Tag: صوفی بزرگ

  • کبیر: ہندو انھیں اپنا بھگت اور مسلمان صوفی بزرگ مانتے ہیں!

    کبیر: ہندو انھیں اپنا بھگت اور مسلمان صوفی بزرگ مانتے ہیں!

    بھگت کبیر ہندوستان کے مشہور صوفی بزرگ اور شاعر تھے۔ مسلمان اور ہندو دونوں ان کو روحانی پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔ وہ اس دور میں فرسودہ روایات، ذات پات کی وجہ سے تفریق اور چھوت چھات میں پڑے لوگوں کو پیار محبت سے رہنے کا درس دیتے رہے اور توہم پرست معاشرے کی اصلاح کرتے ہوئے عمر گزار دی۔

    ہرش کے بعد ساڑھے پانچ سو سال تک ہندوستان سیاسی انتشار کا شکار رہا۔ سلطنت دہلی کے قیام نے اس انتشار کو ختم کر کے شمالی ہند کو ایک سیاسی وحدت کی شکل دی۔ اس نئی سلطنت کے بانی اپنے ساتھ ایک فکر انگیز اور حیات آفرین مذہبی اور معاشرتی نظام لائے تھے۔ اس لئے ہندوستان کی تہذیب کا جزو نہ بن سکے۔ اہلِ ہند انتشار اور پرگندگی کے باوجود پرانی شان دار تہذیبی روایات رکھتے تھے۔

    سیاسی شکست کی وجہ سے یہ روایات انہیں جان سے زیادہ عزیز ہوگئی تھیں اور بہر قیمت ان کی حفاظت کرنا چاہتے تھے۔ ان حالات میں نہ تو ہندو مسلمانوں میں جذب ہو سکتے تھے اور نہ مسلمان ہندوؤں میں بلکہ فضا اس حد تک ناسازگار تھی کہ ابتداء میں وہ ایک دوسرے کو متاثر بھی نہ کر سکے۔ اس بیگانگی اور دوئی کو دور کرنے کا سہرا ان صوفیوں کے سر ہے جنہوں نے مذہب کی ظاہری صورت اور طریقِ تجارت کے اختلاف کو نظر انداز کر کے دونوں مذہبوں کے باطنی شعور کو اپنایا اور رواداری، خدمتِ خلق، انسان دوستی اور صلح کل کے مسلک کو عام کر کے مذہبی اور تہذیبی مصالحت کی خوشگوار فضا پیدا کی۔

    بھگتی تحریک نے اپنے مخصوص رنگ میں ان روایات کو اور آگے بڑھایا، اور سماجی اور مذہبی زندگی کی ہر سطح پر اتحاد اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی وہ مبارک کوشش کی جس سے ہندوستانی تہذیب کو گنگا جمنی روایات کے نشوونما میں بڑی مدد ملی۔

    جنوبی ہند میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ان کے مذہبی عقائد کی اشاعت جن میں وحدانیت، اخوت اور مساوات کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اور بعض دوسرے اسباب کی وجہ سے مذہبی بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی اور بھگتی تحریک کا آغاز ہوا۔ گیارھویں صدی میں سری رنگم کی خاک اٹھنے سے والے عظیم مفکر اور مصلح رامانجا اچاریہ نے بھگتی کے عقیدے کو منظم اور مربوط فلسفے کی شکل دی۔ انھیں کے سلسلہ کے پانچویں بزرگ راما نند ہیں جو چودھویں صدی کے آخر اور پندرھویں صدی کی ابتداء میں گزرے ہیں۔ شمالی ہند میں بھگتی کے عقیدے کو انھیں کی وجہ سے فروغ ہوا۔ انھوں نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ ذات پات کے نظام کی مخالفت کی اور تمام ذاتوں فرقوں اور مذہبوں کو اشتراک و اتحاد کی دعوت دی۔ ان کے ممتاز چیلوں میں برہمنوں کے علاوہ ایک جاٹ، ایک چمار، ایک نائی اور ایک مسلمان جولاہا بھی تھا۔ یہی مسلمان جولاہا کبیر ہے۔

    بھگتی تحریک کے رہنماؤں میں جو شہرت، مقبولیت اور ہر دلعزیزی کبیر کے حصے میں آئی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ ان کے دوہے آج بھی ہندوستان بھر میں گھر گھر پڑھے جاتے ہیں اور ہندو مسلمان، عورت مرد، بچے، بوڑھے، امیر غریب درویش اور دنیا دار سب ہی انھیں اپنی اپنی بول چال میں بے تکلفی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جو کبیر ایسے جانے پہچانے ہیں ان کی زندگی کے حالات کہانیوں، اور روایتوں کے روپ بہروپ میں یوں کھو گئے ہیں کہ ان کے بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ کہنا نہایت مشکل ہے۔ یہاں تک کہ ان کی پیدائش اور موت کی تاریخوں کا بھی صحیح صحیح پتہ نہیں، تاہم عام طور پر یہی مانا جاتا ہے کہ وہ ۱۳۹۸ء میں پیدا ہوئے۔ ایک سو بائیس سال کی عمر پائی اور ۱۵۱۸ء میں انتقال کیا۔

