Tag: صوفیائے کرام

  • تصوف ہندوستان میں!

    تصوف ہندوستان میں!

    جب ایسے لوگوں کی بات کی جائے جن کی بقا اور اثر کا دار و مدار اس بات پر ہو کہ انہوں نے حق کی تلاش کو روح کی ایک سنجیدہ اور پرجوش مہم بنا لیا تھا تو ضروری ہوتا ہے کہ ان ہی کے لب ولہجے میں بات کی جائے، وہ لب و لہجہ جس سے عقلِ سلیم یا کامن سینس کو ٹھیس لگتی ہے اور جو دماغ کو برانگیختہ کر دیتا ہے تاکہ سننے والے ہوشیار ہو کر بیٹھ جائیں اور کان دھر کر سنیں۔

    اس لیے میں بات ایک قولِ محال سے شروع کرتا ہوں (یعنی ایسے قول سے جو بظاہر مہمل ہو لیکن درحقیقت صحیح) جو قول میرے ذہن میں سب سے پہلے آتا ہے، یہ ہے کہ اگر قانون نہ توڑے جا سکتے تو وہ بنائے ہی نہ جاتے۔

    اگر آدمی امن و امان اور خوشی سے ساتھ ساتھ رہ سکتے، ایک دوسرے کا احترام کرتے یا کم سے کم ایک دوسرے کی ضرورتوں اور خواہشوں کا پوری طرح خیال رکھتے تو قوانین بنانا نہ صرف نامناسب ہوتا بلکہ یہ سوچنا بھی ایک جارحانہ بات ہوتی کہ قانون بنائے جائیں۔

    لیکن انسانی تاریخ شروع ہی ہوتی ہے قابیل سے، جس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا اور کسی حد تک اپنا جرم چھپانے میں کامیاب بھی ہو گیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ محض ایک یہودی روایت ہو تاریخ کی ایسی شروعات کی اور اس بات کی کہ خدا نے انسانی معاملات میں دخل دینے کی عادت کیوں بنا لی۔ لیکن انسانی تاریخ کی شروعات کہیں بھی اور کبھی بھی ہوئی ہو، جو کچھ واقعی ہوا ہوگا یہ اس کا علامتی اظہار ہے۔ مزید یہ کہ اس انتہائی جانی بوجھی اور منکشفانہ یہودی روایت کے مطابق جب خدا نے یہ دیکھا کہ اس کی منشا و مقصد کو مستقل غلط سمجھا جا رہا ہے اور خود اس کی موجودگی کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے تو جو کچھ وہ چاہتا تھا اس نے اسے اور زیادہ صاف، بے کم و کاست اور پُر زور انداز میں بتا دیا اور آخرکار اسے اپنے قوانین کو نیک پارسا لوگوں کے دلوں پر اور واعظوں کی زبانوں پر نقش کرنا پڑا۔

    بے شک یہ سب علامتی اظہار ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب پہلے مسلمان اہلِ باطن جنہیں صوفی کہتے ہیں، انہوں نے اپنے چاروں طرف زندگی پر نظر ڈالی تو وہ یہ دیکھ کر ڈر گئے کہ کتنی زیادہ قانون سازی ہو چکی تھی اور یہ کام پھر بھی جاری تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہر پہلو، انسانی معاملات کی ہر ادنیٰ سے ادنیٰ بات کی تفصیل کے لیے قانون ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے اور آدمی کو دل و جان سے قانون کی پیروی بھی کرنی چاہئے کیونکہ قانون ہی تو ہے جو حق کی نمائندگی کرتا ہے اور نجات کا ضامن ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ آدمی خواہی نخواہی جان بوجھ کر یا انجانے میں ہمیشہ قانون شکنی کرتا ہے، خدا نے اپنی رحیمی سے اسے قانون کا ایسا نظام بنانے کا اہل بنا دیا ہے جو تمام پہلوؤں پر حاوی ہو اور تادیر قائم رہے۔

