Tag: صوفی تبسم

  • کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس

    کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس

    اردو ادب میں صوفی غلام مصطفی تبسم ادیب اور شاعر کی حیثیت سے خاص پہچان رکھتے ہیں۔ وہ اردو، پنجابی اور فارسی کے شاعر تھے اور اصنافِ نظم و نثر میں اپنی تخلیقات کی بدولت ممتاز ہوئے۔ صوفی صاحب ہمہ جہت شخصیت تھے اور تدریس کے ساتھ ان کے ادبی مشاغل میں ڈرامہ نگاری، بچّوں کے لیے نظمیں لکھنا، تراجم کرنا بھی شامل رہا۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کو تعلیمی ادارے میں اردو کے ایک بڑے مزاح نگار اور پروفیسر، احمد شاہ المعروف پطرس بخاری کا ساتھ بھی نصیب ہوا۔ ان شخصیات نے تخلیقی کاموں اور ادبی سرگرمیوں کے ساتھ تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی اپنے فرائض اور ذمہ داریاں خلوصِ‌ نیّت سے انجام دیں۔ یہ پارہ اسی کی ایک جھلک دکھاتا ہے جو صوفی صاحب کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    ۱۹۴۸ء کی بات ہے، شام کا وقت تھا۔ پروفیسر بخاری اور میں بیٹھے کالج کی باتیں کررہے تھے۔ میں نے کالج کی تدریسی اور ادبی سرگرمیوں کے سلسلے میں کچھ تجویزیں پیش کیں۔

    ہنس کر بولے،’’صوفی! یہ تو شعر ہوئے۔ تم نے سنائے اور میں نے سن کر داد دی۔‘‘ میں چپ ہوگیا۔

    کچھ وقفے کے بعد بولے، ’’سنو!‘‘ تم استاد ہو، اور میں کالج کا پرنسپل۔ ہمارا کام اس درس گاہ کے نظم و نسق کو عملی طور پر آگے بڑھانا ہے۔ میرے نزدیک وہ تجاوز جو عملی صورت میں نہیں آتی، خواہ وہ آسمان ہی سے کیوں نہ نازل ہوئی ہو، محض ذہنی عیاشی ہے اور میں ذہنی عیاشیوں میں شعروں اور دوستانہ خوش گپیوں کو ہمیشہ ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ میں نے مرزا بیدل کی ایک غزل جو اسی روز پڑھی تھی سنائی شروع کر دی۔

    رات کچھ بے چینی سی رہی۔ ایک مدر سے کالج میں اردو کی تدریس شبانہ جاری کرنے کا ارادہ تھا۔ صبح ہوتے ہی میں نے ’’ادیب فاضل کلاس‘‘ کی تدریس کا ایک مکمل ’’پیش نامہ‘‘ مرتب کرلیا، اور اس کی تین نقلیں بھی تیار کردیں۔ شام کو یہ مسل بغل میں دبائے بخاری صاحب کے مکان پر پہنچا۔

    یانہوں نے پوچھا، ’’ضلع کچہری سے آئے ہو؟‘‘

    میں نے کہا، ’’گھر سے آرہا ہوں۔‘‘

    ’’تو یہ پلندہ کیسا ہے؟‘‘

    ’’میرے ذاتی کاغذات ہیں۔‘‘

    ’’ٹھیک، بیٹھو‘‘

    ان دنوں پرنسپل کے مکان میں سرکاری کاغذات کا داخلہ ممنوع تھا۔ ایک آدھ ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد میں جھجکتے جھجکتے اپنا تجویز کلام سنانا شروع کیا۔

    میں نے کہا ’’عام شائقین کے لئے اردو کی اعلیٰ تدریس کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں۔ ارادہ ہے کالج میں ادیب فاضل کی ایک کلاس شام کو جاری کی جائے۔ اس کلاس کے جملہ نظم و نسق، ترتیب و تدوین اور درس کا کفیل کالج ہی ہو۔‘‘