    کبیر کی پیدائش کے متعلق مشہور روایت یہ ہے کہ بنارس کا ایک مسلمان جولاہا نبیرو اپنی بیوی نیما (نعیمہ) کے ساتھ تالاب پر سے گزر رہا تھا۔ تالاب کے کنارے اسے ایک نومولود بچہ پڑا ملا، اس کے اپنے اولاد نہ تھی، اس لئے بچہ کو اٹھا لایا اور پرورش کرنے لگا۔ قاضی نے کبیر نام رکھا اور اسی نام سے یہ بچہ مشہور ہوا۔

    بعض کہتے ہیں کہ سوامی رامانند نے ان جانے میں ایک بیوہ برہمنی کو دعا دی کہ تجھے بیٹا ہو۔ دعا قبول ہوئی، بیوہ بدنامی کے ڈر سے بچہ کو تالاب کے کنارے پھینک آئی جہاں سے نبیرو اسے اپنے گھر اٹھا لیا۔

    جوالاہے نے اس لاوارث بچے کو بڑے پیار سے پالا پوسا، لیکن اس کے گھر تعلیم و تربیت کیا ہو سکتی تھی۔ کبیر ان پڑھ ہی رہے، باپ نے اپنے فن میں طاق کر دیا تھا۔ کبیر بھی کپڑا بنتے اور بازار میں بیچ آتے۔ رامانند کے مرید ہونے کے بعد بھی انھوں نے اپنے پیشے کو نہیں چھوڑا اور دین اور دنیا کو ایک ساتھ نباہتے رہے۔

    کہتے ہیں لڑکپن ہی سے وہ حق و صداقت کی طرف مائل ہو گئے تھے۔ ذات بات کا مد بھید، مذہب کا اختلاف، رنگ ونسل کا امتیاز، رسمی عبادت کے طور طریق، رسم و رواج کے بندھن، روایات اور توہمات کی غلامی، انھیں بالکل پسند نہ تھی۔ انہیں یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا تھا کہ خدا کے نام پر لوگ جھگڑتے اور مذہب کی دہائی دے کر مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ انسان، انسان سے محبت نہیں کرتا بلکہ اس کو ملچھ اور شودر کا نام دے کر حقیر اور ذلیل کرتا ہے۔ کوئی اینٹ پر پتھر کو پوجتا ہے اور کوئی اپنے پندار کے آگے سر جھکا دیتا ہے۔ خدا اور اس کے بندوں کی کسی کو پروا نہیں، عشق اور خدمت خلق کے جذبے سے سب کے دل محروم ہیں۔

    انھیں خیالات کو وہ شعر کا جامہ پہن کر لوگوں کو سناتے اور راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن لوگ ان کا مذاق اڑاتے اور ان کی بات پر کان نہ دھرتے۔ وہ کہتے تھے کہ بے پیرے کی بات کی کیا اہمیت۔ کبیر کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور وہ پیر کی تلاش میں نکل پڑے۔ بہت سے سنتوں اور اہلُ اللہ سے فیض اٹھایا لیکن جس چیز کی انہیں تلاش تھی وہ کہیں نہ ملی۔ بالآخر رامانند جی کے آستانے پر حاضری دی اور من کی مراد مل گئی۔ مسلمان کبیر پنتھیوں کا خیال ہے کہ وہ مانک پور کے شیخ تقی سہروردی کے مرید تھے۔ واقعہ کچھ ہی ہو۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبیر کے ہاں ویدانتیوں اور صوفیوں کے عقاید شیر و شکر ہو گئے تھے۔ انھوں نے اسلام سے بھی اکتساب کیا تھا اور ہندومت سے بھی فیض اٹھایا تھا۔ سنت سادھوؤں کے ساتھ بھی دشت و بیابان کی خاک چھانی تھی۔ اور اولیاء اللہ کے حلقے میں بھی بیٹھے تھے۔ رام نام کی جپ بھی کی تھی اور اسمِ اعظم کا ورد بھی کیا تھا۔ اور اس نتیجے پر پہونچے تھے کہ ان میں سے کسی کے درمیان تضاد نہیں بلکہ وہ ایک ہی تصویر کے دو رخ اور ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلک کے اختلاف کی اہمیت ان کی نظر میں قابلِ اعتنا نہ رہی بلکہ مقصد اور منزل کو وہ سب کچھ جاننے لگے تھے۔

