Tag: صوفی ازم

  • تصوف ہندوستان میں!

    تصوف ہندوستان میں!

    جب ایسے لوگوں کی بات کی جائے جن کی بقا اور اثر کا دار و مدار اس بات پر ہو کہ انہوں نے حق کی تلاش کو روح کی ایک سنجیدہ اور پرجوش مہم بنا لیا تھا تو ضروری ہوتا ہے کہ ان ہی کے لب ولہجے میں بات کی جائے، وہ لب و لہجہ جس سے عقلِ سلیم یا کامن سینس کو ٹھیس لگتی ہے اور جو دماغ کو برانگیختہ کر دیتا ہے تاکہ سننے والے ہوشیار ہو کر بیٹھ جائیں اور کان دھر کر سنیں۔

    اس لیے میں بات ایک قولِ محال سے شروع کرتا ہوں (یعنی ایسے قول سے جو بظاہر مہمل ہو لیکن درحقیقت صحیح) جو قول میرے ذہن میں سب سے پہلے آتا ہے، یہ ہے کہ اگر قانون نہ توڑے جا سکتے تو وہ بنائے ہی نہ جاتے۔

    اگر آدمی امن و امان اور خوشی سے ساتھ ساتھ رہ سکتے، ایک دوسرے کا احترام کرتے یا کم سے کم ایک دوسرے کی ضرورتوں اور خواہشوں کا پوری طرح خیال رکھتے تو قوانین بنانا نہ صرف نامناسب ہوتا بلکہ یہ سوچنا بھی ایک جارحانہ بات ہوتی کہ قانون بنائے جائیں۔

    لیکن انسانی تاریخ شروع ہی ہوتی ہے قابیل سے، جس نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا اور کسی حد تک اپنا جرم چھپانے میں کامیاب بھی ہو گیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ محض ایک یہودی روایت ہو تاریخ کی ایسی شروعات کی اور اس بات کی کہ خدا نے انسانی معاملات میں دخل دینے کی عادت کیوں بنا لی۔ لیکن انسانی تاریخ کی شروعات کہیں بھی اور کبھی بھی ہوئی ہو، جو کچھ واقعی ہوا ہوگا یہ اس کا علامتی اظہار ہے۔ مزید یہ کہ اس انتہائی جانی بوجھی اور منکشفانہ یہودی روایت کے مطابق جب خدا نے یہ دیکھا کہ اس کی منشا و مقصد کو مستقل غلط سمجھا جا رہا ہے اور خود اس کی موجودگی کو بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے تو جو کچھ وہ چاہتا تھا اس نے اسے اور زیادہ صاف، بے کم و کاست اور پُر زور انداز میں بتا دیا اور آخرکار اسے اپنے قوانین کو نیک پارسا لوگوں کے دلوں پر اور واعظوں کی زبانوں پر نقش کرنا پڑا۔

    بے شک یہ سب علامتی اظہار ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب پہلے مسلمان اہلِ باطن جنہیں صوفی کہتے ہیں، انہوں نے اپنے چاروں طرف زندگی پر نظر ڈالی تو وہ یہ دیکھ کر ڈر گئے کہ کتنی زیادہ قانون سازی ہو چکی تھی اور یہ کام پھر بھی جاری تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ہر پہلو، انسانی معاملات کی ہر ادنیٰ سے ادنیٰ بات کی تفصیل کے لیے قانون ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہئے اور آدمی کو دل و جان سے قانون کی پیروی بھی کرنی چاہئے کیونکہ قانون ہی تو ہے جو حق کی نمائندگی کرتا ہے اور نجات کا ضامن ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ آدمی خواہی نخواہی جان بوجھ کر یا انجانے میں ہمیشہ قانون شکنی کرتا ہے، خدا نے اپنی رحیمی سے اسے قانون کا ایسا نظام بنانے کا اہل بنا دیا ہے جو تمام پہلوؤں پر حاوی ہو اور تادیر قائم رہے۔