    لیکن صوفی نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا یہ بالکل سچ ہے؟ (یعنی) کیا خدا کی رضا یہ ہے کہ آدمی فکر و عمل کی اس سطح سے اوپر ہی نہ اٹھے جو قانون کی کتابوں میں مقرر کر دی گئی ہے؟ کیا آدمی خدا سے اپنے رشتے قائم کرنے میں سابق قانونی نظائر اور مخصوص باتوں ہی کو اپنا رہنما سمجھے؟ (صوفی نے کہاکہ) یقینی بات یہ کہ خدا کوئی غضب ناک اور حاسد و جابر ہستی نہیں ہے، جس کا کام یہ ہو کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی ہی مخلوقات کے بارے میں فیصلے سناتا رہے (حکم لگاتا رہے) وہ تو خدائے رحیم اور خدائے مشتاق ہے، وہ تو باپ (کی طرح) ہے جسے اپنے بچوں سے یہ امید ہوتی ہے اور وہ انہیں آمادہ بھی کرتا ہے کہ وہ اس نعصب العین یا آئیڈیل کے مطابق زندگی بسر کریں جو اس نے ان کے سامنے پیش کیا ہے۔ رضائے الہی (کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے) گدھوں، بوجھ، کتابوں میں محدود کیا جائے۔ اگر خدا قوانین بناتا ہے تو یقینا ًیہ بھی اسی کی رضا ہے کہ وہ توڑے جائیں تاکہ ان سے بہتر ایسے قوانین عمل میں آ جائیں جو اس کی رضا سے اور زیادہ قریب ہوں۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے سامنے اس قول محال کی ایک بالکل مختلف تعبیر آ گئی۔ وہ یہ کہ قوانین بنائے ہی نہیں جاتے اگر انہیں توڑا نہ جا سکے۔ اس طرح یہ قول محال ہمارے لیے ایک چیلنج، ایک چنوتی بن جاتا ہے۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسے برے ارادوں سے ہمیں نفرت کرنی چاہئے جو قوانین بنانا اور ان کا جبریہ نفاذ چاہتے ہیں، ہمیں اس رویے کو حقارت سے دیکھنا چاہئے جو آدمی کو ایک فرانسیسی مصنف کے الفاظ میں Bourgeois compromise یعنی مقررہ اوسط درجے کا ٹائپ کا حرف بنا کر رکھ دے۔ آدمی کو قوانین توڑنے ہی چاہئیں ان سے اوپر اٹھنے کے لیے، اپنا قانون ساز آپ بننے کے لیے اور خدا کی طرف سزا (کے خوف) یا انعام (کی لالچ) سے نہیں بلکہ اس امید سے دیکھنا چاہئے کہ وہ اور زیادہ وقیع ہدایت دے گا۔

    اس نقطۂ نظر کی جو نشاط انگیز نوعیت ہے وہ ایک طرح ختم ہو جاتی ہے اگر اسے کسی قدر بڑھا چڑھا کر بیان نہ کیا جائے۔ منصور حلاج (وفات ۹۲۲ء) کی پیروی میں انا الحق (میں حق ہوں) کہنا اور اس کے نتائج بھگتنا بہتر ہے، اس بات سے کہ سکون اور اطمینان کی تلقین کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ ہر صوفی کی اپنی طبیعت، اپنا مزاج ہوتا ہے، قانون کو توڑنے کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے اصل چیز معنی ہیں نہ کہ لفظ، کسی صوفی نے روزانہ کی پانچ وقت کی نماز اور تیس دن کے روزے رکھنے کے قانون کو اس سے زیادہ نمازیں پڑھ پڑھ کر اور اس سے زیادہ روزے رکھ رکھ کر توڑا اور کسی نے ایک بھی نماز نہ پڑھ کر اور ایک بھی روزہ نہ رکھ کر توڑا۔ شیخ عین القضاۃ ہمدانی (وفات ۱۱۳۱ء) نے تو یہ تک کہہ دیا کہ عبادت بت پرستی ہے اگر بطور عادت کی جائے، صرف وہ عبادت سچی ہے جو دماغ کو عادت کی غلامی سے آزاد کر دے۔

