Tag: صوفی

  • بلھا! کی جاناں میں کون؟

    بلھا! کی جاناں میں کون؟

    قصور: پنجاب کی سوندھی مٹی کے خمیر سے گندھے ، اپنی شاعری سے عوام کے دلوں میں محبت کا رس گھولنے والے صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کا 261واں عرس عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے۔

    پنے کلام سے محبت اور امن کا درس دینے والے پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر بابا بلھے شاہ کا تین روزہ عرس قصور میں جاری ہے، آج عرس کا آخر دن ہے اور زائرین کی کثیر تعداد اپنے محبوب شاعر اور بزرگ کی درگاہ پر حاضری دے رہی ہے، بلھے شاہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندؤں اور سکھوں میں بھی یکساں مقبول ہیں۔

    بلھے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ تھا۔ وہ 1680 میں مغلیہ سلطنت کے عروج میں بہاولپور کے قریب ایک قصبہ اچ گیلانیاں میں پیدا ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد وہ قصور کے قریب پانڈو منتقل ہوگئے۔ بلھے شاہ نے ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔

    بلھے شاہ ، ایک اور معروف صوفی بزرف شاہ عنایت کے مرید تھے۔ وہ نظریہ وحدت الوجود (ہر شے میں خالق کی موجودگی) کو مانتے تھے لہٰذا ان کی شاعری میں شرع اور عشق ہمیشہ متصادم نظر آتے ہیں۔

    بلھے شاہ اپنی شاعری میں مذہبی ضابطوں پر تنقید اور ترک دنیا کی مذمت کرتے ہیں۔ وہ علم کی مخالفت کرتے ہیں لیکن دراصل یہ ’علم بغیر عمل‘ کی مخالفت ہے۔ ان کی شاعری میں صلح کل، انسان دوستی، اور عالمگیر محبت کا درس ملتا ہے۔

    بلھے شاہ کا انتقال 1757 میں قصور میں ہوا اور ان کا مزار یہیں ہے۔ ان کے مزار پر آج تک عقیدت مند ان کا صوفیانہ کلام پڑھ کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

    ان کے کلام سے منتخب اشعار


    ،پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں نام رکھ لیا قاضی
    ،ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھ لیا غازی
    ،مکے مدینے گھم آیا تے نام رکھ لیا حاجی
    او بلھیا حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نا کیتا راضی

    ،نہ میں مومن وچ مسیتاں نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
    ،نہ میں پاکاں وچ پلیتاں نہ میں موسیٰ نہ فرعون
    بلھا! کی جاناں میں کون؟

    سر تے ٹوپی تے نیت کھوٹی لینا کی سر ٹوپی ترھ کے؟
    ،تسبیح پھری پر دل نہ پھریا لینا کی تسبیح ہتھ پھڑ کے
    ،چلے کیتے پر رب نہ ملیا لینا کی چلیاں وچ وڑھ کے
    بلھے شاہ جاگ بنا دودھ نہیں جمندا پانویں لال ہووے کڑھ کڑھ کے

    بلھے نوں سمجھاون آئیاں
    بھیناں تے بھرجائیاں
    من لے بلھیا ساڈا کہنا،
    چھڈ دے پلّا رائیاں

  • مشہور صوفی شاعر رومی کی زندگی پر فلم

    مشہور صوفی شاعر رومی کی زندگی پر فلم

    ہالی وڈ کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ’گلیڈی ایٹر‘ کے مصنف ڈیوڈ فرنزونی تیرہویں صدی کے مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی کی زندگی پر فلم بنانے جارہے ہیں۔

    ڈیوڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وہ جو فلم بنانے جا رہے ہیں وہ مغربی سنیما میں مسلمانوں کے بارے میں غلط تصورات کو ختم کردے گی۔ ’رومی ایک ایسا شاعر ہے جو لوگوں کی زندگیوں اور معاشروں پر اثرانداز ہوا۔ ایسے عظیم افراد کی شخصیت کو زیادہ سے زیادہ کھوجنے کی ضرورت ہے‘۔

    جلال الدین رومی

    ڈیوڈ نے گزشتہ ہفتے ہی ترکی کا دورہ بھی کیا ہے جہاں وہ رومی کی تعلیمات کے ماہرین سے ملے اور وہاں انہوں نے رومی کے مزار کا دورہ بھی کیا۔

    رومی کی تصنیفات امریکا میں بیسٹ سیلر میں شمار ہوتی ہیں۔ ڈیوڈ کے مطابق نئی نسل رومی کی شاعری اور الفاظ کی تو دلداہ ہے لیکن ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی اور ان کا فلم بنانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ وہ رومی کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔

    ڈیوڈ کے مطابق ان کے سامنے اصل چیلنج رومی کی زندگی کو ایک تسلسل کے ساتھ پیش کرنا ہے۔ رومی کی زندگی کے کئی اوراق اندھیرے میں ہیں اور تاریخ ان کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ اسی طرح رومی کی زندگی کے ایک کردار حضرت شمس تبریزی اچانک ہی ان کی زندگی میں آئے اور اسی طرح اچانک غائب ہوگئے۔

    فلم میں مرکزی کردار آسکر ایوارڈ یافتہ لیونارڈو ڈی کیپریو کو دیا جارہا ہے۔ حال ہی میں آسکر ایوارڈ جیتنے والے لیونارڈو رومی کا کردار ادا کریں گے جبکہ شمس تبریزی کا کردار رابرٹ ڈاؤننگ جونیئر ادا کریں گے۔ فلم کی کاسٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

    rumi-2

    rumi-3

    فلم کی شوٹنگ اگلے سال سے شروع کردی جائے گی۔

    مشہور صوفی شاعر اور مفکر جلال الدین رومی 1207 میں بلخ میں پیدا ہوئے جو اب افغانستان کا حصہ ہے۔ منگولوں کے حملے کے دوران انہوں نے وہاں سے ہجرت کرلی اور بغداد، مکہ اور دمشق کا سفر کرتے ہوئے ترکی کے شہر قونیہ آگئے جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے 50 سے زائد برس گزارے۔ یہیں ان کی ملاقات شمس تبریزی سے ہوئی۔ شمس تبریزی نے رومی کے خیالات و افکار پر گہر اثر ڈالا۔

    شمس تبریزی اور رومی کا ساتھ 2 برس رہا۔ اس کے بعد شمس تبریزی پراسرار طور پر غائب ہوگئے۔ بعض مؤرخین کے مطابق انہیں قتل کردیا گیا تاہم ان کی موت کے بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں۔ ان کا مزار ایران کے شہر خوی میں ہے جسے اقوام متحدہ کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا جا چکا ہے۔

    rumi-6
    شمس تبریزی کی آرام گاہ
    rumi-4
    رومی کے مزار پر ہونے والا رقص

    رومی نے 3500 غزلیں، 2000 رباعیات اور رزمیہ نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری کا بے شمار زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ رومی کا مزار ترکی کے شہر قونیہ میں ہے جہاں رومی کی رباعیات پر کیا جانے والا صوفی رقص پوری دنیا میں مشہور ہے۔