    لیکن صوفی نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا یہ بالکل سچ ہے؟ (یعنی) کیا خدا کی رضا یہ ہے کہ آدمی فکر و عمل کی اس سطح سے اوپر ہی نہ اٹھے جو قانون کی کتابوں میں مقرر کر دی گئی ہے؟ کیا آدمی خدا سے اپنے رشتے قائم کرنے میں سابق قانونی نظائر اور مخصوص باتوں ہی کو اپنا رہنما سمجھے؟ (صوفی نے کہاکہ) یقینی بات یہ کہ خدا کوئی غضب ناک اور حاسد و جابر ہستی نہیں ہے، جس کا کام یہ ہو کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی ہی مخلوقات کے بارے میں فیصلے سناتا رہے (حکم لگاتا رہے) وہ تو خدائے رحیم اور خدائے مشتاق ہے، وہ تو باپ (کی طرح) ہے جسے اپنے بچوں سے یہ امید ہوتی ہے اور وہ انہیں آمادہ بھی کرتا ہے کہ وہ اس نعصب العین یا آئیڈیل کے مطابق زندگی بسر کریں جو اس نے ان کے سامنے پیش کیا ہے۔ رضائے الہی (کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے) گدھوں، بوجھ، کتابوں میں محدود کیا جائے۔ اگر خدا قوانین بناتا ہے تو یقینا ًیہ بھی اسی کی رضا ہے کہ وہ توڑے جائیں تاکہ ان سے بہتر ایسے قوانین عمل میں آ جائیں جو اس کی رضا سے اور زیادہ قریب ہوں۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے سامنے اس قول محال کی ایک بالکل مختلف تعبیر آ گئی۔ وہ یہ کہ قوانین بنائے ہی نہیں جاتے اگر انہیں توڑا نہ جا سکے۔ اس طرح یہ قول محال ہمارے لیے ایک چیلنج، ایک چنوتی بن جاتا ہے۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسے برے ارادوں سے ہمیں نفرت کرنی چاہئے جو قوانین بنانا اور ان کا جبریہ نفاذ چاہتے ہیں، ہمیں اس رویے کو حقارت سے دیکھنا چاہئے جو آدمی کو ایک فرانسیسی مصنف کے الفاظ میں Bourgeois compromise یعنی مقررہ اوسط درجے کا ٹائپ کا حرف بنا کر رکھ دے۔ آدمی کو قوانین توڑنے ہی چاہئیں ان سے اوپر اٹھنے کے لیے، اپنا قانون ساز آپ بننے کے لیے اور خدا کی طرف سزا (کے خوف) یا انعام (کی لالچ) سے نہیں بلکہ اس امید سے دیکھنا چاہئے کہ وہ اور زیادہ وقیع ہدایت دے گا۔

    اس نقطۂ نظر کی جو نشاط انگیز نوعیت ہے وہ ایک طرح ختم ہو جاتی ہے اگر اسے کسی قدر بڑھا چڑھا کر بیان نہ کیا جائے۔ منصور حلاج (وفات ۹۲۲ء) کی پیروی میں انا الحق (میں حق ہوں) کہنا اور اس کے نتائج بھگتنا بہتر ہے، اس بات سے کہ سکون اور اطمینان کی تلقین کی جائے اور اس پر عمل کیا جائے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ ہر صوفی کی اپنی طبیعت، اپنا مزاج ہوتا ہے، قانون کو توڑنے کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے اصل چیز معنی ہیں نہ کہ لفظ، کسی صوفی نے روزانہ کی پانچ وقت کی نماز اور تیس دن کے روزے رکھنے کے قانون کو اس سے زیادہ نمازیں پڑھ پڑھ کر اور اس سے زیادہ روزے رکھ رکھ کر توڑا اور کسی نے ایک بھی نماز نہ پڑھ کر اور ایک بھی روزہ نہ رکھ کر توڑا۔ شیخ عین القضاۃ ہمدانی (وفات ۱۱۳۱ء) نے تو یہ تک کہہ دیا کہ عبادت بت پرستی ہے اگر بطور عادت کی جائے، صرف وہ عبادت سچی ہے جو دماغ کو عادت کی غلامی سے آزاد کر دے۔

