Tag: صورتحال

  • صورتحال واضح‌ ہونے تک نقاب لینے سے پرہیز کریں، سری لنکن علماء

    صورتحال واضح‌ ہونے تک نقاب لینے سے پرہیز کریں، سری لنکن علماء

    کولمبو: سری لنکا میں علماء نے مسلم خواتین سے کہا ہے کہ وہ اس وقت تک نقاب لینے یا چہرے کا پردہ کرنے سے گریز کریں جب تک حکومت کی طرف سے صورتحال کی وضاحت نہیں کر دی جاتی۔

    تفصیلات کے مطابق سری لنکن علماءنے خواتین سے کہا کہ ملک میں ایمرجنسی کے خاتمے کے بعد چہرے کا نقاب لینے کا سلسلہ فوری طور پر شروع نہ کریں بلکہ اس وقت تک انتظار کریں جب تک حکومت کی طرف سے اس بارے میں صورتحال واضح نہیں کر دی جاتی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ان علماءکو خدشہ ہے کہ کہیں مسلم خواتین کو دوبارہ نشانہ بنانے کا سلسلہ نہ شروع ہو جائے۔

    سری لنکا میں مسلم علماءکے سب سے بڑے پلیٹ فارم آل سیلون جمیعت العلماءکے ترجمان فاضل فاروق نے بتایا کہ مسلم خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ چہرے کا پردہ کرنے کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے میں جلد بازی نہ کریں۔

    فاروق کے مطابق حکومتی پابندی کے بعد بعض خواتین نے چہرے کے نقاب کے بغیر باہر نکلنے کا سلسلہ ہی ختم کر دیا تھا کیونکہ وہ اس کی عادی ہو چکی ہیں۔

    فاضل فاروق کے مطابق علماءنے خواتین سے کہا کہ وہ پرسکون رہیں اور اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ماضی میں کیا ہو چکا ہے اور نسل پرست عناصر کو صورتحال دوبارہ خراب کرنے کا موقع نہ دیں۔

  • بھارتی سماجی کارکنوں‌ کا دورہ مقبوضہ کشمیر، صورتحال جہنم قرار

    بھارتی سماجی کارکنوں‌ کا دورہ مقبوضہ کشمیر، صورتحال جہنم قرار

    نئی دہلی : بھارتی سماجی کارکنوں نے دورہ کشمیر کے بعد مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو دوبارہ بحال کرنے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی سماجی کارکنوں نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کے بعد وہاں کی صورتحال کو جہنم جیسا قرار دیدیا۔

    بھارتی سماجی کارکنوں اور بائیں بازو کی تنظیموں کے ارکان کے ایک گروپ نے 9 سے 13 اگست تک کرفیو زدہ مقبوضہ کشمیر کا 5 روزہ دورہ کیا، اس گروپ میں ماہر معیشت ڑان دریز، نیشنل ایلائنز آف پیپلز موومنٹ کے ویمل بھائی، سی پی آئی ایم ایل پارٹی کی کویتا کرشنن اور ایپوا کی میمونا ملاہ شامل تھیں۔

    کشمیر سے واپسی کے بعد انہوں نے نئی دہلی میں پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کی اور کشمیر کی صورتحال پر اپنے مشاہدے پیش کیے۔

    انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کو دوبارہ بحال کرنے کا پرزور مطالبہ کیا۔

    سماجی کارکن کویتا کرشنن نے کہا کہ ہندوستانی میڈیا کی خبروں کے برخلاف کشمیر کی صورتحال“بالکل معمولی نہیں ”ہے، کشمیریوں میں قید اور جیل میں رہنے کا احساس موجود ہے، لوگوں کو بولنے کی اجازت نہیں دی جارہی اور صورتحال انتہائی سنگین ہے۔

    کویتا کا کہنا تھا کہ بھارت آل از ویل (سب اچھا ہے) کہنے کے بجائے اگر آل از ہیل (سب جہنم جیسا ہے) کہے تو سچ ہوگا۔ گروپ کے ارکان نے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے پر کشمیریوں کے خوش ہونے کی خبروں کو جھوٹا قرار دیا۔

    کویتا کرشنن نے بتایا کہ انہوں نے سیکڑوں کشمیریوں سے ملاقات کی جن میں سے صرف ایک شخص نے آرٹیکل 370 کی منسوخی پر خوشی کا اظہار کیا اور وہ شخص بی جے پی کا ترجمان تھا۔

    انہوں نے کہا کہ کشمیریوں سے بات چیت میں چند الفاظ بار بار سنائی دیے، بربادی، بندوق، زیادتی، قبرستان اور ظلم سماجی کارکن میمونہ مولہ نے کہا کہ لوگوں کو دبانے کا سلسلے کو ختم کیا جائے اور خطے میں جمہوریت کو لوٹائیں.