    ان کی بیوی کا نام نیرو بتایا جاتا ہے جس کی پیدائش اور مذہب کی کہانی بھی کبیر کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ کہتے ہیں کہ تیس سال کی عمر میں کبیر گھومتے گھامتے گنگا کے کنارے ایک بن کھنڈی سادھو کی کٹیا پر پہونچے، سادھو مر چکا تھا، اور کٹیا میں ایک نوجوان لڑکی اکیلی رہتی تھی۔ اس لڑکی نے بتایا کہ ایک دن سادھو گنگا ہی میں اشنان کر رہا تھا۔ ایک ٹوکری بہتے بہتے اس کے بدن سے آن لگی۔ سادھو نے اسے کھول کر دیکھا تو اس میں ایک بچہ کپڑوں میں لپٹا ہوا تھا۔ اس نے گھر لا کر بچے کی پرورش کی اور اس کا نام لوئی رکھا۔

    کبیر لوئی کو اپنے ساتھ لے آئے۔ اس کے بطن سے کمال اور کمالی پیدا ہوئے۔ کمال سے کبیر خوش نہ تھے اس لئے کہ وہ دنیا دار تھا۔

    مرنے سے پہلے کبیر بنارس سے مگہر چلے گئے تھے۔ عوام کا عقیدہ ہے کہ جو کاشی میں مرتا ہے اس کی نجات ہو جاتی ہے، لیکن مگہر میں مرنے والے کا دوسرا جنم گدھے کا ہوتا ہے۔ کبیر توہمات کے خلاف تھے۔ اس لئے انھوں نے بنارس کے بجائے مگہر میں مرنے کو ترجیح دی۔ وہ خود کہتے ہیں: کاشی ہو یا اوسر مگہر مجھے پروا نہیں۔ میرے دل میں رام بسا ہوا ہے۔

    ان کی موت کے واقعہ کے گرد بھی روایتوں کا حسین ہالہ ہے۔ کہتے ہیں کہ کبیر مرے ہیں تو ان کے ہندو اور مسلمان پیروؤں میں جھگڑا ہو گیا, ہندو لاش کو جلاتا اور مسلمان دفن کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں کسی کی آواز آئی۔ چادر کے نیچے تو دیکھو، وہاں کیا دھرا ہے، لاش پر سے چادر بنائی گئی تو بس پھولوں کا ایک ڈھیر تھا۔ آدھے پھول مسلمانوں نے مگہر میں دفن کیے اور آدھے پھول ہندو بنارس لے آئے اور انھیں جلایا۔ راکھ جہاں دفن کی گئی تھی۔ وہاں ایک مٹھ بنایا گیا ہے جو کبیر چورے کے نام سے مشہور ہے۔

    کبیر نے اپنی تعلیم کو منظم شکل دی اور نہ کوئی علیحدہ فرقہ بنایا۔ اپنے خیالات اور جذبات کو وہ گیتوں اور دوہوں کے ذریعہ عوام تک پہونچاتے تھے۔ جو سینہ یہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں۔ بعد میں اس کلام کے کئی مجموعے مرتب اور شائع ہوئے بنے ان کی تعداد (۲۱) اور بعضے (۸۲) بتلاتے ہیں۔

    (مصنف حسینی شاہد کی کتاب امر جیون سے منتخب کردہ جو ہندوستان کے مشاہیر کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا اوّلین ایڈیشن 1964 میں شایع ہوا تھا)

  • یکم ستمبر کو عام تعطیل کا اعلان

    یکم ستمبر کو عام تعطیل کا اعلان

    کراچی: سندھ کی نگراں حکومت نے یکم ستمبر کو سندھ بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کی نگراں حکومت نے معروف صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے عرس کے موقع پر 1 ستمبر کو صوبے بھر میں عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے نوٹی فکیشن جاری کردیا ہے۔

    ہر سال کی طرح اس سال بھی صفر کی 14 تاریخ کو معروف صوفی بزرگ شاہ عبدالطیف بھٹائی کا عرس انتہائی عقیدت و احترام سے منایا جائے گا۔

    اس ضمن میں سندھ حکومت نے صوبے میں تعطیل کا اعلان کردیا ہے اور عام تعطیل کا نوٹی فکیشن جاری کردیا ہے۔