    صوفیوں نے ایک دوسرے کے نظریات پر اعتراض یا انہیں رد نہیں کیا۔ اس کی بجائے انہوں نے یہ بات بتائی کہ صوفی دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک اربابِ ہوش اور دوسرے اصحابِ سکر، یعنی ایک تو وہ جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کا قول اور عمل کا عام مسلمانوں پر کیا اثر پڑ سکتا ہے اور دوسرے وہ جو عالمِ سکر (مدہوشی) میں اس کی بالکل پروا نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ ان سے ان کے کسی قول یا فعل کے بارے میں بازپرس نہیں کی جا سکتی (یعنی وہ اپنی مدہوشی یا مستی میں کی یا کہی ہوئی کسی بات کی جواب دہی کے ذمہ دار نہیں ہیں) اس طرح صوفی ازم یعنی تصوف کی وضاحت کرنی مشکل ہو جاتی ہے (لیکن) یہ بات صوفی (کی شخصیت) کو اور زیادہ دلکش بنا دیتی ہے۔

    گیارہویں صد ی کے وسط تک شیخ (یا پیر) اور مرید یا استاد شاگرد کا کوئی سسٹم یا باضابطہ طریقہ نہیں تھا۔ وہ لوگ جو ایک برتر، اعلیٰ زندگی گزارنے میں یقین رکھتے تھے، اپنے آپ یہ طے کر لیتے تھے کہ اس کے حصول کے لیے وہ کیا کریں گے اور وہ ایک دوسرے کو (یعنی مرید پیر کو اور پیر مرید کو) تلاش بھی کر لیتے تھے۔ اس میں بعض اوقات انہیں سیکڑوں میل کا سفر بھی کرنا پڑتا تھا تاکہ وہ مختلف طریقوں اور تجربوں کا باہمی مقابلہ و موازنہ کر سکیں۔ پھر ان میں سے بہت سے گوشہ نشین ہو جاتے، اپنے مریدوں یا شاگردوں کے ساتھ خانقاہوں یا تکیوں میں رہنے لگتے اور اپنے روحانی ضابطوں کے مطابق عمل کرتے رہتے۔ لیکن بہت سے ایسے ہو جاتے کہ بے اصول زندگی گزارتے، سماجی زندگی کے فرائض اور مقررہ معمول کو تسلیم نہیں کرتے اور ایسے صوفیوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ جب عام طور سے تصوف کو زندگی گزارنے اور فکر کا ایک طریقہ بھی تسلیم کیا جانے لگا تھا اور مطالعے کے لیے کتابیں بھی لکھی جانے لگی تھیں، تب بھی وہی بے باک جامع کلمہ، وہی چیلنج، چنوتی دینے والا قول محال جو اوپر پیش کیا گیا، اظہارِ نفس کی علامت بنا رہا۔
    تقریباً گیارہویں صدی سے شاعری بھی صوفی کے لیے ذریعہ اظہار بن گئی۔ راسخ الاعتقاد مسلمانوں کے، اگر وہ واقعی کٹر ہوں، شاعروں اور شاعری کے بارے میں وہی نظریے ہیں جو افلاطون کے تھے۔ لیکن جلال الدین رومی (وفات ۱۲۷۳ء) بالکل دوسری انتہا پر چلے گئے۔ انہوں نے کہا شاعری پیغمبری کا جزو ہوتی ہے (شاعری جزویست ازپیغمبری)، (اور) کوئی گدھا ہی ہوگا جو یہ کہے کہ شاعری ممنوع ہے۔ مسلم تہذیب میں محبت، محبوب، وصل، مے اور نغمہ، اسلام اور کفر، کعبے اور بت خانے کو علامتیں کہہ کر ان دونوں رویوں میں باہمی مطابقت پیدا کر لی گئی اور اس شاعر کو جو ذرا مؤثر طریقے سے یہ علامتیں استعمال کرے، اسے ایسا صوفی مان لیا گیا جو غایت انبساط (یا سُرور) اور وجد اور فنا فی اللہ کا راستہ دکھانا چاہتا ہے۔ اس طرح نہ صرف تقریبا ًہر بڑے صوفی سے شاعری کے دیوان منسوب کر دیے گئے ہیں بلکہ سارے شاعروں کو صوفیوں کا درجہ بھی دے دیا گیا (اور یہ تسلیم کر لیا گیا کہ) شاعری اگر وہ اچھی شاعری ہے تو کبھی ناپاک ہوہی نہیں سکتی بلکہ وہ تو اخلاقیات، مذہب اور روحانیت بن جاتی ہے۔