    حسب معمول کہنے لگے، ’’یہ طرحیہ اشعار ہیں؟‘‘

    میں نے کہ، ’’جی ہاں۔ مطلع سنا چکا ہوں، پوری غزل یہ رہی۔‘‘

    یہ کہہ کر میں نے کاغذات کا پلندہ ان کے ہاتھ میں دے دیا۔ وہ اسے پڑھتے جاتے اور ان کا چہرہ خوشی اور مسرت سے تمتماجاتا تھا۔ درمیان میں کہیں کہیں وہ کچھ سوال بھی پوچھتے جاتے۔ میں جواب دیتا اور کہتا، ’’آپ سارا مسودہ پڑھ لیں آپ کو معلوم ہوجائے گا۔‘‘

    کاغذات ختم ہوئے تو بولے، ’’ہوں… گویا میں بھی پڑھاؤں گا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’آپ فقط پرنسپل ہی نہیں، استاد بھی ہیں۔‘‘

    ’’کیوں نہیں۔‘‘

    اسں کے بعد انہوں نے ایک سگرٹ سلگایا، جس کا دھواں تھوڑے ہی وقفے میں برآمدے کے ہر گوشے میں لہرارہا تھا۔

    شام کا کھانا کھانے کے بعد وہ موٹر کار میں بیٹھ کر شہر میں گھومنے لگے۔ جہاں جاتے اسی غزل کی تلاوت ہوتی اور پڑھنے کے ساتھ ہی اس طرح داد بھی دیتے کہ دوسروں کے منہ سے بے ساختہ واہ نکل جاتی۔ اہلِ فکر حضرات اور مشفق احباب سب نے اسے سراہا۔ اس تبلیغی اعلان اور نشری پرچار میں آدھی رات گزر گئی۔

    صبح کو یہ بات لاہور کی گلی گلی کوچے میں گشت لگارہی تھی۔ ایک ہفتہ کے اندر تمام ضروری مراحل طے ہوگئے۔ محکمانہ اجازت، اشتہار و اعلان اور درخواستوں کی طلبی، امیدواروں کی پیشی، داخلہ اور پڑھائی۔

    پروفیسر بخاری اپنے روزمرّہ مشاغل میں خواہ وہ فرائضِ منصبی سے تعلق رکھتے ہوں یا نجی ہوں ایسے ہی مستعدی سے کام لیتے تھے۔ زندگی میں ان کی کام یابی کا سب سے بڑا راز یہی ہے۔

  • "ٹوٹ بٹوٹ” کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کی برسی

    "ٹوٹ بٹوٹ” کے خالق صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کی برسی

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم کا نام اردو ادب میں ان کی تخلیقات کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ وہ ادیب، شاعر اور نقّاد تھے جن کی زندگی کا سفر 7 فروری 1978ء کو ہمیشہ کے لیے تمام ہوگیا تھا۔ انھوں نے اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں‌ میں شاعری کی اور بچّوں کے لیے خوب صورت نظمیں لکھیں جو ان کی وجہِ‌ شہرت ہیں۔

    صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم 4 اگست 1899ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر اور لاہور سے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد انھوں نے تدریس کا پیشہ اپنایا اور لاہور کے تعلیمی اداروں سے وابستہ رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر، لیل و نہار کے مدیر اور کئی دیگر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوگئے۔

    وہ ادیب اور شاعر ہی نہیں استاد، شارح، مترجم اور نقّاد کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے اور ان اصناف میں ان کی علمی و ادبی کاوشوں نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا۔ ان کا ایک نمایاں اور اہم حوالہ بچّوں کا ادب ہے جسے انھوں نے اپنی تخلیقات کے علاوہ ایسے مضامین و غیر ملکی ادب سے وہ تراجم دیے جو بچّوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنے۔ خاص طور پر بچّوں کے لیے تخلیق کی گئی ان کی نظمیں کھیل کھیل اور دل چسپ و پُر لطف انداز میں قوم کے معماروں‌ کو علم اور عمل کی طرف راغب کرنے کا سبب بنیں۔ آج بھی ان کی نظمیں نصاب کا حصّہ ہیں اور گھروں اور اسکولوں میں بچّوں‌ کو یاد کروائی جاتی ہیں۔