    شاہ جو رسالوکے ذریعے پوری دنیا کو امن کا پیغام دینے والے صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے 1689 میں ضلع مٹیاری کے تعلقہ ہالا میں سید حبیب شاہ کے گھر میں آنکھ کھولی۔

    آپ کے بزرگوں کا تعلق ہرات افغانستان سے تھا، آپ تصوف کی جانب مائل ہوئے، تلاش حق کے لیے کئی طویل سفرکیے جن کے تجربات کی جھلک آپ کی شاعری میں ملتی ہے۔

    آپ کے صوفیانہ کلام میں امن اور محبت کا درس، دنیا سے بے رغبتی اور عشق حقیقی کی تڑپ صاف نظرآتی ہے۔

    ہر سال ماہ صفر کی 14 تاریخ کو بھٹ شاہ میں آپ کا تین روزہ عرس منایاجاتا ہے جس کے دوران مختلف پروگرام اور سیمینارز کا انعقاد کیاجاتاہے۔

    اس موقع پر میلہ بھی لگتا ہے اور تینوں دن مزار پر محفل سماع جاری رہتی ہے، جس میں شاہ عبداللطیف بھٹائی سے منسوب ساز طنبورا بجایا جاتا ہے۔

  • صوفی شاعر سچل سرمست ؒ  کا تذکرہ

    صوفی شاعر سچل سرمست ؒ کا تذکرہ

    وادیٔ سندھ میں جن بزرگانِ دین کی تعلیمات کے ماننے والوں اور صوفیا کے ارادت مندوں کی بڑی تعداد بستی ہے، ان میں سچل سرمست ؒ کا نام بھی نمایاں ہے۔ انھیں شاعرِ ہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔

    ان کے جدِ امجد میاں صاحب ڈنو فاروقی کی سندھ کی قدیم ریاست خیر پور میں اپنی خانقاہ سے رشد و ہدایت عام کرنے میں‌ مصروف تھے۔ اسی زمانے میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور بعد میں سندھ پر یورش کر دی۔ اس دورِ پرآشوب میں 1739ء میں ریاست خیر پور کے علاقے رانی پور کے قریب کے ایک چھوٹے سے گاؤں درازا شریف کے ایک مذہبی گھرانے میں سچل سرمست کی پیدائش ہوئی جن کا اصل نام عبد الوہاب تھا، جو بعد میں وہ اپنی صاف گوئی اور روشن کردار کی وجہ سے سچل یعنی سچ بولنے والے مشہور ہوگئے۔ انھیں تاریخ میں سندھی زبان کے مشہور صوفی شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ سچل سرمست ؒ کے دادا میاں صاحب ڈنو عرف محمد حافظ بھی اپنے زمانے کے معروف بزرگ اور شاعر تھے۔

    سچل سرمست کے والد کے بعد ان کی پرورش چچا کے زیرِ سایہ ہوئی۔ سچل سرمست نے عربی، فارسی اور تصوف کے اسرارو رموز سے آگاہی حاصل کی اور بہت چھوٹی عمر میں قرآن بھی حفظ کرلیا۔ ابھی سچل سرمست کی عمر چھے سال ہی تھی کہ اپنے زمانے کے بزرگ اور صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ خیر پور تشریف لائے۔ کہتے ہیں کہ یہاں انھوں نے سچل سرمست کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ لڑکا معرفت کی منازل طے کرے گا۔سچل سرمست اس کے بعد ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل میں مشغول ہوگئے۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے ساتھ فقہ و تفسیر کی کتابیں پڑھیں اور پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے شعر بھی کہنے لگے۔

    سچل سرمست اکثر تنہائی میں غور و فکر میں ڈوبے رہتے۔ جوانی ہی سے عبادت گزار اور روزے، نماز کے پابند تھے اور درود و وظائف میں وقت گزارتے تھے۔ ان کا کلام سات زبانوں عربی ، سندھی، سرائیکی، پنجابی، بلوچی، فارسی اور اردو میں ملتا ہے جس کی بنا پر وہ ہفت زبان شاعر بھی کہلائے۔ انھوں نے اپنے صوفیانہ کلام سے فقہی اختلافات دور کرنے اور درباری عالموں کو جواب دینے کی کوشش کی جو اس دور میں تفرقہ بازی کو ہوا دے رہے تھے۔ اسی وجہ سے انھیں لوگوں نے پسند کیا اور ان کی شاعری بہت جلد مقبولیت حاصل کرگئی۔ ان کے وحدت الوجود کے فلسفے نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا تھا اور وہ روحانی بزرگوں کی صف میں شامل ہوگئے۔