    صوفیوں نے ایک دوسرے کے نظریات پر اعتراض یا انہیں رد نہیں کیا۔ اس کی بجائے انہوں نے یہ بات بتائی کہ صوفی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک اربابِ ہوش اور دوسرے اصحابِ سکر، یعنی ایک تو وہ جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کا قول اور عمل کا عام مسلمانوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور دوسرے وہ جو عالمِ سکر (مدہوشی) میں اس کی بالکل پروا نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ان سے ان کے کسی قول یا فعل کے بارے میں بازپرس نہیں کی جا سکتی (یعنی وہ اپنی مدہوشی یا مستی میں کی یا کہی ہوئی کسی بات کی جواب دہی کے ذمہ دار نہیں ہیں) اس طرح صوفی ازم یعنی تصوف کی وضاحت کرنی مشکل ہو جاتی ہے (لیکن) یہ بات صوفی (کی شخصیت) کو اور زیادہ دلکش بنا دیتی ہے۔

    گیارہویں صد ی کے وسط تک شیخ (یا پیر) اور مرید یا استاد شاگرد کا کوئی سسٹم یا باضابطہ طریقہ نہیں تھا۔ وہ لوگ جو ایک برتر، اعلیٰ زندگی گزارنے میں یقین رکھتے تھے، اپنے آپ یہ طے کر لیتے تھے کہ اس کے حصول کے لیے وہ کیا کریں گے اور وہ ایک دوسرے کو (یعنی مرید پیر کو اور پیر مرید کو) تلاش بھی کر لیتے تھے۔ اس میں بعض اوقات انہیں سیکڑوں میل کا سفر بھی کرنا پڑتا تھا تاکہ وہ مختلف طریقوں اور تجربوں کا باہمی مقابلہ و موازنہ کر سکیں۔ پھر ان میں سے بہت سے گوشہ نشین ہو جاتے، اپنے مریدوں یا شاگردوں کے ساتھ خانقاہوں یا تکیوں میں رہنے لگتے اور اپنے روحانی ضابطوں کے مطابق عمل کرتے رہتے۔ لیکن بہت سے ایسے ہو جاتے کہ بے اصول زندگی گزارتے، سماجی زندگی کے فرائض اور مقررہ معمول کو تسلیم نہیں کرتے اور ایسے صوفیوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ جب عام طور سے تصوف کو زندگی گزارنے اور فکر کا ایک طریقہ بھی تسلیم کیا جانے لگا تھا اور مطالعے کے لیے کتابیں بھی لکھی جانے لگی تھیں، تب بھی وہی بے باک جامع کلمہ، وہی چیلنج، چنوتی دینے والا قول محال جو اوپر پیش کیا گیا، اظہارِ نفس کی علامت بنا رہا۔
    تقریباً گیارہویں صدی سے شاعری بھی صوفی کے لیے ذریعہ اظہار بن گئی۔ راسخ الاعتقاد مسلمانوں کے، اگر وہ واقعی کٹر ہوں، شاعروں اور شاعری کے بارے میں وہی نظریے ہیں جو افلاطون کے تھے۔ لیکن جلال الدین رومی (وفات ۱۲۷۳ء) بالکل دوسری انتہا پر چلے گئے۔ انہوں نے کہا شاعری پیغمبری کا جزو ہوتی ہے (شاعری جزویست ازپیغمبری)، (اور) کوئی گدھا ہی ہوگا جو یہ کہے کہ شاعری ممنوع ہے۔ مسلم تہذیب میں محبت، محبوب، وصل، مے اور نغمہ، اسلام اور کفر، کعبے اور بت خانے کو علامتیں کہہ کر ان دونوں رویوں میں باہمی مطابقت پیدا کر لی گئی اور اس شاعر کو جو ذرا مؤثر طریقے سے یہ علامتیں استعمال کرے، اسے ایسا صوفی مان لیا گیا جو غایت انبساط (یا سُرور) اور وجد اور فنا فی اللہ کا راستہ دکھانا چاہتا ہے۔ اس طرح نہ صرف تقریبا ًہر بڑے صوفی سے شاعری کے دیوان منسوب کر دیے گئے ہیں بلکہ سارے شاعروں کو صوفیوں کا درجہ بھی دے دیا گیا (اور یہ تسلیم کر لیا گیا کہ) شاعری اگر وہ اچھی شاعری ہے تو کبھی ناپاک ہوہی نہیں سکتی بلکہ وہ تو اخلاقیات، مذہب اور روحانیت بن جاتی ہے۔