    صوفی تبسّم کی وجہِ‌ شہرت ان کا وہ کردار ہے جو گھر گھر میں پہچانا جاتا ہے۔ ایک نسل تھی جو اس کردار کے ساتھ گویا کھیل کود اور تعلیم و تربیت کے عمل سے گزری اور جوان ہوئی۔ یہ کردار ٹوٹ بٹوٹ ہے۔ صوفی تبّسم نے اپنی شاعری میں ٹوٹ بٹوٹ کو اس خوب صورتی سے پیش کیا کہ اسے بچّوں نے اپنا ساتھی اور دوست سمجھ لیا۔ ان کی یہ نظمیں نہایت ذوق و شوق سے پڑھی گئیں اور آج بھی پڑھی جاتی ہیں۔ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ بچّوں کی تربیت اور ان کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے مشق اور دماغ سوزی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے پہیلیاں، کہاوتیں، شگوفے تخلیق کیے۔ مختلف موضوعات پر ان کی متعدد کتب شایع ہوئیں جنھیں‌ بہت ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اردو کے اس ممتاز ادیب اور شاعر کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا جب کہ حکومتِ ایران نے انھیں نشانِ سپاس عطا کیا تھا۔

    صوفی غلام مصطفٰی تبسّم لاہور کے میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    ‘بارش کے قطروں کو کون گِن سکتا ہے’

    میری عمر چودہ برس۔ صوفی صاحب نئے نئے ریٹائر ہو کر اس علاقے میں بسے تھے۔ ہم کرائے کے مکان میں نئے نئے منتقل ہوئے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے والے مکان کی ڈیوڑھی پر پان والا بیٹھتا تھا۔ ہر دو گھنٹے بعد ایک خوش لباس شخص آتا، پان بنواتا، کھاتا، ٹہلتا ٹہلتا چلا جاتا۔ کبھی کُرتا شلوار اور کبھی کرتا اور چوڑی کنی کی خوب صورت دھوتی پہنے۔ کبھی پینٹ بشرٹ اور کبھی قمیص اور پینٹ پہنے۔

    ہماری امّاں کہ جن کا پان دان ہمیشہ شاداب رہتا، اس شخص سے بہت نالاں تھیں۔ اگر پان کھانے کا اتنا ہی شوق ہے تو یہ شخص گھر میں پان دان کیوں نہیں رکھتا! امّاں کی بھی ہر دفعہ نظر صوفی صاحب پر ہی پڑتی اور وہ بھی پان وہیں کھڑے ہو کر کھاتے۔

    غائبانہ لڑائی کا یہ سلسلہ امّاں کی طرف سے باقاعدہ شروع ہو چکا تھا۔ اس پر سونے پر سہاگا ہو گیا۔

    ایک دِن صوفی صاحب سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گئے۔ ہاتھ میں کٹورا تھا۔ پوچھا کیا کیا پکا ہے؟ امّاں نے کہا، ”ثابت مسور۔“

    بولے، ”اس پیالے میں ڈال دو۔“ امّاں نے ڈال دی۔ وہ راستے میں چاٹتے ہوئے کھاتے چلے۔ امّاں کو سڑک پر یُوں چاٹنے والی بات اور بھی بُری لگی۔