    تصوف اور شاعری کے اس میل سے تہذیبی اعتبار سے کوئی اور نتیجہ نکلا یا نہیں، اس سے آدمی میں وہ جرأت ضرور پیدا ہو گئی جس نے اسے خدا سے ہم کلام کر دیا (اس کی وجہ سے) خدا کو ایسا حاکم جج سمجھا جانے لگا جو معاف کر دینے کی نظر سے مسکراتے ہوئے اپنے سامنے پیش کیے ہوئے گنہگار کو یقیناً گلے لگا لیتا ہے۔ خدا کو ایسا دوست اور محبوب سمجھا جانے لگا جو اپنے عاشق کے گلے میں رسی ڈال کر جدھر چاہے لیے پھرتا ہے، خدا کو باوجود تمام حسن اور جمال مجسم سمجھے جانے کے اسے ایسا بھی سمجھا جانے لگا کہ وہ چاروں طرف خفگی کی نگاہ سے دیکھ بھی لیتا ہے ان لوگوں کو بسمل کرنے کے لیے، جو اسے سب سے زیادہ چاہتے ہیں، وہ ایسی ہستی ناظر اور قادر مطلق سمجھا جانے لگا جو اپنے کام سے تھک گیا ہو اور جسے آدمی یہ دعوت دے سکتا ہے کہ اے خدا تو میرے دل میں آرام کر لے۔

    ہم حیران ہوکر سوچنے لگتے ہیں کہ خدا نے شاعر کو بنایا یا شاعر (کے نغموں) نے خدا کو۔ ان دونوں میں ہر ایک تعبیر صحیح معلوم ہوتی ہے اور ان میں سے کسی سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ اہم بات تو اصل میں روحانی تجربے کی شدت ہے، اس لمحے کا وقوع میں آنا ہے جس میں آدمی کو واقعی یہ محسوس ہوتا ہے جیسے سارے کا سارا وجود اسی میں سما گیا ہے۔

    (مضمون تصوف ہندوستان میں از قلم محمد مجیب)

  • انسان کے باطن پر تصوف کا ساحرانہ اثر

    انسان کے باطن پر تصوف کا ساحرانہ اثر

    دوسری صدی ہجری تصوف کے لیے بے حد اہم رہی ہے۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب ممالکِ اسلامیہ میں انتشار پھیلا ہوا تھا۔ اندرونی اور بیرونی سازشیں اپنے عروج پر تھیں۔ مسلمان فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہو رہے تھے۔ نئے نئے مسائل سر اٹھا رہے تھے۔ ایسے میں عابدوں اورزاہدوں کا ایک بڑا طبقہ دین داری اور تحفظِ ایمان کے تعلق سے فکر مند تھا۔ حکومتِ وقت کے خلاف اٹھنے والی کئی آوازیں خاموش کی جا چکی تھیں۔ ایسے میں کوئی مسلح جدوجہد مشکل ہی سے کام یاب ہو سکتی تھی۔