    تصوف اور شاعری کے اس میل سے تہذیبی اعتبار سے کوئی اور نتیجہ نکلا یا نہیں، اس سے آدمی میں وہ جرأت ضرور پیدا ہو گئی جس نے اسے خدا سے ہم کلام کر دیا (اس کی وجہ سے) خدا کو ایسا حاکم جج سمجھا جانے لگا جو معاف کر دینے کی نظر سے مسکراتے ہوئے اپنے سامنے پیش کیے ہوئے گنہگار کو یقیناً گلے لگا لیتا ہے۔ خدا کو ایسا دوست اور محبوب سمجھا جانے لگا جو اپنے عاشق کے گلے میں رسی ڈال کر جدھر چاہے لیے پھرتا ہے، خدا کو باوجود تمام حسن اور جمال مجسم سمجھے جانے کے اسے ایسا بھی سمجھا جانے لگا کہ وہ چاروں طرف خفگی کی نگاہ سے دیکھ بھی لیتا ہے ان لوگوں کو بسمل کرنے کے لیے، جو اسے سب سے زیادہ چاہتے ہیں، وہ ایسی ہستی ناظر اور قادر مطلق سمجھا جانے لگا جو اپنے کام سے تھک گیا ہو اور جسے آدمی یہ دعوت دے سکتا ہے کہ اے خدا تو میرے دل میں آرام کر لے۔

    ہم حیران ہوکر سوچنے لگتے ہیں کہ خدا نے شاعر کو بنایا یا شاعر (کے نغموں) نے خدا کو۔ ان دونوں میں ہر ایک تعبیر صحیح معلوم ہوتی ہے اور ان میں سے کسی سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ اہم بات تو اصل میں روحانی تجربے کی شدت ہے، اس لمحے کا وقوع میں آنا ہے جس میں آدمی کو واقعی یہ محسوس ہوتا ہے جیسے سارے کا سارا وجود اسی میں سما گیا ہے۔

    (مضمون تصوف ہندوستان میں از قلم محمد مجیب)

  • صوفی شاعر سچل سرمست ؒ  کا تذکرہ

    صوفی شاعر سچل سرمست ؒ کا تذکرہ

    وادیٔ سندھ میں جن بزرگانِ دین کی تعلیمات کے ماننے والوں اور صوفیا کے ارادت مندوں کی بڑی تعداد بستی ہے، ان میں سچل سرمست ؒ کا نام بھی نمایاں ہے۔ انھیں شاعرِ ہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کے جدِ امجد میاں صاحب ڈنو فاروقی کی سندھ کی قدیم ریاست خیر پور میں اپنی خانقاہ سے رشد و ہدایت عام کرنے میں‌ مصروف تھے۔ اسی زمانے میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور بعد میں سندھ پر یورش کر دی۔ اس دورِ پرآشوب میں 1739ء میں ریاست خیر پور کے علاقے رانی پور کے قریب کے ایک چھوٹے سے گاؤں درازا شریف کے ایک مذہبی گھرانے میں سچل سرمست کی پیدائش ہوئی جن کا اصل نام عبد الوہاب تھا، جو بعد میں وہ اپنی صاف گوئی اور روشن کردار کی وجہ سے سچل یعنی سچ بولنے والے مشہور ہوگئے۔ انھیں تاریخ میں سندھی زبان کے مشہور صوفی شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سچل سرمست ؒ کے دادا میاں صاحب ڈنو عرف محمد حافظ بھی اپنے زمانے کے معروف بزرگ اور شاعر تھے۔

    سچل سرمست کے والد کے بعد ان کی پرورش چچا کے زیرِ سایہ ہوئی۔ سچل سرمست نے عربی، فارسی اور تصوف کے اسرارو رموز سے آگاہی حاصل کی اور بہت چھوٹی عمر میں قرآن بھی حفظ کرلیا۔ ابھی سچل سرمست کی عمر چھے سال ہی تھی کہ اپنے زمانے کے بزرگ اور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ خیر پور تشریف لائے۔ کہتے ہیں کہ یہاں انھوں نے سچل سرمست کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ لڑکا معرفت کی منازل طے کرے گا۔سچل سرمست اس کے بعد ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ فقہ و تفسیر کی کتابیں پڑھیں اور پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شعر بھی کہنے لگے۔