    مگر صوفی صاحب کو سیڑھیوں تک کون لایا؟ یہ میں تھی…. میری صوفی صاحب سے ملاقات اسلامیہ کالج کے شمعِ تاثیر کے مشاعرے میں ہوئی (یادش بخیر، کہ اب تو اس نام کا مشاعرہ ہوتا ہی نہیں، بلکہ اسلامیہ کالج میں سرے سے کوئی مشاعرہ ہی نہیں ہوتا)۔ میں نے جب ان کے بے تکلّف پان کھانے کی شکایت امّاں کی طرف سے کی تو انہوں نے فوراً کہا کہ تمہارے گھر کھا لیا کروں گا، اور یوں میرے اور اپنے خاندان کے درمیان راہ و رسم کی پہلی سیڑھی خود صوفی صاحب نے چڑھی۔

    پہل کرنا صوفی صاحب کی عادت تھی۔ صلح میں، دعوت میں، بے تکلّفی میں، ادا دِکھانے میں، ناراضگی میں، شعر سنانے، سمجھانے اور بتانے میں۔ آپ ہی روٹھ کر آپ ہی مان جانا، ان کی ادا تھی۔

    نازک بدنی ان پر ختم تھی۔ صبح کی سیر ان کی جان تھی۔ دہی کھانا ان کی ضرورت تھی۔ صاف دسترخوان ان کی بھوک تھی، مگر جسم و جان کی تازگی صرف اور صرف شعر میں تلاش کرتے تھے۔

    حقّے کی گُڑگڑاہٹ، کلچے کی مہک، کشمیری چائے کی چُسکی، ٹوپی اُتار کر سر کھجانا اور پھر قلم پکڑ کر کاغذ پر اتنا خوب صورت لکھنا کہ کتابت کرانے کو جی نہ چاہے۔ سید بابر علی نے ان کی خوش تحریری کو دیکھ کر ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ایک ہزار ایک اشعار شائع کیے تھے۔

    امرتسر ان کے حافظے میں زندہ تھا، ذیلدار روڈ تہذیبی لاہور کا آئینہ۔ گورنمنٹ کالج ان کے فخر کا سرنوشت اور سمن آباد اپنے گھر میں ملنے والے سکون سے لے کر اس بے سکونی کا آئینہ تھا کہ جہاں گھروں کی دیواروں پر یہ لکھنا عام ہو گیا تھا ”فحاشی بند کرو۔“

    جب عمل مفقود اور نعرے حاوی ہو جائیں، وہ کھوکھلا پن صوفی صاحب کی زندگی کا حصّہ نہ تھا۔ وہ ایسے ظاہری پن سے نالاں ہو گئے تھے۔ وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ شعری سفر میں بھی بہت سے پڑاؤ ان کے دھیان میں تھے، مگر جسمانی سفر میں وہ احساس کے دوغلے پن سے نالاں تھے۔

    ہم جھوٹے ہیں۔ ہم مسلسل دوغلے پن کے عمل کو مسکراہٹوں کی کریز میں لپٹائے ہوئے رکھتے ہیں۔ وہ سچّے تھے، رہائی پا گئے۔

    ایک مجموعہ بعنوان ”انجمن“ اور دوسری وہ انجمن کہ جس کے دھوئیں کی شکل میں ہم لوگ ہیں، چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ مجموعہ ”انجمن“ 1954ء ہی سے مرتب کرنا شروع کیا تھا۔ اور میری شادی کے بعد شائع ہوا۔ اس لیے میں 1954ء سے لے کر اب تک صوفی صاحب کی رفاقت کی داستان کے صرف چند لمحوں میں آپ کو شریک بنا سکی ہوں۔

    بھلا انسان بارش کے قطروں کو کبھی گِن سکا ہے؟ صوفی صاحب بھی بارش تھے: علم کی، محبّت کی اور شفقت کی بارش۔ میں کیسے حساب دوں اُن لمحوں کا جو مجھ پر ساون کی جھڑی کی طرح مسلسل 25 برس کرم فرما رہے۔

    (نام وَر شاعر، مدیر اور مترجم صوفی تبسّم کے بارے میں شاعرہ اور ادیب کشور ناہید کی ایک تحریر)