    اب حالات اور حکمت کا تقاضہ تھا کہ تحفظ دین کے لیے کوئی پرامن، غیر مسلح تحریک شروع کی جائے، جس سے عام لوگوں کی اصلاح کی راہیں ہموار ہوں اور بندگانِ خدا کو خدا کی طرف موڑا جا سکے۔ انہی حالات میں عالمِ اسلام کے دو مشہور شہروں کوفہ اور بصرہ میں اللہ والوں نے عام لوگوں کی اصلاح کا کام شروع کیا۔ ان کا زور باطنی اصلاح پر زیادہ ہوتا تھا، کیونکہ اگر باطن کی اصلاح ہوگئی تو ظاہر کی خود بخود ہو جاتی ہے۔ اسی طریقے کو بعد میں تصوف کہا جانے لگا اور اس طریقے پر چلنے والوں کو صوفی کہا گیا۔ اس کی اشاعت ایران اور عراق سے نکل کر پورے عرب و عجم میں ہو گئی اور آج دنیا کا شاید ہی کوئی خطّہ ایسا ہو جہاں تصوف کے سلاسل نہ پائے جاتے ہوں۔

    ڈاکٹر عبیداللہ فراہی لکھتے ہیں، ’’تصوف میں ایک ساحرانہ جذب اور کشش ہے۔ اس نے ناآسودہ ذہنوں کو بالخصوص متاثر کیا ہے۔ دوسرے عرفانِ حقیقت کا شوق اور ایک نئی راہ چلنے کا جذبہ، جو کچھ کم لذّت آگیں نہیں ہوتا، بہتوں کو اس راہ پر کھینچ لایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اسے پذیرائی حاصل ہوتی رہی اور وارفتگانِ شوق برابر اس کی طرف لپکتے رہے۔ اگرچہ اس کا دائرہ محدود اور مخصوص تھا لیکن تاریخ کا کوئی بھی دور اس سے خالی نہیں رہا۔‘‘

    (غوث سیوانی کے مضمون "تصوف کیا ہے اور صوفی کون ہے؟” سے اقتباس)

  • انسانی ذہن پر پوشیدہ حقیقت کیسے منکشف ہوسکتی ہے؟

    انسانی ذہن پر پوشیدہ حقیقت کیسے منکشف ہوسکتی ہے؟

    انسان کے مراتبِ استعداد بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی استعداد درجۂ حیوانیت سے متجاوز نہیں ہو پاتی اور وہ صرف حیات کی اساسی ضروریات تک ہی محدود رہتے ہیں، یہ انسانی استعداد کا سب سے کم مرتبہ ہے۔

    ان سے اونچا طبقہ ان اصحاب کا ہے جو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی استعداد کے رجحانات اور تقاضوں کی مناسبت سے بعض علوم و فنون سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح ان کا شمار تعلیم یافتہ اور اربابِ فن میں ہوتا ہے، یہ استعداد کا درجہ اوسط ہے۔

    آخری اور سب سے بلند طبقہ وہ ہے جس پر جامع الکمالات، نابغہ روزگار اور فطین کے القاب صادق آتے ہیں۔

    قدرت نے انہیں استعداد کے اُس نقطۂ عروج پر فائز کیا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی استعداد کو بروئے کار لائیں اور ذرا توجہ سے کام لیں تو کائنات کا کوئی علم اور فن ان کے دائرہ گرفت سے باہر نہیں جانے پاتا بلکہ جس موضوع کو ان کے آئینۂ استعداد کے روبرو پیش کیا جاتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اس پر برجستہ محو گفتگو ہو جاتے ہیں بلکہ اس موضوع پر ایسے عالمانہ، محققانہ اور ناقابلِ تردید عقلی و نقلی دلائل کا ایک دریا بہاتے نظر آتے ہیں اور اپنے جوہرِ استعداد سے ایسی ایسی نادرہ زائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آیت "وحملھا الانسان” میں پوشیدہ حقیقتِ کبرٰی ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے۔

    ان کے زیرِ بحث موضوع کا جو صحیح تجزیہ اور حتمی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کے قبول کرنے میں سلیم الطبع، انصاف پسند، معقول اور ذی ہوش سامعین کبھی بھی تاخیر سے کام نہیں لیا کرتے۔

    مذکورہ بالا صفاتِ عالیہ، خصائص اور استعداد کے مالک غزالیؒ ، رازیؒ، رومیؒ اور امیر خسروؒ جیسے ذہن کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں اور ایسے حضرات صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس خطۂ ارض کو ان کی قیام گاہ کا شرف مل جاتا ہے، وہ قیامت تک نہ صرف یہ کہ اپنے اس اعزاز پر فخر کرتا ہے، بلکہ دنیا اس خطہ کے باشندوں کو بھی اس نابغۂ روزگار سے قربت کے باعث چشمِ احترام سے دیکھتی ہے۔

