپل

    جولیٹ بتاتی ہیں کہ جب صدر اوباما کا دوسرا دور صدارت شروع ہوا تو خواتین کو بھی مردوں کے برابر اہمیت دی جانے لگی اور میٹنگز کے دوران مرد و خواتین دونوں کو بولنے کا یکساں وقت دیا جانے لگا۔

    جولیٹ کے مطابق یہ تکنیک ہر جگہ استعمال کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اپنی شناخت منوانے کے لیے خواتین کو خود متحد ہونا پڑے گا اور جب تک وہ آپس میں متحد ہو کر اپنے جائز حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گی، تب تک ہمیں اکیسویں صدی میں بھی صنفی تفریق کا سامنا کرنا پڑے گا۔

  • ڈزنی شہزادیاں صنفی تفریق کو فروغ دینے کا باعث

    ڈزنی شہزادیاں صنفی تفریق کو فروغ دینے کا باعث

    واشنگٹن: امریکی ریاست اوٹاہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ڈزنی کی کارٹون کریکٹرز والی شہزادیاں بچوں میں صنفی تفریق کے حوالے سے مخصوص تصورات پیدا کر رہی ہیں جنیں آج کے دور میں دقیانوسی کہا جاسکتا ہے۔

    یہ تحقیق ایک آن لائن جریدے ’چائلڈ ڈویلپمنٹ‘ میں شائع ہوئی۔ تحقیق میں گھریلو زندگی کے متعلق معلومات کے پروفیسرز نے حصہ لیا۔

    d1

    تحقیق سے پتہ چلا کہ ڈزنی شہزادیوں کی کارٹون دیکھنے والے یا ان کی گڑیوں سے کھیلنے والوں بچوں میں مخصوص تصورات جگہ بنالیتے ہیں جو آگے چل کر ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔

    مثال کے طور پر جب لڑکے ان گڑیوں سے کھیلتے یا ان کے کارٹون دیکھتے ہیں تو ان کا اس بات پر راسخ یقین ہوجاتا ہے کہ کھانے پینے کے برتن، اور گڑیاں وغیرہ صرف لڑکیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

    d3

    جبکہ لڑکیوں میں اعتماد کی کمی ہوجاتی ہے اور وہ خود بخود ہی یہ ماننے لگتی ہیں کہ وہ کچھ نہیں کر سکتیں، سائنس یا میتھ نہیں پڑھ سکتیں، یا لڑکوں کی طرح نئے تجربات نہیں کر سکتیں۔

    ماہرین نے کم عمری میں ہی پیدا ہوجانے والے ان تصورات کو خطرناک قرار دیا۔

    d4

    اوٹاہ کی بریگھم ینگ یونیورسٹی کی پروفیسر سارہ کوئین نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’آج کے دور میں جبکہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں اور خواتین کے حقوق کے لیے ہم مردوں کو ان کے تصورات بدلنے پر زور دے رہے ہیں، یہ کارٹون کریکٹرز ایک خطرناک رخ کی نشاندہی کر رہے ہیں‘۔

    d5

    انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے تصورات مستقبل میں خواتین کی خود مختاری کے لیے مشکلات پید اکرسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف خواتین متاثر ہوں گی بلکہ وہ مرد بھی متاثر ہوں گے جو ایسے تصورات رکھتے ہیں، کیونکہ یہ خیالات ان کی سوچ کو محدود کردیں گے اور ان کی اپنی ترقی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوں گے۔

    d2

    پروفیسر سارہ کے مطابق لڑکیاں بچپن میں ان کرداروں کو اپنا رول ماڈل ماننے لگتی ہیں اور یہ آگے چل کر ان کی ترقی و خود مختاری کو نقصان پہنچائے گا۔