Tag: صوفی شاعر

  • پُرنم الہٰ آبادی: بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ

    پُرنم الہٰ آبادی: بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ

    بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
    کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو، در پہ آیا ہوں بن کر سوالی…..

    یہ نعتیہ کلام آپ نے ضرور سنا ہو گا جسے غلام فرید صابری قوال نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    اس خوب صورت قوالی(نعتیہ کلام) کے‌ خالق پُرنم الہٰ آبادی ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    کئی مشہور قوالیوں، نعتیہ اور صوفیانہ کلام اور گیتوں کے اس خالق کا اصل نام محمد موسیٰ ہاشم تھا۔

    1940 میں الہٰ آباد، ہندوستان میں پیدا ہونے والے اس خوب صورت شاعر نے اپنے دور کے مشہور اور استاد شاعر قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کی۔ پُرنم الہٰ آبادی قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے۔

    انھوں نے شاعری میں صوفیانہ اسلوب اپنایا اور ایسا کلام تخلیق کیا جو لازوال ہے۔ کہتے ہیں وہ ہندوستان فلم انڈسٹری میں گیت نگار کی حیثیت سے جگہ بنا رہے تھے، لیکن پھر سب کچھ چھوڑ کر عشقِ رسول ﷺ کا یہ راستہ چنا اور بے پناہ شہرت اور عزت پائی۔

    سادہ اور عام فہم ہونے کی وجہ سے پُرنم الٰہ آبادی کا کلام عوامی سطح پر بے حد مقبول ہوا اور اسے گانے والوں کو بھی خوب شہرت ملی۔ وہ ایک سادہ اور گوشہ نشیں شاعر تھے۔

    29 جون 2009 کو انھوں نے اس عارضی ٹھکانے سے ہمیشہ کے لیے رخصت باندھ لی۔

  • یونس ایمرے: صوفی شاعر اور ایک درویش

    یونس ایمرے: صوفی شاعر اور ایک درویش

    یونس ایمرے کو ترکی، وسطی ایشیا کے ممالک میں ایک صوفی شاعر اور درویش مانا جاتا ہے۔

    دنیا بھر میں روحانی شخصیت کے طور پر مشہور یونس ایمرے ترکی کے ایک گاؤں میں 1238 میں پیدا ہوئے۔

    کہتے ہیں وہ نہایت پُراثر لب و لہجے کے مالک اور شیریں گفتار تھے۔ 1320 عیسوی میں جب ایمرے دنیا سے رخصت ہوئے تو اناطولیہ اور اس سے باہر بھی ہر طرف ان کا چرچا تھا اور سات صدیاں بیت جانے کے بعد آج بھی وہ ترکوں کی محبوب شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ترکی باشندوں میں یونس ایمرے کا کلام آج بھی مقبول ہے اور ان کا نام نہایت عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے۔

    ان کی مقبولیت اور پسندیدگی کا یہ عالم ہے کہ ان کا کلام، رباعیاں، گیت اور مختلف تخلیقات نہ صرف ترکی بلکہ وسط ایشیائی ممالک میں بھی زبان زدِ عام ہیں۔

    ان کی قابلیت، ذہانت، روشن فکر اور اجلے کردار کی وجہ سے انھیں اناطولیہ کے ایک شہر میں قاضی کے عہدے پر فائز کیا گیا جہاں عوام میں ان کی بہت عزت اور قدر تھی۔ اسی شہر کے ایک صوفی بزرگ سے ملاقاتوں کے بعد یونس ایمرے اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ان بزرگ سے مذہب کی تعلیم اور روحانیت کے اسرار و رموز سیکھنے لگے۔

    اس عرصے میں یونس ایمرے نے فارسی اور عربی کے ساتھ مقامی زبان اور دیہی علاقوں کی بولی میں صوفیانہ کلام اور گیت لکھے جن کو عوام نے سندِ قبولیت بخشا، یونس ایمرے کو صوفی اور درویش کہا جانے لگا۔

    ترکی میں کرنسی پر تصاویر کے علاوہ کئی اہم مقامات اور عمارتوں میں ان کے مجسمے نصب ہیں۔