    سچل سرمست اکثر تنہائی میں غور و فکر میں ڈوبے رہتے۔ جوانی ہی سے عبادت گزار اور روزے، نماز کے پابند تھے اور درود و وظائف میں وقت گزارتے تھے۔ ان کا کلام سات زبانوں عربی ، سندھی، سرائیکی، پنجابی، بلوچی، فارسی اور اردو میں ملتا ہے جس کی بنا پر وہ ہفت زبان شاعر بھی کہلائے۔ انھوں نے اپنے صوفیانہ کلام سے فقہی اختلافات دور کرنے اور درباری عالموں کو جواب دینے کی کوشش کی جو اس دور میں تفرقہ بازی کو ہوا دے رہے تھے۔ اسی وجہ سے انھیں لوگوں نے پسند کیا اور ان کی شاعری بہت جلد مقبولیت حاصل کرگئی۔ ان کے وحدت الوجود کے فلسفے نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا تھا اور وہ روحانی بزرگوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

    سچل سرمست نے 11 اپریل 1827 عیسوی یعنی 14 رمضان 1242ھ میں وفات پائی اور اپنی آبائی خانقاہ درازا شریف میں مدفون ہوئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر نوے سال تھی۔ حضرت سچل سرمستؒ نے جس بی بی سے نکاح کیا تھا، وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکیں جب کہ خدا نے اولاد بھی نہیں دی تھی۔

    مرزا علی قلی بیگ حضرت سچل سرمست کی شخصیت کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’وہ سفید ریش مبارک رکھتے تھے، جوتا کبھی پہنتے، کبھی ننگے پاؤں ہی گھر سے نکل جاتے، ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی، سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ زمین پر یا لکڑی کے صندل پر بیٹھتے اور سو جاتے، چارپائی استعمال نہیں کرتے تھے، اکثر طنبورہ بھی ساتھ رکھتے تھے۔‘‘

    انھوں نے سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکم رانوں‌ کا دور دیکھا اور تمام عمر اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں میں پیار محبّت، بھائی چارہ اور امن کا پیغام عام کرتے رہے۔

  • حقائقِ اشیا اور حاصلِ زندگی

    حقائقِ اشیا اور حاصلِ زندگی

    جو چیز جس قدر حقیقی اور واقعی ہے، اسی قدر غیر محسوس اور غیر مشاہد ہے۔ آج کل کے مذاق کے موافق اس کو یوں سمجھو کہ سب سے یقینی اور قطعی چیز مادّہ ہے، لیکن زیادہ غور کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ مادّے میں سے جو چیز محسوس اور مشاہد ہے، وہ صرف رنگ اور مقدار ہے۔ باقی کوئی چیز حواس سے محسوس نہیں ہوسکتی۔

    ہم قیاس کرتے ہیں کہ چوں کہ رنگ اور طول و عرض خود نہیں قائم ہوسکتے، اس لیے کوئی اور چیز ہے جس میں رنگ اور طول و عرض قائم ہے، لیکن جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جوہر خود کوئی چیز نہیں، بلکہ چند عرضوں کا مجموعہ ہے، وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مادّہ کوئی چیز نہیں، چند اغراض جمع ہوگئے ہیں جن کو ہم مادّہ کہتے ہیں۔ غرض کسی چیز کے موجود ہونے کا مدار صرف محسوس اور مشاہد ہونے پر نہیں۔

    اجمالی طور پر جب یہ ذہن نشیں ہو جاتا ہے کہ حقائقِ اشیا میں ہم غلطی کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں، تو حضراتِ صوفیہ خاص خاص چیزوں کی نسبت جن سے تصوف کو تعلق ہے، تلقین کرتے ہیں کہ ان کی وہ حقیقت نہیں، جو عام لوگ سمجھتے ہیں۔ مثلاً تمام عالم اس پر متفق ہے کہ زندگی کا اصلی مقصد حصولِ لذّت ہے۔ حضراتِ صوفیہ بھی اسی کے قائل ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ پہلےاس کا فیصلہ کرنا چاہیے کہ اصلی لذّت کیا ہے؟