    گروپ نے اپنے سفر کی متعدد ویڈیوز مرتب کیں جن میں عید الاضحی کے تہوار کے دن بھی ویران گلیوں اور لوگوں کو خوف زدہ دکھایا گیا۔

    میمونا ملاہ نے بتایا کہ ہمارے لیے جگہ جگہ جانا بہت مشکل تھا کیوں کہ ہر جگہ ہم سے کرفیو پاس مانگا جاتا تھا، اس کی وجہ سے خار دار تاروں اور رکاوٹوں کو پار کرکے آگے جانا ناممکن تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو عید کی نماز بھی جامع مسجد میں نہیں پڑھنے دی گئی اور اپنے گھر کے آس پاس ہی پڑھنے کا حکم ملا۔

    ویمل بھائی نے کہا کہ جیل میں جانے کے بعد جیسا محسوس ہوتا ہے پورے کشمیر میں ہمیں ایسی ہی صورتحال نظر آئی۔

    ان سماجی کارکنوں نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ وہ کشمیر کی صورت حال کے بارے میں تصاویر اور ویڈیوز نہیں دکھاسکتے کیونکہ پریس کلب آف انڈیا نے ہمیں یہ سب کچھ دکھانے کے لیے پروجیکٹر کا استعمال کرنے کی اجازت نہیں کیوں کہ پریس کلب پر بہت دباؤ ہے۔

    پریس کانفرنس کے بعد وہی تصاویر اور ویڈیوز صحافیوں کو ای میل کے ذریعے ارسال کردیں۔

    ڑان دریز نے کہا کہ میڈیا پر کشمیر کی حقیقی خبریں نہ دکھانے کے لیے بہت دباؤ ہے اس لیے میڈیا غیر جانبدار طریقے سے کام نہیں کر رہا ہے۔

    کویتا کرشنن نے مقامی اخبار کے صفحات کی تصویر صحافیوں کو دی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اخبار کرفیو کی وجہ سے شادیوں کے منسوخ ہونے کے اشتہارات سے بھرے ہوئے ہیں۔

    زیاں دریز نے پیلیٹ گن سے شدید متاثر ایک شخص کی تصویر دیتے ہوئے بتایا کہ ہم سری نگر کے ایک ہسپتال میں پیلیٹ گن سے متاثرہ دو افراد سے ملے، 10 اگست کو بڑا احتجاج ہوا تھا جس میں بہت سے لوگ زخمی ہوئے، لیکن ہمیں وہاں جانے نہیں دیا گیا۔

    بھارتی سماجی کارکنوں نے بتایا کہ سیاسی رہنماؤں، سیاسی کارکن، شہری حقوق کے کارکن، وکلا، کاروباری شخصیات اور ایسے تمام افراد جو حکومت کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں انہیں گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

    سماجی گروپ نے کشمیر کی یہ ویڈیو صحافیوں کو فراہم کی ہے اور دورے کی روداد کی مکمل تفصیلات اس لنک میں موجود ہیں۔

  • امریکہ کے کمپیوٹر نیٹ ورکس کو خطرہ‘ صدر ٹرمپ کا قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان

    امریکہ کے کمپیوٹر نیٹ ورکس کو خطرہ‘ صدر ٹرمپ کا قومی ہنگامی صورتحال کا اعلان

    واشنگٹں : صدر ٹرمپ نے اپنے آرڈر کے ذریعے امریکی کمپنیوں کو غیر ملکی حریف ٹیلی کام کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے سے منع کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک کے کمپیوٹرنیٹ ورکس کوغیر ملکی حریف کمپنیوں سے بچانے کے لیے قومی ہنگامی صورت حال کا اعلان کر دیا ہے۔

    ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے ذریعے امریکی کمپنیوں کو غیر ملکی حریف ٹیلی کام کمپنیوں کی خدمات استعمال کرنے سے منع کیا جن کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔

    صدر ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر میں کسی بھی کمپنی کا نام خاص طور پر نہیں لیا ہے۔تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ نے خاص طور پر چین کی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کے حوالے سے یہ اقدام اٹھایا ہے۔

    امریکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ بہت سے ممالک جن میں امریکہ بھی شامل ہے نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ چین نگرانی کے لیے چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے کی مصنوعات کو استعمال کر سکتا ہے۔

    دوسری جانب ہواوے نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا کام کسی کے لیے بھی خطرے کا باعث نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے آرڈر کے ذریعے امریکی کمپنیوں کو غیر ملکی حریف ٹیلی کام کمپنیوں کی خدمات حاصل کرنے سے منع کر دیا ہے۔

    وائٹ ہاوس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق صدر ٹرمپ کے آرڈر کا مقصد ’امریکہ کو غیر ملکی حریف کمپنیوں سے بچانا ہے جو فعال اور تیزی سے معلومات اور مواصلاتی ٹیکنالوجی اور خدمات کے مسلسل استعمال کے لیے حساس ہیں۔

    بیان کے مطابق صدر ٹرمپ کا یہ اقدام کامرس سیکریٹری کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ’ایسے ٹرانزیکشن کو روکے جو ملک کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔

    امریکہ کی وفاقی کمیونیکیشنز کمیشن کے چیئرمین اجیت پائی نے امریکی صدر کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ایک بیان میں ان کا کہنا ہے یہ اقدام امریکہ کے نیٹ ورکس کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔

    خیال رہے کہ امریکہ پہلے ہی وفاقی ایجنسیوں کو ہواوے کمپنی کی مصنوعات کے استعمال کو محدود کر چکا ہے اور اپنے اتحادیوں کو ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جبکہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے نیکسٹ جینریشن کے فائیو جی موبائل نیٹ ورکس میں چینی کمپنی ہواوے گیئر کے استعمال کو روک دیا ہے۔

    لیکن چینی ٹیلی کام کمپنی ہواوے نے شدت سے ان الزامات کو مسترد کیا ہے۔دریں اثنا ہواوے کے چیئرمین لیانگ ہو نے کہا ہے کہ وہ منگل کو لندن میں ہونے والے ایک ملاقات کے دوران ’حکومتوں کے ساتھ غیر جاسوسی معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں۔

  • آیت اللہ خمینی کو عراق بدر نہ کرتے توخطے کی صورتحال مختلف ہوتی، بندر بن سلطان

    آیت اللہ خمینی کو عراق بدر نہ کرتے توخطے کی صورتحال مختلف ہوتی، بندر بن سلطان

    ریاض : سابق سعودی سفیر شہزادہ بند بن سلطان نے کہا ہے کہ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ کی پالیسیوں نے مشرق وسطیٰ کو بیس برس ماضی میں پہنچا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی عرب کی خفیہ ایجنسی کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور امریکا میں سابق سفیر شہزادہ بندر بن سلمان نے دنیا کے بڑے لیڈروں سے ملاقاتوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ شام میں جاری بحران کی زمین سازی باراک اوبامہ کی پالیسیوں سے ہوئی۔

    عرب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بند بن سلطان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کو 20 سال پیچھے لے جانے میں صدر اوبامہ کی پالیسیوں کا کردار بہت اہم ہے، سابق امریکی صدر کی غلط پالیسیوں نے امریکی حکومت پر سعودی اعتماد کو متاثر کیا۔

    شہزادہ بندر بن سلطان نے بتایا کہ میری ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی، شاہ ایران رضا شاہ پہلوی اور سابق عراقی صدر صدام حسین سے بھی ملاقتیں ہوئیں ہیں، اگر شاہ ایران کے دباؤ پر صدام حسین آیت اللہ خمینی کو عراق بدر کرکے فرانس نہیں بھیجتے تو آج خطے کی صورتحال مختلف ہوتی۔

    خیال رہے کہ شہزادہ بندر بن سلطان سنہ 1983 سے 2005 تک امریکا میں سعودی سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں جبکہ 2005 سے 2015 تک ریاست کی سیکورٹی کونسل کے سیکریٹری اور 2012 سے 14 تک سعودی خفیہ ایجنسی کے ڈی جی رہ چکے ہیں۔