    سچل سرمست نے 11 اپریل 1827 عیسوی یعنی 14 رمضان 1242ھ میں وفات پائی اور اپنی آبائی خانقاہ درازا شریف میں مدفون ہوئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر نوے سال تھی۔ حضرت سچل سرمستؒ نے جس بی بی سے نکاح کیا تھا، وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ رہ سکیں جب کہ خدا نے اولاد بھی نہیں دی تھی۔

    مرزا علی قلی بیگ حضرت سچل سرمست کی شخصیت کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ’’وہ سفید ریش مبارک رکھتے تھے، جوتا کبھی پہنتے، کبھی ننگے پاؤں ہی گھر سے نکل جاتے، ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی، سواری استعمال نہیں کرتے تھے۔ زمین پر یا لکڑی کے صندل پر بیٹھتے اور سو جاتے، چارپائی استعمال نہیں کرتے تھے، اکثر طنبورہ بھی ساتھ رکھتے تھے۔‘‘

    انھوں نے سندھ کے کلہوڑا اور تالپور حکم رانوں‌ کا دور دیکھا اور تمام عمر اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں میں پیار محبّت، بھائی چارہ اور امن کا پیغام عام کرتے رہے۔

  • سینیگال اور صوفی ازم

    سینیگال اور صوفی ازم

    افریقہ کے مغربی اور انتہائی گرم ترین علاقے میں واقع جمہوریہ سینیگال کی اکثریت اسلام کی پیروکار ہے۔ اس ملک کے دارُالحکومت کا نام ”ڈاکار“ ہے جو افریقہ کی مشہور بندر گاہوں میں سے ایک ہے۔

    کہتے ہیں ڈاکار ایک مسلمان بزرگ کا نام تھا اور بعد میں ان کے عقیدت مندوں نے یہ شہر بسایا اور اسے بزرگ سے موسوم کیا۔ سینیگال کے شمال اور شمال مشرق میں دریائے سینیگال بہتا ہے اور اس کے پڑوسی ممالک میں موریطانیہ، مالی، گنی بساؤ اور گنی شامل ہیں۔ آج ہر سال کی طرح سینیگال میں عوام قومی دن منارہے ہیں۔ یہ ایک میدانی خطّہ ہے جس کی دفتری زبان فرانسیسی ہے۔ آبادی ایک کروڑ 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ ملک 1960ء کو آزاد ہوا اور بعد میں الگ ریاست کے طور پر شناخت حاصل کی۔

    مونگ پھلی یہاں کی ایسی پیداوار ہے جس کے باعث سینیگال دنیا بھر میں پہچانا جاتا ہے۔ یہاں کی آب و ہوا اور موسم اس فصل کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ مونگ پھلی کی پیداوار اور اس کی تجارت کے دور میں یہاں ہر طرف خوش حالی نظر آتی ہے اور دریاؤں پر بنے بحری اڈوں کی رونقیں عروج پر ہوتی ہیں۔

    سینیگال میں نویں صدی میں ”تکرر“ نامی خاندان برسرِ اقتدار تھا جب کہ تیرھویں اور چودھویں صدی میں یہ ملک”جولوف“ نامی ریاست کا حصّہ رہا۔ پندرھویں صدی کے وسط میں یہاں‌ پرتگالیوں نے قدم رکھا اور بعد میں فرانسیسیوں، ڈچ اور برطانوی حکم رانوں نے بھی قسمت آزمائی کی، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ 1677ء میں فرانس یہاں بلا شرکتِ غیرے قابض ہو چکا تھا۔ یوں افریقہ سے انسانوں کو غلام بنا کر یورپ بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا۔

    انیسویں صدی میں مسلمانوں نے یہاں ایک زبرست تحریک چلائی اور اپنی جان و مال کی قربانیاں دیں۔ اسی تحریک کے نتیجے میں جنوری 1959 میں سوڈان اور سینیگال نے مل کر مالی فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور فرانس سے آزادی حاصل کی۔ 4 اپریل 1960ء کو ایک معاہدے کے تحت فرانسیسیوں کا سینیگال سے انخلا مکمل ہوا جس کے بعد اسی تاریخ کو سینیگال کا یومِ آزادی منایا جاتا ہے، جب کہ چند ماہ بعد ہی متحد ممالک سینیگال اور سوڈان بھی الگ ہو گئے تھے۔ سینیگال میں پہلا دستور 1963ء میں تیار کیا گیا تھا جس میں متعدد ترامیم کی جا چکی ہیں۔

    گیارھویں صدی میں اس خطّے میں‌ اسلام متعارف ہوا تھا جسے یہاں کے لوگوں نے تیزی سے قبول کیا اور آج یہ دنیا میں‌ مسلمان اکثریتی ملک کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے، اور جہاں لوگ کسی نہ کسی روحانی سلسلے کے پیروکار ہیں اور صوفیائے کرام کے بڑے عقیدت مند ہیں۔

  • مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مولانا روم کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    برصغیر پاک و ہند میں حضرت جلال الدین رومی کو صرف شاعر نہیں بلکہ عظیم صوفی اور بزرگ کی حیثیت سے نہایت عقیدت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    دنیا انھیں تیرھویں صدی عیسوی کا ایک بڑا صوفی اور مفکر مانتی ہے اور جلال الدین رومی کو بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    مولانا رومی کی شہرۂ آفاق تصنیف ان کی ایک مثنوی ہے جسے نہایت دیگر کتب کے مقابلے میں نہایت معتبر اور قابلِ احترام سمجھا جاتا ہے اور برصغیر پاک و ہند کے علاوہ ترکی، ایران کے باشندے رومی کی اس تصنیف سے خاص لگاؤ اور گہری عقیدت رکھتے ہیں۔

    مولانا جلال الدین رومی کو صرف اس خطے میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں عظیم صوفی بزرگ مانا جاتا ہے اور ان مثنوی کو شاہ کار کا درجہ حاصل ہے۔ ان کی رباعیات، حکایات اور دیگر کلام آج بھی نہایت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔

    مولانا رومی مذہب اور فقہ کے بڑے عالم اور حضرت شمس تبریز کے ارادت مند تھے۔ مسلمان دانش ور، درگاہوں اور خانقاہوں سے وابستہ شخصیات ان کے افکار کو روحانیت اور دانائی کا راستہ سمجھتے اور اسے اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔

    مولانا کی مثنوی اور ان کی شاعری کا دنیا کی بیش تر زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ مختلف تاریخی کتب اور تذکروں کے مطابق ان کا اصل نام محمد ابن محمد ابن حسین حسینی خطیبی بکری بلخی تھا۔

    آپ کا لقب جلال الدین اور شہرت مولانا روم سے ہوئی۔ کہتے ہیں ان کا وطن بلخ تھا جہاں 1207 عیسوی میں آپ نے آنکھ کھولی۔ تعلیم اور تدریس کی غرض سے مختلف ملکوں کا سفر کیا اور 66 سال کی عمر میں 1273 عیسوی میں دنیا سے رخصت ہوئے اور ترکی میں دفن کیے گئے۔

  • مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    مظہرؔ جانِ جاناں اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے اردو زبان اور ادب کے ارتقائی دور میں غزل کہی اور اسے خاص طور پر ابہام سے دور رکھتے ہوئے معاصر شعرا کے برعکس اپنے کلام میں شستہ زبان برتی۔

    وہ اپنے دور کے اہم شعرا میں شمار کیے گئے۔ مختلف ادبی تذکروں میں مظہرؔ جانِ جاناں کی پیدائش کا سال 1699 درج ہے۔

    ان کے والد اورنگریب عالم گیر کے دربار میں اہم منصب پر فائز تھے۔ کہتے ہیں بادشاہ اورنگزیب نے ان کا نام جانِ جان رکھا تھا، لیکن مشہور جانَ جاناں کے نام سے ہوئے۔ ان کی عرفیت شمسُ الدین تھی اور شاعری شروع کی تو مظہرؔ تخلص اختیار کیا۔

    شاعری کے ساتھ علمِ حدیث، فقہ اور تاریخ میں بھی کمال رکھتے تھے۔ انھیں ایک صوفی اور روحانی بزرگ کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    اولیائے کرام کے بڑے محب اور ارادت مند رہے اور خود بھی رشد و ہدایت کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سیکڑوں لوگ خصوصاً روہیلے آپ کے مرید تھے۔

    1780 میں مظہرؔ جانِ جاناں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ فارسی اور اردو دونوں زبانوں کے شاعر تھے، لیکن ان کا بہت کم کلام منظرِ عام پر آسکا۔

    مظہرؔ جانِ جاناں کی ایک غزل آپ کے حسنِ ذوق کی نذر ہے۔

    چلی اب گُل کے ہاتھوں سے لٹا  کر  کارواں اپنا
    نہ چھوڑا ہائے بلبل نے چمن میں کچھ نشاں اپنا

    یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
    اگر   ہوتا    چمن اپنا،    گُل اپنا، باغباں اپنا

    الم سے  یاں تلک روئیں کہ آخر  ہو  گئیں رُسوا
    ڈوبایا  ہائے آنکھوں نے  مژہ کا خانداں اپنا

    رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
    مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بدگماں اپنا