    تیری محبت کے سبب مجھے اس قوم کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور مروت سے پیش آنا پڑا جو میرے دشمن تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ایک آنکھ کی خاطر ہزار آنکھوں کی عزت کرنا پڑتی ہے۔

    سید نصیر الدین نصیر کی معطر فکر سے ایک ورق

  • عزیز میاں قوال: اولیا اور صوفیا کا ارادت مند، فلسفے کا شائق!

    عزیز میاں قوال: اولیا اور صوفیا کا ارادت مند، فلسفے کا شائق!

    نام اُن کا عبدالعزیز تھا، مگر دنیا بھر میں عزیز میاں مشہور ہیں۔ کہتے ہیں لفظ میاں ان کا تکیۂ کلام تھا جو بعد میں ان کے نام ہی کا حصّہ بن گیا۔

    یہ فنِ قوالی کے بے تاج بادشاہ کا تذکرہ ہے جن کی 19 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔ قوالی کے شیدا عزیز میاں کے دیوانے ہیں۔ اس کی وجہ ان کا منفرد انداز اور جذب و مستی کی وہ کیفیت ہے جس میں‌ ان کی برگزیدہ ہستیوں، اولیا و صوفیا سے عقیدت جھلکتی ہے۔

    عزیز میاں کی آواز نہایت بارعب اور انداز دل کش تھا۔ وہ اس فن کے شہنشاہ کہلائے. پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں عزیز میاں کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    https://youtu.be/3dGTTiBMQ-s

    آئیے ان زندگی کے اوراق الٹتے ہیں۔
    دہلی میں 17 اپریل 1942 کو آنکھ کھولی۔ انھوں نے عربی، فارسی اور اردو میں ایم اے کی ڈگریاں لیں۔ عزیز میاں مطالعہ کا شوق رکھتے تھے۔ فلسفہ اور صوفی ازم ان کا محبوب موضوع رہا۔ اس حوالے سے مباحث میں ان کی گفتگو سننے والے ان کی علمیت کا اعتراف ضرور کرتے۔

    قوالی کے فن اور اس کی باریکیوں کو انھوں‌ نے معروف استاد عبدالوحید سے سمجھا اور سیکھا۔ عزیز میاں شاعر بھی تھے۔ کئی قوالیاں ان کی تخیل کا نتیجہ اور عقیدت کا دل رُبا نقش ہیں۔ انھیں‌ حکومت نے تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا.

    یہ قوالیاں‌آپ کے حافظے میں ضرور محفوظ ہوں گی۔

    ‘‘اللہ ہی جانے کون بشر ہے، یا نبی یا نبیﷺ۔’’ آج بھی یہ قوالیاں نہایت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہیں۔

    اسی طرح ‘‘شرابی میں شرابی’’ بھی ان کی مشہور ترین قوالی ہے۔ انھوں نے کئی نعتیں اور اپنے دور کے مشہور شعرا کا کلام بھی مختلف انداز سے پیش کر کے اس فن میں اپنا کمال ثابت کیا۔

    https://youtu.be/rj3R_h0tKDs

    ‘‘ نہ کلیم کا تصور، نہ خیالِ طورِ سینا، میری آرزو محمدﷺ، میری جستجو مدینہ’’ جیسے نعتیہ اشعار بھی عزیز میاں کی آواز میں بہت مشہور ہوئے۔

    ان کی زندگی کا سفر 6 دسمبر کو تمام ہوا۔ یہ سن 2000 کی بات ہے جب مختصر علالت کے بعد عزیز میاں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 58 برس تھی۔ وصیت کے مطابق عزیز میاں کو ملتان میں مرشد کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