    شروع سے لو۔ بچہ کھیل کود، آلات لہو و لعب، رنگین اور ملمع چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ بڑا ہو کر سمجھتا ہے کہ یہ طفلانہ مذاق تھا۔ اب خوش لباسی، عیش پرستی، سیر و تفریح پر جان دیتا ہے۔ جب معلومات اور خیالات میں اور ترقی ہوتی ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ جوانی کی ترنگیں تھیں، اب ان کا وقت نہیں۔

    اب وہ زیادہ اونچے کاموں میں مصروف ہوتا ہے، علم اور قابلیت پیدا کرتا ہے، نام وری اور عزّت کا جُویا ہوتا ہے۔ دولت و جاہ، عزت و شہرت، عہدہ و منصب حاصل کرتا ہے۔ مقتدائے عام بن جاتا ہے اور یہ گویا کمالِ زندگی کا اخیر درجہ ہے، لیکن حقیقت شناسی اس سے بھی آگے بڑھتی ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی بے حقیقت چیزیں تھیں۔ اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا جاتا ہے، لیکن بالآخر ایک حد قرار پا جاتی ہے اور اربابِ ظاہر کے نزدیک وہی حاصلِ زندگی ہوتا ہے۔

    (عظیم مفکّر، عالمِ دین، سیرت و سوانح نگار، مؤرخ، شاعر اور نقّاد شبلی نعمانی کے مضمون "حقائق اشیا اور معشوقِ حقیقی” سے اقتباس)

  • حسرتوں کے قبرستان کا نوجوان مجاور!

    حسرتوں کے قبرستان کا نوجوان مجاور!

    پریشانی حالات سے نہیں، خیالات سے ہوتی ہے اور جسے ہم غم کہتے ہیں، دراصل وہ ہماری مرضی اور خدا کی منشا کے فرق کا نام ہے۔

    جو لوگ ناکامی کو عذر بنا کر پریشانی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں، ان کی زندگی روگ ہو جاتی ہے اور وہ پریشانی کی اس دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں، مگر وہ باہمّت لوگ جو ناکامی کو کام یابی کا پہلا زینہ سمجھ کر جشن مناتے ہیں، قسمت ان پر مہربان ہوتی چلی جاتی ہے۔

    میں حسرتوں کے قبرستان میں مجاور بن کر زندگی بسر کرتے نوجوانوں کو دیکھتا ہوں تو ونسٹن چرچل یاد آتا ہے جو چھٹی جماعت میں فیل ہو گیا تھا۔ بدقسمتی کا یہ عالم تھا کہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ نہ لے سکا لیکن آج اس کا شمار دنیا کے کام یاب ترین حکم رانوں میں ہوتا ہے۔

    آج البرٹ آئن اسٹائن کے نظریات پڑھے بغیر طبیعیات کا مضمون ادھورا محسوس ہوتا ہے لیکن جب وہ پیدا ہوا تو چار سال تک بول نہیں سکتا تھا، اس لیے سات سال کی عمر میں اس کی ابتدائی تعلیم شروع ہوئی۔

    اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگاکہ معروف لوگوں نے اپنی کم زوری اور معذوری کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ دنیا میں کوئی بھی انسان پرفیکٹ نہیں ہوتا یعنی مکمل نہیں ہوتا، جن لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ پُراعتماد ہوں گے وہ بھی عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی میں کچھ نہ کچھ کمی محسوس کرتا ہوگا۔ یہ سچ ہے کہ ہم سب کی زندگی نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے۔