    مرا جی جلتا ہے اس بلبلِ بیکس کی غربت پر
    کہ جن نے آسرے پر گُل کے چھوڑا آشیاں اپنا

    جو تُو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
    غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا

  • انسانی ذہن پر پوشیدہ حقیقت کیسے منکشف ہوسکتی ہے؟

    انسانی ذہن پر پوشیدہ حقیقت کیسے منکشف ہوسکتی ہے؟

    انسان کے مراتبِ استعداد بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی استعداد درجۂ حیوانیت سے متجاوز نہیں ہو پاتی اور وہ صرف حیات کی اساسی ضروریات تک ہی محدود رہتے ہیں، یہ انسانی استعداد کا سب سے کم مرتبہ ہے۔

    ان سے اونچا طبقہ ان اصحاب کا ہے جو ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے ساتھ ساتھ اپنی استعداد کے رجحانات اور تقاضوں کی مناسبت سے بعض علوم و فنون سیکھ لیتے ہیں۔ اس طرح ان کا شمار تعلیم یافتہ اور اربابِ فن میں ہوتا ہے، یہ استعداد کا درجہ اوسط ہے۔

    آخری اور سب سے بلند طبقہ وہ ہے جس پر جامع الکمالات، نابغہ روزگار اور فطین کے القاب صادق آتے ہیں۔

    قدرت نے انہیں استعداد کے اُس نقطۂ عروج پر فائز کیا ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی استعداد کو بروئے کار لائیں اور ذرا توجہ سے کام لیں تو کائنات کا کوئی علم اور فن ان کے دائرہ گرفت سے باہر نہیں جانے پاتا بلکہ جس موضوع کو ان کے آئینۂ استعداد کے روبرو پیش کیا جاتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اس پر برجستہ محو گفتگو ہو جاتے ہیں بلکہ اس موضوع پر ایسے عالمانہ، محققانہ اور ناقابلِ تردید عقلی و نقلی دلائل کا ایک دریا بہاتے نظر آتے ہیں اور اپنے جوہرِ استعداد سے ایسی ایسی نادرہ زائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آیت "وحملھا الانسان” میں پوشیدہ حقیقتِ کبرٰی ذہن پر منکشف ہو جاتی ہے۔

    ان کے زیرِ بحث موضوع کا جو صحیح تجزیہ اور حتمی نتیجہ برآمد ہوتا ہے اس کے قبول کرنے میں سلیم الطبع، انصاف پسند، معقول اور ذی ہوش سامعین کبھی بھی تاخیر سے کام نہیں لیا کرتے۔

    مذکورہ بالا صفاتِ عالیہ، خصائص اور استعداد کے مالک غزالیؒ ، رازیؒ، رومیؒ اور امیر خسروؒ جیسے ذہن کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں اور ایسے حضرات صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور جس خطۂ ارض کو ان کی قیام گاہ کا شرف مل جاتا ہے، وہ قیامت تک نہ صرف یہ کہ اپنے اس اعزاز پر فخر کرتا ہے، بلکہ دنیا اس خطہ کے باشندوں کو بھی اس نابغۂ روزگار سے قربت کے باعث چشمِ احترام سے دیکھتی ہے۔

    تیری محبت کے سبب مجھے اس قوم کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور مروت سے پیش آنا پڑا جو میرے دشمن تھے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ایک آنکھ کی خاطر ہزار آنکھوں کی عزت کرنا پڑتی ہے۔

    سید نصیر الدین نصیر کی معطر فکر سے ایک ورق

  • حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کرنے کا فیصلہ

    حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کرنے کا فیصلہ

    حیدر آباد: کمشنر حیدر آباد محمد عباس بلوچ نے کہا ہے کہ موجودہ صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق حضرت لعل شہباز قلندر کے عرس کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، لوگوں کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرنے کے لیے مختلف مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے۔

    سیکورٹی پلان کے تحت 8 زون میں سیکورٹی ہوگی جس میں 4 ہزار 500 پولیس اہل کار اور 300 سے زائد رینجرز کے جوان سیکورٹی کے فرائض انجام دیں گے، قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہل کار بھی سیکورٹی کے فرائض ادا کریں گے۔

    گرمی کی شدت میں اضافے کے پیش نظر سہون شہر میں ٹھنڈے پانی کی سبیلیں بھی قائم کی جائیں گی۔ کمشنر حیدر آباد نے نے کوتاہی برتنے پر محکمہ اوقاف کے افسران پر سخت برہمی کا اظہار بھی کیا۔

    خیال رہے کہ عظیم صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کا 767 واں سالانہ سہ روزہ عرس 18،19 اور 20 شعبان المعظم کو سہون شریف میں منعقد ہوگا۔