  • جب لوگوں کا نظریہ ہی نہیں ہوگا تو وہ لیڈر کیسے بن سکیں گے: وزیر اعظم عمران خان

    جب لوگوں کا نظریہ ہی نہیں ہوگا تو وہ لیڈر کیسے بن سکیں گے: وزیر اعظم عمران خان

    سوہاوہ: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ جب لوگوں کا نظریہ ہی نہیں ہوگا تو وہ لیڈر کیسے بن سکتے ہیں، دنیا کی جدید ٹیکنالوجیز کی طرف قدم بڑھائیں گے، روحانیات کو سپر سائنس بنائیں گے، عبد القادر جیلانی کے نام پر یونی ورسٹی بنا رہے ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم نے سوہاوہ میں القادر یونی ورسٹی کے سنگِ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، انھوں نے کہا کہ القادر یونی ورسٹی تاریخ سے آگاہ کرے گی، یونی ورسٹی میں 35 فی صد بچوں کو مفت اسکالر شپ ملے گی، مستقبل کے لیڈر القادر یونی ورسٹی سے سامنے آئیں گے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ وہ القادر یونی ورسٹی جیسے ادارے پر 23 سال سے سوچ رہے تھے، جس طرح نمل، شوکت خانم بنایا اسی طرح القادر یونی ورسٹی بنائیں گے، ذہین اور اچھے نوجوانوں کو اکٹھا کر کے القادر یونی ورسٹی میں پڑھائیں گے۔

    انھوں نے خطاب میں کہا کہ ہم روحانیت کے سپہ سالار عبد القادر جیلانی کے نام پر یونی ورسٹی بنا رہے ہیں، روحانیات کو سپر سائنس بنائیں گے، القادر یونی ورسٹی میں صوفی ازم پر بھی ریسرچ کی جائے گی۔

    [bs-quote quote=”مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ایک وجہ نظریے کا پیچھے چلے جانا بھی ہے، مشرقی پاکستان کے لوگوں کو انصاف نہیں ملا ان میں احساس محرومی آ گئی۔” style=”style-8″ align=”center” author_name=”وزیر اعظم عمران خان”][/bs-quote]

    وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ سوہاوہ کو ترقی کا پہاڑ کہا جاتا ہے، یہاں ایک بابا نورالدین تھے جنھوں نے 70 سال چلّہ بھی کاٹا، نبی ﷺ نے شروع ہی سے لوگوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی، ہمیں نوجوانوں کو لیڈر بنانا ہے، ریاست مدینہ سے آگاہی دینی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ جو شخص تعلیم سے ذہنی شعور حاصل نہ کرے وہ آگے نہیں بڑھتا، یہ وہ ریاست نہیں جس کا وعدہ پاکستان بنانے والوں نے کیا تھا، فاٹا کے حالات خراب ہیں، ان کی مدد کرنی ہے، بلوچستان میں 70 فی صد لوگ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

    عمران خان نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سب حکمران عوام کے خیر خواہ بن گئے لیکن عوام پر توجہ دینے کی بہ جائے بیرون ملک جائیدادیں بنائیں، نظریہ ختم ہو جاتا ہے تو قوم بھی ختم ہو جاتی ہے، علامہ اقبال اور قائد اعظم کی سوچ کو ملک کی قیادت نے دفن کر دیا ہے۔

    وزیر اعظم نے مزید کہا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ایک وجہ نظریے کا پیچھے چلے جانا بھی ہے، ریاست عوام کی ضرورت پوری کرتی ہے اور انصاف فراہم کرتی ہے، مشرقی پاکستان کے لوگوں کو انصاف نہیں ملا ان میں احساس محرومی آ گئی، ملک ٹوٹا تو غلطی ہماری تھی بھارت نے فائدہ اٹھایا۔

  • لعل شہباز قلندر کے عرس پر 25 لاکھ سے زائد زائرین کی آمد کی توقع ہے: چیف سیکریٹری سندھ

    لعل شہباز قلندر کے عرس پر 25 لاکھ سے زائد زائرین کی آمد کی توقع ہے: چیف سیکریٹری سندھ