    عموماً لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر آپ کے پاس پیسہ، اثر رسوخ اور اچھی شکل و صورت ہے تو آپ بہ آسانی منزل طے کرسکتے ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں، کیوں کہ ان سب سے اوپر بھی ایک چیز ہے جن کے آگے یہ چیزیں پھیکی پڑ جاتی ہیں اور وہ ہے خود اعتمادی۔ اچھی تربیت شخصیت کی نشوونما میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    خود اعتمادی پیدا کرنے اور دنیا میں کام یاب ہونے کے لیے آپ کو اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ سوچ میں انقلاب لانا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ انسان جس طرح سوچتا ہے وہ اُس طرح کا بن جاتا ہے، اگر سوچ صحت مند ہو گی، مثبت ہوگی تو پھر انسان کا وجود اور ذہن بھی صحت مند ہوگا۔ اگر سوچ ہی منفی ہو تو پھر اُس کے اثرات بھی منفی ہوں گے۔

    ایک اور خوب صورت اور بہت اہم بات کہ اللہ کی رضا میں راضی ہوجائیں اور یقین کر لیں کہ وہ جو کرے گا بہتر کرے گا۔

    (واصف علی واصف کے قلم سے ہمّت بندھاتا، زندگی گزارنے کا ڈھب بتاتا اور جینے کا گُر سکھاتا ایک پارہ)

  • وہ مشہور صوفی جنھوں‌ نے اردو کو ہندوستانی عوام میں‌ مقبول بنایا

    وہ مشہور صوفی جنھوں‌ نے اردو کو ہندوستانی عوام میں‌ مقبول بنایا

    اردو زبان کس طرح وجود میں‌ آئی، برصغیر میں اس نے کیسے فروغ اور عروج پایا؟ یہ موضوع ماہرینِ‌ لسانیات اور علمی و ادبی محققین میں‌ زیرِ بحث رہا ہے اور آج بھی اس پر صرف علمائے اردو میں‌ اختلاف رائے موجود ہے بلکہ اردو شاید وہ واحد زبان ہے جو اس حوالے سے متنازع رہی ہے۔

    یہ ایک طویل بحث ہے جسے ماہرینِ لسانیات اور محققین نے اپنے طویل مضامین اور مقالوں‌ میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن علمی و ادبی حلقوں میں ہندوستان کے صوفیائے کرام کا نام بھی لیا جاتا ہے جن کا‌ اردو کی تشکیل اور فروغ میں‌ بڑا اہم کردار ہے۔

    یہ صوفیا اور درویشانِ ہند گیارہویں سے انیسویں صدی عیسوی تک اس زبان کے فروغ کے لیے کسی نہ کسی شکل میں‌ متحرک نظر آتے ہیں۔

    علمی و ادبی تذکروں‌ اور مختلف کتب میں زبان کے تشکیلی دور میں مسلم صوفیا اور دیگر مذہبی شخصیات کا کردار بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں جن صوفیا کو اس حوالے سے نہایت معتبر تسلیم کیا جاتا ہے ان میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، برہان الدین قطب عالم، سراج الدین ابوالبرکات شاہ عالم، شاہ میراں جی شمس العشاق، قاضی محمود دریائی، شیخ برہان الدین جانم، شیخ خوب محمد چشتی، عبدالرحیم خان خاناں، سلطان باہو، بلھے شاہ، وارث علی شاہ کے علاوہ کبیر داس اور گورو نانک کے نام بھی لیے جاتے ہیں۔

    ان صوفیا نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان پروان چڑھانے اور ملک کے کونے کونے تک پھیلانے کا جو کارنامہ انجام دیا اس سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا اور یہی نہیں‌ بلکہ انہی کی وجہ سے عوام میں‌ اس زبان سے لگاؤ اور قربت پیدا ہوئی جس نے ایک بولی کو زبان کی شکل دی۔ بقول انور سدید:

    "یہ لوگ حبِ دنیا، حبِ جاہ اور حب دولت سے آزاد تھے۔ دنیا پرستوں کو حق، صداقت کی راہ دکھانا ان کا مقصدِ حیات تھا۔ چنانچہ درویشانِ ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لیے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلمان بادشاہانِ ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر سکے۔ ہم زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی نشوونما کو گراں قدر فائدہ پہنچایا۔”

    صوفیا کا یہ لسانی کردار اردو کے لیے حقیقی معنیٰ میں مفید و کارآمد ثابت ہوا۔ تاریخ‌ بتاتی ہے کہ مشائخ نے ہندوستان میں اپنی تعلیمات اور سلوک سے امن اور پیار قائم کیا، بھائی چارے کو فروغ دیا اور جہاں ہندوستانیوں کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے لیے کوششیں کیں، وہیں‌ اردو زبان کے لیے بھی ان کا کردار لائقِ‌ تحسین ہے۔