    یہ بھی پڑھیں:  حضرت لعل شہباز قلندر محبت کا یپغام لیے سندھ آئے، مختصر حالات زندگی

    عرس کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے شہباز میلہ کمیٹی کا اہم اجلاس کمشنر حیدرآباد محمد عباس بلوچ کی زیر صدارت سہون شریف کے سید عبداللہ شاہ انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ہال میں منعقد ہوا۔

    اجلاس میں ڈی آئی جی حیدر آباد نعیم شیخ ، چیئرمین میلہ کمیٹی ڈی سی جامشورو کیپٹن ریٹائرڈ فرید الدین مصطفیٰ، ایس ایس پی جامشورو سمیت رینجرز، پولیس، اسپیشل برانچ و ضلعی انتظامیہ کے افسران نے شرکت کی۔

    حضرت لعل شہباز قلندر کا سالانہ عرس 18 شعبان سے شروع ہوگا جو 20 شعبان تک جاری رہے گا، عرس کی تقریبات میں ہر سال لاکھوں عقیدت مند شریک ہوتے ہیں۔

  • صوفی بزرگ مادھو لعل حسینؒ کا عرس، زائرین کا دھمال کے ذریعے عقیدت کا اظہار

    صوفی بزرگ مادھو لعل حسینؒ کا عرس، زائرین کا دھمال کے ذریعے عقیدت کا اظہار

    لاہور: صوفی بزرگ مادھو لعل حسینؒ کے عرس مبارک کے تیسرے روز بھی زائرین نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور دھمال کے ذریعے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق صوفیانہ کلام کے ذریعے اسلامی تعلیمات اور احترام انسانیت کا درس دینے والے صوفی بزرگ مادھول لال حسین کے عرس مبارک کے تیسرے روز بھی زائرین کی بڑی تعداد عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کرنے کے لیے پہنچی۔

    رات گئے تک لوگ دھمال ڈالتے رہے، عقیدت مندوں کا کہنا تھا کہ یہاں انکی منتیں مرادیں پوری ہوتی ہیں۔

    مادھول لعل حسین کے مزار کے احاطے میں صدیوں پرانے مچ کو جلایا، عرس میں پنجاب بھر سے زائرین شریک ہوئے، مادل لعل حسین کے عرس کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

    عرس کا آخری روز خواتین کے لیے مختص ہے، گذشتہ تین روز تک عقیدت مندوں کی بڑی تعداد نے مزار پر حاضری دی اور دعائیں کیں۔

    حضرت مادھو لعل حسین شاہ کا مزار شالیمار باغ کے قریب باغبانپورہ میں واقع ہے اور صدر ایوب کے دور سے قبل عرس کی تقریبات شالیمار باغ میں ہی ادا کی جاتی تھی لیکن صدر ایوب نے شالیمار باغ میں کسی بھی قسم کی تقریبات پر پابندی کے بعد سے عرس مزار کے احاطے میں منایا جاتا ہے۔

  • معروف صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کے 1288 ویں عرس کا آغاز ہوگیا

    معروف صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کے 1288 ویں عرس کا آغاز ہوگیا

    کراچی: معروف صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازی کے 1288 ویں عرس کی تقریبات کا آغاز ہوگیا ہے.

    تفصیلات کے مطابق عرس کا آغاز عبداللہ شاہ غازی کے مزار کوغسل دے کر کیا گیا. سیکریٹری مذہبی امور نے عبداللہ شاہ غازی کےعر س کا افتتاح کیا.

    عرس کی تقریبات میں ملک بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے، عبداللہ شاہ غازی کے عرس کے موقع پرسیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔

    حضرت عبداللہ شاہ غازی کاعرس 3روز تک جاری رہے گا، عرس کی اختتامی تقریب میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ شرکت کریں گے.

    تین روزہ تقریبات کےدوران مزار کے احاطے میں عقدیت مندوں اورزائرین کی جانب سے نذر و نیاز اورلنگر کی تقسیم کا سلسلہ جاری رہے گا۔

    عقیدت مندوں کے مطابق عبد اللہ شاہ غازی سعودی عرب کے شہر مدینہ میں سن 720ء میں پیدا ہوئے، وہ سن 760ء میں سندھ تشریف لائے۔

    ان کا مزار سمندر کنارے ایک ٹیلا نما پہاڑ پر تعمیر کیا گیا، جو اب کراچی کے علاقے کلفٹن کا حصہ ہے.

    عقیدت مند وں کا یہ ماننا ہے کہ  عبداللہ شاہ غازی کے ہوتے کوئی طوفان کراچی کی سمت نہیں آسکتا۔