    کراچی: چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ نے کہا ہے کہ لعل شہباز قلندر کے 767 ویں سالانہ عرس کے موقعے پر 25 لاکھ سے زائد زائرین کی آمد کی توقع ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لعل شہباز قلندر کے عرس کے انتظامات سے متعلق چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ کی زیر صدارت اہم اجلاس منعقدہ ہوا جس میں سیکریٹری اوقاف محمد نواز شیخ، کمشنر حیدر آباد، ڈی آئی جی نعیم شیخ نے بریفنگ دی۔

    اجلاس میں کمشنر حیدرآباد نے بتایا کہ انڈس ہائی وے پر حادثات روکنے اور زائرین کی سہولت اور رہنمائی کے لیے موٹر وے پولیس کے 300 اہل کار، پولیس موبائلیں اور ایمبولینسز موجود ہوں گے۔

    انھوں نے بتایا کہ سیہون شہر میں مختلف مقامات پر 40 ہیٹ اسٹروک کیمپ اور مختلف کیمپ اسپتال قائم کیے گئے ہیں، 20 ہزار زائرین کی سہولت کے لیے سیہون میں ٹینٹ سٹی بھی قائم کیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کرنے کا فیصلہ

    چیف سیکریٹری سندھ سید ممتاز علی شاہ نے کہا کہ اس مرتبہ لعل شہباز قلندر کے عرس کے موقع پر 25 لاکھ سے زائد زائرین کی آمد متوقع ہے، عرس پر سیکورٹی اوّلین ترجیح ہے۔

    اجلاس کو بتایا گیا کہ درگاہ کے آس پاس تمام تجاوزات کو ہٹا دیا گیا ہے، رینجرز، پولیس اور نیوی کی ٹیمیں دریائے سندھ پر موجود ہوں گی۔

    ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ زائرین کو واک تھرو گیٹ سے داخل کر کے کلیئر قرار دے کر مزار کی طرف روانہ کیا جائے گا۔

  • حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کرنے کا فیصلہ

    حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کرنے کا فیصلہ

    حیدر آباد: کمشنر حیدر آباد محمد عباس بلوچ نے کہا ہے کہ موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لوگوں کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے کے لیے مختلف مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے۔

    سیکورٹی پلان کے تحت 8 زون میں سیکورٹی ہوگی جس میں 4 ہزار 500 پولیس اہل کار اور 300 سے زائد رینجرز کے جوان سیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے، قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہل کار بھی سیکورٹی کے فرائض ادا کریں گے۔

    گرمی کی شدت میں اضافے کے پیش نظر سہون شہر میں ٹھنڈے پانی کی سبیلیں بھی قائم کی جائیں گی۔ کمشنر حیدر آباد نے نے کوتاہی برتنے پر محکمہ اوقاف کے افسران پر سخت برہمی کا اظہار بھی کیا۔

    خیال رہے کہ عظیم صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کا 767 واں سالانہ سہ روزہ عرس 18،19 اور 20 شعبان المعظم کو سہون شریف میں منعقد ہوگا۔

    یہ بھی پڑھیں:  حضرت لعل شہباز قلندر محبت کا یپغام لیے سندھ آئے، مختصر حالات زندگی

    عرس کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے شہباز میلہ کمیٹی کا اہم اجلاس کمشنر حیدرآباد محمد عباس بلوچ کی زیر صدارت سہون شریف کے سید عبداللہ شاہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ہال میں منعقد ہوا۔

    اجلاس میں ڈی آئی جی حیدر آباد نعیم شیخ ، چیئرمین میلہ کمیٹی ڈی سی جامشورو کیپٹن ریٹائرڈ فرید الدین مصطفیٰ، ایس ایس پی جامشورو سمیت رینجرز، پولیس، اسپیشل برانچ و ضلعی انتظامیہ کے افسران نے شرکت کی۔

    حضرت لعل شہباز قلندر کا سالانہ عرس 18 شعبان سے شروع ہوگا جو 20 شعبان تک جاری رہے گا، عرس کی تقریبات میں ہر سال لاکھوں عقیدت مند شریک ہوتے ہیں۔