    (حیدر علی آرزو، دہلی کے مضمون سے اقتباس)

  • وادیِ اذیت اور دنیا دار

    وادیِ اذیت اور دنیا دار

    صبر کرنے والے اس مقام سے آشنا کرا دیے جاتے ہیں کہ تکلیف دینے والا ہی صبر کی توفیق دے رہا ہے اور اس مقام پر “صبر“ ہی “شکر“ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔

    یہ وجہ ہے کہ اس کے مقرب اذیت سے تو گزرتے ہیں، لیکن بیزاری سے کبھی نہیں گزرتے۔ وہ شکر کرتے ہوئے وادیِ اذیت سے گزر جاتے ہیں۔

    دنیا دار جس مقام پر بیزار ہوتا ہے، مومن اس مقام پر صبر کرتا ہے اور مومن جس مقام پر صبر کرتا ہے، مقرب اس مقام پر شکر کرتا ہے، کیوں کہ یہی مقام و وصالِ حق کا مقام ہے۔
    تمام واصلینِ حق صبر کی وادیوں سے بہ تسلیم و رضا گزر کر سجدہ شکر تک پہنچے۔ یہی انسان کی رفعت ہے۔

    یہی شانِ عبودیت ہے کہ انسان کا وجود تیروں سے چھلنی ہو، دل یادوں سے زخمی ہو اور درِ نیاز سجدہ میں ہو کہ “اے خالق! تیرا شکر ہے، لاکھ بار شکر ہے کہ تُو ہے کہ تُو نے مجھے چن لیا، اپنا بندہ بنایا، اپنا اور صرف اپنا، تیری طرف سے آنے والے ہر حال پر ہم راضی ہیں۔

    ہم جانتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی بے مصرف اور بے مقصد نہ رہنے دینے والا تُو ہے جس نے ہمیں تاج تسلیم و رضا پہنا کر اہلِ دنیا کے لیے ہمارے صبر کا ذکر ہی باعثِ تسکین روح و دل بنایا۔“

    (واصف علی واصف کی کتاب “دل، دریا، سمندر سے اقتباس)

  • مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    برصغیر پاک و ہند میں حضرت جلال الدین رومی کو صرف شاعر نہیں بلکہ عظیم صوفی اور بزرگ کی حیثیت سے نہایت عقیدت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دنیا انھیں تیرھویں صدی عیسوی کا ایک بڑا صوفی اور مفکر مانتی ہے اور جلال الدین رومی کو بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    مولانا رومی کی شہرۂ آفاق تصنیف ان کی ایک مثنوی ہے جسے نہایت دیگر کتب کے مقابلے میں نہایت معتبر اور قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے اور برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ترکی، ایران کے باشندے رومی کی اس تصنیف سے خاص لگاؤ اور گہری عقیدت رکھتے ہیں۔

    مولانا جلال الدین رومی کو صرف اس خطے میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں عظیم صوفی بزرگ مانا جاتا ہے اور ان مثنوی کو شاہ کار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی رباعیات، حکایات اور دیگر کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔

    مولانا رومی مذہب اور فقہ کے بڑے عالم اور حضرت شمس تبریز کے ارادت مند تھے۔ مسلمان دانش ور، درگاہوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات ان کے افکار کو روحانیت اور دانائی کا راستہ سمجھتے اور اسے اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔

    مولانا کی مثنوی اور ان کی شاعری کا دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ مختلف تاریخی کتب اور تذکروں کے مطابق ان کا اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔

    آپ کا لقب جلال الدین اور شہرت مولانا روم سے ہوئی۔ کہتے ہیں ان کا وطن بلخ تھا جہاں 1207 عیسوی میں آپ نے آنکھ کھولی۔ تعلیم اور تدریس کی غرض سے مختلف ملکوں کا سفر کیا اور 66 سال کی عمر میں 1273 عیسوی میں دنیا سے رخصت ہوئے اور ترکی میں دفن کیے گئے۔